ماہی وے
قسط 14
امل نے ایک نظر سامنے بیٹھے شریف سے لڑکے کو دیکھا پھر نور کی طرف دیکھا جو اس لڑکے کو دیکھ کم گھور زیادہ رہی تھی .
"شرم کرو نور "
امل نے اسے گھورا جو سامنے بیٹھے معصوم سے لڑکے کو مکمل لوفرانہ انداز میں دیکھ رہی تھی اور اب تو وہ بیچارہ باقاعدہ شرما رہا تھا ۔
"کیا ھر دوسرے لڑکے کو تاڑتی رہتی ہو ؟"
"تاڑنا پڑتا ہے میری جان تم نہیں سمجھو گی ۔ ۔۔تم تو نکاح شدہ ہو نا اور میرے ساتھ تو ابھی تک کوئی بھی شدہ نہیں لگا نا منگنی شدہ ،نا نکاح شدہ اور نا ہی شادی شدہ "
وہ منہ بسورے بولی ۔
پاس بیٹھی موبائل چلاتی فلک نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔ پھر موبائل ایک طرف رکھ دیا اور کرسی کھسکا کر آگے ہوئی ۔ دانیال کسی کام سے لائبریری گیا تھا (شور پیدا کر کے ڈانٹ کھانے اور باہر آنے کے لیے ) ۔
"یہ سب ناول کی وجہ سے ہے ناولز نے اس کا دماغ خراب کر دیا ہے "
"خبر در جو تم نے میرے ناولز کے بارے میں ایک بھی لفظ کہا تو ۔۔۔ حد ہوتی ہے بھائی ایک تو کچھ بھی غلط ہو یا کہہ لو تو امیاں اور دوستیں یہی سمجھتی ہیں کہ اس میں قصور ہمارے ارد گرد کے حالات کا نہیں بلکے ناول کا ہے ۔ہم ناول پڑھ لیں یہ امی کو نظر آجاتا ہے مگر جتنا بھی پڑھ لیں وہ نظر نہیں آتا ۔میری امی بھی ۔۔۔"
وہ کہتے کہتے خاموش ہوئی ۔امل اور فلک کی نظریں ملیں ۔ ایسا پہلی بار تھا کہ انہوں نے نور کو کسی بات پر مغموم دیکھا تھا ۔
"اچھا نا بابا آئندہ کچھ نہیں کہوں گی تمہارے سو کالڈ ناولز کو "
فلک نے آنکھیں گھماتے ہوے اس انداز سے کہا کہ نور اور امل ہنس دیں ۔کتنی اچھی کزن اور دوست دیں تھیں اللّه نے اسے ، جو پل ،پل اس کے ساتھ رہتیں اس کی فکر کرتیں ، اس کی مسکراہٹ کی وجہ بنتیں ۔بیشک اللّه بندے کو ہمیشہ بہترین سے نوازتا ہے مگر بندا رب کی مثلحت نہیں جان پاتا غافل ہو کر شکر ادا نہیں کر پاتا مگر اللّه تب بھی دیتا ہے اور بےحساب دیتا ہے ۔
"فلک جی ۔۔۔"
"اف ۔۔۔"
فلک نے آنکھیں میچی ۔
"ایک تو یہ چشمش ہاتھ پاؤں دھو کر پیچھے پڑا ہے۔ "
وہ اتنا آہستہ بڑبڑائی کہ پاس بیٹھی امل کو ہی سنائی دیا جو مسکراہٹ دبا گئی ۔
" احمر ؟تم یہاں ؟ کیا ہوا ؟"
"وہ نا فلک جی مجھے نا جی آپ سے نا جی ایک سوال تھا نا جی وہ پوچھنا تھا نا جی"
'اس کا جی۔ "
فلک نے دل ہی دل میں اس "جی " کو القابات سے نوازا ۔
"یار یہ "جی" کا تڑکا ذرا کم لگایا کرو نا ۔ "
فلک کوفت سے بولی ۔
"جی فلک جی۔"
احمر سر ہلاتا ہوا بولا ۔
امل اور نور مسکراہٹ دبائے ہتھیلی ٹھوری تلے رکھی بیٹھی ان دونوں کو دیکھ رہی تھیں ۔فلک نے دو ایک بار انھیں گھورا ۔ دور سے دانیال بینش سے بات کرتا چلا آرہا تھا بینش لائبریری کے باہر بیٹھی تھی جس وقت پہلے لائبریری سے دانیال کا بیگ اور پھر دانیال باہر پھینکا گیا ۔ مگر دانیال نے بینش کو یہ کہہ کر مطمئن کیا کہ وہ کرتب دکھا رہا تھا ۔فلک نے جونہی اسے بینش کے ساتھ کسی بات پر ہنستے دیکھا اس کا خون کھولنے لگا ۔ دانیال بھی اسے دیکھ چکا تھا ۔جانتا تھا بیچاری سڑ ، سڑ کر کوئلہ ہو رہی ہے ۔
"تم احمر سے کیا بات کر رہی ہو ؟"
وہ بینش کو ساتھ لیے انہی کی طرف چلا آیا ۔
" تم سے مطلب "
وہ بےاعتنائی سے بولی ۔دانیال نے اس کے پھولے ہوے منہ کو دیکھ کر بمشکل مسکراہٹ دبائی ۔
"وہ میں آپ کو بتاتا ھوں جی وہ نا ج۔۔۔"
اس سے پہلے کے احمر کے جی ،جی کی گاڑی پھر چلتی دانیال نے اس کی بات کاٹی ۔
"چشمو تو رہنے دے جب تک تو نے جی ،جی کرنا ہے نا تب تک میری بیوی سارا بتا دےگی "
وہ آخر میں بیوی کہہ کر جتانا نہیں بھولا ۔
"بیوی نہیں منکوحہ ہے تمہاری "
بینش نیل پینٹ کھرچتے ہوے بولی ۔ دانیال نے اسے تیز نظروں سے گھورا ۔
"بیوی ہے فلک میری اور من چاہی بیوی "
دانیال جیسے حتمیٰ انداز میں بولا ۔بینش نے پہلو بدلا تھا ۔احمر بھی چشموں کے پیچھے سے آنکھیں پٹپٹاتا دونوں کو دیکھ رہا تھا ۔جب کہ فلک کے چہرے پر حیا کی لالی چھا گئی ۔دانیال نے اسے دیکھا وہ ادھر ادھر نظریں گھما رہی تھی اور بلاوجہ ہی پونی میں قید اپنے بالوں کی لٹیں کانوں کے پیچھے اڑس رہی تھی ۔
"ہممممم ۔۔۔"
بینش سر تا پاؤں فلک کے شرمائے روپ کو تیز نظروں سے دیکھتی مڑ گئی ۔
