مقصد من

6.4K 256 191
                                    

ماہی وے
مقصد من
آخری قسط (قسط 20)

بقلم مریم و علیشا

اس لمحے دانیال شاہزیب نے بےاعتبار زندگی سے زیادہ موت کو ترجیح دی تھی ۔ ٹرک لمحہ ،به لمحہ قریب تر ہوتا جا رہا تھا ۔ اس سے پہلے کہ اس کی زندگی کی کہانی ختم ہو جاتی سرعت سے کسی نے اس کا بازو پکڑ کر اسے فٹ پاتھ پر اپنی جانب کھینچا ۔ حیرت سے دانیال نے نظریں اٹھا کر فہد کو دیکھا ۔جو اس کا بازو دبوچے سنجیدگی سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا ۔ وہ گھر واپس لوٹ رہا تھا جب اس نے دانیال کو پیدل سڑک پر چلتے دیکھا خاموشی سے وہ گاڑی پارک کرتا اس کے پیچھے ہو لیا ۔اسے دانیال کی حالت عجیب لگ رہی تھی ۔وہ وجہ جاننا چاہتا تھا جس لمحے دانیال نے آنسو پونجھے وہ لمحہ فہد قریشی کو حیران کر گیا تھا ۔ پھر گم صم حالت میں جب وہ سڑک کے بیچ اکھڑا ہوا تو فہد کو لگا کہ دانیال اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے ۔بے اختیار آگے بڑھ کر اس نے دانیال کو اپنی جانب کھینچا ۔ دانیال نے عجیب سی نظروں سے اسے دیکھا ۔
"تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا ؟"
فہد نے اسے جھنجھوڑتے ہوے سخت لہجے میں کہا ۔ مگر وہ خاموش سر جھکائے جوتے سے زمین کھرچتا رہا ۔فہد اسے سنجیدگی سے دیکھنے لگا ۔ ہونٹ کا کنارہ پھٹا ہوا تھا جس سے نکلتا خون جم کر ٹھوڑی تک آچکا تھا ۔ بکھرے بال ، اور نم آنکھیں تھپڑوں سے سوجے گال وہ کہیں سے دانیال نہیں لگ رہا تھا ۔
"یہ کیا ہوا دانیال یہ کس نے کیا ہے تمہارے ساتھ بولو ؟؟"
فہد تشویش زدہ لہجے میں بولا ۔مگر وہ خاموش رہا ۔
"چلو آو میرے ساتھ تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دوں ۔لگتا ہے تمہارا ذہنی توازن کھو گیا ہے "
فہد کے کہنے پر وہ خود اذیتی سے مسکرا دیا ۔
"گھر ۔۔۔؟ کیسا گھر ؟؟"
وہ بڑبڑایا ۔
"میں تمہارے گھر کی بات کر رہا ھوں "
فہد نے اپنی بات پر زور دیتے ہوے کہا ۔
"نکال دیا انہوں نے مجھے گھر سے "
وہ ہلکی سی آواز میں بولا ۔بمشکل فہد کو سنائی دیا ۔
"کیا کہا ؟کس نے نکالا ؟"
فہد کو لگا اسے سننے میں ضرور کوئی غلطی ہوئی ہے ۔بھلا ایسا کہاں ممکن تھا ۔
"وہ کہتے ہیں وہ میرے بابا نہیں ۔۔فہد وہ ۔۔۔"
اس کا لہجہ آنسوؤں کی آمیزش سے بھاری تھا ۔بات کرتے کرتے آخر میں اس کا لہجہ رندھ گیا ۔ لمحے کے ہزارویں حصے میں فہد سمجھ گیا کہ وہ کس کی بات کر رہا تھا ۔ مسلہ اس کی سوچ سے زیادہ گھمبیر تھا ۔
"اچھا چلو میرے ساتھ آجاؤ میرے گھر ۔ہم مل کر سوچتے ہیں کیا کرنا ہے "
وہ دانیال کے کندھے پر بازو حمائل کرتے ہوے اسے اپنے ساتھ لیے اپنے گھر چلا آیا ۔ وہ گھر جس کے بلکل پیچھے اس کے اعتبار کا قتل کرنے والی رہتی تھی ۔
"تم اوپر کی طرف دائیں کمرے میں چلے جاؤ ۔ فریش ھو جاؤ ۔ کچھ بھی چاہیے ھو تو احمد کو کہہ دینا ۔ہم اس بارے میں کل صبح بات کر لیں گے ۔تم آرام کر لو احمد تب تک ڈنر تیار کر لے گا "
فہد نے بات کے آخر میں احمد کو آواز دی جو "آیا بھائی " کہتا فورا آیا تھا ۔ دانیال کو دیکھ کر بچارے کے رونگھٹے کھڑے ھو گئے تھے ۔ کیوں کہ جب بھی دانیال عرف شیطان آتا تھا بیچارہ کچن سے ایک لمحے کو نکل ہی نہیں پاتا تھا ۔ کبھی ،کبھی وہ سوچتا تھا یہ انسان کیا چیز ہے اور کتنا کھاتا ہے اور کئی بار تو وہ اسے انسان بھی نہیں لگتا تھا ۔
"جی بھائی "
وہ مردہ سی آواز میں بمشکل بولا ۔فہد کو اتنی گھمبیر صورت حال میں بھی ہنسی آنے لگی جسے بمشکل اس نے روکا ۔ وہ احمد کی حالت باخوبی سمجھ رہا تھا ۔
"احمد دانیال اب ہمارے ساتھ رہے گا کچھ دن ۔۔۔ اور اسے کسی قسم کی کوئی شکایت نا ھو "
فہد اسے تنبیہ کرتے ہوے بولا ۔
"جی بھائی "
اس نے تابعداری سے سر ہلایا ۔دانیال کا چہرہ دیکھنے کے بعد اسے کسی انہونی کا ادراک ہوا تھا ۔
"چلو دانیال تم آرام کرو ڈنر کے وقت بات ہوتی ہے اور زخم پر مرہم لگا لینا ۔ ڈریسنگ کے پہلے دراز میں ہی فرسٹ ایڈ باکس موجود ہے "
فہد نے مسکراتے ہوے نرم لہجے میں کہا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا ۔ دانیال گہرا سانس بھرتا اوپر کمرے میں چلا آیا ۔ کمرے کے وسط میں بیڈ پڑا تھا ۔دیوار گیر شیشے پر دبیز پردے گرے ہوے تھے ۔ نرم قالین میں پاؤں دھنستے جاتے ۔ دیواروں پر رنگارنگ منظر کی تصاویر تھیں جو آنکھوں کو سرور بخشتیں ۔۔مگر اس لمحے دانیال کا دل چیخ ،چیخ کر روتا ماتم کناہ تھا ۔ آنکھیں خشک تھیں ۔وہ ایسے ہارے جواری کی طرح نظر آرہا تھا جو میلوں کی مسافتیں طے کر آیا ھو اور اپنا سب گنوا آیا ھو ۔ دروازہ بند کرتا وہ بستر پر آگرا ۔کمرے میں اور باہر ھر طرف اندھیرا تھا بلکل اس کے دل کی طرح ۔ ھر شے گہری خاموشی میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ شام سب نگل کر جا چکی تو رات سیاہ پر پھیلائے چھانے لگی ۔ بیڈ پر لیٹا دانیال نیند کی گولیاں کے زیر اثر سکون سے سو رہا تھا ۔ فہد نے تھوڑی دیر پہلے دودھ کا جو گلاس اس کے لیے بھیجا تھا اس میں نیند کی گولیاں ملا دیں تھیں ۔کھانا کھانے سے وہ منع تو کر ہی چکا تھا مگر فہد کے مجبور کرنے پر اسے وہ دودھ کا گلاس پینا ہی پڑا ۔ فہد چاہتا تھا کہ دانیال سکون سے سو جائے ۔دانیال کی حالت اسے ڈرا رہی تھی ۔ لاکھ وسوسے اس کو گھیرے ہوے تھے ۔ اس نے آریان کو بھی فون کر کے آگاہ نہیں کیا تھا کیوں کہ وہ چاہتا تھا کہ پہلے دانیال اسے سب بتا دے ۔ نا جانے ایسی کیا بات تھی ۔ ؟ کیا اسے آریان کو بتانا چاہیے ۔ایک سوچ کے دماغ میں آتے ہی اس نے آگے بڑھ کر فون اٹھایا۔ اسے آریان کو آگاہ کرنا تھا ۔
۔۔۔_____۔۔۔۔۔۔______۔۔۔۔۔۔۔۔
آریان ڈیوٹی سے واپس لوٹا تو خاموشی نے اس کا استقبال کیا ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی اکثر ڈیوٹی سے واپس آتے اسے بہت رات ھو جاتی تھی مگر آج کچھ عجیب تھا جو اسے محسوس ھو رہا تھا ۔ کچھ غیر معمولی ۔! عام طور پر اسکی واپسی پر گھر جگمگ کرتا رہتا مگر آج سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔ اس نے ایک نظر شاہزیب مینشن کو دیکھا جہاں بھی ھر سو خاموشی ،وحشت اور اندھیرے کا راج تھا ۔ اپنی حیرانی پر قابو پاتے ہوے سر جھٹک کر وہ داخلی دروازے کو ڈپلیکیٹ چابی سے کھولتا اندر آیا ۔ ہاتھ مار کر اس نے سوئچ بورڈ سے لائٹ چلائی ۔ سب کمروں کے دروازے بند تھے ۔ اس نے حیرت سے آنکھیں سکیڑ کر گھڑی کی طرف دیکھا جو گیارہ بجا رہی تھی ۔
"میں غلط جگہ تو نہیں آیا ؟"
حیرانی سے اس نے اطراف کا جائزہ لیا ۔ اچانک کسی نے اس کے کندھے پر دباو ڈالا ۔وہ چونک کر مڑا ۔ کالے شلوار سوٹ میں شال اپنے ارد گرد لپیٹے عالیہ سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی ۔
"السلام علیکم ۔ خیریت سب سو گئے کیا ؟"
اس نے حیرانی سے پوچھا ۔
"وعلیکم السلام ۔۔ہاں سب سو گئے ہیں ۔تم فریش ھو جاؤ میں تمہارے لیے کھانا گرم کر دوں "
عالیہ نے کچن کی طرف بڑھتے ہوے کہا ۔وہ اسے نہی بتا پائی کہ آج کی رات سب پر نیند حرام تھی ۔
"اوکے میں آتا ھوں "
آریان ایک نظر اسے دیکھتا دو ،دو سیڑھیاں ایک ساتھ پھلانگتا اپنے کمرے میں جا گھسا ۔دس منٹ بعد فریش ،فریش سا وہ واپس کچن میں چلا آیا ۔
"آپی ؟؟"
آریان کے پکارنے پر عالیہ جو آٹا فریج میں رکھ رہی تھی اس کی طرف مڑی ۔
"ادھر آئیں ۔۔یہاں بیٹھیں "
اس نے کرسی کھینچ کر اسے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
"،اب بتائیں ؟ کیا ہوا ہے ؟"
وہ سنجیدگی سے کھانا کھاتے ہوے پوچھ رہا تھا ۔ عالیہ خاموشی سے سر جھکائے الفاظ تلاش کر رہی تھی ۔
"دانیال ۔۔۔"
وہ سسکی ۔آریان فورا سیدھا ہوا ۔ نوالہ حلق سے نیچے جانے سے انکاری ھو گیا ۔ پانی پی کر وہ جلدی سے بول اٹھا ۔
"کّک کیا ہوا اسے ؟"
نا جانے کیوں اس کا لہجہ پل بھر کو کانپا تھا ۔
"اسے شاہزیب انکل نے گھر سے نکال دیا ۔"
وہ بھرائے لہجے میں بولی ۔
"آپی ۔۔۔ بہت برا مذاق ہے یہ قسم سے "
آریان نفی میں سر ہلاتے ہوے بولا ۔ لہجے میں دبا ،دبا غصہ تھا ۔
"میں سچ کہہ رہی ھوں ۔۔"
عالیہ اسے سب بتاتی گئی ۔وہ سب جو آج ہوا ۔آریان دم سادھے اسے سن رہا تھا ۔ آخر کار وہ پھٹ پڑا۔
"اتنا سب ھو گیا اور تم لوگوں سے اتنا بھی نہیں ھو پایا کہ مجھے اطلاع دے دیتے ۔ نا جانے وہ کہاں ھو گا ۔بےاعتباری کی بھی حد ہے ۔ اس کا کردار ہمارے سامنے رہا ہے ہمیشہ اور ۔۔اسے ۔۔ایسے ۔۔۔"
وہ شدید غصے میں بولا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔عالیہ بھی فورا کھڑی ہوئی ۔
"کدھر جا رہے ھو ؟"
"انکل اور باقی سب سے تو کل صبح بات ھو گی مگر فلحال میں اسے ڈھونڈنے جا رہا ھوں جذباتی ہے وہ نا جانے کہاں ھو گا۔ دعا کی جیۓ گا آپی وہ ٹھیک ھو "
اپنا موبائل اٹھاتا بٹواسمبھالتا وہ باہر کو لپکا ۔ عالیہ نم آنکھوں سے اس کی پشت دیکھتی رہی ۔جانتی تھی وہ نہیں رکے گا کیوں کہ وہ دانیال سے بہت محبت کرتا تھا ۔ کبھی جتاتا نہیں تھا مگر اسے دانیال بہت عزیز تھا ۔ اس کے دل نے بے اختیار ایک بار پھر دانیال شاہزیب کے حق میں بہتری کی دعا کی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔________۔۔۔۔۔۔۔۔۔_______۔۔۔۔۔۔
آریان کا ارادہ پہلے قریبی پارک دیکھنے کا تھا ۔دانیال اکثر وہاں جاتا تھا ۔ وہ پارک کے اندر جانے ہی والا تھا کہ اس کا فون بجنے لگا ۔ رک کر اس نے جیب سے فون نکالا ۔ فہد کی کال دیکھ کر اس نے فورا فون اٹھایا ۔ اسے فہد کو بھی بلانا تھا اس طرح مل کر ڈھونڈھنا اکیلے ڈھونڈنے سے زیادہ بہتر تھا ۔
"السلام علیکم ۔۔۔"
"وعلیکم السلام ۔ کہاں ھو ؟"
فہد نے عام سے لہجے میں پوچھا ۔
"یار دانیال ۔۔۔۔"
فہد نے اس کی بات فورا بیچ میں کاٹی ۔
"میرے گھر آجاؤ ۔پھر بات ھو گی "
فہد نے کہہ کر کال کاٹی ۔فون جیب میں منتقل کرنے کے بعد وہ نپے ،تلے قدم اٹھاتا فہد ولا چلا آیا ۔ فہد اسے داخلی دروازے کے پاس ہی چکر کاٹتا نظر آیا ۔ آریان کو دیکھ کر فہد فورا اس کی طرف آیا ۔آریان سیدھا لاؤنج میں چلا آیا ۔
"کیا ہوا ۔تو پریشان لگ رہا ہے "
فہد کا انداز حیرانی لیے ہوے تھا ۔وہ آریان کے برابر میں ہی بیٹھا ۔متفکر سا نظر آرہا تھا ۔
"دانیال کو ۔۔۔۔۔"
اور پھر آریان اسے سب بتاتا گیا وہ سب جو آج ہوا تھا اور جو بلکل بھی نہیں ہونا چاہیے تھا ۔
"اتنا سب ھو گیا بچارے کے ساتھ ۔تبھی میں کہوں وہ شخص جس نے کبھی کھانے سے انکار نہیں کیا آج وہ کیسے انکار کر رہا تھا ۔"
وہ پرسوچ انداز میں بولا ۔
"ہمممممم "
آریان نے بےخیالی سے کہا ۔پھر جیسے چونک کر سیدھا ہوا ۔آنکھیں سکیڑے اس نے فہد کو دیکھا ۔
"تم نے ابھی کہا کہ اس نے کھانے سے انکار کیا ۔۔۔مطلب ۔۔؟ "
وہ حیرانی سے بولا ۔
"کیا میں نے یہ کہا "
فہد کا انداز سوالیہ تھا ۔
"ہاں بلکل ۔۔۔اب بتاؤ کس کمرے میں ہے وہ "
اسے گھورتے ہوے بات کے آخر وہ کھڑا ہوا اور ارد گرد نظریں گھمائیں۔
"کیا تمہیں لگتا ہے اس نے ایسا کیا ؟"
فہد نے ایک اور سوال پوچھا ۔آریان سنجیدگی سے اس کی جانب مڑا ۔
"نہیں بلکل نہیں "
وہ بے ساختہ بولا ۔فہد مطمئن انداز میں مسکرایا ۔
"میں نے پہلے سوچا تھا کہ تمہیں بتا دوں ۔فون بھی اسی لیے کیا تھا مگر اب تمہاری بات سن کر سوچا پہلے تم سے پوچھ لوں کہ کہیں تمہیں بھی اس سب پر یقین تو نہیں ؟ کیوں کہ مجھے تو بلکل بھی نہیں ہے ۔ وہ بہت ہرٹ ہوا ہے ۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ اب مزید ھو "
فہد سنجیدگی سے بولا ۔لہجے میں فکر ہی فکر تھی ۔ آریان مسکرایا ۔
"اتنا کرتے ھو اس کا تبھی ھر وقت فہد ،فہد کرتا رہتا ہے "
آریان نے اس کے بازو پر مکا مارا ۔
"کوئی سڑنے لگا ہماری محبت دیکھ کر "
فہد کندھا سہلاتے ہوے شریر لہجے میں بولا ۔
"لا ھولا ولا قوت ۔مجھے کیا ضرورت "
آریان خفگی سے بولا ۔ باتیں کرتے وہ دونوں اس کمرے تک آئے جدھر دانیال تھا ۔
"سو رہا ہے نیند کی گولی دی تھی "
فہد نے اندر داخل ہونے سے پہلے آریان کو بتانا ضروری سمجھا ۔جس پر آریان اسے سخت نظروں سے گھور کر رہ گا ۔ فہد سٹپٹایا اور فورا بولا ۔
"بہت پریشان تھا اور طبیعت بھی ٹھیک نہیں لگی تھی مجھے اس کی تو بس "
فہد نے بات کے آخر میں بھرپور معصومیت دیکھاتے ہوے کندھے اچکائے ۔ آریان مسکرا کر رہ گیا ۔ دانیال کو ایک نظر دیکھنے کے بعد اب وہ مطمئن تھا ۔
"آگے کیا ھو گا سوچا تو نے ؟"
باہر آتے ہی فہد نے دوبارہ پوچھا ۔
" کل اس سے اصل بات پوچھیں گے کہ اس تصویر کا کیا چکر ہے ۔ اس کے بعد ہی کچھ کر سکتے ہیں ۔ میرا سارا شک اصغر رحمانی پر ہے اس کی طبیعت تو کل میں صاف کر کے آؤں گا ۔ "
آریان نے مٹھیاں بھینچے اپنے غصے پر بمشکل قابو پایا تھا ۔ فہد جانتا تھا یہ طبیعت کی صفائی نارمل تو ہرگز نہیں ھو گی ۔
"تو رہنے دے میں چلا جاؤں گا اس کی طبیعت درست کرنے ۔ تو دانی کو دیکھ لینا ۔"
فہد نے اس کے کندھا تھپتھپایا ۔وہ دونوں باتیں کرتے ،کرتے سیڑھیوں سے نیچے اتر رہے تھے ۔
" سنو ۔۔۔صبح اسے مت بتانا کہ میں آیا تھا ۔ شام میں آکر خود بات کروں گا میں "
داخلی دروازے کے پاس پہنچ آریان نے اسے تنبیہ کی ۔فہد تعظیمً جھکا ۔آریان اسے گڈ نائٹ کہتا چل دیا ۔ فہد کی نظروں نے اس کا تب تک تعاقب کیا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوا ۔
۔۔۔۔۔۔______۔۔۔۔۔۔______۔۔۔۔۔۔۔......
