دورِ سناشائی

2.7K 160 23
                                    

"فلک بیٹا تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا ؟"
"جی مما کیوں آپ کو کیوں لگا کہ میری طبیعت خراب ہے ؟"
فلک نے بازوں کے سہارے اٹھتے ہوے عائشہ بیگم سے  پوچھا جو اس کے سرہانے بیٹھی فکر مندی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔یونیورسٹی سے واپس آکر وہ کھانا کھا کر  کمرے میں آچکی تھی۔(کیوں کے بقول اس کے آج وہ یونیورسٹی میں بھی بھوکی رہی )چونکہ  آج بیچاری پڑھ پڑھ کر تھک چکی تھی سو بستر پر لیٹتے ھی خواب خرگوش کے مزے لینے لگی۔
"نہیں مطلب تم کافی دیر سے سو رہی تھی تو مجھے لگا کہیں تمہاری طبیعت ھی خراب نا ہو "
"ارے نہیں مما بس آپ کو تو پتا ہے نا یونیورسٹی کی اسٹڈیز کتنی ٹف ہیں نا بس ٹینس  ہوں اسی وجہ سے"
فلک معصوم شکل بنا کر بولی۔
ہائے میری بچی ایک ھی دن میں کتناااا تھک گئی ہے نا ؟"
عائشہ بیگم کے کہنے پر فلک نے اثبات میں گردن ہلائی۔
"ہننن۔۔۔ جیسے مجھے تمہارا پتا نہیں نا ؟ اٹھو آرام سے لگتی ٹف اسٹڈیز کی "
"مما میں نہیں بات کر رہی آپ سے۔۔۔"
فلک تو کمر پہ پڑنے والے تھپڑ سے بلبلا کر ھی رہ گئی۔
اچھا نا کرو میں ذرا نیچے جا رہی ہوں تمہارے بابا کے لیے نہاری بنانی  تھی اور صارم کی بریانی دم پر ہے "
عائشہ بیگم جانتی تھیں فلک کا موڈ کیسے ٹھیک کرنا ہے ۔
"مما میں کون سا آپ سے ناراض ہوں میری پیاری مما میں آپ کے صدقے جاؤں"
فلک بڑی اماوں کی طرح عائشہ بیگم کی نظر اتارنے لگی۔
"اچھا بس آرام سے نیچے آجاؤ اور کمرہ سیٹ کر کے آنا۔"
عائشہ بیگم مسکراتی تنبیہ کرتی نیچے جا چکی تھیں۔
"جی مما"
فلک منہ بسورتے ہوے بولی۔
ان کے جاتے ھی فلک نے لپک کر اپنا موبائل اٹھایا جس پہ آریان کی پانچ مس کالز تھیں۔
"یامیرےخدایا۔ اتنی کالز؟ہاں مما آگئی تھیں اسی لیے کال نہیں اٹھائی تھی۔اک دفع بندہ کال نا اٹھائے تو اگلے کو  سمجھ  آجانی چاہیے کے بندہ مصروف بھی ہو سکتا ہے۔"
"اچھا اب میرا دماغ نا کھپاو میں ابھی آفس میں ہوں کام کی بات کی طرف آو"
آریان کی جھنجھلائی آواز برآمد ھوئی۔
"کام کی بات یہ ہے باس میں کرنے والی ہوں آج رات معرکہ سر"
فلک نے کندھے چوڑے کرتے ہوے کہا۔
"ٹھیک ہے ایک بات یاد سے موبائل ساتھ ھی رکھنا ادھر تم بولو گی اور ادھر میں اور بابا وغیرہ سنیں گے۔"
آریان نے فائل کھولتے ہوے کہا۔
"ہاں ٹھیک ہے مجھے پتا ہے"
فلک تیزی سے بولی ۔
"یہ تمہے اتنی جلدی کس چیز کی ہے ؟"
آریان نے فائل کا صفحے پلٹتے ہوے پوچھا۔
"نہاری اور بریانی ۔۔۔ "
فلک نے  زبان دانتوں میں دبائی۔
"کیا ؟"
آریان نے حیرانی سے پوچھا۔
"آہ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ تھرل کے لیے سب سے بات کرنی ہے تو بس "
فلک نے جلدی سے بات بنائی۔مگر وہ بھول گئی کہ مخاطب آریان آفندی ہے۔
"ہممممم جاؤ کھا لو کھانا بھوکی "
آریان نے ہنستے ہوے کال کاٹی اور اپنا سامان سمیٹتا کار کی چابی لیے باہر کی طرف بڑھ گیا۔
"اصغر"
نعیم کمپنی کے ساتھ ہماری جو میٹنگ ہے اسے پوسپونڈ کر دو آج مجھے ضروری کام ہے ۔"
آریان نے سنجیدگی سے اپنے سیکرٹری کو دیکھتے ہوے کہا ۔
"جی سر "
اصغر سر ہلاتے ہوے پلٹ گیا۔
اس کا یہ چھوٹی سی عمر کا باس بہت محنتی اور اپنے کام سے مخلص تھا اس نے کبھی اسے بےوجہ مسکراتے نہیں دیکھا تھا۔وہ ہر وقت یوں ھی سنجیدہ رہتا تھا۔مگر اس کا رویہ سب امپلوئز کے ساتھ بہت اچھا تھا۔
