جب ہوئے فیصلے

2.8K 164 23
                                    

ماہی وے از قلم مریم اور علیشا ۔
قسط #10

ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟
اس نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا ۔
کیسا کیسے ہو سکتا ہے ۔ ؟؟
سہیل صاحب نے مسکراہٹ دبائی ۔ اب آیا نہ اونٹ پہاڑ کے نیچے ۔
ایسا ۔۔۔!!!!
ایسا کیسا ؟؟؟
عائشہ بیگم نے حیرانگی سے پوچھا ۔
"یہ جو آپ سب کرنے کا سوچ رہے ہیں ۔۔۔یہی سب ۔۔یعنی آریان اور فلک ۔؟؟؟سوچیے گا بھی مت ۔۔!!!"
اس کا انداز وارننگ دیتا ہوا تھا ۔
"قباحت تو نہیں ویسے اس بات میں ۔اور اگر ہم ایسا نا بھی کریں تو کوئی اور لڑکا بھی تو نہیں ہے نا خاندان میں ۔۔!!!"
عائشہ بیگم مسکرائیں ۔ان کی بات پر دانیال ایک جھٹکے سے اٹھا ۔
"کیا آپ لوگوں کو میں تیسری مخلوق لگ رہا ہوں ؟؟؟"
اس کا انداز حیرانی لیے ہوے تھا ۔اور اس کے انداز پر سب کے قہقہوں نے اسے جتایا کہ وہ کیا بول چکا ہے ۔ایک دم ھی وہ منہ پر ہاتھ رکھتا زمین پر بیٹھ گیا اور ایک بار پھر سب ہنسنے لگے ۔پھر اس نے چور نظروں سے فلک کو دیکھا جو سر جھکاے بیٹھی شاید مسکراہٹ ضبط کر رہی تھی ۔کم از کم دانیال کو تو یہی لگا تھا مگر کون بتائے اسے کہ فلک بی بی شرما رہی تھیں ۔پھر اس نے یونہی ٹیڑھی نظروں سے آریان کو بھی دیکھا جو مسکرا رہا تھا ۔اسے تو تپ ھی چڑھ گئی یعنی حد ہے یہ فضول انسان کیوں مسکرا رہا ہے ؟ کہیں ؟؟؟؟
اس سے آگے اس سے سوچ نا ہوا۔۔۔وہ ایک دم اٹھا اور اس کی طرف بڑھا ۔
"تیرے دانت کیوں نکل رہے ہیں ۔کہیں ویسا تو نہیں جیسا میں سوچ رہا ہوں ؟؟"
وہ ابرو اچکائے مشکوک انداز میں بولا ۔
"بڑوں کا فیصلہ ہے میں تو خوش ہوں "
آریان نے سعادت مندی سے جواب دیا تو دانیال کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔
"میں کروں گا فلک سے شادی اور اگر آپ لوگ اسے بے شرمی سمجھتے ہیں جو میں کر رہا ہوں تو سمجھیں کیوں کہ "جس نے کی شرم اس کے پھوٹے کرم " اپنے بڑھاپے میں، گرمیوں کے موسم میں لان کے کسی درخت کے سائے میں بیٹھ کر یا سردیوں کے موسم میں انگیٹھی کے سامنے بیٹھ کر یہ سوچنا نہیں چاہتا کہ "ایک فلک تھی جس سے میں عشق کرتا تھا اور بڑوں کے فیصلے کے سامنے مجبور ہو کر مجھے اس سے دستبردار ہونا پڑا پھر اس کے بچے مجھے ماموں کہنے لگے ۔میں پچھتانا نہیں چاہتا ۔یہ زندگی آپ کی ہے اسے خوشی سے اور اپنی مرضی سے گزارنا آپ کا حق ہے تو حق کے لیے آواز اٹھاؤ نا کے خاموش رہو اور مظلومیت کی مثال بنو ۔میں چاہتا ہوں بوڑھا ہو کر جب میں کسی درخت کے نیچے بیٹھوں یا انگیٹھی کے سامنے بیٹھوں تو میرے ہمراہ فلک بھی ہو اور ہم پیزا آرڈر کروایں ۔ فلک کے بچے میرے پاس پیزا لائیں اور کہیں بابا ۔۔!!! پیزا آگیا ۔میں ماموں نہیں بابا کہلانا چاہتا ہوں ۔میں بوڑھا ہو کر فلک کے ساتھ پیزا کھانا چاہتا ہوں ۔دانتوں کا سیٹ ہم شیر کر لیا کریں گے اور فلک۔۔۔!!! ہم مل کر کھانا کھایا کریں گے ۔۔ہوٹلنگ کیا کریں گے ۔"
وہ سنجیدہ بات کو بھی مذاق میں ڈھال دینے کا ہنر رکھتا تھا ۔سب اس کی بات پر مسکرائے ۔
"تو پھر ہمیں بھی تم پر ترس آگیا ہے دانیال بیٹا ۔۔۔!!! جاؤ کیا یاد کرو گے بوڑھے ہو کر کہ عظیم ماں باپ ملے تھے ،"
سہیل صاحب مسکراے۔
"یس ۔۔۔۔!!"
