مجرم ،غم اور صبر

3.6K 167 52
                                    

ماہی وے بقلم مریم و علیشا
قسط #18
۔۔۔۔__۔۔۔۔۔
وہ دونوں خاموشی سے سر جھکائے ناشتہ کر رہے تھے ۔نا بینش کچھ بول رہی تھی اور نا ہی فہد کچھ بولا ۔ بلاآخر فہد نے چھپ توڑی ۔
"بینش تم ناشتہ ٹھیک سے نہیں کر رہی "
"میں لے رہی ھوں "
بینش نے توس اپنی پلیٹ میں رکھا ۔
" کل ۔ ۔۔"
وہ اسے وضاحت دینا چاہ رہا تھا ۔
" نیوٹیلا پاس کریے گا "
بینش نے اس کی بات کاٹی ۔فہد نے لب بھینچے ۔
"بینش میں تمہیں بعد میں بتانا چاہتا تھا "
وہ لفظ ترتیب دینے لگا ۔
"بھائی ۔۔۔"
اس نے فہد کے میز پر دھرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ۔چہرے پر ایک نرم سی مسکراہٹ تھی ۔
"مجھے یقین ہے آپ پر ۔۔۔آپ نے جو کیا اس کے بعد مجھے آپ پر فخر ہے۔ "
فہد نے بے یقینی سے اسے دیکھا ۔اسے لگا بینش ناراض ہے ۔بینش اس کی پریشان صورت دیکھ کر ہنس دی ۔
"ساری رات یہ سوچا ۔جو بخت قریشی نے کیا اور پھر جو آپ نے کیا ۔ میں یہ کہوں گی کہ اس نے اپنی اوقات دکھائی تو آپ نے اپنا فرض پورا کیا آپ نے دکھایا کہ ایک اچھی عورت نے آپ کی تربیت کی ہے ۔ جس شخص کو اس بات کا احساس نہیں کہ اس کی اپنی بیٹی ہے اور اس بات سے لاپروا ہو کر دوسروں کی بیٹیوں کی عزت سے کھیلے اس شخص کا انجام اس سے بھی برا ہونا چاہیے تھا ۔"
بینش نے فورا اپنی آواز کی نمی پر قابو پانے کے لیے پاس پڑا جوس کا گلاس منہ کو لگا لیا ۔ فہد نے گہری سانس کھینچی ۔پھر گردن کھرچی ۔
"بینش ؟"
"ہممممم ۔۔۔؟"
بینش نے اس کی طرف دیکھا اور ابرو اچکائی ۔
"تمہیں دکھ نہیں ہوا ۔۔میرا مطلب ہے کہ ۔ ۔ ۔ "
وہ رکا ۔
"وہ ہمارا باپ ہے "
"میں بس یہ جانتی ھوں کہ آپ ہی میری ماں اور آپ ہی میرے باپ ہیں ۔اس کے علاوہ میں کسی دوسرے شخص کو نہیں جانتی ۔"
فہد نے مسکراہٹ لبوں پر سجائے اسے دیکھا ۔ پھر کرسی دھکیلتے ہوے اٹھا ۔
"ادھر آو میرے بچے "
اس نے ہنستے ہوے نم آنکھوں سے بانہیں پھیلائیں ۔بینش مسکراتی آنسو پونجھتی اس کے گلے آلگی. سنان جو تھکاوٹ اتارنے اور فریش ہونے کے بعد باہر آیا تھا ایک دم سٹپٹایا ۔
"اوہ گاڈ ۔۔ "
اس نے چلا کر کہتے آنکھوں پر ہاتھ رکھا ۔
"سوری فادی۔۔۔سوری بھابھی ۔۔۔ آئی تھنک آئی ہیو ڈسٹرب یو ۔آئی ایم ہیر ایٹ رانگ ٹائم "
("معذرت فہد ۔معذرت بھابھی ۔۔۔مجھے لگتا ہے میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا ۔ میں یہاں غلط وقت پر آگیا ")
فہد بینش کو بازؤں کے حلقے میں لیے کھڑا تھا ۔ وہ دونوں حیران ہوے اور ایک دوسرے سے الگ ہوے ۔
"اوہ سنان ۔۔وہاٹ آ پلیزینٹ سپرائیز "
"(اوہ سنان کتنا خوش گوار سرپرائز ہے )"
فہد سنان سے بغل گیر ہوا ۔
"کب آئے ؟"
"کل شام "
سنان مسکراتے ہوے بولا ۔
" بینش مائی سسٹر "
اس نے بینش کی طرف اشارہ کیا ۔جس کے چہرے پر نرم مسکراہٹ سجی ہوئی تھی ۔
"اوہ شٹ "
سنان بری طرح خجل ہوا ۔
"سوری "
وہ شرمندہ تھا ۔
"اٹس اوکے "
بینش نے کندھے اچکائے ۔
"پاتا ناہی تھا می کو وارانہ ۔۔۔"
ابھی اس کا جملہ آدھا مکمل ہوا تھا کہ بینش کے منہ سے ہنسی کا فوارا پھوٹا ۔
"کایا ہوا ؟"
سنان نے ایک بار پھر اردو کی ٹانگیں توڑیں ۔
"افففف نتھنگ ۔آپ لوگ ناشتہ کریں میں چلتی ھوں "
بینش مسکراہٹ دباتی کمرے کی طرف چل دیا ۔ سنان نے ہلکا سا رخ موڑ کر اس کی پیٹھ کو گھورا ۔پھر کندھے اچکاتا فہد کے برابر میں ہی بیٹھ گیا ۔ اب وہ دونوں اپنی باتوں میں مصروف تھے ۔ سنان اسے کل کے حالات سے آگاہ کر رہا تھا ۔اور فہد اس کی گلابی اردو سننے پر مجبور تھا ۔فہد اسے بتا نہیں سکتا تھا کہ وہ اس طرح بولتا کتنا کیوٹ لگتا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔_____۔۔۔
اگست کا مہینہ ختم ہو چکا تھا ۔ امل ، فلک نور اور دانیال کا لاسٹ سمیسٹر بھی ختم ہو گیا تھا ۔ آجکل یونیورسٹی میں ان کے الوداعیہ کی تیاریاں چل رہی تھیں ۔ وہ چاروں بھی کئی ،کئی گھنٹے یونیورسٹی میں ہی گزار دیتے ۔ ادھر ادھر تانکا جھانکی ، کیفے ٹیریا میں بیٹھے رہنا ۔ہر جونیئر کی ٹانگ کھینچنا آجکل وہ یہی کام کرتے رہتے تھے ۔ان کے جونیئرز ان کو کچھ ڈیڈیکیٹ کرنا چاھتے تھے ۔لاکھ کوشش کے باوجود وہ یہ جاننے میں ناکام رہے ۔ جب بھی جاسوسی کرنے کی غرض سے جاتے بے چارے ناکام لوٹ آتے ۔ اس سال یونیورسٹی نے فیرویل کے ساتھ ، ساتھ الیومنائی کا بھی اہتمام کیا تھا ۔ آریان نے بھی آنا تھا یہ سوچ سوچ کر امل کے چھکے چھوٹ رہے تھے ۔ امل اور بینش جونیئرز کے ساتھ مل کر سجاوٹ کا کام بھی سمبھال رہی تھیں ۔ وہ سب ہی فیرویل کے لیے پرجوش تھے ۔ ویسے تو یونیورسٹی ختم ہو چکی تھی ۔مگر وہ کسی چیز کی جان بھلا آسانی سے کہاں چھوڑتے تھے ۔جو اب چھوڑ دیتے ۔ابھی پچھلے دنوں ہی آریان کی سالگرہ نا صرف منائی بلکہ اس کی جان تب تک نہیں چھوڑی جب تک وہ ان سے معافی مانگنے پر مجبور نہیں ہو گیا اس گناہ کی جو اس نے کیا بھی نہیں تھا ۔
۔۔۔۔______۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔____
امل ،نور کیفے ٹیریا میں بیٹھی تھیں ارد گرد ان کے کچھ کلاس فیلوز اپنی باتوں میں مگن تھے ۔ فلک گل خان سے گل رخ کی باتیں سن رہی تھی ۔اب بھی پہلے کی طرح شرماتا ہوا اسے ہر بات بتا رہا تھا ۔ گل رخ کے ساتھ اس کی شادی دو سال بعد ہو جانی تھی ۔ وہ اسے اپنے شرمیلے لہجے میں کچھ بتا رہا تھا ۔ فلک بیچ بیچ میں اس کا گال ایک ادھ بار کھینچتی تو وہ اسے گھور کر رہ جاتا ۔ دانیال اپنا پسندیدہ کام کر رہا تھا ۔ یعنی کہ انسٹاگرام پر فوڈ پیجز کھولے بیٹھا تھا ۔آدھی گیلری تو اس نے انہی تصویروں سے بھری پڑی تھی ۔ کہیں چیز ٹپکاتے برگر ، کہیں لارج سائز پیزے ،لزانیا کی تصویروں کی تو بھر مار تھی اور بھی بہت کچھ ۔۔ چیٹنگ کے دوران وہ اور فلک یہ تصویریں ایک دوسرے کو بھیج کر گھنٹوں پلان کرتے کے شادی کے بعد گھومنے جایا کریں گے تو فلاں ملک جا کر یہ کھائیں گے اور فلاں ملک جا کر یہ ۔ اور تو اور کی بورڈ کا کامن ایموجی بھی منہ سے پانی ٹپکاتا شودا تھا ۔ امل سے کچھ فاصلے پر بینش بیٹھی تھی ۔وہ سر جھکائے موبائل میں ٹائپنگ کرتی نظر آرہی تھی ۔ اس کی سنان سے خاصی دوستی ہو گئی تھی ۔ وہ اچھا انسان تھا ۔اور خاصہ ہنس مکھ بھی تھا ۔ آجکل وہ بینش سے اردو بولنا سیکھ رہا تھا ۔
بینش نے مسکراتے ہوئے میسج لکھا "
وہ اسے آج کا سبق دینے والی تھی ۔ابھی وہ اسے بنیادی چیزیں سکھا رہی تھی ۔
۔"دفع ہو "۔
سنان کا میسج پڑھ کر اس کی آنکھیں پھیلیں ۔
بینش غصے سےکان کی لو تک سرخ ہو گئی ۔
"بدتمیز ۔۔۔میں ان کی ہیلپ کر رہی ھوں اور یہ ؟"
اس کا اگلا میسج پڑھے بغیر اس نے فون بند کیا اور بیگ میں رکھا ۔پھر گردن موڑ کر اس نے اپنے پچھلے ٹیبل پر فلک سے کچھ فاصلے پر بیٹھے دانیال کو دیکھا ۔دل آج معمول کی رفتار سے دھڑک رہا تھا ۔ جذبوں میں یا دھڑکنوں میں اسے دیکھ کر کوئی طلاطم برپا نہیں ہوا تھا ۔ بلاآخر وہ اس ساحر کے سحر سے آزاد ہو گئی تھی ۔ دانیال شاہزیب بینش بخت کی وہ لاحاصل محبت تھا جس نے اسے حاصل کی قدر کرنا سکھائی ۔ وہ مدھم سا مسکرائی ۔ پھر نظروں کا زاویہ موڑ لیا اب اس کی منزل وہ نہیں تھا ۔دل کی حالت یہ تھی کہ نا اب اس سے محبت تھی نا نفرت ، اور نا ایسی کوئی کڑی جس کی آس پر وہ اسے یاد کرے ۔۔۔ وہ بس اسے سوچنا نہیں چاہتی تھی اور نا ہی اس سوچ کو دل تک رسائی دینا چاہتی تھی ۔ عشق مجازی اسے عشق حقیقی تک لے گیا تھا ۔کچھ محبتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں بس ان کا انداز بدل جاتا ہے ۔محبتیں دل میں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں ۔ وہ کبھی دم نہیں توڑتیں ، وہ ہمیشہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں ۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ محبت کو ترستا رہتا ہے ۔محبت کرنے کا ظرف سب میں ہوتا ہے مگر اسے نبھانے کا ظرف ۔۔۔! وہ کسی ،کسی میں ہوتا ہے ۔
دفتعاً موبائل چلاتے دانیال کے سامنے کوئی آرکا ۔ دانیال نے سر اٹھایا اس کے سامنے مسکراتا ہوا احمر کھڑا تھا ۔ چشمے کی جگہ لینز لے چکے تھے اور سیدھی مانگ کی جگہ سٹائلش سا ہیر کٹ لے چکا تھا ۔سیدھے سادھے ٹراوزر اور چیک والی شرٹ کی جگہ،اب جگہ ،جگہ سے پھٹی سٹائلش سی جینز اور شرٹ لے چکی تھی ۔ دانیال ایک انداز سے مسکرایا ۔
"ھے ۔۔۔دوست کیسے ہو ؟"
دانیال خوش دلی سے بولا ۔ فلک بھی بظاہر ان کی طرف متوجہ تھی مگر سن گل خان کو ہی رہی تھی ۔ اس سے دانیال کا احمر کو اتنا مسکرا مسکرا کر دیکھنا ہضم نہیں ہو رہا تھا ۔ احمر کا نیا لک تو بمشکل وہ ہضم کر سکی ۔ وہ پچھلے دو ماہ سے ایسا ہی ہو گیا تھا ۔ کافی بدل گیا تھا ۔اب کہیں سے شریف تو نہیں رہا تھا ۔خیر بدماش بھی نہیں ہوا تھا ۔ جو ان دو ماہ میں اچھا ہوا تھا وہ یہ تھا کہ اب وہ فلک سے بات نہیں کرتا تھا ۔ مگر اب جیسے اسے کچھ کچھ سمجھ آرہا تھا ۔کہیں نا کہیں دانیال اس سب میں ملوث تھا ۔
"میں ٹھیک آپ سنائیں ؟"
احمر چیر گھسیٹ کر وہیں بیٹھ گیا ۔
"میں بھی ٹھیک ۔۔۔!! آج مل گئی فرصت ؟"
دانیال شریر لہجے میں بولا ۔ آج کل احمر یونیورسٹی کی آدھی لڑکیوں کا کرش بنا ہوا تھا ۔اور وہ بھی کون سا باز آرہا تھا ۔ابھی تو جا کر موقع ملا تھا ۔ہر دوسری ،لڑکی سے اس کا افیر چل رہا تھا ۔ یہ گرومنگ بھی دانیال کی ہی مرہون منت تھی ۔ بدلے میں فلک کا پیچھا چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا ۔
"کہاں یار ۔۔۔ابھی علینا جی کو لائبریری چھوڑ کر آیا ھوں ۔ اس سے جان چھڑوانا خاصہ مشکل ہے ۔"
وہ ہنستے ہوے بولا ۔
"اور جویریہ ؟"
دانیال نے ابرو اچکائی ۔وہ جانتا تھا احمر صرف جویریہ کے ساتھ سیریس ہے کیوں کہ جویریہ کو پرپوز بھی احمر نے خود ہی کیا تھا ۔
"وہ کلاس لے رہی ہے "
جویریہ ان کی جونیئر تھی ۔
"اور باقی ؟"
"عروج جی دو ٹیبل چھوڑ کر بیٹھی ہے ابھی اس کی نظر یہاں نہیں پڑی ۔ شیزا جی اس سے تین ٹیبل چھوڑ کر بیٹھی ہے اور زارا جی کا کچھ پتا نہیں "
دانیال نے سر گھمایا ۔سامنے سے زارا چلی آرہی تھی ۔ زارا کا افیر ہر لڑکے سے چلتا تو یہ کہنا غلط نہیں تھا ۔ وہ یونیورسٹی میں اسی لیے مشھور تھی ۔
"زارا کیسی لگتی ہے تمہے ؟ مطلب تم سیریس ہو اسے لے کر ؟"
دانیال نے جان بوجھ کر اس سے پوچھا ۔بیچارہ شکار برا پھنسا تھا ۔
"اب آپ سے کیا چھپانا یار ۔۔۔لڑکی تو مجھے خاندانی چاہیے ۔ جویریہ کو لے کر میں سیریس ہوں اور تو اور ہمارے پیرنٹس کی آپس میں بات بھی ہو چکی ہے ۔یہ سب تو میرے ساتھ ٹائم پاس کر رہی ہیں ۔میں انھے کیسے روکوں زبردستی گلے پڑی ہیں ۔؟ یو کنو ۔۔۔اور رہی بات زارا جی کی ۔۔اس کا افیر ہر لڑکے سے چلتا ہے ۔میں بھی اس کے ٹائم پاس میں کوئی دو ہفتوں کی مدت کے لیے ہوں گا ۔ اور شیزا جی ،عروج جی ،علینا جی مختلف ہیں مگر یوں اپنے جذبات کا اظہار کر کے انہوں نے خود کو میری نظروں میں بے مول کر لیا ہے "
وہ طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے بتا رہا تھا ۔بینش کو بھی اس کا ہر لفظ سن رہا تھا چونکہ وہ زیادہ دور نہیں بیٹھی تھی ۔ فلک بھی ورطہ حیرت تھی لیکن خاموش تھی ۔
"واہ زارا بھابھی آپ ۔۔۔؟؟ احمر آپ کی ہی بات کر رہا تھا ۔آئیے نا "
دانیال کی آواز اتنی اونچی ضرور تھی کہ زارا کے ساتھ ،ساتھ باقی سب بھی متوجہ ہوے ۔
"یہ ضرور کچھ کرے گا ۔"
گروپس آپس میں بولتے تماشا دیکھنے لگے ۔کیوں کہ دانیال نے اعلان ہی تو کیا تھا ۔جس کا مطلب تھا ۔حاضرین محفل ہوشیار ۔ ۔ ۔۔۔!!!
