ماہی وے قسط #8
بقلم مریم ،علیشا
یہ یقینا بینش کی ھی آواز تھی ۔
"بابا اب ختم کریں جلد اس ڈرامے کو میں تھک گئی ہوں بھائی بھائی کر کے "
"اففف بینش صبر کرو تمہاری یہی بے صبری ہمارے ہاتھوں میں آیا سب کچھ گنوا ھی نا دے "
"اھھہ۔۔۔ بابا یہ تو بتائیں ہمارے ہاتھ لگا ھی کیا ہے ؟"
"اچھا ٹھیک ہے مگر جو لگنا ہے وہ تمہاری بے صبری کی وجہ سے ہاتھوں سے ھی نا نکل جائے ۔"
فہد نے دیوار کا سہارا لیا ۔
"میں کہتی ھوں کیوں اتنی طول دے رہے ہیں اس معاملے کو ؟ ماریں اس فہد کو اور جان چھڑوائیں مجھ سے اب مزید انتظار نہی ہوتا "
"کرواتا ھوں بندوبست یہ سارے چکر اس کی کمبخت ماں کی وجہ سے گلے پڑے ہیں سیدھے سے ساری جائیداد میرے نام لگا دیتی تو نا اسے اتنا مارنا پیٹنا پڑتا مگر نکلی وہی فرنگی نا ۔۔!!! مرتے ہوے بھی ساری جائیداد اس فہد کے نام لگا گئی تاکے سمبھالو ان صاحب زادے کو جب تک بیس کے نہیں ہو جاتے ۔اب بائیس کا ہوگیا ہے مگر کوئی طریقہ ہاتھ نہیں لگ رہا ۔ اگر مروا دیا تو جائیداد ہاتھ سے نکل جانی ہے ۔ کوئی اور ھی طریقہ ڈھونڈھنا پڑے گا اچھا عذاب ہے یہ "
کیسا زہر خند لہجہ تھا ۔فہد نے گہرا سانس کھینچنا چاہا مگر سانسیں سینے میں ھی کہیں اٹک گئی تھیں ۔وہ بے دم ہو کر نیچے بیٹھتا گیا ۔یہ اس کے اپنے تھے اپنے ایسے تو نہیں ہوتے کہ منہ پر کچھ اور اور باہر سے کچھ اور ۔آج تک اسے یہی بتایا گیا تھا کہ اس کی ماں ایک بدچلن عورت تھی اور امریکا میں ھی کسی گاڑی کے نیچے آکر مر گئی تھی ۔ یہ موضوع ختم ہو گیا تھا اسی روز جس روز فہد کو یہ سب بتایا گیا کہ اس کی ماں نے اپنے کسی عاشق کے لیے طلاق لی تھی اور پھر اسی کے ساتھ حادثے میں ماری گئی فہد کو ھر لمحہ اس عورت سے نفرت محسوس ہوتی تھی جس نے اپنا گھر اور چار سال کا بچہ تک چھوڑ دیا تھا ۔لیکن بخت قریشی کی بیوی ذکیہ بیگم نے اسے پالا پوسا اور کبھی کسی چیز کی کمی نا ہونے دی ۔ان کا رویہ بلکل سگی ماؤں جیسا تھا ۔فہد کو ان کی ممتا نے ھر دکھ بھلا دیا تھا پھر بینش ہوئی بینش کی پیدائش پر ذکیہ بیگم زندگی سے منہ موڑ گئیں ان کے جانے کا سب سے زیادہ دکھ فہد کو ہوا تھا ایک بار پھر اس نے ماں کو کھو دیا تھا مگر اس چھوٹی سی گڑیا نے اسے بتایا کہ اب اس کی زندگی صرف اس کی اپنی ذات تک محدود نہی رہی اور پھر وہ اس چھوٹی سی گڑیا کے ساتھ مگن ہو گیا جو اس کے ہاتھوں میں کھیلتی، کھیلتی اتنی بڑی ہو گئی تھی کہ آج اس کو مارنے کے منصوبے بنانے لگی تھی ۔دولت کی ہوس انسان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے ؟ ساری عمر دولت کے پیچھے بھاگ کر آخر میں وہ دولت اسی دنیا میں ھی چھوڑ کر جانا پڑتی ہے۔
وہ اب کسی بات پر قہقہے لگا رہے تھے ۔
"کوئی بندو بست کرنا پڑے گا کہیں یہ آریان ہماری پول نا کھول دے۔اور ساری دولت ہاتھ سے نکل جائے ۔ ۔"
یہ بخت قریشی کی آواز تھی فہد ایک دفع پھر متوجہ ہوا اور اب کی بار وجہ آریان کا ذکر تھی ۔
"کیوں ؟"
"وہی جو اس کے باپ اور اس کے چاچو میں پھوٹ ڈالوا کر شیرز ہتھیانے چاہے تھے ۔شیرز تو ہتھیا نہیں سکا مگر وہ دونوں بھائی علیحدہ ضرور ہو گئے مگر وہی خون میں بڑی کشش ہوتی ہے پھر سے ساتھ رہنے لگے ہیں سنا ہے دونوں "
"لو بھئی کسی کو تو بخشا ہوتا "
بینش قہقہہ لگاتے ہوے بولی ۔
فہد دھندلائی آنکھوں اور کانپتے وجود کے ساتھ لڑکھڑاتا اپنے کمرے تک پہنچا ۔دروازہ بند کرتے ھی وہ بےدم ہو کر ایک بار پھر زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھتا چلا گیا ۔
ماما ۔۔۔۔۔میری ماما۔۔"
وہ اپنی سسکیوں کا گلا بمشکل گھونٹ رہا تھا ۔آنسو اس کی آنکھوں سے بہتے جا رہے تھے ۔ آج اس کے پاس کوئی اپنا نہی تھا جس کے سامنے وہ اپنے دکھ بیان کرتا ۔ساری رات وہ سیگریٹ پہ سیگریٹ پھونکتا اپنا غم ہلکا کرنے کی کوشش میں لگا رہا مگر یہ بھی اس کے اندر کی کھولن کو ختم نا کر سکا تو وہ کپڑوں سمیٹ ھی شاور کے نیچے کھڑا ہو گیا ۔مسلسل گریہ و زاری سے اس کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں ۔ آنکھوں کو ایک مرکز پر ٹھہرائے وہ مسلسل کسی گہری سوچ میں تھا ۔کچھ دیر بعد وہ انہیں گیلے کپڑوں میں باتھروم سے باہر آیا ۔دور کہیں فجر کی اذان ہو رہی تھی ۔اس نے کپڑے بدل کر وضو کیا ۔آریان کے ساتھ اکثر وہ جمعہ کی نماز پڑھنے جاتا تھا ۔اور اسے نماز پڑھ کر ایک عجیب سا سکون ملتا تھا ۔ اکثر کبھی وہ بیچیں ہوتا تو سکون نماز میں ھی تلاش کرتا تھا ۔ وہ مسجد کی طرف چل دیا ۔جو قدم رات کمرے میں آتے ہوے لڑکھڑا رہے تھے اب وہ انہیں قدموں کو مضبوطی سے زمین پر جمائے مسجد کی طرف جا رہا تھا ۔واپسی پر اس کے چہرے پر سکون پھیلا ہوا تھا کیوں کہ وہ اپنا غم اپنے رب کو سنا چکا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار آریان ۔۔۔!!!
