یادیں عذاب سی

2.6K 151 28
                                    

ماہی وے
قسط ۔ 12
ازقلم مریم ۔علیشا
امل کھڑکی میں کھڑی باہر لان کو دیکھ رہی تھی اس کی نظریں بھٹکتی ہوئی "آفندی مینشن" کے لان میں جا ٹھہریں۔ وہ خاموش کھڑی لان میں دیکھ رہی تھی۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ہماری زندگیاں یادوں سے بھرتی جاتی ہیں جن کو وقت اپنی جھولی میں قید کر لیتا ہے۔ ان میں سے کچھ یادیں بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں اور کچھ بہت حسین بہت خوبصورت ہوتی ہیں ۔ اور ہم ان خوبصورت لمحات کو ہی یاد رکھتے ہیں اور ان تکلیف دہ لمحات کو بھلا دیتے ہیں یا شاید یاد رکھنا چاہتے ھی نہیں ہیں اور زندگی کا مزہ بھی اسی میں ہے کہ بری یادوں کو بھول کر زندگی کے خوشگوار لمحوں کو یاد رکھا جائے کیونکہ وہ ہمیں تکلیف کے سوا کچھ بھی نہیں دیں گے۔یہ اچھی بات ہے کہ ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے اور دوبارہ ماضی کو دہرانا نہیں چاہیے وقت آپ کے پاس ہے دوبارہ اسی مقصد پر کام کریں مگر اب کی بار ۔۔۔!!! بہتر پلان کے ساتھ ۔ ہم ماضی کے حسین لمحے جب بھی یاد کرنا چاہیں وقت مسکراتا ہوا ہمارے سامنے اکھڑا ہوتا ہے ۔یہ ان کے نکاح کے دو ہفتے کے بعد ہی کی بات تھی۔ نور اس کے کمرے میں بیٹھی ناول پڑھ رہی تھی اور دانیال ان جناب کے تو کیا ہی کہنے سائڈ ٹیبل پر لیز کے پیکٹ پھیلائے کاؤچ پر الٹا لیٹا Avengers Endgame دیکھ رہا تھا اور کانوں میں ہینڈ فری ڈالنے سے پہلے یہ کہنا نا بھولا تھا کہ "میں مووی پوری کر کے ہی اٹھوں گا تو مجھے ڈسٹرب مت کرنا۔"
اس کا واک پر جانے کا بہت دل چاہ رہا تھا پر کیونکہ رات بہت ہو گئی تھی اسے اکیلے جانے سے ڈر لگ رہا تھا ۔ وہ ان دونوں کو بھی لینے آئی تھی کمرے میں داخل ہوئی تو دونوں کو گھور کر دیکھا وہ دونوں ہر وقت اس کے کمرے میں ڈیرہ جمائے بیٹھے رہتے تھے۔ دانیال تو کانوں میں ہینڈ فری لگائے بیٹھ تھا اسے امل کے آنے کا پتا نہیں چلا مگر آہٹ پر نور نے سر اٹھا کر دروازے کی طرف دیکھا۔
"اووو امل آؤ نا تمہارا ہی کمرہ ہے "
مسکرا کر کہتے دوبارہ ناول میں غرق ہو گئی مطلب اس نے صرف اسے صلح ہی ماری تھی۔ اس نے نور کو گھورا پر پھر اپنے آنے کا مقصد یاد کر کے نور کو پکارا نور نےسوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
"میرے ساتھ آؤ گی میرا واک کا دل چاہ رہا ہے"
"یار میں ناول پڑھے بغیر نہیں اٹھنے والی "
نور نے معذرت کی ۔ ‎ امل سر ہلا کر کمرے سے نکل گئی۔
"کوئی بات نہیں لان میں ہی تو کرنی ہے واک"
خود کلامی کرتے ہوئے وہ لان میں چلی آئی۔وہ اس وقت ہلکے گلابی ٹروزر شرٹ میں تھی ۔اس نے اپنے گرد کالی شال لپیٹ رکھی تھی شولڈر کٹ بال پہلے سے لمبے ہو چکے تھے اس کی ناک سردی کے باعث سرخ ہو چکی تھی۔وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی واک کرنے لگی اور وقفے وقفے سے اِدھر اُدھر بھی دیکھ لیتی پھر اچانک اسے ناجانے کیا سوجھا وہ چھوٹے سے سٹول پر چڑھ کرآفندی مینشن کے لان میں جھانکنے لگی وہاں وہ پاس ہی آریان کرسی پر بیٹھا نظر آیا ۔اس نے Puma کی بلیک ٹی شرٹ اور Puma ہی کا گرے ٹراؤزر پہن رکھا تھا۔
"افففف ۔۔۔ اسے سردی نہیں لگتی؟"اس نے دل میں سوچا اور آہستہ سے اسے پکارا آریان نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ہی وہ نظر آئی۔
"ایک منٹ رکو میں آیا" وہ چلتا ہوا اس تک آیا آریان کا قد لمبا تھا اس لیے اسے سٹول کی ضرورت پیش نہیں آئی بلکہ وہ امل سے ایک دو انچ بڑا ہی لگ رہا تھا۔
"امل تم نے جیکٹ کیوں نہیں پہنی ؟ اور گلوز بھی نہیں پہنے۔ موزے پہنے ہیں؟"
اس کے کیرینگ انداز پر امل مسکرائی ۔خفگی سے اسے گھورتا وہ پوچھ رہا تھا پھر وہ چھلانگ لگا کر امل کی طرف آگیا اور اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے ۔
"اف امل تمہارے ہاتھ کتنے ٹھنڈے ہیں"
"ہاں تو تم نے کون سا جیکٹ پہنی ہے؟ ۔اور میں نے شال لی تو ہوئی ہے اس لیے جیکٹ نہیں پہنی ۔اور ہاتھ پہلے ٹھنڈے تھے اب نہیں رہے کیونکہ تمہارے ہاتھ کافی گرم ہیں"
"کیا کر رہی تھی اس ٹائم یہاں اور اتنی سردی میں؟"
"میرا واک کرنے کو دل چاہ رہا تھا۔"
"اچھا تم اکیلی کیوں آئی ہو نور یا دانیال کو لے آتی ساتھ اور یہ دانیال ہے کہاں ۔؟ "
"وہ مووی دیکھ رہا ہے اور اس نے سختی سے کہا تھا کہ مووی دیکھے بغیر نہیں اٹھوں گا میں"
آریان نے تاسف سے سر نفی ہلایا ۔
"تو تم مجھے فون کر دیتی نا"
"ہاں تو مجھے کون سا پتا تھا ؟ کہ تم سو نہیں رہے اور لان میں ہی بیٹھے ہو"
وہ بال کان کے پیچھے اڑستے ہوئے بولی۔
"تو کیا ہوا تم مجھے کال کر دیتی میں آجاتا اور ویسے بھی اگر سو رہا ہوتا تب بھی آجاتا اب میں اتنا بھی بے حس نہیں کے میری بیوی مجھے بلائے اور میں سوتا رہوں"
یہ پہلی بار تھا کہ وہ اپنے مابین اس رشتے کے بارے میں بات کر رہے تھے امل جھینپ سی گئی اور خفت مٹاتے ہوئے بولی.
