نایاب تحفہ

2.4K 139 5
                                    


ایک دم سے اسے خود پر بوجھ محسوس ہوا ۔آہستہ آہستہ اس کا ذہن بیدار ہونے لگا ۔۔۔۔اس نے ہلنے کی کوشش کی مگر اٹھ نا پایا۔۔اسے اپنا آپ جکڑا ہوا محسوس ہوا۔۔۔اس نےخود کو آزاد کرنے کی کوشش کی مگر بےسود۔پھر آہستہ آہستہ اسے سب یاد آنے لگا ۔۔۔۔۔رات کا منظر اس کے ذہن کے پردوں پر لہرایا۔۔۔۔۔
وہ کافی پینے کے ساتھ ساتھ ضروری کام نپٹا کر سوتے ہوے دانیال کے ساتھ سونے کے لیے لیٹا تھا تو اس کا مطلب ۔۔!!!
ہٹو پیچھے ۔۔۔!!
آریان نے پوری طرح خود پر لیتے دانیال کو ہٹانا چاہا ۔مگر وہ تو شاید نشہ کر کے سویا تھا ۔
آریان نے جھنجھلا کر ادھر ادھر دیکھا ۔رات کا تیسرا پہر تھا ۔
"کیا مصیبت ہے یار تجھے ہٹ پیچھے "
ایک دفع پھر اس نے دانیال کو ہٹانا چاہا مگر بے سود ۔۔۔۔۔
پہلے تو صرف اس کا بازو اور ایک ٹانگ ہی آریان پر تھی اب آریان اسے ہوا میں دوسری ٹانگ بلند کرتے ہوے بھی دیکھ چکا تھا ۔
نہیں ۔۔۔!!
اس سے پہلے آریان اسے روک پاتا دانیال اس پر حاوی ہو چکا تھا ۔
"اس نے مجھے اپنا سرہانا سمجھ لیا ہے "
آریان بڑبڑآیا ۔
اسے سانس لینے میں دشواری ہونے لگی ۔جب کہ کمرے میں گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ دانیال کے خراٹے بھی گونج رہے تھے ۔
"دفع ہو کیا مصیبت ہے "
آریان نے اسے زور سے دھکا دیا تو وہ دھڑام سے زمین پر گرا ۔
ککک ۔۔کیا ہوا ؟ کیا ہوا ؟
دانیال بوکھلا کر اٹھ بیٹھا ۔
"ابھی تو کچھ نہیں ہوا تھا مگر تو جس طرح مجھ پر چڑھائی کر رہا تھا نا ؟؟ اگر کوئی آجاتا تو میری جنس مشکوک ہو جانی تھی ۔"
آریان کمبل ہٹاتے ہوے غصے سے بولا ۔
"ہیں ؟؟؟؟؟ میں تو سو رہا تھا "
دانیال حیرانی سے بولا ۔
"نہیں تم سو نہیں رہے تھے تم مجھے فلک سمجھ رہے تھے "
آریان اسے چھیڑتے ہوے بولا ۔
"کمینے ۔۔۔!!!رک ذرا "
دانیال اٹھتے ہوے بولا ۔
"چھوڑ مجھے گدھے  میں فلک  نہیں ہوں "
آریان خود کو چھڑواتے ہوے بولا ۔
"مر ادھر میں صوفے پر ہی سو جاؤں گا "
دانیال اسے بیڈ پر دھکا دیتا اپنا سرہانا سمبھالتا صوفے پر چلا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"پاں۔ں۔ں۔ں۔ں۔ں ۔۔۔ٹی ۔ٹی ۔ٹی ٹی ۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!"
الارم کی پھاڑ کھانے والی آواز پر آریان نے آنکھیں کھولتے ہوے گھڑی کی طرف دیکھا ۔دور کالونی کی مسجد میں امام صاحب اذان دے رہے تھے ۔
دانیال آریان سے بدلہ لینے کی خاطر اس کے سائیڈ ٹیبل پہ رکھے موبائل میں الارم سیٹ کرتا خود کانوں میں روئی ڈالے بےخبر سو رہا تھا ۔
آریان نے الارم کی چنگھاڑتی آواز کو بند کیا ۔فجر کا وقت ہو چکا تھا سو آریان نے بھی نماز پڑھنے کی خاطر بستر چھوڑ دیا ۔
یہ بدھو نا بھی رکھتا تو بھی میں نے جاگنا تو اسی ٹائم پر تھا ۔
آریان نے مسکراتے ہوے سوچا ۔
دور امام صاحب اب کہہ رہے تھے ۔
"اصلاةُ خیرُ من النوم •"
نماز نیند سے بہتر ہے ۔
مگر ہم اس لمحے بھی بےخبر ہوتے ہیں ۔رب کا پیغام نہیں سن رہے ہوتے ۔موذن بلا رہا ہوتا ہے ۔۔۔
"آو فلاح کی طرف "
"آو کامیابی کی طرف "
مگر ہم ھر شے سے بے خبر خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں رب کی یاد سے بے خبر ۔۔۔۔۔۔رب کی عطا سے بےخبر ۔۔۔۔ہم انسان بہت ناشکرے ہیں ۔کسی بھی حال میں خوش نہیں رہ سکتے ۔کچھ نا کچھ پانے کی مزید چاہ رہ ہی جاتی ہے ۔
رب کے سامنے ہاتھ پھیلاو گے اس کا شکر ادا کرو گے تو ہی یہ بے چینی اور بے سکونی ختم ہو گی ۔
قرآن میں  ارشاد ربانی تعالیٰ ہے :--
"بیشک اللّه کے ذکر میں ہی دلوں کا اطمینان ہے "
(رعد :28)
۔۔۔ جب انسان سو رہا ہوتا ہے  تو شیطان تین لگامیں ایسی باندھتا ہے جو انسان کو بستر سے اٹھنے نہیں دیتیں ۔
~ پہلی لگام تب کھلتی ہے جب انسان بیدار ہونے کی دعا پڑھ لیتا ہے ۔
~ دوسری لگام وضو کرتے وقت کھل جاتی ہے ۔
~ اور تیسری اور آخری لگام نماز پڑھتے وقت کھلتی ہے ۔
دانی ۔۔۔۔!!! اٹھو ۔۔۔
آریان وضو کر چکا تھا اب دانیال کو اٹھانے کا مقصد اسے بھی اپنے ساتھ مسجد لے جانا تھا ۔
کیا ہے ؟؟؟
جب آریان نے دانیال کے چہرے پر بوتل سے پانی کا چھڑکاؤ کیا تو وہ ایک دم ہی اٹھ بیٹھا ۔
"نماز پڑھنے چلو میرے ساتھ وضو کرو جلدی "
آریان بال سنوارتے ہوے بولا ۔
"ار یو کریزی ؟؟"
دانیال آنکھیں ملتے ہوے اٹھ بیٹھا ۔
"جو پوچھنا ہو راستے میں پوچھ لینا فلحال جلدی اٹھ کر اپنا حلیہ درست کرو اور وضو کرو کیوں کہ میں تمہے بخشنے والا نہیں ہوں آج۔۔!!"