ہممممم "
وہ دونوں فجر کی نماز کے بعد واک کر رہے تھے۔وہ کل کے حلیے سے قدرے مختلف اس لمحے پوری آستینیں اور ٹروزر پہنے ہوے تھا ۔
"میرا گفٹ کیسا لگا ؟"
دانیال نے دانت نکالتے ہوے پوچھا ۔
"بہت زبردست "
توقع کے برعکس جواب ملنے پر دانیال رکا ۔
"اب کیا ہے ؟"
آریان نے مڑتے ہوے پوچھا ۔
""سچ بول "
"تو چاہتا ہے کہ میں یہیں تیری عزت افزائی کروں ؟"
آریان نے آبرو اچکا کر ادھر ادھر دیکھا ۔اس کے اشارے کو سمجھتے دانیال نے بھی ادھر ادھر دیکھا ارد گرد کافی لوگ واک کرتے پھر رہے تھے ۔۔
"نہیں اس سب کی بھلا کیا ضرورت ہے ۔دیکھ یار تجھے گفٹ دینا میرا فرض تھا زیادہ فارمل نا ہو "
دانیال نے اس کے کندھوں پر ہاتھ جماتے ہوے کہا تو ناچاھتے ہوے بھی آریان کو اس کے اس انداز پر ہنسی آگئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چاروں اس وقت یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں بیٹھے تھے ۔ دانیال کی کسی بات پر وہ تینوں ہنس رہے تھے ۔ سپتمبر کا مہینہ شروع ہو چکا تھا ۔موسم اب درمیانہ ھی ہوتا تھا ۔ آج کل میں برساتی موسم بھی شروع ہونے والا تھا ۔ آریان کی نظر یونیورسٹی گیٹ سے اندر داخل ہوتے فہد پر پڑی جس کا چہرہ آج روزانہ کی نسبت مرجھایا محسوس ہو رہا تھا ۔
"ارے فہد ادھر آجاؤ "
دانیال نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بلایا ۔تو وہ ان کے پاس آیا ۔
"آئیں بیٹھیں نا ۔۔!!"
امل اور فلک نے ایک طرف ہو کر اسے پیشکش کی ۔
"نہیں مجھے کچھ کام ہے ۔"
ترچھی نگاہوں سے اس نے آریان کو دیکھا جو اسے جانچتی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔آریان نے اس کی سرخ آنکھوں کو دیکھا غالباً وہ ساری رات جاگا تھا ۔اس سے پہلے کہ آریان کچھ پوچھتا وہ یونیورسٹی کی بیک سائیڈ پر چلا گیا ۔آریان ان تینوں سے ایکسکیوز کرتا فہد کے پیچھے ہو لیا ۔
فادی ۔۔۔!!!"
اس نے اسے پکارا جو اس کی طرف پشت کیے کھڑا تھا ۔
"کیا ۔۔۔۔۔۔"
اس کے الفاظ منہ میں ھی رہ گئے وہ پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا ۔
"فہد قریشی "
جب وہ غصے میں ہوتا تو اس کا پورا نام ھی لیتا تھا ۔وہ نہی جانتا تھا کہ فہد نے اسے مکا کیوں مارا مگر اگر یہ مذاق تھا تو بہت برا مذاق تھا ۔
"نام نا لے میرا "
فہد نے دوبارہ اس کے شانے پہ مکے برساتے ہوے کہا ۔
"تو مجھے بتا نہیں سکتا تھا؟؟؟"
وہ اسے گھور رہا تھا ۔اور آریان آفندی کو ایک دم ھی فہد کی سرخ آنکھوں اور بینچے ہونٹوں کی وجہ سمجھ آگئی تھی ۔
"فہد میں بتانا چاہتا تھا مگر نہی بتا پایا ۔میں نہی چاہتا تھا کہ ایک بچہ اپنے باپ سے نفرت کرے ۔واقف تو میں اول روز سے ھی تھا ۔اب بھی میں بخت قریشی کو اتنا زیادہ جانتا ھوں جتنا تم بھی نہی جانتے ۔ ہم چاھتے تو بخت قریشی کے خلاف کیس کر سکتے تھے مگر ہم نے نہی کیا کیوں کہ ہمارے اختلاف ختم ہو گئے تھے اور جب اختلاف ھی ختم ہو جائیں تو معملا ھی ختم کر دینا چاہیے ۔ہم ساتھ ہیں اس سے زیادہ ہمیں کچھ نہی چاہیے تھا ۔"
اپنی بات مکمل کیے وہ اب سکون سے ہاتھ باندھے اسے دیکھ رہا تھا ۔
"کچھ بول نا ؟؟ یار تو چپ اچھا نہیں لگتا ۔ فادی اب تو ٹھیک ہے نا۔۔۔"
وہ پریشان سا اس کے کندھوں پر ہاتھ جمائے پوچھ رہا تھا ۔اور پھر ایک دم ھی فہد اس کے گلے لگا ۔
"تم بہتتتت زیادہ اچھے ہو "
وہ نم لہجے میں بولا تو آریان اس کا انداز دیکھ کر مسکرا دیا ۔
"پتا ہے مجھے "
آریان ہنسا تھا اور اس کا ڈیمپل ابھر کر معدوم ہوا ہلکی بڑھی شیو میں کیجول سے حلیے میں بھی وہ بہت خوبرو لگ رہا تھا ۔
"اب اتنا بھی اچھا نہی ہے تو یہ تو میں ھی ھوں جو گزارا کر رہا ھوں "
آخری بات پر فہد نے مسکراہٹ دبائی اور اس کے گال پر چوما ۔آج اسے آریان پہ بہت پیار آرہا تھا جس نے اسی کی خاطر اسے کبھی سچ پتا نا چلنے دیا اور ہمیشہ اس کا ساتھ دیا تھا ۔
اس سے پہلے آریان جوتا اتارتا وہ بھاگ چکا تھا ۔
"کمینہ "
زیر لب بڑبڑا کر اس نے گال صاف کیا جہاں وہ کچھ زیادہ ھی محبت سے چوم گیا تھا ۔ہڑبڑا کر اس نے کچھ فاصلے پر بیٹھے لڑکوں اور لڑکیوں کے گروپ کو دیکھا جو اسے خاصی مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔
"کمینہ مجھے مشکوک کر گیا "
سر جھٹکتے وہ کلاس کی طرف بڑھ گیا مگر بخشے گا تو وہ بھی نہی یہ وہ سوچ چکا تھا ۔
کلاس روم میں گہری خاموشی تھی ۔جب کے پروفیسر زاہد اسٹیج پر ادھر ادھر لیکچر دیتے پھر رہے تھے ۔ تمام بچے ان کی طرف متوجہ تھے ۔انہوں نے تیسری بار رک کر آخری بینچ پر سر جھکائے بیٹھے دانیال کو دیکھا تھا جس کا سر تقریباً کتاب کے اندر تھا ۔پھر نظر اس کے دائیں جانب بیٹھی امل اور اس سے ہوتی بائیں جانب بیٹھی فلک پر گئیں وہ دونوں بھی پروفیسر ھی کی جانب متوجہ تھیں وہ دانیال کو ہلانا چاہتی تھیں مگر پروفیسر کے اشاروں پر خاموش بیٹھی رہیں ۔
"رول نمبر 19"
جواب ندرات ۔
"رول نمبر 19
دانیال شاہزیب "
اب کہ وہ اونچی آواز میں بولے مگر وہ ہنوز سر جھکاے بیٹھا تھا ۔ساری کلاس اب کتابیں بند کیے اسی کی طرف رخ کیے بیٹھ گئی ۔امل اور فلک نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔ فلک نے دانت پیس کر دانیال کو دیکھا جو ہڈ سر پر گرائے سر جھکاے بیٹھا تھا ۔
"رول ۔۔۔۔نمبرررر۔۔19"
پروفیسر نے اس کی ڈیسک بجائی ایک دم ھی دانیال بوکھلا کر اٹھا جھٹکے سے اٹھنے پر ہڈ گری تو تو جہاں پروفیسر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں وہیں ساری کلاس میں بھی دبے دبے قہقہے گونجنے لگے ۔
دانیال ابھی تک سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ واقعی پکڑا گیا ہے ۔ پروفیسر نے اس کی مہارت سے سیٹ کی گئی ہینڈ فری کو کچھ اس مہارت سے کھینچا کہ وہ جیب میں پڑے موبائل سمیٹ باہر برآمد ہو گئی ۔پروفیسر نے ہینڈ فری اتاری تو ایک دم ھی جسٹن بائیبر کا گانا "ڈیسپاسیتو " چلنے لگا ۔پروفیسر نے دانیال کو گھورتے ہوے موبائل پاوراف کیا اور پٹخنے کے انداز میں ڈیسک پر رکھا ۔
"سر آرام سے میرا آئی فون "
وہ منمنایا ۔تو ساری کلاس ہنسنے لگی ۔
"یہ سب کیا تھا دانیال ؟"
وہ کڑے تیوروں سے پوچھ رہے تھے ۔
"سر سونگ ۔ ۔مینز گانا ۔۔مطلب ۔۔اممم گیت یعنی کہ ۔۔"
"شٹ اپ "
پروفیسر تقریباً دھاڑے ۔
"سر بس لیکچر سن کر نیند آرہی تھی تو !!!"
