روبرو یار کے

2.6K 151 19
                                    

فہد انگلینڈ جا چکا تھا ۔بخت قریشی کو ویسے بھی کوئی خاص فرصت حاصل نا تھی کہ وہ اس بات پر غور کرتا کہ فہد کہاں گیا ہے ۔ آفندی مینشن اور شاہزیب مینشن میں عالیہ اور صارم کی شادی کی تیاریاں زوروشور سے جاری تھیں ۔ گھر کی عورتیں اور لڑکیاں شاپنگ میں مصروف رہتیں مرد حضرات ہال کی بکنگ اور دوسرے معاملات میں مصروف رهتے ۔ آج بھی امل کے سوا سب شاپنگ کرنے گئی تھیں کیوں کہ امل کی طبیعت بدلتے موسم کے باعث خراب تھی ۔ دانیال کچھ دیر پہلے ھی باہر گیا تھا ۔امل نے بور ہو کر موبائل چلانا شروع کر دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔____________۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو دانی خیریت ؟"
وہ ابھی نہا کر نکلا ھی تھا کہ اسے دانیال کا فون آیا۔ٹاول ایک طرف رکھتے ہوے اس نے فون اٹھایا ۔
"یار وہ مجھے ذرا کام سے باہر آنا پڑا ہے ۔ملازم بھی آج چھٹی پر ہیں ۔امل کی طبیعت خراب تھی مما وغیرہ شاپنگ کرنے گئی ہیں اور امل کو گھر میرے سہارے چھوڑا تھا اب میں باہر آیا ہوا ھوں ارجنٹ تھا یار ۔ تو ایک کام کر پلیز میرے بھائی جا کر اسے کچھ بنا کر کھلا دے ۔۔مین پرہیزی کھانا ۔۔!!!"
دانیال سے بات کر کے وہ بے چین ہو چکا تھا ۔جلدی جلدی شرٹ پہن کر وہ شاہزیب میشن کی طرف چل دیا ۔چوکی دار نے اسے دیکھتے ھی دروازہ کھول دیا ۔دھیمی چال چلتا وہ سیڑھیاں عبور کرتا اس کے کمرے تک آیا ۔ہاتھ بڑھا کر اس نے دروازہ بجایا ۔اور اگلے ھی پل اندر سے آتی امل کی "یس " کی آواز پر وہ دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا ۔
"ارے تم ؟؟"
وہ حیرانی سے اٹھی ۔
"دانیال کا فون آیا تھا اسی نے بولا ہے تمہے پرہیزی کھانا بنا کر دینے کو اور ہاں یہ تمہاری اسائینمنٹ "
امل نے مسکراتے ہوے اس کے ہاتھ سے اسائینمنٹ پکڑی ۔
"اممم مجھے نہیں لگتا تمہے شکریہ کہنے کی کوئی ضرورت ہے "
وہ شرارتی لہجے میں بولی ۔
"نہیں بلکل نہیں تمہاری دعائیں کافی تھیں "
وہ خاصی سنجیدگی سے بولا تو امل اپنی دی گئی دعائیں یاد کر کے اپنی زبان پھر دانتوں تلے دبائی ۔
"اچھا وہ ؟؟"
"ہاں وہی !!!"
مسکراہٹ دبائی گئی ۔
"آننننن ۔ ۔۔۔۔!!!! بس یہی موضوع ملا ہے تمہے بندہ حال چال ھی پوچھ لیتا ہے اور ویسے بھی دعا ھی دی تھی اس میں کوئی برائی نہیں تھی ۔"
کندھے اچکا کر وہ بولی ۔آریان نے مسکراہٹ دبا کر اسے دیکھا وہ جانتا تھا وہ اپنی خفت مٹا رہی ہے ۔
"طبیعت کا کیا پوچھوں ؟ اچھی بھلی تو لگ رہی ہو جب سے میں آیا ھوں چپ تو ایک منٹ کے لیے نہیں کی تم "
وہ سنجیدگی سے بولا البتہ آنکھوں میں واضع شرارت تھی ۔
"ہاااااا ۔۔۔شرم نہیں آئی ذرا بھی تمہے ؟ دوست بیمار ہے یہ نا ہوا حال چال پوچھ لے بندہ اوپر سے مجھے اتنی بھوک بھی لگی ہے اور کسی کو میرا خیال نہیں "
وہ رو دینے کو تھی ۔
"ماہ بدولت آپ کی بھوک کا علاج کرنے ھی آے ہیں "
شرارتی لہجے میں کہتا وہ تعظیماً جھکا جب کہ اس کے اس انداز پر امل کھکھلا اٹھی ۔ایسا کرنے سے اس کا ڈیمپل ابھرا ۔
"کیا کھانا پسند کریں گی آپ میم ؟؟"
"اچھا بس بس ۔۔۔زیادہ ھی اور لگ رہا ہے مجھے ہنسی آرہی ہے تمہے ایسے دیکھ کر "
امل کے اور کہنے پر تو آریان کا منہ ھی کھلا کا کھلا رہ گیا یعنی کہ حد ہے ۔۔!!!
