لوٹ آئے وہ دن

2.8K 158 11
                                    

ماہی وے از قلم مریم،علیشا ۔
Episode#5
کیا ؟؟؟؟
پر تم لوگوں کی ناراضگی کا کیا ؟
امل نے حیرانی سے پوچھا ۔دانیال بھی حیران و پریشان کھڑا تھا۔
"معجزے اسی دنیا میں ہوتے ہیں "
فلک نے کندھے اچکاتے ہوے کہا۔
"تو کیا آریان لوگ واپس آفندی مینشن آجائیں گے؟
دانیال اپنا درد بھول کر اس معاملے کی طرف متوجہ ہوا تھا۔
ہاں بلکل ۔۔۔!!!
بہر حال یہ ایک لمبی کہانی ہے اور کبھی فرصت میں سناوں گی۔"
تم جا کہاں رہی تھی ؟"
گھر جانا تھا اب بابا کی طبیعت سمبھل چکی ہے مما اور صارم بھیا انہی کے پاس ہیں ابھی ۔میں دیکھنے جا رہی تھی کہ کہیں آریان چلا تو نہیں گیا مگر اب تک تو جا چکا ہو گا ۔چلو ایسا کرتی ہوں کہ مما لوگوں کے گھر واپس آنے تک میں تم لوگوں کے گھر ہی ٹھہر جاتی ہوں ۔اب چلو ۔۔۔؟؟"
فلک نے جیسے اپنے مسلے کا حل تلاش کیا۔
ہمیں ملنے تو دو انکل سے۔۔۔!!
امل نے ان کے کمرے کی طرف بڑھتے ہوے کہا ۔
چپ کرو آرام سے ہاں کل بابا گھر آجائیں گے ہم یونیورسٹی سے واپسی پر میرے گھر چلے جائیں گے۔ابھی تو چلو نا مجھے بھوک لگی ہے ۔"
فلک دانیال اور امل کا ہاتھ کھینچتے ہوے بولی۔
پر تمہارے بابا ۔۔۔"
وہ اب ٹھیک ہیں اور انہوں نے ہی مجھے واپس جانے کو بولا ہے ۔
اب چلو چپ کر کے ۔۔۔"
فلک باہر کی جانب لپکی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے تم لوگ کیوں آے تھے ہوسپٹل ؟؟
اتفاق سے دانی کی وجہ سے آنا پڑا مگر پھر تم مل گئی۔
امل نے سٹیرینگ گھماتے ہوے کہا۔
ہائے ۔۔۔۔!!!
شٹ اپ دانی اگر اب تم نے دوبارہ اپنا ڈرامہ شروع کیا تو میں نے تمہے اٹھا کر گاڑی سے باہر پھینک دینا ہے۔"
امل پھاڑ کھانے والے لہجے میں چلائی ۔
"شرم کرو!!! ذرا سی بھی شرم نام کی کوئی چیز تم میں موجود نہیں ؟
میں تم سے دس منٹ بڑا ہوں کم از کم اسی کا لحاظ کر لو ۔"
ہمممممم تمہے اس بات پر اس کا لحاظ کرنا چاہیے۔اپنے سے دس منٹ چھوٹی بہن کا خیال کر لو ذرا اور اب چپ چاپ لیٹے رہو ۔"
فلک اسے گھورتے ہوے بولی ۔
"نہیں یہ دو عورتیں مجھے اغوا کر کے لے جا رہی ہیں بچاؤ ۔۔۔!!!!"
دانیال نے دہائی دی ۔
"اب یہ اپنا سپیکر بند کرنے کا کیا لے گا ؟اور دیکھو اس نے ہمیں عورتیں بولا ہے "
فلک نے امل کی جانب مڑتے ہوے کہا۔
"یہ تو صرف بابا کی دو چار جوتیوں کی مار ہے "
امل نے بیک مرر سے دانیال کو گھورتے ہوے کہا۔
دیکھو یہ جو تم دونوں میرے ساتھ کر رہی ہو نا بلکل اچھا نہیں کر رہی اگر میں صحت مند ہوتا تو بتاتا ۔"
دانیال نے نظر نا آنے والے آنسو صاف کیے۔
صحت مند ہونے کو کیا اب تم بہت بیمار ہو گئے ہو ؟اتنی نازک جان ہو نا کہ کتے نے کاٹ دیا تو مر جاؤ گے ؟
فلک نے دانت کچکچاتے ہوے کہا۔امل کے واقع بتانے کے بعد وہ دانیال کی بہادری کا لیول چیک کر چکی تھی۔
"مجھے کہاوت یاد آگئی "
دانیال نے جھٹکے سے اٹھتے ہوے کہا۔
کیا ؟؟؟"
امل نے گاڑی کھڑی کرتے ہوے پوچھا۔
"رضیہ گنڈوں میں پھس گئی "
دانیال نے کہتے ہی اندر کی جانب دھوڑ لگا دی۔
ہاہا چلو کوئی نہیں ہمیں گنڈہ تو بنایا ہی بنایا اپنی جنس بھی بدلا دی رضیہ "
امل اور فلک ہنستے ہوے اندر کی جانب بڑھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو فلک بیٹا اللّه انھیں صحت دے جاؤ اب تھوڑا ریسٹ کر لو ۔
اسما بیگم نے فلک کو گلے لگاتے ہوے کہا۔
جی انٹی!!!!
امل ،فلک اور دانیال دھوڑ کر اوپر کی جانب چلے گئے۔
اسما بیگم نے مسکراتے ہوے انھیں دیکھا ۔پھر جلدی سے شاہزیب صاحب کو فون کیا۔
انھیں شام میں فرحان صاحب کی عیادت بھی کرنے جانا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس وقت اسما بیگم اور شاہزیب صاحب عیادت کر کے واپس لوٹے تو گھر میں ایک طوفان بتمیزی مچا ہوا تھا۔
باتمیز دل گانے کے لیرکس وہ دونوں کلیرلی نیچے لاؤنج میں کھڑے ہو کر بھی سن سکتے تھے۔
اب لیرکس میں رنبیر کپور دیپیکا پڈکون کو اپنے دل کے باتمیز ہونے کا افسانہ سنا رہا تھا۔
انہوں نے سب سے پہلے امل کے کمرے میں جھانک کر دیکھا تو وہ کمرہ کم اور کسی عجیب سی دنیا کا نقشہ زیادہ پیش کر رہا تھا ظاہر سی بات ہے امل دانیال اور فلک اکھٹے تھے ۔
زمین پر جابجا پاپ کارن اور ٹین پیک کے خالی ڈبے پڑے تھے ۔،بیڈ کی بیڈشیٹز کو زمین شیٹ کہنا بہتر ہوگا ،بیڈ کا میٹریس بھی دروازے کے پاس ہی پڑا تھا ،سرهانے اور کوشنز ارد گرد اپنے شاڑوں سے بےنیاز پڑے تھے اور اپنے بتمیز ہونے کا ثبوت پیش کر رہے تھے۔،
اسما بیگم نے ریلینگ سے لٹک کر نیچے کام کرتی شازو کو آواز دی ۔
شاذو ۔۔۔۔!!!