کئی بوجھل دن اور کئی بے رونق راتیں گزر گئیں ۔اس واقع کو ایک ہفتہ ہونے کو آیا تھا ۔مگر دانیال کی کوئی خیر خبر نہیں تھا ۔ اپنے دل کا وہ کیا کرتی جو پل ، پل تڑپتا رہتا تھا ۔ بھلے وہ جیسا بھی نکلا ،بے اعتبار ہی سہی مگر دل کا کیا کرتی ،اپنے دل کو وہ لاکھ سمجھا چکی تھی مگر یہ دل ناجانے کیوں ہمک ،ہمک کر اس کے دیدار کو تڑپتا رہتا ۔ ارد گرد اس کے شوخ جملے ، قہقہے اور مسکراہٹیں گونجتی رہتیں ۔ کبھی شام کو لان میں چلی آتی تو خالی پڑی کرسیاں اس کا منہ چڑاتیں ۔ اس دن کے بعد جیسے دونوں گھر کے افراد اپنی ،اپنی جگہ چور سے بن گئے تھے۔ کبھی ایک دوسرے کا سامنا ھو بھی جاتا تو نظر چرا کر گزر جانا جیسے معمول بن گیا ۔ نا وہ دیر رات تک چلتی محفلیں ہوتیں نا وہ باتیں ،نا قہقہے یوں محسوس ہوتا کہ دانیال گیا تو اپنے ساتھ ساری رونق سمیٹے لے گیا ۔ اس کے دم سے چہکتے ، لاؤنج خاموش پڑے ماتم کناں رہتے ۔ گھر میں بھی سب ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے ہوتے ۔مسکراہٹ سب کے ہونٹوں سے ایسی روٹھی تھی کہ اس دن کے بعد کوئی مسکرا بھی نہیں سکا تھا ۔ یوں جیسے قہقہے ،مسکراہٹ بھی دانیال شاہ کی محتاج تھیں ۔ ہفتے پہلے کی اس سیاہ شام فلک آفندی نے صرف دانیال شاہزیب کو نہیں کھویا تھا اس نے اپنی بہترین دوست کو بھی کھو دیا تھا ۔ اس دن کے بعد سے امل اس کے سامنے نہیں آئی تھی ۔ نور کی زبانی اسے معلوم ہوا تھا کہ امل کو بخار ہے ۔وہ امل سے ملنے بھی گئی تھی مگر خاموشی سے رخ پھیر کر امل نے گویا صاف ،صاف انداز میں جتا دیا تھا "تم جا سکتی ھو" ۔ساتھ گزرے لمحے ،آنکھوں کے سامنے سے گزرتے تو یوں محسوس ہوتا کہ ناجانے کتنی صدیاں بیت گئیں ہیں ۔ ھر کال کو لپک کر اٹھانا جیسا معمول بن گیا تھا ۔ نا جانے کوئی کال دانیال کی ھو ۔۔کیا پتا ؟
سرد شام کے سائے گہرے ہوے تو وہ عقبی لان میں چلی آئی ۔شال اچھے سے اپنے ارد گرد لپیٹے آنکھیں اداسی سے جاتی شام کو تک رہی تھیں ۔ سرمئی آسمان پر پرندوں پر پھیلائے اڑتے چلے جا رہے تھے ۔وہ اپنا رزق سمیٹے اپنے مسکن کو لوٹ رہے تھے ۔
"کہاں ھو تم دانی ؟لوٹ آؤ ۔میں تمہے معاف کر دوں گی ۔بس ایک بار "
وہ دکھی انداز میں بڑبڑائی ۔خشک آنکھوں سے ایک بار پھر گرم سیال بہنے لگے ۔ وہ پاگل نہیں جانتی تھی جس گناہ کے لیے وہ دانیال کو معاف کرنا چاہتی ہے وہ کبھی اس سے سرزد ہی نہیں ہوا تھا ۔کہیں ماضی سے نکل کر لڑکھڑاتا دانیال اس کی طرف آرہا تھا ۔بے اختیار وہ رکی ۔ اور آنکھوں کے ذریعے دل کی پیاس بجھانے لگی ۔
"ہنن۔ہم میسر کیا ہوے لوگ قدر کرنے کا مفہوم ہی بھول گئے "
دانیال کی آواز پاس ہی گونجی ۔ اس کا دل چاہا اس وقت ،کو یہیں روک لے ۔اپنی مٹھی میں قید کر لے ۔مگر افسوس وقت کو اپنی مٹھی میں قید کرنے کا اختیار ہم انسانوں کے بس میں نہیں ہے ۔
" ،انسان کو کسی دوسرے کی قدر و قیمت کا اندازہ تبھی ہوتا ہے جب وہ اس سے بچھڑ جاتا ہے "
دانیال۔ کی سنجیدہ سی آواز پھر کہیں ارد گرد سنائی دینے لگی ۔سماعت کو اس سے بھلی کوئی آواز معلوم نہیں ھو رہی تھی ۔رہ ،رہ کر اسے اپنی بےوقوفی یاد آرہی تھی ۔دانیال کی باتیں شدت سے یاد آرہی تھیں اگر وہ اسے تنگ کرنا چاہتا تھا تو فلک کا جی چاہا چیخ ،چیخ کر کہے ۔دانیال میں بہت تنگ آگئی ھوں ۔واپس آجاؤ ۔
بے بس سی اپنے خالی ہاتھوں کی لکیریں دیکھتی وہ گھٹنوں کے بل زمین پر آگری ۔
"دانی "
ہونٹ ہلے اور وہ بے آواز سی سرگوشی خود میں بہت شدت سمیٹے ہوے تھی ۔شام کے گہرے ہوتے سائے دکھ سے اس لڑکی کی آہ و بکا دیکھ رہے تھے ۔ اپنے کمرے کی کھڑکی سے لان میں دیکھتے اس وجود نے پردے برابر کیے ۔ پھر تھکے ، تھکے قدم اٹھاتا وہ بیڈ پر آگرا ۔
"یہی تمہاری سزا ہے ۔فلک آفندی ۔ایک اچھے لڑکے کا دل دکھایا ہے تم نے ۔ میں تمہیں تب تک معاف نہیں کروں گی جب تک دانی تمہیں معاف نہیں کرے گا ۔اللّه جی میرا بھائی گھر واپس آجائے ۔"
امل نے اپنے آنسو پونجھے ۔ وہ دانیال کے کمرے میں کھڑی ھر تصویر کو چھوتی ماضی کو محسوس کر رہی تھی ۔
۔۔۔۔۔______۔۔۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے آفس میں بیٹھے آریان کی سوچوں کا محور دانیال تھا ۔ اس دن سے دانیال کی چپ نہیں ٹوٹی تھی ۔نا ہی وہ کچھ بتانے کو تیار تھا ۔فہد اور آریان کے اصرار پر وہ بس اتنا بولا۔
"مجھے اپنے کردار کی صفائی پیش نہیں کرنی ،نا آپ لوگوں کے سامنے نا کسی اور کے سامنے ۔ اور فہد اگر تم مجھ سے بے زار ھو گئے ھو تو بتا دو میں چلا جاتا ھوں "
اس کی بات پر مزید ان دونوں نے اسے کچھ نا کہا اور نا اسے کریدا ۔ جانتے تھے کہ وہ بلا کا ضدی اور جذباتی ہے ۔ابھی تو خیر وہ ان کی نظروں کے سامنے ہے مگر اگر واقعی جو وہ ناراض ھو کر چلا گیا تو اسے کہاں ڈھونڈھیں گے ۔؟ دفعتا دروازے پر ہونے والی دستک کی آواز پر وہ خیالات سے باہر آیا ۔
"کم ان "
اس کی بھاری رعب دار آواز پورے کمرے میں گونجی ۔ پی ۔اے کافی لیے اندر آیا ۔
"سر ۔۔۔اے۔سی ۔پی فہد آنے والے ہیں وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں "
آریان نے سر ہلایا ۔
" ہاں جب وہ آئے اسے اندر بھیج دینا "
پی ۔اے کپ رکھنے کے بعد فورا باہر چلا گیا ۔ پانچ منٹ بعد دروازہ کھلا ۔فہد فل یونیفارم میں مسکراتا ہوا اس کی طرف آیا ۔
"جانی خیریت ؟"
آریان نے اس کی پھیلتی مسکراہٹ کی وجہ جاننی چاہی ۔
"دانیال نے سب بتا دیا مجھے "
فہد نے فخریہ انداز میں کالر اچکاتے ہوے ایک انداز سے کہا ۔ آریان نے اپنی بیرڈ کھرچی ۔ بے ساختہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیلی ۔
"اس کا مطلب بلی تھیلے سے باہر آگئی ۔چلو اب جلدی سے بتاؤ سب "
آریان فورا میز پر بازو رکھے آگے کو جھکا۔
"ایسے کیسے بتا دوں پتا ہے کتنا مشکل تھا اس سے سب اگلوانا ۔ بہت زیادہ مشکل ۔ میری جگہ تم ۔۔۔۔"
"ہوتے تو وہ کبھی نہیں بتاتا یہ تو میں ھوں جو سب اگلوا لیتا ھوں ۔بلا بلا بلا ۔۔۔یہی نا ۔ ھو گیا ۔ بس ۔ آگے بولو "
بات کے آخر تک اس کا لہجہ کرخت ھو گیا تھا ۔فہد نے اسے گھورا ۔
"ہنن ۔۔۔چپ رہ ۔۔مجھ پر رعب نا ڈال ورنہ کچھ نہیں بتاوں گا "
فہد اترایا ۔
"اب بول بھی چکو "
آریان بے زار ہوا ۔
"بندہ چائے ،کافی ہی پوچھ لیتا ہے "
فہد مزید اترایا۔ وہ نخرے دکھانے کے موڈ میں تھا ۔
"چپ کر ۔یہ نخرے نور کو دکھانا میں تیری بیوی نہیں جو تیرے نخرے اٹھاؤں "
آریان نے نشانے پر تیر چھوڑا ۔ فہد جھٹکے سے سیدھا ہوا ۔
"لا ھو لا ولا قوت"
وہ بڑبڑایا ۔اور پھر آریان کی گھوری سے خائف ہوتے جلدی ،جلدی سب بتاتا گیا ۔
"اب تو چائے پوچھ لے "
بات کے آخر میں اس نے دہائی دی ۔آریان نے اسے گھورا پھر انٹر کام اٹھایا ۔
"باقر (پی ۔اے ) ذرا فہد صاحب کے لیے اسپیشل چائے تیار کروا کر لائیے گا "
وہ اسپیشل پر زور دیتے ہوے بولا تو فہد کا حلق تک کڑوا ھو گیا ۔اسے پچھلی بار کی اسپیشل چائے یاد آئی جس میں زیادہ پانی دو چمچ دودھ ، بڑے کھلے دل سے ڈالی پتی اور کنجوسی سے ڈالی چینی تھی ۔ اس نے آریان کو گھورا جو مطمئن سا اپنے کام میں مصروف تھا ۔وہ اپنی کیپ سمبھالتا اٹھا ۔
"ہمارے غریب خانے بھی آئیے گا آپ کی تواضع میں انشاء اللّه کوئی کمی نہیں چھوڑیں گے "
وہ "انشاء اللّه " پر بہت زور دے کر بولا ۔آریان نے مسکراہٹ چھپانے کے لیے سر جھکالیا ۔ وہ دروازے تک پہنچا تو آریان کی آواز پر رکا ۔
"اے ۔ سی ۔پی صاحب ۔۔۔چائے تو پیتے جائیں "
لہجے میں شرارت ہی شرارت تھی ۔ فہد نے ارد گرد دیکھا ۔دروازے کے دائیں جانب پڑے ریگ پر رکھے ڈبے میں سے دو تین پین نکال کر اس پر اچھالے ۔
"سر پر مار لینا "
وہ دندناتا ہوا دروازہ دھاڑ سے بند کرتا چلا گیا جب کہ آریان کا قہقہ اسے راہداری سے گزرتے ہوے بھی بخوبی سنائی دیا ۔
۔۔۔۔______۔۔۔۔۔۔۔۔______۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوٹل سے سی ۔سی ٹی وی فوٹیج نکلوانا آریان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا ۔اب اس کا ارادہ "شاہزیب مینشن " جانے کا تھا ۔اس واقعے کے بعد سے آریان وہاں جا ہی نہیں پایا تھا ۔کچھ مصروفیت اور کچھ دانیال کے منع کرنے کی وجہ سے وہ کسی سے بات ہی نہیں کر سکا ۔اس سب پریشانیوں میں شادی کے ہنگامے تھم کر رہ گئے تھے لگتا ہی نہیں تھا کہ کوئی شادی طے پائی تھی ۔ اور تو اور اس دشمن جان کو دیکھ بھی تو ہفتہ گزر گیا تھا ۔ لیکن آج وہ خود کو وہاں جانے سے روک نہیں پا رہا تھا ۔ آج اسے دانیال کا وکیل بن کر جانا تھا ۔اسے زندگی سے یہ امید نہیں تھی کہ زندگی اسے اس دوراہے پر لا کھڑا کرے گی کہ اسے دانیال شاہ کے حق میں بولنا ھو گا اور وہ بھی دانیال کے کردار کے حق میں ۔
۔۔۔۔۔______۔۔۔۔۔۔۔۔______۔۔۔۔......
اداس سی شام نے شاہزیب مینشن پر اپنا ڈیرہ جمایا ۔ لاؤنج میں تاریکی پھیلی ہوئی تھی ۔کھلی کھڑکیوں سے سرمئی شام کی باقی رہتی روشنی اندر پھیلی ہوئی تھی ۔معلوم ہوتا تھا گویا اندھیروں نے یہاں ڈیرہ جما لیا ھو اور وہ ایک شخص اپنے ساتھ ساری روشنی سمیٹے چلا گیا ۔ لاؤنج کے صوفے پر بیٹھے شاہزیب صاحب کی تمام تر توجہ بلاشبہ اونچی آواز میں چلتے ٹی وی پر تھی ۔شاید اونچی آواز ان کے اندر باہر کا شور مٹانے میں ناکام ٹھہری ۔تبھی تو ٹی وی بند کرتے وہ کھڑکی کے پاس جا کھڑے ہوے ۔ دل کبھی اس بات کی نفی کرتا کہ دانیال ایسا نہیں ہے تو کبھی وہ شام ایک کڑوی حقیقت بنے سامنے آکھڑی ہوتی ۔ درد ہی درد تھا جو رگ و پے میں پھیلا ہوا تھا ۔ کبھی دل دلیل دیتا کہ نہیں شاہزیب تمہارا خون اتنا گندا نہیں ھو سکتا اور اسی لمحے دماغ ان تصاویر کی جھلکیاں دیکھانے لگتا ۔ اندر باہر بس شور تھا ۔ لاکھ خود کو مضبوط دکھا لیتے مگر اندر کا باپ زندہ تھا ۔ بیٹے کی التجا اس کا اپنے حق میں بولنا انھے رات بھر سونے نا دیتا ۔ کروٹ کے بل لیٹ کر آنسو تو چھپا لیتے مگر نیند وہ اس دن کے بعد سے جیسے روٹھ گئی تھی ۔نجانے وہ کہاں تھا کس حال میں ھو گا ۔ ۔ ؟ انھیں لگا کہ وہ ان سے مذاق کرے گا وہ جائے گا اور رات تک واپس آکر کہے گا "بابا آپ بھی نا آپ کو لگتا ہے میں نے کسی بات کو سیریس لیا ھو گا ؟لیکن رات کیا ؟ ایک ہفتہ گزر گیا تھا مگر اس کی کوئی خیر خبر نہیں تھی ۔ یونہی باہر تکتے ہوے وہ لاتعداد سوچوں میں غرق تھے کہ جب اپنے پیچھے کسی کی موجودگی سے وہ چونکے اور مڑے ۔ اپنے پیچھے کھڑی بے حال سی اپنی شریک حیات کو دیکھ کر انھیں دوہرے ملال نے آگھیرا ۔ وہ آج ہفتے بعد ان کے سامنے تھیں ۔وگرنہ اس دن سے وہ دانیال کے کمرے میں ہی تھیں ۔
"اسما آپ ؟"
وہ تڑپ کر بولے ۔ مزید جیسے زبان ہلنے سے انکاری ھو گئی ۔ وہ اپنی جگہ چور سے بن گئے ۔ الجھے بال ، متورم آنکھیں جو ان کے مسلسل رونے کی چغلی کھا رہی تھیں ۔ سوکھے ہونٹ ،شکن آلود لباس وہ کہیں سے بھی مسکراتی ،چہکتی اور نفیس سی اسما نہیں لگ رہی تھیں ۔
"شاہزیب میرا دانی لا دیں مجھے ۔۔۔میرا دانی لا دیں ۔ شاہزیب وہ ناجانے کہاں ھو گا ۔کس حال میں ھو گا ۔میرے بچے کو معاف کر دیں ۔۔اسے لے آئیں ۔۔۔شاہ میں ماں ھوں اس کی میں جانتی ھوں میرا بچہ ایسا نہیں ہے آپ اسے ڈھونڈھتے کیوں نہیں ہیں ۔شاہ آپ سن رہے ہیں نا "
وہ ان کے کندھے پر سر ٹکائے آنسو بہاتی سسکتی ہوئی بولیں ۔ شاہزیب صاحب نے خود کو فنا ہوتے محسوس کیا ۔
"اسما سمبھالیں خود کو ادھر دیکھیں "
ان کا سر اپنے کندھے سے ہٹا کر ان کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے ہوے انہوں نے انھیں اپنی جانب متوجہ کیا ۔بہت محبت سے اپنی انگلی کے پوروں پر ان کے آنسو چنے ۔
"میں بھی دکھی ھوں ۔میرا بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے یہ سوچ کر کہ وہ کہاں ھو گا ۔مگر جو اس نے کیا ۔۔۔"
اسما بیگم نے آنسو سے لبالب آنکھیں اٹھا کر انھیں دیکھا ۔
"میرا بیٹا ایسا نہیں ہے ۔۔۔نہیں ہے وہ ایسا ۔۔مت کہیں ایسا اسے ۔۔۔خدارا رحم کریں مجھ پر اور اسے ڈھونڈھ لیں ۔۔میرا دانی لا دیں ۔"
وہ بولتے ،بولتے ان کے بازووں میں جھول گئیں ۔ شاہزیب صاحب نے آواز دے کر نور اور امل کو بلایا ۔وہ دونوں دھوڑتی ہوئی نیچے آئیں ۔
"مما کیا ہوا ہے آپ کو مما آنکھیں کھولیں ۔"
شاہزیب صاحب نے انھیں صوفے پر لٹایا امل ان کے پاس بیٹھ کر ان کے ہاتھ پاؤں سہلانے لگی ۔آگے بڑھ کر شاہزیب صاحب نے لائٹ چلائیں ۔ نور دھوڑ کر کچن سے پانی کا گلاس لے آئی ۔ پانی کے چھینٹے مارنے سے وہ کسمساتے ہوے ہوش میں آئیں اور اپنا سر تھاما ۔
"نور لگتا ہے مما کا بی پی لو ہے "
امل ان کے ہاتھ پاؤں ہنوز سہلا رہی تھی ۔نور نے ایک نظر انھیں دیکھا پھر واپس کچن میں چلی گئی واپس آئی تو ہاتھ میں ٹرے تھی ۔جلدی ،جلدی ہاتھ چلاتے ہوے نور نے سپرائٹ گلاس میں ڈالی اس میں نمک ملانے کے بعد وہ اسما بیگم کے پاس بیٹھی اور انھیں سپرائٹ پلائی ۔
"چلیں مما آپ کو آپ کے کمرے تک چھوڑ آوں ۔آرام کر لی جئیے ۔اور دوائی بھی تو کھانی ہے "
بازؤں کے سہارے امل اور نور انھیں پکڑتے ہوے ان کے کمرے تک لے گئیں ۔شاہزیب صاحب اپنے دکھتے سر کو سمبھالتے صوفے پر گرنے کے انداز میں آبیٹھے ۔ابھی انھیں بیٹھے چند ثانیے ہی گزرے تھے کہ داخلی دروازہ کھول کر آریان اندر داخل ہوا ۔فل یونیفارم میں سنجیدہ سا چہرہ لیے وہ ناک کی سیدھ میں چلتا انہیں تک آگیا ۔
"السلام علیکم"
"وعلیکم السلام ۔بیٹھو بیٹا "
انہوں نے صوفے کی طرف اشارہ کیا تو آریان ایک نظر انھیں دیکھتا صوفے پر ان کے برابر میں ہی بیٹھ گیا ۔
"کبھی سوچا نہیں تھا انکل کہ مجھے آپ کو دانیال کے کردار کی صفائی پیش بھی کرنا پڑے گی مگر اب لگتا ہے یہ ضروری ہے میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہ سکتا ۔ "
"کیا کہنا چاھتے ھو کھل کر کہو "
سنجیدہ لہجے میں کہتے وہ اس کی طرف رخ کیے بیٹھ گئے ۔
"یہ آپ کو دیکھنی چاہیے ۔"
اس نے مزید کچھ کہے بغیر ایک خاکی لفافہ ان کی جانب بڑھایا جسے انہوں نے فورا پکڑا ۔ تبھی اسما بیگم کو سلانے کے بعد امل اور نور ان کے کمرے سے نکلیں ۔ امل کی نظر آریان پر پڑی تو آنکھیں پانی سے بھربے لگیں ۔ منہ پر ہاتھ رکھے اپنی سسکی کا گلا گھونٹتے وہ سیڑھیوں کی جانب دھوڑی ۔
"امل یہاں آو "
آریان کی آواز پر وہ رکی مگر مڑی نہیں ۔نور ابھی تک دروازے کے پاس کھڑی تھی ۔
"سنائی نہیں دیا یہاں آو "
اب کی بار وہ کرخت لہجے میں بولا ۔امل نپے تلے قدم اٹھاتی اس تک آئی ۔پلکوں کی جھالر اٹھا کر اسے دیکھا جو سنجیدہ مگر نرم نگاہوں سے اسی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔رونے کے باعث اس کی سوجھی آنکھیں اور بخار سے مرجھایا چہرہ دیکھ کر آریان کا دل ڈوب کر ابھرا ۔
"یہ ڈی وی ڈی پلے کرو "
آریان نے شاہزیب صاحب سے لے کر وہ ڈی وی ڈی امل کو پکڑائی ۔امل نے حیران نظروں سے اسے دیکھا جیسے جاننا چاہ رہی ھو "یہ کیا ہے "
"چلا کر خود دیکھ لو "
اطمینان سے کہتے ہوے اس نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی ۔ امل ایل ۔ای ۔ڈی کے پاس گئی اور ڈی وی ڈی پلیئر میں ڈی وی ڈی لگائی ۔ ایل۔ای ۔ڈی پر کچھ توقف کے بعد ایک ہوٹل کی فوٹیج چلنے لگی ۔ سینسر نے دروازہ کھولا تو قدرے نارمل قدم اٹھاتا دانیال اندر آیا ۔ پھر ارد گرد دیکھ کر گویا وہ کسی کو ڈھونڈھ رہا تھا دور سے ہی ہاتھ ہلاتے ہوے اس نے اس جانب تیزی سے قدم اٹھائے تبھی سامنے سے آتی ایک لڑکی سے ٹکرا گیا ۔
"امل ویڈیو روکو "
امل نے وہی کیا ۔
"اب زوم کرو ۔۔ہاں ٹھیک ہے ،لڑکی کے چہرے پر ۔۔بس ٹھیک "
وہ امل کو ہدایات دیتا رہا ۔اب ایل ۔ای ۔ڈو پر لڑکی کا چہرہ واضع تھا ۔
"نور وہ تصاویر لے کر آو "
نور نے وہیں ٹی وی لاؤنج کے تیسرے دراز سے تصاویر کا لفافہ اٹھایا اور آریان کو دیا ۔
"یہ دیکھیں لڑکی کا چہرہ اور وہ بھی دیکھیں "
اس نے تصویر والی لڑکی اور ایل۔ای ۔ڈی پر نظر آتی لڑکی کی تصویر کی طرف اشارہ کیا ۔ تصویر دیکھتے لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ چونکے ۔
"زوم اوٹ کرو "
شاہزیب صاحب نے اب کی بار کہا تھا امل نے فورا ایسا ہی کیا ۔شاہزیب صاحب نے تیسری تصویر کو اٹھایا ۔ جس طرح تصویر میں دانیال اسے پکڑے کھڑا تھا اسی طرح اب پکڑا ہوا تھا ۔ آریان تمسخرانہ انداز میں ان کے چہرے کی اڑتی ہوائیاں دیکھ رہا تھا ۔
"پلے کرو ویڈیو "
اب ویڈیو میں وہ دونوں ایک ساتھ نیچے گرے ۔ لڑکی طنزیہ مسکرا رہی تھی جیسے تصویر میں مسکرا رہی تھی ۔ اور اس کے بعد وہ نیچے گری ،روئی ۔، دانیال اٹھتے ہوے ہاتھ اٹھا کر کچھ بولتا یقینا معذرت کر رہا تھا ۔ مینیجر دانیال کے پاس کھڑا کچھ کہہ رہا تھا غالباً معذرت کر رہا تھا ۔دانیال نے ہنس کر نفی میں سر ہلایا ۔اور اس کا شانہ تھپتھپاتا وہاں سے چلا گیا ۔ لیکن تصاویر بس گرنے سے پہلے تک کی تھیں ۔ اس مہارت سے ایڈٹ تھیں کہ خود تصویر بھی حقیقت پہچاننے سے انکار کر دیں ۔ اور آریان انھے دھمکیوں،اصغر رحمانی اور اس ٹینڈر کے بارے میں سب بتاتا گیا ۔