آریان کا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ کسی بھی  قسم کی رعایت نہیں دینے والا ۔
"جاؤں گا تو ایسے ہی جاؤں گا ورنہ نہیں ۔۔۔"
دانیال ڈھٹائی سے بولا ۔
اس وقت وہ  بنیان ٹائپ شرٹ اور شارٹز پہنے ہوے تھا ۔
آریان نے ایک نظر اس کے حلیے کو دیکھا اور دوسری نظر گھڑی پر ڈالی اگر وہ اسے سمجھانے بیٹھتا تو دیر ہو جانی تھی ۔آریان نے یہی غنیمت جانی کہ کم از کم وہ جا تو رہا ہے ۔
"ٹھیک ہے وضو کر کے جلدی نیچے آجاؤ "
اسے باتھروم میں جاتا دیکھ کر آریان نیچے کی طرف بڑھ گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آریان اتنے سارے جوتے پڑے ہیں یہاں اگر میرا جوتا گم ہو گیا ؟؟"
مسجد کے باہر جوتے پڑے دیکھ کر وہ پریشانی سے بولا ۔
"چپ کر کے چلو "
آریان اسے گھورتا ہوا بولا ۔
دانیال جمائی روکتا بےزار سا مسجد میں داخل ہوا ۔صبح کا وقت تھا دل فریب اور من موہ لینے والی ہوائیں چل رہی تھیں ،چرند پرند رب  کی تسبیح کرنے میں مشغول تھے ۔
دانیال نے ادھر ادھر دیکھا ۔ایک باریش سے بزرگ کے ساتھ کھڑا آریان اسے جلد ہی نظر آگیا ۔بزرگ کے چہرے کی نورانیت انھے منفرد بنا رہی تھی ۔
دانیال چلتا ہوا ان تک  آیا ۔ارد گرد صفیں درست کرتے لوگوں نے ناگواری سے اسے دیکھا مگر وہ کندھے اچکاتا اگے بڑھ گیا ۔
السلام و علیکم ۔۔!!!
دانیال نے ادب سے سلام کیا ۔
"وعلیکم السلام بچے کیا حال ہیں آپ کے ؟"
وہ اس قدر محبت بھرے لہجے میں  بولے کہ دانیال کو ماننا ہی پڑا کہ جس قدر خوبصورت ان کا چہرہ ہے اس سے کہیں زیادہ خوش اخلاق وہ خود ہیں ۔
"میں ٹھیک آپ سنائیں ؟"
یہ شاید ان کی محبت کا ہی اعجاز تھا کہ دانیال بھی آرام سے بلا جھجھک ان سے بات کر رہا تھا ۔
"الحمدلللہ بیٹا ۔۔شکر اس رب کا وہ جس حال میں رکھے ۔"
وہ شفیق مسکراہٹ لیے بولے ۔
"بیٹا آپ پہلی بار آے ہو تو رعایت ہے ورنہ نماز پڑھتے ہوے لباس پورا پہنتے ہیں ۔جیسے آریان بیٹے نے پہنا ہے "
ان کی بات پر آریان مسکرا دیا ۔اسی لیے تو اس نے دانیال کو سمجھایا نہیں تھا جانتا تھا کہ مولوی صاحب اسے خود سمجھا دیں گے ۔
"میں نے کون سا دوبارہ انا ہے "
دانیال نے دل میں سوچا اور سر ہلا دیا ۔
"شاباش بہت اچھے بیٹا "
مگر یہ اس کی خام خیالی تھی ۔جو بہت جلد اس کی سوچ کو غلط ثابت کرنے  والی تھی ۔ھر انسان کی زندگی میں ایک لمحہ ایسا ضرور آتا ہے کہ وہ اس لمحے کو بار بار جینا چاہتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نماز کے بعد وہ واک کے لیے نکل پڑے تھے ۔
اوہ تم روز اس ٹائم اٹھتے ہو کیا ؟؟؟
آریان کے ساتھ چلتے ہوے دانیال بولا ۔
"الحمدلللہ "
آریان اطمینان سے بولا ۔
"تو کیا تمہارا دل نہیں کرتا کہ تم سو ؟؟ آئی مین اتنی مزے کی نیند کون قربان کر سکتا ہے ؟"
وہاں حیرانی ہی حیرانی تھی ۔
"دل کرتا ہے نا بہت کرتا ہے ۔مگر ہمیشہ وہی نہیں ہوتا جو ہمارا دل چاہتا ہے ۔جیسے سب کچھ صرف چاہنے سے ہی نہیں مل جاتا اس کے لیے کوشش کرنا بھی لازم ہوتی ہے ۔اسی طرح جنّت بھی صرف چاہنے سے ہی نہیں مل جائے گی ۔اس کے لیے جدو جہد کرنا پڑتی ہے ۔"
آریان سکون سے بولا ۔
"اوہ مائی گاڈ ۔۔!!! آریان تمہاری سوچ کتنی اچھی ہے ۔"
دانیال عقیدت بھرے لہجے میں بولا ۔
مما ہمیں نماز پڑھنے کا کہتی رہتیں ہیں مگر فورس نہیں کرتیں ان کا کہنا ہے کسی کے کہنے پر پڑھی تو کیا پڑھی؟؟ خود دل میں رب کی محبت ہوگی تو رب نماز کے لیے کھڑا کر دے گا ۔ویسے آریان تمہے پتا ہے میں ھر بار کہتا ہوں کل سے نماز شروع کروں گا مگر ۔۔۔۔!!!"