جی بی بی جی ؟؟؟
وہ بوتل کے جن کی طرح فورا آئی۔
صفائی کردو امو کے کمرے کی ۔۔۔"
جی بی بی جی ۔۔۔!!
شازو سر ہلاتی امل کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
اور اسما بیگم دانیال کے کمرے کی جانب بڑھ گئیں جیسے یہ عام بات تھی ۔
"اللّه پوچھے ان تینوں شیطانوں کو ذرا جو چین ہو ؟
اگر انہی کی جگہ میری اولاد ہوتی تو اب تک تو میں انھیں پیٹ پیٹ کے ادھ موا کر دیتی مگر بیگم صاحبہ کے یہاں تو یہ روز کا معملا ہے اور بیگم صاحبہ مجال جو کچھ کہیں؟۔بیس ،بیس کے ہو گئے ابھی تک ان کی عقل گھٹنوں میں ہے ۔"
بکھراو سمیٹتے ہوے شازو بڑبڑآئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہزیب صاحب اپنے کسی کام سے جا چکے تھے ۔
اسما بیگم دانیال کے کمرے میں داخل ہوئیں تو اس کمرے کی حالت بہت نازک تھی ۔
فل سپیکرز پر گانے چل رہے تھے ، بیڈشیٹز یہاں کی بھی بیڈ پر موجود نا تھیں ۔سینڈ بیگ پھٹ چکا تھا اور ریت پورے کمرے میں پھیلی ھوئی تھی ، تکیے کہاں تھے یہ وہ تینوں شیطان ہی جانتے تھے ۔
بیڈ کے ارد گرد خالی شاپر اور پیزے کے خالی ڈبے پڑے تھے اور بیڈ پر امل کے بلکل سامنے بیٹھے دانیال اور فلک کے سامنے چار پیزے کے ڈبے رکھے ہوے تھے اور ان دونوں میں شاید نہیں یقیناً زیادہ کھانے کا مقابلہ چل رہا تھا ۔
وہ اتنی سپیڈ سے کھا کم ٹھونس رہے تھے کہ ان کے پیچھے کتے چھوڑ دیے گئے ہوں ۔ جب کہ ان کے سامنے بیٹھی امل کا کاؤنٹ ڈاؤن جاری تھا ۔
مما کھائیں گی ؟؟
دانیال نے بھرے منہ سے کہا ۔
ہاہا دیکھا امل اب کھایا جو نہیں جا رہا تو بس انٹی کے بہانے کسک رہا ہے ۔
"تم چپ کرو مروت نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے مگر تمہے کیا پتا وہ کیا ہوتی ہے ؟"
دانیال نے اس کے ہاتھ میں پکڑا ایکسٹرا چیز ٹاپینگ والا پیزے کا پیس اچئکا ۔
(اور چیز دیکھ کر کون ظالم نا پگھل جائے ؟؟)
"بس کرو موٹی نا ہو جانا ۔۔"
فلک نے پیس چھیننے کے لیے ہاتھ بڑھانا چاہا مگر اس سے پہلے ہی وہ پورا کا پورا ٹکڑا منہ میں ڈال چکا تھا۔
ہا ۔۔۔۔۔۔۔''
فلک کا منہ صدماتی کفیت میں کھلا ہی رہ گیا۔جب کہ امل اور اسما بیگم اپنی مسکراہٹیں دبانے میں دہری ہو رہی تھیں۔
جانتی تھیں کہ اب ٹام اینڈ جیری کا شو شروع ہونے والا ہے ۔اور وہی ہوا ۔۔
ولایتی باندر ، بھوکڑ ، امریکی شودے ۔۔۔موٹے ،کٹے ۔سانڈ ۔۔۔!!!
اللّه کرے تمہاری بیوی تم سے باتھروم صاف کروایا کرے ۔
اللّه کرے تمہاری بیوی اتنی موٹی ہو جیسے غبارا
اللّه کرے وہ تمہارا کھانا بھی چھین کر کھا لیا کرے
اللّه کرے وہ تمہارے بچوں کا بھی چھین کر کھا لیا کرے
اللّه کرے وہ تمہارے ناک میں دم کر دے
وہ تمہارے سامنے چٹ پٹی چیزیں بنایا کرے اور پھر تمہارے سامنے ہی کھا لیا کرے۔
اللّه کرے تم پیزے کو ترسو اور ساتھ تمہارے بچے بھی
اللّه کرے وہ تم سے سارے گھر کی صفائی کروایا کرے
اور پوچھیاں بھی لگوایا کرے ۔
آمین !!!!!!
فلک سوں سوں کرتے اپنے ناک کو پونجھتے ہوے بولی ۔
دانیال کے اطمینان میں ذرا فرق نا آیا۔
"اور اللّه کرے وہ تم ہو۔۔!!"
آمین ۔۔۔!!!ثما آمین !!
دانیال نے اسی اطمینان سے کہا۔
اسما بیگم اور امل تو حیرت سے فلک کی بددعاوں کا سیشن سنتی رہیں پھر ایک دم ہی ان کے چھت پھاڑ قہقے گونجنے لگے۔
دانی کے بچے میں تمہے چھوڑوں گی نہیں ۔۔!!!
فلک جارہانہ تیوروں سے دانیال کی طرف بڑھی۔
"مزے کی بات بتاؤں ؟میں بھی یہی چاہتا ہوں "۔
دانیال دو قدم پیچھے ہوتے ہوے بولا ۔
کیا ؟؟؟
فلک ابھی بھی اسے شعلہ باز نگاہوں سے گھور رہی تھی ۔
"کہ تم مجھے کبھی بھی نہ چھوڑو !!!"
دانیال نے دانت نکالتے ہوے کہا ۔اور پھدک کر اسما بیگم کو سامنے سے ہٹاتا وہ باہر کی جانب دھوڑ گیا ۔
فلک صرف دانت پیس کر رہ گئی ۔
پھر مسکراہٹیں دبانے کی ناکام کوشیش کرتی امل اور اسما بیگم کو تیز نگاہوں سے گھورتی وہ پاؤں پٹختی باتھروم کی طرف بڑھ گئی۔
اسما بیگم مسکراتی ہوئی باہر کو بڑھ گئیں۔
اور امل بھی دانیال کو دیکھنے باہر کی طرف بڑھ گئی وہ جانتی تھی کہ اب فلک باتھروم سے تب ہی نکلے گی جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا ۔
شازو ۔۔۔!!!
وہ جو امل کے کمرے کی صفائی کرنے کے بعد کمر پر ہاتھ رکھے دوہری ہوتی باہر کو آرہی تھی اسما بیگم کے بلانے پر دانیال کے کمرے کی طرف بڑھی ۔اب سنگین گڑبڑ کا احساس ہو رہا تھا ۔
اللّه سائیں رحم !!
شازو بڑبڑآئی
جی بی بی ؟؟؟؟
کمرہ صاف کر دو دانی کا بھی ۔۔۔۔!!!
