خوشیوں کی دستک

2.7K 150 13
                                    

ماہی وے قسط#6
وہ تینوں ہنستے ہوے ایک ساتھ یونیورسٹی میں داخل ہوے ۔سامنے کا منظر دیکھ کر ایک دم ھی ان کی آنکھیں حیرت سے کھلیں ۔
پھر حیرت کی جگہ حیرانی نے لے لی ۔
انھیں اس شخص کو پہچاننے میں ایک منٹ سے بھی کم کا عرصہ لگا۔
یہ تو وہی مال والا لڑکا ہے نا ؟؟؟کہیں تم سے بدلہ لینے تو نہیں آگیا؟
"ہاں ۔۔۔۔!!!ایسی بات نہیں ہوگی یار آریان کا دوست لگ رہا ہے دیکھو تو سہی کیسے مزے سے باتیں کرنے میں لگے ہیں."
امل نے سامنے آریان کے ساتھ کھڑے باتیں کرتے فہد کو دیکھتے ہوے امل کو جواب دیا۔وہ خود بھی حیران تھی ۔
"آریان ایسے لوگوں کی کمپنی میں کب سے اٹھنے بیٹھنے لگا ؟"
دانیال نے حیرت سے کہا ۔
"چلو آو دیکھیں "
فلک کہتی اس طرف بڑھی تو امل اور دانیال بھی اس کے ساتھ لپکے۔
السلام و علیکم !!!
ان تینوں نے ایک ساتھ باآواز بلند سلام کیا اور فہد قریشی کو چھبتی نظروں سے دیکھا۔
فہد نے انھیں ایک نظر دیکھا اور مروتا مسکراتا واپس مڑ گیا البتہ واپسی پر اس نے مڑ کر ایک نظر امل کو دیکھا تھا جو اسے گھور گھور کر دیکھ رہی تھی ۔بےساختہ ھی اس کا ہاتھ گال سہلانے لگا اور وہ سٹپٹا کر مڑ گیا ۔
یہ تمہارے ساتھ کیا کر رہا تھا ؟؟؟
فلک نے آریان کو گھورتے ہوے پوچھا ۔
"کیا کر رہا تھا مطلب ؟؟؟دوست ہے میرا ۔تمہے کیا اس طرح سے کیوں پوچھ رہی ہو ؟"
آریان نے حیرانی سے پوچھا ۔
"یہ ہے کون ؟؟تمہے پتا بھی ہے ؟"
فلک نے اپنی آنکھیں گھماتے ہوے پوچھا ۔
"بخت قریشی کا بیٹا !!فہد قریشی ۔۔۔ میرا کلاس فیلو ،دوست بھائی سب کچھ !!"
آریان نے جتنے سکون سے کہا فلک کی آنکھیں اس قدر ھی پھیل گئیں ۔
کیا ؟؟؟؟؟؟؟؟"
فلک نے شاک کی کفیت میں کہا ۔
ہاں ۔۔۔۔!!!پر یہ اپنے باپ سے بہت مختلف ہے یعنی ٹوٹلی ڈفرنٹ۔۔!!"
آریان نے مسکراتے ہوے کہا ۔
"یہ بخت قریشی کا بیٹا ہے اور تم ۔۔تم نے اسے ھی دوست بنایا ہوا ہے ؟تم ۔۔کیسے ؟؟؟"
فلک سے صدمے کی کفیت میں بولا بھی نا جا رہا تھا ۔
"میں نے کہا نا اپنے باپ سے مختلف ہے۔۔!!!بہت اچھا ہے بہت زیادہ ۔شروع میں وہ میرے لیے
بخت تک پہنچنے کے لیے ایک مہرا تھا جس کے ذریعے میں بخت قریشی کے آفس تک اس کے دوست کے طور پہ رسائی حاصل کر چکا تھا ۔میں اسے چھوڑ دیتا مگر میں نے اسے بہت زیادہ مختلف پایا ہے پھر یہ میرا واحد دوست ہے پوری یونیورسٹی میں جس کی نیچر مجھ سے ملتی ہے ہاں چند ایک باتوں کو چھوڑ کر "
آریان نے اپنی گردن پہ شرمندہ سے انداز میں ہاتھ پھیرا۔
ہیں ؟؟؟تمہے پتا ہے اس نے کیا کیا ؟؟؟؟
فلک نے اسے گھورتے ہوے کہا اور ایک نظر امل کو دیکھا جس نے اسے نظروں ھی نظروں میں خاموش رہنے کا کہا ۔
آریان نے گھور کر امل کو تیکھی نظروں سے دیکھا ۔
"فلک بتاؤ مجھے"
جس پر فلک نے اسے مال والی ساری بات من و عن بتا دی ۔
"ہاہاہا تو وہ امل تھی جس کا تھپڑ فہد آج تک نہیں بھولا ؟؟ ہاں اس نے مجھے بتایا تھا کہ اسے مال میں ایک پٹاخہ لڑکی ملی تھی پر اندازہ نہیں تھا کہ وہ امل ہو گی "
آریان نے ہنستے ہوے کہا البتہ ہاتھوں ،بازوں اور گردن کی نسیں ابھر کر باہر کو آچکی تھیں ۔
اس نے امل کو دیکھا جس کا منہ ابھی تک کھلا تھا ایک اتنی باتیں سن کر اور دوسرا آریان کا اس اتنی بڑی بات پہ نو ریکشن دیکھ کر ۔
وہ امل کو کہنا چاہتا تھا کہ "امو میری جان تمہاری ڈریسنگ ھی ایسی ہے کہ فہد کیا کئی اور لڑکے بھی تمہے آنکھیں بھر بھر کر دیکھتے ہیں۔ "
وہ جس سوسائٹی سے تھے وہاں ایسی ڈریسنگ عام سی بات تھی مگر جب سے اس نے ہوش سمبھالا تھا اپنی ماں اور بہن کو ہمیشہ مشرقی حلیے میں ھی دیکھا تھا اور امل اور فلک قمیض شلوار تو کیا دوپٹے بھی نا لیتی تھیں ۔ان کی ڈریسنگ دیکھ کر ان کو پہچانا مشکل ہوتا تھا ۔امل کے بال اسے شروع سے ھی پسند تھے لمبے ،کالے گھٹا جیسے بال مگر اب تو ان بالوں کی جگہ ڈائی گولڈن ،شولڈر کٹ بالوں نے لے لی تھی۔ڈریسنگ اس کی بچپن جیسی تھی وہ تب بچی تھی مگر اب تو نہیں ۔جب جب کوئی اسے دیکھتا تو آریان کا خون کھول اٹھتا ۔
مگر وہ اسے کس حق سے کہتا ؟
اس کے پاس کوئی حق نا تھا کہ اس کو روکتا !