"انٹی کی بات سہی ہے۔کسی کے کہنے پر پڑھی نماز بھی کیا نماز ہوتی ہے ۔آپ کو رب سے اتنی محبت ہونی چاہیے کہ خود نماز کے لیے کھڑے ہوں ۔آپ کے دل سے آواز آئے کہ یہ لمحہ ہے اسے رب کی رضا سے گزار لو ۔پھر رب تمہے دائمی لمحات دے گا جو تم اپنی مرضی سے گزارو گے ۔دانی ہم کتنی بھاگ دھوڑ کرتے ہیں نا ؟؟صرف اور صرف اس لاحاصل اور فانی دنیا کے لیے ۔!!!تم، میں  ہم سب نے ایک دن  لوٹ جانا ہے اپنے اصل کی طرف پھر اس دنیا کی ہی پروا کیوں کریں  ؟؟ یہ دنیا نا تمہے کچھ دے سکتی ہے نا مجھے یہاں لینے کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے ۔مگر اگر اس دنیا میں رب کی رضا سے زندگی گزار لو گے تو کامیابی اور فلاح تمہارے قدم چومے گی ۔اس دنیا میں بھی اور اگلی دنیا میں بھی ۔ اور دانی کسی بھی کام کو کرنے کا درست وقت کل نہیں آج ہوتا ہے ۔۔۔!!
اپنی بات کے اختتام پر وہ دھیرے سے مسکرایا ۔
"تو میں کل کتنے بجے اٹھوں ؟؟"
دانیال کی بات پر آریان مسکراہٹ گہری ہو گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم ۔۔۔!!!
آٹھ بجے کے قریب اسما بیگم اور شاہزیب صاحب ناشتہ لے کر آگئے ۔
آرے واہ بھئی حلوہ پوریاں ۔۔۔۔"
سہیل صاحب اور فرحان صاحب اس وقت لاؤنج میں بیٹھے تھے۔ان کے ساتھ ہی عائشہ بیگم اور ارفع بیگم بھی بیٹھی تھیں  .جب کہ ینگ پارٹی ابھی تک سوئی ہوئی تھی ۔صرف عالیہ ،آریان اور دانیال جاگ رہے تھے ۔آریان اور دانیال لان میں بیٹھے تھے ۔جب کہ عالیہ کچن میں جوس بنا رہی تھی ۔
"۔شکریہ اسما باجی آپ نے تو میری خواہش ہی پوری کر دی ۔دل کر رہا تھا کہ حلوہ پوری کھاؤں اور وہ بھی آپ کے ہاتھوں کی بنی ہوئی ۔"
وہ سب اگر کبھی حلوہ پوری کھاتے بھی تھے تو صرف  اسما بیگم کے ہاتھوں کی بنی ہوئی کھاتے تھے ۔ان کے ہاتھوں کی بنی حلوہ پوری ہوتی ہی اتنی لذیز تھی کہ کھانے والا انگلیاں ہی چاٹتا رہ جاتا تھا ۔
"اور دیکھیں مجھے پتا چل گیا کہ میرے بھائی کو پوریاں کھانی ہیں ۔"
اسما بیگم مسکراتے ہوے فرحان صاحب سے مخاطب ہوئیں ۔
عالیہ بیٹا ۔۔۔!!!!
جی ۔۔!!!
اسی وقت عالیہ کچن سے نکلی ۔
"ناشتہ لگاؤ بھئی ٹیبل پر ۔"
عالیہ نے سر ہلایا اور ہاٹ پاٹ پکڑے ملازموں کو اپنے پیچھے ہی کچن میں آنے کا اشارہ کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار آج کوئی اسپیشل دن ہے نا ؟؟مجھے یاد نہیں آرہا ۔"
اچانک دانیال کچھ سوچتے ہوے بولا ۔
امم مجھے تو نہیں پتا ۔"
آریان مسکراہٹ دباتے ہوے بولا ۔جانتا تھا اب دانیال اتنی آسانی سے اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گا ۔
"وھھو آج میرے یار کی برتھ ڈے ہے "
دانیال جھومتے ہوے بولا ۔
"تو ۔۔!!!"