"اممم تم ایسا کرو مجھے ۔۔نا مجھے نا۔۔۔"
وہ رکی اور آریان کو دیکھا آریان مسکرایا ۔
"نوڈلز کھانے ہیں نا تم نے ؟"
"آرے واہ دیکھا ۔۔۔ کیا کمال کے دوست ہو تم شاباش اب جلدی بنا کر لاؤ نوڈلز "
وہ کہتی اپنے موبائل کی طرف بڑھی۔
"مادام آپ بھی ذرا میرے ساتھ کچن تک تشریف لے جائیں دراصل میں انجان ھوں کہ سامان انٹی نے کہاں رکھا ہے "
"ہاں چلو اتنا تو مجھے بھی نہیں پتا مگر کوئی بات نہیں مل کے ڈھونڈھ لیں گے "
وہ دروازے کی طرف بڑھی ۔ معمول کے مطابق اس وقت بھی وہ جینز شرٹ میں ھی تھی ۔آریان نے سر جھٹکا اور اس کے پیچھے ھی کمرے سے نکلا ۔اگلے دس منٹ تک وہ سارا سامان ڈھونڈھ چکے تھے ۔آریان اب برنر چلائے ساس پین میں پانی ابال رہا تھا ۔امل کاؤنٹر پر بیٹھی پاؤں جھلاتی اسے کام کرتے ہوے دیکھ رہی تھی ۔جو استینوں کو کہنیوں تک فولڈ کیے ہوے مہارت سے اپنا کام کر رہا تھا ۔اس کے کسرتی بازو اس ہاف بازؤں والی ٹی شرٹ میں واضع نظر آرہے تھے ۔ بکھرے بال ماتھے پر ایک طرف گرے ہوے تھے غالباً وہ نہا کر آیا تھا اور جلدی میں اتے ہوے بال بھی نہیں سنوار سکا تھا ۔
"مادام کیا مجھے نظروں سے ھی سالم نگلنے کا ارادہ رکھتی ہیں آپ "
"بس ۔۔!! بس ۔۔!!! اتنے بھی کوئی خوبصورت نہیں ہو تم "
وہ سر جھٹک کر نخوت سے بولی ۔
"تو مجھے اس طرح دیکھنے کا مقصد ؟"
اس نے مسکراہٹ دبائی ۔
"آریان تم فضول باتیں کیوں کرتے ہو ؟ آرام سے اپنا کام کرو اور میں لاؤنج میں جا رہی ھوں میرا کھانا وہیں لے آنا "
حکم دیتی وہ وہیں سے مڑ گئی آریان نے مسکراتے ہوے سر اثبات میں ہلایا ۔
۔۔۔۔۔____________۔۔۔۔
"ارے واہ مزہ آگیا یہ اب تک کے میرے کھائے گئے نوڈلز میں سے بہترین تھے ۔کتنی زبردست کوکنگ ہے تمہاری ۔۔!!! انٹی ارفع سے سیکھی یا عالیہ بجو سے ؟"
امل مزے سے کھاتی بولی ۔
"جی نہیں ہمارے گھر یہ بچوں والی خوراک کوئی بھی نہیں کھاتا ۔یہ تو میں نے پیکٹ کے باہر سے ھی ریسیپی پڑھی تھی "
آریان نے موبائل ایک طرف رکھتے ہوے کہا ۔
"ہااااا کہاں یہ بات لکھی ہے کہ نوڈلز صرف بچے کھا سکتے ہیں ؟ کیا نوڈلز کے پیکٹ کے باہر لکھا ہوتا ہے کہ "ناٹ الّاوڈ فار یوتھ " بہت بہت زیادہ غلط بات کی ہے تم نے ۔"
اس نے افسوس سے سر ہلایا ۔
"میں تم سے بحث نہیں کرنا چاہتا ۔۔!!! کون جیت سکتا ہے تم سے بحث میں ؟"
اس نے کندھے اچکائے ۔
"کرنا بھی مت کیوں کہ تم نہیں جیت سکتے ۔"
"جیتنا بھی کون چاہتا ہے "
وہ بڑبڑایا اتنا آہستہ کہ اس کی آواز امل تک بھی نہیں پہنچی ۔
"ہیں ؟؟؟؟؟؟؟بندہ اونچا بول لے تاکے اگلہ بندہ بھی تمہاری گفتگو سے فیضیاب ہو جائے "
"چلتا ھوں دانیال آچکا ہے "
گیٹ سے داخل ہوتی دانیال کی گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوے وہ اٹھا ۔
"آریان صاحب کبھی باتیں پوری بھی کر دیا کریں ادھوری ھی چھوڑ دیتے ہیں "امل نے دانت پیستے ہوے کہا ۔
پھر کبھی سہی اور یو ار ویلکم "
ہیں ؟؟؟؟؟؟؟ تمہے تھینک یو کس نے بولا ہے ؟"
اس نے حیرانی سے پوچھا مگر وہ شانِ بےنیازی سے چلتا ہوا دانیال تک پہنچا امل نے گھور کر اسے دیکھا اب وہ دانیال سے کوئی بات کر رہا تھا پھر سر ہلاتا باہر کو بڑھ گیا ۔
"فضول انسان "
امل بڑبڑآئی اور پیر پٹختی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔
۔۔۔ __________________۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مما ۔۔۔!!!! مجھے معاف کر دیں پلیز اپنے اس بدنصیب بیٹے کو معاف کر دیں پلیز "
وہ سر جھکاے ایک قبر کے پاس بیٹھا رو رہا تھا قبر کے کتبے پر جلی حروف میں لکھا تھا "صلہ فاروق والد فاروق شاہ "
اور نیچے تاریخ پیدائش اور سن وفات بھی لکھا تھا ۔کتنی مختصر سی زندگی تھی اس عورت کی صرف انتیس سال ؟؟؟
فہد سر جھکاے بیٹھا دھیرے دھیرے سرگوشیوں میں ان سے بات کر رہا تھا ۔
"مما ۔۔۔پلیز مجھے معاف کر دیں مما میں آپ کے لمس کو محسوس کرنا چاہتا ھوں مما میں آپ کا بدقسمت بیٹا ھوں مما ۔!!! کاش ۔۔!! مجھے بہت پہلے حقیقت کا علم ہو جاتا مما میں آپ کو کبھی خود سے دور نا جانے دیتا "
اپنے غم میں وہ یہ بھول رہا تھا کہ جانے والوں نے ہر حال میں جانا ہوتا ہے انھیں کوئی بھی نہیں روک سکتا ۔ائیرپورٹ سے سیدھا وہ یہیں آیا تھا آریان کی زبانی اسے پتا چل چکا تھا کہ اس کی ماں کس قبرستان میں ہیں ۔وہ یہاں اس قبر کے پاس صبح سے بیٹھا تھا اور اب شام ہونے کو تھی ۔ ہلکی ہلکی ہوائیں چل رہی تھیں ۔موسم خزاں کے باعث قبرستان میں لگے تمام درخت زرد ھی تھے جابجا پتے بکھرے ہوے تھے ۔ہر سو خاموشی تھی لمحے بعد ہوا چلتی تو ارد گرد بھکرے پتے مزید بکھرتے اور پتوں کی سرسراہٹ شور پیدا کرتی ۔فہد نے سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا ۔شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے ۔ایک نظر قبر پر ڈالتے وہ مٹی کو چومتا اٹھ کھڑا ہوا ۔