بی بی جی وہ میں نے نیچے کے پورشن کی صفائی کرنی ہے اب یہاں کی رضیہ کر لے گی ۔
ٹھیک ہے ۔۔۔!!!
اسما بیگم مسکراتے ہوے نیچے کی طرف بڑھ گئیں ۔
شکر الحمدلللہ ۔۔!!جان چھوٹی ۔۔۔!!!
ویسے دیکھوں تو کتنا گند ڈالا ہے ؟؟
ہائے میرے اللّه میں تو ٹھیک رہ گئی ۔ آہا رضیہ پھسی او پھسی ۔۔۔!!
شاذو ہنستی ہوئی نیچے کی طرف بڑھ گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مما یہ امو اور فلک کہاں گئی ہیں ؟
"مت پوچھو امل نے بڑی مشکلوں سے منایا اسے اور اب دونوں بازار گئی ہیں ۔"
اسما بیگم نے کافی پیھنٹتے ہوے کہا ۔
رات کو سب لاؤنج میں بیٹھتے تو دن بھر کی باتوں کے علاوہ وہ سب کافی پینے کے بھی عادی تھے ۔یہ وقت فیملی ٹائم ہوتا جس میں ہر حال میں انھیں ایک ساتھ بیٹھنا ہوتا تھا۔
(والدین اگر ماں اور باپ ہونے کے علاوہ بہترین ہمراز اور دوست ہوں تو یقین جانیں اس کے بعد دنیا کی کوئی ہی ایسی نعمت ہو جس کی اپ کو طلب ہو )
اف مما وہ تو پتا ہے مجھے ۔میرے حسین سے چہرے پر ہی دونوں بائیک کا دھواں اڑا کر نکلی ہیں ۔بس یہ بتا دیں کہ وہ کرنے کیا گئی ہیں ؟"
دانیال نے اپنے چہرے کو فون کیمرا میں دیکھتے ہوے کہا۔
"بیکری گئی ہیں آجائیں گی "
اب وہ پھینٹی گئی کافی کو ابلتے دودھ میں ڈال رہی تھیں ۔ایک دم ہی دودھ کا رنگ بدلا تھا ۔
"ہائے اللّه مجھے نہیں لے کر گئیں "
دانیال نے دہائی دی۔
"نہ تو تمہے گود میں بیٹھا کر لے جاتیں ؟"
کافی ابلتی ہوئی سطح پر آتی اور پھر نیچے چلے جاتی۔
نہیں تو کیا تھا ؟لے جاتی اتنا سا میں بچہ ہوں پورا آجاتا آسانی سے "
دانیال نے آنکھ دباتے ہوے کہا ۔
کافی مسلسل کڑھ رہی تھی ۔اسما بیگم نے ہونہہ کے انداز میں سر جھٹکا اور نکالے گئے کپز میں ہی کافی ڈالنے لگیں ۔
لو آگئیں !!!!
گیراج میں بائیک رکنے کی آواز پر دانیال پھدکتا باہر کو لپکا۔
امل دانیال آرہا ہے میرا چاکلیٹز کا شاپر وہاں پودے کے پیچھے چھپا دو ۔
بائیک کی پارکنگ کرتی فلک دانیال کو آتا دیکھ چکی تھی ۔
"کہاں سے آنا ہو رہا ہے ؟"
دانیال نے کڑے تیوروں سے پوچھا ۔
"جب پتا ہے تو پوچھ کیوں رہے ہو ؟"
فلک ہیلمٹ اتارتے ہوے اندر کی جانب بڑھ گئی۔
"تم دونوں کے ہاتھ خالی کیوں ہیں ؟ آئی مین کے بازار جانا پھر خالی ہاتھ واپس لوٹنا کچھ سوٹ نہیں کرتا "
دانیال سر کھجاتے ہوے بولا ۔
"پر ہم پر کرتا ہے "
فلک کہتی اندر کی طرف بڑھ گئی ۔
دانیال نے امل کی طرف معصومیت سے دیکھا ۔
کیا ایک بھی چاکلیٹ نہیں لائی ؟"
نہیں ۔۔۔!!ایک بھی نہیں اور پھٹ جانا ہے کسی دن تم دونوں نے کھا کھا کر ۔۔۔۔!!!!
شودے ۔۔۔!!
امل کہہ کر رکی نہیں نیچے چلی گئی ۔اور دانیال اتنا سہ منہ لے کر رہ گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تایا ابا کی طبیعت کیسی ہے ؟"
وہ چاروں اس وقت گراؤنڈ میں بیٹھے تھے ۔
آریان نے بلیو شرٹ کے ساتھ بلیو ہی جینز پہنی ہوئی تھی ۔بالوں کو جیل سے ایک طرف کو سیٹ کیا ہوا تھا ۔جب کہ امل ،دانیال اور فلک نے نیوی بلیو ٹی شرٹز کے ساتھ خاکی جینز پہنی تھیں ۔
آریان اپنی اسائنمنٹ بناتے ہوے گاہے بگاہے بلکل نارمل سی بیٹھی امل کو بھی دیکھ رہا تھا جو فلک سے باتوں میں پوری طرح مگن تھی ۔
"ٹھیک ہیں اب وہ اللّه کا شکر ہے "
فلک نے مسکراتے ہوے کہا ۔
"چلو بابا تو اچھے کل کے جا کر بیٹھے ہیں نہ وہ واپس آنا چاہتے ہیں نہ تایا ابا آنے دے رہے ہیں "
آریان نے ٹائپنگ کے دوران کہا ۔
امل اس دوران ان کی باتیں سنتے ہوے بھی بائیں جانب بیٹھے دانیال سے باتیں کر رہی تھی ۔
"تمہے بل آتا ہے ؟اپنے گھر ہی ہیں ۔میں کل امو اور دانی کے گھر رہی ہوں اور آج صبح بابا لوگ گھر واپس آگے تھے ان سے مل کر ہی یونی آئی ہوں ۔چاچو بھی بہت خوش تھے ۔ارو مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ مت پوچھو "
فلک نے جھومتے ہوے کہا ۔
"اچھا ٹھیک ہے نہیں پوچھتے ۔تم چاکلیٹز نکالو کل والی یار ۔۔۔!!!"
امل کے چاکلیٹ کہنے پر دانیال کی آنکھیں چمک اٹھیں جنہے فلک نے بھی دیکھا ۔
"اچھا لیکن مجھے تھوڑا سا کام ہے آؤ کینٹین پر چلیں امو میٹھے سے پہلے کچھ نمکین بھی ہو جائے ۔
"ہاں چلو ۔۔۔!!
وہ دونوں ہاتھ جھاڑتی اٹھیں ۔
"دانیال نے ترچھی نگاہوں سے آریان کی طرف دیکھا جو اس کی ان نگاہوں کا مطلب بخوبی جان چکا تھا ۔
نہیں ۔۔۔!!