آریان سکون سے بولا ۔
"چل تو پوچھ ہی رہا ہے تو بتا دیتا ہوں آرام سے ۔۔۔شرافت سے مجھے ٹریٹ دو "
دانیال کے مطا لبہ پر آریان دانت پیس کر رہ گیا ۔
"وجہ "
آریان اسے گھورتے ہوے بولا ۔
"تو بائیس کا ہو گیا ہووو "
دانیال پھر سے جھومنے لگا ۔
ایک شرط پر ۔۔۔۔"
آریان کچھ سوچتے ہوے بولا ۔
"دیکھو جان مانگ لینا ٹریٹ نہیں "
دانیال ہاتھ جوڑتے ہوے بولا ۔
"ایک ماہ بعد ہے نا تم تینوں کی برتھڈے ۔۔"
آریان سوچتے ہوے بولا ۔
"نہیں """"
دانیال فورا بولا جانتا تھا کہ شرط کیا ہو گی ۔
"تم لوگ مجھے ٹریٹ دے دینا میں تم لوگوں کو دے دوں گا ۔"
آریان سکون سے بولا ۔
"ٹھیک ہے ڈن باس ۔۔۔"
دانیال کچھ سوچتے ہوے بولا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کر رہے ہو تم ؟؟؟
آریان نے حیرانی سے دانیال کو دیکھا جو سوتی ہوئی فلک کی مختلف اینگلز سے تصویریں بنا رہا تھا ۔
"آریان فلک کو غور سے دیکھ لو ۔دن میں میک اپ کر کے خوبصورت بنتی ہے ورنہ اس وقت چیک کرو یار یہ کچھ عجیب نہیں لگ رہی ۔؟؟"
دانیال کی آواز سرگوشی سے کم نا تھی ۔
اس کی بات سن کر آریان کا دل چاہا یا اپنا سر دیوار میں دے مارے یا اس نمونے  کو دیوار میں دے مارے ۔
"مقصد بتاؤ ؟؟"
آریان اسے گھورتے ہوے بولا ۔
"سٹیٹس لگاؤں  گا نا یار اس کی برتھ ڈے پر "
چہرے پر خبیث مسکراہٹ سجاتے ہوے دانیال نے کہا ۔
آریان نے ایک نظر فلک کو دیکھا جو سوتے میں بھی معصوم سی لگ رہی تھی اور دانیال کو تو بس اس بیچاری کو تنگ کرنے کا بہانہ چاہیے ہوتا تھا ۔بیچاری دن کے وقت بھی اچھی بھلی لگ رہی ہوتی تھی تب بھی دانیال یونہی اس کی عزت افزائی کرتا کہ وہ بیچاری کڑھ کر رہ جاتی ۔حالانکہ دانیال یہ بات بہت اچھے سے جانتا تھا کہ امل اور فلک میک اپ ہی نہیں کرتی تھیں ۔
"اب تم کیا کر رہے ہو ؟؟"
آریان کو امل کی طرف بڑھتا دیکھ کر دانیال نے پوچھا ۔
"تم میری بہن کا فوٹو شوٹ کرو اور میں تمہاری بہن کو بخش دوں ناممکن ۔"
آریان نے اسے چڑاتے ہوے کہا جب کہ دانیال جانتا تھا کہ اب کیا ھونے والا ہے جب ہی تو وہ اپنی ہنسی دبانے میں ناکام جو رہا تھا ۔
آریان نے کیمرہ اون کرتے ہوے امل کا کمبل ہٹایا مگر یہ کیا ۔۔۔؟
اگلے ہی لمحے دانیال ہنستے ہوے رکوع اور اس کے بعد سجدے میں جا چکا تھا ۔آریان نے حیرت سے کیمرے میں کیپچر امل کے پاؤں کی تصویر دیکھی ۔
"یہ اب بھی ایسے ہی سوتی ہے کیا ؟؟"
آریان نے ہنستے ہوے پوچھا ۔
"ہاں نا سوتی سیدھا ہے اور صبح اس پوزیشن میں ہوتی ہے ۔ہمیں تو عادت ہے اس لیے ہم اس طرف جانے کا تکلف ہی نہیں کرتے ۔"
آریان نے اس پر کمبل سیدھا کیا اور مسکراتے ہوے اٹھا ۔
ریڈی ؟؟؟
آریان نے پوچھا ۔
"گو "
دانیال اور آریان ایک ساتھ بولے ۔
"امل ۔۔۔۔۔فلک ۔ ۔۔۔"
دونوں اتنا اونچی بولے کہ ایک دم ہی امل اور فلک جھٹکے سے اٹھ بیٹھیں ۔ایسا کرنے سے ان کے بال ان کے چہروں پر آگئے ۔اب چیخنے کی باری دانیال کی تھی ۔وہ چلاتے ہوے باہر کو دھوڑ گیا۔
بھ۔۔۔بھوتنییاں ۔۔
آریان نے بمشکل اپنی ہنسی  دبائی ۔
  ککک۔۔۔کیا ہوا  ؟؟
وہ دونوں بوکھلا گئیں ۔
ناشتہ تیار ہے آجاؤ جلدی فریش ہو کر ۔۔"
آریان سنجیدگی سے کہتا باہر کو بڑھ گیا کیوں کہ اب اگر تھوڑی  دیر بھی ادھر رہتا تو اپنی ہنسی پر شاید قابو نا رہتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
ناشتہ سب نے خوش گوار ماحول میں کیا ۔
"بھئی عائشہ بہت ظالم ساس ہو تم ۔۔۔مانا کہ عالیہ اس گھر کی بہو ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تم اس سے ابھی سے اتنے کام کروانے لگو ۔"
فرحان صاحب اخبار کے صفحے پلٹاتے ہوے بولے ۔
ان کی بات پر سب  ہنسنے لگے ۔عائشہ بیگم کا تو منہ ہی کھلا کا  کھلا رہ گیا تھا ان کے الزام سن کر ۔اب وہ بیچاری تو کتنا اسے روکتی رہیں تھیں مگر عالیہ کی ضد  کے سامنے انھے ہار ماننی پڑی ۔ جب کہ عالیہ چہرہ جھکائے برتن اٹھا رہی تھی ۔
صارم نے ذرا کی ذرا اس بات پر نظریں اٹھا کر اسے  دیکھا ۔انگوری رنگ کی شلوار قمیض اس کے  سرخ و سپید رنگ پر خوب جچ رہی تھی ۔وہ دھیرے سے مسکرا دیا ۔
عالیہ نے بھی اسے دیکھا اور مسکراتے ہوے کچن کی طرف بڑھ گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شولڈر کٹ بالوں کی درمیان سے مانگ نکال کر  شیشے میں دیکھتے ہوے اس نے خود پر  ایک آخری تنقیدی نگاہ ڈالی اور باہر کی طرف بڑھی ۔
پیلی  شارٹ فراک اور جینز میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔میک اپ وہ پہلے بھی نہیں کرتی تھی ۔
فلک بھی پیلے  ہی کلر کی فراک پہنے ہوے تھی  یہ فراکز ان دونوں کو دانیال نے ہی گفٹ کی تھیں ۔
"ہاہاہا یہ تم دونوں تھیں ۔اوہو تم دونوں کو دور سے  دیکھ کر مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ آگ کے شعلے ہیں ۔مجھے لگا وہاں سامنے بخاری صاحب کے لان میں آگ لگ گئی ۔ویسے یہ اتنا بھڑکیلا اور شوخ  رنگ کس فضول آدمی کی چوائس ہے ؟؟"