"میں بلاوجہ ہی دانیال کے پیچھے پڑی ھوں وہ تو فلک کو چاہتا ہے ۔ مگر میرا کیا ہو گا ؟ کیا میں دانیال کے بغیر رہ پاؤں گی ؟"
اس نے جیسے خود سے پوچھا ۔جس دن پہلی بار دانیال اسے یونیورسٹی میں ملا تھا بینش کے دل نے اسی روز کہہ دیا تھا کہ یہ اپنے آپ میں اکلوتا پیس ہے ۔ آہستہ، آہستہ اس کی شرارتیں ،اس کی شوخیاں اس کے دل کو بھاتی گئیں اور کب وہ اس سے محبت کرنے لگی وہ خود بھی نا جان پائی اس کا ادراک تو اسے روز ہوا جب فلک اور دانیال کے نکاح کی خبر اسے ملی ۔ اس رات وہ ناجانے کتنی دیر تک روئی۔ اور اگلے دو روز تک وہ بخار میں تپتی رہی ۔ پھر بھی ان کے سامنے مسکراتی رہی ۔
"کسی کی محبت کو کیسے دل سے نکالا جا سکتا ہے اور وہ بھی تب جب اس کی محبت آپ کی رگوں میں خون بن کر دھوڑے ،دل ھر لمحہ اس کے ساتھ کو تڑپے ،سکون ایک لمحے کو نا ملے ۔لوگ کہتے ہیں محبت نہیں ہوتی مگر میں کہتی ھوں محبت ہوتی ہے اور بڑی بےدرد ہوتی ہے ۔"
اس نے خود سے کہتے ہوے ادھر ادھر دیکھ کر کمال مہارت سے آنسو چھپائے ۔
"اس شخص کی محبت کو دل سے نکالنا نا ممکن ہے ۔ اور میرے لیے بھی تمھے بھلانا ناممکن ہے کبھی نہیں ۔جو میرا ہے وہ صرف میرا ہے "
اس نے دانیال کو دیکھا جو فلک کے ساتھ خوش تھا ۔
"نہیں وہ فلک کا ہے "
دماغ نے کہا ۔
"وہ بس میرا ہے "
دل کی ضد تھی اور دل کے سامنے وہ بھی مجبور تھی ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔'
تیرے دیدار کو اٹھتی نگاہ مایوس رہتی ہے
کیفیت دل آج کل عجیب رہتی ہے
یہ تیرے عشق کی بخشی سوغات ہے
کہ میری آنکھ ھر وقت پرنم رہتی ہے
میں کہوں یا نا کہوں یہ بول دیتی ہے
خاموشی اندر کی انسان کو توڑ دیتی ہے
لطفِ جفا اٹھا کر آتش عشق میں جلتی ھوں
میں ھر روز جی کر ھر روز مرتی ھوں
۔(از : مریم )
۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آج ان چاروں کا ارادہ شاپنگ اور اوٹنگ پر جانے کا تھا ۔فلک بارہ بجے کے قریب ناشتہ کر کے انہی کی طرف آچکی تھی ۔اب وہ جھولے پر بیٹھی سیب کھا رہی تھی اس نے سامنے دیکھا جہاں صدر دروازے سے دانیال چلتا ہوا آرہا تھا صبح نماز پڑھ کر آنے کے بعد وہ سو گیا تھا آج سنڈے تھا اس کا ارادہ لمبی نیند لینے کا تھا مگر پھر اوٹنگ پر بھی جانا تھا ۔وہ ابھی نہا کر شازو کو ناشتہ باہر لانے کا بول کر آیا تھا ۔سامنے ہی فلک بیٹھی تھی دانیال مسکراتا اس کی طرف چلا آیا ۔
"ملکہ خادم کا سلام قبول کریں "
وہ سر کو خم دیتا ہوا بولا ۔
"میں تمہیں سیب نہیں دوں گی فلک کو لگا اس کی نظر سیب پر ہے اس نے سیب کو دونوں ہاتھوں میں یوں پکڑا کہ جیسے چھوٹا بچہ کھلونا چھپائے کھڑا ہو ۔
"سلام کا جواب دینا فرض ہے "
وہ دھیرے سے چلتا اس کے پیچھے آیا ۔
"فلک سامنے دیکھو شازو کیک لا رہی ہے "
فلک نے اس کی بات پر ایمان لاتے ہوے جلدی سے سر اٹھایا جہاں لان دور، دور تک خالی تھا اور یہاں اس کا اپنا ہاتھ بھی خالی ہو چکا تھا دانیال بڑی صفائی سے اس کے ہاتھ سے سیب نکال چکا تھا ۔
"دانیال تم ۔۔بتمیز ۔۔چول ۔۔۔ڈفر "
دانیال اس کے سامنے ہی اس کا بچا سارا سیب کھا چکا تھا ۔
"اوے شرم کرو بیگم تمہارا شوہر ھوں میں "
اس نے اسے شرم دلانا چاہی ۔
"تو میں کیا کروں آیا بڑا شوہر ۔۔۔ جو بھی میرے کھانے کو چھیننے کی کوشش کرے گا وہ خواہ کوئی بھی ہو میرا دشمن ہی ہے "
فلک جوتا اٹھائے اس کے پیچھے دھوڑ رہی تھی اور دانیال آگے آگے دھوڑتا اس لمحے کو کوس رہا تھا جب اس نے اس کا سیب چھینا تھا ۔ صدر دروازے میں نور اور امل بازو باندھے کھڑی ان دونوں کو دیکھ رہی تھیں۔
۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پچھلے دو گھنٹے سے وہ چاروں مال میں گھومتے پھر رہے تھے ۔کبھی ایک دکان تو کبھی دوسری دکان ۔۔۔
"بس "فلک ایک دم چلا کر کہتی رکی ۔ اندر بل ادا کرتی نور اور امل بھی بل دینے کے بعد فورا باہر آئیں جہاں فلک زمین پر ہی التی پالتی مارے بیٹھے تھی ۔
"کیا کر رہی ہو فلک ؟"
دانیال نے اسے گھورا ۔
"بھوک لگی ہے "
وہ منہ بسورے بولی ۔
"مجھے بھی "
دانیال نے سارے بیگ ایک طرف رکھے اور اس کے برابر میں بیٹھ گیا ۔
"لیکن کھانا تو تم کھلاؤ گے دانی "
نور نے ایسے کہا گویا گھر سے نکلتے وقت دانیال نے فراغ دلی سے کہا ہو آج کی پارٹی میری طرف سے ۔
"میں کیوں کھلاؤں ؟"