"خدا حافظ مما "
رونے کے باعث اس کی آواز بھاری ہو رہی تھی ۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا وہ قبرستان سے باہر نکلتا گیا ۔قبرستان کے دروازے کے پاس رک کر وہ مڑا اور قبر کو ایک نظر دیکھتا وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا سڑک پر نکل آیا ۔سڑک پر اکا ، دکا گاڑیاں ھی تھیں ۔سڑک کے کنارے وہ اپنے چھوٹے سے ہینڈ کیری کو پکڑے کھڑا تھا ۔اس نے ایک ٹیکسی رکوائی ۔
"ہیلو ۔۔۔!!گڈ ایوننگ سر ۔۔۔آپ کہاں جانا چاھتے ہیں "
ٹیکسی ڈرائیور نے اپنی زبان میں پوچھا ۔
فہد نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور اسے ایڈریس سمجھا کر اس نے پھر سے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا لی ۔
"ہیو اے گڈ ڈے سر "
ٹیکسی ڈرائیور مخصوس مسکراہٹ لیے بولا فہد سر ہلاتا گاڑی سے نکلا ۔گاڑی کے چارجز وہ پہلے ھی ادا کر چکا تھا ۔فہد نے دور جاتی ٹیکسی کو دیکھا پھر سر جھٹکتا وہ اس عالیشان گھر کی طرف متوجہ ہوا دروازہ کھٹکھٹا کر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔وہ دروازے کی طرف بڑھتی چاپ سننے لگا ۔دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔
"یس سر گڈ ایوننگ "
دروازہ کھولا اور سامنے ھی ایک میںڈ کھڑی مودب انداز میں بولی ۔
"امم ارم شاہ یہاں رہتی ہیں کیا ؟"
فہد نے گلا کھنکھارا اور انہی کی زبان میں سوال کیا ۔
"وہ یہاں رہتی تھیں مگر تین ماہ قبل ھی ان کی وفات ہو گئی ہے اب اس گھر کی دیکھ ریکھ میں ھی کرتی ھوں "
وہ اب فہد کے پیچھے پیچھے چلتی اسے انگریزی میں ھی آگاہ کر رہی تھی وہ ہال میں لگے لڑکے کی تصویریں دیکھ چکی تھی اور لمحہ لگا تھا اسے فہد قریشی کو پہچاننے میں کیوں کہ اکثر ارم اپنے نواسے کا ذکر کرتی تھی ۔
"سر آپ کا روم "
اس نے ایک کمرے کا دروازہ کھولتے ہوے کہا ۔
"ہممممم "
فہد بمشکل بولا اور اندر کی طرف بڑھ گیا ۔دو منٹ بھی وہ مزید رکتا تو اسی عورت کے سامنے رو پڑتا ۔دروازہ بند کرتے ھی وہ اپنی پشت دروازے سے لگاتا زمین پر بیٹھتا چلا گیا وہ ہارے ہوے جواری کی طرح بیٹھا تھا جس کا سب کچھ لٹ گیا ہو ۔آنسو اس کی گہری نیلی آنکھوں سے نکل، نکل کر اس کے گریباں میں جذب ہونے لگے ۔اس نے آنے میں کتنی دیر لگا دی تھی یہ سوچتے ھی اس نے اپنے بال مٹھی میں دبا لیے ۔ ساری رات وہ روتا رہا۔ بھوک ، پیاس ہر احساس مٹ چکا تھا۔جین کی بار اسے کھانے کا بولنے آئی مگر اس نے انکار کر دیا ۔ پانچ بجے کے قریب وہ اٹھا اور لڑکھڑاتا ہوا باتھروم کی طرف بڑھا ۔کل فلائٹ سے لے کر اب تک وہ اسی سوٹ میں تھا نہا کر اس نے سوٹ تبدیل کیا اور وضو کیا ۔ قبلہ کدھر تھا اس بات کا اندازہ اسے نہیں تھا اسی لیے موبائل کھول کر اس نے قبلہ معلوم کیا اور نماز پڑھنے لگا ۔جوں جوں وہ نماز پڑھ رہ تھا اسے اپنے دل میں سکون اترتا معلوم ہو رہا تھا ۔ نماز پڑھ کر وہ اٹھا اور اطمینان سے چلتا بستر پر لیٹ گیا ۔اسے پرسکون نیند کی اشد ضرورت تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔*****************۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہزیب صاحب ۔۔۔!!!!
اسما بیگم نے بیڈ پر نیم دراز شاہزیب صاحب کو پکارا تو انہوں نے محبت بھری نظروں سے اپنی شریک حیات کو دیکھا ۔
"بولیں بیگم ۔۔!!!"
وہ خوش گوار لہجے میں بولے ۔
"مجھے نور کی بہت یاد آرہی ہے اسے اب پاکستان آجانا چاہیے ۔باقی کی اسٹڈی وہ پاکستان آکر امل اور دانیال وغیرہ کے ساتھ ھی کمپلیٹ کر لے میرا مطلب ہے امل دانی اور فلک کی کلاسس بھی تو کچھ ماہ پہلے ھی شروع ہوئیں ہیں ایسے میں نور آکر کوور بھی کر سکتی ہے سارا سلیبس ۔ کب تک اکیلی پردیس میں رہے گی میں اس کی سگی خالہ ھوں میرا دل کٹتا ہے اس کے تنہا پردیس رہنے پر ۔باجی سارا اور بھائی اظہر کی وفات ایک حادثہ تھی جو بھلائے نہیں بھولتی مگر اب بس بہت ہوا بلائیں نور کو پاکستان "
وہ آنسو پونجتی حتمی لہجے میں بولیں ۔
"لیں بیگم اس میں رونے والی کیا بات ہے ابھی فون کرتے ہیں ہم نور بچے کو۔۔۔ ویکینڈ ہے ویسے بھی وہ فارغ ہو گی "
انہوں نے مسکراتے ہوے کہا اور اگلے ھی پل نور کا نمبر ملایا ۔بیل جا رہی تھی تیسری بیل پر فون سپیکر میں نور کی آواز گونجی ۔
"السلام و علیکم پاکستانیو ۔۔۔!!!"