"واو ۔۔۔احمر۔۔تم میری باتیں کرتے رہتے ہو ۔۔۔کیا کہہ رہا تھا احمر ؟"
وہ احمر کے پاس آکھڑی ہوئی اس کے گال کھینچے اور دانیال سے پوچھا ۔
"کہہ رہا تھا چکر چلاوں گا تو بس زارا سے باقی سب بھاڑ میں جائیں ۔۔"
عروج کو سب سے پہلے ہوش آیا وہ انہی کی طرف چلی آئی ۔
"دوبارہ بولنا ؟"
احمر اور زارا کو ایک نظر دیکھنے کے بعد وہ دانیال کی طرف مڑی ۔
"عروج بھابھی آپ ؟ آئیں ۔۔احمر آپ کا بھی بہت ذکر کرتا ہے "
دانیال معصومیت سے بولا ۔احمر کی طرف دیکھنے کی غلطی وہ نہیں کر رہا تھا جانتا تھا کہ احمر اس کی طرف التجایہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ زارا کبھی احمر کو دیکھتی تو کبھی عروج کو ۔
"کہتا ہے کہ پرپوز کروں گا تو بس عروج کو "
سارے سٹوڈنٹس اب ان کی طرف متوجہ تھے ۔یہ کھیل تو بہت مزے کا تھا ۔امل ،نور اور فلک مسکراہٹ دبائے کھڑی تھیں جانتی تھیں کہ اب کیا ہونے والا ہے ۔بینش ابھی سب سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی ۔احمر کا چہرہ پل پل سرخ ہوتا جا رہا تھا ۔
"واٹ؟؟"
شیزا اپنا بیگ وہیں ٹیبل پر پھینکتی چلی آئی ۔
"آرے شیزا بھابھی ؟؟؟؟ آپ کا مقام تو بہت ہے ۔۔احمر کہتا ہے منگنی کروں گا تو بس شیزا سے اس کے۔ سوا کسی سے نہیں ۔"
دانیال سکون سے بولا ۔شیزا نے گردن اکڑائی ۔ منگنی تو یہ اسی سے کرے گا ۔پھر ایک جلانے والی نظر زارا اور عروج کے دھواں ،دھواں چہرے پر ڈالی ۔
"اور یہ نکاح کس سے کرے گا ؟"
لڑکوں کی ٹولی میں سے ایک لڑکا ہنستے ہوے پوچھنے لگا ۔
وہ تو جویریہ بھابھی ہیں ۔۔ان کی کلاس چل رہی ہے "
"کیا ؟"
شیزا ،عروج اور زارا کے منہ ایک ساتھ کھلے ۔ تبھی کیفے ٹیریا میں علینا داخل ہوئی ۔اسے نہیں معلوم تھا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے ۔وہ تو ایک بک ایشو کروانے کے بعد یہاں آرہی تھی ۔ وہ یہاں وہاں دیکھنے کے بعد احمر کی طرف چلی آئی ۔جس کی دونوں طرف زارا ،عروج اور شیزا کھڑی تھیں وہ کبھی گھور کر احمر کو دیکھتیں تو کبھی ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتیں ۔علینا نے کندھے اچکائے ۔
"بیبی ہم شاپنگ پر چلیں ؟"
وہ احمر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوے بولی ۔احمر نے تھوک نگلی اور اس کی طرف دیکھا ۔ سب نے قہقہوں کا بمشکل گلا گھونٹا ۔
"یہ آگئیں ۔۔علینا بھابھی ۔احمر کے دل کی دھڑکن ۔ اور فیوچر وائف ۔کہتا ہے شادی کروں گا تو بس علینا سے کروں گا"
" واو ۔۔۔بیبی تم نے مجھے پہلے نہیں بتایا ؟"
علینا فدا ہونے والے انداز میں بولی ۔
"مجھے بھی آج ہی پتا چلا ہے "
وہ بمشکل بولا ۔ اور دانیال کو دیکھا جو اسی کو دیکھ رہا تھا اس کے دیکھنے پر دانیال نے آنکھ دبائی ۔
"کمینہ "
احمر بے آواز بولا ۔
"احمر ؟"
وہ چاروں اس کی ارد گرد کھڑی تھیں ۔ شیزا علینا کو سب بتا چکی تھی ۔
"دیکھو زارا جی تمہاری جگہ عروج جی نے ،عروج جی تمہاری جگہ شیزا جی نے ،اور شیزا جی کی جگہ علینا جی نے لی ہے ۔میرا کیا قصور "
احمر معصومیت سے بولا ۔
وہ سب ایک دوسرے کو شعلہ باز نظروں گھورنے لگیں اور پھر کیفے ٹیریا اکھاڑا بن گیا ۔ عروج بری طرح شیزا کے بال کھینچ رہی تھی ،شیزا اپنے لمبے ناخن کا بھر پور مظاہرہ دکھا رہی تھی ۔وہیں عروج کے بال علینا کے ہاتھوں میں تھے شیزا علینا پر مکے برسا رہی تھی ۔ وہ بری طرح ایک دوسرے سے گتھم گھتا ہو رہی تھیں ۔زارا تو جنگ کے آغاز پر ہی اچھل کر احمر کے پیچھے آچھپی تھی ۔کچھ دیر بعد جب انتظامیہ نے انھیں علیحدہ کیا تو ان کے حلیے دیکھنے والے تھے ۔شیزا کے خوبصورت ناخن اپنی اصلیت کھو چکے تھے ان کی جگہ اب ماس تک کھائے ہوے اندر دھنسے ناخن تھے ۔ لڑائی میں عروج کا سارا میک اپ اتر چکا تھا اور اب وہ بھی اپنی اصلی شکل کے ساتھ سامنے کھڑی تھی ۔
"لکھوا لو یہ ہر روز پندرہ کلو بیس لگا کر آتی تھی "
دانیال نے فلک کی طرف جھک کر سرگوشی کی ۔
"چپ کرو "
فلک نے اس کے پیٹ میں کہنی ماری ۔
علینا تو صدمے کی حالت میں کھڑی تھی اس کی دونوں ہیلز ٹوٹ چکی تھیں اب وہ کہیں سے بھی ہائیٹیڈ علینا نہیں لگ رہی تھی بلکہ میٹرک کی سٹوڈنٹ لگ رہی تھی ۔ وہ تینوں زارا کی طرف آئیں ۔
"دیکھو پلیز بال مت کھینچنا بہت مشکل سے بڑھائے ہیں ۔"
زارا نے ہاتھ اٹھا کر ان تینوں کو خبر دار کیا ۔
"احمر اسے روکو "
احمر نے ایک نظر ان تینوں کو دیکھا پھر مڑا ۔اسے مڑتا دیکھ کر زارا نے آنکھیں میچ کرپیچھے ہٹنا چاہا ۔ صرف ایک منٹ کی خاموشی چھائی تھی زارا نے اپنی بند آنکھیں کھولیں اور احمر کی حیرت سے کھلی آنکھیں دیکھیں ۔ دوسری نظر اس کی اپنی وگ پر گئی ۔جو احمر اس کے بیگ کی جگہ کھینچ چکا تھا ۔ وہ تو پہچانی ہی نہیں جا رہی تھی ۔ جن لمبے بالوں کے لیے وہ مشہور تھی وہ وگ تو صدماتی حالت میں کھڑے احمر کے ہاتھوں میں تھی اور زارا کے سر پر تو چھایا بھی نا تھی ۔
" باقی سب ایک طرف زارا بہن کا افسوس مجھے بہت ہوا تھا "
واپسی میں دانیال نے گاڑی چلاتے ہوے کہا تو سب ہنس دیں ۔
۔۔۔۔۔___۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔___۔۔۔
بینش آج سنان پر خاصی تپی ہوئی تھی ۔ مگر یونیورسٹی میں دانیال کی ، کی گئی حرکت سے اس کا موڈ ٹھیک ہو گیا تھا ۔ آج وہ ڈرائیور کے ساتھ آئی تھی ۔وہ باقاعدہ طور پر "فہد ولا " شفٹ ہو چکی تھی ۔ "بخت ولا " فروخت کر دیا گیا تھا ۔ وہ یونیورسٹی سے باہر آئی اور گرد ن گھما کر ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔ سامنے ہی اسے گاڑی نظر آگئی ۔تیز ، تیز قدم اٹھاتی وہ گاڑی تک آئی ۔ مگر ڈرائیور کی جگہ سنان کو گاڑی سے نکالتا دیکھ کر حیران ہوئی ۔
"آپ ؟"
وہ یک لفظ بولی ۔
"جی ۔ بیٹھیں "
اس نے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولا اور بینش کو اشارہ کیا ،تھوڑی بہت اردو وہ بولنا سیکھ چکا تھا ۔پاکستان آئے اسے دس دن ہو چکے تھے اور روز وہ کچھ نا کچھ سیکھتا رہتا کچھ بینش سے اور کچھ انٹرنیٹ سے ۔اکسینٹ کا مسلہ تھا لیکن وہ کیوٹ لگتا تھا ۔ بزنس اس کی والدہ سمبھال رہی تھیں مگر آن لائن سب کچھ وہ خود دیکھتا تھا ۔بینش منہ پھلائے فرنٹ سیٹ پر آبیٹھی ۔
"کیا ہوا ؟"
سنان نے اس کے ناراض چہرے کو دیکھا ۔
"نتھنگ "
بینش نے کندھے اچکائے ۔ سنان نے غور سے اس کے چہرے کو دیکھا ۔ وہ ناراض نظر آرہی تھی ۔
"آپ نے میسج نہیں پڑھے ؟"
وہ ششہ انگریزی میں بات کر رہا تھا ۔
"آپ کو تمیز نہیں ہے "
وہ بھی اسی کی زبان میں بولی ۔
"پر میں نے کیا کیا ؟"
اس نے حیرانی سے پوچھا اور بریک لگایا کیوں کہ ٹریفک سگنل پر لال بتی جل رہی تھی ۔
"کیا نہیں کیا ۔۔۔یہ پوچھیں "
وہ ناک سکوڑتی بولی ۔سنان نے حیرت سے اس کے انداز کو دیکھا ۔
"پر میں نے کیا کہا آپکو ؟"
وہ حیران تھا ۔بہت زیادہ حیران ۔
"دفع ہو ۔۔کیا آپ نے مجھے دفع ہو نہیں کہا ؟"
بینش نے اسے گھورا ۔
"جی کہا ہے ۔پر یہ کوئی بری بات ہے کیا ؟"
اس نے معصومیت سے پوچھا ۔بینش اس کے انداز پر عش عش کر اٹھی ۔
"جی ہاں آپ نے مجھے یہ کہا کہ جاؤ کہیں مجھے فرق نہیں پڑتا اور وہ بھی برے انداز میں ۔۔یہ تب کہتے ہیں جب آپ کو غصہ ہو اور کسی کو اپنے سامنے سے بھیجنا ہو "
بینش کو اپنی بےوقوفی پر تاو آیا ۔ وہ بیچارہ کون سا کچھ جانتا تھا ؟ کہیں نا کہیں اس نے یہ لفظ سنا ہو گا ۔