"ہاں نئی. نئی شادی کا خمار ہے اس لیے ایسے بول رہے ہو دیکھ لینا پانچ چھ ...سال بعد جب میں کہوں گی آریان میرا باہر جانے کا دل کر رہا ہے تو منع کر دو گے"
"جی نہیں..!! اگر تم بیس سال بعد مجھے بولو گی تب بھی میرا جواب وہی ہو گا جو آج ہے اور پچاس سال بعد بھی"
وہ اس کی طرف قدرے جھک کر شرارت سے بولا.
"امل پتا نہیں موت اتنی مہلت دیتی ہے کہ نہیں ؟ کیوں کہ انسان کو اپنی زندگی کا ایک لمحے کا بھی بھروسہ نہیں ابھی آنکھ جھپکائی اور اگلی بار جھپکا پاتا ہے کہ نہیں ؟ مگر میں پھر بھی کہوں گا میری جتنی بھی زندگی ہے میں اسے تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ھوں ،ہنسنا ،باتیں کرنا چاہتا ھوں ،تمہارے ہر حکم کی تعمیل کرنا چاہتا ھوں ہر لمحہ تمہے مسکراتے ہوے دیکھنا چاہتا ھوں ۔ہمارے بچ۔۔۔۔۔"
اور وہ رک گیا اسے خود بھی محسوس ہوا کہ جذبات کے ریلے میں آکر وہ ابھی کچھ بھی بول دیتا ۔ امل خاموش ہو گئی ۔خاموشی کا وقفہ طویل ہوا تو آریان نے امل کی طرف دیکھا ۔ اس کا چہرہ سرخ تھا۔وہ اس کی آخری ان کہی بات پر خاموش تھی ۔وہ ہلکے سے مسکرا دیا پھر جیب میں ہاتھ ڈالا اور چاکلیٹ نکالی ۔ یہ چاکلیٹ اسے فلک نے باہر جاتے ہوے دیکھ کر دی تھی ۔ اس نے چاکلیٹ امل کی طرف بڑھائی جسے امل نے مسکراتے ہوے پکڑ لیا ۔آریان نے ہلکا سا رخ موڑ کر اس کی طرف دیکھا وہ چاکلیٹ کھا رہی تھی ۔ اور پھر وہ دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کے ساتھ چلنے لگے ۔ ضروری نہیں ہر بات بول کر کہی جائے کئی بار خاموشی کی بھی زبان ہوتی ہے ۔وہ خاموش تھے ۔خاموشی کو سن رہے تھے ،محسوس کر رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سامنے کھڑے وقت نے مسکرا کر اجازت چاہی اور رخصت ہو گیا ۔مگر پیچھے خوبصورت مسکراہٹ اور یاد چھوڑ گیا ۔ ۔۔۔
آہٹ پر وہ ہلکے سے مڑی دروازے میں دانیال کافی کے دو کپ لیے کھڑا تھا ۔
"اپنے لیے بنا رہا تھا سوچا تم دونوں کے لیے بھی بنا لوں ۔"
اس کا اشارہ امل اور نور کی طرف تھا ۔
"نور ؟؟؟"
امل نے کافی کا کپ پکڑتے ہوے پوچھا ۔
"دے آیا ھوں اسے بھی کافی اسٹڈی میں بیٹھی ہے۔ ناول "
ناول کہتے ہوے دانیال نے اپنی آنکھیں گھمائیں ۔ امل ہنس دی ۔کئی بار تو واقعی اسے بھی حیرانی ہوتی تھی کوئی کیسے ھر وقت ناول پڑھ سکتا ہے ۔خیر وہ کوئی اور نہیں وہ نور اظہر تھی ۔اس سے کسی بھی بات کی امید کی جا سکتی تھی ۔اب وہ دونوں کھڑکھی میں کھڑے تھے امل کافی کے ہلکے ہلکے سپ لیتی ابھی بھی لان دیکھ رہی تھی ۔اور دانیال اسے ۔
"اداس کیوں ہو ؟؟؟ امل کچھ وقت ھی کی تو بات ہے ٹریننگ ختم ہو جانے پر آجاے گا ویسے بھی وہ ملنے تو آتا رہے گا نا "
امل نے دھیرے سے گردن موڑی ۔ بھلا دانیال سے کب وہ کوئی بات چھپا سکتی تھی ۔وہ تو بن کہے جان جاتا تھا اسے کہنے کی کیا ضرورت تھی ۔
"پھر بھی ۔۔۔"
وہ دھیرے سے منمنائی ۔
"تھوڑے عرصے ہی کی تو بات ہے "
امل نے اس کی طرف دیکھا وہ بہت سنجیدہ نظر آرہا تھا .اس وقت وہ شرارتی دانیال نہیں لگ رہا تھا وہ خاصہ سنجیدہ نظر آرہا تھا ۔امل حیران نہیں ہوئی تھی وہ جانتی تھی اس کا اور دانیال کا رشتہ ہی ایسا ہے وہ امل کی ھر حالت کو پہچان سکتا تھا ۔ بہن بھائیوں کا رشتہ ایسا ہی ہوتا ہے آپ بن کہے ایک دوسرے کو جان لیتے ہیں ۔یہی محبت ہے لاکھ لڑ جھگڑ لیں مگر اس لڑائی جھگڑے میں بھی محبت ہوتی ہے ۔مگر اس وقت دانیال کو سنجیدہ دیکھنا امل سے ہضم نا ہوا ۔ایک دم ہی امل ہنس دی ۔
"کم اون دانی تم اتنے سنجیدہ ؟؟"
وہ ہنستے ہوے بولی ۔