"یہ ہے آپ کا بیٹا دانیال ۔۔۔ جس پر آپ سے زیادہ مجھے مان ہے ۔"
وہ کہہ کر رکا نہیں داخلی دروازہ پار کرتا چلا گیا ۔ مڑ کر ایک نظر اس نے امل کو دیکھا جو ممنونیت کے زیر اثر تشکر بھرے انداز سے اسے دیکھ رہی تھی ۔ اسے دانیال کے الفاظ یاد آئے ۔
"صرف مما اور امل کو مجھ پر یقین تھا صرف وہ میرے لیے اسٹینڈ لے رہی تھیں "
آریان مسکراتی نظر اس پر ڈال کر وہاں سے جا چکا تھا مگر جاتے وقت تصاویر اور ڈی وی ڈی لے کر گیا تھا اسے ابھی "آفندیز "کی آنکھیں بھی کھولنا تھیں ۔آریان جا چکا تھا انھیں حقیقت دکھا کر ،وہ جیسے صوفے پر ڈھ سے گئے ۔ انھے ھر طرف سے پچھتاوں کا ناگ ڈسنے لگا ۔ وقت گزرتا ہے ،انسان چلے جاتے ہیں اور پیچھے رہ جانے والوں کے واسطے بس پچھتاوے ہی پچھتاوے رہ جاتے ہیں ۔
"بابا "
امل ان کے قریب آئی ۔
"میں اکیلا رہنا چاہتا ھوں "
انہوں نے رخ موڑا ۔ امل نے نور کو اشارہ کیا وہ دونوں انھیں ایک نظر دیکھتیں وہاں سے چلی گئیں ۔اور وہ تہی دامن بیٹھے رہ گئے ۔ رخ موڑ کر کھڑکی سے باہر ڈھلتی شام کو دیکھنے لگے ۔ایسا اندھیرا وہ اپنے اندر ھر طرف محسوس کر رہے تھے ۔آریان کے کاٹ دار الفاظ انھیں یاد آئے ۔
"یہ ہے آپ کا بیٹا دانیال ۔۔۔ جس پر آپ سے زیادہ مجھے مان ہے ۔"
ان کی آنکھوں سے دو بے نام سے آنسو نکل کر گریبان میں جذب ھو گئے ۔ مڑ کر انہوں نے اپنے کمرے کا بند دروازہ دیکھا جہاں ان کی زوجہ گولیوں کے زیر اثر نیند میں محو تھیں ۔ جنہے اس واقع نے توڑ کر رکھ دیا تھا ۔
"بابا جان "
دانیال کی نمناک آواز انھے اپنے ارد گرد سنائی دی تو وہ بے چین سے ھو کر پہلو بدل گئے ۔
"دانی میرا بیٹ۔۔"
وہ رکے انھیں اپنے ہی الفاظ یاد آئے ۔
"نہیں ھوں تمہارا باپ میں ۔ مر گیا وہ شاہزیب جسے تم جیسے بیٹے کے ہونے پر غرور تھا ۔ ملا دیا میرا غرور خاک میں تم نے ۔۔۔خاک کر دیا مجھے ۔ ...چلے جاؤ یہاں سے ۔نکل جاؤ یہاں سے "
انھیں اپنی ہی ڈھیٹ آواز سنائی دی ۔
"نکل جاؤ یہاں سے دفع ھو جاؤ ۔۔خود دفع ھو گے یا گارڈز بلاؤں ؟"
سفاک بہت ہی سفاک لہجہ انھیں سنائی دیا ۔دل کو حیرت ھو رہی تھی کہ یہ لہجہ انہی کا ہے ۔دل میں میٹھا ،میٹھا سا درد سر اٹھا رہا تھا ۔
"بابا میری بات سنیں یہ ایسا نہیں ہے جیسا دکھایا ہے یہ ایکسیڈنٹ تھا ۔۔۔ "
وضاحت دیتا لہجہ ۔
اچھا تو آپ لوگ مجھے سرپرائز دینے والے ہیں ۔"
مسکراتا لہجہ ۔
" ایک بار میری بات سنیں ۔۔"
التجا کرتا لہجہ ۔
"میرا قصور ؟"
بے گناہ لہجہ ۔
"بابا ۔۔"
آخری کوشش کرتا لہجہ ۔
"،کہاں جائے گا وہ "
اسما بیگم کی آواز قریب گونجی۔ آنسو متواتر بہہ رہے تھے ۔
"میری بلا سے مر جائے ۔"
انتہائی سفاک لہجہ ۔
"یہ میں نے کیا کر دیا ۔کیا کر دیا میں نے "
انہوں نے پاگلوں کی طرح سر پیٹتے ہوے چلا کر کہا ۔
"یہ ہے آپ کا بیٹا دانیال ۔۔۔جس پر آپ سے زیادہ مجھے مان ہے "
"نہیں ھو تم میرے بیٹے ۔۔خاک کر دیا تم نے مجھے ۔۔تم۔ جیسی اولاد پیدا ہوتے ہی مر جائے "
اپنی ہی سفاک آواز ارد گرد سنائی دینے لگی پھر اسی کی باز گشت سنائی دی ۔ بائیں کندھے میں درد اٹھتا جو دل تک جا رہا تھا مگر وہ بے پروا سے ھو کر رو رہے تھے ۔
"یہ ہے آپ کا بیٹا ۔۔۔
"آپ سے زیادہ مجھے مان ہے "
"بابا ایک بار اس کی بات سنیں ہمارا دانی ایسا نہیں ہے "
امل کی آواز گونجی ۔
"بابا "
"میری بلا سے مر جائے "
انہوں نے بے چین ھو کر سینا مسلا ۔
"مر جائے "
انھیں سانس لینے میں دشواری ھو رہی تھی ۔انہوں نے صوفے سے اٹھ کر کمرے میں جانا چاہا مگر آنکھوں کے آگے اندھیرا چھایا اور وہ لڑکھڑا کر نیچے قالین پر اوندھے منہ گرے ۔
"دانیال "
آخری لفظ جو ان کے منہ سے ادا ہوا وہ یہی تھا ۔
۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔۔
اپنے کمرے میں بیٹھی امل زور و شور سے رو رہی تھی اور نور اس کا کندھا تھپتھپاتی غمگین نظر آرہی تھی ۔
"امل رونا بند کرو "
"نور ۔۔۔"
اس کی ہچکی بندھی ۔نور نے پانی کے جگ کی تلاش میں نظر گھمائی ۔
"تم بیٹھو میں پانی لاتی ھوں "
امل نے سر ہلایا اور ڈوبٹہ اتار کر ایک طرف رکھا پھر روتے ہوے سر سرہانے پر گرا لیا ۔نور یاسیت سے اسے دیکھتی کمرے سے نکلی ۔ ریلنگ سے نیچے جھانک کر اس نے دیکھا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔جگ چھوٹ کر پاؤں کے قریب جا گرا اور ٹکرے ،ٹکرے ھو گیا۔ایک زور دار چیخ مارتے ہوے وہ نیچے کی طرف دھوڑی ۔ اپنے کمرے میں لیٹی امل حیران ہوتی ننگے پاؤں اور ڈوبٹہ سے بےپرواہ دھوڑتی ہوئی ریلنگ کے پاس آئی ۔نظر ٹوٹے جگ پر گئی ۔جھک کر اس نے نیچے دیکھا تو اس کا حال بھی نور سے مختلف نہیں تھا ۔تیزی سے سیڑھیاں اترتی وہ نیچے آئی ۔ دونوں نے مل کر شاہزیب صاحب کو سیدھا کیا ۔ نور نے ان کی نبض ٹٹولی ۔جو بہت دھیمے انداز میں چل رہی تھی ۔
"امل انکل کی ہارٹ بات بہت سلوو ہے "
نور نے شاہزیب صاحب کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتی امل کو آگاہ کیا ۔ امل نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا ۔نور کو اس کی آنکھوں میں وحشت ناچتی نظر آئی ۔ وہ اٹھی اور ڈوبٹے اور جوتے سے پےپرواہ ، کھلے بالوں میں پاگلوں کی طرح دھوڑتی ہوئی لاؤنج کا داخلی دروازہ پار کر گئی ۔اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں ،سر چکرا رہا تھا مگر اسے اپنے بابا کی زندگی کے لیے دھوڑنا تھا ۔وہ ہواس باختہ دھوڑ رہی تھی۔آفندیز کے گیٹ پر موجود گارڈ نے حیرانی سے دروازہ کھولا ۔ امل یونہی روتے ،بھاگتے لاؤنج میں داخل ہوئی ۔ لاؤنج میں ایل ۔ای ۔ڈی کے پاس بیٹھی فلک ساکت تھی ۔ہاتھوں میں پکڑی تصویر کو وہ گومگو کیفیت میں دیکھ رہی تھی ۔آہٹ پر لاؤنج میں بیٹھے سب نفوس کی نظر امل پر پڑی ۔ جو بے حال نظر آرہی تھی ۔ سیڑھیاں اترتا آریان اسے ایسے حلیے میں کھڑا دیکھ کر ششدر رہ گیا ۔ اس نے ارفع بیگم کی طرف دیکھا جنہوں نے اپنی شال اتار کر اسے دی ۔شال پکڑے وہ امل تک آیا ۔ جو آنسو بھری آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔اس کے سامنے کسی محافظ کو طرح کھڑے آریان نے اس کے ارد گرد شال لپیٹی ۔
"بابا ۔۔ہوش نہیں ۔۔۔ہارٹ بیٹ لو ۔۔میرے بابا "
بے ربط جملے بولتے ہوے وہ چکرا کر گرنے لگی کہ آریان نے بےساختہ اسے تھاما ۔
"او شٹ ۔۔۔۔صارم بھائی گاڑی لے کر جائیں انکل شاہزیب کو ہوسپٹل لے جائیں ۔ فلک آکر امل کو سمبھالو ۔ "
آریان نے امل کو بازؤں میں اٹھایا اور آگے بڑھ کر اسے صوفے پر لٹا دیا ۔ فلک چونکی اور دھوڑ کر امل تک آئی ۔عالیہ کچن کی طرف دھوڑی ۔ آریان اور صارم فرحان صاحب کے ساتھ شاہزیب مینشن چلے گئے ۔
۔۔۔۔______۔۔۔۔۔۔۔______۔۔۔۔
شاہزیب صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا ۔ٹریٹمنٹ کے بعد سے اب تک وہ بے ہوش تھے ۔نور اور اسما ہوسپٹل آچکی تھیں ۔صبح کے پانچ بج گئے تھے ۔ امل کو جب سے ہوش آیا تھا وہ مسلسل رو رہی تھی ۔مگر ابھی بھی اس نے فلک سے کوئی بات نہیں کی تھی ۔فلک بھی اس کے ساتھ رو رہی تھی ۔ عالیہ سے اب امل کو سمبھالنا مشکل ھو رہا تھا ۔ تبھی آریان داخلی دروازے سے داخل ہوا ۔وہ امل کو لینے آیا تھا ۔ عالیہ اور فلک نے اسے دیکھا ۔ آریان نے انھے جانے کا اشارہ کیا ۔عالیہ کچن میں چلی آئی جہاں پرہیزی کھانا تیار ھو رہا تھا ۔فلک بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ آریان لمبے ،لمبے ڈگ بھرتا امل تک آیا ۔
"امل "
اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ کر وہ بہت نرم لہجے میں گویا ہوا ۔امل نے آنسوؤں سے بھری آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ آریان کو ان گہری آنکھوں میں حزن ،و دکھ کے سوا کچھ نظر نہیں آیا ۔
"ہم ہوسپٹل جائیں گے ابھی تم نے رونا نہیں ہے انکل کو دیکھ کر وہ پہلے ہی بہت پریشان ہیں تمہے ایسے دیکھ کر مزید پریشان ھو جائیں گے "
آریان اسے سمجھاتے ہوے بولا اور بہت پیار و مان سے اس کے چہرے پر سے آنسو صاف کیے ۔
"اب رونا نہیں ہے بس چپ "
امل فورا سر ہلاتے ہوے چپ ہوئی ۔ آریان نے کندھے پر جھولتی اس کی شال کو پکڑا اور اس کے سر پر دے کر سلیقے سے اس کے ارد گرد لپیٹ دیا ۔
"چلو آو ،"
امل نے ایک نظر اس کے بڑھے ہوے ہاتھ کو دیکھا اور پھر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔ وہ دونوں گیٹ سے باہر آگئے جہاں آریان کی گاڑی کھڑی تھی ۔اسے سیٹ پر بیٹھا کر اس کی جانب کا دروازہ بند کرنے کے بعد آریان گھوم کر اپنی طرف والی سیٹ پر آنے لگا تبھی کسی نے اسے آواز دی ۔مڑ کر دیکھا تو پیچھے فہد کھڑا تھا ۔
"خیریت ہے یار ۔۔بھابھی کی ایسی حالت ۔؟"
فہد نے حیرانی سے پوچھا ۔ وہ نماز پڑھنے کے بعد مسجد سے لوٹ رہا تھا۔ اس دن سے دانیال تو گھر ہی نماز پڑھتا تھا مگر وہ حیران تھا کہ آج آریان نماز پڑھنے کیوں نہیں آیا ۔اس کا ارادہ آفندیز کے ہاں سے ھو کر جانے کا تھا ۔تبھی اسے آریان اور اس کے ساتھ امل باہر آتے نظر آئے ۔وہ لپک کر ان تک آیا تھا ۔
"انکل شاہزیب کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے "
آریان نے اسے بتایا تو اس نے دکھ سے سر ہلایا ۔
"جاؤ تم لوگ پھر "
"،ہممممم ۔۔۔"
آریان نے جلدی سے ڈرائیونگ سیٹ سمبھالی ۔ اور ایک نظر فہد کو دیکھتا گاڑی بھگا کر لے گیا ۔ سارے راستے امل خاموشی سے گاڑی سے باہر دیکھتی رہی ۔ جس وقت وہ آئی۔سی۔ یو کے پاس پہنچے ۔اسی وقت ایک نرس آئی۔سی ۔یو سے نکلی اور بنا ان کی طرف دیکھے وہ ڈاکٹر کے کیبن کی طرف دھوڑی ۔
"آریان میرے بابا "
امل نے روہانسے لہجے میں اس کی طرف مڑتے ہوے پوچھا ۔
"سب ٹھیک ہے ۔۔ششش ۔۔۔رونا نہیں ہے "
آریان نے اسے خاموش کروایا ۔ چیر پر بیٹھی نور اس کی طرف آئی اور اسے کندھوں سے تھامے واپس لے جا کر چیر پر بٹھایا ۔ ڈاکٹر نرس کے ساتھ آئے اور آئی ۔سی ۔یو میں چلے گئے ۔
"نور ادھر آو "
نور سر ہلاتی آریان کے پاس آئی ۔
"انٹی اور صارم بھائی کہاں ہیں ؟"
"خالہ جانی نماز پڑھنے گئی تھیں اور صارم بھائی دوائیاں لینے میڈیکل اسٹور تک گئے ہیں ۔ "
"ہمممممم ٹھیک ہے ۔۔امل اور انٹی کا خیال رکھو ۔"
تبھی ڈاکٹر باہر آئے اور فرحان صاحب کی طرف چلے آئے ۔آریان بھی فورا ان کی طرف آیا ۔
" آپ میں سے دانیال کون ہے ؟"
"ڈاکٹر وہ ان کے بیٹے ہیں ۔وہ گھر گئے ہیں کسی کام سے ۔"
آریان نے وضاحت دی ۔
"تو آپ کون ہیں مریض کے ؟"
"میں ان کا داماد ھوں "
آریان کے کہنے پر ڈاکٹر نے سر ہلایا ۔
"مسٹر آریان آپ کو میرے ساتھ چلنا ھو گا "
آریان ڈاکٹر کے ساتھ ان کے کیبن تک چلا آیا ۔ ڈاکٹر کے سامنے والی کرسی سمبھالتے ہوے آریان پریشان نظر آرہا تھا ۔
"ایسا ہے کہ شاہزیب صاحب ابھی غنودگی میں ہیں اور دانیال یعنی اپنے بیٹے کو مسلسل بلا رہے ہیں ۔یہ ہارٹ اٹیک بہت زیادہ سٹریس کی وجہ سے آیا ہے میں نہیں جانتا آپ کے فیملی ایشو کیا ہیں اور دانیال یہاں کیوں نہیں ہیں ۔ہمیں اپنے مریض کی صحت سے کنسرن ہے ۔ دانیال یہاں ھوں گے تو یہی بہتر رہے گا ۔ شاید دانیال کی موجودگی انھے مکمل ہوش میں لے آئے ورنہ اگر یونہی چلتا رہا تو ۔۔"
ڈاکٹر نے بات ادھوری چھوڑ کر سنجیدگی سے آریان کو دیکھا ۔گہرا سانس بھرتے ہوے آریان نے سر ہلایا ۔ تھکے ،تھکے قدم اٹھاتا وہ کیبن سے باہر آیا ۔نا جانے دانیال مانے گا یا نہیں ۔مگر آریان کے لیے اس وقت شاہزیب صاحب کی زندگی اہم تھی ۔ فون پر فہد کا نمبر ملاتے وہ کونے میں آکھڑا ہوا ۔
"فہد ۔۔۔ دانیال کو ہوسپٹل لے آو "
آریان نے سلام کے فورا بعد کہا اور فہد کی سنے بغیر کال کاٹ دی ۔
۔۔۔۔۔_______۔۔۔۔۔۔۔۔______۔۔۔۔۔۔
سورج کی کرنیں چھن ،چھن کرتی کمرے کی ھر شے کو روشنی میں نہلا رہی تھیں ۔ کمرے میں گہری مایوسی کے بادل چھائے ہوے تھے ۔بیڈ پر نیم دراز دانیال کی آنکھیں ایک ہی نقطے پر جمی ہوئی تھیں ۔یہاں تک کہ آنکھوں میں پانی بھر آیا ۔اس نے فورا نظر ہٹائی اور آنکھیں پونجھیں ۔ دل اداس تھا بہت زیادہ اداس ۔شوخی بھری آنکھوں میں اداسی کے گہرے سائے تھے جب کہ وہ ہونٹ جو ھر لمحہ مسکراتے رہتے تھے اب ساکت تھے ۔ پچھلے ایک ہفتے سے وہ خود سے جنگ لڑ رہا تھا ۔ زندگی ایک پل میں کہاں سے کہاں آپہنچی تھی ۔ وہ قسمت کی بساط کے پلٹنے پر حیران تھا ۔ تبھی تیزی سے دروازہ کھولتا فہد اندر آیا ۔ وہ ہانپ رہا تھا ۔
"دانی چلو میرے ساتھ ابھی ۔۔فوراً "
وہ تیزی سے بولا ۔ دانیال بستر سے اترا ۔وہ حیران نظر آرہا تھا ۔
"پر کہاں ؟"
"ہمیں فورا ہسپتال جانا ہے "
فہد نے باہر نکلتے ہوے کہا ۔ دانیال بھی اس کے پیچھے ھو لیا ۔
"خیریت ؟ہسپتال ۔۔کون ہے ۔۔فہد کچھ بتا"
فہد کو خاموش دیکھ کر دانیال چلایا ۔مگر وہ ہنوز سپاٹ انداز میں گاڑی چلا رہا تھا ۔
"فہد بول "
دانیال دوبارہ چلایا ۔کچھ انہونی ہونے کا احساس دل دھڑکا رہا تھا ۔
"تمہارے بابا کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے ۔ آریان نے فورا ہسپتال بلایا ہے باقی مجھے خود بھی معلوم نہیں "
ہسپتال کے پارکنگ لاٹ میں گاڑی کھڑی کرتے ہوے فہد نے دانیال کے سر پر دھماکہ کیا ۔ایک لمحے میں دانیال کی ذات زلزلوں کی زد میں تھی۔فہد کسی اور شخص کی نہیں اس کے باپ کی بات کر رہا تھا ۔اس کے آگے دانیال کو نا کچھ جاننا تھا نا وہ جاننا چاہتا تھا ۔بغیر فہد کی سنے اپنی جانب کا دروازہ کھولتا وہ دیوانہ وار اندر کی جانب دھوڑا ۔فہد بھی اس کے پیچھے ھولیا ۔ ریسپشن پر سے شاہزیب صاحب کے بارے میں جان کر وہ آئی ۔سی ۔یو کی طرف بھاگا ۔ اس وقت وہ باپ پر جان لٹاتا دانیال لگ رہا تھا ۔ وہ لڑائی وہ شام سب کچھ بہت پیچھے رہ گیا تھا ۔ یاد تھا تو بس یہ کہ آئی۔سی ۔یو میں زندگی اور موت کے درمیان پڑا شخص اس کا باپ ہے جس نے آج تک اسے زمانے کی سرد و گرم سے بچائے رکھا ۔ہمیشہ اس کی حفاظت کے لیے اپنے پر ظالم زمانے کی طرف کیے اور ان پروں کے بیچ اولاد کو سمیٹے رکھا ۔ یہ پہلی بار تھا کہ زمانے کی سرد و گرم سے وہ دانیال کو بچا نہیں پائے ۔مگر دانیال کو انھیں بچانا تھا ۔ آئی سی یو کے باہر بیٹھی امل ،نور اور اسما بیگم نے آہٹ پر سر اٹھایا تو سامنے آنسوؤں سے بھیگی آنکھیں لیے دانیال کھڑا آئی۔سی ۔یو کے بند دروازے کو دیکھ رہا تھا ۔
"دانیال میری جان "
اسما بیگم لپک کر اس کے پاس آئیں اور اپنی بانہیں وا کیں ۔ دانیال نے فورا ان کی مہربان آغوش میں پناہ لی ۔
"مما ۔۔۔۔ بابا ۔۔۔مجھے ان سے ملنا ہے وہ مجھے بلا رہے ہیں "
وہ نم لہجے میں ان سے علیحدہ ہوتے ہوے بولا۔ امل اسے دیکھ کر مسکرائی ۔ لیکن اس کے پاس نہیں آئی ۔جانتی تھی کہ ابھی اس سے زیادہ شاہزیب صاحب کو دانیال کی ضرورت تھی ۔دانیال ڈاکٹر سے اجازت ملنے پر ان کے ساتھ آئی ۔سی ۔یو میں داخل ہوا ۔ وینٹیلیٹر پر سانس لیتے سامنے بیڈ پر لیٹے وہ صدیوں کے بیمار لگ رہے تھے ۔ ڈاکٹر نرس کو کچھ ہدایات دے کر چلے گئے تو دانیال شاہزیب صاحب کے پاس آیا ۔جھک کر ان کا ہاتھ چوما ۔
"بابا میں آگیا ھوں ۔۔بابا آنکھیں کھولیں "
اس کے آنسو شاہزیب صاحب کے ہاتھ پر گر رہے تھے ۔ شاہزیب صاحب کو غنودگی میں محسوس ہوا کہ کوئی ان کے ہاتھ پر سر رکھے روتے ہوے کچھ بڑبڑا رہا ہے ۔
"بابا ۔۔۔"
اس پکار میں کتنی تڑپ تھی اور تڑپ تو شاہزیب صاحب بھی گئے تھے اپنے لخت جگر کی آواز سن کر ۔ دانیال کو محسوس ہوا جیسے شاہزیب صاحب کا ہاتھ ہلا ۔اس نے جھٹکے سے سر اٹھا کر انھیں دیکھا ۔
"بابا پلیز آنکھیں کھولیں ۔۔مما ۔۔،امل آپ کا انتظار کر رہی ہیں وہ ٹوٹ جائیں گی بابا ، اور میں ۔۔۔ہاں میں بھی آپ کا انتظار کر رہا ھوں میں تو مر جاؤں گا بابا ۔۔پلیز بابا آنکھیں کھولیں ۔"
وہ سسکتے ہوے بولا ۔ شاہزیب صاحب نے آنکھیں کھولیں ،روشنی پڑتے ہی دوبارہ آنکھیں بند کیں پھر آنکھیں جھپک ،جھپک کر ماحول سے آشنا ہوے ۔
"دانی ۔۔۔"
ان کے ہاتھ پر سر جھکائے وہ جو رو رہا تھا فورا سر اٹھا کر انھیں دیکھا ۔وہ ماسک اتارے بہت محبت سے بول رہے تھے ۔
"بابا ۔۔۔۔"
دانیال احتیاط سے ان کے گلے آلگا ۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔
"بس اب روئیں مت میں آگیا ھوں "
دانیال ان سے علیحدہ ہوکر ان کے آنسو پونجھتے ہوے بولا ۔انہوں نے نقاہت کے باوجود اپنے دونوں ہاتھ جوڑے ۔
"مجھے ۔۔۔"
"بابا جان "
دانیال نے سرعت سے ان کے ہاتھ علیحدہ کیے ۔
"بابا مجھے کافر مت کریں ۔۔آپ کو خدا کا واسطہ ہے بابا ۔۔۔یہ مت کریں ۔ باپ بیٹے پر لاکھ بار بھی ہاتھ اٹھا لے ،بیٹے کو یہ حق نہیں کہ وہ اف تک بھی کر جائے ۔ یوں ہاتھ جوڑ کر مجھے میری ہی نظروں میں نا گرائیں بابا ۔ "
شاہزیب صاحب نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا ۔پھر آنسو صاف کیے ۔
"اچھا ٹھیک ہے میرے باپ ۔۔۔!!! (وہ ہنسے تو دانیال بھی ہنس دیا )کل سے آفس جوائن کرو ۔۔۔تم نہیں تھے تو بہت نقصان ہوا آفس کو ۔علی بھی تمہیں مس کر رہا ہے بہت "