ہشاش بشاش سا لہجہ سن کر وہ دونوں ھی مسکرا دیے ۔
"کیسی ہے ہماری بیٹی ؟؟"
شاہزیب صاحب نے محبت سے پوچھا ۔
"میں ایک تم فٹ ۔۔ آپ سنائیں ینگ مین ؟"
"ہاہاہا ۔۔۔تم با بدلنا کبھی ہماری یاد تو آتی ھی نہیں تمہے "
شاہزیب صاحب نروٹھے لہجے میں بولے ۔اسما بیگم دونوں کی باتیں سن کر مسکرا رہی تھیں ۔
"ارے ینگ مین ؟؟؟ کیا کہا ؟ مجھے یاد نہیں آتی آتی آپ لوگوں کی ؟ میں تو ہر پل یاد کرتی ھوں آپ لوگوں کو ۔۔۔"
وہ مسکراتے ہوے بولی ۔
"تو ہماری بیٹی ہمارے پاس آجائے ۔"
تبھی اسما بیگم نے شاہزیب صاحب کے ہاتھ سے موبائل کھینچا ۔شاہزیب صاحب نے منہ بسور کر انھیں دیکھا پر وہ مسکراہٹ دباتی نظر انداز کر گئیں ۔
"ارے زہے نصیب ۔۔۔۔ کیسی ہیں ینگ مین کی ینگ لیڈی ؟"
"ٹھیک ھوں میں پر تمہاری بہت یاد آتی ہے پاکستان آجاؤ "
وہ نم لہجے میں بولیں ۔
"ارے لیڈی ایسے روتے ہوے کیوں کہہ رہی ہیں آپ بس حکم کریں بوتل کے جن کی طرح حاضر ہو جاؤں گی ۔میں تو کب سے انتظار میں تھی کہ کوئی فون کر کے پاکستان بلائے مگر ہائے رے قسمت میں بوڑھی ہو گئی مگر فون نا آیا کسی کا "
آخر میں اس کا لہجہ شرارتی ہوا ۔
"تو آجاؤ اس سے پہلے کہ بوڑھی اماں یہاں ینگ مین اور ینگ لیڈی بوڑھے ہو جائیں "
"لیں پھر مجھے تین چار دنوں میں اپنے روبرو پائیں گی آپ اب اور فکر نا کریں یار آپ لوگ بوڑھے ہونے والا مٹیریل ھی نہیں ہیں "
وہ ہنستے ہوے بولی ۔ اور پھر وہ کافی دیر اس سے بات کرتے رہے ۔
۔۔۔۔۔۔_______________۔۔۔۔۔۔۔۔
آرے عالیہ آپی جلدی کریں نا صارم بھائی کا حکم ہے ہم آپ کو شاپنگ کروا لائیں تاکے ہر سوٹ آپ ،اپنی کی پسند کا لیں اور پھر مایوں بھی تو بیٹھنا ہے نا آپ نے "
امل گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوے عالیہ سے بولی جو اپنا دوپٹہ درست کرتی آرہی تھی اسی کے پیچھے ببل گم چباتی فلک موبائل پر ٹائپنگ کرتی آرہی تھی ۔آج ھی صارم کے کہنے پر امل اور فلک عالیہ کو شاپنگ کروانے لے جا رہی تھیں چونکہ شادی ہونے میں اب ایک ہفتہ ھی باقی تھا کل سے عالیہ کو مایوں بھی بیٹھانا تھا اور اس کا برائیڈل ڈریس ابھی تک پسند نہیں کیا گیا تھا امل اور فلک نے جب سے نور کے پاکستان آنے کا سنا تھا انہوں نے اپنی شاپنگ کرنے سے انکار کر دیا تھا کیوں کہ دونوں کا کہنا تھا کہ وہ شاپنگ صرف نور کے ساتھ کریں گی بھئی ایک جیسے کپڑے بھی تو لینے تھے ۔
"محترمہ ذرا تیز چلیں پلیز "
امل نے چڑ کر فلک سے کہا جو کچھوے کی چال چل رہی تھی ۔
"کیوں کیا ٹرین نکل گئی ہے ؟"
کیا شاہانہ انداز تھے مادام کے امل کا دل کیا کہ جانے کا پلان کینسل کر کے خوب درگت بناے محترمہ کی ۔
"ہاں نکل رہی اور اسی طرح چلنا ہے تو بائے "
امل غصے سے کہتی گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ چکی تھی ۔
"ارے مجھے چھوڑ کر نا جانا کمینی"
فلک کا ارادہ محض اسے تنگ کرنے کا تھا تبھی تو اسے تپاتے ہوے وہ آہستہ آہستہ چل رہی تھی ۔
فلک نے گاڑی میں بیٹھتے ھی دانت نکال کر امل کو دیکھا جو بیک مرر میں دیکھتی اسے ھی گھور رہی تھی ۔
"بتمیز کہیں کی "
امل بڑبڑآئی اور گاڑی سٹارٹ کرکے مال کے راستے پر ڈال دی ۔
۔۔۔۔۔_____________۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فہد کو انگلینڈ آے آٹھ دن ہو چکے تھے۔وہ تقریبا روز صلہ فاروق کی قبر پر جاتا گھنٹوں وہاں بیٹھا رہتا پھر چپ چاپ اٹھ کر باہر نکل جاتا ۔ گھر آتا تو ہر طرف صلہ فاروق کی تصویریں لگی دیکھتا تو دل کی حالت عجیب سے عجیب تر ہو جاتی ۔ہال میں اس کی تصویریں بھی لگی تھیں یہ وہی تصویریں تھیں جنہیں آریان نے ڈیولپ کروا کر ارم شاہ کو دیا تھا ۔وہ گھنٹوں گم صم بیٹھا ان تصویروں کو دیکھتا رہتا ۔وہ اپنی ماں سے شکل و صورت میں کتنا ملتا تھا ۔وہ آخری بار صلہ فاروق کی قبر پر گیا ۔دل کی حالت عجیب ہو رہی تھی ۔ وہ اس دن کے بعد رویا نہیں تھا کہ کہیں اس کا رونا اس کی ماں کی روح کو بے چین نا کر دے ۔پھر وہ کتنی ھی دیر وہاں بیٹھا ان سے باتیں کرتا رہا اور پھر فاتحہ پڑھ کر وہ اٹھا ۔دل رونے کو بے چین تھا مگر اس نے سختی سے اپنے دل کو ڈانٹا ۔ اسے کل کی فلائٹ سے واپس جانا تھا حالانکہ اس کا دل بلکل بھی رضا مند نہیں تھا مگر یہاں اس کے اپنے نا تھے جن کے لیے وہ ٹھہرتا وہاں آریان تو تھا نا جو اس کا اپنا اس کا دوست تھا ۔ اگلے دن وہ ناز پڑھنے کے بعد بلکل تیار تھا ناشتہ کرنے کے بعد اس نے جین کو کچھ خاص تاکید کیں اور ٹیکسی کروا کر ائیرپورٹ کی طرف نکل گیا ۔
۔۔۔۔۔____________۔۔۔۔۔۔۔
"یار فلک یہ شرٹ دیکھو "
"ہاں یہ بہت پیاری ہے "
فلک نے پرشوق نظروں سے ریڈ کلر کی کرتی دیکھی ۔
"تم لوگ کیا کبھی شلوار قمیض بھی پہنو گی یا میری خواہش بس خواہش ھی رہ جائے گی ؟"
عالیہ ڈریسس پیک کروا کر ان دونوں کی طرف چلی آئی ۔
"آپی بس عادت نہیں ہے "
فلک سادگی سے بولی ۔
"ارے واہ کیا خوب کہی ؟؟ بیٹا جی عادت ڈالنی پڑتی ہے ۔ چلو اب شاباش میری خوشی کے لیے ھی سہی کم از کم ایک شلوار سوٹ تو خرید لو "
عالیہ کہتے ہوے ایک طرف ڈسپلے شلوار سوٹ دیکھنے لگی ۔وہ جو ابھی کچھ کہنے کے لیے منہ کھولنے ھی والی تھیں عالیہ کو شلوار سوٹ کے ساتھ مسکراتے ہوے اپنی طرف اتے دیکھ کر خاموش ہو گئیں ۔