دانیال نے ابرو اچکا ئی ۔
"دیکھو تم لڑکے ہو ۔لڑکے کے ساتھ اگر لڑکیاں ھوں اور وہ لڑکا ان کے پیسوں سے کھائے تو اس کی مردانگی پر لعنت ہے اسے پھر چوڑیاں پہن لینی چاہیںں ۔"
فلک نے اسے بلیک میل کرنا چاہا ۔دانیال چند ثانیے ان تینوں کو دیکھتا رہا ۔
"مجہے چوڑیاں پہننا منظور ہے "
اوہ اطمینان سے بولا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔فلک ،امل اور نور اس پر دو حرف بھیجتیں باہر کو چل دیں ۔ وہ بھی ان کے پیچھے ہی دھوڑا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور کے اسرار پر وہ سب میک ڈونلڈ آئے تھے وہ چاروں کھانا کھا چکے تھے ۔فلک پیچھے کی طرف ہو کر بیٹھی ۔
عرض کیا ہے :--
کے۔ایف۔سی کا ذکر کرتے دل نہیں تھکتا
میک ڈونلڈ کھا کھا کر دل نہیں بھرتا
جانے کیا کشش ہے اس کھانے میں
بندو خان جائے بنا کام نہیں بنتا
(از علیشا )
"کیا بات ہے واہ واہ "
سب نے فلک کو داد دی ۔
"کے۔ایف۔سی جا کر بھی جہاں سکندر نہیں ملتا۔"
نور نے دہائی دینا ضروری سمجھا جس پر ان تینوں نے اسے گھورا تو وہ سر جھٹکتی خاموش ہو گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرنٹ سیٹ پر فلک پاؤں اوپر کیے بیٹھی دانیال سے کوئی بات کر رہی تھی ۔امل پچھلی سیٹ پر نور کے ساتھ بیٹھی اپنا موبائل چلا رہی تھی ۔ وہ آریان سے بات کر رہی تھی ۔ نور گاڑی کے شیشے سے منہ چپکا کر بیٹھی باہر دیکھ رہی تھی یوں کہ باہر سے گزرنا والے اسے پاگل ہی سمجھ رہے تھے مگر وہاں پرواہ کسے تھی ؟ ان کی گاڑی کے پاس سے رکشہ گزرا ۔نور کی آنکھیں چمک اٹھیں ۔
"دانیال گاڑی روکو "
دانیال نے بریک لگائی ۔چونکہ فلک اس کے لیے تیار نہیں تھی اس سر ڈیش بورڈ سے ٹکراتا ٹکراتا بچ گیا ۔اس نے دانیال کو زبردست گھوری سے نوازا ۔
"یار میں نے رکشہ میں جانا ہے گھر ۔میری بڑی خواہش تھی "
وہ آنکھیں پٹپٹاتی ہوئی بولی ۔
"کوئی بات نہیں نور میں اور فلک اکثر رکشہ پر بھی آتی جاتی ہیں یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے جاؤ دانی "
امل کے کہنے پر دانیال خوشی خوشی گاڑی سے نکلا ۔ان دونوں چڑیلوں کو نکل کر وہ فلک کے ساتھ لونگ ڈرائیو پر جائے گا ۔
"ہیلو بھائی "
وہ ایک رکشہ کے پاس آیا جو سڑک کے کنارے کھڑا تھا ۔رکشہ والا بھائی اپنا ٹچ موبائل چلانے میں مصروف تھے ۔
"بھائی فالو می "
"آپ کا نام ؟"
"دانیال شاہزیب "
دانیال نے حیران ہوتے ہوے جواب دیا ۔ یہ نام کی رجسٹریشن کر کے رکشہ چلاتا ہے ۔دانیال نے دل میں سوچا ۔وہ اپنے موبائل پر مصروف تھا ۔اس نے سر اٹھا کر ایک دفع دانیال کو دیکھا اور پھر دوبارہ موبائل کو ۔دانیال کے موبائل پر نوٹیفکیشن رنگ بجا ۔
"صاحب اپنا فون دیکھو "دانیال نے کچھ حیران ہوتے ہوے اپنا فون کھولا جہاں اسے انسٹاگرام نوٹیفکیشن آئی ہوئی تھی ۔"دی رکشہ والا آفیشل " سٹارٹڈ فولونگ یو "
"یہی دن رہ گئے تھے "
دانیال بڑبڑایا ۔
"سر آن لائن ٹرانسپورٹ کا بزنس ہے میرا ۔ آپ کا سنیپ چیٹ ہے ؟"
وہ ٹھوری تلے ہاتھ رکھے پوچھ رہا تھا ۔
"لو بھائی معاف کرو مجھے کوئی نارمل بندہ ڈھونڈھنے دو "
وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑتا دوسری طرف چلا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔
فلک کو ان دونوں کے ساتھ جاتا دیکھ کر دانیال تو جل بھن ہی گیا ۔ پھون پھاں کرتا وہ گھر واپس آیا ۔ وہ تینوں ابھی بھی نہیں آئی تھی ۔اس نے فورا امل کو فون کیا ۔
"کدھر ہو پہنچی نہیں ابھی تک ؟"
وہ سلام دعا کے بغیر ہی بولنے لگا ۔
"یار ہم گول گپے کھا رہی ہیں "
امل نے بھرے منہ سے جواب دیا ۔
"کدھر ہو میں بھی آرہا ہوں ۔"
وہ اندر سے بائیک کی چابی لینے دھوڑا ۔امل اسے ایڈریس بتا چکی تھی ۔سامنے گول گپے تھے اب ناراض ہونا کہاں بنتا تھا ۔ فلک نے اپنے پیسوں سے گول گپے کھلا کر دانیال کا دل ہی جیت لیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔
جنوری بھی اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا ۔ معمولات زندگی ویسے ہی چل رہے تھے ۔ آج موسم ابرآلود تھا ۔ یونیورسٹی کے کھلے میدان میں دور ۔ دور تک لڑکے، لڑکیوں کی ٹولیاں نظر آرہی تھیں ۔ کچھ نوٹس بورڈ کے سامنے کھڑے تھے وہاں رش ہی رش تھا ۔ کھچا ،کھچ سٹوڈنٹس نوٹس بورڈ پر لگا رزلٹ دیکھنے میں مصروف تھے ۔