"اوہ آئی ایم سوری ۔۔۔مجھے لگا آپ خوش ھوں گی کہ میں نے مزید کچھ سیکھا ۔"
وہ شرمندگی سے بولا ۔پھر گاڑی ایک جوس شاپ کے باہر روکی ۔
"کہاں ؟"
"جوس لیں گی آپ ؟"
اس نے مسکراہٹ چہرے پر سجائے پوچھا ۔بینش کو بھی پیاس لگ رہی تھی اس نے جھٹ سر ہلایا ۔ وہ سر ہلاتا گاڑی سے نکلا اور پانچ منٹ بعد وہ بینش کو شاپ سے باہر آتا نظر آیا ۔اس کے ہاتھ میں جوس کا گلاس تھا ۔
"یہ لیں "
اس نے بینش کی طرف گلاس بڑھایا ۔
"اور آپ کا ؟"
"نہیں میں آنے سے پہلے کافی پی پر آیا ھوں "
اس نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوے سادگی سے کہا ۔بینش جوس پیتے ہوے گاہے بگاہے اسے دیکھ رہی تھی جو سنجیدگی سے گاڑی چلا رہا تھا ۔
"ویسے آپ نے یہ سنا کس کے منہ سے تھا ۔؟"
بینش نے کچھ دیر پہلے کا ماحول زائل کرنا چاہا ۔ گاڑی سڑک پر رواں دواں تھی ۔
"میں لان میں بیٹھا تھا جب آپ کی ملازمہ مالی سے کوئی بات کرنے لان میں آئیں تو مالی نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کچھ کہا جس پر اس ملازمہ نے مسکرا کر یہ کہا تھا ۔مجھے لگا اتنا مسکرا رہیں ہیں اچھی بات ہو گی اس لیے بول دیا "
اس کی بات سن کر جوس پیتی بینش کو اچھوکا لگا ۔ سنان نے ٹشو باکس سے ٹشو نکال کر اس کی جانب بڑھائے ۔
"یو اوکے ؟"
وہ پریشانی سے اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا ۔
"جی "
سنان نے سر ہلایا اور گاڑی دوبارہ سٹارٹ کی ۔
۔۔۔۔____۔۔۔۔___۔۔۔۔۔__
آج سورج بادلوں کو مات دینے میں کامیاب ہوگیا لیکن آج ٹھنڈی ہوائیں بھی ادھر ادھر گھومتی سورج کو چڑا رہی تھیں ۔ سورج پھر سے ناراض ہوتا بادلوں میں جا چھپا ۔ سارا دن یہ کھیل چلتا رہا ۔ اس دن کی رات جب "آفندی مینشن " پر اتری تو وہاں قسمت ان سب کے درمیان بیٹھی نازاں تھی ۔ محبت فتح یاب ہو کر مسکرا رہی تھی ۔
آریان ڈیوٹی سے لوٹنے کے بعد اپنے کمرے میں تھا ۔ امل ، نور اور گھر کی بڑی عورتیں کچن میں کھڑی تھیں ۔ امل کوکنگ رینج کے پاس کھڑی بریانی کو دم دے رہی تھی ۔نور سٹول پر بیٹھی کسٹرڈ سجا رہی تھی ۔ اسما بیگم اور عائشہ بیگم مل کر ٹیبل لگا رہی تھیں اور ارفع بیگم نان بنا رہی تھیں ۔ قورمہ اسما بیگم بنا چکی تھیں ۔ عالیہ سلاد بنانے میں مصروف تھی ۔ لاؤنج میں دانیال فلور کشن پر صائم کو لیے بیٹھا تھا ۔ صائم اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے دانیال کے منہ پر تھپڑ برسا رہا تھا ۔
"شاباش اور زور سے میرے چیتے ۔ایک میری طرف سے بھی لگا دو "
کف فولڈ کرتا سیڑھیاں اترتا آریان صائم کو مشورا دیتے ہوے بولا ۔دانیال نے گھور کر آریان کو دیکھا ۔ لیکن زیادہ دیر نا گھور سکا کیوں کہ بھانجے نے ماموں کی بات کو بہت غور سے نا صرف سمجھا تھا بلکہ اس پر عمل بھی کیا تھا ۔دانیال نے صدمے سے منہ کھولے صائم کو دیکھا جو اپنی کارکردگی کے بعد اپنے ماموں کی طرف فتح یاب نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔آریان کے ہنسنے پر تالی مارتے وہ بھی ہنس دیا اور دانیال کو معصومیت سے دیکھنے لگا ‎"دھوکے باز ۔۔۔۔میری محبت کا یہ صلہ ؟؟؟ یہ ؟؟؟ کان کھول کر سن لے یہ تیرا ماموں جب یہاں نہیں تھا تب میں تھا ،میں تھا وہ شخص وہ عظیم انسان جس نے تیرے ڈائیپر بھی بدلے ۔اور تجھے فیڈر بھی پلایا ۔ تجھے اتنے کھلونے لے کر دیے اور دن رات ایک کر کے تیری خدمت کی ۔مگر تو نے میرے رتجگوں کا مجھے یہ صلہ دیا ؟ یہ ؟"""'
صدمے کے مارے اس کی آواز اونچی ہوتی گئی وہ خاصہ ایموشنل ہو گیا تھا ۔آریان نے مسکراہٹ دبائی ۔
"بس کر خاموش ہو جا "
آریان نے اسے آنکھیں دکھائیں ۔
"تجھے حکم دینے کی بڑی بری عادت پڑھ گئی ہے "مگر یاد رکھ تیرے سامنے اب میں یعنی دانیال ھوں جو کسی کو بھی ناک و چنے چبوا دے ۔ مجھے اپنے سامنے جی حضوری کرنے والا کانسٹیبل نا سمجھ ۔ داد دیتا ھوں فہد کو جس نے تیری چاکری قبول کر لی۔ نا جانے کیسے رہتا ہو گا ۔ "
دانیال نے آنکھیں گھماتے ہوے کہا ۔
"ابھی میں صرف ایک بات کروں گا اور تیری جی حضوری دیکھنے والی ہو گی "
آریان کہاں چپ رہتا ۔
"بول ۔۔ہمت ہے تو بول ؟"
دانیال نے بازو ٹانگے ۔
"میں اپنی بہن کی شادی تجھ جیسے لنگور سے نہیں ہونے دوں گا "
آریان نے آنکھ دبائی ۔اور صائم کو اپنی گود میں اٹھایا ۔جو ان کی چک چک سے تنگ آکر سو چکا تھا آریان نے اسے پاس پڑے کاٹ میں آرام سے لٹا دیا ۔۔دانیال نے جس رفتار کا عملی مظاہرہ کرتے ہوے بازو اوپر چڑھائے تھے اس سے دگنی رفتار کا مظاہرہ کرتے ہوے انھیں نیچے کیا اور لپک کر آریان کے پاس بیٹھا ۔
"یہ ظلم نا کرنا ۔ میرا منہ کو دیکھ کیا اسے دیکھ کر تجھے مجھ پر ترس نہیں آتا ؟"
"نہیں ۔۔ہاں الٹی ضرور آتی ہے "
آریان بے نیازی سے بولا ۔دانیال نے دانت پیسے ۔
"تو سیریس ہے ؟"
اس نے شکی انداز میں اسے گھورتے ہوے پوچھا ۔
"ایک سو ایک فیصد "
وہ سنجیدگی سے بولا ۔
"ہاہاہا کیا کرے گا ۔نکاح تو ہوا ہے نا "
دانیال نے اسے زبان چڑائی ۔
"رخصتی تو ہونا ہے نا ابھی ۔ہم وہ نا کروایں تو تمہاری مجال جو ہماری لڑکی اڑاو "
آریان نے تپانے والی مسکراہٹ چہرے پر سجائی ۔
"تو تجھے کیا لگتا ہے میں اپنی بہن پھر تجھے دوں گا "
"تجھے لگتا ہے مجھے تیری اجازت کی ضرورت ہے ؟"
آریان نے ابرو اچکائی ۔
"اچھا ۔۔۔۔میں ذرا امل کو ایک بات بتا آوں ۔"
دانیال اٹھتے ہوے بولا ۔آریان کو خطرے کی گھنٹیاں بجتی محسوس ہوئیں ۔
"کیا ؟"
"کچھ نہیں بس وہ کل تمہارے فون پر کسی زینب کی کال آرہی تھی ۔میں نے ان سے بات کی مجھے بہت اچھا لگا ۔بس یہی بتانے جا رہا ھوں امل کو بھی ۔کہ وہ زینب آپی سے بات کرے اسے تو بہت زیادہ اچھا لگے گا "
وہ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتا ہوا بولا ۔ آریان ایک جھٹکے سے اٹھا ۔
""میرے پیارے بھائی ۔۔۔بولو تو رخصتی کی بات چلاؤں ؟"
آریان اس کا ہاتھ پکڑتے ہوے بولا ۔
"ہممممم جو تمہے بہتر لگے "
دانیال صوفے پر خاصہ پھیل کر بیٹھا ۔اور گردن اکڑائی ۔
"کمینہ "
آریان زیرلب بڑبڑایا ۔زینب وکیل تھیں اور ایک کیس کے سلسلے میں ان کا نمبر آریان کو لینا پڑا ۔ یہ بات امل تک پہنچتی تو مسلہ بن جانا تھا جو کہ آریان نہیں چاہتا تھا ۔پھر آریان لاکھ اسے سمجھاتا وہ کہاں مانتی ۔ اور تو اور زینب صاحبہ تیس سال کی تھیں ۔ مگر دانیال کا کیا بھروسہ امل کو بتاے تو ساتھ میں فرضی طور پر یہ کہہ دے کہ وہ(زینب ) بیس سال کی ہے ۔ دانیال سے کسی بھی بات کی توقع کی جا سکتی تھی ۔
"رخصتی کی تاریخ کب کی رکھواوں ؟"
آریان اس کے برابر میں بیٹھا ۔
"ایک ماہ بعد کی ٹھیک رہے گی ؟"
یہ جواب پیچھے سے آیا تھا ۔ان دونوں کی پشت داخلی دروازے کی طرف تھی ۔دونوں جھٹکے سے اٹھے اور مڑے ۔
"آپ ۔۔وہ ہم ۔۔۔"
دانیال بوکھلایا ۔پیچھے فرحان صاحب ہاتھ باندھے کھڑے تھے ۔
"کیا ہوا ؟"
تبھی شاہزیب صاحب ،سہیل صاحب کے ہمراہ چلے آئے ۔وہ تینوں لان میں بیٹھے تھے ۔
"تفصیل سے بات ہو گی مگر ابھی نہیں کھانے کے بعد ۔ "
فرحان صاحب نے بات سمیٹی اور ایک نظر ان دونوں کو دیکھا جو شرمندہ کھڑے تھے ۔کھانا تیار تھا اور بلاوہ بھی آچکا تھا ۔اس لیے وہ کھانے کے میز کی طرف چل دیے ۔پیچھے وہ دونوں بھی سر جھکائے چلتے آرہے تھے ۔
"نجانے وہ کیا سوچیں گے "
یہ خیال خاصہ شرمندہ کر رہا تھا ۔
۔۔..._____.......______.....