دانیال بلکل بھول چکا تھا کہ یہ فراک اسی نے گفٹ کی ہیں ۔گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگاے کھڑے اس نے مزے سے ان پر تنقید کی ۔
ہاہاہا ۔۔۔۔افسوس ۔۔۔" خود کو ہی فضول آدمی کہہ رہے ہو "
چچچچچچ ۔۔۔"
امل اور فلک نے تاسف سے سر ہلاتے ہوے کہا ۔
"ہیں ؟؟؟ میں نے کبببب ۔۔۔"
دانیال اٹکا تھا ۔
"نا جی نا ہو ھی نہیں سکتا میں مان ھی نہیں سکتا بلکلbhi نہیں میں ایک سکہ نا دوں کجا کہ فراکز ۔۔ مجھے پاگل کتے نے کاٹا تھا جو تم لوگوں پر پیسے اڑاتا ؟؟"
اور پھر پورے راستے دانیال اس بات کی سختی سے نفی کرتا رہا کہ اس نے انھے زندگی میں کبھی کچھ لے کر ہی نہیں دیا کجا کہ کپڑے وہ بھی اتنے شوخ رنگ کے ؟؟
آریان ،امل اور فلک صرف اسے گھور رہے تھے جس کی زبان فراری کے انجن کی طرح دھوڑ رہی تھی وہ ابھی بھی بضد تھا کہ وہ پاگل ہرگز نہیں ہے ۔
فون کی بیل پر دانیال نے اپنی زبان کو بریک لگاے ۔
" السلام و علیکم !!  "
ہاں بولو ؟؟"
خیریت ؟؟''
فادی  سب ٹھیک ہے نا ؟
وہ فکر مندی سے کہ رہا تھا ۔
"ٹھیک ہے میں آرہا  ھوں "
اس نے عجلت میں گاڑی موڑی ۔
کیا ہوا آریان سب ٹھیک تو ہے نا ؟؟
امل نے اسے پریشان دیکھ کر پوچھا ۔
"فہد کا فون تھا اس کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے  اللّه کرے سب خیر خیریت ہو ۔"
وہ ڈرائیونگ کرتے ہوے مصروف انداز میں بولا ۔
"ٹینشن  نا لو سب ٹھیک ہو گا ۔"
آریان محض سر ہلا کر رہ گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آریان تیزی سے  گاڑی سے اترا ۔
"تم لوگ چلو گے ؟؟"
اس نے اندر انے کا پوچھا تھا ۔
"نہیں تم جاؤ ہم ویٹ کر لیتے ہیں "
دانیال بولا تو آریان سر ہلاتا اندر کی طرف بڑھ گیا ۔
فہ۔۔۔۔فہد تم تو بلکل ٹھیک ہو پھر موبائل پھ بےہودہ مذاق کیوں کیا تھا ہاں ؟؟جان نکال دی تھی میری ۔۔۔!!!!
فہد کو بیرونی دروازے کے پاس کھڑے مسکراتے دیکھ کر آریان کا بیپی ہی شوٹ کر گیا تھا ۔کچھ دیر پہلے تو اس نے فون پر بتایا تھا کہ اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا زیادہ بڑا نہیں تھا مگر پھر بھی چوٹیں لگیں ہیں اور یہ سنتے ہی آریان کی جان فنا ہو تھی تھی ۔
"افکورس  میں ٹھیک ھوں اور تمہارے سامنے ھوں "
فہد نے شرارت سے آنکھ مارتے ہوے کہا ۔تو آریان نے اس کے کندھے پر مکا مارا ۔
"کمینہ "
وہ بڑبڑآیا تو فہد ہنس دیا ۔
"چل آجا اندر آہی گیا ہے تو ۔۔"
فہد اسے لے کر اندر کی طرف بڑھا ۔
"رک ذرا ۔۔!! تیرے کر کہ میں گاڑی بھگا کر لایا ھوں میرے ساتھ دانی ،امل اور فلک ہیں۔وہ باہر انتظار کر رہے ہیں ۔"
آریان باہر کی طرف بڑھتے ہوے بولا ۔
"اچھا سچی ۔۔۔!!! بھابھی صاحبہ اور تمہارے سالے صاحب اور جمع سالی صاحبہ آئی ہیں تو انھے باہر کیوں روکا ہے میرے غریب خانے میں لے اتے  ۔تو رک میں لاتا ھوں "
فہد اسے چھیڑتے ہوے بولا ۔
"بکواس نا کر ۔۔!!"
آریان دانت پیستے ہوے بولا ۔
" ہٹو میں خود لے آتا ھوں  انھے " 
آریان گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
فہد اتنا اندھیرا کیوں ہے ادھر ۔۔؟؟
آریان اندر داخل ہوا تو ھر طرف اندھیرا ہی تھا ۔
"وہ اس لیے کہ روشنی نے تو اب اندر قدم رکھا ہے "
فہد کا مسکراتا لہجہ اس کی سماعت سے ٹکرایا ۔
اگلے ہی لمحے پورا ہال روشن ہو گیا ۔
"ہیپی برتھڈے ٹو  یو "
"ہیپی برتھڈے ٹو یو "
"ہیپی برتھڈے آریان "
ہیپی برتھڈے ٹو یو "
آریان کے کچھ یونی فیلو بھی تھے اور بینش بھی وہیں موجود تھی ۔وہ بور لگ رہی تھی مگر دانیال پر نظر پڑتے ہی اس کی مسکان گہری ہوتی چلی گئی ۔دوسری طرف میز پر  پڑے انواع اقسام کے کھانوں کو دیکھ کر جہاں دانیال کے منہ میں ابھی پانی بھرا ہی تھا بینش کو دیکھتے ہی اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا ۔
آریان نے مسکراتے ہوے فہد کو دیکھا اور پھر اس کے پیچھے ہال کو دیکھا ۔
پورے ہال میں نیلے اور  سفید رنگ کے غباروں سے  خوبصورت سجاوٹ  کی گئی تھی ۔
بیک گراؤنڈ میں بہت خوبصورت انداز سے ہی ہیپی برتھڈے آریان لکھا گیا تھا ۔فہد چلتا ہوا اس تک آیا اور اس کے گلے لگ گیا ۔اس نے ہنستے ہوے آریان کو اٹھایا اور گھمانے لگا ۔
"ابے چھوڑ میں تیری گرل فرینڈ نہیں ھوں "
آریان دانت پیستے ہوے بولا ۔
"اہم اہم۔۔۔۔۔۔ ہم بھی ادھر ہیں سو یہ لیلیٰ مجنوں نا بنو پلیز ہمیں شمیاں آرہی ہیں ۔"
دانیال نے آنکھوں پر ہاتھ رکھتے ہوے شرارت سے کہا ۔
کیسے ہو جونیئر ؟؟؟"
فہد آریان کو اتار کر دانیال کی طرف بڑھا ۔
"ٹھیک ھوں سینئر "
دانیال بھی اس سے ملتے ہوے اسی کے انداز میں بولا ۔
اسے یاد آیا کہ اس نے ابھی تک امل کو سلام نہیں کیا ۔سو وہ اسی کی طرف بڑھا۔
"السلام و علیکم بھابھی۔۔۔!!!