"چلیں ٹھیک ہے کیا یاد کریں گی آپ مان لیتے ہیں آپ کی بات ویسے بھی ہفتے تک آپ نے پیا گھر سدھار جانا ہے ۔"
امل شرارتی لہجے میں کہتی کاؤنٹر کی طرف بڑھی ۔
"بدتمیز میں نے وہیں رہنا ہے بس ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں شفٹ ہونا ہے "
عالیہ جھینپتے ہوے بولی ۔
"ویسے میں ایک بات سوچ رہی تھی عالیہ آپی کہ آپ کا کمرہ کسے ملے گا ؟"
امل باہر کی طرف بڑھتے ہوے بولی ۔
"کسے ملنا ہے ایسے ھی رہے گا جب تک ان کے چنٹو ،منٹو نہیں آجاتے اور بعد میں وہ کمرہ انہیں کا تو ہو گا ۔"
فلک نے شرارتی لہجے میں کہا ۔
"بدتمیز بچو اب مجھ سے "
شرم سے لال ہوتے عالیہ ان کے پیچھے لپکی تو وہ دونوں چیختی ہوئیں مال سے نکلیں ۔اتے جاتے لوگوں نے مڑ کر ان دیوانیوں کو دیکھا جو اب گاڑی میں بیٹھ کر جا بھی چکی تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔
امل اور فلک عالیہ کی خواہش پر شلوار سوٹ پہن چکی تھیں انھیں اپنا آپ بہت بدلا ہوا محسوس ہوا ایک دوسرے کے سامنے اتے ھی وہ دونوں ہنس دیں ۔
اچھی لگ رہی ہو امو !!!!
فلک نے سر سے پاؤں تک اسے دیکھا ۔
"تم بھی "
امل مسکرا کر بولی ۔
"یہ دانیال اور آریان اگر ہمیں ایسے دیکھ لیں تو حیرت کے مارے پاگل ہو جائیں ۔"
امل کھلکھلاتے ہوے بولی ۔
ہاں انہوں نے پوچھا تو کیا کہیں گے ؟
"اہو کہہ دیں گے فیشن چل رہا ہے "
امل ہاتھ جھلاتے ہوے بولی ۔
ویسے عالیہ بھابھی کتنی خوش ہوئیں تھیں نا ہمیں ایسے دیکھ کر ؟؟؟
فلک نے مسکراتے ہوے کہا ۔
"ہاں ۔۔۔ اب چلیں باہر ؟؟"
امل نے اپنا بیگ کندھے پر ڈالتے ہوے پوچھا ۔
وہ دونوں سر جھکا کر باہر آئیں جہاں دانیال اور آریان گاڑی کے پاس کھڑے انہیں کا انتظار کر رہے تھے ۔آریان کو بھی آج یونی اپنے کچھ ڈاکومنٹ لینے جانا تھا ۔
"کیا آج عید ہے بڈی ؟"
دانیال نے امل اور فلک کو دیکھتے ہوے آریان سے پوچھا جو خود بھی امل اور فلک کو اس طرح دیکھ کر اپنی جگہ حیران تھا ۔
"میں بھی تم سے کچھ ایسا ھی پوچھنے والا تھا چلو انہی سے پوچھ لیتے ہیں "
آریان نے امل اور فلک کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا ۔
"یہ تم دونوں کیا کھسر ، پھسر کر رہے ہو ؟"
امل نے ان کے سر پر پہنچتے ھی کڑے تیوروں سے پوچھا ۔
کچھ نہی ۔۔۔۔۔
یہ بتاؤ ؟؟ آج خیریت تو ہے نا تم دونوں نے شلوار قمیض پہن رکھی ہے ؟ مینز سریسلی تم دونوں نے ؟؟"
دانیال باز نا آیا ۔
"کیوں کیا شلوار قمیض پر لکھا ہے ؟ اٹ از ناٹ الّوڈ فار امل اینڈ فلک ؟"
فلک کمر پر ہاتھ رکھتے ہوے بولی ۔
"رہنے دو دانی تمہے نہیں پتا آج کل شلوار قمیض کا فیشن بہت ان ہے ۔ انہوں نے بھی اسی لیے پہنی ھوں گی "
آریان شرارتی لہجے میں بولا ۔
ہاں تو اور کیا ؟"
امل اور فلک ایک ساتھ بولیں تو آریان اور دانیال ہنس دیے ۔امل ،فلک انھے گھورتی گاڑی میں جا بیٹھیں ۔آریان اور دانیال کو وہ دونوں آج اس طرح بہت خوبصورت لگیں تھیں پر اس بات کا اعتراف وہ دونوں ھی نہیں کریں گے یہ بات امل اور فلک جانتی تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی بورڈنگ ہو چکی تھی اور اب وہ فلائٹ کی آنوئنسمنٹ کا انتظار کر رہی تھی ۔دفعتا اس کی فلائٹ کا اعلان ہونے لگا اس نے سامنے چلتی سکرین کو دیکھا جہاں اس کی فلائٹ کی ڈیٹیل دی جا رہی تھیں ۔ وہ اس وقت جینز اور کھلے کرتے میں ہلکے سے سٹولر کو گلے میں ڈالے لیر کٹ بالوں کی اونچی پونی ٹیل بناے ہوے تھی ۔اپنا ہینڈبیگ سمبھالتے ہوے وہ اٹھی ۔دوسرے ہاتھ سے اس نے جینز کی جیب سے اپنا موبائل نکالا وہ چلتے ہوے ٹائپنگ کر رہی تھی ۔موبائل کو ایروپلین موڈ پہ ڈالنے سے پہلے وہ شاہزیب صاحب کو میسج پر اپنی فلائٹ کے تھوڑی ھی دیر میں ٹیک اف ہونے کے بارے میں بتا چکی تھی ۔وہ آج اس ملک کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جا رہی تھی اس ملک کی ہواوں میں اس نے سانس لی تھی اپنی زندگی کے بیس سال اس نے یہاں گزارے تھے ۔ مگر وہ آج جاتے ہوے رنجیدہ نہیں تھی کیوں کہ وہ وہاں جا رہی تھی جہاں اس کے اپنے تھے ۔اپنوں سے ملنے کی چاہ، ان کے ساتھ رہنے کی چاہ آج پاکستان نا صرف نور اظہر کو لے جا رہی تھی بلکہ کچھ قدموں کے فاصلے پر چلتے فہد قریشی کو بھی واپس اپنوں کے پاس لے جا رہی تھی ۔منزل دونوں کی ایک تھی، راستہ بھی ایک ھی تھا فرق یہ تھا کہ نور اظہر اب مزید تنہا رہ نہیں سکتی تھی اور اپنوں کے ساتھ رہنا چاہتی تھی اور فہد قریشی اب مزید تنہا نہیں ہونا چاہتا تھا اور بچے ہوے اپنے کھونا نہیں چاہتا تھا ۔جو چلے گئے انھیں جانا ھی تھا انھیں نا فہد قریشی روک سکتا تھا ،نا کوئی دوسرا اور نا ھی کوئی تیسرا کیوں یہ موت وہ اٹل حقیقت ہے جو ہر لذت کو مٹا دے گی۔
نور نے گہرا سانس کھینچا اور اطمینان بخش مسکراہٹ چہرے پر سجائے جہاز تک پہنچی ۔ ایئر ہوسٹسس نے اس سے اس کا بورڈنگ کارڈ لیا اور مسکراتے ہوے اسے خوش آمدید کہا ۔ اس نے مسکرا کر سر کو خم دیا اور اپنی سیٹ کی طرف بڑھی ۔
"یا اللّه۔۔۔۔۔!!!! پلیز ونڈو سیٹ ہو پلیز "
شہادت کی انگلی اور ساتھ والی انگلی کا ٹوسٹ کیے وہ آنکھیں بند کیے بچوں کے سے انداز میں بولی ۔اپنی مطلوبہ سیٹ پر پہنچ کر اس نے زور سے آنکھیں میچیں ۔
"اللّه پلیز ۔۔۔۔۔!!!!"