اور پھر سب گھر والوں کے باہمی مشاورت سے تین ماہ بعد کی تاریخ طے کی گئی ۔ امل ،فلک کمرے میں بیٹھی تھیں اور نور انھیں ہر اپ ڈیٹ سے آگاہ کر رہی تھی جناب دو منٹ بعد جا کر چائے کا پوچھتی رہتیں اور اب کی بار تو بری طرح ڈانٹ کر نکالی گئی تھی ۔آریان تو
سکون سے اپنے کمرے میں بیٹھا تھا مگر دانیال کی بے چین روح کو سکون نہیں مل رہا تھا ۔ آریان کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی وہ لاؤنج کے پچھلی جانب کھلنے والے دروازے کے ساتھ کان ٹکائے کھڑا تھا ۔ اندر ان چاروں کے سوا سب موجود تھے ۔نور تو اب بےعزتی کے بعد نکالی گئی تھی ۔ دانیال کو کچھ خاص سمجھ نہیں آرہی تھی اسے بس تین ماہ ،تین ماہ سمجھ آرہی تھی ۔ زیادہ اچھی طرح سننے کے لیے اس نے کان مزید دروازے سے لگاے اور بلکل چپک کر کھڑا ہو گیا ۔ دوسری طرف کمرے میں سب بیٹھے ایک دوسرے کو تاریخ طے ہونے پر مبارک باد دے رہے تھے ۔ صارم نے یونہی نظریں گھما کر باہر کی جانب کھلتے دروازے کی طرف دیکھا ۔ اسے سائیڈ پر لگی کھڑکھی میں دانیال کھڑا صاف نظر آرہا تھا ۔ صارم نے مسکراہٹ دبائی اور کھڑا ہوا ۔۔
"میں مٹھائی لے آؤں "
کہتے ہی وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا دروازے کی۔ طرف چلا آیا ۔ ۔ ایک جھٹکے سے اس نے دروازہ کھولا ۔دانیال سیدھا کچھ فاصلے پر بیٹھے فرحان صاحب کے قدموں میں آگرا ۔ پھر شرٹ جھاڑتا اٹھا ۔سب اسی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ وہ سیٹی پر دھن بجاتا اسی دروازے کی طرف آیا جسے بند کرنے کے بعد صارم اب اس کے سامنے بازو باندھے کھڑا تھا ۔
"ہاہا ۔۔ہی ۔ہی ۔۔وہ میں دروازہ دیکھ رہا تھا ۔اچھی کوالٹی کا ہے ۔ آوازیں تو بلکل آرپار نہیں جاتیں "
وہ دروازے کو ستائیشی انداز میں دیکھتے ہوے بولا ۔
"یہ سیلینگ پر پنکھا کب آیا ؟"
وہ بونگیاں مار رہا تھا سب جانتے تھے ۔وہ ان کا دھیان بٹانا چاہ رہا تھا ۔
"بیٹا جی یہ تو پچھلے بیس سال سے یہیں ہیں آپ کب سے یہاں ہیں ؟"
"میں الحمدلللہ ساڑھے بائیس سال پہلے قیام میں آیا ھوں "
وہ کالر سیٹ کرتے ہوے بولا ۔
"ادھر دیکھیں۔۔۔وہ لوگ بھی ادھر ہی کھڑے ہیں "
سب نے اس جانب گردن موڑی جہاں دانیال نے اشارہ کیا تھا اور دانیال موقع غنیمت جان کر بھاگ چکا تھا ۔سب ہاتھ مسلتے رہ گئے ۔
۔...___....._____۔۔۔۔۔____
بلاآخر وہ دن بھی آگیا جب انھیں یونیورسٹی کو ہمیشہ کے لئے خیر آباد کہنا تھا کل تک اس گیٹ سے داخل ہوتے تو اپنی موجوں میں مگن رہتے ،قہقہے لگاتے داخل ہوتے مگر آج جب تقریب کے آخر میں اسی گیٹ سے باہر نکلنا تھا تو پھر واپس اندر آنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہنی تھی ۔ہوسکتا ہے آپ یونیورسٹی دیکھنے آئیں مگر پھر کبھی بھی وہ موج ،وہ بے فکرے قہقہے نہیں لگا پائیں گے کیوں کہ وہاں سے نکلنے کے بعد آپ کو زندگی نے اپنے عملی پروں میں سمیٹ لینا تھا اور ان پروں کے ساتھ اونچی سے اونچی اڑان بھرنے کے دوران زندگی اکثر آپ کا بے فکرا پن ،آپ کا قہقہے چھین لیتی ہے ۔ زندگی کا ہر لمحہ آپ کو ایک بار ہی ملے گا اس لمحے کو امر کرنا یہ آپ پر منحصر ہے ۔ہر لمحہ ،ہر سیکنڈ جینا زندگی کا نام ہے کسی سے گھبرا کر یا خوف کھا کر رک جانا یہ جمود ہو جانے کا نام ہے ۔۔اسے زندگی نہیں کہتے ۔زندگی تو زندہ دلی کا نام ہے ۔ اور انسان زندہ دل ہو تو وہ ہر لذت کو محسوس کرنے کے قابل ہے ۔ مختصر یہ کہ زندگی کسی ایک لمبے عرصے کا نام نہیں جسے ایک انسان گزارتا ہے زندگی تو ہر لمحے کو جینے کا نام ہے ۔
۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔۔
شاہزیب صاحب اور اسما بیگم ایک دعوت پر گئے تھے ۔دانیال باہر لاؤنج میں تیار بیٹھا بار ،بار گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ تقریب پانچ بجے شروع ہو جانا تھی اور لڑکیوں کی تیاریاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں ۔ وہ خود تیار ،شیار خشبویں بکھیر رہا تھا ۔ بلیک ٹیکسیڈو پہنے بالوں کا ایک طرف پف بناے وہ اپنے کھڑے نقوش کے ساتھ بہت خوبرو لگ رہا تھا اس پر تضاد اس کے ڈمپل اورسیاہ آنکھوں میں چمکتی شرارت ۔ دوسری طرف آریان اور فہد ابھی ڈیوٹی سے ہاف لیو پر آے تھے وہ دونوں تیار ہو رہے تھے ۔ دانیال بے زاری سے ادھر ادھر چکر کاٹ رہا تھا ۔
"یا اللّہ ۔۔تاریخ گواہ ہے عورتیں بڑے سے بڑے فساد کی جڑ بنی ہیں ۔ کوئی جنگ ہو تو انہی کے لیے ہوتی تھی کوئی بحث وہ بھی انہی کے لیے ۔ ۔ اور کو ۔۔۔۔۔۔"
سامنے سے فلک سیڑھیاں اترتی آرہی تھی ۔دانیال کے الفاظ منہ میں رہ گئے جب اس نے اپنے سامنے اس پری پیکر کو دیکھا ۔
"بھاڑ میں جائے تاریخ"
اس نے بڑبڑا کر تاریخ کو چولہے میں جھونکا ۔سیاہ پاؤں کو چھوتی فراک اس کے گورے رنگ کو مزید نمایاں کر رہی تھی ۔ کانوں میں لٹکتے سنہری جھمکے اس کی چال سے جب آگے پیچھے گھومے تو دانیال کے دل کی دھڑکن چل کر بند اور بند ہو کر چلی ۔ فلک نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔ دانیال نے بے ساختہ دل تھاما ۔ بھوری آنکھیں سیاہ گہری آنکھوں سے ٹکرائیں دانیال کو اپنا آپ اس کی کاجل لگی آنکھوں میں ڈوبتا محسوس ہوا ۔
"جاناں یہ آنکھیں پہلے ہی بہت قاتل ہیں ان کو دو آتشہ کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔"
دانیال نے مسکراہٹ دبائے کہا ۔
" کچھ لوگوں کو تڑپتے ہوے دیکھنا تھا ۔"
فلک نے ڈوپٹہ کندھے سے بازو تک سیٹ کیا ۔
"لوگ تو تب ہی تڑپ جاتے ہیں جب آپ نظریں اٹھاتے ہیں "
دانیال نے ہولے سے اس کی پلکوں کو چھوا ۔
"پر کیوں ؟"
فلک نے معصومیت سے پوچھا ۔
"کیوں کہ تم اس کے بغیر بھی ڈراونی لگتی ہو اس کی ضرورت نہیں تھی "
وہ کہہ کر اس سے دو قدم دور ہوا ۔جانتا تھا کہ اب وہ اسے دے مارنے کو کچھ ڈھونڈھے گی ۔ وہ پیاری لگ رہی تھی ، بہت پیاری اور دانیال اپنے انداز میں اسے سراہ چکا تھا ۔
۔۔۔____۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔
نور اور امل کمرے میں تیار ہو رہیں تھیں ۔پہلے وہ دونوں فلک محترمہ کو تیار کرتی رہیں اب امل خود تیار ہونے کے بعد نور کو تیار کر رہی تھی ۔نور کو بمشکل آج فراک پہننے پر راضی کیا تھا ۔وہ تو آج بھی کرتا ۔جینز کی جان چھوڑنے کو تیار نہیں تھی ۔امل نے پاؤں کو چھوتی ریڈ فراک پہنی ہوئی تھی ۔ فراک ان تینوں کی ایک جیسی تھیں بس رنگ مختلف تھے ۔نور نے رائل بلیو کلر کی فراک پہنی ہوئی تھی ۔تینوں فراک پر سنہری رنگ کا کام ہوا تھا ۔ اور تینوں نے ہائی ہیلز پہنی تھیں ۔ جھمکے بھی ایک سے تھے ۔ امل نور کا آئی میک اپ کر رہی تھی جو ہاتھوں میں موبائل پکڑے ناول پڑھ رہی تھی ۔
"نور اوپر دیکھو "
امل نے لانر اٹھایا اور ایک نظر اسے دیکھا جس پر اس کے کہے کا رتی برابر اثر نہیں ہوا تھا ۔ امل نے اس کے سر پر زور سے چپت ماری ۔
"اوہ میں مر گئی ۔ آریان بھائی پوچھیں تم سے امل "
اس نے اپنا سر سہلایا ۔
"اور فہد بھائی تم سے پوچھ لے "
امل نے اس کے گال کھینچتے ہوے کہا ۔
"یاررر ۔ ۔ ۔۔"
وہ شرماتے ہوے بولی ۔لیکن شرمانے کی ناکام اداکاری کے سوا وہ کچھ نا کر سکی ۔نور اسے جلدی آنے کا بول کر نیچے چلی گئی ۔ امل نے نفی میں سر ہلایا ۔اور ایک بار پھر اپنے بالوں میں برش پھیر کر انھیں سیدھا کیا ۔وہ اب کہیں سے بھی ڈائی شدہ بال نہیں تھا بلکے قدرتی سیاہ تھے اور اب وہ اس کی کمر سے نیچے گرتے تھے ۔ امل ڈوبٹہ گلے میں ڈالنے لگی مگر اسے پچھلی بار آریان کا اس کے سر پر ڈوبٹہ دینا یاد آیا ۔اس نے سر پر ڈوبٹہ اوڑھا ۔پھر نفی میں سر ہلایا ۔اور وارڈ روب کی طرف بڑھ گئی ۔ڈھونڈنے کے بعد اسے گولڈن موتیوں والا خوبصورت سٹولڑ مل ہی گیا ۔ بالوں کو اونچے جوڑے کی طرح لپیٹا ۔پھر سٹولر سے حجاب کرنے اور ڈوبٹہ ایک کندھے پر سیٹ کرنے تک وہ مکمل طور پر مطمئن ہو چکی تھی ۔خوبصورت مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی ۔ وہ اپنی خواہش پوری کرنے کے ساتھ ساتھ آریان کی پسند کو بھی مدنظر رکھ چکی تھی ۔ جب وہ نیچے آئی آریان کے سوا سب وہاں موجود تھے ۔امل ، آریان تم دونوں ایک گاڑی میں آجاؤ ۔ دانیال تم اور فلک اپنی گاڑی میں چلے ھو ،میں نور کو لے جاتا ھوں "
فہد جس کی نظریں نور سے ہٹ ہی نہیں پا رہی تھیں فورا بولا ۔
"مگر تمہارے ساتھ تو بینش اور سنان نے آنا تھا ؟"
دانیال نے حیرانی سے پوچھا ۔
"وہ دونوں تو پچھلے پندرہ منٹ سے یونیورسٹی ہیں ۔میں انھیں ڈراپ کر آیا ھوں "
وہ کندھے اچکاتا ہوا بولا ۔
"میں دانیال کے ساتھ آجاؤں گی "
نور نے فہد کی اصرار کرتی نظروں سے نظریں چرا کر سادگی سے کہا ۔بہت دنوں سے دونوں کی بات چیت بھی نہیں ہوئی تھی وہ اسے مس کر رہا تھا ۔ناجانے وہ آن لائن کیوں نہیں آرہی تھی ۔ وہ اس سے پوچھنا چاہتا تھا اور آج تو اس کا یہ روپ آنکھوں کو خیرا کرے دے رہا تھا ۔
"نہیں نور کباب میں ہڈی نا بنو "
فہد نے اسے آنکھیں دکھائیں ۔
"کوئی بات نہیں نور ہمارے ساتھ آجاے گی "
فلک نے مسکراتے ہوے نور کو اشارہ کیا ۔فہد نے موبائل کھولا اور ایک نظر نور کو دیکھا ۔دوسرے ہی لمحے نور کا موبائل بجا ۔کوئی ان کی طرف متوجہ نہیں تھا ۔
" یار چلو میرے پاس تمہارے لیے گفٹ ہے "
نور کی باچھیں پھیلیں ۔پچھلی بار فہد نے اسے کتنے مزے کا موٹا سا ناول گفٹ کیا تھا ۔ شاید اس بار بھی ۔۔۔اور نور سدا ناولز کی دیوانی ۔
"بس ڈن میں فہد کے ساتھ آجاؤں گی تم لوگ جاؤ ۔امل باہر آریان کی گاڑی کا ہارن بج رہا ہے نا ؟"
نور نے باہر کی طرف اشارہ کیا ۔امل ہاتھ ہلاتی باہر کو چل دی ۔ اس کے پیچھے ہی دانیال اور فلک بھی باہر نکل گئے ۔فہد مسکراہٹ دباتا نور تک آیا اور اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ۔
"زیادہ فری نا ہو اے ۔سی ۔پی تمہارا منہ توڑ دوں گی "
نور نے انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا اور دبنگ انداز میں باہر کو چل دی ۔فہد سر جھٹک کر مسکرا دیا ۔
۔۔۔۔۔___۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔۔۔
"اچھی لگ رہی ہو "
وہ جو کنفیوز سی کھڑکھی سے باہر دیکھ رہی تھی آریان کی آواز پر چونکی ۔
"سچ میں ؟"
خوشی اور مسرت اس کی آواز سے جھلک رہی تھی ۔
"ہاں سچ میں "
آریان بھر پور انداز میں مسکرایا ۔سچ تو یہ تھا کہ امل کو اس طرح دیکھ کر آریان کو بہت زیادہ خوشی ہوئی تھی ۔وہ آج ایک موتی کی طرح لگ رہی تھی اور موتی آج سیپ میں بند ہو کر قیمتی اور خاص ہو گیا تھا ۔
۔۔۔۔____۔۔۔۔____۔۔۔۔۔___
فہد نے کوفت سے آنکھیں گھمائیں ۔ گاڑی میں بیٹھنے اور گفٹ لینے کے بعد سے اب تک نور کی زبان مسلسل چل رہی تھی ۔اور موضوع تھا " ہم اور تم ناول "وہ اسے پچھلے دس منٹ سے شاہ زین ،شاہ زیب ،شاہ رخ ،شازل ،شاہ زر ،اور نا جانے کون ، کون سے شاہ کی باتیں بتا کر پکا رہی تھی ۔اور وہ اچھے بچوں کی طرح ہر بات پر ھوں ہاں کر رہا تھا مگر اب بات برداشت سے باہر ہو چکی تھی ۔