وہ معصومیت سے بولا ۔
"گیٹ اوٹ فرام مائی کلاس "
خود پر قابو پا لڑ وہ بمشکل بولے ۔
"اوکے سر "
شرافت سے کہتے اس نے بیگ اٹھایا اور چلنے لگا ساری کلاس منہ کھولے اس انتہائی فرماں بردار بچے کو دیکھ رہی تھی ۔
"ایسے نا دیکھو پلیز
میں بڑوں کی بہت عزت کرتا ھوں "
سر کو خم دے کر اس نے دانت نکالتے ہوے کہا اور اگلے ھی لمحے وہ کلاس سے جا چکا تھا ۔
"سر "
امل اور فلک نے ایک ساتھ کہا ۔
"جی ۔؟؟؟؟؟"
وہ اب ان دونوں کی طرف مڑے ۔
"سر ہم اسے اکیلا نہیں چھوڑ سکتے ۔"
سر جھکاے دونوں نے کہا ۔
"گیٹ اوٹ "
"تھینک یو سر ۔۔"
وہ دونوں بیگ اٹھائے مسکراتی باہر کو بڑھ گئیں ۔
"پانچ منٹ لیٹ آئی ہو تم دونوں "
وہ خفگی سے بولا ۔
"اچھا ٹھیک ہے موڈ سہی کرو اپنا اب "
فلک نے اسے پچکارا ۔
"اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔آو کینٹین چلیں ۔"
اور پھر وہ تینوں مسکراتے ہوے کینٹین کی طرف بڑھ گئے جہاں گل خان نے ہمیشہ کی طرح ان کا آرڈر لیا اور ہر روز کی طرح دانیال اور فلک کے آرڈر پر کانوں کو ہاتھ لگایا ۔
"تم پھٹتا کیوں نہی آخر ؟"
وہ ہر روز کی طرح دوبارہ پوچھ رہا تھا ۔
"گل خان !!!!!"
فلک نے اسے گھورا پھر کچھ سوچ کر مسکرائی ۔
"گل رخ کیسی ہے "
اور اس سوال پر ایک دم ھی گل خان کا چہرہ سرخ ہوا تھا اور وہ شرماتا ہوا وہاں سے بھاگ گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"انتہائی کوئی وہ انسان ہو تم "
آریان نے دانت پیستے ہوے اسے کہا جو پارکنگ لاٹ میں اس کے پیچھے مسکراہٹ دبائے چل رہا تھا ۔آریان نے اب مزید اس کی یہ کمینی مسکراہٹ نہی دیکھی گئی اور ابھی صبح والی بات کا بدلا بھی لینا تھا نا ۔
وہ کیا ؟ خالی جگہ پر کریں پلیز ۔
فہد نے مسکراہٹ دبائی۔
"خود کر لے "
آریان نے دانت پیستے ہوے کہا ۔
"آہا ۔۔۔۔میں بہت اچھا انسان ھوں ہیں نا ؟یار تو کتنا اچھا ہے ۔شکریہ "
فہد نے کہا اور اس سے پہلے آریان اسے کچھ کہتا وہ ایک بار پھر اس کی گال پر پیار کرتا اپنی گاڑی کی طرف دھوڑا ۔
"رک ذرا "
آریان بھی اس کے پیچھے دھوڑا اور پھر پارکنگ لاٹ میں آریان اور فہد کی مشترکہ ہنسی گونجے لگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آریان اور فہد کے امتحانات شروع ہو چکے تھے ۔فل فوز فہد صرف دل جمی سے پڑھ رہا تھا ۔ بخت قریشی اور بینش کو اس نے کسی قسم کا شک نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ ان کی باتیں سن چکا ہے ۔
آریان اپنے کمرے میں بیٹھا پڑھ رہا تھا ایک دم ھی دھاڑ سے دروازہ کھول کر امل اندر آئی ۔آریان نے نوٹس ایک طرف رکھے اور اسے دیکھا ۔جو معمول کے مطابق اس وقت بھی جینز شرٹ میں شولڈر کٹ بال کھولے ہوئے تھی ۔
"خیریت ؟"
آریان نے ابرو اچکاتے ہوے پوچھا ۔
"آئس کریم کھانے چلیں ؟"
امل نے مسکراتے ہوے پوچھا ۔
"امو اس وقت میرا جانا پوسیبل نہیں ہے میں ابھی کل کے پیپر کی تیاری کر رہا ھوں ۔میں دانیال کو بولتا ھوں وہ تمہے اور فلک کو لے جائے گا "
آریان بیڈ سے اتر کر اپنا جوتا پہننے لگا ۔
"ہنن مجھے نہیں جانا اب بیٹھو اور کرو اپنے پیپر کی تیاری مسٹر آریان امل کہتے ھی ایک جھٹکے سے دروازہ کھولتی باہر نکل گئی اس کے جھٹکے سے دروازہ کھولنے پر فلک اور دانیال اندر گرتے گرتے بچے ۔آریان نے فلک اور دانیال کو گھورا ۔تو یہ ان تینوں ھی کی مشترکہ پلیننگ تھی ۔
"شرم کرلو دانی تم خود آکر مجھے بولتے بزدلوں کی طرح امو کو آگے کیا "
"تو ہم تو سمجھتے تھے کہ تو اس کی بات مانتا ہے انکار ھی نہیں کر سکتا ہمارے ساتھ شرط لگا کر آئی تھی بیچاری کہ دیکھنا وہ میری بات مان لے گا مگر ۔۔۔افسوس "