شاہزیب صاحب نے خوبصورتی سے بات بدل دی ۔
"میں بھی اپنا کھانا بہت مس کر رہا ھوں ایک ہفتے کچھ خاص کھایا نہیں ۔بہت کمزور ھو گیا ھوں ۔آدھی کثر علی سے اور آدھی گھر مما کے ہاتھوں کا کھانا کھا کر پوری کروں گا ۔ "
دانیال کے کہنے پر دونوں کا قہقہ بے ساختہ تھا ۔
۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔/////۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔
دانیال کو واپس آئے پندرہ روز ھو چکے تھے ۔ شاہزیب صاحب بھی چار روز بعد ڈسچارج ھو کر واپس گھر آگئے تھے ۔ دانیال جب سے آیا تھا آفندی مینشن نہیں گیا تھا ۔سب وجہ جانتے تھے مگر خاموش رہے ۔ شادی کی تیاریاں ایک بار پھر زور پکڑنے لگیں ۔ شادی میں اب گنے چنے دن ہی رہ گئے تھے ۔ فلک خود میں ہمت پیدا کرتی مگر پھر ناکام رہ جاتی ۔روز وہ سوچتی کہ آج دانیال کے پاس جائے گی اور روز اپنے ہی الفاظ یاد آتے تو خاموش رہ جاتی ۔ عائشہ بیگم کے بہت سا سمجھانے پر وہ آج دانیال سے ملنے کا پکا ارادہ کر چکی تھی ۔ شام ہوئی تو فلک کالی شلوار قمیض پر سندھی کڑھائی والا خوبصورت ڈوبٹھ لیے کانوں میں خوبصورت جھمکے اور سوٹ کا ہم رنگ کھسہ پہنے "شاہزیب مینشن " چلی آئی ۔ لاؤنج میں اسما بیگم اور شاہزیب صاحب بیٹھے چائے پی رہے تھے ۔اسما بیگم نے آہٹ پر سر اٹھایا تو فلک کو کھڑا پایا ۔ بے ساختہ انہوں نے ماشاء اللّه کہا وہ بہت خوبصورت جو لگ رہی تھی ۔
"آؤ بچے ۔۔۔بڑے عرصے بعد آئی ھو اور یونہی کھڑی ھو ۔آو بیٹھو ۔"
اسما بیگم شفقت سے بولیں ۔ وہ اتنے پیار ملنے پر جھجھک سی گئیں ۔
"امل سے ملنے آئی ھو ؟"
اسما بیگم جان کر انجان بنتے ہوئے اسے چھیڑنے لگیں ۔شاہزیب صاحب کا قہقہ بے ساختہ تھا ۔ فلک نے انھیں گھورا تو انھوں نے زبان دانتوں میں دبائی ۔ فلک مسکرا دی ۔
"میرے لیے اتنا تیار ھو کر کیوں آتی یہ ؟"
امل کی آواز پر فلک حیران ہوتے ہوے مڑی ۔ کتنے دنوں بعد ، وہ اس سے مخاطب تھی ۔فلک کو یاد نہیں تھا اس نے دنوں کا حساب کرنا چھوڑ دیا تھا ۔
"امم ۔۔میں "
پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ بوکھلائی ۔
"بھابھی جی ۔۔۔بکری بن گئیں ہیں "
امل نے اسے چھیڑا۔
"رکو تم بدتمیز "
ہوش میں آتے ہی فلک اس کا پیچھے دھوڑی ۔ امل راہداری سے ھو کر باہر پورچ کی طرف بھاگی ۔ جانتی تھی چڑیل پیچھے ہی آرہی ھو گی ۔ گاڑی پارک کرتا دانیال حیرانی سے بھاگتی امل کو دیکھتا اندر کی طرف جانے لگا کہ سامنے سے سرپٹ دھوڑتی فلک اس سے آٹکرائی ۔ دانیال نے بروقت بازؤں کے سہارے اسے قابو کیا ورنہ وہ اب تک نیچے گر چکی ہوتی ۔فلک نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔ گرنے کے خوف سے وہ اپنے دونوں بازو دانیال کے گرد باندھ چکی تھی ۔
"وہ ۔۔"
اس سے پہلے وہ کچھ بولتی اس کے سحر میں جکڑے دانیال نے اسے کندھوں سے پکڑ کر ایک جھٹکے سے دور کیا ۔اس کی پکڑ اتنی سخت تھی کہ فلک کو اس کی انگلیاں اپنے دودهیا بازو میں چبھتی ہوئی محسوس ہوئیں ۔ ڈبڈبائی آنکھوں سے اس نے اس ستمگر کی جانب دیکھا جو مکمل لاتعلق نظر آتا اس کے پاس سے ہوا کے جھونکے کی طرح گزر گیا ۔ فلک نے گہرا سانس کھینچ کر ارد گرد پھیلے اس کے کلون کی سخت خوشبو کو سونگھا ۔امل دھوڑ کر اس کے پاس آئی ۔
"فلک پریشان مت ھو ۔۔وہ ابھی ناراض ہے تم سے مان جائے گا ۔"
"ہممممم ۔۔۔،
امل کے دلاسہ دینے پر وہ محض ہنکارا بھر کر رہ گئی ۔
۔۔۔۔۔////۔۔۔۔۔۔////۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی میں بچے کچھے چند دن پلک جھپکتے ہی گزر گئے ۔امل ،فلک نے اپنے شادی کے جوڑے اور نور نے اپنے نکاح کا جوڑا خود پسند کیا ۔وہ سب ایک ساتھ گئے تھے ۔امل کے ولیمہ کا سوٹ آریان کی پسند سے تھا ۔دانیال نے اس حوالے سے فلک کے لیے کچھ نہیں خریدا تھا ۔ جس پر فلک خاموشی سے آنسو بہا کر چپ ھو گئی ۔ وہ الگ بات تھی کہ دانیال نے ریگ کر پاس سے گزرتے ہوے چپکے سے ایک خوبصورت پیچ رنگ کے جوڑے پر ہاتھ رکھا تھا اور امل اس کا اشارہ سمجھ گئی تھی تبھی فلک کے لاکھ منع کرنے پر بھی وہی جوڑا پیک کروایا ۔ اس دن کے بعد سے فلک کی ہمت ہی نہیں پڑتی کہ وہ اس کو دوبارہ بلاتی ۔ دانیال سب کے ساتھ بلکل ٹھیک تھا ،مسکراتا ،قہقہے لگاتا ،ھر دم ہنستا ،مگر فلک کے آتے ہی اس کی مسکراہٹ سمٹ جاتی ۔ امل اور فلک کے مایوں بیٹھنے سے ایک ہفتہ پہلے ان کا اور نور ،عالیہ کا سارا وقت پالر کی نظر ہوا تھا ۔ مایوں بیٹھنے سے ایک دن پہلے امل اور آریان نے مل کر وہ خوبصورت طوطوں کی جوڑی آزاد کر دی جو امل کو آریان نے اس کی سالگرہ پر اسی عہد کے ساتھ تحفے میں دیے تھے کہ ایک دوسرے کا ساتھ پاتے ہی وہ انھیں آزاد کر دیں گے ۔اب آریان بھی امل کے پاس تھا اور جلد وہ مضبوط رشتے میں جڑنے والے تھے ۔ ان کی مایوں اکٹھی ہی رکھی گئی تھی اور اس بات پر کسی کو کوئی اعتراض بھی نا تھا مگر ہاں اگر دانیال کی فلک سے ناراضگی نا ہوتی تو شاید وہ بہت شور مچاتا کیونکہ اس نے بہت شروع سے ہی یہ بات کہہ دی تھی کہ اس کی اور آریان کی مایوں اور مہندی ہرگز اکٹھی نہیں ہو گی۔ اسے بہت ڈانس کرنا تھا لیکن اگر ان کی مایوں اکٹھی ہو گی تو وہ کھل کر انجوائے نہیں کر پائے گا ۔مگر اب حالات اور تھے وہ کسی چیز میں کوئی دلچسپی ہی نہیں لے رہا تھا اور سب اس وجہ سے پریشان بھی تھے لیکن اس نے ان کی بات مان لی یہی بہت تھا ورنہ وہ تو اس طرح برتاؤ کر رہا تھا جیسے اس کی شادی نہیں تھی بلکہ وہ کسی اور کی شادی میں آیا ہو ۔
۔۔۔۔__/////۔۔۔۔_____۔۔///۔۔۔۔
امل اور فلک کو مایوں بیٹھے چھ روز گزر چکے تھے ۔امل کے کمرے کے پہرے داری نور اور فلک کے کمرے کی پہرے داری عالیہ کر رہی تھی ۔ فلک اس بات پر بس زخمی انداز میں مسکرا کر رہ گئی ۔جانتی تھی کہ حالات اگر ایسے نا ہوتے تو سب ٹھیک ہوتا ۔دانیال اس سے ملنے کی ھر کوشش کرتا لیکن اب وہ اس سے ملنے کبھی نہیں آئے گا ۔ شاہزیب مینشن سے ہی فلک کے لیے پیلا مایوں کا سادہ سا جوڑا ،مہندی اور چوڑیوں کی تھال آئی تھی ۔ وہ پچھلے چند روز سے دانیال کے نام کا سوٹ پہنے ابٹن ،سر پر تیل لگائے بیٹھے تھی ۔سوگواریت اس کے حسن کو مزید بڑھا رہی تھی ۔ اس کے بالوں میں یہ تیل رسم کے مطابق عائشہ ،ارفع ،عالیہ اور اسما بیگم نے لگایا تھا ۔دونوں ،گھروں میں سب ننھیال اور ددھیال کے رشتہ داروں نے دھاوا بول رکھا تھا ۔دوسری طرف امل بھی آریان کے نام کا پیلا سادہ مایوں کا جوڑا پہنے ، شرمائی گھبرائی بیٹھی تھی ۔ حیا کی لالی چہرے پر پھیلی خوبصورت چہرے کو مزید رونق بخشے ہوے تھی ۔ اس کی رسم بھی اسما ،ارفع ،عائشہ بیگم اور عالیہ نے کی تھی ۔ آج شام ان کی مایوں کی رسم تھی ۔ جس میں انھیں دانیال اور آریان کے اور باقی رشتہ داروں کے سامنے جانا تھا ۔ پھر ابٹن کی رسم ہونا تھی ۔ مایوں کی رسم شاہزیب مینشن میں ہونی تھی ۔ صبح سے سجاوٹ والے لاؤنج اور گھر سجانے میں مصروف تھے ۔ گھروں کو تو پانچ روز پہلے سے ہی سجا رکھا تھا ۔ ھر طرف اتنے سنہری برقی قمقمے لگائے گئے تھے کہ جب رات کو وہ جلتے تو یوں محسوس ہوتا کہ آسمان کے سارے ستارے اتر کر ان دونوں گھروں پر آگئے ہوں ۔ نور صحیح معنوں میں گھن چکر بنی ہوئی تھی ۔ بیچاری کوئی بیس مرتبہ کہہ چکی تھی کہ مجھ پر رحم کریں میرا نکاح بھی ہونا ہے ۔ مگر کوئی سنے تو نا ۔؟ الٹا اس سے مزید کام لیے جا رہے تھے ۔
۔۔۔۔۔__////____۔۔۔۔////۔۔۔۔۔
شوخ قہقہوں، مسکراہٹوں ، رنگ برنگے اڑتے آنچل ،چوڑیوں کی چھن ،چھن ،روشنیوں کے درمیان ایک خوبصورت شام "شاہزیب مینشن " پر اتری۔ مین گیٹ سے داخلی دروازے تک اسٹینڈ کھڑے کیے گئے تھے جن پر پیلے پردے لگے ہوے تھے اور پیلے ،سفید رنگ کے کاغذی پھول ان کے ساتھ لڑیوں کی مانند لگاے گئے تھے ۔ پورے ہال کو بہت ہی خوبصورت انداز سے سجایا گیا تھا ۔ ہال کا سامان اسٹور روم میں منتقل کر دیا گیا تھا ۔ دیواروں کو گیندے کے پھولوں سے ڈھکا گیا تھا ۔ جن کے بیچ بھی برقی قمقمے روشن تھے ۔ رسم کے لیے جو جگہ مختص تھی اس کے پیچھے کی ساری دیوار کو پیلے پردوں سے ڈھانپا گیا تھا تزئین و آرائش کے لیے لگے ایک اسٹینڈ کو گیندے کے پھولوں اور ایک اسٹینڈ کو گلاب کے پھولوں سے ڈھکا گیا تھا ۔ان کے سامنے گاو تکیے لگا بڑا سا سیٹر صوفہ رکھا گیا تھا جس پر بیک وقت پانچ چھ لوگ بیٹھ سکتے تھے۔کونے میں ،جگہ ،جگہ اسٹینڈ پر گیندے کے پھولوں کے گلدستے پڑے تھے ۔ دیواروں کے ساتھ مٹکے پڑے تھے جن میں پھول بھرے ہوے تھے ۔ ابٹن کی تھال کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا ۔ الغرض ھر لحاظ سے سجاوٹ قابل دید تھی ۔ رسم تقریباً آٹھ بجے شروع ہونا تھی ۔ سفید سادے کلف لگے شلوار قمیض میں بالوں کو جیل سے ایک طرف جمائے ، ہلکی بڑھی شیو میں ، آریان بہت خوبرو لگ رہا تھا ۔ آنکھیں ڈمپل کا ساتھ دیتی مسکرا رہی تھیں ۔ آستینیں کہنیوں تک موڑ رکھی تھیں ۔ وہ عالیہ ،،فہد ،صارم اور کچھ کزنز کی ہمراہی میں پوری شان و شوکت سے مضبوط قدم زمین پر جمائے چلاآرہا تھا ۔ گھر کی عورتیں اور مرد پہلے ہی آچکے تھے ۔ عالیہ ہرے رنگ کی گھیر دار شلوار اور ہمرنگ قمیض پہنے ہوے تھی ۔ بالوں کی چٹیا بنا رکھی تھی ۔ صارم اور فہد نے اوف وائٹ کرتا شلوار پہن رکھا تھا ۔ آریان اندر آکر تمام مہمانوں سے ملنے لگا ۔ جبھی اسما بیگم اس کے پاس آئیں ۔
"آریان امل تیار ھو چکی ہے تم جا کر اسے لے آو تب تک دانیال فلک کو لے آئے گا ۔"
آریان نے مسکراتے ہوے سر ہلایا اور سیڑھیوں کی جانب چل دیا ۔ وہ اوپر پہنچا اسی وقت دانیال اپنے کمرے سے نکلا ۔ پیلے کلف لگے کرتے اور سفید شلوار میں ،بالوں کا ایک طرف پف بنائے سٹبل اس پر خوب جچ رہی تھی ۔آریان کو دیکھتے ہی دونوں ڈمپل نکلے ۔
"جگر تو تو بڑا لش پش کر رہا ہے "
وہ شرارتی انداز میں آریان کو چھیڑتے ہوے بولا ۔ آریان نے اس کی کمر پر مکا دے مارا ۔
"میری بات کر رہا ہے خود تو کس پر بجلیاں گرانے کا ارادہ رکھتا ہے "
آریان نے آنکھ دباتے ہوے پوچھا فورا ہی دانیال کے تاثرات سنجیدہ ہوے ۔
"منہ سیدھا کر لو ۔تمہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے تم سے زبردستی رسم کروا رہے ھوں ۔"
آریان نے اس کے بگڑے تاثرات دیکھتے ہوے کہا ۔
"زبردستی ہی بلایا ہے "
وہ بڑبڑایا ۔ آریان نے اسے کچھ کہنا چاہا تبھی اس کا فون بجا ۔فہد کا نمبر دیکھ کر اس نے کال اٹھائی ۔
" بھابھی کو لینے بھیجا تھا تو بھابھی کے بھائی کے ساتھ کھڑا ہے ۔فورا اس شیطان کو بھیج اور خود تو بھی بھابھی لے کر آ ۔"
فہد نے کہتے ہی فون بند کیا ۔
"سن لے۔۔۔!!!! اب جا بھی ۔اور منہ سیدھا رکھنا "
اسے وہیں کھڑا دیکھ کر آریان نے اسے گھورا اور اس کا کندھا تھپتھپایا ۔ دانیال منہ بسورتا وہاں سے چلا گیا ۔ وہ بس منتظر تھا کہ فلک اس سے کہے دانیال میں شرمندہ ھوں۔ وہ اس کی معافی نہیں سننا چاہتا تھا وہ چاہتا تھا کہ بس وہ دل سے شرمندہ ھو اس سب پر جو اس نے کہا ہے ۔مگر وہ تو اس سے بات ہی نہیں کر رہی تھی ۔ٹھیک ہے اگر اس نے ایک بار جھڑک دیا تھا اس کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ وہ ھر بار یہی کرتا ۔ تبھی کمرے کا دروازہ کھلا اور مسکراتے ہوے نور باہر آئی ۔ اس نے مہندی رنگ کی اونچی کرتی اور بل دار شلوار پہنی ہوئی تھی ۔بالوں کی چٹیا کر رکھی تھی ۔
"اندر بیٹھی ہے ۔ بہت پیاری لگ رہی ہے ۔ماشاء اللّه "
نور نے اس کی بے تابی بڑھانی چاہی۔
"فلحال تم نیچے جاؤ ۔فہد تمہیں ڈھونڈھنے کے چکر میں پاگلوں کی طرح دیواروں سے سر ٹکراتا پھر رہا ہے "
آریان نے الٹا اسی پر وار کیا ۔ وہ تلملا کر رہ گئی ۔
۔۔۔۔____۔۔۔۔۔۔ ____۔۔۔۔۔۔
آریان نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ اجازت ملنے پر وہ دروازہ کھولتا اندر آگیا ۔ ڈریسنگ کے پاس بیٹھی امل شیشے میں آریان کا عکس دیکھتی فورا اٹھی اور اس کی جانب پلٹی ۔
"آپ۔۔۔یہاں ۔۔نہیں میرا مطلب ؟"
وہ ہکلائی ۔آریان خوب محظوظ ہوا ۔پھر قدم ،قدم چلتا اس کی طرف آیا ۔اس کے ھر اٹھتے قدم کے ساتھ امل کو اپنی دھڑکن رکتی ہوئی محسوس ہوئی ۔وہ اپنی مخصوص جان لیوا مسکراہٹ چہرے پر سجائے اس کے مقابل کھڑا تھا ۔آنکھوں کے ذریعے اس کا حسین روپ دل کے دریچوں میں قید کر رہا تھا ۔ پیلی اونچی قمیض کے ساتھ پیلی ہی کیپری اور پیلے گوٹی کنارے والے ڈوبٹہ میں ،میک اپ سے مبرا چہرے پر شرم و حیا کی لالی سجائے ،وہ بہت حسین لگ رہی تھی ۔اس پر تضاد دونوں ہاتھوں میں سرخ گلاب کے گجرے پہنے ،لمبے بالوں کی چوٹی بنائے ، لال کھسہ پہنے، لرزتی گرتی پلکوں کے ساتھ وہ آریان کے دل کی گہرائیوں میں اتر رہی تھی ۔
"بہت زیادہ دلکش لگ رہی ھو "
آریان کی گھمبیر آواز گونجی تو امل نے پلکوں کی چلمن اٹھائی ۔ پھر نظروں کی تاب نا لاتے ہوے پلکیں جھکا لیں ۔ گھنی پلکیں سرخ رخساروں پر سایہ فگن تھیں ۔آریان نے مبہوت انداز میں یہ منظر دیکھا ۔
"میرے محبوب کی معصومیت کو وہ بڑے انداز سے سمبھال رکھتی ہیں
بھلا ہے ان پلکوں کا جو آنکھوں کے راز چھپائے رکھتی ہیں "
(از قلم۔ مریم )
وہ بڑے جزب سے بولا تو امل کے ہاتھ پاؤں سرد پڑنے لگے ۔
"آپ شاعر کب سے ھو گئے ؟"
اپنی بوکھلاہٹ دور کرنے کو وہ جلدی سے بولی ۔مبادا وہ مزید کچھ نا کہے ۔
"جب سے تمہیں پایا ہے "
آریان اس کی گہری آنکھوں میں دیکھتے ہوے بولا ۔امل کے صحیح منعوں میں چھکے چھوٹنے لگے ۔
"آپ زیادہ اوور نا ھوں اب "
وہ اپنی ننھی سی ناک سکوڑتے ہوے بولی ۔ آریان کھل کر ہنسا ۔
" بندہ ناچیز کے پاس باقاعدہ اوور ہونے کا پرمٹ موجود ہے "
اب کی بار امل بس اسے گھور کر رہ گئی ۔
"اچھا دیکھو تمہارے لیے کیا لایا ھوں میں "
آریان نے اپنے قمیض کی جیب میں ہاتھ ڈالا ۔ ہاتھ باہر نکالا تو اس میں دو خوبصورت پائل تھیں ۔ باریک سی چین پر چھوٹے ،چھوٹے موتی لگے ہوے تھے ۔ امل نے مسکراتی نظروں سے پائل دیکھیں ۔
"آریان یہ تو آواز پیدا کریں گی ۔نامحرم سنیں گے تو گناہ ھو گا "
وہ پریشانی سے معصومیت بھرے انداز میں بولی ۔آریان ہنس دیا ۔
"میں پاگل ھوں کیا جو اپنی بیوی کو گناہ کا مرتکب ٹھہراوں گا ؟"
آریان نے سنجیدہ انداز میں جھک کر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوے پوچھا تو بے ساختہ امل نے نفی میں سر ہلایا ۔
"آواز نہیں ہے ان کی ۔۔بیٹھو یہاں پہناوں "
امل جھجھکتے ہوے بیٹھ گئی ۔ آریان اس کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھا ۔
"مسز آریان اپنے دائیں پاؤں آگے بڑھائیں "
وہ دلکش لہجے میں مسکراتے ہوے بولا ۔ امل نے ایک بار پھر جھجھکتے ہوے اپنا پاؤں آریان کے گھٹنے پر رکھ دیا ۔ کیپری تھوڑی سی اوپر اٹھائی ۔آریان نے انتہائی نرمی سے اس کے پاؤں کو چھوتے ہوے وہ پائل پہنائی ۔ پھر ذرا سیدھا ھو کر تنقیدی جائزہ لیا ۔
"پرفیکٹ ۔۔میڈ فار ایچ ادر "(عمدہ ۔۔۔ایک دوسرے کے لیے بنے ہوے )"
امل جھینپ گئی ۔اسی طرح آریان نے اس کے دوسرے پاؤں میں پائل پہنا کر اس پائل کی خوبصورتی بڑھائی۔
"یہ بہت پیاری ہیں آریان ۔مجھے بہت ،بہت پسند آئی ہیں "
آریان کھڑا ہوا اور اپنا ہاتھ امل کی طرف بڑھایا جسے تھام کر امل اٹھ کھڑی ہوئی ۔
"تم سے کم پیاری ہیں "
آریان نے اس کا ناک کھینچتے ہوے کہا ۔
"کیا کر رہے ہیں "
امل نے اس کا ہاتھ جھٹکا ۔
"کوشش کر رہا تھا بڑی ھو جائے "
آریان شرارتی انداز میں بولا ۔
"آپ ۔۔۔!!!!"
وہ چیخی ۔آریان نے بے ساختہ کانوں پر ہاتھ رکھا ۔
"وائفی ڈارلنگ ۔۔۔ لڑائی بعد میں کر لینا اب چلیں ؟"
امل نے نروس ہوتے ہوے سر ہلایا ۔وہ کمرے سے نکل کر سیڑھیوں تک آئے تو کیمرا مین دھڑا دھڑ تصاویر کھینچنے لگے ۔سب کی خود پر جمی نظریں دیکھ کر امل نے آریان کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کر دی ۔آریان نے جھک کر اس کی طرف دیکھا ۔
"نروس ھو ؟"
آریان دھیمے انداز میں بولا ۔امل نے بس سر ہلایا ۔
"بس یہ سوچو کہ تمہارا آریان تمہارے ساتھ ہے اور بس "
آخری سیڑھی پر پہنچ کر آریان ایک بار پھر دھیمے انداز میں بولا ۔ امل کو اپنی ساری بے چینی ہوا ہوتی محسوس ہوئی ۔ فوٹو گرافر مختلف پوز سے تصاویر بنانے میں مصروف تھے ۔ ابھی بمشکل دو منٹ گزرے تھے کہ دانیال اور فلک دروازے سے اندر آتے نظر آئے ۔ ان دونوں کے ہی چہرے بجھے ہوئے تھے کیونکہ آنے سے پہلے ہی فلک نے دانیال کو منانے کی کوشش کی تھی جس پر دانیال نے اس سے فقط اتنا ہی کہا تھا
"خاموشی سے اندر چلو اور فلحال میرا دماغ مت خراب کرو یہ نہ ہو میں یہیں سے واپس مڑ جاؤں اور پھر تم اندر اکیلی ہی چلی جانا"
اس پر دانیال کے ساتھ فلک کا موڈ بھی خراب ہو گیا تھا۔ اب بھی دونوں ایسے ہی کھڑے تھے جیسے زبردستی لائے گئے ھوں ۔دو فوٹوگرافر دھوڑ کر ان دونوں تک گئے اور ان کی بھی تصاویر بنانے لگے ۔
"سر میم مسکرائیں ۔۔!!''