فہد کے بولنے پر جہاں آریان کو کھانسی کا دورہ پڑا وہیں امل،فلک  اور دانیال بھی حیرانی سے اسے دیکھنے لگے ۔
کیا بولا آپ نے ؟؟؟
دانیال اسے گھورتا بولا ۔
باجی ۔۔!!
فہد معصومیت سے بولا ۔
اچھا مجھے سننے میں غلطی ہوگئی ہو گی ۔"
دانیال کندھے اچکاتا بولا ۔
"میرا مطلب باجی کیسی ہیں آپ ؟؟"
آریان کے گھورنے پر فہد نے تصیحح کی ۔
"میں ۔۔ٹھیک !!!"
امل ابھی تک حیران تھی ۔
"آئی ایم سوری "
فہد آہستہ سے بولا ۔
"پر کیوں ؟؟"
امل نے حیرانی سے پوچھا ۔
امل کی بات پر فہد کا ہاتھ سیدھا اپنے رخسار پر گیا ۔
بےاختیار اس کے ذہن کے پردوں پر کچھ دن پہلے کا منظر لہرایا ۔
ہاں بولو ؟؟ خیریت تھی اس ٹائم کیا بات کرنی ہے ؟؟
یونیورسٹی کے بیک گراؤنڈ میں کھڑے فہد نے آریان سے پوچھا جو صرف اسے گھور رہا تھا ۔
"کچھ پھوٹ بھی کہ ایس۔۔۔۔۔"
اس سے پہلے کہ فہد کی بات مکمل ہوتی آریان کی طرف سے پڑنے والے زوردار تھپڑ پڑا اس نے حیرانی سے اسے دیکھا ۔
"آئندہ تو مجھے کسی لڑکی کے آس پاس نظر نا آے !!"
آریان اسے وارننگ دیتے ہوے بولا ۔
"پر یار وہ میں صرف مذاق مذاق میں کرتا ھوں "
"مذاق میں بھی نہیں ۔۔!!"
آریان چبا چبا کر بولا ۔
"تم نے امل کو تنگ کیا تھا نا مال میں ؟؟؟ جانتے بھی ہو کہ وہ کتنی اہم ہے میرے لیے ؟؟ تو سوچو جتنی لڑکیوں کو تم تنگ کرتے ہو گے وہ کس کس کے لیے اہم ھوں گی ؟"
آریان سنجیدگی سے بولا ۔
وھو ۔۔۔تو یہ بات ہے بھابھی جی ۔۔۔!!!
وہ جی پر زور دیتا شرارت سے مسکرایا ۔
"چپ رہ بیوقوف "
آریان دانت پیستے ہوے بولا ۔
"آئندہ پرومیس کر کسی لڑکی کو تنگ نہیں کرے گا "
ٹھیک ہے پر تم نے بہت زور کا مارا ہے "
فہد شکایتی انداز میں بولا ۔
"اچھا ہے نا جب جب تو کوشش کرے گا کسی لڑکی کو چھیڑنے کی تو تجھے یہ تھپڑ یاد آجاے گا "
آریان اطمینان سے بولا ۔
کہاں گم ہوگئے ہیں فہد بھائی ؟؟
فلک کی آواز پر فہد چونکا ۔
"ک۔۔کچھ نہیں ۔۔!!!"
فہد نے آریان کو دیکھا جو اسے گھور رہا تھا ۔اگلے ہی لمحے وہ سمبھل
کر بولا ۔
"بس مجھے عقل آگئی میں نے اس دن مال میں آپ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا سو ۔۔"
آرے چھوڑیں کوئی بات نہیں ۔۔"
امل مسکراتے ہوے بولی ۔
ساری بات اس کی سمجھ میں آگئی تھی ۔دل میں آریان کی عزت مزید بڑھ گئی ۔
"اففف میں کتنا غلط سوچ رہی تھی "
سر جھٹکتے وہ دھیرے سے مسکرا دی ۔
چلیں وہ میں کہ رہا تھا رزق کو کیا انتظار کروانا ؟؟"
دانیال کہتے ہوے کھانے کی میز تک پہنچا ۔
اس کی بات پر سب ہنس دیے ۔
آریان کے کیک کاٹنے کے بعد کھانا لگایا گیا جو سب نے خوش گوار ماحول میں کھایا ۔
کھانے کے میز پر بینش نے دانیال کے ساتھ بیٹھنے کی کوشش کی تو دائیں جانب سے فلک مسکراتے ہوے آئی اور بینش کی کھینچی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی اور بیٹھنے سے پہلے فلک بینش کا شکریہ ادا کرنا نا بھولی ۔بینش کڑھ کر رہ گئی اور پاؤں پٹختی
دوسری طرف جا کر بیٹھ گئی ۔
دانیال زیر لب مسکرایا اور فلک اطمینان سے کھانا کھاتی رہی۔
آریان ۔۔!!
ہممممم ۔۔!!!
فہد اور آریان لان میں بیٹھے کافی پی رہے تھے جب ۔سب دوست جا چکے تھے ۔امل ،دانیال ،فلک اور بینش اندر ہال میں بیٹھے تھے ۔
"آٹھ ماہ بعد ہمارا سی ۔ایس۔ایس کا ٹیسٹ ہے "
فہد سنجیدگی سے بولا ۔
"اوہ  ٹھیک ابھی ہفتے بعد فائنلز ہیں وہ تو نپٹا لیں پھر فارغ ہو کر اکھٹے تیاری کریں گے ۔
آریان کافی کا سپ لیتے ہوے بولا ۔
ٹھیک ہے ۔۔!!