اس نے آنکھوں سے اسے باز رہنے کا کہا ۔مگر وہ دانیال ہی کیا جو مانے ؟؟
چھوڑو نہ یار کہ دیں گے کہ تم گھر بھول آئی ہو گی اور آدھی آدھی کر لیں گے ۔
فلک کے بیگ سے چاکلیٹ کا بڑا سا ڈبہ نکالتے ہوے دانیال نے کہا ۔
چاکلیٹ اس کی آنکھوں کو خیرا کر چکی تھیں ۔
آریان اس ڈبے میں سکسٹین چاکلیٹز ہیں ۔
(دس_بارہ کی گھنتی چھوڑتے ہوے دانیال نے کہا )
تو اس حساب سے سات تمہاری اور نو میری ٹھیک نہ ؟؟؟
دانیال نے تائیدی انداز میں آریان سے پوچھا نہیں تھا اسے بتایا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے باکس کھولا اور سات چاکلیٹ آریان کی طرف بڑھا دیں ۔
آریان نے کندھے اچکائے اور ریپر کھول کر اپنی چاکلیٹ کھانے لگا ۔
گاہے بگاہے وہ دانیال کو بھی دیکھ رہا تھا جو کسی نہ کسی طرح چار فل سائز چاکلیٹز اپنی جیب میں ڈالنے میں کامیاب ہو چکا تھا اور اب اپنی شرٹ کی جیبوں کو بھی بھر رہا تھا ۔دانیال آریان کو مکمل طور پر اگنور کیے اب اپنے شوز میں بھی ایک ایک چاکلیٹ مہارت سے چھپا چکا تھا ۔دو چاکلیٹز وہ پچھلی جیب میں بھی رکھ چکا تھا ۔
"آہ ہو گیا "
دانیال ہاتھ جھاڑتے ہوے بولا ۔
"ویسے چاکلیٹ سکسٹین ہی تھیں نہ ؟؟"
آریان نے آبرو اچکاتے ہوے پوچھا تو دانیال گڑبڑایا ۔
"اں ۔ ۔ میرے حصے پہ نظر نہ رکھو جس کے نصیب میں جتنا ہوتا وہ کھا لیتا ہے ۔"
دانیال نے اسے گھورتے ہوے ریپر اتارا اور اطمینان سے مزے لے ،لے کر کھانے لگا ۔
"اچھا اچھا باقی کب کھاؤ گے ؟"
آریان بھی اپنی پانچویں چاکلیٹ سے بھر پور طریقے سے انصاف کرتے ہوے بولا ۔
"باس رات کو نرم نرم بستر پر لیٹ کر آہ مزہ آجاے گا اور ساتھ میں دشمن کی غیر ہوتی حالت کو یاد کروں گا تو لطف دو بالا ہو جائے گا ۔
آہا ۔۔۔۔یس ۔ ۔ ۔ ۔ "
دانیال مزے لیتے ہوے بولا ۔
"ہمممممم ۔۔۔اب یہ بتاؤ یہ ریپر کہاں پھینکوں ؟؟"
ایسا کرو میرے بیگ میں ڈال دو نیچے نہ گرانا فلک دیکھ لے گی ۔"
دانیال نے آریان سے ریپر لیے اور اپنی طرف سے انتہائی ہوشیار بنتے ہوے اس نے ریپر اپنے بیگ میں ڈال دیے اور پھر دونوں بیبے بچے بن کر پڑھنے لگے ۔
آہا ۔ ۔ ۔ ۔ گرما گرم سموسے ۔۔۔!!!
فلک نے سموسوں کی پلیٹ دانیال کے ہاتھ میں دی ۔
"اور میرے ؟"
آریان نے خفگی سے پوچھا ۔
"امو لا رہی ہے "
فلک اور دانیال اپنے کھانے پی ٹوٹ چکے تھے اور آریان انھے مسکراتے ہوے دیکھ رہا تھا ۔
کون کہتا ہے کہ بچپن کی عادتیں بدل جاتی ہیں ؟
کچھ عادتیں نہیں بدلتیں !!!!
وہ وقت کے ساتھ پختا ہوتی ہیں "
"اہو آریان اب پکڑ بھی لیں میرے ہاتھ تھک گئے ہیں اب "
امل کے کہنے پر آریان نے اس پر ایک سنجیدہ سی نظر ڈالی اور پلیٹ لے لی ۔
امل بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی ۔
تو کیا اسے کوئی فرق نہیں پڑتا ؟؟؟
یا یہ بھول گئی سب وعدے ؟
شاید یہ بھی اصلیت جاننے کے بعد بدگمان ہو گئی ہو ؟
اسے ہمارا بچپن یاد ہو گا ؟
اہو کیسے نہیں ہو گا یہ کوئی اتنی چھوٹی بھی نہیں تھی "
سر جھٹک کر آریان کھانا کھانے لگا ۔
چلو چلو اب چاکلیٹ ٹائم ۔۔!!!!
فلک نے اعلانیہ انداز میں کہا اور اپنے بیگ میں جھکی تو دھک سے رہ گئی ۔
ہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!!
فلک کی چیخ نما آواز نکلی ۔
میری چاکلیٹز ؟؟؟
فلک نے دانیال کی طرف گھور کر دیکھا تو وہ آرام سے بیٹھا آریان کی طرف متوجہ تھا ۔امل کو سو فیصد یقین تھا کہ یہ کام دانیال کا ہی ہے ۔
اس کی نظر دانیال کے عقب میں گئی تو وہاں چاکلیٹ کا خالی ڈبہ اس کا منہ چڑا رہا تھا ۔
فلک اور امل کو ایک لمحہ لگا ساری بات سمجھنے میں ۔۔۔۔۔
دانییییییی ۔۔۔!!!!!!!
امل اور فلک اس پر ایک دم جھپٹیں ۔
"میں نے نہیں کھائیں سچی !!!"
دانیال معصوم صورت بنا کر بولا تو امل اور فلک کا پارا ہائی ہو گیا جب کہ آریان اپنی ہنسی دبانے کی کوشش میں بری طرح ناکام ہو رہا تھا ۔
"بتاؤں تمہے ہاں ؟؟؟کھڑے ہو شاباش !!"
فلک کے کہنے پر دانیال تابعداری سے سر جھکا کر کھڑا ہو گیا ۔
پینٹ کی پاکٹ سے نکالو ۔۔!!!
فلک نہیں۔۔۔۔۔۔۔"
*چپ کر کے نکالو "
فلک کے پھاڑ کھانے والے لہجے میں کہنے پر دانیال نے اپنی پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر معصومیت سے فلک کو دیکھا جس کے گھورنے پر اس نے فورا چار چاکلیٹز اس کی طرف بڑھا دیں ۔
"اچھا بس اب خوش ؟"
دانیال دوبارہ بیٹھنے ہی والا تھا جب ایک بار پھر فلک کے کہنے پر کھڑا ہو گیا ۔
چپ کر کے کھڑے رہو سمجھے ؟؟؟
اور اب شرٹ کی پاکٹ خالی کرو شاباش "
فلککک ۔۔۔۔"
چپ !!!!!!!