کیفے کے باہر بینچ پر دانیال اطمینان سے بیٹھا برگر کھا رہا تھا ۔ سائیڈ پر پڑی کوک کو اٹھا کر وہ وقفے ،وقفے سے اسے بھی پی رہا تھا ۔ ارد گرد لڑکے لڑکیاں اس کی طرف اشارے کرتے باتیں کر رہے تھے ۔
"بھوکو ۔۔۔جا کر لے لو تم لوگ بھی پیسے نہیں ہیں ایوں میرے برگر پر نیت مارنی لی ہے "
وہ نخوت سے بولا ۔ سامنے سے فلک چلی آرہی تھی اس کی آنکھوں میں بےیقینی تھی ۔ دانیال نے برگر کا آخری لقمہ منہ میں ڈالا اور سب لڑکے لڑکیوں کو زبان چڑھائی ۔
"لو بدنیتو ۔۔۔ کھا لیا میں نے اب آگے کا کام میرے نظام انہضام کا ہے اللّه اس پر رحم کرے ورنہ جس انداز میں تم لوگ دیکھ رہے تھے نا مجھے نہیں لگتا ہضم ہو گا "
وہ اونچی آواز میں بول رہا تھا ۔ پھر مڑا ۔ فلک اس کے پیچھے کھڑی تھی ۔اس کی آنکھوں میں اب بےیقینی کے ساتھ ،ساتھ آنسو بھی تھے ۔
"تمھے کسی نے کچھ کہا ہے ؟ بتاؤ مجھے ؟؟ فلک ؟؟ میں اس شخص کو چھوڑوں گا نہیں "
"میں فرسٹ نہیں آئی ۔"
فلک روتے ہوے بولی ۔
"یار مجھے دیکھو میں کیسے چِل مار رہا ھوں مجھے پتا ہے میں نے فیل ہو جانا ہے ہاہاہا ۔۔۔۔"
وہ آخر میں ہنسا مقصد اس کا موڈ فریش کرنا تھا ۔
"میں فرسٹ نہیں آئی "
فلک چبا ،چبا کر بولی ۔
"بتاؤ کون ہے وہ رزیل شخص جو فرسٹ آیا ہے میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔۔۔اس کی اتنی جرت ؟ میری گلابو کی آنکھوں میں آنسو لے آیا ۔۔۔ کہاں ہے وہ انسان ؟؟"
وہ آستینیں کہنیوں تک موڑتے ہوے بولا ۔فلک نے اسے گھور کر دیکھا پھر بنا کچھ کہے اسے اپنے ساتھ نوٹس بورڈ تک گھسیٹتی ہوئی لے گئی ۔ وہ بھی اپنے آپ کو اس شخص سے نپٹنے کے لیے تیار کرنے لگا جو اس کی فلک کو رلا رہا تھا ۔ وہ تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ شخص وہ خود ہے ۔
فلک نے اسے نوٹس بورڈ کے سامنے کھڑا کیا ۔
"چلو پہلے لگے ہاتھوں اپنا بھی دیکھ لوں "
کہتے ہی اس نے لسٹ کے آخر سے اوپر کی طرف دیکھنا شروع کیا ۔ جلد ہی اسے نور صاحبہ کا نام بھی مل گیا جن کی جی۔پی ۔اے خاصی اچھی آئی تھی ۔
"چڑیل ناول پڑھتی رہتی ہے جی ۔پی ۔اے اتنی اچھی لی ہے "
وہ بڑبڑایا ۔
فلک دسویں اور امل گیارویں نمبر پر تھی ۔ اس کی انگلی جونہی لسٹ کے ٹاپ پر پہلے نام پر رکی اس کا منہ کھل گیا ۔اس نے زور سے اپنی آنکھیں مسلیں شاید یہ اس کی آنکھوں کا دھوکہ تھا مگر جو لسٹ دکھا رہی تھی اسے قبول کرنا دانیال کے لیے مشکل تھا ۔ "دانیال شاہزیب " جی۔ پی ۔اے (3.60) "
دانیال ایک دم چلا اٹھا ۔
"بلے ۔۔۔بلے ۔۔بلے "
وہ بھنگڑے ڈالتا ہجوم سے نکلا ۔فلک بھی اس کے پیچھے چلی آئی ۔
"میری کامیابی سے جل رہی ہو ؟"
وہ اس کی آنسووں سے بھری آنکھوں کو دیکھتے ہوے پوچھ رہا تھا ۔
"نہیں تمہاری کامیابی پر خوش ہو رہی ھوں ۔۔۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔۔۔ بس اب تو یہ سوچ کر رونا آگیا کہ کونسا کنجوس ٹاپ آیا ہے ٹریٹ کی فکر ہے "
وہ شرارتی لہجے میں بولی ۔ اسے واقعی ٹریٹ کی فکر دی ۔ دل کو آج دانیال کی کامیابی دیکھ کر جو خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر تھی ۔ امل بھی ہنستے ہوے ان کی طرف چلی آئی ۔
"مبارک ہو ۔۔۔جیب خالی کر دیں گی ہم یاد رکھنا ۔۔"
امل اور فلک نے ایک دوسرے کے ہاتھوں پر تالی ماری اور ہنس دیں ۔
"تم دونوں نے بھی چوکا ہی مارا ہے مبارک ہو ۔۔اور نور نے بھی مجھے خاصہ حیران کیا ہے "
وہ ہنستے ہوے بولا ۔
"نور کدھر ہے ؟"
فلک نے امل کی طرف مڑتے ہوے پوچھا ۔
"اپنی گرو کے پاس ہے ۔۔"
"اقصیٰ کی بات کر رہی ہو ؟"
دانیال نے سر جھٹکتے ہوے پوچھا ۔
"ہاں ۔۔"
"اس اقصیٰ بندری نے اتنے ناول پڑھے ہیں مجھے تو لگتا ہے مرتے وقت بھی فرشتوں سے یہی کہے گی "ون مور پلیز ""
دانیال فلک کی بات پر قہقہہ لگا کر ہنس دیا ۔ وہ تینوں چلتے ہوے اس درخت کے پاس گئے جہاں اقصیٰ نامی بدروح ڈھیر سارے ناولز کے ساتھ موجود رہتی تھی ۔اقصیٰ وہیں بیٹھی تھی مگر نور وہاں نہیں تھی ۔
"اقصیٰ "
دانیال نے اسے زور سے آواز دی ۔
"آگئے ہمارے خوابوں کے شہزادے "
وہ چشمہ درست کرتی ہوئی دانیال کو دیکھنے لگی ۔
"اقصیٰ اماں یہ میں ھوں "
وہ اسے اماں ہی کہتا تھا ۔