"ہا۔۔۔۔۔!!!!! اتنی بڑی بات اور تم دانت نکال رہے ہو ؟"
فلک نے اسے گھور تے ہوے پوچھا ۔
"میں نے کہا نا وہ کچھ باتوں میں مجھ سے مختلف ہے ۔اور یہ بات سچ ہے کہ اسے دوسروں کو تنگ کرنے میں مزہ آتا ہے اسپیشلی لڑکیوں کو ۔۔!!لڑکیاں اس کی کمزوری ہیں ہاں اب تک اس کی کوئی گرل فرینڈ نہیں یہ الگ بات ہے "
آریان نے مسکراتے ہوے کہا ۔
اہو تو میں ۔۔۔۔"
تبھی فلک کی بات بیچ میں ھی رہ گئی ان تینوں نے حیرانی سے دانیال کو دیکھا جس نے اپنا بیگ پوری قوت سے زمین پہ دے مارا تھا ۔
"انا للّہ ھی وانا علیھ راجعون "
دانیال آرام سے وہیں دراز ہو چکا تھا ۔
اس۔۔۔۔اسے کیا ہوا ؟؟؟
فلک نے دل پہ ہاتھ رکھ کر ہکلا تے ہوے پوچھا ۔
دانی ۔۔۔۔!!!
فلک ایک سیکنڈ میں اس تک پہنچی ۔
"دانی اٹھو دانی ۔۔۔!!!دیکھو یہ مت کرو میں مر جاؤں گی ۔"
فلک نے دانیال کو جھنجھوڑتے ہوے کہا ۔
امل اور فلک دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں۔
"میں اب تمہے ولایتی باندر نہیں کہوں گی ۔۔۔میں ۔۔۔تم ۔۔۔تمہے پاکستانی باندر کہ لوں گی "
فلک ہیچکیوں کے درمیان بولی ۔
"آریان دیکھو دانی کو کیا ہوا ہے ؟؟؟"
امل نے آریان کو ہلاتے ہوے کہا ۔
ہممممم """"ہٹو ذرا "
آریان نے فلک اور امل کو ہٹایا اور اپنے کف فولڈ کرنے لگا ۔
"تم بازو کیوں ٹانگ رہے ہو ؟"
چیک کرنا ہے کہ یہ بیہوش کیوں ہوا نا کہ مارنا ہے ۔"
آریان کے سخت تیور دیکھ کر فلک گڑبڑآئی ۔
"اس کی اداکاری نکالنی ہے "
آریان کے کہنے کی دیر تھی کہ دانیال بلکل سیدھا ہو کر اٹھ بیٹھا ۔
"میں ٹھیک ہوں "
دانیال نے ہکلاتے ہوے کہا ۔
"در فٹے منہ !!!"
امل اور فلک اس پہ دو لفظ بھیجتی اٹھیں ۔کتنا پریشان ہو گئی تھیں وہ اس کے لیے ۔
"اس بکواس حرکت کا مطلب ؟؟"
آریان بیگ سمبھالتا اٹھا ۔
"خود ہی لگے ہوے ہو فہد ،بخت کرنے مجھے کچھ بتایا تک نہیں حد ہے میں نے سوچا شاید میں مر گیا ہوں جو مجھے بھول چکے ہو "
دانیال نے معصومیت سے کہا ۔
آریان سر جھٹکتا کلاس کی طرف بڑھ گیا ۔
فٹے منہ "آو امو ہم چلیں جب اس کا یہ فضول اور شودا ڈرامہ ختم ہو گیا تو خود آجاے گا ۔"
فلک امل کو بازو سے پکڑتے ہوے بولی ۔
وہ جانتی تھی کہ دانیال ابھی ان کے پیچھے آے گا اور یہی ہوا ۔۔۔
امو۔ ۔۔۔فلک ۔۔۔اچھا بات تو سنو ۔۔!!!
دانیال ان کے ساتھ چلتے ہوے بولا ۔
"میں ناراض ہوں "
دانیال نے منہ پھلاتے ہوے کہا ۔
"اچھا !!!!۔"
کیا اچھا ؟؟؟؟مطلب تمہے کوئی فرق نہیں پڑھ رہا ؟؟؟
دانیال نے فلک کو گھورتے ہوے کہا ۔
"امو میرے بیگ کی آخری زپ میں چاکلیٹ ہے نکالنا ذرا "
فلک کے کہنے کی دیر تھی کہ دانیال کی ناراضگی ہوا ہو گئی ۔
لو !!!!!
فلک نے اس کی طرف بڑھائی ۔
"آرے یاروں سے کیسی لڑائی ؟؟؟"
دانیال سر کھجاتے ہوے بولا اور فلک کے ہاتھوں سے چاکلیٹ کھینچنے والے انداز میں لی ۔
ویسے میں اب بھی ناراض ہوں !!!!
چاکلیٹ وہ کھا چکا تھا ۔
"امو یار جب بھی فری ہو تو اسے بات بتا دینا پلیز "۔
اب ٹھیک ہے ۔۔۔؟؟؟؟
امل نے تصدیق چاہی ۔
ہاں ۔۔۔!!!
دانیال بخوشی بولا ۔
ویسے اگر یہ سچ ہوتا تو ؟؟اگر میں مر جاتا تو ؟؟
دانیال نے آبرو اچکاتے ہوے پوچھا ۔
تو ۔۔۔؟؟؟؟
ببل چباتے ہوے فلک بےنیازی سے بولی ۔
"ہاں وہی میں پوچھ رہا ہوں تو ؟؟؟؟"
"ہم بھنگڑے ڈالتیں !! اب خوش ؟؟؟
امل پھاڑ کھانے کو دھوڑی ۔وہ کب سے اس کا یہ میلو ڈرامہ برداشت کر رہی تھی ۔
"بس دیکھ لینا تم دونوں ہی اگے لگ لگ کر رو گی ۔"
دانیال کے سنجیدہ لہجے میں ایسا کچھ ضرور تھا کہ کلاس میں داخل ہوتیں فلک اور امل بےساختہ ہی مڑیں تھیں ۔
"اچھا بابا مذاق تھا اب میرے پیچھے ہی نا پڑ جانا "
دانیال دونوں کے بال بگاڑتے ہوے بولا ۔
پٹو گے ۔۔۔!!!!!
امل اور آریان اس کی طرف لپکیں تو وہ دھوڑ لگاتا کلاس کی طرف دھوڑ گیا ۔
۔........,................
فادی !!!!