"شکر ہے تمہے بھی خیال آیا ورنہ مجھے لگا کہ میں اگر مزید سنجیدہ رہا تو مجھے کچھ ھو جانا ہے "
دانیال نے اپنا کافی کا کپ ایک طرف رکھا ۔اسے واپس اپنے موڈ میں آتا دیکھ امل مسکرائی ۔
"ویسے لڑکی شادی کے بعد سے ھر وقت تم اپنے سیاں جی کو ہی یاد کرتی رہتی ھو بھائی تو تمہے بھول ہی گیا ہے ۔میں کیا کروں ؟ "بہن بہن نا رہی "
دانیال دہائی دیتے ہوے بولا ۔امل نے خالی کپ ایک طرف رکھا اور دانیال کی کمر پر زور سے مکا مارا ۔وہ اچھل کر ایک طرف ہوا اور امل کو خشمگیں نگاہوں سے گھورا ۔
"میرا منہ نا کھلواو خود کو جب سے بیوی ملی ہے بہن بھول گئی ہے ہائے مجھے بتاؤ میں کیا کروں ؟ بھائی بھائی نا رہا ۔"
وہ اسی کے انداز میں بولی ۔ دانیال ہنس دیا اور اس کے بال پکڑے ۔
"دانی بال چھوڑ دو یار بڑی محنت سے بڑے کیے ہیں "
وہ اپنے بال چھڑواتے ہوے بولی ۔
"شکر ہے تم دونوں کو بھی عقل آئی ۔ویسے ایسا بھی کیا ہوا کہ تم دونوں نے بال کٹوانا چھوڑ دیے ؟"
اس کا اشارہ امل اور فلک کی جانب تھا ۔نور تو پہلے بھی بال نہیں کٹواتی تھی ۔
"کوئی وجہ نہیں بس ویسے ہی دل چاہا "
حالانکہ اسے اپنی اور عالیہ کی گفتگو یاد آئی ۔ فلک نے بھی اس کی دیکھا دیکھی بال بڑھانے شروع کیے تھے ۔
"سنا ہے تمہارے سیاں جی کو بھی لمبے بال پسند ہیں "
شرارتی انداز میں کہتے ہوے اس نے امل کے بال بکھیرے امل نے اسے گھورا اور بال درست کرنے لگی ۔
"دانی تنگ مت کرو مجھے ورنہ میں بتا رہی ھوں جو بریانی میں نے گوگل انٹی سے بنانی سیکھی ہے اس کا ایک بھی دانہ نہیں دوں گی تمہے "
آج کل امل ،فلک اور نور کو کھانا پکانے کا بھی شوق چڑھا ہوا تھا ۔روز کچھ نا کچھ بنانے کی کوشش کرتی رہتیں وہ کچھ نا کچھ تو بنتا نہیں تھا البتہ کچھ اور ضرور بن جاتا تھا ۔ دانیال صوفے پر سر پیچھے پھینک کر ہنسنے لگا ۔
"مجھے تمہاری کھچڑی یا ادھ گلے چاول کھانے بھی نہیں ہیں ۔ڈاکٹر نے مجھے بدہضمی والی خوراک کھانے سے منع کیا ہے '،
دانیال نے کھینچ کر ایک کشن امل کو دے مارا ۔یہ مکے کا بدلا تھا ۔امل نے اسے گھورا اور وہی کشن دانیال کو دے مارا اب وہ دونوں برابر ایک دوسرے کو پیٹ رہے تھے ۔ اچانک اسٹڈی کا دروازہ کھلا اور نور باہر نکلی ۔ وہ دونوں خاموشی سے اسے دیکھنے لگے جو موبائل میں گم تھی نور نے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھنا تک گوارا نہیں کیا اور یونہی ناول پڑھتی باتھروم چلی گئی ۔ ان دونوں نے باتھروم کے بند دروازے کو دیکھا پھر ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر قہقہوں کا طوفان آیا تھا ۔
"امو یار یہ موبائل کہاں رکھتی ھو گی ؟"
یہ دانیال تھا ۔امل پیٹ پکڑے ہنس رہی تھی اور اندر نور دی گریٹ ،اور ناول کی دیوانی کو ان کی آواز بھی نہیں آرہی تھی ۔کیوں کہ وان فاتح اور ایڈم اب تالیہ کے ساتھ کیا کرنے والے تھے یہ تو نور نے ابھی پڑھنا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔★★★★★★۔۔۔۔
نیا سال شروع ہونے والا تھا۔دسمبر کا آدھا مہینہ گزر چکا تھا ۔ آریان اور فہد کو گئے ایک ہفتہ ھو چکا تھا مگر انہوں نے ابھی تک صرف دو تین بار ہی فون پر بات کی تھی کیوں کہ سارا دن وہ مصروف رهتے تھے ۔ امل ،فلک ،دانیال اور نور کے سیکنڈ سمیسٹر کے امتحانات شروع ھو چکے تھے ۔ اور اسی کے ساتھ ان چاروں نے بھی طوفان میں کشتی چلانا شروع کر دی تھی ۔ دانیال تو صبح سے کمرہ بند کیے بیٹھا تھا ۔ امل اپنے کمرے میں ادھر ادھر چکر لگاتی نوٹ کا رٹا مارتی پھر رہی تھی ۔وہاں سے بائیں جانب اسٹڈی میں جائیں تو وہاں نور صاحبہ بیٹھی تھیں جن کے ارد گرد کتابیں اور نوٹ بکھرے پڑے تھے مگر وہ ان سب سے بے نیاز موبائل پر گم تھیں اموشنل سین آنے پر دو منٹ رونے کے بعد اس کی نظر کلاک پر گئی جو یہ دکھا رہا تھا کہ اب اس کے پاس صرف بارہ گھنٹے پڑے ہیں اسے مزید رونا آیا ۔امل نے ذرا سا دروازہ کھولا اور اندر جھانکا ۔