"اور پتا ہے تب میں اتنا ہنسی جب شاہ زیب کہتا کہ میں نے ایک دن کام کر کر کے شاہ زیب سے شازیہ بن جانا ہے ۔اور پتا ہے ۔۔۔"
"بس کرو نور ۔۔خدا کا واسطہ ہے بس کرو ۔۔تمہاری یہ زبان دن رات روتی ہو گی اپنی قسمت پر ۔اسے آرام بھی دیتی ہو یا نہیں ؟ نا جانے تمہارے ساتھ چوبیس گھنٹے رہنے والوں کا کیا ہوتا ہو گا ۔"
فہد سگنل پر گاڑی روکنے کے بعد اس کی طرف رخ کیے ہاتھ جوڑ کر بولا ۔
"فہد ۔۔"
"ہمممممم "
وہ جو سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھا تھا اس کی معصوم سی پکار پر اس کی طرف متوجہ ہوا ۔
"شاہ زین نا ایک دفع ۔۔۔۔۔"
"یا اللّه ۔۔۔اس لڑکی کو ہدایت دے ۔۔۔میں کیا کہہ رہا تھا تم نے سنا نہیں ؟"
اتنا تو سارا دن پولیس سٹیشن میں دکھی نہیں ہوتا تھا جتنا اس چھٹانک بھر کی لڑکی نے اسے دو منٹ میں کر دیا تھا ۔
"ابے او ۔۔۔۔!!! اے ۔سی ۔پی ۔۔۔۔اس چیز کی عادت ڈال لو تمہارے پاس تین سال ہیں ابھی لیکن تین سال کے بعد مائنڈ اٹ۔۔۔ تمہیں اس کی عادت ہونا چاہیے ۔ ورنہ بھول جاؤ نور اظہر کو "
وہ گردن کڑائے بولی ۔ ابھی اگلے تین سال تک دونوں کا شادی کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔باتوں ہی باتوں میں وہ یہ بات طے کر چکے تھے ۔انہوں نے نکاح کرنے کے بارے میں سوچا تھا ۔ مگر اس کے لیے فہد کو ابھی نور کے گھر سب سے بات کرنا تھی ۔
"کیوں بھولوں ؟"
فہد نے اسے گھورا ۔یہ لڑکی بولنے سے پہلے سوچتی کیوں نہیں ؟
"کیوں کہ نور اظہر کو اپنانا انتہائی صبر و استقامت والے مرد کا کام ہے ۔ "
"میرے علاوہ ایسا کوئی نہیں جسے اپنے نصیب پھوڑنے کا شوق ہو "
وہ دل ہی دل میں بولا ۔زبان سے بول کر وہ غلطی نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
۔۔۔۔____۔۔۔۔______۔۔۔۔۔۔۔
وہ یونیورسٹی میں داخل ہوے تو گیٹ پر کھڑے فوٹوگرافر نے ان سب کی تصاویر کھینچیں ۔ وہ سب ایک ساتھ یونیورسٹی گیٹ سے اندر داخل ہوے ۔۔دو سال قبل وہ سب کیا تھے اور آج وقت نے دو سال گزرنے کے بعد انھیں کتنا بدل دیا تھا ۔ مگر جو نہیں بدلی تھی وہ ان کی دوستی تھی جو آج بھی ایک ترو تازہ گلاب کی مانند تھی ۔
"بینش کا میسج ملا ہے ۔اس نے ہم سب کے لیے اڈیٹوریم میں سیٹس رکھ لیں ہیں "
فہد نے کہتے ہی بینش کو کال ملائی ۔ پھر وہ سب فہد کے پیچھے ،پیچھے چل دیے ۔یونیورسٹی میں رنگ و بو کا ایک طوفان تھا ۔خوبصورت دیدہ زیب تھیم اور فینسی لائٹ ،شوخ قہقہے اور مسکراہٹیں ۔ سب کچھ بہت خوبصورت تھا ۔دانیال کہنے کو تو ان کے پیچھے چلا آرہا تھا مگر کسی نا کسی کی ٹانگ ضرور کھینچ رہا تھا ۔ ،دور سے ہی انھیں بینش نظر آئی جو تیسری رو میں کھڑی تھی ۔وہ لال کرتا اور چوڑی دار پاجامہ پہنے ہوے تھی ۔ اس نے ان کی طرف ہاتھ ہلایا ۔وہ سب اسی طرف چلے آئے ۔
"السلام علیکم ۔۔شکر ہے آپ سب وقت پر پہنچے ۔ ساری رو ہی آپ لوگوں کے لیے رکھنا پڑی "
وہ ہنستے ہوے بولی ۔
"السلام علیکم "
سنان خوش دلی کے ساتھ دانیال سے ملا ۔وہ دونوں پہلی بار مل رہے تھے ۔آریان سے اس کی ملاقات پولیس سٹیشن پہ ہی ہو چکی تھی ۔وہ یہاں آنا نہیں چاہتا تھا مگر بینش اور فہد کے بے انتہا اصرار پر اسے آنا پڑا ۔ دانیال نے باقی سب سے بھی اس کا تعارف کروایا ۔انہوں نے اپنے نشستیں سمبھالیں ۔ امل ،نور ،فلک اور بینش ایک طرف بیٹھی جب کہ وہ چاروں ایک طرف بیٹھے ۔ تھوڑی دیر بعد ساری لائٹس بند ہو گئیں ۔ ہر طرف اونچی آواز میں میوزک چل رہا تھا ۔ لڑکیاں مسلسل ہوٹنگ اور لڑکے سیٹیاں مار رہے تھے ۔ پھر اسٹیج کی تمام لائٹس چلیں ۔ اسٹیج پر گرا پردہ ہٹا تو اسٹیج پر ان کے جونیئرز ایک جیسے شوخ لباس پہنے کھڑے تھے ۔پھر گانا چلنے لگا اور انھیں خوبصورت انداز میں پارٹی میں ویلکم کیا گیا ۔ پھر اسٹیج کی لائٹس ہلکی ہوئیں اور اسٹیج پر سارے جونیئرز سائیکل لیے ابھرے ۔ ہر سائیکل پر دو ،دو سوار بیٹھے ہوے تھے ۔تقریباً تیس کے قریب سائیکل تھے سائیکل سوار کے پیچھے بیٹھنے والوں کے ہاتھوں میں بڑے بڑے تھال پکڑے ہوے تھے ۔پھر ساری سائیکل ایک ،ایک کر کے اسٹیج سے اترے ۔ دس سائیکل دونوں رؤں کے درمیان ،دس سائیکل بائیں طرف اور دس دائیں طرف ہو گئے اور یوں جب وہ گزرے تو ہر کسی پر پھول نچھاور کرتے رہے ۔ پھر آخری رو پر آکر درمیان والے سائیکل بائیں طرف ، بائیں طرف والے دائیں طرف اور دائیں طرف والے ایک انداز سے درمیان سے ہو کر داد وصول کرتے دوبارہ اسٹیج تک گئے اور بیک اسٹیج غائب ہو گئے پھر پردے گرا دیے گئے ۔ اب جونیئرز کمپیرنگ کا فریضہ سرانجام دینے لگے ۔
"زبردست مجھے یہ آئیڈیا بہت پسند آیا ۔ بہت ہی اعلی "
دانیال نے اچھلتے ہوے ،چیخ کر کہا ۔ بمشکل آریان نے اسے پکڑ کر بٹھایا کیوں کہ پہلی رو میں بیٹھے پروفیسر مڑ کر اسے گھور رہے تھے ۔پورے پنڈال میں ایک وہی تھا جو سب سے آخر میں داد دے رہا تھا اور تو اور اب تو اگلا سیگمنٹ شروع ہونے والا تھا ۔اس کے بعد بہت سے سیگمنٹس ، ڈاکومنٹری اور پرفارمنسس ہوئیں آریان ،فہد کے علاوہ باقی سب کا چیخ ،چیخ کر گلا بیٹھ چکا تھا ۔دانیال تو باقاعدہ کرسی پر کھڑا تھا جب پروفیسرز نے پیچھے بیٹھے لڑکے ،لڑکیوں کی شکایت پر اسے کھینچ کر نیچے بٹھایا ۔
"اب ہم ایک پرفارمنس دینے والے ہیں اور وہ ہم ایک کپل کو ڈیڈیکیٹ کریں گے ۔ ہم ان کا نام بلکل نہیں بتائیں گے وہ آپ سب کو خود گیس کرنا ہے ۔مگر ہمارے سینئرز میں وہ دونوں اجوبه ہیں اور انہوں نے یونیورسٹی میں رونق لگاے رکھی "
کمپیرنگ کرنے والے نے ہنس کر کہا ۔ "دونوں اجوبه ہیں" سن کر پہلی رو میں بیٹھے سب پروفیسرز نے گردن موڑ کر ببل چباتے دانیال اور اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھی فلک کو دیکھا ۔ اسٹیج پر باقاعدہ شو شروع ہو چکا تھا ۔ جس کا منظر ایک کلاس روم کا تھا ۔ ایک لڑکا پروفیسر طیب بنا ، بورڈ پر لکھنے میں مصروف تھا ۔ پیچھے کچھ بچے بیٹھے وہ سب لکھ رہے تھے جو پروفیسر بورڈ پر لکھ رہے تھے ۔آخری رو میں چار بچے بیٹھے تھے جن میں تین لڑکیاں تھیں اور ایک لڑکا ۔لڑکا ہوڈی ڈالے سر جھکائے بیٹھا ساتھ والی لڑکی سے کسر پھسر کر رہا تھا ۔ پھر یکایک پیکٹ کھلنے کی آواز آئی ۔
"چییی۔۔۔"
پروفیسر سمیت سب نے مڑ کر ان دونوں سٹوڈنٹ کی طرف دیکھا ۔ایک دم پیکٹ کھلنے کی آواز رکی ۔پروفیسر دوبارہ پڑھانے لگے ۔ ایک بار پھر ویسی ہی آواز آئی ۔
"اسٹینڈ اپ رول نمبر 19 اینڈ 20"
پروفیسر کے کہنے پر وہ دونوں بچے جو فلک اور دانیال بنے ہوے تھے اٹھے ۔
"جی سر ؟"
انتہا کی معصومیت سے سوال کیا گیا ۔
"کیا کر رہے ہیں آپ دونوں ؟ "
"کچھ نہیں سر "
دونوں نے ایک ساتھ گردن گھمائیں ۔
دانیال اور فلک مسکرا رہے تھے انھیں وہ سب یاد آنے لگا ۔ دوسرے سمیسٹر کا آخری مہینہ چل رہا تھا ۔ پروفیسر طیب کی کلاس چل رہی تھی ۔ وہ دونوں آخری رو میں بیٹھے ہوے تھے۔
"فلک لیز تمہارے بیگ میں ہیں نکالو "
دانیال نے بسکٹ کا خالی پیکٹ اپنے بیگ میں ڈالا اور بھرے منہ سے فلک کی طرف جھک کر بولا ۔ فلک نے پروفیسر سے نظر بچا کر منہ میں بسکٹ کا بچا ٹکڑا ڈالا اور بیگ سے لیز نکالا ۔ساتھ بیٹھی امل نے اسے کہنی ماری مگر وہ سراسر اگنور کر گئی ۔
" علی سے قینچی لو"
فلک نے مشورا دیا۔دانیال نے اپنی ھی کرنا تھی ۔
"چییی۔۔۔"
پروفیسر سمیت سب ان کی طرف مڑے انہوں نے جلدی سے پیکٹ ایک طرف رکھا اور ایسے بورڈ کو دیکھ کر ڈیسک پر ہاتھ چلانے لگے جیسے ناجانے کب سے لکھ رہے ھوں ۔بلکہ فلک نے تو باقاعدہ ایک بار اپنا ہاتھ بھی دبایا ۔ تاکہ پروفیسر کو معلوم ہو کہ لکھ ، لکھ کر بچی کا ہاتھ دکھ رہا ہے ۔پروفیسر دوبارہ پڑھانے لگے ۔
"کہا تھا نا قینچی مانگ لو علی سے "
فلک نے اسے گھورا ۔ مگر اس نے سراسر اگنور کیا ایک بار پھر وہی آواز آئی ۔
"اسٹینڈ اپ رول نمبر 19 اینڈ 20"
پروفیسر کے کہنے پر وہ دونوں کھڑے ہوے ۔
"جی سر ؟"
انہوں نے معصومیت سے پوچھا ۔
"کیا کر رہے تھے آپ دونوں ؟"
"کچھ نہیں سر "
وہ نفی میں گردن ہلاتے بولے ۔پروفیسر جانچتی نظروں سے انھیں دیکھتے ڈیسک تک آئے ۔ڈیسک خالی تھا اوپر کوئی بک ،نوٹس کا نام و نشان تک نہیں تھا ۔
"آپ کی بک کہاں ہے ؟اور نوٹس ؟"
پروفیسر نے تیوری چڑھائے کہا ۔
"سر وہ گھر ہیں "
"کیوں ؟"
"سر روز آکر تھک گئی تھیں ۔ہمیں تو آج بھی کہہ رہی تھیں کہ "لے جاؤ "۔۔۔مگر ہم نے زبردستی گھر چھوڑا ہے "
دانیال سنجیدگی سے بولا مگر آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی ۔
"یہ کیا مذاق ہے ؟"
پروفیسر غصے سے بولے ۔
"اپنے بیگ دکھائیں مجھے ۔ "
پروفیسر نے چشمہ ناک پر درست کیا ۔دانیال اور فلک نے ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھا پھر اپنے بیگ نکال کر ڈیسک پر رکھے ۔
"کھولیں انہیں "
پروفیسر کے کہنے پر دانیال نے اپنا بیگ کھولا جو سنیکس ،بسکٹ اور چاکلیٹ کے خالی ریپر سے بھرا ہوا تھا ۔ دانیال نے بتیسی نکالی ۔ کلاس میں دبے ،دبے قہقہے گونج رہے تھے ۔
" خاموش رہیں آپ سب اور گردنیں سیدھی کریں ۔"
پروفیسر نے سب کو گھرکا ۔طیب صاحب کے گھورنے پر فلک نے جلدی سے اپنا بیگ بھی کھولا ۔جو کھانے ،پینے کے سامان سے آدھا بھرا ہوا تھا ۔
"گیٹ اوٹ "
پروفیسر نے ان دونوں کو باہر کا راستہ دکھایا اور ان کا بیگ خود اٹھا لیا ۔دانیال اور فلک ہاتھ ہلاتے باہر جا رہے تھے ۔ نکلنے سے پہلے دانیال کی زبان میں کھجلی ہوئی ۔
"سر "
"جی فرمائیں ؟"
پروفیسر طنزیہ انداز میں بولے ۔
"کیا یہ سب آپ کھائیں گے ؟ میرا مطلب ہے باہر جا کر ہم ایسے ہی بیٹھے رہیں گے تو ہمیں یہ بیگ دے دیں ۔ اگر آپ نے کھانا ہے تو چلیں ہم صلح مارنے کو تیار ہیں "
اس سے پہلے کے پروفیسر کے ہاتھ میں موجود پوانٹر دانیال کو لگتا وہ فلک کا ہاتھ پکڑے دھوڑ چکا تھا ۔ ان دونوں کے جانے کے بعد امل اور نور نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کھڑی ہوئیں ۔
"سر ۔۔۔!!!"
پروفیسر نے نظر اٹھا کر انھیں گھورا ۔لیکن اس سے پہلے وہ کچھ بول پاتیں دانیال دوبارہ منظر پر نمودار ہوا ۔
"کیا ایک لیز بھی نہیں مل سکتا ؟"
مسکینیت ہی مسکینیت تھی جو اس کے چہرے پر سے ٹپک رہی تھی ۔
"اچھا ۔۔۔اچھا سر گھوریں مت جا رہا ھوں ۔۔۔"
دانیال نے جانے کے لیے قدم اٹھایا ۔پھر رکا ۔
"سر جاؤں ؟"
وہ معصومیت سے بولا ۔نظریں بیگ پر تھیں ۔
"اب آپ کو باہر تک چھوڑنے کے لیے شاہی سواری کا انتظام کرواؤں ؟ کل سے تمہاری طبیعت درست کرنے کے لیے کوئی اور انتظام کرنا پڑے گا ۔گیٹ اوٹ ۔۔۔اور آپ سب خاموش رہیں ۔ رول نمبر 15 اینڈ رول نمبر 30 اب آپ دونوں کو بھی لازمی ان کے ساتھ ہی کلاس سے باہر جانا ہو گا ۔معمول کے مطابق ۔ہے نا ؟"
دانیال کو نکالنے کے بعد پروفیسر نے چشمہ درست کیا کلاس کو ڈانٹا اور ان دونوں کی طرف مڑے ۔
"جی ایسا ہی ہے سر "
وہ دونوں دانت نکوستی بولیں ۔ گروپ کا قانون نہیں توڑ سکتی تھیں ۔
"تشریف لے جائیں ۔!"