آریان نے کلاس کے باہر کھڑے فہد کو بلایا ۔
"ہمممممم بول ؟"
فہد نے سوالیہ انداز سے اس کی جانب دیکھا ۔
"ذرا میرے ساتھ یونی کی بیک سائیڈ پر انا ۔
"کیوں ؟؟؟"
فہد نے حیرانی سے پوچھا وہ ٹو گھر کے لیے نکلنے والا تھا ۔
"کام ہے ذرا سہ "
بازو ٹانگتے ہوے آریان نے مصروف سے انداز میں کہا ۔
فہد نے غور سے آریان کو دیکھا اور کندھے اچکاتا اس کے پیچھے ہو لیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج آفندی مینشن میں صبح سے ہی چہل پہل تھی ۔ھر کوئی اپنے حصے کا کام کرنے کو دھوڑتا پھر رہا تھا ۔عائشہ بیگم ادھر ادھر دھوڑتیں نوکروں کو مختلف ہدایتیں دے رہی تھیں ۔پورے مینشن میں انواع اقسام کے پکوانوں کی خوشبویں پھیلی ہوئی تھیں ۔کچن میں کھڑی عائشہ بیگم اور اسما بیگم مختلف پکوان تیار کر رہی تھیں ۔ فلک ۔ ۔ ۔ ۔ آریان ،عالیہ ، سہیل اور ارفع کے کمرے سیٹ کر کے اب فریش ہونے کے لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھی ۔
فلک نے کچن کے لاؤنج میں کھلتے دروازے سے کچن میں جھانکا۔علاقہ صاف ملتے ہی وہ آہستگی سے کچن میں داخل ہوئی کیوں کہ عائشہ بیگم اور اسما بیگم فریش ہونے کے لیے کمرے کی طرف جا چکی تھیں ۔وگرنہ ان کی موجودگی میں فلک کے لیے کھانے پر ہاتھ صاف کرنا مشکل ہوتا ۔
ہم کو ہمی سے چرا لو۔۔۔!!
پلاؤ چیک کرتے ہوے فلک گنگنائی تھی یوں جیسے اسے لگا کہ صاحب پلاؤ واقعی اسے چرا سکتے ہیں ۔
آہ مزہ اگیا۔۔۔ زبردست!! کیا بات ہے !!!!
انگلیاں چاٹتے ہوے فلک مزے سے بولی ۔
"دل میں کہیں تم بسا لو ۔۔!!"
قورمہ والی دیچگی کا ڈھکن ہٹا کر اس نے ایک بوٹی اچکی ۔
ہائے اللّه کیا بات ہے !!!اتنے مزے کا !!اممم !!
فلک مزہ لیتے ہوے بولی ۔
"ہم اکیلے ہو نا جائیں !!"
گنگناتے ہوے اس نے شامی کباب کا مسالا انگلی پہ لگایا ۔
امممم کیا بات ہے ۔۔۔!دل کرتا ہے ان خواتین کے ہاتھ چوم لوں ۔
"دور تم سے ہو نا جائیں !!!"
لزانیہ دیکھ کر وہ سب کچھ بھول چکی تھی ۔
آہ میری پہلی محبت ہو تم !
کہاں ہیں یہ عظیم عورتیں میں ان کے ہاتھ اب واقعی چوم لوں گی ۔
"لالا لا لا پاس آو گلے سے لگا لوں ۔۔!!!"
اس سے پہلے کہ فلک واقعی لفظوں کے تقاضوں کا احترام کرتے ہوے کھیر کے باول کو گلے لگاتی ،عائشہ بیگم کی طرف سے پڑنے والے تھپڑ نے اسے رومانی دنیا سے حقیقی دنیا میں پٹخا۔
ہائے اللّه جی ۔۔!!یہ ولن کہاں سے آگیا ۔
فلک بلبلا کر ہی تو رہ گئی تھی ۔
"بتاؤں تمہے ؟؟اسی لیے تمہے کچن میں آنے سے منع کر رہی تھی مجھے تمہاری نیت کا باخوبی اندازہ ہے "
عائشہ بیگم نے اس کے کان کھینچتے ہوے اسے لتاڑا ۔
"کیا ماما کوئی اتنا بھی ظلم کرتا ہے اپنی اولاد پہ ۔مجھے چھوڑ دیں۔ اگر میرے ہبی جی کو پتا لگا کہ ان کی وائف ٹو بی کو ان کی ساسو ماں نے روئی کی طرح فلاں تاریخ کو دھنکا تھا تو پھر دیکھییے گا وہ آپ سے بدلہ لیں گے "
فلک نے دھمکی دیتے ہوے کہا ۔
کیا کہا ؟؟؟؟؟
عائشہ بیگم کو پہلے تو سمجھ ہی نا آئی مگر جب تک آئی فلک خود کو چھڑا کر بھاگنے کو پر تول رہی تھی ۔مگر عائشہ بیگم کی ہوائی چپل اس کی کمر پر پڑی تو وہ بلبلاتی ہوئی رکی۔مگر عائشہ بیگم کو دوسرا جوتا بھی اتارتے دیکھ کر وہ گدھے کے سر سے سینگ کی مانند غائب ہو گئی ۔
"بےشرم نا ہو تو !!!"
عائشہ بیگم دانت پیستے ہوے بولیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانیال کمرے سے نکلا اور زینے طے کرتا نیچے کی طرف بڑھا ۔
پورے گھر میں خاموشی تھی ۔ملازم کواٹر میں تھے ،اسما بیگم اور شاہزیب صاحب گھر میں موجود نا تھے جب کہ امل ویکینڈ کے باعث ابھی تک سو رہی تھی ۔
سیٹی پہ گانے کی کوئی دھن بجاتا ہاتھوں سے ماتھے پہ بکھرے بالوں کو سیٹ کرتے ہوے وہ کچن کی طرف بڑھا ۔
بھوک زوروں کی لگی تھی زیادہ محنت نا کرنی پڑی ۔دانیال نے فریج پر لگے سٹکی نوٹ کو اکھاڑا ۔
"میں عائشہ باجی کی ہیلپ کے لیے جا رہی ہوں ۔ اون میں چیز سینڈوچ بنا کر رکھ دیے ہیں کھا لینا اور پانچ بجے تک تم دونوں بھی تیار ہو کر آجانا "
یہ سٹکی نوٹ اسما بیگم ہی لگا کر گئیں تھیں جب بھی انھیں کہیں جانا ہوتا اور امل اور دانیال سو رہے ہوتے یا گھر نا ہوتے تو وہ ایسے ہی انھیں اپنی بات پہنچاتیں تھیں ۔
چیز سینڈوچ کے بارے میں سنتے ہی دانیال کی بھوک نئے سرے سے چمک اٹھی ۔دبے پاؤں چلتا ہوا وہ اون کے پاس پہنچا اور چیز سینڈوچ نکالے ۔
چیز سینڈوچ کی مسحور کن خوشبو کو اس نے ناک کے نتھوں سے محسوس کیا ۔
"عشق کو پانی پوری مار دیتی ہے،عقل کو چیز مار دیتی ہے
آدمی خود کا خود نہیں مرتا بھوک مار دیتی ہے"
کندھے اچکاتے ہوے دانیال نے شعر کا اتنا برا ایکسیڈنٹ کروا دیا کہ بیچارہ ہاتھوں اور پیروں سے ہی معذور ہو گیا ۔
اور گمان یوں ہو رہا تھا کہ "نا منہ نا متھا جن پہاڑوں لتھا"
الحمدلللہ ۔۔۔!!!!