اچھا ۔۔۔۔۔۔
دانیال نے اپنی شرٹ کی پاکٹ خالی کی اور دیدہ زیب نظروں سے چاکلیٹ کو دیکھا جو اس کی قسمت میں ہی نہ تھی ۔
"چلو شاباش اب بیک پاکٹ خالی کرو "
فلک نے اسے گھورتے ہوے کہا ۔
اب بس ختم ہو گئی ہیں یار کیا مسلہ ہے ؟؟"
دانیال نے چڑ کر کہا ۔
نکالو ۔۔۔۔!!!!!!!!!!
دانیال نے بچارگی سے آریان اور امل کو دیکھا جو مسکراہٹ دباتے دوہرے ہو چکے تھے ۔
دانیال نے بیک پاکٹ خالی کیں اور فلک کی طرف بڑھا دیں ۔
کیا ایک بھی ملنے کا چانس نہیں ؟؟؟
اس نے بےچارگی سے کہا ۔اب بس رونے کی کثر ہی باقی رہ گئی تھی کہاں بیچارے نے سوچا تھا کہ رات میں مزہ دوبالا کرے گا اور اب کہاں ؟؟؟؟
امم یہ تو تھوڑی ہیں ابھی بھی ۔۔۔کہاں چھپا سکتا ہے ؟؟؟ آہہاں ۔۔۔۔
شوز خالی کرو !
دانیال نے تپ کر جوتوں میں چھپائی چاکلیٹ دے مارنے والے انداز میں اسے دی ماری ۔
مرو سب اور اب اگر انڈر گارمینٹ چیک کرنے ہیں تو کپڑے بھی اتار دوں؟؟؟
دانیال پھاڑ کھانے والے لہجے میں بولا ۔
نہیں بس اس کی ضرورت نہیں "
فلک نے اس طرح کہا کہ گویا احسان عظیم کیا ہو ۔
دانیال کا تو انگ انگ جلس گیا ۔
"فلک آریان نے پانچ کھائیں ہیں یہ دیکھو میرے پاس ثبوت ہے "
دانیال نے کہتے ھی اپنے بیگ سے ریپر نکال کر فلک کے سامنے کیے ۔
ہنن جیسے کہ میں تمہے جانتی ھی نہیں نا ؟
مجھے پتا ہے آریان نے نہیں کھائیں ۔
فلک نے کہتے ھی وہ سب ریپر دانیال کے منہ پہ دے مارے ۔
دانیال اتنا سا منہ لے کر رہ گیا اور کینہ توڑ نظروں سے آریان کو دیکھا جو ڈھٹائی سے ہنس رہا تھا ۔
فلک نے آریان اور امل کو ان کے حصے کی چاکلیٹز دیں تو دانیال کے منہ میں پانی بھرنے لگا ۔ ساری ناراضگی پل بھر میں ھی ختم ہو گئی تھی ۔
"یار کیا ایک بھی نہیں ملے گی ؟"
دانیال نے معصومیت سے پوچھا ۔
اممم ۔۔۔۔ایک بھی نہیں "
فلک نے نفی میں سر ہلایا تو دانیال اب کی بار خفگی سے منہ پھلا کر بیٹھ گیا ۔
"اب تم کدھر جا رہے ہو ؟"
آریان کو اٹھتا دیکھ کر فلک نے پوچھا البتہ امل اور دانیال نے محض اسے ایک نظر ہی دیکھا ۔
"لائبریری "
مختصر سا جواب دیتا آریان ایک نظر امل کو دیکھ کر لائبریری کی طرف چل دیا تو فلک نے کندھے اچکائے اور اپنی چاکلیٹ کھانے لگی وہ دانیال کا خود کو گھور گھور کر دیکھنا محسوس کر سکتی تھی ۔
"آو ہم بھی لائبریری چلیں "
امل نے کھڑے ہوتے ہوے مشورا دیا ۔
ہنن تم ہی جاؤ آو دانی ہم اپنا مشن پورا کرنے چلیں جس کے لیے اللّه نے ہمیں اس دنیا میں بھیجا ہے "
دانیال کو بازو سے پکڑ کر اٹھاتے ہوے فلک نے کہا ۔
وہ کہاں اس کی ناراضگی برداشت کرتی تھی ؟؟
چاکلیٹ دو گی نہ ؟؟
دانیال نے لجاجت سے پوچھا ۔
ٹھیک ہے "
فلک مسکراتے ہوے بولی ۔
پکا نہ ؟؟؟
ہاں بابا پکا اب چلو بھی رزق کو انتظار نہیں کرواتے ۔
ہاں ہاں چلو !!!!
دانیال اور فلک امل کو وہیں چھوڑ کر اپنے مشن یعنی کھانے کے مشن پر نکل پڑے ۔
کندھے اچکا تی ہوئی امل بھی لائبریری کی طرف بڑھ گئی۔ اسے دور سے ہی آریان ایک لڑکی کے ساتھ بیٹھا نظر آیا امل کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔خود سے کیے سارے وعدے وہ بھول چکی تھی یاد تھا تو صرف یہ کہ آریان لڑکی کے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔
امل ایک طرف بیٹھ گئی جہاں سے وہ آریان اور اس لڑکی کا نیم رخ دیکھ سکتی تھی ۔
امل کا دل چاہا کہ اس دانت نکلتی لڑکی کے دانت واقع نکال دے ۔
اس لڑکی کے وہاں سے اٹھتے ہی امل ایک ہی لمحے میں آریان تک پہنچی جو سر جھکائے کتاب کے مطالعے میں مشغول تھا ۔
آہٹ پہ سر اٹھا کر امل کو حیرانی سے دیکھا۔
تم ؟؟
کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں ؟
امل نے جھجھکتے ہوے پوچھا ۔
چھ سال بعد وہ اس سے پہلی بار اکیلی مل رہی تھی ۔
ہممممم ۔۔۔!!!