پروفیسر نے دروازے کی طرف اشارہ کیا ۔
"تھینک یو سر "
وہ دونوں خوشی خوشی بیگ اٹھائے چل دیں ۔ پروفیسر نے سر جھٹکا ۔ ناجانے یہ پاس کیسے ہوتے ہیں ۔
اس کے علاوہ دانیال کا ہینڈ فری والا سین بھی دہرایا گیا ۔ دانیال اور فلک آنکھوں میں ڈھیروں خوشی سمیٹے اسٹیج کی طرف دیکھ رہے تھے ۔کس انداز سے انھیں خراج دیا گیا ۔پورے ایڈیٹوریم میں قہقہے گونج رہے تھے ۔ سب ان دونوں کے نام کا نعرہ لگا رہے تھے ۔
"آپ دونوں اجوبے اسٹیج پر آجائیں "
کمپیرنگ کرنے والا ہنستے ہوے بولا ۔وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے سب کو ہاتھ ہلاتے اسٹیج تک آے ۔
"قسم سے مجھے سلیبرٹی والی فیلینگ آرہی ہے "
فلک ہنستے ہوے اس کے کان کے قریب بولی ۔
"سچ پوچھو تو اتنی عزت مجھے آج تک گھر میں بھی کسی نے نہیں دی "
دانیال بھی اسی کے انداز میں بولا ۔
"مجھے کیا بتا رہے ہو میں تو گواہ ھوں اس بات کی "
فلک نے طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے کہا ۔وہ دونوں اسٹیج پر کھڑے تھے ۔
"ہمیں تو بہت دیر بعد پتا چلا کہ آپ دونوں نکاح بھی ہو چکا ہے ۔ پہلے سوچا آپ کو گفٹ دیں نکاح کا مگر پھر فیئرویل تک ادھار رکھ لیا ۔ یہ پرفارمنس آپ دونوں کے نام ۔ اور ہماری پوری کلاس کی طرف سے آپ کے نکاح کا یہ گفٹ ۔ہم نے سوچا آپ دونوں کی محبوب ترین چیز صرف کھانا ہے تو گفٹ بھی کچھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ (اب کے دانیال اور فلک نے زور ،زور سے سر ہلایا ۔) کاش آپ لوگ کچھ عرصہ مزید اس یونیورسٹی میں رہتے ۔ ہم جونیئرز بھی آپ کی شرارتوں کو انجونے کر سکتے ۔"
ان کا جونیئر حسرت سے بولا ۔
"تم پناہ مانگتے "
کافی لڑکے لڑکیوں کی آواز آئی ۔ دانیال اور فلک ہنس دیے ۔ان کے جونیئرز نے انھے ایک بہت بڑی باسکٹ دی جو بہت نفاست سے پیک تھی ۔سب کے اصرار پر انہوں نے وہ باسکٹ کھولی ۔جس میں چاکلیٹ ھی چاکلیٹ تھیں ۔دانیال اور فلک نے خوشی سے ٹمٹماتی آنکھوں سے انھیں دیکھا جو ان دونوں کے تاثرات سے محظوظ ہو رہے تھے۔
"تم سب بہت اچھے ہو بہت زیادہ ۔اس گفٹ کے لیے شکریہ ۔لیکن پلیز کوئی ان پر نظر نا رکھے یہ ہماری ہیں "
دانیال نے اپنی اور فلک کی طرف اشارہ کیا ۔پورے ایڈیٹوریم کے قہقہے گونجے ۔
"آپ کچھ کہنا چاہیں گے ؟مطلب یونیورسٹی کے بارے میں ؟"
جونیئر نے مسکراتے ہوے پوچھا ۔
"یار تم مجھے اموشنل کر چھوڑو گے ۔ "
دانیال دھیمے سے ہنسا ۔پھر مائک لیے آگے آیا ۔
"لیڈیز اینڈ جینٹل مین مجھے تو آپ سب جانتے ہیں ۔ اور جو نہیں جانتے ان کا نالج بے کار ہے ،مطلب یونیورسٹی آنا ھی بے کار ہے ۔ میں اپنا نمبر یہاں لکھ رہا ھوں ۔ کبھی کچھ اچھا پکے تو بس ایک مس کال مارئیے گا میں آجاؤں گا ۔"
سارے ہنس ، ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے وہ آنکھوں میں شرارتی چمک لیے ہونٹوں پر شرارتی مسکراہٹ سجائے کہہ رہا تھا ۔
"اچھا مذاق تھا ۔میں کوئی فارغ تھوڑی ھوں ۔یہاں ابھی یونیورسٹی ختم ہوئی اور مجھے لگتا ہے اگلی صبح ھی مجھے بابا کا بزنس جوائن کرنا پڑے گا ۔خیر میں کہہ رہا تھا کہ
جتنی مرضی کوشش کر لو بچے میں اموشنل نہیں ھوں گا ۔ یہ سارے پروفیسر بیٹھے ہیں جن کو میں نے کبھی تنگ نہیں کیا ۔ہے نا سر ؟"
دانیال نے پہلی رو میں بیٹھے کچھ پروفیسرز کی طرف اشارہ کیا ۔ایک لڑکے نے نیچے اتر کر مائک پروفیسر کو پکڑایا ۔
"دانیال اللّه کی پناہ ہے ۔جھوٹ مت بولیں ۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں آپ جیسا ڈھیٹ انسان نہیں دیکھا ۔ "
پروفیسر نجم نے اگلی پچھلی ساری بھڑاس نکالی ۔
"سر میں دعویٰ کرتا ھوں انشاء اللّه ۔ آپ میرے علاوہ کسی کو اتنا ڈھیٹ دیکھیں گے بھی نہیں ۔کیوں کہ دانیال اپنے آپ میں اکلوتا پیس ہے ۔جو اب مارکیٹ میں آنا بند ہو گیا ھے ۔"
ایک بار پھر سارے پنڈال میں قہقہوں کا طوفان آیا ۔
"پروفیسر سے رائے لینی ھی نہیں چاہیے ۔وہ کبھی اچھا ریویو نہیں دیں گے "
دانیال نے منہ بسورا ۔
"بیگم تم کیا کہتی ہو ۔؟"
اس نے مڑ کر فلک سے پوچھا جو ہنستے ہوے آگے آئی ۔
"میری بھی یہی رائے ہے ۔ "
"افف میں کہہ رہا ھوں یونیورسٹی کے بارے میں کیا کہنا ہے "
دانیال نے آنکھیں دکھائیں ۔
"یونیورسٹی لائف ۔۔زندگی کا سب سے خوبصورت پہلو ہے ۔ اور ہم سب نے تو بہت انجوئے کیا اس ٹائم کو ۔ بلکہ ہم نے اب زندگی کے ھر پہلو کو بہت انجوئے کیا کیوں کہ جب ہم ساتھ ہیں تو ھر چیز خوبصورت ہے ۔ ہماری دوستی یونہی قائم و دائم رہے ۔ آمین ۔ اور آپ سب کو ہماری شرارتوں نے ہنسایا تو اس پر ہم بہت خوش ہیں کیوں کے مسکراہٹ بانٹنے والوں سے زندگی کبھی مسکراہٹ نہیں چھینتی ۔ میرا مطلب ہے کہ خوشبو تو انہی ہاتھوں میں رہتی ہے جو پھول بانٹتے ہیں ۔"
فلک سنجیدگی سے کہہ رہی تھی دانیال نے مڑ کر حیران نظر اس پر ڈالی ۔
"تمہے کیا ہوا ؟"
دانیال سے اس کا سنجیدہ ہونا برداشت نا ہوا ۔
"ویٹ کہیں تم اموشنل تو نہیں ہو رہی ۔او کم اون فلک ہم نے اپنی شرارتوں سے ھر جگہ خود انجوئے کیا ہے آگے بھی کرتے رہیں گے ۔بس افسوس ہو گا کیوں کہ یہاں شکار آسانی سے مل جاتا تھا ۔ لیکن کوئی بات نہیں ہمارا کیا ہے ہمیں تو کوئی بھی شکار آسانی سے مل جائے گا نا "
دانیال ہنستے ہوے بولا ۔فلک نے اس کے بازو پر مکا جڑا ۔
"آج آپ یونیورسٹی ختم ہو جانی ہے ۔ کچھ عرصے بعد آپ کی شادی بھی ہو جانی ہے تو کیا آپ ساری زندگی ایسے ھی رہیں گے مطلب ایسے شرارتی اور ایسے ھی کھاتے پیتے رہیں گے؟ "
"یار ایسا لگ رہا ہے جیسے میں کوئی فیمس سلیبرٹی ھوں ۔ لیکن تمہارے اس سوال کا جواب ہے کہ ہاں ہم ایسے ھی رہوں گا "لیکن ہم دنیا پر بس کھانے پینے ھی آئے ہیں "
دانیال نے دانت نکالتے ہوے کہا ۔
"آخر میں یہ کہوں گا کہ ہم کسی سے معافی نہیں مانگیں گے ۔مطلب جو ہم کرتے رہے ان کے ساتھ اس کی معافی ۔باقی سب کو اپنی عملی زندگی کے لیے بیسٹ اف لک اور ہاں ۔۔۔تم لوگوں کے تحفے نے مجھے خوش کر دیا ۔"
وہ دونوں بہت سی تالیوں میں نیچے اترے ۔ پھر دو چار پروگرامس کے بعد ان سب کو ڈگری دی گئی ۔
"یہ رہی دو سال کی محنت "
نور نے ڈگری سامنے لہراتے ہوے کہا ۔
"محنت ۔۔۔نور بی بی اللّه کو مانو ۔ھر ہفتے تو ہم سے تین ناول اینٹھتی ہو وہ پڑھ کر دل نہیں بھرتا تو موبائل پر پڑھتی ہو ۔ ۔ ۔ بس ناول ھی پڑھتی ہو ۔ محنت کی بات کہاں سے کر رہی ہو "
آریان اسے زبان نکالتے ہوے بولا ۔ فہد نور کو دیکھ کر مسکراہٹ دبائے بیٹھا تھا ۔
"بس نہیں پتا آپ کو ۔ ۔ ۔ میں ایک عظیم لڑکی ھوں ۔ ۔ ۔ جو ناول صرف پڑھتی ہے ۔۔۔"
اس کی بات دانیال نے کاٹی ۔
"پڑھتی نہیں ہو ویمپائر کی طرح خون چوستی ہو ۔ایک تم اور ایک اللّه کی پناہ وہ بد روح اقصیٰ ۔۔۔اللّه معاف کرے پتا نہیں جس کے ساتھ اس کی شادی ہو گی بیچارہ ساری زندگی یہی سوچتا رہے گا کہ کاش وہ اردو میں پی ایچ ڈی کر لیتا ۔"
"اس کی منگنی ہوگئی ہے بدتمیز اور اس کا منگیتر آرمی میں ہے "
"مجھے دلی ہمدردی ہے اس سے "
دانیال افسوس سے گردن دائیں بائیں ہلاتے ہوے بولا ۔
"فہد۔ مجھے تجھ سے بھی ہمدردی ہے "
دانیال نے فہد کو دیکھ کر آنکھ دباتے ہوے کہا ۔ نور کا چہرہ غصے سے لال پیلا ہو گیا ۔وہ جھٹکے سے اٹھی ۔
"بچ کے دکھاؤ منحوس "
اس سے پہلے وہ اس کی گردن دبوچتی ۔فلک کے نعرے نے دانیال میں قوت سی بھر دی ۔
"میاں جی روٹی کھل گئی جے "
دانیال اور فلک کو منظر سے غائب ہونے میں دو سیکنڈ ھی لگے ۔ پیچھے آریان بس افسوس سے سر ہلا کر رہ گیا ۔جب کہ امل ،بینش سنان اور فہد کا ہنس ،ہنس کر برا حال تھا اور نور وہ تو غصہ دبانے کے چکر میں تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔۔_______۔۔۔۔۔
فوٹو شوٹ چل آہا تھا ۔ پہلی ساری کلاس کا پھر گروپس کا پروفیسرز کے ساتھ فوٹو شوٹ ہوا ۔ کچھ لڑکے لڑکیاں یونیورسٹی ادھر ادھر گھومتے دکھ سے ھر جگہ کو دیکھ رہے تھے جہاں بیٹھ کر وہ وقت بتاتے جہاں وہ بے فکرے قہقہے لگاتے ۔ کچھ روتے ہوے ایک دوسرے کو دلاسے دے رہے تھے ۔ ایلومنائی پر آنے والے تو کب سے جا چکے تھے ۔ کیوں کہ وہ تو عملی زندگی میں کب سے قدم رکھ چکے تھے ۔ ان کی ذمہ داریاں تو بڑھ گئی تھیں جن سے وقت نکال کر وہ یونیورسٹی آئے تھے ۔دانیال ،فلک ،گیٹ پر کھڑے تھے ۔ان کے پاس احمر کھڑا تھا ۔احمر دانیال سے اس کا نمبر لے کر جا چکا تھا ۔جلد وہ اور جویریہ شادی کرنے والے تھے لیکن ابھی جویریہ کی پڑھائی کے ختم ہونے کا انتظار تھا ۔ مگر احمر چاہتا تھا کہ وہ دونوں ان کی شادی پر آئیں ۔کچھ لڑکے اپنے دوستوں اور لڑکیاں اپنی دوستوں سے گلے مل رہی تھیں ۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے امل اور آریان جا چکے تھے ۔نور بھی انہی کے ساتھ واپس گئی تھی کیوں کے بینش اور سنان کو فہد کے ساتھ جانا تھا ۔ وہ دونوں بھی ایک آخری نظر یونیورسٹی کو دیکھ کر نکل نے ھی والے تھے جب پیچھے سے گل خان نے انھیں پکارا ۔وہ دونوں مڑے اور اسے دیکھا جو آج بہت پیارا لگ رہا تھا ۔
"آہ ۔۔۔۔گل خان "
فلک نے اپنے انداز میں اس کے گال کھینچے وہ جھینپ سا گیا ۔ پھر آنسو پیچھے دھکیلتا بول اٹھا ۔
"ہم آپ کو بہت یاد کرے گا باجی "
وہ فلک کی طرف دیکھ کر معصومیت سے بولا گالوں پر سرخی پھیلی ہوئی تھی ۔وہ بہت شرماتا تھا ۔
"اور میں بھی ۔خدا تمہیں اور گل رخ کو ایک ساتھ ہمیشہ خوش رکھے ۔"
فلک مسکرائی ۔
"اللّه آپ کا اور دانیال بھائی کا جوڑی کو بھی ہمیشہ سلامت رکھے ۔ "
گل خان عقیدت سے بولا ۔
"سیلفی ٹائم "
دانیال نے کہہ کر فرنٹ کیمرا کھولا ۔کیمرے نے اس منظر کو محفوظ کیا جب گل خان ان دونوں کے درمیان آنسو بھری آنکھوں سے مسکراتا ہوا کھڑا تھا ۔اور پھر وہ دونوں چل دیے ۔
۔۔۔۔۔_____۔۔۔_____۔۔۔۔۔
یونیورسٹی کے حسین اور پررونق دور کا باب بند ہو گیا تھا ۔ اب عملی زندگی بانہیں پھیلائے منتظر کھڑی تھی ۔ زندگی کے امتحان منتظر کھڑے تھے ۔تقدیر منتظر کھڑی تھی ۔ زندگی کے امتحانات کبھی ختم نہیں ہوتے ۔ زندگی پیچیدہ سی شے ہے ۔جس کے سوالات ان گنت ہیں جن کے جواب ڈھونڈھنے بیٹھو تو سوال بدل جاتے ہیں ۔ زندگی نا ختم ہونے والی آزمائشوں اور دھوڑ کا نام ہے ۔ یہاں یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد بزنس ،نوکریاں ، شادی پھر بچے ،اور پھر زندگی الجھ کر رہ جاتی ہے آپ کے گھر ،آپ کی ذمہ داریوں اور اولاد کے درمیان آپ کی ذات کہیں گم سی جاتی ہے ۔ پھر بڑھاپے میں کہیں انگھیٹی کے سامنے بیٹھے یا شام کو لان میں کسی درخت کے نیچے بیٹھے اپنے پوتے ،پوتیوں ، کو جوانی کے قصے سناتے یہ دور ٹوٹ کر یاد آنے لگتا ہے جہاں زندگی کا نام صرف اپنے لیے جینا تھا جہاں ذمہ داریاں نہیں ہیں ۔اس وقت کو پہنچ کر کوئی شے ہوتی ہے کوئی ایسی شے جو آپ کو ماضی کے ان لمحات میں کھینچ لاتی ہے جنہے یاد کرنا آپ کے لیے باعث مسرت ہوتا ہے ۔ زندگی ھر لمحے کو جینے کا نام ہے ۔۔۔!