"اہ دانیال حد ادب گستاخ ۔۔یہ آپ ہیں۔۔اور ہم نا جانے کون سے محاسبے میں چلے گئے تھے ؟۔ ہمیں لگا ہم اپنے خابوں کے راج کمار کے روبرو ہیں ۔چلیں عالمِ تخیل میں ہی صحیح ہم نے انھیں سوچ تو لیا ۔گو ۔۔۔"
"یار اقصیٰ اپنی پیور اردو کی دکان بند کرو اور یہ بتاؤ ۔۔نور کہاں ہے "
فلک اکتا گئی ۔۔اقصیٰ کی اردو ۔۔۔اف
"وہ تو ابھی اپنے فون کے میموری کارڈ کو ناول سے پر کروانے کے بعد یہاں سے تشریف لے جا چکی ہیں ۔ہمیں لگتا ہے وہ لائبریری میں ہے "
"شکریہ "
امل اور فلک آگے چلی گئیں دانیال ابھی تک اقصیٰ کو دیکھ رہا تھا ۔
"کیا دیکھ رہے ہیں ؟"
"دیکھ رہا ھوں کون ہے تمہارے ساتھ جس وجہ سے تم خود کو ہمیں "ہمیں " کرتی ہو ۔پہلے مجھے شک تھا اب یقین ہےکہ اماں اقصیٰ آپ پر بدروحوں کا بدترین سایہ ہے "
وہ خاصی سنجیدگی سے بولا ۔اس سے پہلے اقصیٰ محترمہ اس کا سر پھاڑتیں وہ وہاں سے بھاگ گیا ۔
نور لائبریری سے باہر نکل تھی تھی اس کے ہاتھوں میں ڈھیر سارے ناول پکڑے ہوے تھے ۔
"یہ ۔۔یہ کس لیے؟ "
امل نے اس کے ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا ۔
"کیا مطلب اتنی اچھی جی ۔پی ۔اے لی ہے میں نے اب سیلیبڑیشن بنتی ہے "
نور نے کتابیں سمبھالتے ہوے کہا ۔
"اللّه بچائے فہد کو "
دانیال بڑبڑایا ۔
"دانی منحوس اگر تم فرسٹ نا آے ہوتے اور اگر ٹریٹ نا لینی ہوتی نا تم سے اور اگر میرے ہاتھ میں یہ ناول نا ہوتے تو میں تمہارا سر پھوڑ دیتی ۔۔"
وہ دانت پیستے ہوے بولی ۔
"حیرت ہے بھائی ناول بھی پڑھ لیتی ہو اور اتنی زبردست جی ۔پی ۔اے بھی لے لی ۔"
دانیال کے کہنے پر نور نے بس کندھے اچکائے ۔ اب انھیں کون بتاے خ پڑھائی کے ساتھ ساتھ ناول پڑھنا بھی ایک ٹیلنٹ ہے جو نور بی ۔بی میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا ۔
۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یونیورسٹی کا فن ویک شروع ہو چکا تھا ۔ یونی میں سینئرز کی فیرویل تھی۔ ان سب کا سارا دن تیاریوں میں ہی گزر جاتا تھا ۔دانیال کی جیب امل ،فلک اور نور نے خالی کر کے ہی چھوڑی تھی مگر وہاں بھی پروا کسے تھی کونسا یہ اس کا پیسا تھا ۔۔۔ان چاروں نے کسی بھی چیز میں حصہ نہیں لیا تھا ان چاروں کے مطابق انھیں تماشا دیکھنا زیادہ پسند ہے ۔۔احمر نے کمپیرینگ کرنا تھی وہ اکثر اس میں مدد لینے کے لیے فلک کے پاس آتا اور دانیال کڑتا رہتا ۔
فنکشن رات گئے شروع ہونا تھا ۔ وہ چاروں بھی اس وقت تیار ہو رہے تھے ۔دانیال اپنے کمرے میں سکون سے تیار ہو رہا تھا اس نے بلیک وائٹ پلین شرٹ اور گرے پینٹ پہن رکھی تھی ۔ گرے کوٹ ایک طرف پڑا تھا جسے وہ آخر میں پہننے والا تھا ۔ بال جیل سے ایک طرف سیٹ کیے ہوے تھے ۔جب کہ امل کے کمرے میں فلک اور نور دونوں ہی امل کے ساتھ تھیں ۔
"امل ہٹو یار مجھے مسکارا ٹھیک کرنے دو ۔تم نے تو بال بنا لیے ہیں "
نور اسے ایک طرف کرتی کب سے مسکارا لگانے کے جتن کر رہی تھی ۔وہ لائٹ پنک ہلکے گولڈن رنگ کی کڑھائی والا کرتا اور کیپری پہنے ہوے تھی کانوں میں ہلکے سے ایرنگ پہن رکھے تھے ساتھ میں امل کھڑی تھی اس نے جامنی فراک پہن رکھا تھا جس پر سلور کڑھائی تھی ۔ فلک تیار ہو چکی تھی اب وہ کاوچ پر بیٹھی اپنی ہیل کے سٹیپس بند کر رہی تھی ۔وہ سفید کرتا ٹائپ شرٹ کے ساتھ گلابی شرارا پہنے ہوے تھی ۔تینوں نے پارٹی میک اپ کے بجائے لائٹ میک اپ کو ترجیح دی تھی ۔ امل بھی اپنی تیاری کو فائنل ٹچ دے رہی تھی ۔
"چلیں لڑکیوں ؟"
دانیال انہی کے کمرے میں چلا آیا ۔
"بھوتنیاں "
وہ ہنستے ہوے بولا ۔
"دفع ہو دانیال "
نور اسے کوستی باہر کی طرف چل دی امل دانیال کو آنکھ مارتی نور کے پیچھے ہی نکل گئی ۔دانیال امل کا اشارہ سمجھتا مبہم سا مسکرایا ۔ فلک بھی ان کے پیچھے جانے والی تھی مگر اس سے پہلے ہی اس کا مومی ہاتھ دانیال کی گرفت میں آچکا تھا ۔
"کیا ہے ؟"
وہ غصے سے پلٹی ۔
"ماشاء اللّه "
وہ اس کا بھر پور جائزہ لیتے ہوے بولا ۔ پھر اس کا ہاتھ ہلکے سے دبا کر چھوڑا اور اسے آنکھ مارتا باہر کو چل دیا ۔ وہ سرخ چہرہ لیے باہر آئی ۔
"ویسے ڈفر سا ۔۔۔ لگ کتنا پیارا رہا ہے ۔افف میں بھی نا "