"کیا ہوا ہے ؟"
نور نے موبائل ایک طرف رکھا اور آنسو صاف کیے ۔
"وقت نے تالیہ مراد پر بہت ظلم کیا ہے "
وہ روتے ہوے بولی ۔ امل نے گہرا سانس کھینچا ۔
"وقت نے تالیہ مراد کے ساتھ ظلم کیا ہے تمہارے ساتھ نہیں "
"امل وقت نے میرے ساتھ بھی ظلم کیا ہے اب دیکھو بارہ گھنٹے رہتے ہیں اور میں نے ابھی تھوڑا سا ٹیسٹ تیار کیا ہے "
وہ پھر سے رونے لگی ۔ امل نے تاسف سے سر ہلایا ۔
"ادھر دو مجھے اپنا موبائل ۔ نا رہے گا بانس نا بجے گی بانسری ۔"
امل نے نور کے ہاتھ سے موبائل کھینچا جو وہ دوبارہ اٹھا چکی تھی اور اسے گھورا ۔ نور نے صدمے سے اسے دیکھا ۔ جس نے کتابوں کی طرف اشارہ کیا مطلب صاف واضع تھا کہ اب اسے پڑھنا ہے ۔ دوسری طرف دانیال کے کمرے کی طرف جائیں تو دانیال بستر پر سر پکڑے بیٹھا تھا ۔ ارد گرد پاپ کارن ،خالی ٹین پیک ، اور لیز کے خالی پیکٹ بکھرے پڑے تھے ۔ دانیال نے نفی میں سر ہلایا ایک نظر کتاب کو دیکھا پھر نوٹس کو ۔
"یہ سب کیا ہے ؟
یہ سب کہاں سے آیا ہے ؟"
اس نے خود سے سوال کیا ۔
"دانیال صاحب اگر کلاس میں آپ ہمہ تن گوش رہتے اور گانے سننے کے بجائے پروفیسر کو سنتے تو شاید اب آپ کو پتا ہوتا یہ سب کیا ہے ؟"
اس کے اندر سے آواز آئی ۔
"اف ۔۔۔مجھے مت سکھاؤ ۔چپ رہو۔۔!!! امم۔۔ بھلا میرا کتنا رہتا ہے ؟"
اس نے صفحے پلٹائے ۔
"ایک چیپٹر ۔۔۔ٹھیک ھو جائے گا ٹائم بھی تو کافی پڑا ہے ابھی ۔ بارہ گھنٹے رہتے ہیں رات کے دس بجنے میں ۔۔یعنی دس بجے تک میں کر سکتا ھوں ۔"
دس بجے کے بعد اس کا اپنا وقت شروع ہونا تھا ۔ مووی دیکھنا یا کچھ اور اور نور نے تو ناول پڑھنا تھا ۔
دانیال نے ایک نظر خود کو شیشے میں دیکھا ۔
"ہائے اللّه میں کتنا کمزور ھو گیا ھوں ایک ہی دن میں "
دانیال صدمے کی کفیت میں کہتا اٹھا اور باہر کی جانب چل دیا ۔
آفندی مینشن کے بالائی حصے کی دائیں جانب بنے کمرے میں جائیں تو بند دروازے کے پیچھے فلک بستر پر بیٹھی جوس اور لیز سے انصاف کر رہی تھی ۔ نوٹس اس کے بھی بستر پر ہی کھلے پڑے تھے ۔
"پتا نہیں وہ کون سے لوگ ہوتے ہیں جن کی پیپر کے دوران بھوک مٹ جاتی ہے میری تو بھوک مزید بڑھ جاتی ہے میرا تو دماغ بھی کچھ کھا کر ہی چلتا ہے "
فلک نے دوسرا لیز کا پیکٹ اٹھایا اور پھر واقعی وہ ایک دو گھنٹے بعد پیپر تیار کرکے باہر آچکی تھی ۔
"کدھر ؟پیپر تیار کر چکی ھو کیا ؟"
عائشہ بیگم نے اسے کلانچے بھرتے باہر جاتے دیکھ کر پوچھا ۔
"جی مما تبھی تو باہر جا رہی ھوں "
عائشہ بیگم اس وقت سہیل صاحبہ اور ارفع بیگم کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھی تھیں ۔ صارم اور فرحان صاحب آفس تھے ۔ کچن سے عالیہ نکلی ۔ اس نے پستا رنگ کا خوبصورت مگر سادہ سا سوٹ پہن رکھا تھا ۔ یہ سوٹ صارم نے ہی اسے دلوایا تھا ۔ گلے میں ہمہ وقت صارم کا دیا نازک سا پینڈٹ اور ہاتھ میں بریسلٹ پہنے وہ کیجول حلیے میں بھی با وقار نظر آرہی تھی ۔فلک نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔
"بھابھی میری چائے سمبھال کر رکھیے گا میں وہاں سے کافی پی کر آوں گی مگر گھر آکر میں نے چائے پینی ہے اور ہاں ۔۔"
وہ جیسے کچھ یاد کر کے عالیہ کی طرف آئی ۔ عالیہ نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا ۔وہ عالیہ کے کان کے قریب جھکی ۔