کہتے ھی اس نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں ۔
"نہیں ۔۔!!!"
وہ زور سے کہتی اپنی سیٹ پر گری ۔ہینڈبیگ پٹخنے کے انداز میں سامنے رکھا ۔اس کے ساتھ والی ونڈو سیٹ پر بیٹھے فہد قریشی نے چونک کر اسے دیکھا ۔پھر کندھے اچکا کر دوبارہ سر سیٹ کی پشت سے لگا گیا ۔
"ائے ہائے نور کیا بات ہے پورا تندوری چکن ہے کیا آدمی ہے ہائے ۔۔!! قسم سے جہاں سکندر جیسا ہے اففف وہی ادا ۔۔!! وہی لاپروا انداز اففف وہی اٹیٹیوڈ ۔۔!! قسمت کھل گئی ۔"
فہد پر نظریں ٹکائے وہ ہلکی آواز میں بولتی سیٹ پر سیٹ ہو کر بیٹھی نظریں اب بھی فہد پر ھی تھیں جو اس کے منہ سے اپنے لیے تندوری چکن اور جہاں سکندر کا لقب سننے کے بعد حیرت سے اسے ھی دیکھ رہا تھا ۔اس کے گولڈن بال دیکھ کر فہد تو کم از کم یہی سمجھا تھا کہ یہ انگلینڈ ھی کی ہے وجہ اس کی ظاہری شکل وصورت اور گورا رنگ تھا ۔
"مجھے پتا ہے میں بہت خوبصورت ھوں "
(I know I'm very beautiful)
وہ اسے انگریز ھی سمجھی تھی تبھی انہی کی زبان بولی ۔
"Self praise has no recommendation"
(اپنے منہ میاں میٹھو مت بنو )
فہد بےنیازی سے کہتا دوبارہ اپنی سابقہ حالت میں چلا گیا ۔
"ہنن اٹیٹیوڈ ھی سانس نہیں لے رہا "
وہ اب اردو میں بولی کیوں کہ نور مادام کو اس بات کا یقین تھا کہ ساتھ بیٹھا آدمی انگریز ھی ہے اسے کون سا سمجھ آنی ہے ۔
"اففف ہا ۔۔۔۔۔افففففف میں گئی ۔۔میں مر گئی ۔"
وہ آنکھیں میچے گہرے گہرے سانس لینے لگی ۔
"Mister can you please exchange your seat with me please .It's very urgent because I am a asthma patient and I feel suffocation when I didn't sit with window please ..!!"
(مسٹر کیا ازراہ کرم آپ اپنی سیٹ میرے ساتھ تبدیل کروا سکتے ہیں جلدی کریں پلیز میں ایستھما کی مریضہ ھوں اور جب میں ونڈو کے ساتھ نا بیٹھوں تو میرا دم گھٹتا ہے )
فہد نے اس کی حالت دیکھی جو واقعی ترحم آمیز لگ رہی تھی فہد کو اس سے ہمدردی ہوئی ۔
"بیچاری "
اس نے دل میں سوچا اور اپنی طرف دیکھتی نور کو اثبات میں سر ہلاتے وہ اپنی سیٹ سے اٹھا ۔نور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اس کی سیٹ پر پہنچ چکی تھی ۔
"Thank you "
(شکریہ )۔۔۔!!!
وہ دانت نکالتے بولی ۔
ہا ۔۔۔اتنا بھولا بیچارہ ۔۔ہا ۔۔!!! اتنا سیدھا ؟؟؟
وہ افسوس سے فہد کو سر تا پاؤں دیکھتی بولی اور یہ فہد ھی جانتا تھا کہ وہ کس ضبط سے بیٹھا تھا ۔
"ہے بھی اتنا پیارا پتا نہیں مسلمان ہے بھی یا نہیں ؟اگر مسلمان ہو تو کیا بات ہو ؟؟ واہ مزہ آجاے ۔۔!!! اگر مسلمان ہو تو اللّه کرے شادی شدہ نا ہو ارے مجھے بھی لائن مارنے کا پورا حق ہے "
نور خود میں ھی مگن چپڑ،چپڑ بولتی جا رہی تھی ۔
"Excuse me "
نور اس کی طرف مڑتے ہوے بولی ۔
"No excuse me"
فہد می پہ خاصہ زور دے کر بولا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ۔
"Are you married?"