آٹھ سینڈوچ کھا کر خالی پلیٹ اس نے ایک طرف کی اور اٹھا ۔
"کچھ ہیوی نہیں ہو گیا ابھی تو دعوت بھی کھانی تھی "مما میرے لیے اتنے سینڈوچ رکھھھھ ۔۔۔۔۔"
دانیال کی بات ادھوری رہ گئی کیوں کہ اسی پل اسے یاد آیا کہ امل بھی بھوکی ہو گی ۔
"ہا ۔۔۔۔امو کے لیے کچھ چھوڑا ہی نہیں ۔۔!!!"
دانیال نے پریشانی سے سوچا ۔
"چلو کوئی نہیں وہ تو بی بی بچی ہے صبر کر لے گی "
مسلہ حال ہو چکا تھا ۔مگر نہیں اصل مسلہ اب شروع ہوا تھا ۔
"افف میرا پیٹ اتنا ہیوی ہو گیا ہے اب کیا کروں ؟؟؟"
اس نے پریشانی سے سوچا ۔
آہا ۔۔۔!!!اسپغول زندہ باد !!!!
دانیال نے کہتے ہی کپ بورڈ سے اسپغول کا ڈبہ نکالا ۔
فریج سے پانی کی بوتل نکالتے ہوے اس کی نظر ایک طرف پڑے کیک پر پڑی ۔
"نہیں نہیں دانی سوچنا بھی مت "
خود پر جبر کرتے ہوے دانیال نے خود کو دل ہی دل میں تنبیہہ کی ۔مگر بےاختیار کیک کی طرف بڑھتے ہاتھ کو وہ روک نا پایا ۔
"کیوں آخر کیوں ؟؟؟؟"
90 کی دہائی کی اداکاروں کی طرح دانیال نے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوے دہائی دی ۔
"چلو کوئی نہیں اتنا بھی ہیوی نہیں ہوا ہے "
خود کو تسلی دیتے ہوے دانیال نے کیک کا ڈبا اٹھا لیا ۔
"صرف ایک ۔۔۔!!!"
دانیال نے خود کو پھر سے تنبیہہ کی ۔
دانی ۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!!
امل کی آواز پر دانیال نے جلدی سے کیک کا خالی ڈبا ڈسٹ بن کی نذر کیا ۔
ککک ۔۔۔کیا ہوا ؟؟؟؟
خود کو کمپوز کرتے ہوے دانیال نے بالوں پر ہاتھ پھیرا ۔
"مما کہاں ہیں ؟؟؟"
امل نے تفشیشی انداز اپنایا ۔
"فلک کی طرف گئیں ہیں "
دانیال نے لٹھ مار انداز میں کہا ۔
"ہیں ۔ ؟؟؟مجھے اتنی بھوک لگی ہوئی ہے میں نے صبح ناشتہ بھی نہیں کیا تھا مما کچھ بنا کر بھی نہیں گئیں !!!"
امل رونے والی ہو گئی تھی بس اب آنسوؤں کی ہی کثر باقی تھی ۔
ہاں تو اور کیا میری بھی بھوک سے حالت پتلی ہو رہی ہے سچ میں مجھے تو بہت ویکنیس ہو رہی ہے ۔"
"وہ الگ بات ہے کہ ویسے حالت پتلی ہو چکی ہے "
اگلی بات دانیال نے دل میں سوچی تھی ۔
امل نے تیکھی نظروں سے دانیال کے بالوں پر دائیں جانب لگی کریم دیکھی جو بچارے سے جلد بازی میں لگ گئی تھی ۔
اگلے ہی لمحے اس کی نظر کیبنینٹ پہ لگے سٹکی نوٹ پر پڑی ۔
تم نے سچ میں کچھ نہیں کھایا نا ؟؟؟؟
امل نے اندازہ لگاتے ہوے کہا ۔
ہا۔۔۔ہاں تو اور کیا ؟؟
دانیال نے ہکلاتے ہوے کہا ۔
"دانی کے بچےےےےےے ۔۔!!!!
بچ کر دکھاؤ ذرا !!"
امل بیلچہ اٹھائے جارحانہ تیور لیے اس کی طرف بڑھی ۔
ساری بات وہ سمجھ چکی تھی ۔
"اہو ۔۔۔شٹ اسے کیوں نہ ڈسپوز کیا ۔"
سر پہ ہاتھ مارتے ہوے دانیال نے خود کو کوسا اور اگلے ہی لمحے باہر کو دھوڑا اب حال یہ تھا کہ دانیال پاگلوں کی طرح آگے آگے دھوڑ رہا تھا جب کہ ایک ہاتھ میں بیلچہ اور دوسرے ہاتھ میں جوتا پکڑے امل اس کے پیچھے بھاگ رہی تھی ۔
"ہا ۔۔۔ہا ۔۔۔ہا ایک منٹ "
سانس لینے کو دانیال رکا ۔
دیکھو ۔۔۔۔"
دانیال نے ہاتھ اٹھاتے ہوے کہا ۔
"دکھاؤ ۔۔۔"
وہ گھورتے ہوے بولی ۔
"کیا کوئی اور طریقہ نہیں ہے معافی کا ؟"
دانیال نے امید سے پوچھا ۔
"ایک شرط پہ مل سکتی ہے معافی "
وہ سوچتے ہوے بولی ۔
دانیال اسے گھور کر رہ گیا "۔اتنا سہ بھی نہیں برداشت کر سکتی تھی یہ اتنا سہ بھی نہیں ؟کیا اسے میری معصوم صورت پہ ترس نہیں آتا "
وہ دل میں ہی سوچ سکا وہ اسے کہ نہیں سکتا تھا کیوں کہ جانتا تھا کہ جواب کیا ہونا ہے ۔
"بولو ۔۔۔۔"
دانیال نے دانت پیسے ۔
"دیکھو سادی سی بات ہے مجھے نوڈلز بنا دو نہیں تو یہ بات میں نے مما کو تو بتانی ہی بتانی ہے بابا کو بھی بتا دینی ہے "
امل نے دانت نکالتے ہوے کہا ۔
دانیال کا دل چاہا کہ اس کے سارے دانت نکال کر اس کے ہاتھ میں دے دے ۔
"بیٹھو بنا دیتا ہوں "
وہ دونوں چلتے ہوے کچن تک آے تو دانیال اسے بیٹھنے کا بول کر خود کیبن سے نوڈلز کا پیکٹ نکالنے لگا ۔
"ویسے خود بھی کچھ بنانا سیکھ لو لڑکی !!کل کلا ہماری ہی بد نامی کرواؤ گی ۔سسرالی کہیں گے کیسی پھوڑ لڑکی ہمارے متھے پا دی ہے "
ساس پین میں پانی ڈال کر چولہے پہ رکھتے ہوے دانیال نے اسے لتاڑا۔
"بسسسس !!!میری فکر نہ ہی کرو تم تو بہتر ہے "
ہاتھ جھلاتے ہوے امل بےفکری سے بولی ۔
"ہاں بھئی مجھے کیا فکر مجھے تو صرف اس بیچارے کی فکر ہو رہی ہے جس کی قسمت تمہارے ساتھ پھوٹنی ہے ۔میری ساری دلی ہمدردیاں اس کے ساتھ ہیں ۔"
تپا دینی والی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے دانیال نے ابلتے ہوے پانی میں نوڈلز ڈالے ۔
"تم نے اگر فکر کرنی ہی ہے تو اپنے منہ کی کر لو اگر تمہے یہ منہ عزیز ہے تو ۔۔۔!!"