"میرے لیے پیسٹری بھی بچا لی جیۓ گا پلیز "
"اچھا میری جان "
عالیہ نے اس کے گال کھینچے ۔
"ہیں ؟؟ وہ تو بھائی نہیں ہیں ؟ "
وہ شرارتی انداز میں بولی اور عالیہ کے سرخ گال دیکھے ۔
"مائی گاڈ بھابھی "
وہ ہنسی عالیہ بھی ہنس دی ۔
"باہر جا رہی ھو کافی سردی ہے باہر ۔ جیکٹ پہن لو یا شال لے لو "
فلک کو ایک دم جیسے خیال آیا وہ اس وقت صرف کرتا اور کیپری پہنے ہوے تھی ۔ بالوں کی اس نے پونی ٹیل بنا رکھی تھی ۔ وہ سر ہلاتی شال لینے اپنے کمرے کی جانب چلی گئی ۔پیچھے عالیہ سب کو چائے دینے میں مصروف تھی ۔
۔۔۔۔۔۔★★★★★★۔۔۔۔
وہ خاموشی سے اندر داخل ہوئی ۔ اور اب اس کا رخ دانیال کے کمرے کی جانب تھا ۔آہستہ سے اس نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئی ۔ دانیال بستر پر کتاب پکڑے لیٹا تھا اسے دیکھتے ہی وہ سیدھا ہوا ۔
"بیگم تم ؟؟؟ ٹیسٹ تیار کر لیا ؟"
دانیال نے کتاب ایک طرف رکھی اور نوٹس سمیٹ کر بستر پر فلک کے بیٹھنے کی جگہ بنائی ۔
"ہاں میاں جی کر آئی ھوں تم نے کر لیا ؟"
وہ اس کی بنائی جگہ پر بیٹھی ۔
"ہاں بس آخری دو ٹوپک رہتے ہیں "
وہ نہیں چاہتا تھا کہ فلک کو حقیقت بتائے کیوں کہ ابھی اس کا کافی زیادہ کام رہتا تھا ۔ وہ جانتا تھا اگر وہ فلک کو بتا دے گا تو وہ اسے مجبور کرے گی کہ پہلے وہ پڑھ لے اور دانیال کو یہ بات گوارا نا تھی کہ اس کی بیوی اس کے لیے آئی ہے اور وہ اس کو حقیقت بتا کر چلتا کرے ۔کم از کم دانیال کو یہ بات گوارا نا تھی ۔
"خیریت ؟؟"
" کیا ایسا ھو سکتا ہے کہ صرف ہم دونوں باہر گھومنے چلیں وہ بھی چوری چھپے "
وہ ہاتھ مسلتی ہوئی بولی ۔دانیال نے بغور اسے دیکھا ۔
"ایک منٹ ٹھہرو "
وہ ڈریسنگ روم میں غائب ھو گیا چند منٹ بعد وہ واپس آیا ۔اس کے ہاتھ میں ایک جیکٹ تھی ۔ اس نے وہ جیکٹ فلک کی جانب بڑھائی ۔ وہ جان چکا تھا فلک کو سردی لگ رہی ہے ۔ خود بھی وہ جیکٹ پہنے ہوے تھا ۔ فلک نے تشکر بھری نگاہوں سے اسے دیکھا اور اس کے ہاتھ سے جیکٹ لی ۔وہ دونوں دبے قدموں باہر نکلے ۔
۔۔۔۔★★★★★★۔۔۔۔
"بیگم جی تمہارا ٹیسٹ ھو گیا تیار پکا نا ؟؟"
دانیال نے موڑ کاٹتے ہوے پوچھا ۔
"اوہو میاں جی اب کیا اکیلے اکیلے بندے کو پکڑ کر بتاؤں کہ ہاں میرا ٹیسٹ تیار ھو گیا ہے "
"اچھا ۔۔اچھا بس یہ بتاؤ کچھ کھایا ہے کہ نہیں ؟"
اس نے فلک کا موڈ ٹھیک کرنا چاہا ۔ جانتا تھا وہ شاید بار بار ٹیسٹ کے ذکر پر چڑ گئی ہے ۔
"کب کھایا ہے میں تو صبح سے بھوکی ھوں کسی نے مجھ سے کھانے کے بارے میں پوچھا تک نہیں "
وہ منہ بسورتے ہوے بولی ۔ دانیال ہلکے سے مسکرایا ۔
"ہنسے کیوں ؟"
فلک نے موبائل ڈیش بورڈ پر رکھا اور اس کی طرف مڑی ۔
"کچھ نہیں سوچ رہا ھوں کتنا ظلم ہوا ہے میری بیگم جی پر بیچاری پڑھ، پڑھ کر آدھی ھو گئی ہے "
اس کا انداز شرارتی تھا مگر فلک کا دھیان اگر کھانے کی طرف نا ہوتا تو ضرور غور کرتی ۔
"ہاں دیکھ لو "
فلک اس کے شرارتی انداز پر غور کیے بنا ہی بولی ۔
""ویسے تم بھی بہت کمزور لگ رہے ھو۔ اممم ۔۔۔۔ ایسا کرو پہلے کسی کیفے چلتے ہیں کافی پی کر کچھ کھانے چلیں گے "
اب کی بر دانیال کھل کر ہنسا ۔
"میں تمہارا کمبینیشن سمجھنے سے قاصر ھوں لوگ کافی عموما کھانے کے بعد پیتے ہیں اور تم ھو کے "
وہ رکا اور مسکراہٹ ضبط کی ۔
"میں ھوں کے سب سے مختلف اور میں ایسی ہی ھوں جو دل میں آے گا کروں گی اور ڈھنکے کی چوٹ پر کروں گی "
اس نے مصنوعی کالر اچکائے ۔
"جانتا ھوں میں اپنی بیگم کو اور اب اگر اجازت ھو تو کیا ہم اندر چلیں ؟؟؟"