فوٹوگرافر انھیں مختلف ہدایات دے رہے تھے۔
"سر میم ایک دوسرے کی طرف دیکھیں "
فوٹو گرافر کی تجویز پر دانیال کا جی چاہا گھما ،گھما کر اسے دو تین تھپڑ مار دے ۔مگر پھر بڑے ضبط سے اس دشمن جان کی جانب مڑا ۔ جس سے نظریں وہ تب سے چرا رہا تھا جب سے اسے لینے گیا تھا ۔ مگر اب اس پر نظر ڈالی تو دل گویا دھڑکنا بھولا اور آنکھیں اس کے روپ سے نظریں چرانے سے انکاری ھو گئیں ۔ بھوری آنکھیں اسی کی طرف متوجہ تھیں ۔سفید اونچی فراک کے ساتھ سفید کیپری پہنے دونوں ہاتھوں میں پیلے گجرے پہنے ، بالوں کی ڈھیلی چوٹی بنائے ،وہ بہت دلکش لگ رہی تھی ،اس پر تضاد اس کا سوگواریت لیا حسن مقابل کو چاروں خانے چت کر رہا تھا ۔دانیال نے ہوش میں آتے ہی فورا نظریں چرائیں ۔فوٹوگرافر کے کہنے پر آریان اور امل بھی ان کے پاس آگئے ۔اب ان چاروں کی اکھٹے تصاویر بن رہی تھیں ۔دانیال کے چہرے کے تاثرات ایک بار پھر سنجیدہ ھو گئے ۔ آریان اور امل نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔امل کا چہرے پر مایوسی چھانے لگی ۔آریان نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے تسلی دی ۔ آریان نے جھک کر دانیال کے کان میں نا محسوس انداز میں سرگوشی کی۔
"دانیال اس کا ہاتھ ہی پکڑ لو یا کم از کم مسکراؤ تو سہی تم دونوں کو دیکھ کر یوں لگ رہا ہے جیسے زبردستی کھینچ کر لائے گئے ہوں"
دانیال نے محض اس بات پر سرگوشی ہی کی
"زبردستی ہی بلایا ہے"
جو کہ آریان نی بخوبی سن لی ۔ اب کی بار آریان سختی سے بولا ۔
"دانیال میں شاید کچھ کہہ رہا ہوں" دانیال نے آریان کو کوئی بھی جواب دیے بغیر فلک کو بازو سے کھینچا جس پر اپنے ساتھ کھڑی نور سے باتیں کرتی فلک ایک دم ہی ڈر گئی اور آنسو بھری آنکھوں سے دانیال کو دیکھنے لگی کب اس نے دانیال کا ایسا رویّہ دیکھا تھا دانیال نے مڑ کر آریان سے محض اتنا ہی کہا۔
"اب خوش ؟"
وہ فلک کو لئے رسم والی جگہ کی طرف بڑھ گیا تبھی دانیال کے کانوں میں کسی کی آواز پڑی۔
"لگتا ہے دانیال شادی سے کچھ خاص خوش نہیں ہے دیکھو تو چہرے سے ہی لگ رہا ہے اور ہو بھی کیوں بھئی لڑکی بچگانہ سی حرکتیں کرتی ہے لگتا ہے ابھی تک بڑی ہی نہیں ہوئی میں ایک دو بار ان کے گھر آئی تھی اور ہر وقت یہ لڑکی ان کے گھر ہی ہوتی سچ کہوں تو مجھے تو بالکل بھی نہیں پسند"
وہ ان کی دور کی رشتہ دار شمیم تھیں اور انھیں اندازے لگانے کا بہت شوق تھا ۔ دانیال کو آریان کی کہی باتیں سہی لگیں اور اپنی غلطی کا احساس بھی ہوا ۔وہ مڑا اور فلک کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کہ اس عورت کے پاس گیا۔
"فلک ان سے ملو یہ ہماری دور کی رشتہ دار ہیں تم نے دیکھا ہی ہو گا اکثر ہی ہمارے گھر میں آتی رہتی ہیں ان کو خود ہی اندازے لگانے کا بہت شوق ہے اور آنٹی اس سے ملیے یہ ہے میری وائف فلک شاہ زیب ہماری لو میرج ہے بلکہ یوں ہی کہہ لیں کہ میری لو میرج ہے اور میں بہت خوش بھی ہوں الحمداللّه آخر کو اتنی اچھی وائف ملی رہی ہے مجھے ''
اور فلک تو بس دانیال کی باتیں سن کر خوش ہو گئی تھی وہ بھی مسکرا دی
"چلو فلک"
یہ کہتے ہوئے وہ فلک کا ہاتھ تھامے چل پڑا اور وہ عورت منہ بنا کر ہی رہ گئی۔ اپنی جگہ پر بیٹھتے ہی دانیال نے فلک کو دیکھا جو کچھ زیادہ ہی مسکرائے جا رہی تھی۔
"فلک زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں نے اس عورت سے ایسا اس لیے بولا کیونکہ وہ کچھ زیادہ ہی بول رہی تھی اور اگر وہ ایسی ہی باتیں دوسری عورتوں سے بھی کر دیتیں تو یہ بات پھیل جاتی اور پھر یہ ہماری عزت پر بات آجاتی جو تم نے تو میری چھوڑی نہیں اور ویسے بھی میں دوسروں کی باتوں پر یقین کرکے اپنوں پر شک کرنے اور خاموش رہنے والوں میں سے نہیں ہوں تو بہتر یہی ہے کہ تم جو اپنے دل میں یہ خوش فہمیاں پال رہی ہو انہیں ختم کر دو "
فلک کو یوں لگا جیسے کسی نے اسے آسمان سے زمیں پر گرا دیا ہو وہ بس اتنا کہہ پائی۔
"تم ہر دفعہ بیچ میں وہ بات کیوں لے آتے ہو؟"
جس پر دانیال نے اسے مسکرا کر دیکھا اور بولا
"مسکراؤ اور سامنے دیکھو تصویر بن رہی ہے"
سامنے کھڑے فوٹوگرافر نے یہ خوبصورت لمحہ کیمرے میں مقید کر لیا جس میں دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
"ہائے فلک مجھے منا لو پلیز میں ڈانس کرنا چاہتا ھوں ۔میں اپنی شادی کو ایسے ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتا "
دانیال دل ہی دل میں کلستے ہوے سوچ رہا تھا ۔ ڈانس کا کیڑا اندر ہی اندر اچھل رہا تھا ۔فنکشن کافی دیر تک چلتا رہا۔ باری باری سب آکر انھیں ابٹن لگا رہے تھے ۔ آریان کو ابٹن سے چڑ ھو رہی تھی اس کا اظہار وہ منہ بناتے ہوے کر رہا تھا اور امل بس اسے دیکھ کر ہنستی جا رہی تھی ۔ فیملی فوٹو شوٹ کے بعد نور تو ڈھولک سبنھال کر بیٹھ گئی اور پھر ایسی بیٹھی کہ اس کو زبردستی اٹھانا پڑا کیونکہ رات کافی ہوگئی تھی اور چونکہ اگلے روز مہندی تھی اور بہت سے کام تھے جو ابھی کرنا تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فنکشن ختم ہونے کے بعد امل بغیر چینج کیے فلک سے ملنے "آفندی مینشن چلی آئی ۔وہ سیدھا اس کے کمرے میں آئی ۔وہ اندر داخل ہوئی تو سامنے ہی بیڈ پر بیٹھی فلک کو روتے دیکھ کر خود بھی پریشان ہو گئی۔
"فلک کیا ہوا ہے رو کیوں رہی ہو ؟"
امل کا جواب دینے کی بجائے فلک اس کے گلے لگ کے اور زور و شور سے رونے لگی جس پر امل مزید پریشان ہو گئی۔
"فلک یار تم تو مجھے اور بھی پریشان کر رہی ہو بتاؤ تو سہی ہوا کیا ہے ورنہ میں باہر جا کر آریان کو بلا لاؤں گی "
فلک کے آنسو صاف کرتے ہوئے امل نے اسے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔
"روؤں نہیں تو اور کیا کروں اپنے بھائی سے پوچھو جا کر ۔۔۔!!!! ہاں میں مانتی ہوں میری غلطی تھی مجھے اس پر بھروسہ کرنا چاہیے تھا ۔ اس کا ساتھ دینا چائیے تھا۔ پر تم نے دیکھا تھا نا تب حالات ہی ایسے ھو گئے تھے ۔ میں نے اس سے اتنی معافی مانگی پر اسے تو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا اور اب تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے مجھے اس پر زبردستی مسلط کیا جا رہا ہے"
"چلو اٹھو "
امل نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے کھڑا کیا ۔فلک نے اپنا جوتا پہنا اور حیرانی سے اسے دیکھا جو اسے بازو سے پکڑے کمرے سے باہر لے جارہی تھی ۔
"کہاں ؟"
وہ حیرانی سے بولی ۔
"چلو تم ایک بار آج سہی سے مسئلہ حل ہو ہی جائے "
امل عالیہ کو فلک کو اپنے ساتھ لے جانے کے بابت بتا کر اسے شاہزیب مینشن لے آئی ۔ بغیر کسی کی طرف دیکھے وہ سیڑھیاں چڑھتی اسے لیے اوپر لے آئی اور حیران سی فلک کو دانیال کے کمرے کے دروازے کے سامنے کھڑا کر دیا۔فلک حیرت سے کبھی اسے دیکھتی کبھی دروازے کو
"امل میں نہیں جاؤں گی وہ غصہ کرے گا"
وہ انگلیاں چٹخاتے ہوے بولی ۔امل نے اسے بھر پور انداز میں گھورا ۔
" کیا کر لے وہ زیادہ سے زیادہ ہاں ۔۔؟؟؟ اور ویسے بھی یہ میرا مسئلہ نہیں ہے خود حل کرو اور آج بات ختم کرکے ہی آنا یہ روز، روز کے رونے دھونے سے تو اچھا ہی ہے نا فلک۔ اور دیکھنا تم اسے مناؤ گی نا تو وہ مان جائے گا یہ گارنٹی ہے ۔دیکھو فلک تم مانتی ہو تم سے غلطی ہوئی ہے اور تم دانیال کو بھی جانتی ہو اگر کوئی چھوٹی بات ہوتی اور غلطی تمہاری بھی ہوتی تب بھی وہ ہی تم سے معافی مانگتا مجھے اپنے بھائی کا پتا ہے پر اب تم نے اسے ہرٹ کیا ہے فلک اسے پیار سے مناؤ اسے سمجھو اور اپنا معاملہ بھی سمجھاؤ چلو جاؤ اب اندر "
امل وہاں سے ہی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی اور فلک ، وہ بیچاری اندر جائے یا نا جائے ؟ اسی کشمکش میں کبھی دروازے کی طرف ہاتھ بڑھاتی تو کبھی نیچے کر لیتی اور پھر حوصلہ کر کے بنا نوک کیے ہی اندر چلی آئی۔ اندر وہ اسے کہیں نظر نا آیا مگر واشروم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی مطلب وہ نہا رہا تھا اور پھر فلک کو احساس ہوا کہ وہ خود مایوں کے کپڑوں میں ہی آگئی ہے ۔پہلے تو وہ جانے کے لئے مڑنے لگی لیکن جب واشروم کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو حوصلہ کرکے وہیں کھڑی ہو گئی اور اُدھر دانیال جیسے ہی باہر نکلا کمرے کے بیچ و بیچ فلک کو کھڑا دیکھا وہ کچھ بھی کہے بغیر اسٹینڈ کے طرف بڑھ گیا اپنا تولیہ لٹکایا اور ڈریسنگ کے سامنے جا کر بال کنگھی کرنے لگا پھر اطمینان سے خود پر پرفیوم چھڑکا اور شیشے میں اپنا جائزہ لے کر بیڈ پر بیٹھ گیا اور فون چلانے لگا یوں جیسے وہ کمرے میں اکیلا ہو فلک جو کہ اس کی یہ کاروائی دیکھ رہی تھی ایک دم سے اسے اپنے آنے کا مقصد یاد آیا ایک بار تو دل کیا بھاگ جائے کیونکہ اسے پتا تھا کہ جب دانیال بہت غصے میں ہوتا ہے تب ہی ایسا برتاؤ کرتا ہے اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اب وہ بھلا اسے جتنا بھی بلائے وہ کوئی جواب نہیں دے گا ۔پھر بھی حوصلہ کر کے اس نے اسے آواز دی ۔
"دانیال"
جواب ندارد۔ ایک بار۔۔۔۔ دو بار۔۔۔ تین بار۔۔۔ اور نجانے کتنی بار ۔۔۔مگر وہ تو ایسے بیٹھا رہا جیسے اس کے علاوہ وہاں کوئی اور ہے ہی نہیں۔ بلاآخر جب اتنی آوازیں دے کر بھی جواب نہیں آیا تو وہ اس کی قریب ہی نیچے زمین پر ہی بیٹھ گئی اور اس کے ہاتھ سے اس کا فون پکڑ کر سائڈ پر پٹختے کے انداز میں رکھ دیا ۔
"دانیال اور کتنا امتحان لو گے میرا ؟ تم تو مجھ سے کبھی اتنی دیر ناراض ہو ہی نہیں سکتے تھے تو اب ایسے کیوں کر رہے ہو میرے ساتھ ؟ میں جانتی ہوں میں نے غلطی کی ہے ۔میں شرمندہ ھوں اب "،
وہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی۔
"یہ کیا طریقہ ہے فلک۔۔۔ اوپر بیٹھو "
اس سب میں دانیال نے پہلی بار اس کو مخاطب کیا تھا۔فلک نے آنسوؤں سے تر چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا اور اوپر دانیال سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھ گئی ۔ایک پل کو تو دانیال کو بھی بہت دکھ ہوا اسے یوں روتے دیکھ کر وہ کب اسے یوں رونے دیکھ سکتا تھا مگر جوں ہی اس کی باتیں یاد آئیں اس کے چہرے کے تاثرات سخت ہو گئے۔
"بولو اب جلدی کیا بولنا ہے مجھے سونا بھی ہے پھر ۔"
وہ یوں بات کر رہا تھا جیسے فلک پر احسانِ عظیم کر رہا ہو۔فلک اسے صرف دیکھ کر رہ گئی ۔
"اگر کچھ بولنا نہیں تھا تو آئی کیا کرنے تھی ؟ مجھے نیند آرہی ہے اور جاتے ہوئے لائٹ آف کر دینا۔"
جب وہ کچھ نا بولی تو دانیال بیڈ پر لیٹتے ہوئے فلک سے بولا۔اس نے سائڈ لیمپ بند کیا اور آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر لیٹ گیا۔اس نے ان ڈیریکٹلی اسے جانے کا کہا تھا ۔ فلک کی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئیں ۔ لیکن اس نے بھی سوچ لیا تھا کہ آج آر یا پار ۔۔۔!!!
"دانیال میں دل کے ہاتھوں مجبور ھو گئی تھی۔ میں تمہاری خوشی چاہتی تھی بس اس لیے ۔۔"
وہ منمنائی ۔دانیال جھٹکے سے اٹھا اور آنکھوں میں چنگاریاں لیے اس کی طرف جھکا ۔
"میری خوشی ۔۔۔؟ طلاق تھی میری خوشی ۔۔؟ کس سوچ کر تم نے اتنی بڑی بات منہ سے نکالی "
وہ بولا نہیں غرایا تھا ۔ فلک کانپ کر رہ گئی ۔
"وہ لڑکی ۔۔۔!!! اس نے کہا تھا کہ میں تم دونوں کے درمیان آئی ھوں "
فلک کی بات پر دانیال حیران ہوا ۔
"کون سی لڑکی ۔۔؟"
"وہ تصویروں والی ۔۔۔!!! اس کا فون آیا تھا مجھے ایک رات پہلے اور اس نے کہا کہ میں تم دونوں کے بیچ آرہی ھوں ۔ اور یہ کہ دانیال اس سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن اس نے مجبوری میں مجھ سے نکاح کیا ہے اور وہ کہہ رہی تھی کہ بہت جلد وہ اور تم قانونی اور شرعی طور پر بھی ایک ھو جاؤ گے ۔ اس لیے تم ہمارے درمیان سے ہٹ جاؤ ۔"میں نے اگنور کیا اور کال کاٹ دی ۔ یہ سمجھ کر کہ شاید امل یا نور میں سے کوئی میرے ساتھ پرانک (مذاق)کر رہی ہیں ۔مگر اگلے ہی دن شام میں وہ تصاویر آگئیں ۔مجھے لگا کسی نے مجھے ساتویں آسمان پر لا کر اس شدت سے زمین پر پٹخا ہے کہ میں چاہ کر بھی اٹھ نہیں سکتی ۔ لڑکھڑاتی خاموشی سے اپنی قسمت پر ماتم کرتی میں اپنے کمرے میں گئی تو وہی فون کال میری منتظر تھی ۔اور اب کی بار اس نے کہا کہ دیکھ لیں تصاویر ۔۔۔!!! تم آگئی ھو ہمارے درمیان ۔!!! میرا سر چکرارہا تھا میں کچھ سمجھنے کی حالت میں نہیں تھی میں نے گومگو کیفیت میں فون بند کر دیا ۔ نجانے کتنی دیر میں وہیں رہی لاؤنج میں سے سب کے بولنے کی اور انٹی اسما کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں مگر میں تو شکستہ حال بیٹھی تھی ۔اور پھر جب میں باہر آئی اور تم آئے ۔۔۔اور وہ سب ہوا ۔۔!!! میں نے طلاق کا مطالبہ کر دیا ۔مجھے لگا مجھے ہٹ جانا چاہیے تم دونوں کے درمیان سے ۔سو میں نے وہی کرنا چاہا ۔"
وہ روتے ہوے بولی ۔ دانیال نے قریب ھو کر اپنا کندھا فراہم کیا تو اس کے کندھے پر سر رکھے اس کی شرٹ کو مٹھیوں میں دبوچے وہ زار و قطار رونے لگی ۔ دانیال دوسرے ہاتھ سے اس کا سر سہلا رہا تھا ۔
"شش۔۔۔! تمہیں پتا تھا نا اپنے دانیال کا ۔۔۔جس نے ہمیشہ تمہیں چاہا تمہیں سوچا ۔ تمہیں چاہیے تھا مجھ سے پوچھ لیتی پاگل "
وہ اسے چپ کراوتے ہوے ہلکا سا ڈپٹ بھی رہا تھا ۔
"بس فلک ۔۔۔بس کرو ناجانے اتنے آنسو کہاں سے لاتی ھو ۔ آنکھوں کا برا حشر کر دیا ہے ۔ ڈائین لگ رہی ھو "
دانیال اس کے آنسو پونجھتے ہوے مزاح انداز میں بولا ۔ فلک نے آنکھیں صاف کیں اور اس کے سینے پر مکے برسانے لگی ۔
"یو بدتمیز ۔۔۔ڈفر ۔۔۔کتنا تڑپایا مجھے ۔۔پتا ہے میں تمہاری وجہ سے روئی تھی اتنا ۔ میں بہت چاہتی ھوں تمہیں اور کسی قیمت پر کھو نہیں سکتی تمہیں ایڈیٹ "
فلک خفا لہجے میں اس سے اپنی محبت کا اقرار انجانے میں کر گئی ۔ دانیال کو خوش گوار حیرت ہوئی ۔
"اور تمہیں پتا ہے میں کتنا روئی تھی جب امل کو آریان نے اپنی پسند کا ڈریسس دلایا تھا اور مجھے امل کی پسند کا ملا "
وہ منہ بسورتے بولی ۔دانیال ہنسا ۔
"وہ ڈریسس امل کے بھائی کی پسند کا تھا ۔"
دانیال نے فخریہ انداز میں کالر اٹھائے ۔ فلک کی گھوری زبردست قسم کی تھی ساتھ ہی اس نے یوں دانت کچکچائے جیسے دانتوں کے درمیان دانیال ھو ۔
"آج رات یہیں رکو گی ؟"
گھڑی کی طرف دیکھتے ہوے دانیال نے پوچھا ۔
"ہاں ۔۔امل اور نور کے پاس ۔"
فلک نے کندھے اچکائے ۔
"بڑی ہی کوئی بےشرم لڑکی ھو ۔سسرال والوں کا ارادہ تو تمہیں دو دن چھوڑ کر لانے کا تھا اور تم ھو کہ آج ہی سسرال آئی بیٹھی ھو ۔۔بلکے گھسی بیٹھی ھو "،
دانیال کا ارادہ اسے چھیڑنے کا تھا ۔
"ہاں ھوں ۔پر اب جیسی ھوں تمہاری ھوں "،
فلک اترائی ۔
"تم واقعی شرمندہ ھو ؟"
دانیال نے فلحال سب بھلا کر سنجیدگی سے پوچھا ۔
"دانیال میں غلطی پر تھی میں یہ بات جان چکی ھوں ۔ میں ہار چکی ھوں میں تو آپ سے آپ جتنی محبت بھی نہیں کر پائی ۔مگر آپ ھر موسم میں ھر موقع پر آپ سے مجھے اپنے ساتھ کھڑا پائیں گے ۔انشاء اللّه ۔۔!!! آپ سے محبت مجھ پر فرض کر دی گئی ہے اور فرض کی کوتاہی میں دیر نہیں کرنی چاہیے "
وہ وثوق سے بولی ۔ اور انجانے میں اپنی شرمندگی کے زیر اثر اسے "آپ "کہتی گئی ۔دانیال کے ہونٹ سیٹی کے انداز میں گول ہوے ۔ایک دم ہی وہ زور ،زور سے ہنسنے لگا ۔
"یس ۔۔۔یس ۔۔یس "
وہ خوشی سے جھومنے لگا تو فلک کو اس کی ذہنی حالت پر شبہ ہوا ۔
"دماغ چل گیا ہے کیا "
وہ حیرانی سے بولی ۔
"آئے بیگم جان ۔۔۔!!!! یاد کرو چھوٹی عید پر وہ کون تھی جو کہہ رہی تھی "کہ میں صرف ایک بار "آپ " بولوں گی تمہیں ۔اب تمہاری مرضی ابھی سننا ہے یا پھر کبھی ۔"
وہ سوچنے کی اداکاری کرتے ہوے بولا ۔فلک کا چہرہ خفت سے سرخ پڑ گیا ۔
"تمہارا دل رکھا ہے ۔زیادہ شوخے نا بنو اب "