امل بازو ٹانگتے ہوے بولی ۔
"ہاں تو ؟؟تم نے اس بیچارے کو ایسے ہی ذلیل کیا کرنا ہے
"سنیں جی ۔۔۔!!!مجھے نہ بہت بھوک لگی ہے نوڈلز بنا دیں ۔اور پھر دیکھنا کیسے بیچارہ اگلے ہی دن تمہے لا کر ہمارے متھے مارے گا اور کہے گا "لیں پکڑیں اپنی کاکی بیٹی جس دن بڑی ہو گئی فون کر دی جیۓ گا میں آکر لے جاؤں گا "
قہقہا لگاتے ہوے دانیال نے اپنی ہی بات کا مزہ لیا تھا ۔
"ہاہا ہا ۔۔۔ویری فنی "
امل نے منہ بگاڑتے ہوے کہا ۔
"دیکھ لینا ایسا ہی ہو گا ورنہ میرا نام بدل دینا "
دانیال نے اسے تپاتے ہوے کہا ۔اسے مزہ آتا تھا امل کو تنگ کرنے میں اور پھر اس سے لڑائی کرنے میں ۔ ۔۔۔!!!
"چپ کرو ولایتی باندر دیکھنا مجھے خود نوڈلز بنا کر دیا کریں گے میرے وہ تم بس نام بدلنے کی تیاری پکڑ لینا اور اپنی جیب کی فکر کر لینا میرے بھائی ۔۔!!یوں یوں خالی کرے گی فلک تمہاری جیب !!!"
چٹخی بجاتے ہوے امل وارننگ دینے والے انداز میں بولی ۔
"وہ بس آنے کی کرے بندہ پورا کا پورا ہی اس کا جیب کی کیا اوقات ہے ایسی کروڑ جیبیں قربان اس پہ "
دانیال مسکراتے ہوے بولا۔
امل نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔کس قدر خوش نصیب تھی فلک کہ اسے کوئی اتنا چاہتا تھا ۔
"لو ندیدی ۔۔"
دانیال نے نوڈلز کا باول اس کے سامنے رکھتے ہوے کہا ۔جانتا تھا اب نوڈلز جانیں یا امل ۔امل kکا بس چلتا تو صبح ،شام اور رات ھر ٹائم بس نوڈلز ہی کھاتی ۔جبھی تو ھر مہینے اس کے لیے نوڈلز کے پانچ کارٹون آتے تھے ۔
"ہمممممم اچھے بنے ہیں ۔مگر اتنے بھی نہیں ابھی بھی سخت محنت کی ضرورت ہے بہت سخت محنت کی "
امل نے کھاتے ہوے تبصرہ کیا ۔
"موٹی بھینس ۔۔"
دانیال دانت پیستا ہوا بولا اور پاؤں پٹختا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔اسے ابھی دعوت کے لیے بھی تیار ہونا تھا ۔
"اممممم ۔۔یمی !!!بناے tتو مزے کے ہیں کمینے نے "
امل نے کھاتے ہوے دل میں سوچا ۔
ایسا ہی ہوتا ہے بہن بھائیوں کا رشتہ۔ مخلص ،بے غرض اور انمول ۔۔۔!!!
"کچھ رشتے بہت ہی انمول ہوتے ہیں جن کا کوئی نعمل البدل نہیں ہوتا "
جیسے کہ بہن بھائیوں کا رشتہ ،ماں باپ ،دوست ، شوہر و بیوی کا رشتہ ۔۔!!
یہ وہ رشتے ہیں جن کا کوئی نعمل البدل نہیں "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.......
آخر کار عرصے بعد ہی سہی مگر ان کو صبر کا پھل مل ہی گیا تھا ۔رب کسی کو دے کر اور کسی سے لے کر اسے آزماتا ہے اور آزمائش میں ثابت قدم رہنے والوں کے لیے پھر میٹھا پھل ہی ہوتا ہے ۔
وہ نم آنکھوں سے فرحان صاحب کے گلے لگے تھے ۔
ھر ایک کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر وہ آنسو غم کے ہرگز نہ تھے وہ آنسو خوشی کے تھے ۔
وہ اپنے رب کے شکر گزار تھے کہ عرصے بعد ہی سہی مگر ان کے دل ایک دوسرے کی طرف سے صاف ہو چکے تھے ۔یہ آنسو نہ تھے وہ پانی تھا جو غلط فہمیوں کو دھو رہا تھا ۔ صارم اور فلک بھی اپنے چاچو کے گلے لگے ہوے تھے ۔ صارم کی نظریں بھٹک بھٹک کر گیٹ کی طرف اٹھ رہی تھیں ۔
گاڑی پارک کرتے آریان نے بخوبی اس کی بے صبری کو نوٹ کیا تھا ۔
"مما اور عالیہ آپی پیچھے والی گاڑی میں آرہی ہیں پہنچنے ہی والی ہیں ۔"
آریان نے صارم کے گلے لگتے ہوے کہا ۔
وہ اس کی بے صبری کو دیکھ چکا تھا ۔صارم دھیرے سے مسکرا دیا ۔
سہیل صاحب ،شاہزیب صاحب اور فرحان صاحب سے ملنے کے بعد اب اندر کی طرف جا چکے تھے ۔جب کہ عائشہ بیگم اور اسما بیگم ابھی بھی گیٹ کے پاس کھڑی عالیہ اور ارفع بیگم کا انتظار کر رہی تھیں ۔
ایک اور گاڑی اندر آئی ۔اور ڈرائیونگ دوڑ کھول کر عالیہ باہر نکلی دوسری طرف سے ارفع بیگم بھی نکلیں ۔
صارم کی نظریں اٹھیں تو جھکنا ہی بھول گئیں ۔
چھ سال ۔۔۔۔!!! وہ اسے چھ سال بعد دیکھ رہا تھا وہ اپنی بیوی کو چھ سال بعد اپنے روبرو دیکھ رہا تھا ۔اس کے دیکھنے کے انداز میں بھی کس قدر محبت اور عزت تھی ۔عالیہ بھی اسی کی طرف دیکھ رہی تھی ۔
تو کیا ہجر ختم ہو چکا تھا ؟؟؟
ہاں ۔۔۔!!!!