دانیال نے سر جھٹکا ۔اور اپنی طرف سے دو تین باتیں لگائیں ۔
"ٹھیک ہے چلو چلتے ہیں "
"ضرورت نہی مسٹر آریان آپ کا قیمتی وقت ہم لوگوں پر ضائع ہو گا گھور کر اسے کہتے امل فلک کا بازو پکڑے اسے وہاں سے لے گئی جب کہ آریان دانت پیس کر رہ گیا ۔آریان نے دانیال کو زبردست گھوری سے نواز کر دروازہ اسی کے منہ پر بند کر دیا ۔اسے ذرا اندازہ نہیں تھا کہ امل اس بات کو اتنا سیریس لے گی ۔امل نے اس سے بات چیت ختم کی ہوئی تھی مگر جب بھی مخاطب کرتی تو آپ جناب اور مسٹر کہتی ۔بمطابق اس کے آریان مسٹر اونچے لوگ ہیں جن کے پاس ان معصوموں کے لیے وقت بھی نہیں ہے ۔
آریان تو تپ ھی گیا تھا ۔آریان کی طرف سے بھی اب جوابی کروائی شروع ہو چکی تھی جسے امل بخوبی محسوس کر سکتی تھی ۔
۔۔_____________۔۔۔۔
اف اللّه جی ۔۔۔!! یہ بندہ اب مجھے ایٹیٹیوڈ دکھانے لگا ہے کیا ضرورت تھی امل تجھے اور ایکٹ کرنے کی ہائے اللّه ! ناراض ھی ہو گیا اب کیا ہو گا ؟؟
امل مسلسل اپنے کمرے میں ادھر ادھر چکر لگاتی خود کو ھی کوس رہی تھی ۔کینہ توز نظروں سے اس نے بیڈ پر بکھرے نوٹز کو دیکھا ۔
"اللّه اب آریان بھی ناراض ہو گیا ۔اب مجھے اسائیمنٹ کون بنا کر دے گا ؟ تف ہے تجھ پہ امل ۔۔!!!
امل نے خود کو کوسا ۔ پہلے وہ سب اسائینمنٹ آریان سے بنوا لیتی تھی مگر اب وہ کس سے بنواتی ۔واحد یہ اسائینمنٹ بنانا ھی امل کو زہر لگتا تھا ۔امل کو رہ رہ کر دانیال اور فلک پر غصہ آرہا تھا جو ہر بار کی طرح ناجانے کسے پیسے دے کر اسائینمنٹ نا صرف بنا لی تھی بلکے اچھے بچوں کی طرح جمع بھی کروا دی تھی ۔ امل نے بھی انھے یہی بتایا تھا کہ وہ بھی کسی سے بنواتی ہے مگر اس بی یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ آریان سے بنواتی ہے ورنہ انہوں نے آریان کو کہاں بخشنا تھا ۔
"کچھ سوچ امل کچھ سوچ !!!"
امل نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوے کہا ۔
"آئیڈیا !!!!! ایوں فضول میں ، میں اس سے جھگڑ کر بیٹھی ھوں ابھی جا کر معافی مانگتی ھوں اور اسے بولوں گی "
امل نے جلدی ، جلدی نوٹس اکھٹے کیے اور باہر کو دھوڑی۔
"دھیان سے امل بیٹا گر جاؤ گی "
اسے سر پٹ دھوڑتے دیکھ شکورن ماسی بولیں ۔
"ماسی آئی ایم فائن "
وہ مسکراتی گیٹ کھولتی باہر نکل گئی ۔
"کم بخت ۔۔موہے انگریز !!! اب پتا نہیں کیا بول کر گئی ہے ۔۔"یم پنے ""
شکورن ماسی نے بڑبڑاتے ہوے انگریزی کے ہاتھ پاؤں توڑے اور کندھے اچکاتی اندر بڑھ گئیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔______۔۔۔۔۔۔۔
آریان فہد سے ملنے جا رہا تھا ۔تیار ہو کر وہ نیچے آیا تو سامنے سے ھی امل آرہی تھی آریان نے فورا اپنے تاثرات سنجیدہ کیے ۔
مسٹر آریان آفندی ۔۔!!!
امل نے اس کا راستہ روکتے ہوے کہا ۔
"جی مسس اینی پرابلم ؟؟"
آریان نے خود کو خطرناک حد تک سنجیدہ رکھتے ہوے کہا ۔حالانکہ دل میں خوشی سے لڈو پھوٹ رہے تھے اتنے دنوں بعد وہ اس سے مخاطب تھی ۔
"وہ ۔۔وہ مجھے دراصل ایک کام تھا تم سے "
امل نے اسے اپنے مقصد سے آگاہ کیا ۔
"جی فرمائیں محترما؟"
آریان نے بےزاریت سے کہا ۔
ہننن۔۔اکڑ کیسے دکھا رہا ہے ؟کوئی بات نہین مجھے بھی کوئی کام نا ہوتا تو منہ توڑ دیتی جناب کا ۔امل نے نخوت سے سوچا اور اگلے ھی لمحے تمام سوچوں کو جھٹکتی وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔
"کر دو گے نا میرا کام ؟"
امل لجاجت سے بولی ۔
آریان نے دو منٹ اسے گھورا ۔
"محترمہ میں سمجھ چکا ھوں کس نوعیت کا کام ہے لاؤ دو نوٹس !!!"