فلک نے اسے لتاڑا ۔ دانیال بنا محسوس کیے ہنستا رہا ۔فلک ک گھوریاں جاری و ساری تھیں ۔
"اللّه پوچھے تمہیں "
وہ اسے دھکا دیتی باہر کی طرف جانے لگی کہ اس کی کلائی دانیال کی گرفت میں آگئی ۔
"سنو ۔۔۔"
وارفتگی لیا انداز ۔
"سناؤ ؟؟"
وہ اسی کے انداز میں بولی ۔دانیال سر جھٹک کر ہنسا ۔
" چلو گی میرے ساتھ ؟"
وہ مسکراتے ہوے بولا
"کہاں اور اس وقت ؟"
" گول گپے کھانے چلتے ہیں کہیں "
فلک ہنسی ۔
"یہ عنایت کس خوشی میں ؟ "
"تمہارے اقرار کی خوشی میں "
دانیال کا لہجہ خوشیاں سمیٹے ہوے تھا ۔
"تو پھر رزق کو ترساتے نہیں ہیں ۔چلو "
وہ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ دیے لمحہ به لمحہ دور ہوتے جا رہے تھے ۔ مگر فلک کی آوازیں ابھی بھی آرہی تھیں وہ دانیال سے شکوے کرنے میں مصروف تھی ۔
"تم نے آج میری تعریف نہیں کی "
اور دانیال اسے چھیڑنے سے باز نہیں آرہا تھا ۔
۔۔۔۔۔_______۔۔۔۔۔۔۔_____
اگلے روز شام چھ بجے فلک اپنے کمرے میں بیٹھی تھی اس کے دونوں پاؤں پر مہندی لگ چکی تھی ایک ہاتھ پر ابھی بھی باقی رہتی تھی ۔ تبھی دروازہ کھٹکٹکا ۔ عالیہ نے اندر جھانکا ۔وہ سنجیدہ نظر آنے کی کوشش کرتے ہوے بولی ۔
"فلک تمہاری دوست زرینہ تمہیں ملنے آئی ہے "
فلک حیران ہوئی ۔اس کی تو ایسے نام کی کوئی دوست نہیں تھی ۔
"ہیں ؟؟؟ بھیجیں اسے اندر ذرا اور فاطمہ (مہندی لگانے والی ،) آپ باہر انتظار کریں میں بلاتی ھوں تھوڑی دیر تک آپ کو ۔"
فلک کے کہنے پر وہ گئی تو ایک برقع پوش وجود اندر داخل ہوا ۔
"ہائے ۔۔۔میری دوست ۔"
۔بنا فلک کو سمجھنے کا موقع دیے بڑی احتیاط سے وہ اس کا گلے لگا ۔
"کون ہیں آپ ؟"
فلک نے حیرانی سے پوچھا ۔تبھی اس نے نقاب اتارا ۔
"ہا۔۔۔دانیال ۔ ۔ "
فلک پیٹ پکڑے ہنسنے لگی ۔دانیال بھی مسکرا رہا تھا ۔ ۔
"کل ناراض نا ہوتا تو یوں ملنے آنا تھا سو آج بھی آگیا ۔سوچا کوئی خلش باقی نا رہ جائے "
اس نے آنکھ دبائی ۔
"دانی تم اتنے کیوٹ لگ رہے ھو ۔آ۔۔۔۔"
وہ بچوں کی طرح اسے پچکارتے ہوے بولی ۔
"کیا واقعی ۔؟"
دانیال نے برقع مزید پھیلاتے ہوے پوچھا ۔
''ہاں نا میں تو کہتی ھوں ایسے ہی مہندی کا فنکشن اٹینڈ کرنا ۔ "
وہ جو اشتیاق سے اسے سن رہا تھا بدمزہ ہوکر سیدھا ہوا ۔
"دیکھو تمہارے لیے کیا لایا ھوں "
دانیال نے برقع اٹھایا اور جیب سے کانچ کی چوڑیاں برآمد کیں ۔
"اجازت ہے ؟"
دانیال نے دل کشی سے مسکراتے ہوے چوڑیاں سامنے کیں ۔فلک نے اپنی کلائی سامنے کی تو دانیال نرمی سے اسے ایک ایک کر کے چوڑیاں پہنانے لگا ۔پھر سائیڈ پر ھو کر جائزہ لیا ۔
"بہت خوب ۔۔کیا کہنے میرے ۔۔اتنی اچھی چوڑیاں لایا ھوں "
اس نے خود کی تعریف کی ۔فلک جو اس انتظار میں تھی کہ دانیال اس کی تعریف کرے گا منہ بسورے رہ گئی ۔
"ان کی کلائی میں سج کر کمال لگتی ہیں
چوڑیاں کانچ کی بڑی بے مثال لگتی ہیں "
(مریم )
دانیال اسے دیکھتے ہولے سے گنگناتے ہوے بولا ۔فلک جی جان سے مسکرائی تبھی دروازہ کھول کر عالیہ نے اندر جھانکا ۔
"ملاقات کا وقت تمام ہوا ۔شاباش اپنے گھر چلو "
دانیال فلک کو ایک نظر دیکھتا عالیہ تک پہنچا ۔
"شکریہ بھابھی "
عالیہ بس اسے گھور کر رہ گئی ۔
۔۔۔۔_____۔۔۔۔______۔۔۔۔۔۔۔
آفندی مینشن کی سجاوٹ آج دیکھنے کے لائق تھی ۔ مہندی کی رسم کے لیے لان کو سجایا گیا تھا ۔ اور اتنی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا کہ سجاوٹ ھر آنکھ کو خیرا کر رہی تھی ۔ لان میں داخل ہونے سے پہلے تزئین و آرائش کے لیے نصب اسٹینڈ پر پردے لپٹے ہوے تھے ۔ دائیں اور بائیں دونوں جانب مختلف رنگوں کے لالٹین رکھے گئے تھے ۔ ھر درخت کی شاخ پر سجاوٹ کی گئی تھی ۔ کھلے آسمان تلے چلتی روشنیاں بہت دلفریب معلوم ہوتیں ۔ لان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک برقی قمقموں سے چھت بنائی گئی تھی ۔اسٹیج کی سجاوٹ بہت خوبصورت تھی ۔پیچھے ست رنگی پردے لگائے گئے تھے جن پر فاصلے ،فاصلے سے برقی قمقمے لٹک رہے تھے ۔ ھرے پتوں کی بیل مکعب نما انداز میں اوپر سے نیچے لگی ہوئی تھی ۔ بیٹھنے کے لیے بڑا سا دیوان تھا جہاں ان چاروں کو ایک ساتھ بیٹھنا تھا ۔اسٹیج کے تھوڑا آگے منی اسٹیج تھا جس کے بلکل اوپر ڈسکو لائٹ لگی تھیں ۔ ارد گرد مہمانوں کے لیے میز اور کرسیاں سیٹ کیے گئے تھے ۔ بڑے ،بڑے بوفرز لگے ہوے تھے جنہے ڈی جے سمبھال رہا تھا ۔ لان میں رنگ بکھیرتے آنچل ، قہقہے ،مسکراہٹیں ، گانے گونج رہے تھے۔اپنا لہنگہ سمبھالتی نور سیڑھیاں تیزی سے چڑھ رہی تھی ۔ وہ بہت خوبصورت گلابی چولی جس پر سنہرا کام تھا پہنے ہوے تھی ساتھ جامنی رنگ کا لہنگا پہن رکھا تھا پاؤں سنہری سینڈل میں مقید تھے ۔ بیوٹیشن کے ہاتھ سے مہارت سے کیے گئے میک اپ نے تیکھے نقوش کو ابھار کر مزید قاتلانہ بنا دیا تھا ۔گلے میں سنہرا گلوبند ، کانوں میں سنہرے جھمکے , ماتھے پہ سنہرا ٹیکا اور ناک میں ہم رنگ نتھلی بہت بھلی معلوم ھو رہی تھی ۔بھورے بال کرل کیے آدھے ایک کندھے اور باقی پیچھے کو گرائے دوسرے کندھے پر گلابی ڈوبٹہ سیٹ کیا گیا تھا ۔وہ دھوڑ کر دانیال کے کمرے کے پاس آئی ۔
"دانیال دروازہ کھولو ۔۔۔جلدی باہر آو ۔۔ فلک کو باہر لانے لگے ہیں تمہیں بھی لے کر جانا ہے ۔علی ،احمد اب باہر انتظار کر رہے ہیں "
نور چلائی ۔
"آیا ڈیر "
جواباً دانیال اندر سے چلایا ۔
"پچھلی بار بھی یہی کہا تھا ۔احساس ہے تم لوگوں کو آج میرا بھی نکاح ہے مگر نہی مجھے کیا بنا کر رکھ دیا ہے "
وہ بڑبڑاتے ہوے امل کے کمرے کی طرف گئی ۔اور اندر جھانکا ۔ بیوٹیشن بس اس کے میک آپ کو آخری ٹچ دے رہی تھی ۔
"ماشاءاللّه ۔۔چشم بدور "
وہ بے ساختہ بولی ۔ امل آسمانی نیلے رنگ کی چولی ،پیلا لہنگا پہنے ہوے تھی جس پر تاروں سے سنہرا کام بڑی خوبصورتی سے کیا گیا تھا ۔بالوں کا جوڑا کر کے چند لٹیں کرل کیے چہرے کے دونوں اطراف گرائی ہوئی تھیں ۔ سر پر گلابی ڈوبٹہ سیٹ کر رکھا تھا جس کا ایک پلو آگے کی طرف کر رکھا تھا ۔جیولری کے نام پر جھمکے اور ٹیکا پہنے مہارت سے ہوے میک اپ نے اس کے حسن کو دوآتشہ کر دیا تھا ۔
"امل باجی کی پالکی آگئی ہے "
تبھی رضیہ دھوڑ کر آئی ۔
"رضیہ خالہ ۔۔۔ دانی چلا گیا ۔ ؟"
نور نے انھیں روکتے ہوے پوچھا ۔
"ہاں بیٹا ابھی نکلے ہی ہیں "
سر ہلاتے ہوے نور نے امل کو سہارا دے کر کھڑا کیا ۔
رضیہ دروازہ کھول کر کھڑی ہوئیں ۔نیچے لاؤنج میں کچھ لڑکیاں کھڑی تھیں سب ہی امل کو دیکھنا چاہتی تھیں ۔ امل ،نور کے ہمراہ سہج ،سہج قدم اٹھاتی نیچے آئی ۔ اسما بیگم اس کی طرف چلی آئیں ۔
"میری جان ۔۔۔ ماشاء اللّه "
انہوں نے اسے خود سے لپٹایا ۔ پھر الگ ہوئیں اور نور کو بھی گلے لگایا ۔
"میری ایک بیٹی کل پرائی ھو جائے گی تو دوسری آج کسی کے نام لکھ دی جائے گی "
وہ اپنی آنکھوں کی نمی پیچھے دھکیلتی ان دونوں کی نظر اتارتے ہوے بولیں ۔ امل کو لیے نور باہر آئی ۔ فوٹو گرافر اپنی پوزیشن سمبھال چکے تھے ۔ امل کو لیے نور پالکی کے پاس پہنچی ۔ نور اور کچھ کزنز نے مل کر اسے پالکی میں بیٹھایا ۔ پالکی گول تھی اور گیندے کے پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی سادی مگر پیاری پالکی میں بیٹھی امل شہزادی معلوم ھو رہی تھی ۔ سب کزنز نے مل کر وہ پالکی اٹھائی ۔نور اور باقی لڑکیوں نے مہندی کے تھال سمبھالے ۔تھال بڑے ،بڑے تھے جن میں مہندی ،پھول ،اور دیے رکھے گئے تھے ۔ نور سب سے آگے تھی پیچھے دائیں ،بائیں لڑکیاں اور اس سے پیچھے پالکی اٹھائے لڑکے ۔فوٹو گرافر ڈھڑا ڈھر تصویریں کھینچ رہے تھے ۔ آفندی مینشن پہنچ کر پالکی لان میں اتاری گئی ۔ امل کو ارفع بیگم نے باہر نکالا اور اس کا ماتھا چوما ۔ امل کو اسٹیج پر بیٹھانے کے پانچ منٹ بعد اندر سے فلک کی پالکی اٹھی ۔ نور ہی کی طرح اب کی بار عالیہ مہندی کی تھال لیے سب سا آگے تھی ۔وہ جامنی پاؤں تک آتے فراک کا ساتھ پوری جیولری پہنے بہت پیاری لگ رہی تھی . فلک کی پالکی تھوڑی بڑی تھی اور اسے اورینج گیندے کے پھولوں سے سجایا گیا تھا ۔ اس میں بیٹھی فلک کوئی حور پری معلوم ھو رہی تھی ۔ گولڈن تلے کے کام والی چولی کے ساتھ ، گہرے نیلے رنگ کا لہنگا جس پر نیچے سے اوپر تک سنہری کڑھائی ہوئی تھی اور اورینج رنگ کے ڈوبٹہ ڈوبٹے کا ایک پلو آگے اور ایک پیچھے کی طرف ڈالے ،دائیں کندھے پر کرل شدہ بال گرائے وہ بہت حسین لگ رہی تھی ۔ مہارت سے کیے میک اپ اس کے نقوش کو ابھار کر مزید دل کش بنا رہے تھے ۔ جیولری کے نام پر دانیال کے پہنائی چوڑیاں ،ٹیکا اور جھمکے ہی پہنے تھے ۔ فلک کو بھی لا کر امل کے کچھ ساتھ کچھ فاصلے پر بیٹھایا گیا ۔ انھیں دیکھتی ھر آنکھ میں ستائش تھی ۔ انھیں بیٹھے پندرہ منٹ گزرے تھے کہ ایک دم سے ھوٹنگ کی آوازیں آنے لگیں ۔ ڈھول والا خوب زور لگا کر ڈھول پیٹ رہا تھا ۔ فہد سب سے آگے صارم کے ساتھ مل کر بھنگڑے ڈالتا لان میں داخل ہوا ۔ وہ کالے شلوار سوٹ میں غضب ڈھا رہا تھا ۔ ان کے پیچھے سب کزن اور دوست ناچتے ہوے آرہے تھے ۔ تبھی لان میں پھولوں سے سجا رکشہ داخل ہوا جسے علی (سکریٹری ) چلا رہا تھا ۔ رکشہ پر پیچھے آریان اور دانیال کھڑے تھے دونوں کے ہاتھوں میں سموک بومب موجود تھے ۔ فلک اور امل اسٹیج پر کھڑی ھو کر ہوٹنگ کرنے لگیں ۔ آریان اور دانیال نے کچھ دیر سب دوستوں کے ساتھ مل کر بھنگڑے ڈالے پھر اسٹیج کی طرف آئے ۔آریان کو باقاعدہ دانیال کو کھینچ کر لانا پڑا تھا ۔
"یار دو منٹ چھوڑ نا "
دانیال زبردستی خود کو چھڑوا کر ڈی ۔جے کی طرف چل دیا ۔اور کھینچ کر اس کا ہیڈ فون اتارا ۔ ڈی ۔جے اس آفت پر بوکھلا کر رہ گیا ۔
"کّک ۔۔۔کیا ہوا "
گانے کی آواز سلوو کرنے کے بعد وہ جلدی سے بولا ۔
"یہ کیا بکواس گانے لگائے ہوے ہیں ۔؟ مزہ ہی نہیں آرہا ۔ اس تو بہتر تھا ترانے لگا لیتے ۔ "
دانیال غصے سے بولا ۔
"ہیں ۔۔ہیں وہ بھی ہیں میرے پاس ۔لگا دوں "
وہ جلدی سے بولا ۔دانیال نے اسے گھورا ۔
"انیس سو کی دہائی کے چس گانے لگائے ہوے ہیں "
وہ نخوت سے بولا ۔
"میں نے آہستہ ،آہستہ نئے گانوں کی طرف آنا تھا ۔ "
ڈی ۔جے ایک انداز سے بولا ۔
""چلو چپ کرو سب کو پکا ،پکا کر وہاں تک آنا تھا ۔تم وہ والا گانا لگا دو کیا تھا وہ "
دانیال نے اپنی آئی برو کھرچی ۔پھر کچھ یاد آنے پر آنکھیں چمکیں ۔
"بیلا چاو ۔۔۔!!! وہ ہے نا تمہارے پاس "
"ہاں ہے شکر ہے ۔۔۔وہ میرے پاس ہے "
ڈی ۔جے جلدی سے بولا ۔
"ہاں وہ چلا دو جب تک میں نا کہوں بند نا کرنا ۔ "
دانیال کہہ کر "بیلا چاو " چلوا کر اسٹیج کی طرف آیا ۔فلک ہنسی ۔وہ بھی ایسے گانوں سے بور ھو رہی تھی ۔ اسٹیج کے پاس ہی آریان بھی اس کے انتظار میں کھڑا تھا ۔دانیال نے سفید شلوار قمیض کے ساتھ خاکی رنگ کا واسکوٹ پہن رکھا تھا ۔ اور ایک کندھے پر گرے شال ڈال رکھی تھی جو وہ کب سے اتر چکا تھا ۔بال ایک طرف جمائے وہ شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ بہت پیارا لگ رہا تھا ۔آریان نے سفید قمیض کے ساتھ سفید تنگ پاجامہ اور پیلی واسکوٹ پہن رکھی تھی ،بال دانیال کی طرح ایک طرف جمائے سنجیدہ صورت میں ہلکی جان لیوا مسکراہٹ لیے وہ بہت خوبرو لگ رہا تھا ۔ امل اور فلک نے ہاتھ بڑھا کر دونوں کو اسٹیج پر چڑھایا تو خوب ہوٹنگ ہونے لگی ۔ اس کے بعد رسم شروع ہوئی ۔جس میں سب شادی شدہ جوڑے اسٹیج پر آتے اور ان پر پیسے وار کر ان کے ہاتھوں میں پکڑے پتوں پر مہندی لگاتے اور انہیں برفی کھلاتے ۔ دانیال اور فلک تو بہت ہی ذوق و شوق سے برفی کھاتے ۔
"فلک ھر کوئی ایک برفی کیوں کھلا رہا ہے ؟"
دانیال کے لہجے میں افسوس تھا ۔
"مجھے بھی یہ بات بہت بری لگ رہی ہے "
فلک بھی اسی کے انداز میں بولی ۔
"تم دونوں اپنی چونچیں لڑانا بند کرو گے ؟"
آریان نے ان دونوں کو جھڑکا ۔دانیال بد مزہ ہوا ۔
امل اور فلک درمیان میں جب کہ دانیال اور آریان دائیں بائیں جانب بیٹھے تھے ۔
"دیکھ دانیال اگر تو نے اب ہمیں کچھ کہا نا تو ہم دونوں نے یہیں سے اٹھ کر چلے جانا ہے "
دانیال نے دھمکی دی جو کار آمد ثابت ہوئی ۔ آریان خاموش ھو گیا مبادا وہ دونوں واقعی اٹھ کر نا چلے جائیں اور ان سے اس بات کی پوری امید کی جا سکتی تھی ۔
دوسری طرف نور کو یہ حکم دیا گیا تھا خ نکاح کے بعد وہ فہد کے ساتھ یہ رسم کرے گی اسی لیے وہ اب تک اسٹیج پر نہیں آئی تھی ۔ نور اسٹیج کے بائیں جانب کھڑی تھی جب نظر فہد پر پڑی ۔اس کی نیلی آنکھیں بھی آج خوب مسکرا رہی تھیں ۔نور نے فورا کلچ سے اپنا موبائل نکالا اور باگڑ بلا والے نمبر پر میسج کرنے لگی ۔
"آئے تندوری چکن سن نا "
فہد ادھر ادھر پھرتا گھن چکر بنا ہوا تھا ۔ جب دو منٹ کے لیے شاہزیب صاحب کے ساتھ جا لڑ بیٹھا تو موبائل نکالا ۔ سامنے ہی "مائن " کے نمبر سے میسج سکرین پر جگمگا رہے تھے ۔ فہد نے سیدھے ہوتے ہوے فورا موبائل نکالا ۔اور میسج کھولا ۔میسج پڑھ کر وہ بیچارا سرخ پڑ گیا ۔ نور اسے جب تندوری چکن کہتی تو اسے پلین کے سب واقع یاد آنے لگتے تھے ۔
"جی فرمائیں ؟"
اس نے جوابی کاروائی کی ۔یہ سوچ بہت مسرور کر رہی تھی خ وہ دشمن جان جو آج دل کو پاگلوں کی طرح دھڑکائی جا رہی تھی کچھ ہی دیر میں مکمل طور پر اس کے نکاح میں آنے والی تھی ۔نور اسی کے میسج کے انتظار میں تھی ۔فورا میسج پڑھا اور ٹائپنگ کرنے لگی ۔
"بڑے لشکارے مار رہے ھو جناب "
نور نے شرارتی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوے میسج بھیجا ۔اس کا میسج پڑھ کر فہد جی جان سے ہنسا ۔شاہزیب صاحب نے اس کی طرف ابرو اچکا کر دیکھا ۔وہ کھسیا گیا پھر ادھر ادھر نظریں دھوڑایں مگر اسے وہ کہیں نظر نہیں آئی ۔
"تم کہاں ھو ؟"
فہد نے جلدی سے میسج لکھا ۔نور اس کا میسج پڑھ کر مسکرائی ۔
"اسٹیج کی بائیں جانب فرسٹ ٹیبل کے ساتھ کھڑی ھوں "
فہد نے جلدی سے ادھر دیکھا ۔اسے وہ اپنی مکمل خوبصورتی کا ساتھ کھڑی نظر آئی ۔ فہد کے دیکھنے پر نور نے فلائی کس بھیجی ۔فہد لمحے کے ہزارویں حصے میں سٹپٹایا اور نظروں کا رخ موڑ لیا ۔
"کیسی لگ رہی ھوں میں ۔فورا تعریف کرو میری اور دل کھول کر تعریف کرنا کنجوص اے ۔سی ۔پی "
فورا سے اس کا میسج آیا ۔
"وہ نکاح کے بعد کروں گا "
فہد کا میسج پڑھ کر نور نے منہ بنایا ۔
"نکاح کے بعد کیوں کرو گے ۔ابھی کرو تعریف "
وہ بھی نور تھی ۔انتہا کی ڈھیٹ ۔
"تب مجھے تمہاری تعریف کرنے کا حق حاصل ھو گا ۔ابھی نہیں ہے "
فہد نے اسے لاجوب کر دیا ۔خاموشی سے اس نے فون کلچ میں منتقل کر دیا ۔ ان چاروں کی رسم کے بعد نکاح خواں آگیا ۔ پھر دانیال کو مجبوراً ڈی ۔جے کو اشارہ کرنا پڑا ۔بیلا چاو بند ہونے پر سب نے سکون کی سانس خارج کی ۔ ورنہ سب ڈر رہے تھے کہ کہیں وہ مہندی کا فنکشن چھوڑ کر چلے نا جائیں ۔ نکاح کے لیے فہد اور نور کو اسٹیج پر لایا گیا ۔وہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے تھے ۔ نکاح خواں نے نکاح کا آغاز کروایا ۔سب سے پہلے نور سے ایجاب و قبول کروایا گیا ۔
"نور اظہر ولد اظہر احمد آپ کا نکاح فہد قریشی ولد بخت قریشی کے ساتھ بعوض حق مہر ایک لاکھ سکہ رائج الوقت طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟"
(میرا نام نور اظہر ہے ۔
کیا میں نے پوچھا ؟
پر میں نے تو بتا دیا نا "
شان بے نیازی سے بولتی وہ نور تھی ۔
مس آپ کو ایک بات بتاتا جاؤں کہ آپ خوبصورت ہونے کے ساتھ ،ساتھ انتہائی پاگل ،بدتمیز بھی ہیں ۔
فہد کا چڑاتا لہجہ پاس گونجا ۔)
خیالوں میں کھوئی وہ ہنسی پھر سب کی نظریں خود پر جمی دیکھ کر سر ہلایا ۔اس کے بعد فہد سے ایجاب و قبول کروایا گیا ۔
"فہد قریشی ولد بخت قریشی آپ کا نکاح نور اظہر ولد اظہر احمد کے ساتھ بعوض حق مہر ایک لاکھ سکہ رائج الوقت طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟"
(کیا تندوری چکن ہے ۔ ۔۔!!