دانیال نے پرجوش آواز میں کہا تو اس کے انداز پر سب ہنس دیے ۔
"تو دانی بیٹا ہماری بھی ایک خواہش ہے کہو پوری کرو گے؟؟ تاکہ آریان بھی اپنے بڑھاپے میں ہمیں دعایں دے سکے ۔"
فرحان صاحب سنجیدگی سے بولے ۔
"عرض کریں آپ ۔۔!!!!"
دانیال تابعداری سے جھکا ۔
"بھئی تم لوگ ہمارے آنگن کی کلی لے لو اور ہم تم لوگوں کے آنگن کی کلی لے لائیں گے ۔"
ارفع بیگم نے اپنے ساتھ کھڑی امل کے گال کھینچے ۔تو وہ شرماتے ہوے سر جھکا گئی ۔
دانیال نے دکھ سے آریان کو دیکھا ۔وہ اس کا درد محسوس کر سکتا تھا محبت چھن جانے کا دکھ جو تھوڑی دیر پہلے وہ خود بھی محسوس کر رہا تھا دانیال کو اپنی آریان سے مہینہ پہلے کی گئی بات یاد آئی ۔
"اچھا جناب تو تم فلک سے محبت کرتے ہو ؟؟"
"ہاں نا "
دانیال نے تابعداری سے سر ہلایا ۔
اس وقت وہ دونوں لان میں بیٹھے تھے ۔ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ۔امل اور فلک عالیہ کے ساتھ کچن میں تھیں۔غالباً عالیہ کی بنائی گئی ڈشز پر ہاتھ صاف کر رہی تھیں ۔
"تمہے بھی کسی سے محبت ہے نا ؟؟ مجھے یاد آیا جس دیں ہم یونی میں ملے تھے فلک نے ھی ذکر کیا تھا ۔کون ہے وہ ؟؟"گھنے میسنے ؟؟
دانیال نے اس کے کندھے پہ دھپ رسید کی ۔
"وقت آنے پر بتاؤں گا "
وہ مبہم سا مسکرایا ۔
دانیال نے چونک کر آریان کو دیکھا جس کے چہرے پر کھلتی مسکراہٹ بہت کچھ جتا رہی تھی اس نے نظروں کا زاویہ موڑا اور امل کو دیکھا جو شرما رہی تھی ۔
"یا اللّه ۔۔۔!!!"مجھے پتا ھی نا چلا واقعی گھنا میسنا ہے "
"اسما اور شاہزیب ہم لوگ آپ سے اپنے بیٹے آریان کے لیے امل بیٹی کو مانگتے ہیں "
سہیل صاحب نے مسکراتے ہوے کہا ۔
"اور ہم اپنے نکمے بیٹے کے لئے آپ لوگوں سے فلک کا ہاتھ مانگتے ہیں "
شاہزیب صاحب نے فرحان صاحب کے کندھوں پر بازو پھیلاتے ہوے کہا ۔اور لفظ "نکمے " پر دانیال کے ایکسپریشن نارمل ھی تھے کیوں کے بات سولہ آنے درست تھی ۔
اوہ مائی گاڈ ۔۔۔۔!!!!! ناولز میں بلکل ایسا ھی ہوتا ہے ۔۔ ہاو کیوٹ۔۔"
نور خوشی سے اچھلی تو سب اس کے بچگانہ انداز پر ہنس دیے ۔ ماں باپ کے لیے ان کی اولاد ھی کل سرمایا ہوتی ہے ۔اولاد کی خوشی ھی ماں باپ کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔سب بڑوں کی مشترکہ رائے کے مطابق ان کے نکاح ، صارم اور عالیہ کی مہندی والے دن طے پائے ۔ وہ چاروں اس قدر نارمل بیٹھے تھے کہ انھے دیکھ کر یہ کہنا مشکل تھا کہ ابھی انہی کی شادی کی بات ہوئی ہے کم از کم نور کے لیے تو یہ سب نیا ھی تھا کیوں کہ بقول ان کے "میرے ناول کی ہیروئن تو شرما کر کمرے میں بھاگ جاتی ہے "اب اسے کون سمجھائے کہ یہ امل اور فلک ہیں جن سے صرف اتنی سی امید کی جا سکتی ہے کہ وہ پل دو پل شرمائیں یا یوں کہنا بہتر ہے اداکاری کریں ۔