۔۔۔۔۔۔________۔۔۔۔۔۔۔۔۔___
سنہری سورج کی کرنیں بادلوں کے درمیان سے چھن چھن کرتی زمین پر پڑ رہی تھیں ۔ستمبر کا آدھا ماہ گزر چکا تھا ۔یونیورسٹی ختم ہوے پانچ دن گزر چکے تھے ۔تب سے نور کو صرف دو کام تھے ناول پڑھنا اور ناول کی مصروف ہیروئن کی طرح دن بھر گھر کے کام کرنا ۔بیچاری رضیہ تو حیران تھی نور اسے صفائی کرنے ھی نہیں دے رہی بس جھاڑو لے کر صفائی کرنا شروع کرتی تو وونڈر وومن بن جاتی ۔ھر چیز اٹھا اٹھا کر جھاڑتی اور جب صوفہ بھی کھسکا کر صفائی کرتی تو رضیہ کا دماغ ھی گھوم جاتا ۔ کپڑے سے ھر چیز کو چمکانے میں تو اس نے پورا ایک دن لگایا تھا ۔ اسما بیگم ،امل تک اس کے سامنے بے بس ہو گئی تھی مگر اس پر تو ناول کی سگھڑ سی ہیروئن بننے کا جنوں چڑھا ہوا تھا ۔اب تک دانیال نا جانے اس کی کتنی ویڈیو اور تصویریں بنا کر فہد کو بھیج چکا تھا جو اپنا سر تھام کر رہ جاتا پھر یہ سوچ کر تسلی ہوتی کہ چلو تین سال تک بچی بڑی ہو جائے گی ۔
اور بچی یہ سوچ ،سوچ کر پاگل تھی کہ ناجانے کیسے ہیروئن صبح اٹھ کر تہجد پڑھتی ہے پھر مشین لگا کر سارے کپڑے دھوتی ہے ساتھ ھی ساتھ استری بھی کرتی ہے پھر نماز کے بعد ناشتہ بناتی ہے جس میں عام طور پر بھی دس ڈشس ہوتی ہیں پھر برتن دھو کر صفائی شروع کرتی ہے جس سے وہ ظہر کے وقت فارغ ہو کر نہا کر کپڑے بدلتی ہے اور پھر نماز کے بعد دوپہر کا کھانا اہتمام سے بنا کر برتن دھو کر عصر پڑھتی ہے اور پھر الماریاں صاف کر کے مغرب پڑھتی ہے رات کا کھانا اور اس میں اتنا اہتمام اور پھر عشا پڑھتی ہے ۔اس پر ستم کوئی کتاب بھی پڑھ لیتی ہے ۔لکین نور کے پاس ابھی تک وہ رفتار نہیں آئی تھی جس کا عملی مظاہرہ ناول کی ہیروئن کرتی تھی ۔امل کے وہی شوق کچن اور بس کچن ۔۔۔ ہاں یہ الگ بات تھی کہ اب نور اور فلک بھی اس سے کھانا پکانا سیکھنے لگی تھیں ۔آریان آج کل ایک کیس میں بہت الجھا ہوا تھا اس لیے اس کی گھر واپسی رات دیر تک ہوتی تھی ۔ دانیال کو شاہزیب صاحب نے اگلے ھی روز آفس آنے کا حکم دیا تھا مگر اس روز سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا تھا ۔ سارا دن موویز اور کھانا پینا یہی پچھلے پانچ دنوں سے اس کا معمول تھا ۔مگر آج اس کی خاصی شامت آئی تھی اسی وجہ سے اس نے کل سے آفس جوائن کرنے کی حامی بھر لی تھی ۔۔اڑھائی ماہ بعد ان چاروں کی شادی تھی ۔ گھر کی بڑی عورتیں تو شاپنگ میں مصروف رہتیں ۔مگر ان کا فلحال اتنی جلدی شاپنگ کا ارادہ نہیں تھا ۔
۔۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔____۔۔۔۔
ملازمہ کے ساتھ مل کر وہ سارے کام ظہر سے پہلے ھی نپٹا چکی تھی ۔ آرام کرنے کے بعد عصر کی نماز پڑھ کر وہ لان میں چلی آئی ۔ فہد ڈیوٹی پر تھا اور سنان اپنے کمرے میں تھا ۔ ۔ وہ آن لائن میٹنگ کرنے میں مصروف تھا ۔ پرندوں کا مدھر سی چہچہاہٹ اور ٹھنڈی ہوا دل کو راحت و سکون بخش رہی تھی ۔ وہ محویت سے رسالہ پڑھنے میں مشغول تھی۔
"ہیلو "
تبھی سنان آکر اس کے پاس پڑی دوسری کرسی پر بیٹھا ۔ بینش نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا ۔ وہ مسکراتے ہوے اپنے مخصوص انداز میں اسے دیکھ رہا تھا ۔
" کیسی رہی میٹنگ ؟"
بینش نے رسالہ ایک طرف رکھا ۔
"اے ون "
وہ ایسے بولا جیسے اسے پہلے ھی یقین تھا کہ یہی ہو گا ۔
"تم فری ہو ؟"
سنان نے بغور اسے دیکھا گلابی سوٹ میں وہ ڈھلتی شام کا ایک حصہ معلوم ہو رہی تھی ۔ اول روز سے وہ اس کا خیال ایک اچھے میزبان کی طرح رکھ رہی تھی ۔
"جی ۔۔۔کیوں خیریت ؟"
بینش نے حیرانی سے پوچھا ۔
"میں سوچ رہا تھا گھومنے چلیں کہیں کسی پارک میں ،پھر شاپنگ کر لیں گے اور ڈنر کے بعد واپس ۔چلو گی ؟"
وہ نارمل انداز میں بولا ۔
"ہاں ضرور پر بھائی سے پوچھنا ہو گا ۔آپ ٹھہریں میں بھائی سے پوچھ لوں ۔"
"ہاں ضرور ۔بلکہ یہ لو ۔"
جیب سے موبائل برآمد کرنے کے بعد وہ سر جھکائے فہد کا نمبر ڈائل کر رہا تھا ۔
"ہاں فادی ۔۔۔ہاں سب ٹھیک ہے بینش کو بات کرنا ہے تم سے "
اس نے موبائل بینش کی طرف بڑھایا جسے بینش نے مسکرا کر پکڑ لیا ۔پھر فہد سے اجازت اور جلدی گھر آنے کا وعدہ کرنے کے بعد فون سنان کو پکڑا دیا ۔
"بھائی کہہ رہے تھے کہ وہ بھی چلتے مگر آج کل وہ اور آریان بھائی ایک امپورٹنٹ کیس کے سلسلے میں مصروف ہیں "
سنان نے اس سے کچھ پوچھا نا تھا مگر پھر بھی بینش کو لگا اسے یہ بتا دینا چاہیے ۔
" ٹھیک ہے ۔۔۔ تم تیار ہو جاؤ میں انتظار کر لیتا ھوں ۔دیکھنا زیادہ ٹائم مت لگانا ۔ مجھے انتظار سے نفرت ہے "
وہ سادہ سے لہجے میں بولا ۔
"جی "
بینش خاموشی سے رسالہ اٹھائے اندر چلی گئی ۔ سنان رخ موڑ کر اسے دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ داخلی دروازے سے اندر غائب ہو گئی ۔
"ویسے آپ کو شوپنگ کیوں کرنی ہے ؟"
سنان کا ارادہ پہلے شاپنگ پر جانے کا تھا ۔
""مجھے آئے کافی عرصہ ہو گیا ہے لڑکی ۔مجھے واپس جانا ہے ۔ سوچ رہا تھا مما کے لیے کچھ لیتا جاؤں یو کنو گفٹ ۔خالی ہاتھ جانا اچھا نہیں لگتا اور تمہاری میزبانی کا شکریہ بھی تو ادا کرنا ہے "
"ٹھیک "
بینش کا دل اداس ہوا اس کے جانے کی خبر سن کر ۔ پچھلے پندرہ دن سے وہ ان کے ساتھ تھا ۔ گھر میں اچھی خاصی رونق لگی رہتی تھی اور اب دوبارہ سناٹے چھا جائیں گے ۔وہ دکھ سے سوچ رہی تھی ۔
"دکھی کیوں ہو گئی ہو ابھی کچھ دن مزید یہیں ھوں ۔ شاپنگ ہم کسی اور دن بھی کر لیتے مگر سوچا آج فارغ ہیں تو آج چلے جائیں "
"سچ میں ۔۔۔؟؟؟"
"ہاں "
وہ مسکرا کر بولا ۔وہ اس اچھی لڑکی کو دکھی نہیں دیکھ سکا ۔
"کب جارہے ہیں ؟"
بینش نے اگلا سوال کیا ۔وہ ہنس دیا ۔
"کہو تو ابھی چلا جاؤں ؟"
سنان نے ذرا سا رخ موڑ کر اس کی طرف دیکھا ۔وہ شرمندہ ہوئی ۔
"نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا ۔"
وہ شرمندہ سے لہجے میں بولی ۔
"تمہیں گول گپے پسند ہیں ؟"
سنان نے بات بدل دی ۔بیچاری شرمندہ ہو رہی تھی ۔
"ہاں بہت لیکن آپ کو کیسے پتا ان کا ؟"
بینش نے حیرانی سے پوچھا ۔
"مما بناتی تھیں گھر پر ۔۔۔ اور انہوں نے بتایا تھا ایک دفع کہ پاکستانی لڑکیوں کو گول گپے بہت پسند ہوتے ہیں ۔میں نے بس یونہی پوچھا ۔ "
"آپ کنجوس ہیں "
بینش منہ بسورے بولی ۔
"تمہیں ایسا کیوں لگا ؟"
وہ حیران ہوا ۔
"لڑکیوں سے یہ نہیں پوچھتے کہ انھیں گول گپے پسند ہیں یا نہیں ۔۔۔ ان کے سامنے گول گپے لا کر رکھتے ہیں "
سنان اس کی بات پر ہنسا ۔
"مجھے لڑکیاں پٹانے کا تجربه نہیں ہے "
"ہاں تبھی تو اس دن پارٹی میں لڑکیاں آپ کے آگے پیچھے گھوم رہی تھیں ۔"
وہ ناک چڑھاتے ہوے بولی ۔
"ہاں وہ تو میں ھوں ھی اتنا خوبصورت "
سنان نے سگنل پر گاڑی روکی۔
"نہیں ان کی نظر آپ پر نہیں آپ کے گرین کارڈ پر تھی "
بینش جھٹ سے بولی ۔
"ہا ہا ہا ۔ ۔ ۔ ۔ "
سنان نے اس کی بات کو خوب انجوئے کیا تھا ۔وہ دل کھول کر ہنسا تھا ۔
"رکو "
"کہاں ؟"
بینش اسے گاڑی سے اترتا دیکھ کر بول اٹھی ۔سنان نے دو گھڑی شرارتی انداز سے اس کی آنکھوں میں دیکھا مگر جب بولا تو سنجیدہ انداز میں بولا ۔
"ایک لڑکی ہے اسے پٹانا ہے بس پریکٹس کر رہا ھوں ۔ گول گپے لے آؤں "
بینش اس کی بات سمجھنے کی کوشش کرنے لگی ۔ نا جانے وہ کس لڑکی کی بات کر رہا تھا ؟
۔۔۔۔_____۔۔۔۔______۔۔۔۔۔
دانیال کا آج آفس میں پہلا دن تھا ۔ شاہزیب صاحب سے نا جانے کتنی ڈانٹ کھانے کے بعد اس نے پینٹ کوٹ پہنا تھا ۔ ورنہ تو صبح ،صبح ھی ٹراوزر شرٹ میں نیچے آکر آفس کی ٹائمنگ پوچھ رہا تھا ۔ شاہزیب صاحب نے اسے اوپر سے نیچے تک گھورا ۔
"برخودار تیار نہیں ھوں گے آپ ؟"
وہ طنزیہ انداز میں بولے ۔
"میں تیار ھوں بابا "
دانیال نے ایک نظر اپنے حلیے کو دیکھا اور عام لہجے میں بولا ۔
"خاک تیار ہو ؟ اسے ؟ اسے تیار ہونا بولتے ہیں ؟ گھر والے حلیے میں آفس جوائن کرو گے ۔ ؟ تم سے بہتر حلیہ تو وہاں کے چپڑاسی کا ہے ۔۔۔ کچھ عقل کر لو "
وہ خاصے غضب ناک ہو گئے ۔
"جی اچھا ۔۔۔ میں ابھی تیار ہو کر آتا ھوں "
وہ بہت کم غصہ ہوتے مگر جب ہوتے تو دانیال کی جان جانے لگتی ۔
"میں نکل رہا ھوں۔ مجھے آفس سے دیر ہو رہی ہے ۔ ٹھیک نو بج کے تیس منٹ پر تم آفس میں ملو مجھے "
وہ اپنا بیگ اٹھائے اسما بیگم کو خدا حافظ کہتے باہر کی طرف بڑھ گئے ۔ امل اور نور رات فلک کے ہاں ٹھہری تھی اس لیے وہ ناشتہ کے میز پر موجود نا تھی ۔
"دیکھ لیں مما ساری پابندیاں مجھ پر ،سارے حکم مجھ پر لاگو ہوتے ہیں ،امل کیوں آفس جوائن نہیں کر رہی ؟"
وہ منہ بسورتے وہیں بیٹھا ۔
"بیٹا ۔۔۔ابھی اس کا جاب کا موڈ نہیں ہے جب ہو گا تب وہ آفس جوائن کر لے گی لیکن تم اب اپنی ذمہ داریاں سمبھالو ۔،آخر کو سارا بزنس تمہارے آسرے پر ھی ہے "
اسما بیگم اسے پیار سے سمجھاتے ہوے بولیں ۔
"پھر تو سمجھیں بزنس کا خدا حافظ ھی ہے "