سنو تم شادی شدہ ھو ۔۔؟ ہا مجھے پہلے بتاتے کہ تم اردو بول سکتے ھو ۔
آپ پردا کرتے ہیں ؟
ہائے میرا باگڑ بلا ")
وہ سر جھٹک کر مسکرا دیا اور سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا جو آنکھوں میں محبت سموئے اسے دیکھ رہی تھی ۔
"قبول ہے "
بھر پور مسکراہٹ کے ساتھ فہد قریشی نے نور اظہر کو اپنی زندگی میں خوش آمدید کہا تھا ۔
اس کے بعد سب باری باری آکر ان دونوں کو مبارک باد اور تحفے دے رہے تھے جسے مسکراتے ہوے وہ دونوں قبول کر رہے تھے ۔انہوں نے مل کر ان چاروں کی رسم کی ۔ اس کے فورا بعد ویٹر بوفوں میں کھانا رکھنے لگے ۔ آریان ، قدرے جھک کر امل کے کان کے پاس بولا ۔
"امل ابھی تمہارا بھائی مجھے کہے گا ۔آریان ہمارے لیے کہیں اور کھانے کا بندوبست کر دو "
اور ابھی وہ کہہ کر بمشکل سیدھا ہوا کہ دانیال ھو بہو ایسے ہی بولا ۔ آریان نے جتاتی نظر امل پر ڈالی جو مسکراہٹ دبانے کے چکر میں دوہری ھو رہی تھی ۔آریان نے وہیں بیٹھے ،بیٹھے فہد کو اشارہ کیا جو انہیں کی طرف چلا آیا ۔
"فہد ان جنات کے لیے کہیں اور کھانے کا انتظام کروا دو ۔ اسٹیج پر بیٹھ کر کھاتے یہ کہیں سے بھی دلہن دولہا نہیں لگیں گے ۔الٹا لوگوں کو ہی خوف محسوس ھو گا ۔"
فہد نے ایک نظر دانیال اور فلک پر ڈالی جو دانت نکوستے ہوے زور و شور سے سر ہلا رہے تھے ۔ بھوکے پن کی اگر کوئی تعریف تھی تو وہ ان دونوں سے شروع ھو کر انہی پر ختم ہوتی تھی ۔فہد نے سر نفی میں ہلاتے ہوے سوچا ۔تبھی صارم وہاں چلا آیا ۔
"دانیال ، فلک اس سے پہلے تم لوگ کچھ کہو بابا وغیرہ کے کہنے پر تم لوگوں کا کھانا اندر ڈائینگ ٹیبل پر لگایا جا چکا ہے ۔"
صارم کے کہنے پر ان دونوں کے سوا سب ہنس دیے ۔
"بھائی یہ کہہ چکے ہیں "
امل نے مسکراتے ہوے کہا ۔صارم اپنا سر پیٹ کر رہ گیا ۔
"اب جاؤ بھی تم دونوں "
صارم ان کی طرف مڑا تو اسٹیج خالی تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے داخلی دروازے سے اندر جاتے نظر آئے ۔
"افف یہ دونوں "
فہد بڑبڑایا ۔
"عجوبے ہیں نا "
آریان نے فقرا مکمل کیا تو وہ سب ہنس دیے ۔ کھانا سب نے خوش گوار ماحول میں کھایا ۔ فلک ،دانیال بھی سب کے کھانا ،کھانے کے بعد اندر سے ہشاش بشاش چلتے آرہے تھے ۔ دور کھڑے ویٹر نے کانوں کو ہاتھ لگایا ۔وہ انھیں کھانا سرو کرتا رہا تھا اور وہ یہ دعوے سے کہہ سکتا تھا کہ یہ دونوں انسان تو بلکل نہیں ھو سکتے ۔دانیال اور فلک منی اسٹیج کی طرف چلے آئے ۔ نور اور فہد اسٹیج پر ڈانس کر رہے تھے اور خوب ہوٹنگ ھو رہی تھی ۔امل اور آریان بھی وہیں کھڑے ھوٹنگ کر رہے تھے ۔ نور اور فہد بہت پرفیکٹ سٹیپس لے رہے تھے ۔وہ دونوں دلبر گانے کے عریبک ورین پر ڈانس کر رہے تھے ۔ وہ اتنا اچھا ڈانس کر رہے تھے کہ یوں لگتا جیسے وہ دونوں پریکٹس کرتے رہے ھوں ۔مگر انھیں کون بتائے کہ واقعی ان دونوں نے آن لائن ویڈیو کال پر پریکٹس کی تھی ۔ یہ بھی نور دی گریٹ کا آئیڈیا تھا ۔ ان کے بعد امل اور آریان نے مل کر کپل ڈانس کیا ۔
بے سر پیر کی باتیں کر رہا ھوں
گھر ھو کر بھی بے گھر پھر رہا ھوں
تارے گن گن دن کو رات
رات کو دن کر رہا ھوں
تو پوچھ نیو حال فقیراں دا
ملے آج ماہی میرا مینو ملیا
میں شکر مناواں تقدیراں دا
ڈسکو لائٹس ماحول کو مزید دلفریب بنا رہی تھیں ۔ ان چاروں نے پریکٹس کی تھی اس لیے وہ دونوں بھی بہت اچھا ڈانس کر رہے تھے ۔ اس کے بعد کچھ کزنز نے ڈانس کیا ۔ پھر فلک اور دانیال میدان میں اترے ۔ ان دونوں نے "شکر ونڈا رے مورا پیا مجھے ملن آیو " گانے پر زبردست پرفارمنس دی ۔ جسے سب نے سراہا ۔ اس کے بعد امل ، فلک ،نور نے "اکھیاں نے لکھے لوو " گانے پر ڈانس کیا اور ان کے ساتھ کچھ کزنز بھی تھی ۔ اس کے بعد صارم ، عالیہ ، سب بڑوں نے بھی ڈانس کیا ۔ آخر میں آریان ،فہد ،دانیال نے "منڈیاں تو بچ کے رہیں " گانے پر ڈانس کیا جو سب پر بھاری رہا ۔ تقریب ختم ہونے سے پہلے ڈھول والے نے خوب ڈھول پیٹا اور سب لڑکوں نے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے ۔رات ایک بجے فنکشن تمام ہوا ۔ مہمانوں کے جانے کے وہ سب لان میں بیٹھے تھے ۔رشتہ دار تو اندر جا کر شاید سو گئے تھے یا چائے ٹائم چل رہا تھا ۔مگر کچھ کزنز ادھر ادھر بیٹھے گپوں میں کوئی موبائل چلانے میں مصروف تھا ۔فہد دانیال اور آریان کے ساتھ بیٹھا تھا دانیال کی گود میں سویا ہوا صائم تھا مگر وہ کسی صورت عالیہ کو اسے دینے پر راضی نہیں تھا ۔تھک ہار کر عالیہ خود اندر چلی گئی ۔ تبھی فہد کو نور کا میسج آیا ۔
"اب کر دو تعریف "
ساتھ میں دو مسکینت دکھاتے ایموجی تھے ۔ جب امل اور فلک اندر گئیں تھیں تب وہ امل کے ساتھ آفندی مینشن چلی گئی تھی ۔ اس کا میسج پڑھ کر فہد مسکرایا ۔
"چینج تو نہیں کیا نا "
فہد نے میسج ٹائپ کیا فورا اس کا رپلائی آیا ۔
"نہیں کیوں ؟"
"پھر ذرا باہر آجاؤ میں انتظار کر رہا ھوں وہیں تمہارا ۔"
فہد کا میسج پڑھ کر نور کو حیرانی ہوئی۔
"جناب ایک تعریف کرنی ہے بس اور اس کے لیے باہر آنے کی کیا ضرورت ہے "
نور نے جانچتے لہجے میں پوچھا ۔
"ٹھیک ہے اگر ابھی آج نہیں آئی تو بھول جانا مستقبل میں کبھی میں تمہاری تعریف کروں گا "
فہد کے کہنے پر نور کو اپنے سامنے مستقبل ایک فلم کی طرح چلتا نظر آنے لگا ۔ وہ بہت خوبصورت لباس میں میک اپ کیے زیور پہنے فائلز میں الجھے فہد کے پاس کھڑی تھی ۔
"فہد میں کیسی لگ رہی ھوں "
"چڑیل "
نور ھڑبڑا کر سوچوں سے نکلی ۔
"تم آئے نہیں فہد میں یہاں باہر کھڑی سوکھ سوکھ کر مرجھا گئی ھوں "
ساتھ ہی وہ لہنگا سمبھالتے باہر کو دھوڑی ۔سامنے اسما بیگم کچن سے نکل رہی تھیں ."میری جان ڈریس چینج نہیں کیا اور کہاں جا رہی ھو ؟"
انہوں نے اسے سر تا پیر دیکھا ۔
"ینگ لیڈی میرا تازہ ،تازہ شوہر مجھ سے ملنا چاہتا ہے وہ باہر انتظار کر رہا ہے میں آتی ھوں ۔ اس سے مل کر "
نور دھوڑ کر باہر آئی ۔ گیٹ کھول کر وہ باہر نکلی تو سامنے فہد ادھر ادھر چکر کاٹتا اس کا انتظار کر رہا تھا ۔
"جلدی تعریف کر دو "
وہ پھولے ہوے سانسوں میں بمشکل بول پائی ۔ فہد نے نظر بھر کر اسے دیکھا ۔
"چلو چلتے ہیں "
فہد نے اسے چلنے کا اشارہ کیا ۔
"پر کہاں ؟"
نور حیرانی سے اس کے ساتھ قدم اٹھاتے ہوے بولی ۔
"ہمارے گھر "فہد ولا "
فہد دل کش انداز میں بولا ۔نور نے اسے گھورا ۔
"دو نمبر اے۔سی ۔پی ابھی صرف نکاح ہوا ہے رخصتی نہیں ہوئی جو اتنا فری ھو رہے ھو "
نور نے اسے لتاڑا ۔فہد سر جھٹک کر رہ گیا ۔
"دو نمبر ھوں یا تین نمبر اب تو بس تمہارا ھوں "
وہ فہد ہی کیا جسے اثر ھو جائے ۔
"تم نکاح کے بعد خاصے فری نہیں ہونے لگے "
نور شکی انداز میں اسے گھورتے ہوے بولی ۔
"تم نکاح سے پہلے بھی بہت تھی "
فہد بڑبڑایا ۔
"کچھ کہا ۔؟"
نور کڑے تیوروں سے بولی ۔فہد نے بے اختیار نفی میں سر ہلایا ۔
"میری اتنی جرت کہ میں تمہے کچھ کہہ دوں "
وہ منمنایا ۔
"پندرہ منٹ سے ایک منٹ اوپر نہیں ۔آئی سمجھ "
فہد ولا کا داخلی دروازہ عبور کرتی وہ اسے وارن کرنا نا بھولی ۔
"جو حکم جناب "
فہد نے سر خم کیا ۔نور ستائشی انداز میں ارد گرد دیکھ رہی تھی ۔
"ماشاء اللّه گھر بہت پیارا ڈیکوریٹ ہے ۔کس نے کیا ؟"
نور اس کی جانب مڑی ۔
" بینش نے کیا ہے "
فہد اس کی طرف نرم نگاہوں سے دیکھتے ہوے بولا ۔
"ہاں بینش سے یاد آیا ۔وہ کچھ بولے گی نہیں تمہارے نکاح پر جو اس کی غیر موجودگی میں ہوا "
اس کی بات پر فہد ہنسا ۔اور موبائل کی سکرین پر انگلیاں گھمائیں ۔
"یہ سنو "
ایک آڈیو میسج چلا کر اس نے نور کی طرف موبائل بڑھایا ۔بینش کی کھنکتی آواز فون سپیکر سے آنے لگی ۔
"شاباش بھائی ۔۔۔ بہت اچھا فیصلہ ہے ۔نور بہت اچھی اور پیاری ہے ۔اور معصوم بھی ۔ہاں تھوڑی شرارتی ہے مگر میرے سنجیدہ سے بھائی کے ساتھ سوٹ کرے گی ۔ میری فکر مت کریے گا نکاح پر نہیں ھوں تو کیا شادی میں مس نہیں کروں گی "
" ہاہاہا ۔۔اسے کس نے کہا میں معصوم ھوں ؟"،
نور نے مسکراہٹ دباتے ہوے پوچھا ۔بے اختیار فہد ہنسا ۔نور نے مبہوت ھو کر اسے دیکھا ۔
"تمہے پتا ہے تمہاری مسکراہٹ اتنی خوبصورت ہے اسی لیے بار ،بار ہنس رہے ھو ۔۔۔کچھ میرے کمزور دل کا خیال کر لو "
نور کی دہائی پر اس نے بمشکل مسکراہٹ دبائی ورنہ وہ پھر شروع ھو جاتی ۔
" بیچاری بینش کو ایک یہی بات پتا نہیں ہے کہ تم معصوم نہیں ھو "
"مینشن ناٹ ۔۔۔جیسے کہ ایک بار پہلے بھی کہا تھا خوبصورت لڑکوں کی طرف سے کی گئی عزت افزائی کو تو میں تعریف سمجھ کر قبول کرتی ھوں "
نور نے ماتھے تک ہاتھ لے جاتے ہوے شکریہ ادا کیا ۔
"آؤ اب کہ یہیں کھڑی رہو گی ؟"
"اب کہاں ؟"
نور نے آنکھیں گھمائیں ۔
" نور ڈیر ۔۔۔تم کافی بناؤ گی پھر بیٹھ کر میں تمہاری تعریف کروں گا ۔"
فہد نے اسے یاد دلانا چاہا ۔
"اے۔سی ۔پی بھول جاؤ میں کافی بناؤں گی ۔ میں تمہاری تازی ۔،تازی بیوی ھوں مجھ سے کام کرواو گے ۔شرم نہیں آتی تمہیں ۔؟ چلو شاباش کافی بناؤ اور بالکنی میں لے آنا میں تب تک سارا گھر دیکھوں گی ۔"
نور اسے آنکھ مارتی وہاں سے چلی گئی ۔فہد پاؤں پٹختا کچن کی جانب چل دیا ۔سارا گھر دیکھنے کے بعد نور بالکنی میں آگئی ۔ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں اور ماحول کو مزید دل فریب بنا رہی تھیں ۔آسمان کی جانب دیکھتے ہوے نور نے رب کا شکر ادا کیا جس نے اسے بے شمار اور بے لوث رشتے عطا کیے تھے اور اتنی محبت کرنے والا شوہر ۔مگر وہ اپنے اے ۔سی ۔پی کو ہمیشہ تنگ کرے گی ۔یہ سوچ ذہن میں آتے ہی چہرے پر شرارتی مسکراہٹ چھائی اور وہیں سے کمرے کی جانب منہ دے کر وہ اونچی آواز میں چلائی ۔
"دو نمبر اے ۔۔سی ۔پی بکرے کے پائے گلا رہے ھو ؟"
دانت پیستے اس کے ٹھنڈے طنز کو برداشت کرتے ہوے فہد کافی کے کپ تھامے بالکنی میں چلا آیا ۔ نور نے منہ بسورتے ہوے کپ پکڑا ۔
"کنجوس ۔۔۔ساتھ کچھ لے آتے "
وہ منہ بگاڑ کر بولی ۔فہد نے کپ سائیڈ پر رکھا ۔
"محترمہ میں بھی تمہارا تازہ ،تازہ شوہر ھوں ۔ مگر تم نے مجھ پر ذرا رحم نہیں کیا ۔اب نیچے کچن ہے ، فریج بھی ادھر ہی ہے جو لینا ہے لے لو جا کر "
فہد نے باقاعدہ ہاتھ جوڑے ۔نور نے اسے گھورا پھر وہ خاموشی سے کافی پینے لگی ۔فہد منتظر رہا کہ وہ کافی پر کوئی کمپلیمنٹ دے مگر وہ خاموشی سے باہر نظریں جمائے کافی پی رہی تھی ۔ ناک کی نتھ کب کی اتار دی تھی جو کان کے ساتھ ہی جھول رہی تھی ۔
"اچھا اب میری تعریف کر بھی دو "
نور نے کافی کا کپ ایک طرف رکھا ۔
"کروں ؟"
فہد نے ابرو اچکاتے ہوے پوچھا ۔
"اف کورس "
اگلے ہی لمحے اپنے قریب آتے فہد کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھتی وہ پیچھے دیوار سے جا لگی ۔فہد اس سے دو قدم کے فاصلے پر رکا اور اس کی آنکھوں میں سنجیدگی سے دیکھنے لگا ۔نور پہلی بار اس کے سامنے بھیگی بلی بنی تھی ۔انگلیاں چٹخاتے سر اٹھا کر اس نے فہد کو دیکھا ۔اسے فہد کی نیلی ساحر آنکھوں میں اپنے لیے ،محبت ،عزت نظر آئی ۔ نیلی آنکھیں چیخ ،چیخ کر اس کی خوبصورتی بیان کر رہی تھیں ۔
"میری نظر سے دیکھو تو دنیا کی حسین لڑکی ھو تم ۔تھوڑی کھسکی ھو مگر فہد قریشی وعدہ کرتا ہے پورا نا صحیح ، گزارے لائق تمہے اپنے رنگ میں رنگ دے گا ۔ نکاح مبارک مسز "
اپنے کانوں کے پاس اس کی میٹھی سرگوشی سن کر اس کا دل ایک سو بیس کی رفتار پر دھوڑنے لگا ۔دل پسلیاں توڑ کر باہر آنے کی ضد کرنے لگا ۔اس پر تضاد باقی رہتی ہمت اپنے ماتھے پر فہد کا محبت بھرا لمس محسوس کر کے دم توڑ گئی ۔ فہد کو سائیڈ پر ہٹا کر وہ دوسری طرف رخ کیے کھڑی ھو گئی ۔ کانپتے ہاتھوں کو بھینچ کر اس نے دل کی دھڑکنوں پر قابو پانے کی ناکام سی کوشش کی ۔پھر منمنائی ۔
"تم واقعی دو نمبر اے ۔سی ۔پی ھو "
اس کی بات پر فہد کا قہقہ بے ساختہ تھا ۔
۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔
رخصتی کے فنکشن کا انتظام ہال میں کروایا گیا تھا ۔ ہال کو بہت خوبصورتی سے نفیس طریقے سے سجایا گیا تھا ۔ایک ہی طرح کے دو اسٹیج بنائے گئے تھے ۔ رخصتی کا فنکشن شام کے ٹائم رکھا گیا تھا ۔ نور ، گیارہ بجے کے قریب ہی امل ،اور فلک کو لئے پالر چلی گئی تھی ۔ برات علیحدہ ،علیحدہ آنا تھی مگر ایک ساتھ آنا تھی ۔دانیال اور آریان دونوں ہی اپنا سارا سامان لیے فہد ولا تیار ہونے جا چکے تھے ۔شام پانچ بجے کے قریب مہمان آنے لگے ۔ اسما بیگم ، عائشہ بیگم پہلے ہی ہال آچکی تھیں عالیہ بھی ان کے ساتھ آئی تھی ۔وہ تینوں مہمانوں کو ویلکم کر رہی تھیں ۔ عالیہ نے ایک طرف ھو کر نور کو فون کیا ۔
"نور تیار ھو گئی ھو تم اور وہ دونوں؟ "
"ہاں آپی ھو گئی ہیں بس فلک کے میک اپ کو فائنل ٹچ دیا جا رہا ہے ۔ "
نور کی چہکتی آواز فون سپیکر سے ابھری ۔
"میں فہد کو بھیجتی ھوں ۔دس منٹ کافی ہیں نا "
عالیہ کے کہنے پر دوسری طرف نور کے مثبت جواب پر عالیہ نے فون بند کیا ۔پھر کال لوگ سے فہد کا نمبر ملایا۔
"فہد آریان اور دانیال تیار ھو گئے ۔"
"ہاں جی ھو رہے ہیں ۔ ابھی بھی دونوں میرے کمرے میں گھسے کمرے کا حشر نشر کر رہے ہیں اور تیار کم ھو رہے ہیں۔انھیں ابھی مزید پندرہ منٹ درکار ہیں ۔ اس کے بعد ہی برات نکلے گی ۔گاڑیاں تو مینشنز میں ہی کھڑی ہیں "
فہد نے اسے مکمل تفصیلات سے آگاہ کیا ۔
"ہاں ٹھیک ہے تم پہلے لڑکیوں کو پالر سے لے کر ہال ڈراپ کرو "
عالیہ جلدی ،جلدی بولتی کال کاٹ گئی ۔
"جو حکم "
فہد نے سر خم کیا اور کی رنگ اٹھائے بغیر ان دونوں کو بتائے چلا گیا کہ ان دونوں کو بتاتا تو کوئی شک نہیں تھا وہ دونوں اسی کے ساتھ گاڑی میں چڑھ جاتے ۔ پالر سے لڑکیوں کو لے کر ہال چھوڑنے کے بعد وہ واپس آیا تو آریان تیار ھو کر لاؤنج میں بیٹھا تھا ۔اس نے گولڈن شیروانی کے ساتھ سفید پاجامہ اور گولڈن ہی کھسہ پہن رکھا تھا ۔ بال ایک طرف جمائے ،ہلکی بڑھی شیو میں اپنی جان لیوا مسکراہٹ کے ساتھ وہ بہت خوبرو لگ رہا تھا ۔ میرون کلا ایک طرف رکھا تھا ۔ جو تھوڑی دیر تک پہننا تھا ۔
"ماشاء اللّه ۔میرے دوست کو کسی کی نظر نا لگے ۔وہ آفت کہاں ہے ؟ "
تبھی اندر کمرے سے دانیال کی چنگاڑتی آواز آئی ۔
"یہ کلا کون سی مصیبت ہے ۔ مجھ سے پہنا نہیں جا رہا "
فہد نے آریان کو دیکھ کر ایک آنکھ دبائی ۔
"اچھا ٹھیک ہے نا آو ۔۔۔ تم یہیں رہ لو ۔فلک نہیں ملنی پھر "
فہد کے کہنے کی دیر تھی کہ گرتے پڑتے دانیال دھوڑتا ہوا آیا ۔ کلا ٹیڑھا کیے سر پر کسی طرح جمانے کی بہت ناکام سی کوشش کی گئی تھی ۔ خاکی رنگ کی شیروانی کے ساتھ سفید تنگ پاجامہ اور پاؤں میں پہنا میرون کھسہ پہنے ، ایک کندھے پر میرون کڑھائی والی شال ڈال رکھی تھی جو پیچھے سے لے جا کر دوسرے بازو پر ڈالی گئی تھی ۔ وہ ہانپتا ،کانپتا بے صبروں کی طرح دروازے کی جانب دھوڑا ۔
"چلو جلدی کرو فلک میرا انتظار کر رہی ھو گی ۔جلدی کرو یار "
انھیں وہیں جما دیکھ کر چلا اٹھا ۔وہ دونوں اسے گھورتے ہوے اس تک آئے ۔ گاڑی میں بیٹھ کر وہ آفندی اور شاہزیب مینشن چلے آئے ۔جہاں سے اپنی ،اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر برات کو نکلنا تھا ۔ برات پہلے ہی منتظر کھڑی تھی دونوں بڑوں سے پیار اور دعائیں لے کر اپنی ،اپنی گاڑیوں میں بیٹھے ۔ احمر بھی دانیال کے بلانے پر آیا تھا ۔ دانیال کی گاڑی وہ چلا رہا تھا اور فہد آریان کی گاڑی چلا رہا تھا ۔برات ہال پہنچی وہیں برائیڈل روم۔ میں تیار بیٹھی امل اور فلک نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا ۔جہاں دانیال اور آریان فہد کے ساتھ ملے ڈھول کی تھاپ پر زور و شور سے بھنگڑے ڈال رہے تھے ۔ امل ،اور فلک ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنس دیں ۔
"یہ پاگل ھو گئے ہیں "
امل ہنستے ہوے بولی ۔
"یار پہلی ،اور اکلوتی شادی ہے میرا تو خود بھنگڑا ۔،لڈی سب اچھل ،اچھل باہر آرہا ہے بڑے زوروں کا ڈانس آرہا ہے "
فلک ساتھ ھی ساتھ تھوڑا ، تھوڑا ناچ بھی رہی تھی ۔امل نے ہنستے ہوے اسے دیکھا اور پھر وہ دونوں ایک ساتھ ناچنے لگیں ۔
"کتنی بے شرم ہیں ہم "،
امل نے رک کر لقمہ دیا ۔
"ہاں ان سے کم ہیں "
فلک نے باہر کی جانب اشارہ کیا ۔جہاں دانیال کی بس اب نیچے لیٹ کر ڈانس کرنے کی کثر رہ گئی تھی ۔کل کی طرح آج بھی ناجانے شال کہاں پڑی اپنی ناقدری کو رو رہی تھی ۔مگر اسے تو کسی چیز کا ہوش نہیں تھا ۔آریان ،احمر اور فہد تو نارمل انداز میں بھنگڑے ڈال رہے تھے ۔
"یار میرا دانی کتنااااا پیارا لگ رہا ہے "
"توبہ ہے لڑکی ذرا شرم کو ہاتھ مار لو "
تبھی انھیں پیچھے عائشہ بیگم کی چنگاڑتی آواز سنائی دی ۔
"آہی نہیں رہی شرم "
وہ شرمانے کی بہت ناکام کوشش کرتے ہوے بولی ۔
"یہ میرا نیا جوتا ہے اور اس نے ابھی ٹیسٹ ڈرائیو نہیں کیا ابھی ماروں گی نا عقل آجاے گی ۔"
فلک نے ہنستے ہوے تالی بجائی ۔
"امل لگ رہا ہے کہ میری آج شادی ہے جیسے امی اپنی فلائنگ چپل لیے کھڑی ہیں ۔ مجھے امید تھی اور نہیں تو کم از کم میری شادی والے دن امی مجھے بخش دیں گی مگر دیکھ لو ۔۔نہی دیکھو ذرا "
فلک نے اسما بیگم کی طرف اشارہ کرتے ہوے امل سے کہا ۔امل دبے انداز میں ہنسی ۔
"خدا کرے تمہاری اپنے ہی جیسی ایک بیٹی ھو فلک اور تمھے لگ پتا جائے کہ تم کیا چیز تھی "