آریان کا فون بجا تو وہ معذرت کرتا اٹھا اور باہر کی جانب چل دیا ۔سکرین پر "فادی " کالنگ لکھا نظر آرہا تھا ۔ بالاآخر اس کی کال آہی گئی تھی پچھلے دس دنوں سے آریان کی اس سے بات نہیں ہو پائی تھی کیوں کہ فہد کا نمبر بند جا رہا تھا ۔
"السلام علیکم ۔۔۔"
سپیکر سے فہد کی ہشاش بشاش آواز آئی ۔
"وعلیکم السلام ۔۔!! کیسے ہو ؟؟"
آریان نے مسکراتے ہوے پوچھا ۔
"ایک دم فٹ تو سنا کیا ہو رہا ہے ؟؟"
"کچھ نہیں بس سب اکھٹھے ہوے بیٹھے ہیں پرسوں عالیہ آپی کی رسمیں شروع ہورہی ہیں تم ہماری طرف ھی آجاؤ ۔"
"اوہ یہ کہنے کی بات ہے کوئی کہو تو ابھی آجاؤں میں تو بیگ تیار کیے بیٹھا ھوں "
"آجاؤ ۔۔!!! بلکے میں لینے آتا ھوں "
"او بھائی میرے رک جا ۔۔۔آج نہیں ۔۔۔مایوں والے دن ھی آوں گا ۔تو یہ بتا یہ آج تیری آواز کچھ بدلی، بدلی سی کیوں ہے ؟تو بہت خوش لگ رہا ہے جیسے خزانہ ہاتھ لگا ہو ؟کہیں انکل وغیرہ نے تمہارا امل بھابھی کے ساتھ رشتہ تو طے نہیں کر دیا نا ؟؟"
لان میں شام اترنے لگی تھی ۔ سامنے کھلے خوبصورت گلاب کے دو پھول دیکھتے ہوے آریان سوچ رہا تھا سچے دوست کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے وہ چاہے دور بھی بیٹھے ھوں آپ کی آواز سن کر اندازہ بھی لگا لیں گے آیا آپ خوش ہیں یا نہیں ؟
"خزانہ نہیں ہے وہ ۔اسے پیسوں میں مت تولو ۔ یہ کہہ سکتے ہو کے مجھے میری کسی نیکی کا ثمر مل گیا ۔ اور سنو تمہارا اندازہ بلکل درست ہے عالیہ آپی اور صارم بھائی کی مہندی والے روز ھی میرا اور امل کا نکاح ہے ۔مجھے میری محبت محرم بن کر ملنے والی ہے فہد میں رب کا جس قدر شکر ادا کروں کم ہے "
آریان کرسی پر بیٹھتے ہوے بولا ۔
"کمینے۔۔!!! دوست کو بتانا گوارا نا کیا ۔ ٹھیک ہے میں کونسا تمہارا کچھ لگتا ھوں ؟"
فہد کی ناراض سی آواز سپیکر سے آئی تو آریان کھل کر ہنس دیا ۔
اس کے لیے چائے کا کپ لاتی امل اسے ہنستا دیکھ کر مسکرائی اگلے ھی لمحے اس کی مسکراہٹ سمٹی ۔
"ارے نہیں تم تو میری جان ہو "
آریان ہنستے ہوے بولا ۔
"اچھا ۔۔۔بس کر یہ کچھ زیادہ نہیں ہو گیا ۔جھوٹے ۔۔جان تو تمہاری بھابھی جی میں ہے ہماری اوقات ھی کیا ہے "
"نہیں میں سچ کہ رہا ھوں تمہارے بغیر میں مر جاؤں گا سچ میں "
(آریان بھی کسی سے محبت کرتا ہے ۔کئی بار اس نے مجھے بتایا ہے لڑکی کی عادتوں کے بارے میں بھی مگر مجھے نہیں پتا وہ کون ہے ۔
امل کو فلک کی بات یاد آئی ۔)
"اچھا بس بس ۔۔۔ویسے آج میرا دل کر رہا تھا پیزا کھانے کو کیا خیال ہے، چلیں ؟؟؟ دانی کو کہنا تمہاری سالی صاحبہ اور بھابھی کو بھی لے آئے اور تو آکر مجھے پک کر ڈرائیونگ کا کوئی موڈ نہیں سچ میں "