اس نے سر پر ہاتھ مارا ۔باہر دانیال ہارن پر ہارن دے رہا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جس وقت وہ تینوں پہنچے ،یونیورسٹی کھچا کھچ رنگ و بو کے سیلاب سے بھری ہوئی تھی ۔ رنگ برنگے آنچل ، قہقہے ، کچھ کی آنکھوں میں اداسی اور کچھ کی آنکھوں میں خوشی ۔ اداسی ان آنکھوں میں تھی جن کو یونیورسٹی ٹوٹ کر یاد آنے والی تھی ۔۔۔وہاں گزرا وقت ،وہاں لگاے قہقہے ، وہ باتیں ،وہ بنک مارنا ،سارا دن موج مستی کرنا ، پروفیسروں کی کھٹی میٹھی ڈانٹیں ۔ بلاشبہ کسی چیز کی قدر تب ہی ہوتی ہے جب ہم اس چیز سے دور کر لیے جاتے ہیں ۔ وقت کی قدر تب ہوتی ہے جب وقت گزر جاتا ہے ۔۔۔مگر ان سب کا وقت اچھی یادیں بناتا گزرا تھا مگر پھر بھی ۔۔۔ اب وہ کبھی دوبارہ اس گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی ویسی ہی شوخی ،شرارتیں نہیں کر سکتے تھے ۔۔کیوں کہ وہ وقت گزر گیا تھا ۔۔۔ زندگی میں اب انھیں آگے بڑھنا تھا ۔۔۔عملی زندگی میں قدم رکھنا تھا ۔ زندگی اب اپنے حقیقی روپ میں ان کے سامنے آنے والی تھی ۔۔۔ نا جانے زندگی کیا روپ دکھانے والی تھی ؟ نا جانے کون سا ؟ اور کیسا ؟
خوش وہ تھے جنہے یہاں سے جانے کی خوشی تھی ۔۔وقت تو ان کا بھی اچھا گزرا تھا مگر ان کی آنکھوں میں آنے والے وقت کو لے کر نئی امیدیں اور نئی امنگیں تھیں ؛ وہ کچھ حاصل کرنا چاھتے تھے مزید کامیابیاں ۔۔!!! اب وقت ان کا اپنا تھا جسے انہوں نے عملی طریقے سے خوبصورت بنانا تھا ۔۔۔۔ زندگی کا کھٹن اور نا ختم ہونے والا سفر شروع ہو چکا تھا ۔۔ایک جہد مسلسل ۔زندگی میں ہمیں کوئی بھی راستہ آراستہ نہیں ملتا ۔۔۔ھر راستے کو ہمیں خود آراستہ کرنا پڑتا ہے ۔اور دانیال ،امل ،فلک اور نور تو اسی بات پر بےانتہا خوش تھے کہ وہ نئے آنے والے بچوں کی ریگینگ کریں گے ۔
یونیورسٹی کی آرائیش بہت ہی خوبصورت انداز میں کی گئی تھی ۔ ان چاروں نے بھی اپنی جگہ سمبھالی ۔بینش یونیورسٹی میں داخل ہوئی ۔نظریں بس ایک ہی شخص کی منتظر تھیں اور پھر دس منٹ بعد اسے وہ نظر آہی گیا وہ فلک اور امل کے درمیان بیٹھا کسی بات پر ہنستے ہوے سوفٹ ڈرنک پی رہا تھا ۔ وہ کتنا خوبرو لگ رہا تھا ۔بینش کا دل پوری رفتار سے دھوڑنے لگا ۔ ۔۔اسے لگا وہ پاگل ہو جائے گی ۔اسے اس شخص کی محبت ، عشق کی منزل تک لے گئی تھی ۔۔ عشق کا لطف دوبالا تبھی ہوتا ہے جب عشق میں جفایں بھی ملیں ۔۔اور اسے تو شروع دن سے جفایں ہی نصیب ہوئی تھیں ۔۔وہ خود اپنے دل کو خوش فہم کیے بیٹھی تھی ۔اس شخص نے تو کبھی بھی اسے امید نہیں دلائی تھی ۔۔نا کبھی اپنی باتوں سے نا کسی اشارے سے۔۔۔ایک دم ہی بینش کو لگا وہ کسی سمندر میں کھڑی ہے ایسا سمندر جس کا کوئی کنارہ نہیں ۔۔ اسے لگا اوہ دانیال شاہزیب خان سے صدیوں کے فاصلے پر کھڑی ہے ۔ یوں جیسے ان کے درمیان ایک زمانے کا فاصلہ تھا ۔۔ہاں یہ سچ ہی تو تھا ۔ وہ عشق میں جوگن بن چکی تھی وہ لڑکی جو سب کو جھکاتی تھی آج خود جھک گئی تھی ۔محبت کے سامنے ۔۔اپنے عشق لاحاصل کے سامنے ۔۔۔!!!
نہیں۔۔۔!!! وہ فاصلہ نہیں بڑھائے گی وہ خود کو ڈوبنے نہیں دے گی ۔۔!!! اسے اس منزل عشق کا کنارہ چاہیے تھا جو دانیال تھا ۔ دماغ لاکھ کہہ رہا تھا کہ وہ دانیال ہے صرف فلک کا مگر دل ضدی بچے جیسا ہو رہا تھا ۔وہ اپنی سیاہ میکسی سمبھالتی قدم قدم چلتی ان تک آرہی تھی ۔ ۔ ۔ اس کی آنکھوں میں نمی کے ساتھ ساتھ چمک بھی تھی ۔وہی چمک جو ہمیشہ اس شخص کو دیکھ کر آتی تھی ۔
"ہیلو ۔۔۔"
وہ اپنے ازلی انداز میں ان کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی ۔ دانیال نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔دانیال کے یوں دیکھنے پر وہ بھی ہلکا سا مسکرائی ۔
"بیٹھ جاؤ یہیں ۔۔!"
دانیال نے رسمی سے انداز میں کہا ۔وہ اس کے دوست کی بہن تھی اتنا تو وہ کر ہی سکتا تھا کہ اسے جگہ اففر کرتا ۔ اس شخص نے مروت اور دنیا داری نبھاتے ہوے اسے بیٹھنے کو کہا تھا اور بینش بخت قریشی کو لگا کہ وہ اس کی نافرمانی کر کے محبت کو ناراض کرے گی ۔وہ بغیر کسی سوال و جواب کے وہیں بیٹھ گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی فلسفہ نہیں عشق کا ، جہاں دل جھکے وہیں سر جھکا