آریان نے کتاب بند کر کے ایک طرف رکھی ۔
"کچھ کہنا چاہتی ہو ؟"
آریان نے نرمی سے پوچھا ۔
اس کا ریلکس سا انداز امل کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کر گیا ۔
"کیسے ہو ؟''
جب کچھ سجھائی ہی نہ دیا تو حال پوچھنا ہی یاد آیا ۔
میں ؟؟؟ سچ بتاؤں یا جھوٹ ؟
آریان نے مسکراتے ہوے اسے دیکھا ۔
"سچ صرف سچ "
امل نے سنجیدگی سے کہا۔
"واہ ہم میں بھی حال پوچھنے کی نوبت آگئی ہے امل ؟ ہم تو وہ تھے جو آنکھوں سے ہی ایک دوسرے کے دل کا حال جان لیتے تھے ۔"
آریان نے استہزائیہ انداز اپنایا ۔
"ہاں کیوں کہ پہلے میں تمہاری امو تھی ایئر اب امل "
امل نے بھی اپنی بات پر زور دیتے ہوے کہا ۔
"پہلے جو تھا وہ گزر گیا ہے امل "
آریان نے سکون سے کہا ۔
"اس نے اسے پھر امو کہ کر نہیں پکارا تو کہیں اس کی زندگی میں کوئی لڑکی تو نہیں آگئی؟"
امل نے اپنے ہاتھوں پر نظریں جماتے ہوے سوچا ۔
آریان کی نظروں کا ارتکاز محسوس کرتے ہوے امل نے اسے چور نگاہوں سے دیکھا مگر وہ بڑی خوبصورتی سے اپنی نظروں کو ہٹا گیا ۔
اس نے اس شخص کو ایک نظر دیکھا جو بہت گہرا تھا جسے وہ بھی سمجھ نہیں سکتی تھی چھ سال پہلے کی بات اور تھی تب وہ اسے جانتی تھی مگر ان چھ سالوں کے فاصلے نے آریان کو اس کے لیے اجنبی کر دیا تھا ۔وہ صرف اس پہ گزرے ظاہری حالات کو جانتی تھی وہ اس کی اندرونی حالت کو نہیں جانتی تھی وہ اس کے دل کی کیفیات سے انجان تھی ۔
"کیا کوئی شخص اس قدر بدل سکتا ہے کہ اپ کا دل اس کے اس ردوبدل کو آسانی سے قبول کر سکے ؟جس شخص کے بدلنے کے بارے میں اپ نے خواب میں بھی نہ سوچا ہو ؟"
اذیت ہی اذیت تھی اس کے لہجے میں ۔
آریان اس کا اشارہ سمجھتے ہوے زخمی سا مسکرا دیا ۔
"وقت،حالات اور اپنے سے جڑے رشتے بدل دیتے ہیں انسان کو!اپنوں سے دوری اور ان اپنوں کی بےاعتمادی انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے باپ کا سایہ اولاد کے لیے بہت معنی رکھتا ہے امل ۔میرے سرپرست کی ہمت اپنوں ہی کی بےاعتباری نے توڑی تھی ۔جانتی ہو اتنی میری عمر نہیں تھی جتنی میرے سر پر ذمہ داریاں تھیں ۔"
ایک کرب تھا اس کے لہجے میں ۔اپنی ذات کا پہلو وہ اس کے سامنے کھول رہا تھا جو اس کے دل کی مکین تھی ۔
"سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا "
کچھ دیر خاموشی کے بعد وہ محض اتنا ہی بول سکی ۔
"میں ناامید نہیں ہوں یہ میری ہمت ہی ہے جو میں برداشت کر رہا ہوں میں دوبارہ رشتوں کی اس کچی ڈور کو جوڑ رہا ہوں۔انسان کے بس میں سب کچھ ہوتا ہے وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔اس کی صلاحیتیں وقت آنے پر اس کے سامنے آتی ہیں ۔جانتی ہو جب ذمہ داریوں کا بوجھ پڑتا ہے تو انسان وہ سب کچھ کرنے لگتا ہے جس کے لیے وہ کبھی یہ کہتا تھا کہ یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے "
کچھ توقف کے بعد وہ اس کی طرف دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا ۔
وہ کیا کہ سکتی تھی ؟وہ بھلا اسے کچھ کہنے کے قابل چھوڑتا ہی کہاں تھا ؟ وہ شخص ایک ساحر تھا اور اس کی باتیں اسے لاجواب کر دیتی تھیں ۔اس کی مسکراتی نظروں کو دیکھ کر اس نے نفی میں سر ہلایا ۔کمال تھا یہ شخص درد میں بھی مسکرانا جانتا تھا ۔اپنی فائل تھامتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔
آریان کی نظروں نے بہت دور تک امل کا پیچھا کیا تھا یہاں تک کہ وہ لائبریری کے دروازے سے باہر جا چکی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا اب بل تم دو "
دانیال نے روٹھی ہوئی عورتوں جیسا منہ بنا کر کہا ۔
بریانی سے وہ اپنی تواضع کر چکا تھا اور فلک نے بھی بھر پور اس کا ساتھ دیا تھا ۔
"پر میں آج پیسے لائی ہی نہیں یار "
فلک نے اپنا بیگ چیک کرتے ہوے کہا ۔
"میں کیا کروں؟؟"
کندھے اچکاتے ہوے دانیال نے لاتعلقی کا اظہار کیا ۔
فلک نے نظریں گھما کر شکار کو ڈھونڈنا چاہا جو بہت جلد اسے نظر بھی آگیا ۔ فلک نے آبرو اچکاتے ہوے دانیال کی جانب دیکھا جس نے پھر لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔
فلک مسکراتے ہوے اٹھی اور اس ٹیبل کی طرف بڑھ گئی جہاں بیٹھا لڑکا اپنی کتابوں میں غرک تھا ۔
"اکسکیوز می پلیز ۔۔!!"
فلک نے ٹیبل بجاتے ہوے کہا ۔
"جی کہییے "
احمر نے اپنی چشمے لگی آنکھوں سے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوے پوچھا ۔
"ہیلو ۔۔۔!!ایم فلک !!"
فلک نے دانت پیستے ہوے کہا ۔
زہر لگتے تھے اسے وہ لڑکے جو لڑکیوں کا ایکسرے کرتے تھے۔فلک کا دل چاہا کہ اس کے سامنے کے دانت توڑ کر اس سے پوچھے "کمینے ،بےشرم تمہارے گھر ماں نہیں ہے ؟
" اب اکثر کو کہہ دو کہ بہن نہیں ہے ؟
تو ڈھٹائی کی ساری حدیں عبور کرتے ہوے کہتے ہیں نہیں بہن تو ہماری ہے ہی نہیں "
اس لیے فلک کا ماننا یہ تھا کہ ماں کے بارے میں پوچھ لیا جائے وہ تو خیر ہو گی نا ؟"
"جی فلک جی بولیں ؟"
احمر نے مسکراتے ہوے پوچھا ۔
"میں نا ایکچولی آج جلدی میں اپنے پیسے گھر ہی بھول آئی اب چیک کیا تو پیسے تھے ہی نہیں !!!اور میں نے بریانی کھالی اس ساری کینٹین میں آپ ہی مجھے بھلے مانس لگ رہے تھے تو سوچا ادھار ہی لینا ہے کسی شریف النفس انسان سے لے لوں ۔میں آپ کو کل لوٹا دوں گی اگر آپ کو کوئی مسئلہ نہیں تو ۔۔۔!!! "
"اور فلک جانتی تھی کہ اسے کوئی مسلہ نہیں ہو گا "
"مسلہ کیسا جی ؟ یہ لیں جی اور واپس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں جی سمجھ لی جیے گا آج کی بریانی احمر نے کھلا دی جی "
احمر نے باتوں میں "جی" کا خاصا تڑکا لگاتے ہوے کہا ۔
فلک شکریہ کہتے ہوے کاؤنٹر کی طرف بڑھ گئی اور احمر اسے دیکھ کر مسکراتا ہوا باہر کی جانب بڑھ گیا ۔
"ہے !!!دانی !!!"
تبھی بینش دانیال کے سامنے آبیٹھی ۔
ہیلو !!!"