آریان نے مسکراہٹ دبائی۔
"ہائے آریان تم کتنے اچھے ہو ۔۔؟؟"
تعریف تھی یا سوال آریان سمجھ ھی نا پایا ۔
"اچھی اچھی بنا کر دینا وعدہ آئندہ خود بناؤں گی "
امل نے معصومیت سے کہا ۔
"بنوانی ہے تو دے دو میں نے جانا بھی ہے "
آریان گھڑی دیکھتے ہوے بولا ۔
"یہ لو ۔۔یہ لو "
امل نے جلدی سے اسے نوٹس پکڑائے مبادہ وہ اپنا ارادہ ھی نا بدل لے ۔
"وعدہ یہ آخری ہو گی ""اللّه تمہے خوش رکھے ۔اللّه تمہے خوبصورت بیوی دیں ۔۔اور ۔۔اور ڈھیر سارے بچے بھی دیں ۔"
امل نے بوڑھی اماوں کی طرح دعائیں دیں ۔امل کی دعاوں پہ بمشکل آریان نے اپنے قہقہوں کا گلا گھونٹا ۔
ڈھیروں بچے ؟؟"
"لائک سریوسلے؟؟"
آریان نے دل ھی دل میں امل کی معصومیت پر قہقہہ لگایا ۔اور اس کی اسائینمنٹ والی بات پر آریان کو یاد آیا کہ پچھلی بار بھی محترمہ نے یہی کہا تھا ۔سر جھٹکتا وہ باہر کی جانب بڑھ گیا مگر ایک دل فریب مسکراہٹ نے اس کے ہونٹوں کا احاطہ کیا ۔
ہائے اللّه یہ میں نے کیا بول دیا ۔جب بھی بولنا بغیر سوچے سمجھے بولنا جاہل"
امل نے اپنے سر پر چپت لگائی اور زبان دانتوں تلے دبائی۔
"اففففف ۔۔خیر کوئی بات نہیں ...!!!۔ویسے چھوٹی بات بھی نہیں "
پیر پٹختی وہ اپنے گھر کی طرف چل دی مگر اب وہ خوش تھی چاہے جو بھی ہو اسائینمنٹ تو نہیں بنانی تھی اب ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔_____________۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسم خاصہ خوش گوار تھا ۔آریان نے گاڑی پارک کی اور ریستوران میں داخل ہوا ۔ادھر ادھر نگاہ دھوڑائی ۔کچھ فاصلے پر ھی اسے فہد بیٹھا نظر آیا ۔فہد سر جھکاے بیٹھا تھا ۔آریان خاموشی سے اس کے سامنے والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا ۔
خیریت ؟؟تو نے اتنا ارجنٹ بلایا ؟
جب وہ کچھ نا بولا تو آریان کو ھی بولنا پڑا ۔
"آریان میں ۔۔دراصل پرسوں انگلینڈ جا رہا ھوں "
فہد نے سر اٹھاتے ہوے کہا ۔
"کیوں؟"
"یار پکا پکا نہیں جا رہا ۔مجھے کچھ کام ہے "
فہد دھیمے لہجے میں بولا ۔
"کیسا کام ؟"
"وو ۔۔۔وہ دراصل "
"فہد "
آریان نے نرمی سے اسے ٹوکتے ہوے کہا ۔
"اب تم مجھ سے باتیں چھپاؤ گے ؟"
"تو تم نے بھی تو چھپائیں ان کا کیا ؟"
فہد نے اسے گھورا ۔آریان نے اس کی بات پر سر جھٹکا ۔
"تمہارے بھلے کے لیے چھپائی تھیں "
اس سے نگاہ ہٹا کر آریان نے ویٹر کو آرڈر لکھوایا ۔
' دو کیپچینو۔۔!!! "
شیور سر "
ویٹر سر ہلاتا واپس پلٹ گیا ۔
"پتا ہے مجھے "
وہ مدھم لہجے میں بولا ۔آریان نے کچھ غور سے اس کے گم سم انداز دیکھے ۔وہ خاصہ ڈسٹرب لگ رہا تھا ۔
"فہد قریشی مجھے اپنے اس فیصلے کا پس منظر سناؤ ''
آریان نے کمر کرسی کی پشت سے لگا لی ۔
"آریان میں نے بخت قریشی کا اصلی چہرہ دیکھا اس خول سے ہٹ کر جو وہ خود پر چڑھاتا ہے اور مجھے تصویر کا دوسرا رخ دیکھ کر تکلیف ہوئی ہے ۔انسان ویسا کیوں بن بن کر دکھاتا ہے جیسا وہ نہیں ہوتا ۔"
سر جھکاے اب وہ میز کی سطح کو کھرچ رہا تھا ۔ اوپر کیا گیا ہلکے بھورے رنگ کا پینٹ اتر چکا تھا اب لکڑی کا گہرا بھورا ، رنگ سامنے آیا ۔تو ثابت ہوا کہ گہرا رنگ ہلکے رنگ کے نیچے آکر بھی نہیں چپ سکتا۔
"کیوں انسان کو پیسے کی ہوس اس قدر گرا دیتی ہے کہ وہ اپنے اور پراے کا فرق بھول جاتا ہے ۔"
وہ براہے راست اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ۔آریان نے اس کی آنکھوں میں تکلیف دیکھی،درد دیکھا ۔
"فہد ۔۔۔!!!! رشتوں کی قدر پیسوں سے نہیں ہوتی ۔رشتے تو انمول ہوتے ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ۔جیسا کہ ہم دونوں کا رشتہ ہے ۔ ان بے غرض رشتوں کے بارے میں مت سوچو فہد جو تمہاری قدر نہیں کرتے ۔"
میز کو کھرچتا اس کا ہاتھ لمحہ بھر کو رکا ۔آنکھیں شدت ضبط سے لال ہو چکی تھیں ۔اس نے نظر اٹھا کر سامنے بیٹھے اپنے دوست کو دیکھا ۔جس کی دوستی ہر غرض سے پاک تھی وہ سچ ھی تو کہہ رہا تھا ۔
"آریان میں اپنی مما کی قبر پر جانا چاہتا ھوں میں ان کی قبر پر فاتحہ پڑھنا چاہتا ھوں ۔میں وہ بدقسمت بیٹا ھوں آریان جس نے اپنی زندگی کے اتنے سال اس عورت پر ایک دفع بھی فاتحہ پڑھنا تو دور اس کے بارے میں سوچا تک نہیں جس نے مجھے پیدا کیا ۔آریان میں اپنی مما کے پاس جانا چاہتا ھوں ۔میں بہت چھوٹا تھا آریان جب ہم نے انھیں چھوڑا ۔میں انھیں ابھی ٹھیک سے محسوس بھی نا کر سکا تھا کہ میرے دل میں ان کے لیے نفرت ڈال دی گئی آریان۔۔!!! اب جب میں انھیں محسوس کرنا چاہتا ھوں تو وہ نہیں رہیں وہ مٹی تلے سو رہی ہیں آریان ۔مجھے ان سے معافی مانگنی
ہے ۔"
کافی کے کپ بھاپ اڑا رہے تھے ۔فہد کی آنکھوں میں دھند اترنے لگی ۔رخ موڑ کر اس نے آنکھیں جھپکائیں تو ایک آنسو اس کی آنکھوں سے نکلا ۔جسے اس نے ایسے صاف کیا کہ اس کی خبر آریان کو بھی نا ہوئی ۔
"فہد اس سب میں قصور بخت قریشی ھی کا ہے جس نے تمہے حقیقت سے لاعلم رکھا ۔حالاں کہ تمہاری والدہ بہترین عورتوں میں سے تھی ۔"