کار وہ پارک کر چکا تھا ۔
"چلیں میاں جی "
نکاح کے بعد سے ہی وہ دونوں ایک دوسرے کو میاں جی اور بیگم جی کہہ کر بلاتے تھے ۔
""تم بیٹھو جا کر میں آرڈر دے کر آتا ھوں "
دانیال نے سامنے خالی پڑے میز کی طرف اشارہ کیا فلک سر ہلاتی چلی گئی ۔ دانیال کاؤنٹر کی طرف آیا اور اپنا موبائل نکالا ۔ پھر فلک کی طرف دیکھا جو ارد گرد دیکھنے میں مصروف تھی ۔اور احمد کا نمبر ملایا ۔ چوتھی بیل پر احمد نے کال اٹھا لی ۔
"احمد میں نے تمہے واٹس اپ پر میسج کیا ہے مجھے وہ سامان اگلے آدھے گھنٹے میں چاہیے ۔ جگہ بھی میں نے تمہے واٹس اپ کر دی ۔ذرا بھی تاخیر نہیں ہونی چاہیے ۔"
اس نے فلک کی طرف دیکھا ۔ وہ اسے ہی ابرو اچکائے دیکھ رہی تھی وہ اس کی طرف دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا اور نفی میں سر ہلایا ۔فلک مطمئن ھو کر اپنے موبائل میں مصروف ھو گئی ۔ دانیال نے احمد کو دو ایک ہدایات مزید دیں اور کال کاٹی ۔پھر آرڈر لکھوا کر وہ فلک کی طرف چلا آیا ۔ فلک نے مسکراہٹ دبا کر اسے دیکھا وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا ۔ بیشک وہ کیجول حلیے میں تھا مگر پھر بھی وہ خاصہ سمارٹ لگ رہا تھا ۔
دانیال کے آنے سے پہلے وہ دوبارہ موبائل میں مصروف ھو گئی ۔ دانیال اس کے سامنے بیٹھا اور بغور اسے دیکھا ۔ وہ موبائل میں مصروف تھی ۔
"بیگم جی دو گھڑی ہم معصوموں پر بھی نظر کرم کر لو جب سے آئی ہو موبائل میں سر دیے بیٹھی ہو "
اس کے شکوہ کرنے پر فلک نے موبائل ایک طرف رکھا اور میز پر کہنیاں ٹکائے قدرے آگے ھو کر بیٹھی ۔
"فرمائیں ؟؟؟؟"
اس نے ابرو اچکائی ۔
"بیگم جی ایسے نا دیکھو نا "
وہ مسلسل اس کے دیکھنے پر جھنجھلایا ۔
"کیوں ؟؟؟"
فلک کو اب اسے چھیڑنے میں مزہ آرہا تھا ۔روز روز کہاں موقع ملتا تھا اسے گھیرنے کا ۔
"بس نا دیکھو ۔۔!!"
"ایویں نا دیکھوں ۔۔"
"نا دیکھو ماشااللہ پیارا ہی اتنا ھوں بری نظر بہت جلدی لگ جاتی ہے "
"ہووو ۔۔۔یا اللّه تم نے ۔۔۔ہا "
صدمے کی کیفیت میں اس سے بولا بھی نا گیا ۔ دانیال نے مسکراہٹ ضبط کی اب وہ فلک کو گھیر چکا تھا ۔
"میں میری نظر بری۔۔۔کوئی حور پرے نہیں ھو تم "
دانیال نے اس کے لفظ "حور پرے " پر بہت مشکل سے ہنسی ضبط کی ۔
"تمہاری اردو بہت اچھی ہے بیگم جو مجھے بھی کلاس دے دیا کرو نا "
"لے لیا کرو میاں جی میں ھوں ہی اتنی زہین میرے سامنے سب کی بولتی ہی بند ھو جاتی ہے "
فلک نے گردن کڑائی ۔
"بیوی کس کی ھو ۔ویسے بیگم میں تمہارا شوہر ھوں اور شوہر کے سامنے اچھے اچھوں کی بولتی بند ھو جاتی ہے پھر تم کیا چیز ھو ۔ اب تو ساری زندگی کا ساتھ ہے آہستہ آہستہ سب سیکھ لوں گا ۔ محبت کرنا تو سیکھ ہی چکا ھوں "
دانیال نے اس کی آنکھوں میں دیکھا ۔اس کی بات پر فلک کے گال سرخ ہوے ۔ فلک شرما رہی تھی اگر اس وقت امل اور نور اسے یوں شرماتے دیکھ لیتیں تو بےہوش ھو جاتیں ۔دانیال سمجھ نا پایا کہ فلک کے گال اس کی بات پر سرخ ہیں یا سردی کے باعث ۔لیکن پھر بھی ایک اطمینان بخش مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیلی ۔اس کے دونوں گالوں پر ڈمپل ابھرے ۔ خاموشی کا وقفہ زیادہ طویل ھو جاتا اگر ویٹر کافی لیے نا آجاتا ۔ کافی پینے اور بل ادا کرنے کے بعد وہ دونوں باہر گاڑی کی طرف چل دیے ۔ دانیال نے موبائل میں دوبارہ سا ٹائم دیکھا ۔ ابھی بھی پندرہ منٹ رہتے تھے ۔ دانیال نے ادھر ادھر دیکھا کچھ فاصلے پر سڑک کنارے گول گپے کی ریڑھی کھڑی تھی ۔ دانیال کی آنکھیں چمک اٹھیں ۔
"بیگم جی"