دانیال نے مروتاً کہا مگر جب کاؤنٹر کے پاس کھڑی فلک کا لال بھبھوکا چہرہ دیکھا تو جی جان سے بینش کی طرف متوجہ ہوا ۔
"تمہاری بیوی کہاں ہے ؟"
بینش نے حیرت سے پوچھا ۔
"کون سی بیوی ؟
کہاں کی بیوی ؟"
دانیال اس بات کو بھلا چکا تھا ۔
"یعنی وہ لڑکی جھوٹ بول رہی تھی مجھے تبھی شک ہو گیا تھا کہاں تم اور کہاں وہ چوہئیا۔۔۔ہنن "
بینش نے ناک سکوڑتے ہوے کہا ۔
اور دانیال نے اسی لمحے دل میں سوچا تھا کہ اگر وہ اس چوہئیا کی خوراک دیکھ لے اور کبھی جو اس کا پنچ کھا لے جو صرف دانیال کے لیے مخصوس تھا تو تب وہ کبھی اسے ایسا کہنے کی غلطی نا کرتی "
ہنن خود کیا ہے ڈائیٹنگ کی ماری سوکھی سڑی عوام ۔میری فلک کو ایسا بولتی ہے "
دانیال نے نخوت سے سوچا مگر فلک کو جلانا بھی تو تھا نا ؟؟
ارے اسے میں نہیں بھول سکتا بیوی کیا کہو اسے آفت کہ لو کیوں کے میں اسے آفت کے نام سے ھی جانتا ہوں "
دانیال نے سکون سے کہا اور بینش جسے ابھی سکون ھی انے لگا تھا بےسکون ہو کر رہ گئی ۔
"آہا بینش آپی آپ ؟؟"
فلک نے مسکرا کر بینش کی طرف ہاتھ بڑھایا جسے اس نے اگنور کیا اور نزاکت سے اپنے بالوں کو جھٹکتے ہوے اٹھی ۔
"آپی مائی فٹ "ایکسکیوز می """
بینش نے کڑھ کر کہا ۔
"یو ارے ایکسکیوزڈ "
فلک نے مسکراتے ہوے کہا ۔
بینش اس پر اور دانیال پر ایک سلگتی ہوئی نظر ڈالتے ہوے وہاں سے واک اوٹ کر گئی ۔
"ارےےےے چلو بھئی امو کو ڈھونڈیں اور گھر چلیں ۔"
فلک نے دانیال کو باہر کی جانب گھسیٹتے ہوے کہا۔
"پر امل ہے کہاں ؟"
دانیال نے ہنسی دباتے ہوے پوچھا اسے فلک کا ایکشن موڈ ھی اچھا لگتا تھا کہ سانپ بھی مر کھپ جاتا اور لاٹھی بھی سلامت رہتی ۔
"لائبریری تھی آریان کے ساتھ "
وہ لائبریری پہنچے تو آریان اکیلا بیٹھا رہا فلک اور دانیال آریان کی طرف بڑھے ۔
آریان امل کہاں ہے ؟
فلک نے اسے ہلاتے ہوے پوچھا تو وہ اپنی سوچوں کو جھٹکتا ان کی طرف مڑا ۔
"ہیں؟؟؟کیا مطلب وہ تھوڑی دیر پہلے ھی باہر گئی ہے۔
آریان نے حیرانگی سے کہا ۔
وہ ہمارے پاس تو آئی ھی نہیں !!!
فلک نے پریشانی سے کہا ۔
ڈیم اٹ بیوقوف لڑکی پتا نہیں کہاں گئی "
آریان اپنی کتابیں سمیٹتے ہوے باہر کو لپکا تو فلک اور دانیال بھی اس کے ساتھ باہر کو بڑھے ۔
آریان نے لائبریری کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر ارد گرد نظر دھوڑائی۔
وہ اسے لائبریری سے دور ایک بینچ پر بیٹھی ہوئی نظر آئی ۔وہ تینوں اس طرف بڑھے ۔
امل ۔۔۔!!!
فلک نے اسے بلایا ۔مگر جواب ندرات۔
امل !!!!
فلک نے اب کی بار اونچی آواز میں کہا مگر وہ سٹل بیٹھی سامنے دیکھ رہی تھی ۔
ان تینوں نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا وہاں لڑکیوں کا ایک گروپ بیٹھا تھا ۔آریان نے غور سے انھیں دیکھا اور پھر امل کی نظروں کے فوکس میں بیٹھی لڑکی کو دیکھا ۔
پہلا وہ حیران ہوا ؟
پھر بات سمجھ آتے ھی وہ زور زور سے ہنسنے لگا ۔
امل اسی لڑکی کو گھور رہی تھی جو لائبریری میں آریان کے ساتھ بیٹھی تھی ۔
فلک اور دانیال ابھی تک منہ کھولے آریان کو دیکھ رہے تھے جب کہ امل کے بس میں ہوتا تو وہ اس لڑکی کو اپنی نظروں سے ھی جلا کر راکھ کر دیتی ۔
فلک نے اب کہ امل کے بازو کو جھنجھوڑا ۔
آےےےے !!!!کچھ ہمیں بھی بتا دو ۔
امل آریان کے ہنسنے پر خجل سی ہو گئی ۔
چپ کرو چلو گھر چلیں ۔
امل ہاتھ جھاڑتے ہوے اٹھی ۔
ہممممم چلو ۔۔۔!!!