"تم ۔۔جانتے ہو انھیں ؟"
فہد کے بے تابی سے پوچھنے پر آریان نے سر اثبا ت میں ہلایا ۔
"تو بتاؤ مجھے تمہے کیسے پتا ؟"
فہد اگے کو ہو کر بیٹھا ۔
"فہد ،بخت قریشی نے ہمارے خاندان کے بزنس میں اپنی ٹانگ اڑانی چاہی ۔اس نے بابا کو یہ کہا کہ تایا اپنا بزنس علیحدہ کرنے والے ہیں اور تایا کو کہا کہ سہیل شیرز بیچ رہا ہے جب کہ شیر بیچنے کے نقلی عدالتی پپر تو بخت قریشی کے پاس تھے ۔اس نے ان پیپر پر بابا کے دستخط کاپی کروا لیے اور تایا کو وہ پیپر دیکھائے ۔تایا نے گھر آکر بابا سے لڑائی کی مگر بابا سچائی جانتے تھے وہ اس وقت خاموش ہو گئے انھیں تکلیف تایا کے الفاظوں نے دی تھی ۔ ہمیں گھر چھوڑنا پڑا ۔حالات بہت خراب تھے ۔بابا کو ہارٹ اٹیک ہو گیا ۔ میں نے پڑھائی کے ساتھ پارٹ ٹائم جاب بھی شروع کر دی ۔پہلے پہل بہت مشکل پیش آئی ۔ستاراں سال کی عمر میں ،میں نے بابا کا بزنس سمبھالا ۔جو بہت کرائسس میں آچکا تھا ۔مجھے بہت ٹائم لگا تھا اسی بزنس کو دوبارہ کھڑا کرنے میں ۔پھر حالات سازگار ہوتے گئے اور ایک دن میں ہسپتال میں فلک سے ملا ہم دونوں ایک دوسرے کو پہچان چکے تھے ۔مجھے بھی بابا نے سب بتایا ہوا تھا ۔ فلک کو یقین تھا کہ حالات پہلے جیسے ہو جائیں گے ۔ مجھے بھی عالیہ باجی ،اور بابا کی خوشی چاہیے تھی پھر ہم اکثر ملنے لگے اور پھر میری دوستی تم سے ہوئی ۔شروع پر میرا مقصد صرف بخت قریشی تک پہنچنا تھا میں سمجھتا تھا کہ تم بھی اپنے باپ جیسے ہو مگر پھر مجھے پتا چلا کہ تم ان سے کس قدر مختلف ہو میری دوستی تم سے گہری ہوتی چلی گئی ۔ایک روز میں بخت قریشی کے آفس آیا ۔بظاہر میں تم سے ملنے آیا تھا مگر درحقیقت میں وہی شیرز والی نقلی فائل لینے آیا تھا کیوں کہ اصلی ڈاکومنٹ اسی کے ساتھ تھے تم وہاں موجود نہیں تھے میں نے بخت قریشی سے اپنا تعارف تمہارے دوست کی حثیت سے کروایا اس نے مجھے چائے کی افر کی میں ٹھکرا نہیں پایا ۔پھر میں نے کمال ہوشیاری سے اس پر چائے گرا دی جسے دھونے کے لیے وہ وہاں سے گیا ۔میں نے فورا کھلے لاکر سے فائلز اٹھائیں اور پیون کو یہ بول کر چلا گیا کہ اپنے صاحب کو بتا دینا آریان کو ارجنٹ طور پر ہسپتال جانا پڑا ۔گھر آکر میں نے ان فائلز کو چیک کیا میرے اندازے کے مطابق ان فائلز میں تقریباً بخت کے سارے کارناموں کی تفصیلیں تھیں ۔جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ چونکایا وہ انگلینڈ کے شیرز کی فائل تھی ۔ صلہ فاروق کی فائل میرے لئے حیرانی کا باعث تھی اور پھر مجھے تمہارا برتھ سرٹیفکیٹ ملا جس کے مطابق تم صلہ فاروق اور بخت قریشی کی اولاد تھے اور پھر انہی دنوں بزنس کے باعث میرا انگلینڈ جانے کا اتفاق ہوا اور پھر میں نے ٹھان لی کہ میں صلہ قریشی سے ضرور ملوں گا میں نے جانے سے قبل انہی فائلز میں موجود ایڈریس بھی ساتھ لیا ۔انگلینڈ میں بزنس میٹرز سے فارغ ہوتے ھی میں اس ایڈریس پر جا پہنچا ۔"
آریان رکا اور فہد کو دیکھا وہ حیرانی سے اسے ھی دیکھ رہا تھا اور پھر آریان نے گہری سانس لی اور دوبارہ گویا ہوا ۔
"اور وہاں جا کر مجھے پتا چلا کہ ۔۔۔کہ وہ نہیں رہیں ۔"
۔۔۔۔۔___________۔۔۔۔۔۔۔۔
چھ ماہ قبل ۔۔۔
ہیلو ۔۔!!!
آریان نے مسکراتے ہوے دروازے میں کھڑی بوڑھی عورت سے کہا ۔
"السلام و علیکم ۔!!"
جوابا بوڑھی عورت نے سلام کیا تو آریان کو شرمندگی ہوئی وہ تو ان کے بھورے بال اور نیلی آنکھیں دیکھ کر انھیں انگریز سمجھا تھا ۔
وعلیکم السلام ۔۔!!!"کیا میں اندر آسکتا ھوں ؟
آریان نے تذبذب سے پوچھا ۔
"ضرور ۔۔!!"
وہ اس کے ایشیائی نقوش دیکھ کر سمجھ چکی تھیں کہ یہ پاکستانی ہے ۔
"آریان ان کی معیشت میں چلتا ہوا خوبصورتی سے سجائے ہال میں آیا ۔جہاں ایک طرف دیوار پر جابجا تصویریں لگی تھیں جس میں چار سال کے بچے کی تصویریں نمایاں تھیں کچھ تصویروں میں اس بچے کے ساتھ بلا کی خوبصورت عورت بھی تھی جس کے نقش بلکل بوڑھی عورت جیسے تھے لمبے خوبصورت بھورے بال ،نیلی سحر زدہ آنکھیں اور سفید رنگت اسے پہچاننے میں آریان کو ایک لمحہ لگا ۔ بلاشبہ وہ صلہ قریشی ھی تھیں ۔
"آپ کا ہال بہت خوبصورتی سے سجایا گیا ہے "
آریان نے مسکرا کر بوڑھی عورت سے کہا ۔جوابا انہوں نے گہری سانس بھر کر ہال پر نگاہ دھوڑائی۔
"یہ سب میری بیٹی صلہ کے شوق تھے اس نے خود کو کبھی فارغ رہنے ھی نہیں دیا تھا ۔ہر وقت یا عبادت کرتی رہتی یا یہی کام کرتی بہت محبت تھی اسے رب سے تبھی تو اس کی دی ہر آزمائش کو سہتی رہی میری بچی "
انہوں نے بات کے آخر پر تصویروں میں موجود عورت کی طرف اشارہ کیا ۔
"یہی ہے میری صلہ ۔۔!! دکھوں کی ماری تھی مگر رب نے جلد اپنے پاس بلا کر اس کے دکھ ختم کر دیے "
وہ مسکراتے ہوے نم لہجے میں بولیں ۔
"ویسے تم کون ہو ؟ پاکستانی ہو نا ؟"
صوفے سے ٹیک لگاتے ہوے وہ بولیں ۔
"جی ۔۔!!"