۔*******
"ہائے کہاں رکھ دی فائل ؟"
فلک سر کھجاتے ہوے بولی۔
آہ  یہ رہی شکر مل گئی۔
بیڈ کے نیچے سے برآمد فائل کو سینے سے لگا کر فلک نے تشکر کا سانس لیا۔
فلک نے جلدی سے کمرے کو اس کی اصلی شکل دی۔
"ہائے بریانی اور نہاری "
فلک زبان چاٹتی باتھ روم کی طرف دھوڑی ۔وہ ابھی سے ھی بریانی اور نہاری  کا ذائقہ اپنی زبان پہ محسوس کر سکتی تھی۔
۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اچھا تو مسٹر آریان آفندی۔۔!!اب تم مجھے یعنی اپنی امل کو اگنور کرو گے؟
امل نے افسردگی سے سوچا۔اپنے خیالات میں ھی سہی وہ آریان سے مخاطب تھی۔
"تم یہ دکھانا چاہتے ہو کہ تمھے کوئی فرق نہیں پڑتا ؟ٹھیک ہے مجھے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا اب تم مجھے اپنے جیسا ھی پاؤ گے "
امل نے تنفر سے سوچتے ہوے پردے برابر کیے اور دانیال کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہمممم کتنی زبردست خوشبو ہے"
"مما جلدی کھانا لے آئیں۔۔"
فلک نے نیلی فائل اور اپنا موبائل میز پر رکھتے ہوے کہا۔
فرحان صاحب صدر کرسی پر جب کہ صارم بائیں جانب بیٹھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا۔۔!!!
آریان نے سوچوں میں گم سہیل صاحب کو پکارا۔جس پر انہوں نے چونک کر آریان کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ان کی بائیں جانب ارفع بیگم اور ان کے ساتھ بیٹھی عالیہ کی نظریں بھی اسی پر جمی  تھیں۔
"آپ کو یہ سننا چاہیے"
آریان نے مسکراتے ہوے فلک کا نمبر ملایا۔
"یہ کیا سنانے والا ہے ؟"
سہیل صاحب کے استفار پر ارفع بیگم نے کندھے اچکائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آفندی مینشن کے ڈائننگ ہال میں کرسی پر بیٹھی فلک نے آریان کی رسیوڈ کال کو سپیکر پر ڈالا۔
"آہا نہاری اور بریانی "
(سہیل صاحب نے آبرو اچکاتے ہوے آریان کی طرف دیکھا گویا پوچھ رہے ہوں کہ یہ سب کیا ہے برخودار؟
آریان نے اشارے سے خاموش رہنے کی تاکید کی)
"آرام سے کھاؤ فلک کھانا کہیں بھاگ کر نہیں جا رہا"
فرحان صاحب نے فلک کی جلدبازی پر اسے ٹوکا۔
(یہ آواز ؟؟؟
وہ لاکھوں میں بھی پہچان جاتے
سہیل صاحب نے آنسوؤں سے لبالب آنکھوں سے آریان کی جانب دیکھا ۔
کیا کچھ نہیں تھا ان آنکھوں میں ؟
یادِ ماضی۔۔۔
دکھ ۔۔۔
تکلیف ۔۔۔
آریان کے تاثرات سپاٹ تھے)
"بابا ۔۔۔میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں اور میں امید کرتی ہوں کہ میری گفتگو میں مجھے بلکل بھی ٹوکا نہیں جائے گا ۔"
فلک نے گلا کھنکھارتے ہوے کہا۔
"کہو کیا کہنا چاہتی ہو ؟
فرحان صاحب نے حیرانگی سے پوچھا۔
"دو  سال پہلے میں اپنی ایک کالج فرینڈ کی عیادت کے لیے ہسپتال گئی  تھی ایکچولی اس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔
امل اور دانیال بھی میرے ساتھ ھی تھے۔ میں رافیہ کی میڈیسن لینے میڈیکل اسٹور گئی تو وہاں میرا ٹکراو ایک لڑکے سے ہو گیا۔
جانتے ہیں وہ کون تھا؟
فلک نے آبرو اچکاتے  ہوے پوچھا۔
"آریان سہیل آفندی "
ڈائننگ ہال میں یکدم  سناٹا چھا گیا ۔
(کچھ یہی منظر سہیل مینشن کے ڈائننگ ہال کا بھی تھا)
"آریان ؟؟؟"
میری بات مکمل نہیں ھوئی ۔فلک نے صارم کو گھور کر کہا.