"اچھا میں بات کرتا ھوں ہاں ۔۔ہاں آتا ھوں صبر "
آریان نے مسکراتے ہوے کہا اور کال کاٹتے ہوے اٹھا اور اپنے پیچھے امل کو کھڑا پایا ۔
وہ ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے بت بنے کھڑی تھی ۔آریان نے گہرا سانس کھینچا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔وہ چلتی ہوئی کرسی تک گئی اور چائے کا کپ رکھتے ہوے بیٹھ گئی ۔
"امل ۔۔۔۔یہ لو "
آریان نے میز پر اپنا موبائل رکھا ۔(اب یہ مجھے خود بتا رہا ہے تاکہ میں انکار کر دوں )
۔امل نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھا لیا ۔ کانپتے ہاتھوں سے اس نے کال لاگ کھولا ۔سامنے ھی سکرین پر "فادی "لکھا جگمگا رہا تھا اور ساتھ میں کال ڈیٹیل بھی تھیں۔امل نے شرمندگی سے سر جھکا کر موبائل واپس میز پر رکھ دیا ۔
"امل پلیز یوں شرمندہ مت ہو میرا مقصد تمہے شرمندہ کرنا نہیں تھا بس تمہارا وہم دور کرنا تھا ۔اور مجھے تمہے یہ کہنا ہے امل کے آئندہ کبھی بھی میرے حوالے سے کچھ برا مت سوچنا ۔جب کبھی تمہے یہ جاننا ہو کے میں کس سے فون پر بات کر رہا ھوں تو پیچھے کھڑی مت رہا کرنا ۔سامنے آیا کرنا اور یوں ھی میرے سامنے بیٹھ کر جان لیا کرنا کہ میں کس سے بات کر رہا ہوں ۔ میں نہیں چاہتا تم میرے حوالے سے ایک لمحے کی بدگمانی کو بھی اپنے دل میں جگہ دو "
وہ نرم لہجے میں مسکراتے ہوے کہہ رہا تھا ۔
"ویسے چائے تو ٹھنڈی ہو چکی ہے "
امل ہونٹ سکوڑتے ہوے بولی ۔
"میرا دل کر رہا آج کہ میں ٹھنڈی چائے پیوں "
آریان نے کندھے اچکاتے ہوے کہا اور ایک سانس میں ھی ٹھنڈی چائے پی گیا ۔اگرچہ اسے پینا مشکل تھا مگر امل کا دل نا دکھے اور اس کےلیے وہ کچھ بھی کر سکتا تھا ۔یہ چائے کا ٹھنڈا کپ تو پھر معمولی سی چیز تھی ۔
"کیا اب مجھے اجازت ہے کہ میں اٹھوں کیوں کہ فہد نے پلان کیا ہے کہ ہم سب پیزا کھانے چلیں ۔"
"اوہ ضرور اور تھینک یو "
"ضرورت نہیں "
اس نے مسکرا کر نفی میں سر ہلایا اور امل کو اندر جانے کا اشارہ کیا امل مسکراتی ہوئی اندر کی طرف بڑھ گئی آریان بھی اس کے پیچھے اندر چلا آیا ۔امل اور فلک اب اکثر شلوار سوٹ پہننے لگی تھیں یا پھر لمبی شرٹ کے ساتھ جین پہن لیتیں تھی نور تو کرتا ، جین پہننے کی ھی شوقین تھی ۔ تھوڑی ھی دیر بعد وہ تینوں تیار ہو کر گاڑی کی طرف آئیں ۔آریان فہد کو پک کرنے کے لیے نکل چکا تھا دانیال نے بھی ان تینوں کو ساتھ لے کر ھی انھے جوائن کرنا تھا ۔بھئی مفت کی پیزا پارٹی کون کافر ٹھکرائے ؟؟؟

ماہی وے ✔Where stories live. Discover now