اسے یقین کرنا ہی تھا کیوں کہ اس کا خواب اس کے سامنے حقیقت بنا کھڑا تھا ۔اس نے مسکراتے ہوے چہرہ جھکا لیا ۔
وہ اپنے رب کی شکر گزار تھی ۔ اس کی دعایں رائیگاں نہیں گئیں تھیں ۔اس نے تو اپنی دعاوں میں بھی اپنے محرم کو ہی مانگا تھا ممکن کیسے نہ تھا اسے عطا نہ کیا جاتا ؟
صارم بھی اس کی جانب دیکھتے ہوے دھیمے سے مسکرا دیا تھا ۔اسے ماننا پڑا تھا کہ گزرے چھ سالوں نے عالیہ کو مزید خوبصورت بنا دیا تھا ۔
ہلکی بھوری آنکھیں ،سرخ و سپید رنگت ،چھوٹی سی خوبصورت ناک ،احمریں لب اور آنکھوں میں موجود حیا !!!جو اسے سب سے خوبصورت بنا رہی تھی ۔
بیشک عورت کا بڑا گہنا حیا ہی ہے ۔عورت کی آنکھوں میں کاجل موجود ہو یا نہ ہو اگر حیا موجود ہو تو اس کی آنکھیں دنیا کی خوبصورت ترین آنکھیں ہوتیں ہیں ۔
ارفع بیگم اور عالیہ مسکراتے ہوے عائشہ اور اسما بیگم سے ملیں ۔
"کیسا ہے میرا بیٹا ؟"
صارم کو گلے لگاتے ہوے وہ محبت سے بولیں ۔
"میں بلکل ٹھیک ہوں چچی جان آپ کیسی ہیں ؟"
صارم نے مسکراتے ہوے پوچھا ۔
"اب بلکل ٹھیک ہوں "
وہ ہنستے ہوے بولیں ۔
عائشہ بیگم اور اسما بیگم کے ہمراہ ارفع بیگم اندر کی جانب بڑھ گئیں ۔
"السلام و علیکم !!"
صارم نے مسکراتے ہوے عالیہ کو دیکھا ۔
"وعلیکم اسلام !!!"
عالیہ جھجھکتے ہوے بولی ۔
اہم ۔۔اہم ملاقاتیں اہو ۔۔۔!!!
تبھی گیٹ کھلا اور مسکراتے ہوے دانیال اور امل اندر کی طرف آے ۔
عالیہ مسکراتے ہوے امل کی طرف بڑھی ۔
"السلام و علیکم !!"
امل مسکرا کر اس کے گلے لگی ۔
وعلیکم السلام ۔۔!!کتنی پیاری ہوگئی ہو تم گڑیا "
عالیہ محبت سے اسے دیکھتے ہوے بولی ۔جو اس وقت اونچی کرتا سٹائل بےبی پنک شرٹ کے ساتھ بلیو جینز پہنے اپنے کھلے شولڈر کٹ بالوں میں کیچر لگائے بہت پیاری لگ رہی تھی۔
آپ بھی بہت زیادہ خوبصورت ہو گئی ہیں ۔"
امل نے مسکراتے ہوے کہا ۔
اہو جناب کیسے مزاج ہیں آپ کے ؟؟؟
عالیہ نے دانیال کے بال بکھیرتے ہوے کہا ۔
"مزاج بہت اچھے ہیں اور ہٹیں ابھی تک میں اپنی گرل فرینڈ سے بھی نہیں ملا "
دانیال سب کو ہٹاتا اندر کی طرف بڑھا ۔
عالیہ ،صارم آریان اور امل اس کی بات کو سمجھتے ہوے مسکرا دیے ۔
"چلو مجھے نہیں لگتا شو مس کرنا چاہیے ۔"
آریان کے کہنے پر سب سر ہلاتے اندر کو بڑھ گئے ۔
اہو ۔۔۔۔۔۔۔!!!
مجھے تو بھول ہی گئے سب !!!
دانیال نے لاؤنج کے دروازے میں کھڑے ہو کر دہائی دیتے ہوے کہا ۔
"ہا۔۔۔جانو کیسی ہیں ؟؟اور کتنی خوبصورت ہو گئی ہیں مر مک گیا میں تو آپ کو دیکھ کر "
دل پر ہاتھ رکھتے ہوے دانیال نے ارفع بیگم کو ایک ادا سے کہا ۔
"میں ٹھیک تم کیسے ہو میری جان !!!"
ارفع بیگم اسے گلے لگاتے ہوے بولیں ۔
سب ہی مسکرا دیے۔
"افففف کچھ جل تو نہیں رہا نہ ؟؟ جیسے ہی میری جانو نے مجھے میری جان کہا تو اسی وقت یہاں سے جلنے کی بو آنے لگ پڑی ہے "
دانیال نے ناک پر ہاتھ رکھتے ہوے ایک طرف بیٹھے سہیل صاحب کی طرف اشارہ کیا ۔
"جل تو میں واقعی رہا ہوں انہوں نے آج تک کبھی مجھے بھی میری جان نہیں کہا "
سہیل صاحب ناراضگی سے منہ پھلاتے ہوے بولے ۔
"اوہو بس جو جس قابل ہو اسے اتنا ہی ملتا ہے "
دانیال نخوت سے بولا تو اس کے انداز پر سب ہنس دیے ۔
"میری بےعزتی ہی کیے جاؤ گے بدمعاش یا آکر مجھ سے ملو گے بھی ؟"
سہیل صاحب کے کہنے پر دانیال دانت نکالتا ان کی طرف بڑھا ۔
"چلو مل ہی لیتے ہیں رقیبوں سے بھی "
دانیال نے یوں کہا کہ گویا احسان عظیم کر رہا ہو ۔
امل بھی ارفع بیگم سے مل کر سہیل صاحب کی طرف بڑھی ۔
خوش گوار ماحول میں سب نے کھانا کھایا ۔
کھانے کے دوران بھی صارم وقتاً فوقتاً عالیہ کی جانب دیکھتا رہا۔
صارم کی نظروں کو بخوبی محسوس کرتے ہوے بھوری آنکھیں اٹھیں اور مقابل کی گہری سیاہ آنکھوں میں اتر گئیں ۔
عالیہ کے چہرے پر دھنک کے سارے رنگ اتر آے ۔صارم نے محبت سے یہ منظر دیکھا اور مزید اسے ٹانگ کرنے کا ارادہ ملتوی کر کے وہ کھانے کی طرف متوجہ ہوا ۔
آریان مکمل طور پر امل کو نظر انداز کیے ہوے تھا اس کی تمام کھانے کی طرف تھی اگر وہ شیر تھا تو وہ بھی سواشیر تھی ۔امل بھی مزے سے اسے اگنور کیے فلک اور عالیہ سے باتیں کرنے میں مصروف تھی ۔
جب کہ دانیال کے لیے اس وقت کھانے سے اہم کوئی کام نہ تھا ۔
کھانے کے بعد چائے کا دور چلا ۔
امل ،فلک اور عالیہ نے مل کر چائے تیار کی ۔یہ کہنا بہتر ہو گا کہ عالیہ نے چائے بنائی اور ان دونوں نے باتیں ۔
چائے کے دوران بھی وہ ہلکی پھلکی باتیں کرتے رہے ۔
ارفع ،عائشہ اور اسما بیگم کی اپنی باتیں جاری تھیں جن میں آس پڑوس کی خبریں ،کھانا پکانا ،حالات ،بچوں کی پڑھائی وغیرہ شامل تھیں تو دوسری طرف مردوں کی بزنس اور سیاست کی باتیں جاری تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے کچھ دنوں سے موسم برسات اپنے جوبن پر تھا ۔جولائی کا آخری ہفتہ چل رہا تھا ۔بارش کے سبب ہوا میں ہلکی ہلکی نمی موجود تھی ۔شام کے وقت کھلی فضا میں کھڑے یہ ہوا بہت بھلی معلوم ہو رہی تھی ۔
امل ،فلک ،دانیال اور عالیہ بھی اس وقت لان میں رکھی کرسیوں پر بیٹھے تھے ۔
"کتنا پیارا موسم ہو رہا ہے نہ بھابھی ؟؟"
فلک نے گہرا سانس لیتے ہوے کہا ۔
"ہاں یہ تو ہے ۔۔۔!!!"