(کیا آپ شادی شدہ ہیں ؟)
نور نے تجسس سے پوچھا ۔
"No"
(نہیں )
فہد مسکراہٹ دبائے بولا ۔
"لو بھئی ایک تو یہ بندہ انگریز نا ہوتا نا تو ۔۔۔!!! کاش ۔۔۔اے کاش "
وہ سر ہلاتی افسوس کر رہی تھی ۔
"میں انگریز نہیں ھوں ۔ "
فہد اطمینان سے بولا ۔
"اچھاااا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کیا ؟؟؟؟ تم ؟؟تم اردو بول رہے ہو ؟؟ تو اس کا مطلب تم سمجھ بھی لیتے ہو گے اردو۔ ہے نا ؟؟"
نور جھٹکے سے سیدھی ہوئی ۔کتنی بکواس کر چکی تھی وہ اس کے سامنے اور وہ اس کی ہر ہر بات سمجھ رہا تھا ۔
"غالباً اردو بولنے والا اردو سمجھ بھی سکتا ہے مادام ۔"
"کتنی غلط بات ہے تمہے مجھے بتا دینا چاہیے تھا میں اگر کچھ الٹا سیدھا بول دیتی تو ؟؟؟"
نور عورتوں کے انداز میں ہاتھ نچا نچا کر بولی ۔اس کی بات پر فہد نے ایک ابرو اچکا کر اسے یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو "سریسلی ؟؟"
"ہاں تو ؟؟ مجھے کون سا پتا تھا تم اردو بول لیتے ہو ؟؟ ویسے تمہارا نام کیا ہے ؟"
نور اپنی خفت مٹاتے ہوے بولی ۔
"فہد قریشی "
"نور اظہر "
"کیا میں نے پوچھا ؟"
فہد نے اسے گھورا اس لڑکی کی وجہ سے اس کے سر میں درد شروع ہو چکا تھا ۔
"پر میں نے تو بتا دیا نا "
نور نے کندھے اچکائے ۔
"اچھا مسلمان ہو ؟ اور کیا پاکستان جا رہے ہو ؟"
"الحمدلللہ مسلمان ھوں اور مادام کیا آپ افریقہ جانے والی فلائٹ پر چڑھی تھیں ؟"
ٹھنڈے انداز میں بھگو بھگو کر طنز مارتے فہد رخ موڑ گیا ۔
ہنن اکڑ تو دیکھو لارڈ صاحب کی ۔ایسے طنز مار رہا ہے جیسے میں اس کی بھینس لے کر بھاگی ھوں ۔
نور نے اسے گھورتے ہوے دل میں سوچا اور سر جھٹک کر اپنا موبائل نکالا ۔اب وہ اپنا سب سے پسندیدہ کام کر رہی تھی ۔
کون فہد ؟؟ کیسی بےعزتی ؟
اس لمحے اسے سب بھول چکا تھا ۔
فہد کو سیٹ کی پشت سے ٹیک لگاے آرام دہ حالت میں بیٹھے ابھی بمشکل دس منٹ ہوے ھوں گے جب اس کی آنکھ کسی کے زورو شور سے رونے کی وجہ سے کھلی ۔وہ چونک کر سیدھا ہوا اور اپنے ساتھ بیٹھی نور میڈم کو دیکھا جو زور و شور سے رو رہی تھی ۔ارد گرد بیٹھے مسافر بھی انھیں مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے ۔
"کیا ہوا ؟پلیز آپ کچھ بولیں باتیں کیا ہوا "
فہد فکرمندی سے بولا ۔
نور نے آنسوؤں سے لبالب آنکھوں سے فہد کو دیکھا ۔
"وہ ۔۔وہ نہیں رہا "
"انا للّہ ھی وانا علیہ راجعون "
فہد کو دکھ ہوا ۔اس نے اپنی پاکٹ سے ٹشو نکال کر اسے دیا ۔
"آپ کا بھائی تھا ؟"
"نہیں "
نور پھر رونے لگی ۔اور ٹشو سے ناک رگڑا ۔
"دوست ؟؟"
ایک اور ٹشو دیا ۔
"نہیں "
اس نے ٹشو سے آنکھیں صاف کیں ۔
"ہسبنڈ ؟"
ایک اور ٹشو ۔
"نہیں "
دوبارہ ناک رگڑا گیا ۔
"بوے فرینڈ ؟"
"استغفرللہ شرم کرلو کچھ "
پھر ناک رگڑا ۔
"تو پلیز ایسے مت روئیں بتائیں تو سہی کہ کون ہے آخر وہ جو مر گیا ؟"
"خبر دار ۔ ۔" شہید ہو گیا" کا لفظ استعمال کرو ۔"مر گیا" نا کہنا ۔"
"کس کی بات کر رہی ہیں آپ ؟"
"میجر حیدر ۔۔!!"
اب کے نم آنکھیں صاف کیں ۔
"وہ کون ہے ؟"
"نہیں پتا تمہے ہا ۔۔۔۔۔ارے ابھی تو اس کا نکاح ہوا تھا اور ابھی بیچاری دعا بیوا بھی ہو گئی قسمت کے فیصلے دیکھو ۔۔۔"
"کون دعا اور کون حیدر ؟"
"چلو اب ساتھ چلتے ناول نہیں پڑھا تم نے ؟"ٹشو تو دو ہا میں مر گئی ۔حیدر "
"ختم ہو گئے ٹشو "
فہد دانت پیستے بولا ۔یہ لڑکی واقعی سائیکو تھی ۔فہد قریشی کا شک یقین میں بدل چکا تھا ۔
"تمہے افسوس نہیں ہوا ؟"
وہ گلوگیر لہجے میں بولی ۔
مگر اب فہد ہینڈفری کانوں میں ڈال کر والیم بڑھا چکا تھا ۔نور کا رونا اب بھی جاری تھی ظاہر سی بات ہے رونا تو بنتا تھا بیچاری کا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تینوں ائیرپورٹ کے باہر کھڑے نور کا انتظار کر رہے تھے ۔نور کی فلائٹ لینڈ ہو چکی تھی امید تھی کہ کچھ دیر میں وہ باہر بھی آجاے گی ۔
"آگئی نور "
ایک دم ھی امل اور فلک کے چلانے پر دانیال بھی متوجہ ہوا ۔
"چڑیل "
وہ اسے گھورتے ہوے بولا ۔وہ تینوں چلتے ہوے اس تک پہنچ چکے تھے ۔
"اے ڈرائیور ؟؟؟ میرے سوٹ کیس اٹھاؤ اور گاڑی میں منتقل کرو "
وہ دانیال کو حکم دیتی امل اور فلک سے لپٹ گئی ۔
"یاررآئی مس یو بوتھ سو مچ "
وہ دبی آواز میں بولی ۔
"اوہ ہیلو محترمہ ؟؟ یہ ڈرائیور کسے بولا ؟"
دانیال تو ہوش میں آتے ھی چلا اٹھا تھا ۔
"تمہیں اور کسے ؟ ویسے تم لوگ کب سے اتنے کھوجے ڈرائیور رکھنے لگے ؟"