جس وقت وہ دونوں اندر گئے وہ چاروں باتوں میں مشغول تھے ۔
"کیا ہو رہا ہے ؟؟"
آریان اور فہد ان کے پاس بیٹھتے ہوے بولے ۔
ایک طرف صوفے پر امل اور بینش بیٹھی تھیں۔ جب کہ دوسری طرف دانیال کاوچ پر بیٹھا تھا اور فلک اس کے ساتھ ہی بیٹھی تھی ۔
"کچھ خاص نہیں "
امل نے کندھے اچکائے ۔
چلو پھر ہم چلتے ہیں ۔۔!!
آریان گاڑی کی چابیاں نکالتا ہوا بولا ۔
"خدا حافظ بہت اچھا لگا ہمیں سب کچھ فہد بھائی ۔اور بہت مزہ آیا ۔تھینک یو سو مچ بھائی !!
امل مسکراتے ہوے بولی ۔
"سیم ہیر ۔۔!!!"
دانیال اور فلک ہاتھ ہلاتے ہوے ایک ساتھ بولے ۔
آریان مسکراتے ہوے انھیں دیکھ رہا تھا ۔
کچھ لوگ بہت خاص ہوتے ہیں اور اپنی انہی خصوصیات سے وہ  دوسروں کے دلوں کو فتح کرنے کا بھی ہنر رکھتے ہیں ۔
فہد کی خوش اخلاقی نے بلاشبہ انھیں بہت متاثر کیا تھا کم از کم گھر پہنچنے تک تو ان کی ھر بات فہد بھائی سے لے کر فہد بھائی پر ہی ختم ہو رہی تھی ۔ آریان صرف مسکراتے ہوے انھیں سن رہا تھا ۔
واقعی زندگی میں مخلص دوستوں کا کوئی نعمل البدل نہیں ہوتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تم دونوں کدھر جا رہی ہو ؟؟؟
دانیال فریش ہو کر لان کی طرف اگیا ۔تھوڑی ھی دیر گزری تھی کہ فلک گیٹ سے آئی اور اسے دیکھ بغیر اندر کی طرف بڑھ گئی ۔
دانیال نے کندھے اچکائے اور پھر سے اپنے کام میں لگ گیا ۔تقریبا دس منٹ بعد وہ دونوں باہر آتی نظر آئیں ۔شاید انہوں نے دانیال کو دیکھا نہیں تھا ۔وہ دونوں ہیلمٹ پہنتی بائیک پر اگے پیچھے سوار ہوئیں ۔
دانیال کے پوچھنے پر حیران سی فلک نے اسے مڑ کر دیکھا تھا جو امل کے پیچھے بیٹھ رہی تھی ۔
"تم ۔۔۔ہاں ہمیں ذرا کام ہے تھوڑی دیر تک آتیں ہیں ۔"
فلک نے محتاط لہجے میں کہا ۔
"ٹھیک ۔۔۔۔"
انھیں اوپر سے نیچے شکی نظروں سے گھورتے ہوے وہ پھر اپنے کام میں لگ گیا اور وہ دونوں تیزی سے بائیک اس کے پاس سے گزار لے گئیں ۔
"پر لینا کیا ہے ؟؟؟"
مال میں داخل ہوتی امل نے فلک سے پوچھا ۔
"یا تم گھڑی لے لو یا میں لے لوں گی دوسرے آپشن میں پرفیوم رکھ لیتی ہیں ۔یہ ٹھیک رہے گا نا ؟"
فلک آبرو اچکاتے ہوے بولی ۔
"یہ بہتر رہے گا "
وہ مسکراتیں ہوئیں مال کی ایک  دکان میں داخل ہوئیں ۔
"ویسے دانی کا گفٹ کیا ہو گا ؟؟کچھ آئیڈیا ہے تمہے ؟؟""
امل نے فلک سے پوچھا ۔
"فضول ہو گا دیکھ لینا "
فلک اسے گفٹ پیک کرتے دیکھ چکی تھی مگر ابھی تک گفٹ سے ناواقف تھی ۔
امل نے ایک بہت خوبصورت میلز واچ پیک کروائی اور فلک نے ایک مسحور کن پرفومے پیک کروائی ۔
بل کی ادائیگی کے بعد وہ دونوں واپسی کے لیے ہو لیں چونکہ رات ہونے والی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس وقت امل اور فلک آریان کو گفٹ دے کر اس کے کمرے سے نکلیں اسی وقت سامنے سے دانیال آرہا تھا ۔گرتے، پڑتے بہت مشکل سے وہ اتنا بڑا ڈبہ اٹھائے ہوے تھے ۔اتنا بڑا تحفہ دیکھ کر امل اور فلک کو اپنے دیے تحفے چھوٹے ھی لگے ۔منہ بسورتے ہوے انہوں نے دانیال کو آریان کے کمرے میں جاتے دیکھا فلک پاؤں پٹختی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی اور امل کندھے اچکاتی اپنے گھر ہو لی ۔
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
آریان ابھی فریش ہونے جا ھی رہا تھا خ اچانک ٹھک ٹھک کی آواز پر اس نے دروازے کی طرف دیکھا کوئی تھا جو باہر سے دروازے کو دھکے لگا رہا تھا ۔
آریان کی شرٹ کے اوپری بٹن کھلے ہوے تھے اس نے تولیہ ایک کندھے پر منتقل کیا اور دروازے کی طرف گیا ۔
ایک ھی لمحے میں اس نے دروازہ کھولا تھا ۔سامنے اتنا بڑا ڈبا ہوا میں ملحق دیکھ کر آریان ہق دق رہ گیا پھر اس کی نظریں نیچے کو گئیں تو اسے دانیال کی ٹانگیں دکھیں ۔
"ہٹو پیچھے میں آرہا ھوں "
وہ یہ بات دوسری بار کہ چکا تھا مگر دونوں بار ڈبے نے اسے اندر نا آنے دیا ۔