عالیہ نے مسکراتے ہوے کہا ۔
"آپی وہ دیکھیں صارم بھائی ٹیرس پر کھڑے آپ کو دیکھی جا رہے ہیں"
امل کے کہنے پر عالیہ بوکھلا گئی ۔
"افففف کیا وہ ابھی بھی دیکھ رہے ہیں "
عالیہ نے سرخ ہوتے چہرے کو چھپاتے ہوے پوچھا ۔
"جی اور اتنی محبت ہے ان کی نظروں میں کہ میں آپ کو کیا بتاؤں !!"
دانیال نے فلک اور امل کو آنکھ مارتے ہوے کہا ۔
"ہا۔۔۔۔انھے شرم نہیں آتی "
عالیہ اب کہ ڈوپٹے کا گھونگھٹ اوڑھ چکی تھی ۔
"بھابھی ہا ۔۔۔۔!!!بھائی کہہ رہے ہیں عالی سے کہو میرے کمرے میں آئے "
فلک نے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوے حیران ہونے کی اداکاری کی ۔
"پلیز انھیں کہو نہ کریں نہ "
عالیہ منمنائی ۔
امل ،فلک اور دانیال کے ہنسنے پر عالیہ نے گھونگھٹ اٹھا کر انہیں دیکھا جو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے ۔اگلے ہی لمحے اس نے مڑ کر خالی ٹیرس کو دیکھا ۔
"بتمیزو میرا سانس سوکھا دیا تھا تم لوگوں نے "
عالیہ جوتا اٹھا کر دھوڑی تو امل ،فلک اور دانیال ہنستے ہوے لان میں ہی بھاگنے لگے جب کہ عالیہ جوتا اٹھائے ابھی بھی ان کے پیچھے دھوڑ رہی تھی ۔
آسمان پر چھاتے چاند نے مسکراتے ہوے اس لمحے کو وقت کے باب میں قید کر دیا ۔
"اور یادوں سے رہائی ممکن نہیں ہوتی "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آریان بیٹا تم اب بزنس کو چھوڑ دو وہ سب اب صارم سمبھال لے گا تم اپنی اسٹڈیز پر کنسنٹریٹ کرو "
فرحان صاحب نے شفقت سے کہا ۔
"پر ۔۔۔!!!"
کوئی پر ور نہیں !!! منا کر دیا سو کر دیا ۔ابھی تو آپ مینیج کر رہے ہو پر جلد ہی آپ کے فائنلز ہونے والے ہیں ۔تب کیا کرو گے ؟ صارم ہے بیٹا وہ سمبھال لے گا اتنی سی بات بھی نہیں مانو گے میری ؟"
فرحان صاحب نے خفگی سے پوچھا ۔
ٹھیک ہے "
آریان ہار مانتے ہوے بولا ۔
یہ ہوئی نہ بات "
فرحان صاحب آریان کا کندھا تھپکتے ہوے بولے ۔
"چلو بھئی تھک گئے ہو گیں آپ سب لوگ مانا کہ کل سنڈے ہے مگر اب ساری رات تو جاگنے سے رہے نہ ؟ چلو شاباش ایسا کرو دانیال آج تم آریان کے ساتھ رک جاؤ اس کے ساتھ سیٹنگ کروا دینا اور امل تم اور فلک مل کر عالیہ کا ہاتھ بٹا دینا ۔زیادہ کام نہیں ہے مگر وارڈروب وغیرہ سیٹ کروا دینا اور کمپنی بھی دے دینا "
عائشہ بیگم مسکراتے ہوے بولیں تو امل اور دانیال کی باچھیں کھل گئیں ۔
"ضرور"
دونوں یک زبان بولے پھر ایک ساتھ مسکرا دیے ۔
"باجی ایسے کیسے ایوں تنگ کریں گے آپ کو "
اسما بیگم ان دونوں کی ماں تھیں ان کے مزاج کو خوب جانتی تھیں ۔
"کیا مطلب پہلے بھی تو اکثر ویکینڈ پر رهتے ہیں ایک ساتھ کبھی فلک آپ کے گھر اور کبھی یہ دونوں یہاں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جو تم ایسے کہہ رہی ہو "
عائشہ بیگم خفگی سے بولیں ۔
"بلکہ تم لوگ بھی یہیں رک جاؤ نہ "
فرحان صاحب بولے ۔
"نہیں بھائی ہم تو جا رہے ہیں گھر میں بھی کافی کام ہیں "
شاہزیب صاحب اٹھتے ہوے بولے ۔
"اور خبر در تنگ کیا تو ۔۔!!"
اسما بیگم وارن کرتے ہوے بولیں ۔
"یس باس آپ کو شکایت نہیں ہو گی "
دانیال سلیوٹ کرتے ہوے بولا تو اس کے انداز پر سب مسکرا دیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل یار کافی ہی بنا دو پلیز ۔۔۔!!!
عالیہ بیڈ پر لیٹتے ہوے بولی ۔
"کیپیچینو ؟؟"
امل نے اٹھتے ہوے پوچھا ۔
"ہاں۔۔!!! اور ایک کام کرنا دو کپ بنا لینا آریان کو بھی اس ٹائم کافی پینے کی عادت ہے اسے بھی دے آنا ۔"
جی ٹھیک ہے ۔۔!!