وہ منہ بسورتا وہاں سے اٹھ کر تیار ہونے چل دیا ۔ بھلا اس کی کس نے ماننی تھی ۔شاہزیب صاحب تو آج کل ویسے ھی ہٹلر بنے ہوے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔۔۔______۔۔۔۔۔
ٹھیک دس بجے وہ آفس آیا ۔ آج پہلی بار اتنی فارمل ڈریسنگ کی تھی۔ اسے تو بہت ھی عجیب محسوس ہو رہا تھا ۔ وہ مسکرا ،مسکرا کر سب کو دیکھتا لفٹ تک پہنچا ۔ تبھی شاہزیب صاحب کا سیکریٹری علی دھوڑتا ہوا اس تک پہنچا ۔
"سر میں آپ کا انتظار کر رہا تھا ۔ سر شاہزیب نے کہا تھا کہ آپ کو لے کر آؤں میں وہاں کھڑا تھا ۔ ۔ "
دانیال نے مڑ کر اس طرف دیکھا جہاں وہ اشارہ کر رہا تھا ۔
"سر آپ آدھا گھنٹہ لیٹ ہے سر غصہ ہو رہے ہیں "
دانیال اس کی بات پر چونکہ ۔
"ہٹلر آج میرا قیمہ بنا دیں گے "
"یار یہ لفٹ آ کیوں نہیں رہی ؟؟"
دانیال نے لفٹ کے بند دروازے کو دیکھا اور کوفت سے بولا ۔
"سر اوپر والے فلور تک گئی ہے دو تین منٹ لگیں شاید "
علی نے کندھے اچکائے ۔
"میں اتنا انتظار نہیں کر سکتا ۔ہٹلر نے جان نکال لینی ہے میری "
وہ سیڑھیوں کی طرف لپکا ۔
"سر لفٹ آجاتی آپ کو زحمت ہو گی "
دانیال نے اسے گھورا جیسے کہہ رہا ہو حد ہے ۔
"سیڑھیاں چڑھنے سے گھس نہیں جاؤں گا ۔اطمینان رکھو ۔ "
وہ ہنستے ہوے یہ جا اور وہ جا۔ پیچھے علی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔
"حیرت ہے اس شخص میں تو رتی برابر تکبر نہیں ہے "
وہ سیڑھیوں کی طرف دیکھتا سوچ رہا تھا ۔لفٹ آچکی تھی وہ ہڑبڑا کر سیدھا ہوا ۔
۔۔۔_____۔۔۔۔۔_____
اوپر پہنچتے ھی دانیال نے اپنا سانس بحال کیا ۔پھر کوٹ ٹھیک کرتا ایک نظر شاہزیب صاحب کے کیبن کو دیکھا اور اندر چلا آیا ۔
"سلام بابا "
وہ اندر آتے ھی بولا ۔ شاہزیب صاحب کسی سے میٹنگ میں مصروف تھے ۔ انہوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جو مسکراتے ہوے انھیں ھی دیکھ رہا تھا ۔ دوسری نظر ان کی گھڑی پر گئی ۔
"دانیال شاہزیب آپ کے مینرز کہاں ہیں ؟ بغیر اجازت آپ اندر کیسے آئے ۔"
وہ چشمہ چڑھائے سنجیدگی سے بولے ۔دانیال نے تھوک نگلی ۔
"آج تو پکے ہٹلر بنے ہوے ہیں "
اس نے دل ھی دل میں سوچا ۔
"سوری ""
وہ ایک نظر انھیں دیکھتا خاموشی سے باہر چلا گیا ۔اس کے جانے کے بعد شاہزیب صاحب نے میٹنگ کو سمیٹا اور ان صاحب کو رخصت کیا ۔ انٹر کام سے انہوں نے علی کو کال ملائی ۔
"دانیال کہاں ہے ؟"
وہ اب نارمل انداز میں بول رہے تھے ۔
"سر وہ آپ کے کیبن کے باہر بیٹھے ہیں "
"ہممممم ٹھیک اور لیٹ کمر کو سزا دے دی ؟"
وہ مسکراتے لہجے میں پوچھ رہے تھے علی بھی ہنس دیا ۔
"جی سر آپ کے کہنے کے مطابق لفٹ اوپر فلور پر لے جا کر بند کروا دی تھی وہ سیڑھیوں سے ھی آئے ہیں "
"ہاہاہاہا ۔۔۔۔وہ ہمارا باپ نہیں ہم اس کے باپ ہیں ۔۔اسے لگ پتا جائے گا کیسے باس سے پالا پڑا ہے ۔بھیجو اسے اندر "
"جی سر "
علی کے اندر جانے کا کہنے پر وہ گہرا سانس لیتا اندر آیا مگر اب کی بار اجازت لینا نہیں بھولا ۔
"کم ان سر ؟""
شاہزیب صاحب نے مسکراہٹ دبائی ۔مگر ہنوز کام کرتے رہے ۔
"سر کم ان ؟"
وہ ایک بار پھر دروازہ بجاتے ہوے بولا ۔
"یس "
اب کی بار شاہزیب صاحب کو اس پر ترس آگیا ۔
"آپ آج لیٹ ہے مسٹر "
وہ اسے گھورتے بولے ۔
"میرے فرشتوں کی توبہ جو آئندہ لیٹ ہو جاؤں ۔اب کیا کہیں گے ۔سیڑھیوں سے چوتھے فلور پر بلا کر بدلہ لے تو چکے ہیں "
وہ کمال اطمینان سے گویا ہوا ۔شاہزیب صاحب اسے گھور کر رہ گئے ۔ مجال ہے جو وہ کبھی اسے ڈبل کراس کر سکیں ۔
"اچھا سنو آج سے پورے ایک ہفتے تک تم مارکیٹنگ مینیجر عرفان کے ساتھ رہو گے اور اگلے پورے ہفتے فنانس مینیجر برہان کے ساتھ رہو گے ۔ اور سارا کام سمجهو گے ۔تمہیں یہ سب مشکل لگے گا مگر تم غور سے ھر چیز کو سمجھو گے ۔ جو بات سمجھ نہیں آئے اسے نوٹ کرتے رہنا میں بعد میں وہ سب کلیر کر دوں گا ۔ تمہیں صرف دو ہفتے کی رہنمائی ملے گی بعد میں بزنس تم ھی سمبھالو گے اور میں ریٹائرمنٹ لوں گا اور سکون سے گھر رہوں گا ۔ برخودار تمہارے پاس تعلیم ہے مگر تجربہ نہیں ہے ۔ اور وہ تجربہ تمہیں ان دو ہفتوں میں حاصل کرنا ہے ۔ از ڈیٹ کلیر ؟"
وہ بات کے آخر میں سیدھے ہوتے اسے دیکھنے لگے ۔
"جی بابا میں پوری کوشش کروں گا "
وہ سنجیدگی سے بولا ۔ آنکھوں میں شرارت تھی مگر لفظوں میں نہیں ۔
"کوشش نہیں ۔۔۔ تمہیں کرنا ہے اور یونیورسٹی میں اپنے ڈیپارٹمنٹ میں ٹاپ کرنے والے کے لیے یہ سب مشکل نہیں ہے میں جانتا ھوں "
دانیال ہنسا مگر ان کے گھورنے پر فورا سنجیدہ ہوا ۔
"اس بات پر آج تک سب حیران ہیں ۔خیر مجھے چلنا چاہیے ۔مارکیٹینگ مینیجر کہاں ملیں گے "
وہ ہنستے ہوے بولا ۔ شاہزیب صاحب اسے گھور کر رہ گئے ۔ اور انٹر کام پر عرفان کو بلایا ۔
۔۔۔۔۔___۔۔۔۔۔۔___۔۔۔۔۔۔۔۔
دانیال کو آفس جوائن کیے ڈیڈھ ہفتہ ہو چکا تھا ۔ مارکیٹنگ کے بارے میں سب کچھ وہ اچھے سے جان چکا تھا اب یہ پورا ہفتہ اسے فنانس مینیجر کے ساتھ گزارنا تھا ۔پچھلے ہفتے کی طرح معمول کے مطابق وہ نو بجے تک آفس تھا ۔ لفٹ کے ذریعے وہ اپنے عارضی کیبن میں آیا ۔ تین دن بعد شاہزیب صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد اسے وہ کیبن ملنا تھا ۔ انٹر کام پر اس نے اپنی سیکرٹری عائشہ کو بلایا ۔عائشہ ایمپلوئی تھیں کچھ دن کے لیے عارضی طور پر اسے دانیال کی سیکریٹری اپائنٹ کیا گیا تھا ۔
"کم ان سر ؟"
وہ شائستگی سے اجازت مانگ رہی تھی ۔
"یس پلیز ۔۔۔۔"
اس نے کرسی کی طرف اشارہ کیا ۔وہ کرسی پر آبیٹھی ۔
"مس عائشہ "علی انڈسٹری" کے ساتھ ہماری میٹنگ کب ہے ؟"
وہ لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر سیدھا ہوا ۔"علی انڈسٹری " کا پروجیکٹ بہت بڑا تھا جس میں وہ پارٹنر شپ چاھتے تھے ۔ یہ ٹینڈر بہت بڑا تھا ۔دانیال ، کو شاہزیب صاحب پہلے ھی سختی سے تاکید کر چکے تھے کہ انھیں ھر حال میں یہ پروجیکٹ چاہیے کیوں کہ اس پروجیکٹ سے کڑوڑوں کا فائدہ پہنچنا تھا ۔
"جی سر ۔۔۔۔میٹنگ پرسوں ہے "
عائشہ نے ایک فائل اس کی طرف بڑھائی ۔
"سر میں نے اس فائل کی ہارڈ کاپی سے سوفٹ کاپی بنا لی ہے "
"ویری گڈ مس عائشہ ۔ یہ فائلز لے جائیں اور انھے اچھے سے ریڈ کر لیں جہاں کوئی پرابلم ہو آپ ڈسکس کر سکتی ہیں "
دانیال نے عائشہ کے ہاتھ سے فائل لی ۔پھر ستائشی انداز میں اسے دیکھ کر میز پر پڑی فائلز کی طرف اشارہ کرتے ہوے بولا ۔
"جی سر اور کچھ ؟"
عائشہ جانے کے لیے اٹھی ۔
""علی کو بھیج دیں بابا سے چھپ کر ۔۔ہی۔۔۔ہی ۔۔ہی "
وہ آخر میں دانت نکوستے ہوے بولا۔ عائشہ نے مسکراہٹ دبائی اسے پتا تھا اب کیا ہونے والا ہے ۔
"جی سر "
وہ باہر کی طرف بڑھ گئی ۔پانچ منٹ بعد علی نے کیبن کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔
"آجاؤ یار "
علی آنکھیں گھماتا پین اور کاغذ سمبھالتا اندر آگیا ۔
"بیٹھو علی "
دانیال ریلکس ہو کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھا ۔
"ہاں تو لکھو "
وہ گلا کھنکھارتے ہوے بولا ۔
"دو بریانی کی پلیٹ، پانچ سموسے ، تین رول ،دو چنا چاٹ کی پلیٹ ، چار کباب ، دہی بلے لازمی منگوانا ،ڈھائی لیٹر کی کوک ، اور میٹھے میں ۔۔۔"
"سر کیا ابھی میٹھے کی کثر رہتی ہے ؟"
علی بیچارہ جب لکھ ،لکھ کر تھک گیا تو سر اٹھا کر حیرانی و بے چارگی کے ملے ،جلے تاثرات لیے بولا۔
"مطلب کیا ہے تمہارا ؟ میٹھے کے بغیر بھی بھلا کام چلتا ہے ؟"
دانیال نخوت سے بولا ۔
"میٹھے میں رس ملائی ۔بس یہی تھوڑا سا سامان منگوانا ہے دیر نا کر دینا ۔ صبح سے کام کر ،کر کے تھک گیا ھوں وہ بھی بھوکے پیٹ کہاں انسان کام کر سکتا ہے ۔؟"
وہ بے چارگی سے بولا ۔علی نے سر اونچا کر کے دانیال سے تھوڑے فاصلے پر پڑی ڈسٹ بن کو دیکھا جو لیز کے خالی پیکٹ اور جوس کے خالی ڈبوں سے بھری پڑی تھی بلکہ آدھا سامان تو ابل ،ابل کر باہر آرہا تھا ۔علی نے آنکھیں گھمائیں ۔
"جی سر بلکل ۔۔۔ بھوکے پیٹ کہاں رہا جا سکتا ہے "
وہ سر ہلاتے بولا ۔دانیال نے زور و شور سے سر ہلا کر اس کی تائید کی ۔
"آپ سے "
وہ بڑبڑایا ۔
"کچھ کہا ؟"
دانیال نے اسے گھورا ۔
"نہیں کچھ نہیں میں منگواتا ھوں "
وہ کہہ کر دروازے کی طرف بڑھا ۔ کہ دانیال کی آواز پر رکا ۔
"ماشاء اللّه کہو نظر لگاؤ گے تم مجھے ۔۔۔ویسے تو مجھے نہیں لگے گی مگر تم بھوکوں کی طرح ڈسٹ بن دیکھ رہے تھے "
دانیال نے نخوت سے کہا۔
"نہیں سر میں سوچ رہا تھا ڈسٹ بن خالی کروا دوں ابھی آپ نے مزید کھانا ہے "
"ہاں یہ اچھی سوچ ہے کرا دینا مگر ابھی یہ سب تو لا دو ۔۔بہت بھوک لگی ہے ۔اب جاؤ "
دانیال نے لیپ ٹاپ اپنے سامنے کر لیا ۔ علی گہرا سانس بھرتا باہر آیا ۔اپنے کیبن میں بیٹھی عائشہ نے اس کی حالت پر زور دار قہقہہ لگایا تھا ۔وہ تو جل بھن گیا ۔اور عائشہ کو سخت نظروں سے گھورتا تن فن کرتا وہاں سے چلا گیا ۔
۔۔۔۔۔_______۔۔۔۔۔۔_____
جاری ہے

ماہی وے ✔Where stories live. Discover now