اسما بیگم کانوں کو ہاتھ لگاتی مزاح کے انداز میں بولیں ۔مگر کون جانے کے کچھ باتیں حقیقت کا روپ بھی دھار لیتی ہیں ۔ فنکشن کمبائین تھا ۔اس لیے برات آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد امل اور فلک کو لینے اندر آگئے ۔مگر فلک نے کھانا کھائے بغیر اٹھ کر باہر جانے سے انکار کر دیا ۔جس پر عائشہ بیگم کا ہاتھ اپنی جوتی تک جاتے ،جاتے رک گیا ۔ پھر مرتے کیا نا کرتے صرف امل کو لیے نور باہر آئی ۔سب کی نظریں دو دلہن دیکھنے کی منتظر تھیں ایک دیکھی تو چہ مگوئیاں کرنے لگے ۔ نور امل کو لیے اسٹیج کی طرف بڑھی جو سہج ،سہج قدم اٹھاتی اسٹیج تک آرہی تھی ۔اس کے ھر اٹھتے قدم پر آریان کو اپنی دھڑکن بڑھتی محسوس ھو رہی تھی ۔وہ لگ ہی اتنی دل فریب رہی تھی کہ اس پر پڑنے والی ھر نظر جھکنا بھول رہی تھی ۔ میرون رنگ کا لہنگا اور اوپن شرٹ اس پر بہت جچ رہی تھی میرون رنگ لال کا شیڈ دے رہا تھا ۔ مہارت سے ہوے میک اپ اور مالا سیٹ اسے مزید دل کش بنا رہے تھے ۔نظریں جھکائے وہ اسٹیج تک آئی تو آریان نے ہاتھ بڑھا کر اسے اسٹیج پر چڑھنے میں مدد دی ۔ فوٹو گرافر ھر لمحہ کیمرے میں محفوظ کر رہے تھے ۔ وہیں دانیال بے صبری سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا اس کی حالات سے حظ اٹھاتی نور دانیال اور فلک کے لیے سجائے اسٹیج تک پہنچی ۔
"دانیال "
وہ بہت عجیب سی آواز میں بولی تو دانیال کے دل کو دھڑکا لگا۔
"کّک ۔۔کیا ہوا ۔فلک کدھر ہے وہ کیوں نہیں آئی ؟"
وہ جلدی ،جلدی بولا ۔
"دانیال اس نے رخصتی سے منع کر دیا ۔"
وہ آنکھیں پٹپٹائے معصومیت سے بولی ۔ دانیال کو لگا اس کا دل بند ھو جائے گا ۔
"ایسے کیسے کر دیا میں ابھی جا کر اس سے پوچھتا ھوں "
وہ ایک دم سے کھڑا ھو کر نیچے کی طرف بڑھنے لگا کہ آریان کے کان میں کچھ کہہ کر فہد تیزی سے اس کی طرف آیا ۔
"کدھر منہ اٹھایا ہوا ہے ؟"
فہد کڑے تیوروں سے بولا ۔ نور نے ایک نظر فہد کو دیکھا ۔ اس کا تعریف کرنا یاد آیا تو پل بھر میں وہ سرخ ہوئی مگر جلد اپنی حالت پر قابو پایا ۔واسکوٹ اور سفید بوسکی کے سوٹ میں وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا ۔
"نور نے کہا کہ ۔۔۔فلک۔۔۔نے رخصتی سے انکار کر دیا "
فہد نے ایک نظر نور کو دیکھا جو اس کے دیکھنے پر ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔ رائل بلیو اچھی فراک اور گھرارے پہنے بال پشت پر ڈالے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔
"کس کی بات پر یقین کیا ہے تم نے "
فہد نے افسوس سے سر نفی میں ہلایا ۔ وہ ابھی اندر فلک کی باتیں سن کر آرہا تھا جس کا کہنا تھا کہ کھانا کھائے بغیر وہ یہاں سے باہر نہیں جائے گی ۔
"کیا مطلب ؟"
دانیال کے پوچھنے پر فہد نے اسے سب بتایا تو دانیال فخریہ انداز میں مسکرایا ۔
"مجھے اپنی پسند پر فخر ہے ۔میں بھی جا رہا ھوں اپنی بیوی کے پاس ۔ہم کھانا کھا کر ہی ایک ساتھ آئیں گے "
وہ فہد کے روکنے کے باوجود بھی سب کی نظروں سے کس طرح بچ بچا کر برائیڈل روم میں چلا آیا ۔ دروازہ کھول کر اندر جھانکا تو ایک پل کے لیے فلک کو مکمل دلہن بنا دیکھ کر اس کا دل شدت سے دھڑکا ۔ وہ اپنے حنائی ہاتھوں سے ناک کی نتھ کھول رہی تھی تاکہ کھانے میں آسانی ھو ۔ لانگ اوپن ڈارک میرون فراک کے ساتھ گولڈن لہنگا اور خوبصورت سیٹ پہنے ،فل برائیڈل میک اپ میں وہ دانیال کے دل پر قیامت ڈھا رہی تھی ۔بے اختیار دانیال نے دل پر ہاتھ رکھا ۔فلک نے چونک کر سر اٹھایا اور دانیال کو دیکھا ۔ دانیال آئے گا اس بات پر اسے یقین تھا وہ جی جان سے مسکرائی ۔تو دانیال دل پکڑے صوفے پر دھپ سے گرا ۔
"ہائے میاں جی تمہے کیا ہوا ۔۔"
وہ دھوڑ کر اس کے پاس آئی ۔
"تمہاری جان لیوا مسکراہٹ دیکھی ہے تو لگ رہا ہے کہ سانس آنا بند ھو گئی ہے "
وہ فلمی انداز میں بولا۔ فلک نے اسے گھورا اور اس کے کندھے پر دھپ رسید کی ۔دانیال بلبلا کر رہ گیا ۔
"کتنی اوور ایکٹنگ آتی ہے تمہے "
فلک نے منہ بسورتے ہوے کہا ۔
"اچھا چھوڑو یہ بتاؤ یہاں کیسے آئے کسی نے دیکھا نہیں "
فلک کھسک کر اس کے پاس ہوتی جاسوسی انداز میں بولی ۔
"نہیں میں اتنی مہارت سے آیا ھوں ۔ کچھ لوگوں نے دیکھا ہے اب میں لوگوں کی آنکھیں بند تو نہیں کرواس سکتا ۔لیکن میں جو کرتا ھوں اس پر کسی کو بل بھی تو نہیں آسکتا ۔میری بیوی ،میری مرضی ۔"
دانیال نے ہونہہ کے انداز میں سر جھٹکا ۔
"کھانا آنے ہی والا ھوگا "
فلک ہاتھ مسلتے ہوے بولی ۔ دانیال نے جلدی سے کلا اتار کر ایک طرف رکھا ۔ تبھی دروازے پر دستک ہوئی ۔
"یس "
دانیال کی اجازت پر ویٹر اندر آئے اور ٹیبل پر ترتیب سے کھانا لگانے لگے ۔ جب ویٹر کھانا لگا کر جانے لگے تو دانیال نے ان میں سے ایک کو آواز دی ۔
"سنو ۔۔۔ایک کام کرو وہ چیر پکڑو اور باہر دروازے کے آگے بیٹھ جاؤ ہمیں کچھ بھی چاہیے ہوا تو آواز دے لیں گے "
ویٹر چیر لیتا سر ہلاتا باہر چلا گیا ۔فلک اور دانیال نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔
"حملہ "
وہ ایک ساتھ چلائے تو باہر بیٹھے ویٹر کو لگا کہ بارڈر پر حملہ ھو چکا ہے ۔ وہ دونوں پچھلے پندرہ منٹ سے بےچارے ویٹر کو گھن چکر بنائے ہوے تھے ۔دانیال نے بریانی سے بھر پور انصاف کرتے ہوے سر اٹھا کر فلک کو دیکھا ۔جو بمشکل سٹرا سے کوک کے سپ بھر رہی تھی ۔
"بیگم جان سٹرا سے کیوں پی رہی ھو ؟"
دانیال نے حیرانی سے پوچھا ۔
"مما نے بولا تھا ایسے نہیں پیوں گی تو لپسٹک خراب ھو جائے گی ۔"
وہ روہانسے لہجے میں بولی ۔دانیال نے چمچ چھوڑ کر سنجیدگی سے اسے دیکھا ۔
"جو مزہ ایک ساتھ کوک کا بڑا سپ لینے میں ہے وہ مزہ سٹرا سے چسکیاں بھرنے میں نہیں ہے ۔بے فکر ھو کر پیو ۔ تمہیں ایسے دیکھنا میرا حق تھا سو میں نے دیکھ لیا باقیوں نے کون سا پاس آکر گھور گھور کر دیکھنا ہے ۔شاباش سکون سے پیو ۔"
دانیال نے کہتے ساتھ ہی سٹرا نکال کر پھینکا ۔فلک نے تشکر سے اسے دیکھا۔
"شکر ہے اللّه نے تمہیں میرا نصیب بنایا ۔"
وہ باقاعدہ ہاتھ اٹھاتے بولی ۔دانیال ہنسا ۔
"اور اللّه کا شکر ہے میں تمہارا نصیب بنا "
دانیال نے ایک آنکھ دباتے ہوے کہا تو فلک کھلکھلا کر ہنس دی ۔
۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔۔____۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانے کے دور کے فورا بعد وہ دونوں بھی ایک ساتھ خراماں ، خراماں چلتے اسٹیج تک آئے ۔ بعد ازاں رسمیں شروع ھو گئیں ۔ نور نے امل کی طرف سے دودھ پلائی کی رسم کی ۔ وہ دس ہزار لے کر ہی مانی ۔ حالانکہ فہد نے آخری دم تک کوشش کی کہ نور کو ایک پھوٹی کوڑی نا ملے ۔وہ وقفے ،وقفے سے طنز کرتے ہوے نور کو بھر پور چڑا رہا تھا ۔بلاآخر نور نے دھمکی دی تو وہ فورا چپ ہوا مبادا وہ ایسا کر ہی نا دے ۔
"دو نمبر اے ۔سی ۔پی میں نے رخصتی مزید تین سال ڈیلے کر دینی ہے "
اس کی بات پر سب کا قہقہ بے ساختہ تھا ۔ اس کے بعد عالیہ نے فلک کی طرف سے دودھ پلائی کی رسم کی مگر افسوس اسے ایک پھوٹی کوڑی نہیں ملی الٹا وہ بوکھڑ سارا دودھ کا گلاس بھی اکیلا ،اکیلا پی گیا ۔
"دانیال اگر پیسے نا دیے تو فلک بھی ہمارے پاس رہے گی "
عالیہ نے دھمکی دیتے ہوے آخری پینترا آزمایا ۔دانیال نے ایک نظر فلک کو دیکھا ۔
"پیسے چاہیے "
عالیہ نے سر ہلایا ۔دانیال نے جیبوں میں ہاتھ ڈالا ۔ پھر دو سکے نکالے ۔
"آپ سے میں نے پوچھا ۔پیسے چاہیے ۔آپ نے کہا ہاں تو یہ لیں ۔دیکھیں بہت دھیان سے خرچ کریے گا ۔ضائع بلکل نہیں کرنے "
وہ ساتھ میں ڈھیر ساری نصیحتیں کرنا نا بھولا ۔عالیہ دانت پیس کر رہ گئی ۔
"کہو تو سارے خاندان کو عمرہ کی ٹکٹ نا لے دوں "
وہ دانت پیستے گویا ہوئی ۔دانیال سوچنے کی اداکاری کرنے لگا۔ ۔
"مرضی ہے آپکی ۔۔"
کندھے اچکائے وہ بے نیازی سے بولا ۔
"تم "
عالیہ کے الفاظ منہ میں رہ گئے جب وہ بول اٹھا ۔
"الحمداللّه بہت فراخ دل ہون بس تعریف کی ضرورت نہیں ۔ "
سب کا قہقہ بے ساختہ تھا ۔بیچاری عالیہ کو ان چار روپے کے ساتھ ہی نیچے آنا پڑا ۔۔۔وہ منہ بسورے اسٹیج سے اتری تو ھر طرف سے ہنسی کا فوارا پھوٹا ۔ دانیال ٹانگ ،پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا مکمل بتیسی کی نمائش کر رہا تھا ۔ فلک بھی اس کے ساتھ ہائی فائی کرتی ہنس دی ۔
"سنو انہی پیسوں کا ہم کچھ اچھا سا کھائیں گے "
وہ اس کے پاس جھک کر بولی ۔دانیال نے آنکھ دبائی ۔
"اف کورس مائی لیڈی ۔"
پھر رات گیارہ بجے رخصتی کا شور اٹھا ۔ رخصتی کے نام پر امل کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔وہ اسما بیگم ،شاہزیب صاحب اور نور کے گلے لگے ہچکیوں سے رو دی ۔جب دانیال کے گلے لگی تو جھک کر وہ اس کے کان میں بولا ۔
"امل یار رو مت اتنی خوفناک لگ رہی ھو کہ اللّه کی پناہ ۔"
امل نے اس کے شانے پر مکا جڑ دیا ۔ پھر امل سب سے ملتی آریان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر پیا دیس سدھار گئی ۔گو کہ وہ اپنے گھر سے نکل کر ساتھ والے گھر گئی تھی مگر رخصتی کا مرحلہ ایسا ہوتا کہ ھر لڑکی کی آنکھ نم ھو جاتی ہے یا شاید نہیں ۔۔۔!!!
فلک مسکراتے ہوے عائشہ بیگم کے گلے لگی ۔
"دو آنسو ہی بہا لو "
وہ نم لہجے میں بولیں ۔ فلک چاہنے کے باوجود بھی رو نہیں پا رہی تھی ۔
"مما آپ کی فلائنگ چپل کو بہت یاد کروں گی "
وہ ان سے الگ ہوتے شریر لہجے میں بولی تو سارے ہنس دیے ۔
"چندہ زیادہ یاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے جب جی چاہے آجایا کرنا ۔ خوب تواضع کر دوں گی ۔میری ھر چپل کی ٹیسٹ ڈرائیو تو تمہی پر ھو گی "
اب کی بار قہقہ لگانے کی باری دانیال کی تھی ۔مگر فلک کے گھورنے پر وہ فورا ہونٹوں پر انگلی رکھے خاموش ہونے کی اداکاری کرنے لگا ۔سب سے مل کر وہ سب سے آخر میں صارم کے گلے لگی ۔ صارم نے اس کا ماتھے چوما ۔
"گڑیا ۔۔۔ خوش رہنا اور زیادہ تنگ نا کرنا "
فلک اس کی بات پر ہنسی دی اور ایک بار پھر اس کے گلے لگی ۔ بلاآخر وہ دونوں رخصت ھو کر اپنی حقیقی منزل تک پہنچ گئیں ۔ان دونوں کو آتے ہی ان کے کمروں میں بھیج دیا گیا ۔عالیہ نے تو اندر جانے کے لیے آریان سے پیسے بٹور لیے مگر نور کے ہاتھ کچھ نہیں لگا ۔
۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔____۔۔۔۔۔۔۔____
وہ کمرے کو جانچتی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔پہلے یہ کمرہ صرف آریان کا تھا مگر اب تو وہ بھی اس کمرے کی مالکن تھی ۔ کمرہ آریان کی چوائس کے مطابق کالے اور سفید تھیم سے سجا ہوا تھا ۔کمرے میں گلاب کے پھولوں سے بہت نفاست سے سجاوٹ کی گئی تھی ۔ وہ بیڈ کے بیچ و بیچ بیٹھی تھی کہ اچانک دروازہ کھلنے کی آواز آئی ۔ اس کا دھک ،دھک کرتا دل پسلیاں چیرے باہر آنے کے در پر تھا ۔ آریان دروازہ بند کر کے مڑا اور مسکراتا ہوا بیڈ تک آیا ۔ وہ شیروانی کی جگہ سفید شلوار قمیض پہنے ہوے تھا ۔بیڈ پر اس کے سامنے بیٹھتے ہوے اس نے امل کے یخ بستہ ہاتھوں کو تھاما ۔
"السلام علیکم "
اس نے امل پر سلامتی بھیجی تو جواباً ہلکی سی آواز میں وہ بھی منمنائی اور آریان پر سلامتی بھیجی ۔آریان اس کے کپکپاتے ہاتھوں اور جھکی پلکوں سے اس کی گھبراہٹ کا اندازہ کر سکتا تھا ۔
"امل تمھی ھو وہ جو میری زندگی کی ساتھی ہے ،میری محرم ،میری ہمراز ، میری زندگی کی اولین چاہت ہے ، میری روح کی مکین ،میرا دل اور میرے وجود کا حصہ ۔ تم رب کی طرف سے میرے لیے بہترین انعام ھو ۔ جس کا میں شکر ادا کرتا رہوں تو عمر گزر جائے ۔"
اس کے الفاظ امل کو معتبر کر رہے تھے ۔اس کی گھبراہٹ کہیں دور جا سوئی ۔ وہ بہت مان سے مسکرائی ۔ آریان نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے ایک ڈبہ نکالی ۔
"گو کہ تمہارے متبادل دنیا کی کوئی بھی شے نہیں ہے جو تمھے بطور تحفہ دی جائے مگر رسم دنیا ہے کہ منہ دکھائی کا تحفہ لازمی دینا چاہیے ۔سو میری جانب سے یہ حقیر نظرانہ قبول کرو "
اس نے وہ ڈبہ کھولی تو اس میں بہت نفیس سونے کا بریسلٹ تھا ۔ جس پر چھوٹے ، چھوٹے موتی لگے ہوے تھے ۔ امل کی آنکھیں چمکیں ۔
"آریان یہ بہت خوبصورت ہے "
وہ کھلکھلائی ۔
"چلو آو "
آریان بستر سے اترا اور ہاتھ بڑھا کر اسے بھی اتارا ۔
"کہاں ؟"
وہ حیرانی سے بولی ۔
"تم چینج کر لو ۔۔عشاء کی نماز پڑھیں ۔ "
امل پورے دل سے مسکرائی ۔تشکر کا احساس رگ و پے میں اترا ۔ اور تھوڑی ہی دیر میں کھڑکی سے جھانکتے چاند کی روشنی میں وہ دونوں کمرے میں آگے پیچھے جائے نماز بچھائے نماز پڑھ رہے تھے ۔سجدہ شکر ادا کر رہے تھے۔ رب کے ممنون تھے ۔ایک بیوی اپنے شوہر کی امامت میں نماز پڑھ رہی تھی ۔
۔۔۔۔۔______۔۔۔۔۔۔______۔۔۔۔۔۔۔
فلک کمرے میں آئی تو وہ کمرہ اسے کہیں سے بھی دانیال کا کمرہ معلوم نہیں ہوا ھر شے پھولوں میں ڈھکی گویا دانیال کی خوشی کی انتہا کو بیان کر رہی تھی ۔ فلک جائزہ لینے کے بعد بیڈ پر ٹانگیں نیچے لٹکا کر بیٹھ گئی ۔ابھی اسے یوں بیٹھے پندرہ منٹ گزرے تھے کہ دروازہ کھول کر دانیال اندر داخل ہوا ۔
"آو یار تمہیں کچھ دکھانا ہے "
عجلت میں اس کے پاس آکر اس کا ہاتھ تھامے وہ اسے لیے باہر کی طرف چل دیا ۔
"پر کیا ؟"
وہ حیرانی سے بولی ۔
"تمہارا گفٹ یار "
اس کے کہنے پر فلک نے سر ہلایا ۔
"اہ ۔۔ہاں میں بھول کیسے گئی "
وہ سر پر ہاتھ مارتے بولی ۔دانیال اسے لیے پورچ میں چلا آیا ۔
"یہ دیکھو "
دانیال نے سامنے اشارہ کیا ۔فلک چیخ مارتے ہوے اس کے گلے لگ گئی ۔ سامنے ہی وہ سپورٹ کار کھڑی تھی جو اس نے ایک بار شو روم میں پسند کی تھی ۔تب جب وہ چاروں ایک ساتھ گئے تھے ۔ اور دانیال نے اس کی چوائس پر اس کا خا مذاق اڑایا تو وہ بیچاری پھر چپ ہی کر گئی تھی ۔
"بیگم ۔۔۔ یہ کمرہ نہیں ہے "
دانیال کے کہنے پر وہ فورا اس سے علیحدہ ہوئی ۔
"بد تمیز ھو پورے ۔۔۔اتنا اچھا سرپرائز اففف ۔۔۔"
وہ اپنی چیخ دباتے ہوے دبے ،دبے لہجے میں بولی۔ دانیال ہنس دیا۔ "لانگ ڈرائیو پر چلیں ؟"
اس کے ہاتھوں میں چابی دیتے ہوے دانیال نے کہا تو اپنا لہنگا سمبھالتے وہ کار کی جانب دھوڑی ۔
"سمبھل کے "
وہ پیچھے سے چلایا ۔فلک نے کار کا دروازہ کھولا ۔دانیال اس کے پاس چلا آیا ۔
"ڈرائیو میں کروں گی "
فلک نے ڈرائیونگ سیٹ سمبھالی ۔
"میں کلمہ پڑھ لوں گا "
دانیال دھیر ے سے بڑبڑایا ۔ پورے ایک گھنٹے لاہور کی سڑکیں ناپ کر وہ واپس آئے اور دبے قدم چلتے اپنے کمرے کی طرف ھو لیے ۔ کپڑے بدل کر فلک باہر آئی تو کمرے میں دانیال نہیں تھا ۔اس نے ادھر ادھر دیکھا تو ٹیرس کا دروازہ کھلا ہوا تھا تو یعنی وہ ٹیرس پر تھا ۔ وہ اپنے بال ایک کندھے پر منتقل کرتی دوسرے کندھے پر ڈوبٹہ سیٹ کرتی ٹیرس پر چلی آئی ۔ دانیال کافی کے کپ ریلنگ کے ساتھ دیوار پر رکھے باہر دیکھ رہا تھا ۔
"بھاووو ۔۔۔"
فلک نے اسے ڈرایا تی وہ سینے پر ہاتھ رکھتا مڑا۔
"چڑیل "
وہ اسے گھورتے ہوے بولا ۔فلک نے زبان چڑھائی دانیال سر جھٹک کر ہنسا ۔
" کافی "
اس نے فلک کا کپ اس کی طرف بڑھایا ۔پھر وہ دونوں ایک دوسرے سے نا جانے کتنی باتیں کرتے رہے ۔ جو ساری آج کے دن کے حوالے سے تھیں ۔ دانیال اسے نور اور فہد کی دھمکیوں کے بارے میں بتا رہا تھا ۔کافی ختم کر کے فلک نے اپنا خالی کپ بھی دانیال کے کپ کے ساتھ رکھ دیا ۔
"فلک تمہے یاد ہے مایوں کی رات تم نے مجھ سے اظہار محبت کیا تھا "
دانیال مسکاتے لہجے میں اس کا ہاتھ تھامے بولا ۔
"ہاں تو "
فلک اترائی ۔
"تو یہ کہ آج میں اظہار محبت کرنا چاہتا ہوں ۔فلک جب سے محبت لفظ کا معنی جانا ہے بس تم سے ہی محبت کی ہے تمھے ہی چاہا ہے ۔ تمھے عقبی لان میں بیٹھ کر قرآن پڑھتے دیکھا تو اس روز جانا کہ تم سے تو مجھے عشق ہے اس روز میں نے خود سے وعدہ کیا کہ تمہارے ساتھ عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر طے کروں گا ۔اور ہم اس کی پوری کوشش کریں گے ۔انشاء اللّه ۔ کیا تم ہمیشہ میرے ساتھ یونہی میری کرائم پارٹنر بنی رہو گی ؟ کیا تم میرے لیے کھانے بنایا کرو گی؟ میں چاہتا ہوں ہم ایسے ہی رہیں ہمیشہ ۔ تمھے یاد ہے اک بار تم نے مجھے کتنی بددعائیں دیں تھی کہ خدا کرے تمہاری بیوی ایسے ھو ،ویسی ھو ،وہ تم سے ایسے کروائے اور ویسے ۔اور بدلے میں میں نے کہا تھا کہ خدا کرے وہ تم ھو ۔اور آج دیکھ لو ۔میری دعا قبول ہوئی بس اللّه کرے وہ تمہاری والی قبول نا ہوں نہیں تو مجھ معصوم نے پھنس جانا ہے ۔۔ ہم ھر کام مل کر کریں گے ۔ کیا تم میرا ساتھ دو گی ؟"
وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوے محبت سے پوچھ رہا تھا ، بتا رہا تھا ،اسے معتبر کر رہا تھا یا ناجانے کیا ۔؟ لیکن فلک کو اس لمحے ادراک ہوا کہ وہ شخص کے بغیر ہمیشہ سے ادھوری تھی ۔نم آنکھوں سے مسکراتے ہوے اس نے اپنا سر اس کے کندھے پر رکھا ۔دانیال نے جواباً مسکراتے ہوے اس کے گرد اپنا بازو لپیٹا گویا تحفظ کا احساس فراہم کر دیا ۔ محبت مسکرائی اور ھر سو مسکراہٹ قہقہ بن کر فضا میں چمکتے تاروں کی طرح پھیل گئی ۔ چاند ایک اور داستان محبت کو خوبصورت باب تک پہنچا کر فتح مند سا مسکرا دیا ۔
۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔۔__۔۔۔۔۔۔۔۔______
تین سال بعد

Du hast das Ende der veröffentlichten Teile erreicht.

⏰ Letzte Aktualisierung: Oct 10, 2020 ⏰

Füge diese Geschichte zu deiner Bibliothek hinzu, um über neue Kapitel informiert zu werden!

ماہی وے ✔Wo Geschichten leben. Entdecke jetzt