دانیال کی آواز پر فلک اپنے خیالات کی دنیا سے باہر نکلی وہ ابھی تک دانیال کی باتوں کے زیر اثر تھی ۔
"ہممممم ۔۔ہاں ؟؟؟"
وہ غائب دماغی سے بولی ۔
"گول گپے کھائیں ؟؟؟؟"
دانیال نے مسکراتے ہوے پوچھا ۔
"نیکی اور پوچھ پوچھ "
فلک کہنے کے ساتھ ہی ادھر ادھر دیکھتی اس ریڑھی تک جا پہنچی ۔دانیال بھی اس کے تعاقب میں چلا آیا ۔
"بھائی دو درجن کر دیں اور سپائسی ھوں بہت "
فلک نے ہی آرڈر کیا ۔
"اممم ۔۔۔میاں جی بہت ہیں نا دو درجن ؟؟؟"
"ہاں بہت ہیں "
دانیال نے سر ہلایا اور وہ دونوں ریڑھی سے کچھ فاصلے پر نصب بینچ پر جا بیٹھے ۔
کچھ کہنا چاہتا ھوں ۔
"کہو ؟"
فلک اس کی طرف مڑی ۔
"ایسے نہیں وہ شعر ہے "
"اہ ۔۔ارشاد ارشاد "
"آو مل کر دنیا کو خوبصورت بناتے ہیں ۔
کبھی تم پیزا کھلایا کرنا کبھی ہم پانی پوری کھلا دیں گے "
"واہ واہ ۔۔واہ کتنا مزہ آے گا نا میاں جی ہم روز کچھ نا کچھ کھایا کریں گے ۔ ہم دونوں مل کر کچھ نا کچھ بنایا کریں گے ۔کبھی آرڈر کروایا کریں گے "
"ہاں نا یاد ہے تمہے ایک بر جب ہم پیزا کھانے کا مقابلہ کر رہے تھے اور آخری سلائس میں نے اٹھا لیا تھا پھر تم نے کون کون سی بد دعائیں ۔۔۔"
فلک کو۔ اپنی دیں بددعائیں یاد آئیں ۔
"چپ بیٹھو دانی ورنہ میں تمہارے گول گپے بھی کھا لوں گی "
اور دانیال واقع چپ ھو کر بیٹھ گیا بھئی گول گپے عزیز تھے ۔
"بھائی ایک درجن اور "
سی سی ۔۔۔کرتے ہوے دانیال نے کہا۔ گول گپے والے بھائی نے گھور کر ان دونوں کو دیکھا جنہوں نے صرف دو درجن گول گپے کھانے تھے اور اب وہ چھے درجن کھا چکے تھے ۔
"جی ضرور "
وہ دانت پیستا بولا ۔اور ان کے لیے دوبارہ درجن بنانے چلا گیا ۔
"شکریہ بہت مزہ آیا "
دانیال نے بل ادا کیا اور فلک کا ہاتھ پکڑے سامنے پارک کی طرف چلا گیا کیوں کہ احمد کی مس کال آچکی تھی ۔ گول گپے والے بھائی نے حیرت سے انھیں دیکھا کیوں کہ اسے تو یہی لگا تھا کہ وہ دونوں کھڑے بھی نا ھو پائیں گے مگر اس کا۔ پالا پہلی بار فلک اور دانیال سے پڑا تھا ۔دانیال نے پارک کے گیٹ کے پاس پہنچ کر فلک کی آنکھوں پر پٹی باندھی وہ اس سے بار بار پوچھتی رہی مگر دانیال کا ایک ہی جواب تھا "صبر بیگم "شام کے سائے گہرے ھو چکے تھے ۔سردیوں کی تو شام بھی جلد چھا جاتی ہے دانیال نے ارد گرد دیکھا پارک تقریبا خالی ہی تھا کیوں کہ اتنی سردی میں کون باہر آسکتا تھا ان دونوں کے علاوہ ۔دانیال نے دیکھا سامنے ہی احمد اس کی مطلوبہ شے لیے آرہا تھا اس نے احمد کو اشارہ کیا ۔ اس کے اشارے کا مطلب سمجھتے ہی احمد نے مطلوبہ شے وہیں دانیال کے قریب رکھ دی اور ایک کونے میں چلا گیا ۔
"میاں جی کیا ہے ؟؟؟؟ کیوں باندھی ہے میری آنکھوں پر پٹی ؟"
"بہت بے صبری ھو تم بیگم کھولا اپنی پٹی "
فلک نے دانیال کے کہنے پر اپنی آنکھوں سے پٹی اتاری سامنے ہی دانیال گھٹنے کے بل بیٹھا تھا اس کے ہاتھ میں پکڑی شے کو دیکھ کر فرط جذبات میں اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔
"قطرہ قطرہ تیرے عشق کا جام پینا چاہتا ھوں
سلائس کے وقفے میں کترینہ کیف ھو جیسے "
فلک مسکرائی اپنی نم آنکھیں پونجھیں اور دانیال کے ہاتھ سے سلائس کی بوتل پکڑی ۔
"قسم سے اس کی جگہ اگر تم مجھے انگوٹھی سے پرپوز کرتے تو مجھے ذرا بھی خوشی نا ہوتی "
اس نے ہاتھ کا سہارا دے کر دانیال کو اٹھایا ۔وہ ہاتھ جھاڑتا اٹھا ۔
"پھر تو بیگم تم مجھے بہت سستی پڑو گی زیادہ خرچہ بھی نہیں ہوا کرے گا "