پھر آریان انھے سب بتاتا گیا اس نے دیکھا فہد کے ذکر پر وہ مچل اٹھی تھیں ۔
"بخت قریشی بھی جلد رب کی پکڑ میں آے گا بہت دوغلا انسان ہے وہ میری صلہ کی زندگی برباد کی اس نے صرف پیسوں کی خاطر ۔"
"اگر آپ کو برا نا لگے تو کیا آپ مجھے صلہ انٹی کے بارے میں بتا سکتی ہیں وہ سب جو بخت قریشی نے کیا ؟"
"صلہ ہماری اکلوتی اولاد تھی ۔بخت قریشی صلہ سے یونیورسٹی میں ملا تھا صلہ ایک ہونہار آرٹ سٹوڈنٹ تھی بخت قریشی انہی دنوں پاکستان سے یہاں پڑھنے آیا تھا ۔بخت قریشی کی نظر صلہ پر پڑی صلہ امیر ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی تھی اور امیر بھی ۔۔بخت نے بہانے بہانے سے اس کے سامنے جانا شروع کر دیا اور پھر دونوں کی دوستی ہو گئی اور ایک دن اس نے صلہ کو پروپوس کر دیا صلہ کو وہ اچھا آدمی لگتا تھا کیوں کہ وہ مشرقی مرد تھا اور صلہ کا بہت خیال رکھتا تھا ۔چونکہ صلہ کو فیصلے کا اختیار ہم نے دیا تھا اس نے ہمیں بخت سے ملویا ۔وہ ہمارے سامنے بہت اچھا بنا ۔ ہمیں بھی وہ اپنی صلہ کے لیے موزوں لگا اور پھر ان کی شادی ہو گئی ۔ہمیں اپنے اور صلہ کے فیصلے پر افسوس اور پچھتاوا تب ہوا جب ہم نے بخت کو اپنے ساتھ رہنے کا کہا دوسرے لفظوں میں گھر داماد بننےکا کہا اور وہ اپنی غیرت کو سلا کر بنا چوں چراں کیے مان گیا ۔پھر صلہ کے والد فاروق نے اپنی ساری جائیداد صلہ کے نام لگا دی اور پھر فاروق کی ڈیتھ ہو گئی "
وہ رکیں اور اپنے آنسو صاف کیے ۔
"بخت کا اصلی چہرہ سامنے آنے لگا اسے اب صلہ سے کوئی دل چسپی نا تھی صلہ ماں بننے والی تھی بخت نے ہمارے آفس جانا شروع کر دیا اور فاروق کی کرسی سمبھال لی ۔میں بوڑھی تھی میں اسے روک نہیں سکتی تھی اور پھر اس گھر کے درودیوار جاگ اٹھے کیوں کہ فہد پیدا ہوا تھا ۔میں اور صلہ بہت خوش تھے مگر بخت نے تو اسے دیکھا بھی نہی تھا ۔صلہ خاموش تھی ۔بخت نے صلہ کو مجبور کیا اور کہا کہ وہ اپنی جائیداد بخت کے نام کروا دے مگر صلہ نے انکار کر دیا یہ کہہ کر کہ اس جائیداد پر فہد کا حق ہے ۔بخت نے اسے خوب سمجھایا پھر بات دھمکیوں تک آپہنچی اس نے صلہ کو دھمکی دی کہ وہ پاکستان چلا جائے گا مگر صلہ بھی اپنے فیصلے پر اڑی تھی اور پھر بخت ہر رات شراب کے نشے میں دھت گھر آنے لگا میں خاموشی سے کڑتی رہتی ۔بند دروازے سے مجھے ۔۔مجھے میری صلہ کی چیخیں سنائی دیتیں وہ انسان نہی حیوان تھا جس کی حیوانیت کے اثرات میں بخوبی صلہ پر دیکھ سکتی تھی ۔پھر وہ گوریوں کی بانہوں میں گھر آنے لگا اور وہ گوریاں اس کے ساتھ میری صلہ کے بیڈروم میں رات گزرتیں اور میری صلہ ساری رات باہر بیٹھ کر روتی رہتی اپنے کمرے میں دروازے کی جھری سے دیکھ دیکھ کر میں بھی روتی رہتی اور ننھا فہد اس سب سے بے خبر سوتا رہتا ۔دن ماہ میں اور ماہ سالوں میں بدل گئے ،صلہ دن با دن کمزور ہوتی گئی ۔ بخت روزانہ اسے مارتا کبھی بیلٹ سے تو کبھی ہاتھ پاؤں سے ،مقصد یہی تھا کہ جائیداد وہ اس کے نام کر دے اور پھر صلہ نے عدالتی کاغذات بنوائے اور ساری جائیداد فہد کے نام کروا دی ان نوٹس کے مطابق جب تک فہد بیس کا نہیں ہو جاتا جائیداد اس کے نام نہیں ہو گی اور نا ھی کوئی اور وہ جائیداد لے سکتا تھا فہد کی موت کی صورت میں جائیداد این جی او کو مل جائے گی ۔بخت نے اس رات صلہ کو بہت مارا اور پھر اسے طلاق دے دی اسی بات پر اس کا دل نہیں بھرا تو اس نے طلاق دی ہوئی صلہ کو اپنی حیوانیت کا نشانہ بنایا اور راتوں رات جائیداد کے وہ کاغذ اور ہمارے فہد کو لیے وہ ہوش و حواس سے بیگانہ صلہ اور مجھے چھوڑ کر پاکستان چلا گیا ۔صلہ ایک ماہ ہسپتال رہی اور پھر ہر وقت وہ خاموش رہتی اس کی خاموشی مجھے بہت تکلیف پہنچاتی تھی اس نے خود کو عبادتوں میں مصروف کر لیا اور ہر وقت کچھ نا کچھ کرتی رہتی میرے پوچھنے پر وہ اداسی سے مسکرا کر کہہ دیتی "خود کو زیادہ مصروف رکھتی ھوں تاکے فہد کی یاد نا آے "اور میں اسے راتوں کو سرہانوں میں منہ دے کر روتے دیکھتی تو خود بھی رو پڑتی میں نے اسے بہت سمجھایا کہ ابھی اس کی عمر ھی کیا ہے؟_صرف اٹھائیس سال ۔ شادی کر لے مگر اس نے منع کردیا ۔وہ کافی بیمار رہنے لگی میں نے بہت اسرار کیا کہ ڈاکٹر کے ہاں چلتے ہیں مگر وہ ٹال دیتی اور پھر ایک دن وہ ۔۔سوتے میں ھی مجھے چھوڑ گئی وہ ایک سال بھی فہد کی دوری برداشت نا کر سکی اس کا آخری اسٹیج کا کینسر اس کی موت کی وجہ بن گیا ۔"
ہال میں مکمل خاموشی تھی اور وہ زاروقطار رو رہی تھیں ۔آریان خود بھی بہت مشکل سے ضبط کیے بیٹھا تھا اسے ایک نئے سرے سے بخت قریشی سے نفرت ہوئی ۔
"پلیز انٹی مت روئیں بخت قریشی صلہ انٹی کا مجرم ہے اور میں اسے سزا دلواوں گا اس کے سارے کارنامے دنیا کو دکھاؤں گا "
آریان انھے تسلی دیتے ہوے بولا ۔
"بیٹا فہد کو بتانا اس کی ماں بری نہیں تھی نجانے اسے انہوں نے کیا بتایا ہو گا ۔"
وہ سر جھکاے بولیں ۔
"مجھے فہد کی تصویر دکھاؤ "
آریان نے سر ہلاتے ہوے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور انھیں تصویر دکھائی ۔
"ہو بہو میری صلہ کی کاپی ہے دیکھو نا بس اس کی آنکھوں کا رنگ تھوڑا گہرا نیلا ہے رنگت صلہ جیسی اور نقش بھی "
وہ تصویر چھوتے بولیں ۔
"صلہ دیکھو ہمارا فہد ۔۔تمہارا فہد صلہ دیکھو کتنا بڑا اور خوبصورت ہو گیا ہے ؟"
وہ فہد کی تصویر صلہ کی تصویر کے سامنے کرتی گلوگیر لہجے میں بولیں ۔
"دیکھو کیسے مسکرا رہی ہے؟ فہد کو دیکھ کر کتنی خوش ہے نا ؟"
وہ آنسو صاف کرتیں پلٹیں ۔
"انٹی بلکل۔۔۔۔اب مجھے اجازت دیں "
ان سے مل کر آریان نے ایک نظر صلہ فاروق کی مسکراتی تصویر کو دیکھا اور پھر اس خوبصورت گھر سے باہر نکلا جو واحد صرف صلہ کے نام تھا باقی پراپرٹی فہد کے نام تھی ۔مگر صلہ اس گھر کو بھی فہد کے نام لگوا گئی تھی ۔اور پھر آریان نے فہد کی تصویروں کو ڈیولپ کروایا اور انھیں پارسل کروا کر پاکستان چلا آیا اس میں مزید ہمت نا تھی ان کا سامنا کرنے کی ۔
۔۔۔۔۔____________۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال
فہد ۔۔۔!!!!