دانیال کو کہتے وہ امل اور فلک کی طرف متوجہ ہوئی ۔
"خود ہو گی تم کھوجی میں تو اتنا ہینڈسم ھوں اتنا ہینڈسم ہوں ۔۔۔۔کہ بس کیا بتاؤں ؟؟"
دانیال ایک جذب سے بولا ۔
"کچھ بتانے کو ہوگا تو بتاؤ گے نا ؟"
نور اسے چڑا رہی تھی ۔
"تم سے ۔۔۔بات کرنا فضول ہے "
دانیال پاؤں پٹختا اس کے سوٹ کیس کھینچتا گاڑی تک جا پہنچا ۔
ہاہاہا ۔۔۔"
وہ تینوں اس کی حالت پر ہنستے ہوے گاڑی کی طرف چل دیں ۔
"اس بچارے کا کیا حال ہو گا جو تمہارے ساتھ بیٹھا ہو گا ؟"
دانیال نے نفی میں سر ہلاتے ہوے افسوس کا اظہار کیا جانتا جو تھا کہ اب تک اس بندے بچارے کا سر خالی ہو چکا ہو گا ۔
"وہ ہاں یار بڑا کول بندہ تھا ۔افف کیا بتاؤں ۔اچھا جو ہوا نا وہ تو جا کر گھر بتاؤں گی اس کے سامنے نہیں ۔باقی یہ کہ ابھی وہ ائیرپورٹ سے باہر ھی نہیں نکلا تھا نہیں تو تم لوگوں کو اس خوش نصیب کا دیدار کرواتی جسے میرے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا ۔"
نور اٹھلاتے ہوے بولی تو امل اور فلک ہنس دیں اور اپنی باتوں میں مصروف ہو گئیں جب کہ دانیال محض آنکھیں گھما کر رہ گیا تھا ۔
"تھری ایڈیٹس "
وہ دھیمے سے بڑ بڑایا اور ایسیلیٹر پر دباو ڈالا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امل ،فلک اور نور دو دن مسلسل بازار جا، جا کر اپنی شاپنگ پوری کر چکی تھیں اور اب انتہائی مطمئن تھی کیوں کہ شاپنگ ہو چکی تھی ۔اب وہ اپنا سارا وقت عالیہ کو دیتیں جو ان کی باتوں پر لال پیلی ہوتی رہتی ۔نور کے آنے سے ان کا گروپ پورا ہو چکا تھا بچپن میں نور کچھ عرصہ ان کے ساتھ رہی تھی اور تب بھی ان کی آپس میں خوب جمی تھی ۔عالیہ مایوں بیٹھ چکی تھی ۔ اسے مایوں بیٹھے آج دوسرا دن تھا ۔امل،نور اور فلک اس کے کمرے کے باہر بہت سخت پہرا دیے ہوے تھیں ۔ عالیہ بیچاری کو تو انہوں نے کمرے سے باہر بھی نکلنے نہیں دیا تھا اور خود ھی سارے کام کر رہی تھیں ۔ عالیہ اس وقت بھی اپنے کمرے میں ھی تھی ۔اب لاؤنج میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے اب اکثر شام کو سب اکھٹے ہوتے کیوں کہ چار دنوں تک شادی تھی تو سب کی زبان پر یہی بات موضوع گفتگو تھی ۔
"کل مجھے نجمہ کی کال آئی پہلے تو مجھے پتا ھی نہیں چلا کہ کون بات کر رہی ہے بلاآخر اس نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ صیاد صاحب کی بیٹی کی شادی پر مجھ سے ملیں تھیں تو مجھے یاد آیا ۔فلک میں انہی انٹی کی بات کر رہی ھوں جو آپ کا بائیو ڈیٹا لے رہی تھی ۔"
بات کرتے ہوے عائشہ بیگم نے فلک کو بھی اندر گھسیٹا تو اپس میں باتیں کرتیں امل ،فلک اور نور ان کی طرف متوجہ ہوئیں ۔
"انہوں نے زیادہ گھمایا پھرایا نہیں اور سیدھا مدعے پر آئیں ۔انھیں اپنے بیٹے کے لیے ہماری فلک پسند آئی تھی اور انہوں نے اسی کے متعلق بات کی ۔لڑکا اچھا ہے کافی بزنس ہے ان کا ،میں شادی پر بھی ملی تھی اس سے سمجھدار بھی ہے میں نے وقت مانگا ہے ان سے "
عائشہ بیگم نے بات ختم کی اور چائے کا کپ اٹھایا ۔دانیال ابھی تک صدمے کی کیفیت میں کبھی عائشہ بیگم کو دیکھتا تو کبھی باقی سب کو ۔
"ارے سمپل سی بات ہے انکار کر دو عائشہ ۔۔!! میں نے فلک کو ہمیشہ سے اپنے آریان کے لیے ھی سوچا ہے "
ارفع بیگم نے مسکراتی نظروں سے فلک کو دیکھا ۔دانیال نے جھٹکے سے سر اٹھا کر انھیں دیکھا ۔وہ تو سب جانتی تھیں تو پھر یہ سب ؟؟؟
اس نے اپنے ماں باپ ،پھر امل اور عائشہ بیگم کو دیکھا سب کچھ تو وہ جانتے تھے پھر اب ؟؟؟ وہ کیوں نہیں روک رہے تھے ؟وہ کیوں کچھ بول نہیں رہے تھے ؟آریان سر جھکا ئے بیٹھا تھا ۔آریان کچھ کیوں نہیں بول رہا ؟؟
"یہ تو بہت اچھی بات ہے "
شاہزیب صاحب مسکراتے ہوے بولے ۔انہوں نے ایک نظر اپنے بیٹے کو دیکھا جس کی آنکھیں انھے شکوہ کرتی نظر آئیں انہوں نے فورا نظر ہٹائی ۔اسی پل دانیال کو ہوش آیا ۔وہ ایک دم کھڑا ہوا سب نے حیرانی سے اسے دیکھا ۔سر جھکائے بیٹھی فلک نے بھی جھٹکے سے سر اٹھایا تھا ۔
"ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟؟"
وہ ایک دم بولا تو سب اسے حیرانی سے دیکھنے لگے ۔
"کیا مطلب ؟؟"

(جاری ہے )

Asslam_o_Alaikum ۔۔۔۔!!!!!
Feedback aur reviews lazmi dia karain .kuch masrofiyat ky bais episode latkti chli gai. sorry for this .baki yh kh apne veiws se agha zaroor kiya karain .
(جزاک اللّه خیر )

ماہی وے ✔Donde viven las historias. Descúbrelo ahora