وہیں ہاتھ جوڑ کر بیٹھ رہ ،نا سوال کر نا جواب دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر فنکشن رات گئے جاری رہا ۔۔۔ سینئرز نے اسٹیج پر آکر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور یونیورسٹی کی حسین یادوں کو دہرایا ۔۔۔اور وہ جو دانیال ،فلک اور امل کی ریگنگ کرنے والے تھے اور بیچارے خود کی ہی ریگنگ کروا بیٹھے انہوں نے بھی اسٹیج پر آکر اس واقعے کو دہرایا ان کے مطابق ایسے جونیئرز سے ان کا واسطہ پہلی دفع پڑا تھا ۔۔سب ہنس ،ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے خود وہ تینوں بھی اس وقت کو یاد کر کے ہنس رہے تھے ۔سارے لڑکے ، لڑکیاں اور پروفیسرز ان کی جانب دیکھ کر ہنس رہے تھے ۔وہ تینوں کسی تعارف کے محتاج نہیں تھے ۔ احمر بھی کمپرینگ خاصے جوش و خروش سے کررہا تھا ۔ فلک بیک اسٹیج میں اسی کے ساتھ تھی ۔دانیال بیٹھا جل بھن رہا تھا اور خود وہ اس سب سے بے خبر بینش کی آنکھوں کا مرکز بنا ہوا تھا جس کی نظریں ھر سوسے گھوم کر اسی کی جانب آجاتی تھیں ۔دل پر اختیار نا تھا ۔۔دماغ کو وہ سمجھا لیتی لیکن دل کا کیا کرتی ۔؟؟
کچھ دیر بعد فضا میں مختلف کھانوں کی خوشبو پھیلنے لگی ۔ اسٹیج کی پچھلی طرف دو کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھی فلک تک بھی وہ خوشبو پہنچی ۔ وہ باہر جا کر دانیال کے ساتھ کھانا، کھانا چاہتی تھی ۔اس لیے احمر کے وہاں آتے ہی وہ اسے بتا کر وہاں سے نکلی ۔ اسے دانیال ایک طرف کھڑا نظر آیا ۔۔۔ دانیال نے اس کی طرف دیکھا پھر رخ موڑا ۔اشارہ تھا کہ وہ اس سے سخت ناراض ہے ۔۔۔ فلک کو اس سخت قسم کی ناراضگی کا اندازہ ہوا ۔وہ اس شخص کی ناراضگی مول نہیں لے سکتی تھی ۔کبھی بھی نہیں ۔۔
"دانیال شاہ "
وہ اس کی طرف بہت تیزی سے چلتی ہوئی آئی تھی ۔
"کیا ہو گیا ہے ؟ ایسے بلا رہی ہو جیسے میں مر گیا ھوں "
وہ چڑ کر بولا ۔ فلک کو اس کی مرنے والی بات سخت ناگوار گزری مگر وہ ابھی یہ بات کر کے اس کا موڈ مزید خراب نہیں کرنا چاہتی تھی ۔لارڈ صاحب کے نخرے ہی بہت تھے ۔
"استغفراللّه ۔۔ دانی بولنے سے پہلے بندہ سوچ ہی لیتا ہے "
فلک کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوے بولی ۔
"اچھا بس ۔۔بس اب زیادہ لیکچر نا دو مجھے اور وجہ بتاؤ یہاں آنے کی ۔۔جس کے لیے پاگلوں کی طرح دھوڑ رہی تھی تم ۔۔اگر گر جاتی تو ؟"
دانیال فکر مند نظر آیا ۔فلک نے مسکراہٹ دبائی ۔یہ شخص ناراضگی میں بھی اس کا خیال رکھتا تھا ۔اس کی محبت کا انداز بھی عجیب ہی تھا ۔ایک دم ہی فلک کا دل چاہا وہ اسے تنگ کرے اور اس نے یہی کیا دل کی آواز پر لبیک کہا ۔
"ہاں تو گر جاتی نا تمھے اس سے کیا ۔۔تم جاؤ اپنی بینش کے پاس مجھےایرا احمر خود سمبھال لے گا "
اس نے ایک ادا سے بالوں کو جھٹکا ۔وہ جانتی تھی وہ چڑے گا ۔اور ایسا ہی ہوا ۔
"اس احمر کی ماں کی ۔۔۔"
وہ غصے سے بڑبڑایا ۔۔پھر فلک کو دیکھا جو اسے گھور رہی تھی
"ایسی کی تیسی "
اس نے فقرا مکمل کرنے میں ہی عافیت جانی ۔
"وہ میں نے احمر کو بینش کے ساتھ دیکھا تھا ابھی باہر ۔۔ تمھے سمبھالنے کے لیے میں ہی کافی ھوں ۔اور ویسے بھی وہ سنگل پسلی تم جیسی بھینس کو کیسے سمبھالے گا ۔"
اب دانیال احمر کے لیے فکر مند دکھائی دے رہا تھا ۔فلک نے دانت پیسے ۔
"کیا کہا تم نے مجھے ؟؟ بھینس ؟؟ میں تمھے بھینس نظر آتی ھوں ؟ تم خود کیا ہو ؟ ہاں ؟بولو ؟جواب دو ؟"
فلک جارحانہ انداز میں اس کی جانب بڑھی ۔
"بھینس کے گھر والا ۔۔بھینسا "
وہ کہتے ہی دھوڑا کیوں کہ وہ فلک کو اپنا جوتا اتارنے کی زحمت کرتا دیکھ چکا تھا ۔
"کمینہ ۔۔۔"
وہ زیرلب بڑبڑائی ۔یہ سچ تھا کہ وہ کبھی اس کی عزت نہیں کر سکتی تھی ۔جانتی تھی دانیال شاہزیب کو کھانا اور باقی سب تو راس آجاتا ہے ۔مگر عزت راس نہیں آسکتی ۔
وہ کچھ دور جا کر رکا پھر بیرے کو دیکھا جو کھانا لا کر بوفے میں رکھ رہا تھا ۔وہ وہیں سے پلٹا اور اس کی طرف چلا آیا وہ ابھی تک کھڑی اسے خشمگیں نگاہوں سے گھور رہی تھی ۔
"بیگم مجھے لگتا ہے ہمیں لڑائی ختم کر دینی چاہیے ۔دیکھو سامنے ۔۔کھانا آگیا ہے" فلک نے بھی سمجھتے ہوے سر ہلایا ۔ اور بس پھر وہ دونوں تھے اور کھانا تھا ۔ ۔۔انھیں کسی کے اپنی طرف دیکھنے سے پروا نہیں تھی ۔کیوں کہ دونوں کے بقول جب وہ کھانا کھاتے تھے تو ان کے لیے سب کچھ ختم ہو جاتا تھا ارد گرد انھیں سمندر ہی نظر آتا تھا بس جو نظر آتا تھا وہ صرف کھانا تھا ۔۔۔!!!!
۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔
فلک دانیال کے کمرے میں آئی ۔اس کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی جس میں گلاس اور جوس کا ڈبہ پڑا تھا ۔ دانیال کو رات سے بہت تیز بخار تھا ۔ فلک صبح ہوتے ہی ان کی طرف چلی آئی آج امل اور نور یونیورسٹی گئیں تھیں مگر فلک نے دانیال کی خاطر چھٹی کر لی تھی ۔دانیال بستر پر چت لیتا موبائل چلا رہا تھا ۔فلک کے اپنے کمرے میں آتے ہی وہ فورا سیدھا ہوا اور موبائل ایک طرف رکھا ۔
"اففف "
وہ کراہتے ہوے اٹھ بیٹھا ۔
"آگئی تم "
"نہیں ابھی تو راستے میں ھوں "
وہ شرارت بھرے لہجے میں بولی ۔
"انٹی نے تمہارے لیے جس بھیجا ہے "
"اور انٹی کی بہو کیا لائی ہے ؟"
وہ اسی کے انداز میں بولا تھا ۔فلک اس کی بات پر سٹپٹائی ۔۔پھر اپنا اعتماد بحال کرتے ہوے بولی ۔
"وہ انٹی سے جوس پکڑ لائی ہے "
"مجھے نہیں پینا "
دانیال نے نخرہ دکھایا ۔وہ چاہتا تھا فلک اس کے لاڈ اٹھائے ۔
"اوکے ۔۔جیسا تم چاھو "
وہ کندھے اچکا کر بولی اور اس کے بلکل سامنے بیٹھ کر جوس پینے لگی ۔۔۔ دانیال اسے روکنا چاہتا تھا اسے کہنا چاہتا تھا لڑکی ۔۔۔تم تو نخرے اٹھانا بھی نہیں جانتی ۔۔مگر وہ وہیں لیتا اسے جوس کا ڈبہ خالی کرتا دیکھتا رہا ۔وہ جوس ختم کر کے اٹھی اور باہر کی طرف چل دی ۔دروازے کے پاس رک کر وہ پلٹی ۔
"چچ۔چ ۔۔افسوس۔۔تمہے لگا تھا میں تمہارے نخرے اٹھاؤں گی ؟"
"بیگم ایک دن تم ضرور اٹھاؤ گی اور نہیں اٹھاؤ گی تو میں تمہے مجبور کر دوں گا "
وہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا جب کے آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی ۔ فلک اس سے شرماتی ہے یہ بات اسے کتنی اچھی لگتی تھی ۔دل باغی سا ہو جاتا تھا جب وہ سامنے آتی تھی۔ اسے اپنے نام پر شرماتا دیکھنے کی آرزو کرنے لگتا تھا تب ہی تو وہ کوئی نا کوئی شوخ جملہ کہتا رہتا تھا اور باز نہیں آتا تھا ۔ اس نے سر بیڈ کی پشت سے لگایا ۔اور بند دروازے کو دیکھا جہاں سے وہ گھبراتی ہوئی باہر جا چکی تھی ۔
"میری جھلی سی کوئین "
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔
شام کا وقت تھا ۔یہ پانچ دن بعد کی بات تھی ۔ امل لاؤنج میں بیٹھی ۔نور باہر لان میں تھی ۔ اور دانیال کہیں باہر گیا ہوا تھا ۔صدر دروازے سے فلک اندر آئی ۔
"کیا کر رہی ہو ؟"
وہ اس کے برابر میں بیٹھ گئی ۔
"کچھ نہیں آریان سے بات کر رہی ھوں "
امل نے سادگی سے کہا ۔
"اوہو ۔۔۔اہم ۔۔۔اہم "
فلک شوخ ہوئی ۔
"نا کرو یار ویسے ہی حال چال پوچھ رہی تھی میں "
"اور وہ ؟؟؟"
فلک شرارتی انداز میں بولی ۔
"ہاں وہ بھی پوچھ رہا تھا "
وہ اسی انداز میں بولی ۔
"تھا مطلب ؟"
"ارے یار ۔۔انھیں جانا تھا باہر کہیں اس لیے لو دیکھ لو خدا حافظ کا بھی مسیج ہے "
امل نے دوبارہ فون اس کے سامنے کیا ۔
"اور ساتھ میں دل والا ایموجی بھی ہے "
امل گڑبڑائی اور جلدی سے فون بند کر دیا اسے لگا تھا آریان جا چکا ہو گا مگر اس نے روزانہ کی طرح آج بھی اسے خدا حافظ کہنے کے بعد ایموجی بھیجا تھا ۔
"اچھا ۔۔۔چھوڑو یہ بتاؤ انٹی کہاں ہیں ؟"
مما اپنے کمرے میں ہیں نماز پڑھنے کے بعد سے سوئی ہوئی ہیں ۔"
امل نے وہیں سے مڑ کر اسما بیگم کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھا تھا ۔
"نور کدھر ہے ؟؟"
"باہر لان میں ہی تھی دیکھا نہیں تم نے اسے "
امل کشن سیٹ کر رہی تھی ۔
"وہ تو نہیں تھی باہر ۔۔"
"ہیں ؟؟؟ شاید پچھلی طرف ہو "
"ہاں ہو سکتا ہے آو چلیں دیکھتے ہیں کیا کر رہی ہے وہ "
اس کی بات پر امل ہنسی ۔
"ہاہاہاہاہا ۔۔۔ناول ہی پڑھ رہی ہو گی "
وہ دونوں باہر کی طرف چلی آئیں ۔۔وہ لان میں نہیں تھی وہ دونوں گھر کی پچھلی طرف چلی آئیں ۔
"نور کیا کر رہی ہو ؟"
فلک نے حیرانی سے اسے دیکھا ۔
"بس فلک بس مجھے مت روکو ۔۔"
نور دیوار پر چڑھی لڑکھڑاتے ہوئی چل رہی تھی ۔
"نور بس اتنا بتا دو اس سب کے پیچھے آخر کیا وجہ ہے میں بتا رہی ھوں اگر تم گری نا اور تمھے چوٹ لگی تو میں ذمہ دار نہیں ھوں گی ۔"
"ناگن ڈانس کر رہی ھوں بیوقوفو۔۔۔ تم لوگ بھی آجاؤ بہت مزہ آرہا ہے "
نور تپ ہی گئی ایک تو یہ دونوں چڑیلیں ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑھ گئیں تھیں ۔
"نور میں اندر بتانے جا رہی ھوں "
فلک نے اسے دھمکی دی ۔
"رک جاؤ میری بہن بتاتی ھوں ۔۔وہ نا دراصل ساتھ والے بنگلے میں ایک بہت خوبصورت اے۔سی۔پی شفٹ ہوا ہے یہ اس کی ورزش کا وقت تھا میں اسے تاڑنے جا رہی تھی کہ تم دونوں آگئیں "
"لعنت ہے تم پر نور ۔۔وہ شادی شدہ ہے اور اس کا ایک دو سال کا بیٹا ہے شکر کرو اس کی بیوی نے تمھے نہیں دیکھ لیا ورنہ تمہاری طبیعت صاف کر دیتی "
امل ہنستے ہوے بولی ۔
"ہائے میں مر گئی ۔۔میں لٹ گئی ۔۔میرا گھر بسا نہیں ۔۔۔"
نور اونچی آواز میں چلا رہی تھی اور دیواڑ کی دوسری جانب وہ جو ابھی آیا تھا ٹھٹھک کر رکا اور اسے حیرانی سے دیکھا ۔
"السلام علیکم بھائی "
وہ بھائی پر خاصہ زور دے کر بولی ۔نیچے کھڑی امل اور فلک کا ہنس ،ہنس کر برا حال تھا اور نور بیچاری تو خون کے آنسو رو رہی تھی ۔
"امل ۔۔۔فلک لے چلو مجھے یہاں سے "
اپنے بھائی کے سلام کا جواب سننے کے بعد نور گرتی پڑتی نیچے آئی ۔
"ایک تو ھر خوبصورت لڑکا پہلے سے ہی بک ہوتا ہے "
وہ سارا وزن امل پر ڈالے انتہائی گہرے صدمے میں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
ESTÁS LEYENDO
ماہی وے ✔
Humorماہی وے کہانی ہے بےغرض اور مخلص رشتے کی ۔یہ کہانی ہے دوستی ،محبت اور وفا کی ،کہانی ہے رب پر یقین کی ،کہانی ہے ہجر کی اور ہجر میں کٹی راتوں کی ،کہانی ہے منجھلوں ،دیوانوں کی، دوستی کرنے والوں کی اور اسے آخری دم تک نبھانے والوں کی ۔کہانی ہے امل ،آریان...