"آو "
آریان ایک طرف ہوا ۔
"ایک ۔۔۔۔
دو ۔۔۔۔
اور یہ تین "
ہائے اما ۔۔۔"
دانیال زمین پر پڑا تھا اور ڈبا اس کے ہاتھ سے  دور جا گرا تھا ۔
آریان نے مسکراہٹ دبائی اور اگے بڑھ کر اسے ہاتھ سے اٹھانا چاہا ۔
دانیال نے محبت سے اسے دیکھا کتنا خیال رکھتا تھا وہ ۔۔۔"ہائے قربان ۔۔۔"
دل میں سوچ کر اس نے مسکراتے ہوے اس کا ہاتھ تھاما ۔
"خبیث ۔۔۔۔۔"
دانیال چیخا تھا اور ایک بار پھر زمین پر تھا ۔
"لعنت ہو ۔۔"
دانیال بڑبڑآیا ۔
"کس پر ؟؟"
آریان نے مسکراہٹ دبائی۔
"مجھ پر جس نے اچھا سوچا "
"تم نا سوچا کرو کچھ اچھا سوچنا سوٹ نہیں کرتا تم پر "
وہ ہنسا تھا وہ بھی ساتھ ہنس دیا ۔
"ییئی۔۔۔۔بٹن بند کر میری جنس مشکوک نا کر "
وہ اسے اسی کی بات لوٹا چکا تھا ۔
"تو آیا ہے میں تو نہانے جا رہا تھا "
اس نے کندھے اچکائے ۔
جا رہا ھوں "
دانیال پاؤں پٹختا بڑبڑاتا وہاں سے چلا گیا ۔
آریان نے دروازہ بند کیا اور فریش ہونے چلا گیا ۔
تولیے سے نم بال ڑگڑتے وہ باہر آیا تو اس کی نظر ایک طرف پڑے گفٹس پر پڑی ۔گہرا سانس بھرتے تولیے کو ایک طرف  رکھتے وہ گفٹس کی طرف آیا ۔ہاتھ بڑھا کر اس نے امل کا دیا گفٹ اٹھایا ۔اس پر ہیپی برتھڈے آریان لکھا تھا وہ مسکرا دیا ۔
پھر نفاست سے گفٹ کھولنے لگا ۔
امل کا دیا تحفہ دیکھ کر وہ مسکرایا تھا ۔
اس نے ہمیشہ کی طرح اسے گھڑی ھی تحفے میں دی تھی ۔اس نے گھڑی نکال کر پہنی ۔وہ بہت بیش قیمتی گھڑی تھی ۔آریان نے اس کی پسند کو داد دی ۔
پھر فلک کا تحفہ کھولا اس میں بہت مسحور کن خوشبو تھی ۔
اسی  طرح وہ فہد اور باقی سب کے دیے تحفے کھولتا رہا ۔ سب ایک سے بڑھ کر ایک تھے ۔
اب ایک کونے میں پڑا دانیال کا دیا ڈبہ پڑا تھا ۔
"ویسے حیرت ہے یہ اتنا سخی کیسے ہوا ؟"
خود سے کہتے وہ ڈبے تک آیا اور اسے کھولا ۔
نیچے ایک اور ڈبہ برآمد ہوا ۔
آریان نے آنکھیں میچیں ۔
تو کچھ گڑبڑ ضرور ہے "
دوسرے کے بعد تیسرا ۔۔
"دانی "
اس نے دانت پیسے ۔
پھر چوتھا ۔۔
اس نے منہ پر ہاتھ پھیر کر خود کو ریلکس کیا ۔
"پانچواں ۔۔
"چھیواں
"ساتواں
"آٹھواں "
اس کی ہمت جواب دے رہی تھی ۔
"نوواں ڈبہ بالاآخر آخری ڈبہ تھا اس نے سکون کا سانس لیا ۔
اب وہ بڑا ڈبہ نہیں تھا جو دانیال لایا تھا اب وہ ایک منی باکس رہ گیا تھا ۔
آریان نے ڈبہ کھولا ۔
وہ حیران رہ گیا ۔
ڈبے کی تہہ پر ایک فریم پڑا تھا ۔ہاتھ بڑھا کر اس نے وہ فریم اٹھایا ۔
وہ اس کی دانیال کی تصویر تھی ۔آریان اسے کسی بات پر گھور رہا تھا جب کہ وہ گردن پیچھے گرائے ہنس رہا تھا ۔یہ بہت خوبصورت منظر تھا ۔
اس نے فریم کو الٹا کیا جس کے ساتھ ایک کاغذ چپساں تھا ۔
"دیکھو تم جانتے ہو میں ایک انتہائی غریب آدمی ھوں اور بہت مشکل سے گزڑ بسر کرتا ھوں ۔تمہے تحفے تو وہ دیں جو امیر  ہیں ۔ہم ٹھہرے غریب لوگ تو ہماری طرف سے یہ نذرانہ قبول کریں ۔ویسے میں سوچ یہ رہا تھا کہ تمہے گفٹ کی کیا ضرورت ؟؟ تمہارے پاس تو ایک جیتا جاگتا گفٹ ہے ۔۔!!! آرے میں یار اف کورس !!! ہاہاہاہا ۔۔۔"
اگے بھی اس نے ایسی ھی باتیں لکھیں تھیں یعنی اپنی تعریفیں ۔۔۔۔
آریان مسکرا دیا  ۔اسے یہ تحفہ بہترین لگا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہو شٹ مجھے نیند کیوں آگئی اب یہ ٹوپک کیسے یاد کرنے ہیں ؟؟
فہد پریشانی سے اٹھ بیٹھا پھر گھڑی کی طرف دیکھا جو گیارہ بجا رہی تھی وہ بستر سے اٹھا اور کچن کی طرف بڑھا ۔ارادہ کافی بنانے کا تھا ۔
ارے بابا کے کمرے کی لائٹ کیوں اون ہے ؟
وہ خود کلامی کے انداز میں بولتا ان کے کمرے کی طرف بڑھا ۔ڈور ناب پر رکھا ہاتھ پہلو میں گرتا گیا اندر سے آتی آوازیں وہ بخوبی سن سکتا تھا ۔اس کی آنکھیں بےیقینی سے پھیلیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے ))))))))

ماہی وے ✔Where stories live. Discover now