(صارم کی آواز ۔۔
چھ سال بعد ؟؟؟
عالیہ کے ہاتھوں میں پکڑا چمچ پلیٹ میں واپس گرا)
تو آریان وہاں اس لیے آیا تھا کیوں کہ ہمارے چاچو ،اور آپ کے بھائی  سہیل صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا "
پانی کا گلاس یکدم ھی فرحان صاحب کے ہاتھوں سے چھوٹ کر زمین پر ٹکرے ٹکرے ہو کر بکھرا۔
آر۔۔۔آریان ؟
یہ تم ھی ہونا ؟
فلک نے خوشی سے چہکتے ہوے پوچھا۔وہ اسے فیس بک پر سٹاک کرتی رہتی تھی ۔
"فلک۔۔تم یہاں سب ٹھیک تو ہیں نا"
آریان نے فکرمندی سے پوچھا۔
"سب ٹھیک ہیں میں ایکچولی اپنی دوست کی عیادت کے لیے آئی تھی۔"
"کیا ہوا امل کو"
آریان نے بےچینی سے پوچھا۔
"ارے  نہیں وہ ٹھیک ہے۔یہ بتاؤ تم یہاں کیسے "
فلک نے حیرانی سے پوچھا۔
"فلک میرے بابا کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے "
آریان نے آہستہ سے کہا۔
کیا ؟؟چاچو کو ۔۔۔پر کیسے ؟
فلک نے پریشانی سے پوچھا ۔
ہننننن  کیسے ؟
آریان نے طنزیہ مسکراتے ہوے فلک کی جانب دیکھا۔
"میں مل لوں؟"
فلک نے اس کے طنز کو نظر انداز کیا۔
"نہیں ان کے لیے سٹریس اچھی بات نہیں ہے "
آریان نے سکون سے کہتے ہوے دوائیوں کا شاپر پکڑا۔
فلک جانتی ہو وہ سب کس کی سازش تھی ؟
"نہیں ۔۔۔ پر مجھے یقین ہے وہ چاچو کی سازش کبھی نہیں ہو سکتی"
فلک نے نفی میں سر ہلایا۔
"قریشی بخت ہے اس سب معاملے کے پیچھے
میں پچھلے ایک سال سے اس معاملے کو دیکھ رہا ہوں "
"پر بخت انکل ایسے نہیں ہیں بابا کے بزنس پارٹنر ہیں وہ تو بہت اچھے ہیں۔"
فلک اس کے ساتھ چلتے ہوے بولی۔
"یہی تو سارا مسلہ ہے تم لوگوں کی نظروں میں اچھا بن کر اس نے تم لوگوں کی ھی کمر پر چرا گھونپا ۔نہ کے میرے بابا نے "
آریان نے استزائیہ انداز میں سر جھٹکا۔
"اب کیا ہو گا ؟"
فلک نے تشویش سے پوچھا۔
"تمھے اگر حالات پہلے جیسے چاہیے تو تمہے میرا ساتھ دینا ہو گا قریشی بخت کو ایکسپوز کرنے کے لیے"
"ٹھیک ہے "
فلک نے پرسوچ انداز میں کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد میں اور آریان کافی موقعوں پر ایک دوسروں سے ملے اور ہم پچھلے دو سال سے ھی ثبوت اکھٹے کر رہے ہیں جو بالاآخر مل ھی گئے۔اور یہ لیں خود دیکھیں ۔
یہ لیں۔!