مگر وہ خاموشی سے اٹھ کر چلا گیا۔آریان بل رکھتا باہر کو بھاگا ۔کافی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ویٹر نے کندھے اچکائے اور کپ اٹھاتا مڑ گیا ۔
"فادی "رک یار ۔۔"
آریان میں ۔۔۔ناراض نہیں ھوں یار تجھ سے بس میں اس وقت اکیلا رہنا چاہتا ھوں ۔۔۔میں کل انگلینڈ جا رہا ھوں پرسوں نہیں "
آریان کے کندھے کو تھپکتا شکستہ قدموں سے چلتا وہ اپنی گاڑی کی طرف چل دیا ۔آریان نے کرب سے اسے جاتے دیکھا ۔آج ھی تو ان کے پیپر ختم ہوے تھے اور وہ پیپر دے کر نکلا تھا تو کتنا خوش تھا پھر اچانک اس نے فون کر کے آریان کو ریستوران بلایا تھا اور اب ۔۔۔!!!
بخت قریشی رب کی پکڑ میں ضرور آو گے تم "
آریان سر جھٹکتا مڑگیا مگر دل اب اس کی فکر میں گھل رہا تھا ۔شاید اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ انگلینڈ جائے ۔
اس نے دل میں سوچا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔
۔۔۔۔ _________ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔_____۔
آریان گھر میں داخل ہوا تو اسے غیر معمولی چہل پہل محسوس ہوئی ۔امل اور فلک عالیہ کو لیے لان میں ایک طرف بیٹھی تھیں اور وقفے، وقفے سے اسے کچھ کہتیں تو وہ پل بھر میں سرخ ہوتی آریان نے مسکرا کر انھیں دیکھا پھر اندر کی جانب بڑھ گیا جہاں سب بڑے بیٹھے تھے دانیال اور صارم ایک طرف بیٹھے باتیں کر رہے تھے اور دانیال کے دانت اندر ھی نہیں جا رہے تھے ۔ایک طرف عائشہ ،اسما اور ارفع بیگم بیٹھیں رسالے دیکھ رہی تھیں اور تبصرے کر رہی تھیں تو دوسری طرف شاہزیب صاحب ،سہیل اور فرحان صاحب کچھ فاصلے پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔
"خیریت ؟"
آریان نے دانت نکالتے دانیال کے ساتھ بیٹھتے ہوے کہا ۔
"یار ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔!!!! ہماری تو ابھی خیر ھی ہے پر صارم بھائی کی نہیں "
کیا مطلب ؟"
"اوہو صارم بھائی اور عالیہ صاحبہ کی شادی کی تاریخ طے ہو گئی ہے "
"کیا ؟ کب ؟
آریان مسکراتے ہوے آگے ہو کر بیٹھا ۔
"ابھی ہیں پندرہ دن "
دانیال ٹانگیں جھلاتا بولا ۔
"اتنی جلدی ؟؟"
او بھائی بس کر ۔۔!!! اب کیا دونوں کو بوڑھا کرنا ہے ؟ پھر ان کے بچے ایسے لگا کرنے ہیں جیسے اپنے دادا دادی کے ساتھ کھڑے ہیں "
دانیال نے شرارتی لہجے میں کہا ۔عالیہ جو اندر آرہی تھی دانیال کی بات سن کر پل بھر میں سرخ ہوتی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی جب کہ امل اور فلک ہنستے ہوے اس کے پیچھے ھی گئیں مزید ریکارڈ جو لگانا تھا ۔
"لعنت ہے بندہ ارد گرد دیکھ ھی لیتا ہے مگر تجھے ذرا جو شرم آے ؟"
صارم نے اس کی گردن دبوچی ۔
"چھوڑ مجھے سچ کڑوا ہے "
دانیال نے مزید اسے چڑایا ۔
"چپ کر منحوس میں پچیس کا ھوں اور وہ صرف چوبیس کی تم لوگوں سے صرف پانچ ،چار سال ھی بڑے ہیں ہم "
آریان مسکراہٹ دباتا ان کی بحث سن رہا تھا ۔
"اچھا چھوڑ میں ذرا ابھی آیا "
"کدھر ؟"
دانیال اٹھا تو آریان نے پوچھا ۔
"گرل فرینڈ کی یاد آرہی ہے "
آریان اس سے قبل جوتا اٹھاتا وہ ارفع بیگم تک پہنچ چکا تھا ۔
"آرے میری پیاری سی ڈارلنگ آپ یہ والا سوٹ پہننا ولیمے پر ایک دم کینٹ لگو گی "
دانیال نے ارفع بیگم کے سامنے پڑے رسالے کو اٹھا کر ایک انگوری رنگ کے سوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا ۔ارفع بیگم نے مسکراہٹ دبائی جب کہ عائشہ بیگم اور اسما بیگم اپنے قہقہے روک نا پائیں ۔
"ہمیں بھی بتاؤ ہم کون سے سوٹ لیں ؟"
اسما بیگم بولیں ۔
"یہ آفر صرف خوبصورت لوگوں کے لیے ہے "
دانیال نے انھے تپایا اور ارفع بیگم کو آنکھ ماری ۔سہیل صاحب بھی انھے گھورتے وہاں چلے آئے ۔
"بیگم آپ یہ والا سوٹ پہننا ۔"
انہوں نے ہلکے گلابی سوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا ۔
"اممم نہیں مجھے تو یہ اچھا لگا ہے "
انہوں نے دانیال کے پسند کیے سوٹ کی طرف اشارہ کیا ۔دانیال کی باچھیں کھلیں اور سہیل صاحب کا منہ ۔اگلے ھی لمحے وہ دانیال کی طرف خونخوار تیوروں سے بڑھے ۔دانیال جھٹکے سے اٹھا اور باہر کی جانب دھوڑ گیا جب کے پیچھے سب کے قہقہے بلند ہوے ۔
۔۔۔۔۔۔_____________۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔
Plz vote..!!!and follow us
Also follow us on instagram @__novelianz___ for latest updates.r
YOU ARE READING
ماہی وے ✔
Humorماہی وے کہانی ہے بےغرض اور مخلص رشتے کی ۔یہ کہانی ہے دوستی ،محبت اور وفا کی ،کہانی ہے رب پر یقین کی ،کہانی ہے ہجر کی اور ہجر میں کٹی راتوں کی ،کہانی ہے منجھلوں ،دیوانوں کی، دوستی کرنے والوں کی اور اسے آخری دم تک نبھانے والوں کی ۔کہانی ہے امل ،آریان...