فلک نے آریان اور امل کو گھوری سے نوازتے ہوے کہا ۔
آریان نے مسکراتے ہوے سر جھٹکا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"السلام و علیکم !!!کیا ہو رہا ہے ؟؟؟"
آریان نے عالیہ کے کمرے میں داخل ہوتے ہوے پوچھا ۔
"امم کچھ نہیں پیکنگ کر رہی ہوں "
عالیہ نے مسکراتے ہوے سادگی سے کہا ۔
"اہو آپ کو تو سیاں جی سے ملنے کی بہت جلدی ہو رہی ہے "
آریان نے عالیہ کو چھیڑتے ہوے کہا ۔
"ارو پٹو گے اب تم مجھ سے "
عالیہ نے آریان کے کان کھینچتے ہوے کہا ۔
"اچ۔۔۔اچھا آپی چھوڑیں نا "
"کام کی بات کرو "
عالیہ نے اس کے بال بگاڑتے ہوے کہا ۔
"کام کی بات یہ ہے کھ میرے لیے ایک کپ سٹرونگ سی چائے بنا دیں ۔میں اپنے اسٹڈی روم میں جا رہا ہوں وہیں دے دی جیے گا "
آریان عالیہ کے بال بکھیرتا باہر کو دھوڑ گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنا بیگ ایک طرف رکھ کر وہ لایٹر اور سیگڑیٹ کی ڈبی اٹھائے اسٹڈی کی طرف بڑھ گیا ۔
اسٹڈی میں نیم اندھیرا تھا بائیں اور دائیں جانب بڑے بڑے بک ریگ تھے سامنے کی طرف ایک اسٹڈی ٹیبل پڑا تھا جس پہ مختلف فائلز پڑی تھیں اسٹڈی کی ایک دیوار پر جابجا امل کی تصویریں تھیں جو اس کے بچپن سے لے کر اب تک کی تھیں کچھ تصویروں میں وہ مسکرا رہی تھی ،کسی میں وہ کوئی بات کر رہی تھی اور کسی میں کھانا کھا رہی تھی اور کسی میں کھیل رہی تھی ۔
یہ تصویریں آریان نے مختلف موقعوں پر فلک کے موبائل سے نکالی تھیں اور اس بات کی خبر فلک کو بھی نا تھی ۔
وہ چلتا ہوا ان تصویروں تک گیا اور امل کی ایک مسکراتی تصویر کو دیکھنے لگا ۔ہاتھ بڑھا کر اس نے امل کے دائیں گال میں پڑتے ڈیمپل کو چھوا اور ایسا کرنے سے اس کے بائیں گال میں ڈیمپل ابھر کر معدوم ہوا ۔
اس نے ایک اور سیگریٹ سلگھائی اور فضا میں دھویں کا مرغولہ چھوڑا ۔ پھر چلتے ہوے کاوچ پڑ جا بیٹھا ۔
دھواں فضا میں پھیلنے لگا اور آریان اسے دیکھتے ماضی میں کھو گیا ۔
"آریان دیکھو نا میرے صرف دائیں گال پڑ ڈیمپل پڑتا ہے اور دانیال کے دونوں گالوں پہ "
امل نے آریان کے پاس بیٹھتے ہوے منہ بسورتے ہوے کہا ۔
"پھر کیا ہوا میرے بھی بائیں گال میں ھی پڑتا ہے ہم دونوں ساتھ ہوں گے تو ڈیمپل دو ہو جائیں گے نا "
آریان نے اس کے ڈیمپل اور اپنے ڈیمپل کو چھوتے ہوے کہا ۔
"آرے واہ یہ تو میں نے سوچا ھی نہیں تھا کتنا مزہ آے گا نا دانی کا بچہ اب جل جائے گا اور ۔۔۔"
آریان نے زخمی سا مسکراتے ہوے سیگریٹ کو ایش ٹرے میں مسلا ۔
"دیکھ لو امل میں آج بھی صرف تم سے ھی محبت کرتا ہوں ۔میں نے تم سے ہر لمحہ بس عشق ھی کیا ہے میرا عشق تمہارے لیے بےغرض اور مخلص ہے میں اپنے اس عشق کو ہر لمحہ تمہارے لیے بڑھتا ہوا ھی محسوس کرتا ہوں اور میرے لیے یہ احساس بہت معنی رکھتا ہے ۔"
وہ اس سے محبت کرتا تھا کتنی؟
وہ نہیں جانتا تھا ۔کب سے ؟
وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا ۔وہ کچھ بھی نہیں جانتا تھا وہ جانتا تھا تو بس اتنا کہ وہ اسے ہر لمحے خوش دیکھنا چاہتا ہے اسے مسکراتے دیکھنا چاہتا ہے ۔
"معاف کرنا ابھی تو میں خود بہت بھکرا ہوا ہوں خود کو سمیٹ لوں تو تمہے بھی سمیٹ لوں گا ۔تم صرف آریان آفندی کی ہو !!!!"
آریان نے مسکراتے ہوے دھویں کو فضا میں چھوڑا ۔لمحوں کا کھیل تھا اور دھواں فضا میں تخیل ہو گیا ۔
عالیہ نے اسٹڈی کا دروازہ کھولا تو بےاختیار کھانسنے لگی اس نے دھویں میں آنکھیں پھاڑ کر دیکھنا چاہا مگر کچھ دیکھ نا سکی ۔ادھر ادھر ہاتھ مار کر اس نے سوئچ بورڈ کے بٹن دبائے تو پورا کمرہ روشن ہو گیا ۔
آریان سامنے ھی کاوچ پہ بیٹھا سیگریٹ پہ سیگریٹ پھونک رہا تھا ۔سامنے پڑا ایش ٹرے بھی بھر چکا تھا ۔عالیہ جانتی تھی کہ اس کا بھائی یہ زہر بھی پیتا ہے مگر وہ اسے روک نہیں سکتی تھی ۔ یہاں تک کہ خود وہ بھی !!!
تمہاری عادتیں بہت بگڑ گئی ہیں جلد تمہاری عادتیں سدھارنے والی کو لانا پڑے گا ۔تمہے تو امل ھی روک سکتی ہے "
خفگی سے کہتے ہوے عالیہ نے اس کے ہاتھوں سے سیگریٹ لے کر ایش ٹرے میں پھینکی اور اسے چائے کا کپ پکڑایا ۔
"صیح بات ہے ہے جنہوں نے بگاڑی ہو وہی سدھار سکتے ہیں "
آریان نے سکون سے کہا ۔
ہاہاہا ۔۔۔اور کب تک تصویروں سے دل بھلاو گے ؟؟مجھے لگتا ہے بابا سے بات کرنی پڑے گی "
عالیہ نے ہنستے ہوے کہا ۔
چپ رہیں آپ !! ابھی مجھے ایم ایس سی تو کرنے دائیں پھر سی۔ایس۔ایس کروں گا ابھی ٹین ،چار سال تک سوچیے گا بھی مت مجھے بھی پڑھنے دیں اور اسے بھی !!نکمی بیوی نہیں چاہیے مجھے ۔"
آریان نے ہنستے ہوے کہا ۔
"لو بھائی تم تو واقعی سیریس ہو گئے میں تو مذاق کر رہی تھی "
عالیہ نے ہنسی دباتے ہوے کہا ۔
رہنے دیں شکر ہے یہ آپ کا مذاق تھا آپ کی بھابھی صاحبہ تو مجھ معصوم پہ شک ھی بہت کرتی ہیں اور آج تو حد ہو گئی بیچاری کائنات کو میرے ساتھ لائبریری میں بیٹھا دیکھ لیا اسے یوں گھور رہی تھیں گویا سالم ھی نگل لیں گی "
"ہووو ۔۔۔"
عالیہ نے سیٹی بجانے والے سٹائل میں ہونٹ گول کیے ۔
"اچھا اب ذرا فرش ہو کر نیچے آجانا کھانا کھا لو اور آج آفس نا جاؤ پیکنگ کر لینا دو تین دن تک شفٹ ہونا ہے اور ویسے بھی اپنی پیکنگ تو تم خود ھی کرو گے مجھ سے نہیں ہوتی "
عالیہ نے ہاتھ ہلاتے ہوے کہا ۔
"آپ سے کہہ بھی کون رہا ہے آپ اپنے سیاں جی سے ملنے کی تیاری کریں ہمارا کیا ہے ہم تو پہلے بھی خود ھی کرتے ہیں "
آریان نے مسکراتے ہوے کہا ۔
"جناب جو لڈو آپ کے دل میں پھوٹ رہے ہیں ان سے واقف ہیں ہم "
عالیہ نے فرضی کالر اچکاتے ہوے کہا اور باہر کی طرف بڑھ گئی ۔
آریان نے مسکراتے ہوے بند دروازے کو دیکھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے !!!!!!!!!!!!!
Reviews or votes lazmi diya karain and follow us on instagram @__novelianz___ for sneakpeaks and more updates😍r

ماہی وے ✔Where stories live. Discover now