امل مسکراتے ہوے بولی ۔
"ایک کپ میرا بھی ۔۔!!"
فلک بیڈ پر گرتے ہوے بولی ۔
دس منٹ دو مجھے ۔۔"
امل مسکراتے ہوے کچن کی طرف بڑھ گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمہمہم ۔۔۔۔لا لا لا ۔۔۔
اے دل ٹھہر جا جینے کی کوئی تو وجہ ڈھونڈھ لے ۔۔۔۔۔
گھبرانا غم سے جینے کی کوئی تو وجہ ڈھونڈھ لے ۔۔۔
تو پیار کر ۔۔۔
اظہار کر ۔۔۔
ہے پیار ہی ۔۔۔
غم کی دوا ۔۔۔سن لے ذرا ۔۔۔!!! سن لے ذرا ۔۔۔!!!
اے میرے دل سن لے ذرا ۔۔!!
امل گنگناتے ہوے انہماک سے کپ میں کافی پھینٹ رہی تھی ۔
آریان جو کہ کافی کا ہی بولنے کچن کی طرف آیا تھا مسکراتے ہوے ہاتھ باندھ کر دروازے ہی کے پاس کھڑا ہو گیا ۔
امل اس کی آمد سے بےخبر گنگنا رہی تھی ۔
اہم اہم ۔۔۔!!!
چھو کے مجھے تو محسوس کر لے ۔۔
لمحہ تیرا ہی گزرا ہوں میں ۔۔۔
ڈھونڈھ لے جو کھو گیا ۔۔
میں ہوں تیرا وہ آئینہ ۔۔
سن لے ذرا ۔۔۔!! سن لے ذرا ۔۔۔!!
آریان کی آواز پر امل کا کافی پھینٹتا ہاتھ تھم گیا ۔
آہ ۔۔۔تم ؟؟؟وہ میں وہ ایسے ہی ۔۔۔!!!
امل بوکھلا ہی تو گئی تھی ۔
اچھا گا لیتی ہو ۔آریان مسکراتے ہوے بولا ۔
تمہے اس سے مطلب میں جیسا بھی گاؤں ؟؟
امل آریان کو گھورتے ہوئی بولی ۔
"کس بات کی ناراضگی ہے میں پوچھ سکتا ہوں ؟"
آبرو اچکا تے ہوے آریان نے پوچھا ۔
"تم پوچھ چکے ہو "
امل نے غصے سے کہتے ہوے برنر اون کیا ۔
"تم ناراض ہو امل ؟"
آریان اس کے پاس چلا آیا ۔
"کیا مجھے نہیں ہونا چاہیے ؟"
امل بھی اسی کے انداز میں بولی ۔
"نہیں ۔۔۔!!!تمہے یہ حق نہیں حاصل ۔۔تم مجھ سے بات کلیر کر سکتی ہو ۔مگر مجھے اپنی اس ناراضگی کی وجہ تو بتاؤ ۔؟"
آریان اسے ایک طرف کرتا خود کافی بنانے لگا ۔
"کوئی ایک بات ہو تو بتاؤں ؟؟میں بتانے بیٹھی تو صبح ہو جائے گی "
امل روٹھے لہجے میں بولی ۔
"میں سن سکتا ہوں زندگی بھر تک "
آریان سنجیدگی سے بولا ۔
"تم بہت بدل گئے ہو ۔وقت نے تمہے بہت بدل دیا ہے "
وہ اس سے شکوہ کر رہی تھی یا اسے بتا رہی تھی وہ سمجھ نہ پایا ۔
"وقت بہت ظالم شے ہے ۔کب،کیسے اور کس طرح جینا ہے سب سکھا دیتا ہے "
آریان سنجیدگی سے بولا ۔
پھینٹی ہوئی کافی دودھ میں ملی تو ایک دم ہی دودھ کا رنگ بدلا ۔
"تم بہت سیریس باتیں کرنے لگے ہو اور اب ایسے رهتے ہو جیسے مرچیں چبائی ہوں ۔"
وہ اس سے شکوہ کر رہی تھی ۔وہ دھیرے سے مسکرا دیا ڈیمپل ابھر کر معدوم ہوا ۔
سریوسلی ؟؟؟
آریان نے ہنستے ہوے کہا ۔
"مذاق نا اڑاؤ !!!"
وہ چڑ کر بولی ۔
"نہیں میں پوچھ رہا تھا "
آریان سر جھٹکتے ہوے بولا ۔
"تم مجھ سے بات بھی نہیں کر رہے تھے پتا ہے مجھے کتنا فیل ہوا تھا ؟"اگر اسی غم میں میں مر جاتی تو ؟"
امل سینے پر بازو لپیٹتے ہوے بولی ۔
"کوئی کسی کے بغیر نہیں مرتا یہ حقیقت ہے لوگ جینے کے لیے کوئی نہ کوئی وجہ ڈھونڈھ ہی لیتے ہیں ۔ادھر نہیں تو ادھر سہی ادھر نہیں تو کہیں اور سہی ۔۔!! سنو امل ۔۔۔کسی کے چلے جانے سے کوئی نہیں مرتا انسان کو جینا پڑتا ہے اپنے لیے نہیں تو دوسروں کے لیے ۔"
بات کڑوی ہی سہی مگر درست تھی ۔اس نے دھیرے سے سر ہلا دیا ۔
"تم اچھی تقریر کر لو گے اگر کبھی کرنی پڑے ۔"
امل مسکراتے ہوے بولی ۔
"تو ابھی بھی ناراض ہو ؟ یا کوئی اور وجہ باقی ہے ؟" یا کوئی الزام ؟؟"
آریان کافی کپوں میں ڈالتے ہوے بولا ۔
"نہیں اب ٹھیک ہے "
امل نے مسکراتے ہوے ڈش اٹھائی ۔
"شکر ہے"
آریان ہنستے ہوے بولا ۔
اس رات دو دلوں میں موجود غلط فہمیاں ختم ہو گئی تھیں ۔
غلط فہمیاں خود بخود ہی ختم نہیں ہوتی انھے ختم کرنا پڑتا ہے۔ کسی ایک کو جھکنا ہی ہوتا ہے ۔انا کے پجاری تہی دامن ہی رہ جاتے ہیں ۔مگر جو جھک جاتے ہیں وہ فتح یاب ہوتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے نیند میں ہی خود پر ایک بوجھ محسوس ہوا ۔اس نے ہلنے کی کوشش کی مگر وہ ہل نہ پایا ۔آہستہ آہستہ اس کا ذہن بیدار ہوا ۔ایک جھٹکے سے اس کی آنکھ کھلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے )))))))

اپنی رائے کا اظہار ضرور کیا کریں ۔
@___novelianz___
Follow us on instagram for sneak peaks of "Mahi ve "

ماہی وے ✔Where stories live. Discover now