اس نے مسکراہٹ دبائی ۔ وہ اچھے سے جانتا تھا کہ فلک کو سلائس پسند ہے اور وہ اسے خوش کرنا جانتا تھا ۔ وہ دونوں ہاتھ میں ہاتھ دیے واک کر رہے تھے ۔ دور کھڑے احمد نے مسکرا کر ویڈیو پوز کیا اور ایک نظر ان دونوں کو دیکھا جو اس سے بہت فاصلے پر تھے ۔اس نے کال لوگ کھولا اور امل آپی کا نمبر ڈائل کیا ۔
امل اپنے کمرے میں بیٹھی سارے چیپٹرز کو آخری نظر دیکھ رہی تھی ۔ اس نے اپنے موبائل کی طرف دیکھا جو وائیبریٹ کر رہا تھا ۔اس نے نوٹس ایک طرف رکھے اور موبائل اٹھایا جس کی سکرین پر "جاسوس کالنگ " لکھا آرہا تھا ۔
"احمد می مجھے کال کیوں کی ؟؟"
اس نے یہی سوچتے ہوے کال اٹھائی ۔
"ہیلو احمد خیریت ؟؟"
"آپی دانیال بھائی کدھر ہیں ؟"
"اپنے کمرے میں ہے پڑھ رہا ہے پیپر ہے نا کل ہمارا ۔۔۔کیوں کیا اس می تمہاری کال نہیں اٹھائی ؟"
امل بستر پر بیٹھتے ہوے بولی ۔
"آپی ایک چیز واٹس اپ پر بھیجی ہے ذرا چیک کر لی جیۓ گا ۔خدا حافظ "
"ہممممم "
امل نے کال کاٹی اور واٹس اپ چلایا جہاں احمد نے ایک ویڈیو بھیجی تھی ۔ ایک منٹ بعد ویڈیو کلیر ہوئی ۔ جوں جوں وہ ویڈیو دیکھتی جا رہی تھی اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی جا رہی تھیں ۔ویڈیو بند کر کے وہ اٹھی اور اسٹڈی کی طرف بڑھی جہاں نور موبائل لیے بیٹھی تھی ۔وہ اپنا ٹیسٹ تیار کر چکی تھی امل نے بھی اس کا ٹیسٹ لینے کے بعد اسے موبائل واپس کر دیا تھا ۔
"سنو ۔۔"
وہ دانیال کے کمرے کا دروازہ کھولنے ہی والی تھی کہ نور نے اسے روکا ۔
"وقت تالیہ مراد پر مہربان تھا بہت "
اس نے گھور کر نور کو دیکھا جو دوبارہ سکرین میں گم ھو چکی تھی ۔وہ سر جھٹکتی دانیال کے کمرے کا دروازہ کھولنے لگی مگر وہ لاک تھا ۔
"اس کا مطلب خبر پکی ہے "
وہ بڑبڑائی اور بیر کی جانب بڑھی دانیال کے کمرے کا دروازہ کھولا تو بستر پر پڑے نوٹس، کارپٹ پر جابجا بکھرے لیز کے خالی پیکٹ اور خالی ٹین پیک اس کا منہ چڑا رہے تھے ۔اس نے دانت پیستے ہوے دانیال کا نمبر ملایا ۔
وہ فلک کے ساتھ خاموشی سے چہل قدمی کر رہا تھا جب اس کا فون بجا ۔ اس نے جیکٹ کی جیب سے فون نکالا ۔ سکرین پر امو کالنگ لکھا آرہا تھا ۔ اس نے کال رسیو کی ۔
"ہیلو کدھر ھو ؟؟؟"
امل نے کڑھے تیوروں سے پوچھا ۔
"یار کمرے میں ھوں پڑھ رہا ھوں "
"کمرے میں ھو ؟؟"
امل نے اس کے کمرے میں ادھر ادھر دیکھا جو خالی پڑا تھا ۔
"ہاں نا بستر پر لیٹا ہوا ھوں "
امل نے بستر کی طرف دیکھا جہاں نوٹس بکھرے پڑے تھے مگر دانیال صاحب نا تھے ۔
"تم نے ٹیسٹ کر لیا امو ؟؟ویسے کتنا مشکل ہے نا "
اس نے بات بدلی ۔
"بہت زیادہ میرے بھائی ٹیسٹ واقعی بہت مشکل ہے "
امل نے مسکراہٹ دبائی۔
"میاں جی ۔۔"
وہ فلک سے کچھ فاصلے پر آکر بات کر رہا تھا فلک کے کہنے پر مڑا اور اسے گھورا اس نے زبان دانتوں میں دبائی ۔
"اوپس "
"یہ کون ہے ؟؟؟"
امل نے سنجیدگی سے مسکراہٹ دبائے پوچھا۔
"آہ ۔۔ں یہ وہ میرا دوست ۔۔نہیں یہ میں کیا بول رہا ھوں افففف بائے "
اس نے بوکھلا کر کال کاٹی ۔
"پھس گیا "
دو منٹ بعد اسے واٹس اپ پر ویڈیو موصول ہوئی اس نے جلدی سے ویڈیو کلیر کی پھر پلے کر دی فلک بھی اس کی طرف چلی آئی ۔ ویڈیو دیکھ کر دانیال کو چپ لگ گئی ۔
"کیا ہوا ؟؟"
فلک نے دانیال کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔
"امو کو پتا چل گیا میں کمرے میں نہیں یار بیگم مجھے لگا تھا وہ رات سے پہلے باہر نہیں نکلے گی مگر میں تم یہاں ہیں اور یہ سب کس نے اسے ۔۔۔۔۔"
وہ رکا پھر پلٹا ۔ احمد تیزی سے چلتا پارک کا گیٹ عبور کر چکا تھا ۔
،احمد "
وہ دانت پیستا اس کے پیچھے دھوڑا ۔
۔۔۔۔۔۔★★★★★★______

جاری ہے ۔۔

ماہی وے ✔Where stories live. Discover now