فلک نے حیران بیٹھے فرحان صاحب کی طرف نیلی فائل بڑھائی۔ جسے انہوں نے ہچکچاتے ہوے تھام لیا۔صارم ابھی تک حیرانی سے اپنی بہن کو دیکھ رہا تھا جو اکثر اسے کہتی تھی کہ:
" پریشان نا ہو میں آپ کے  لیے بہت کچھ کر رہی ہوں جس دن آپ  جانو گے نا تو آپ کو مجھ پر بہت کوئی طوفانی قسم کا پیار آے گا۔"
اور وہ ہنستے ہوے اسے کہہ دیتا تھا چھوڑو تم وہ کبھی نہیں کر سکتی جو میں چاہتا ہوں ۔اور جوابا وہ ہنستی اور ہنستی ھی چلی جاتی پھر کہتی کہ وقت آنے دیں پھر پوچھوں گی ۔"
اور آج وہ سوچ رہا تھا کے اس کے پوچھنے پر اسے کیا کہے گا ؟
اس کی چھوٹی سی بہن کب اتنی بڑی ھوئی ؟
اس نے محبت بھری نظروں سے فلک کو دیکھا۔
جس نے مسکراتے ہوے فرضی کالر اکڑائے۔
"پاگل "
صارم نے سر جھٹکا اور فرحان صاحب کو دیکھنے لگا جن کے تاثرات برہم سے برہم ہوے جا رہے تھے۔
انہوں نے اک جھٹکے سے اس فائل کو دور پھینکا جیسے وہ کوئی آسیب ہو۔
(بھائی صاحب میری بات سنیں۔۔
آپ کو غلط فہمی ھوئی ہے۔
جس دن آپ کو پتا چلا کہ آپ کا دوست کون ہے اور دشمن کون ہے تو آپ کو پچھتاوا بہت ہو گا شاید تب میں نا ہوں۔۔
مختلف آوازیں ان کے ذہن میں گونج رہی تھیں )
"میرا سہیل ، میرا لاڈلا اسے بلا دو خدا کا واسطہ ہے پلیز اسے واپس بلا لو "
فرحان صاحب دل پی ہاتھ رکھتے ڈھ گئے۔
بابا۔۔"
فرحان۔۔"
عائشہ ،فلک اور صارم چیختے ہوے ان کی جانب بڑھے۔
(آریان …بھائی صاحب ۔۔۔آریان مجھے ان کے پاس لے چلو ۔
سہیل صاحب روتے ہوے بولے۔
بابا سمبھالیں خود کو خدارا حوصلہ کریں "
عالیہ نے ان کے ہاتھ پکڑتے ہوے کہا۔
سب کی آنکھیں نم تھیں چھ سال ۔۔۔
پورے چھ سال لگے تھے انھے بےگناہ ثابت ہونے میں …
وہ اب اک پل بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔)
"میرے فرحان کو بلا دو خدارا اسے بلا لو "
"صارم بھیا خدا کا واسطہ جلدی کریں جلدی کار چلائیں پلیز "
اپنی گود میں فرحان صاحب کا سر رکھے فلک چلائی۔
(آریان نے جلدی سے موبائل کا سپیکر اف کیا ۔
ہیلو "
فلک تایا کو کیا ہوا ؟
"بابا ۔ آریان بابا کو پتا نہیں کیا ہوگیا ہے ؟ کب سے کہہ رہے ہیں کہ سہیل کو بلا لو پلیز آریان کچھ کرو میرے بابا "
فلک نے فرحان صاحب کے اسٹریچر پر پڑے بےہوش وجود کو دیکھتے ہوے کہا جسے لیے ڈاکٹرز ایمرجنسی میں جا  چکے تھے۔
"تم ٹینشن نا لو ہم آرہے ہیں مجھے ابھی ہسپتال کا نام مسیج کرو جلدی "
آریان سہیل صاحب کو سمبھالتے ہوے عجلت میں گاڑی کی طرف بڑھا۔
"ہم بھی چلیں بیٹا ؟"
ارفع بیگم نے عالیہ کی جانب دیکھتے ہوے کہا جو سر جھکائے کھڑی تھی۔
"نہیں"
آریان نے سہیل صاحب کی طرف کا دروازہ بند کرتے ہوے کہا۔
ڈرائیونگ سیٹ سمبھال کر آریان زن سے گاڑی بھگا کر لے گیا۔
۔********
"ڈاکٹر میرے بابا کو کیا ہوا ؟"
صارم فورا آپریشن تھیٹر سے نکلتے ڈاکٹر کی جانب لپکا۔
"اٹ واز آئے میجر انجائنا اٹیک آپ بروقت ہسپتال کے آئے تو ان کی طبیعت سمبھلی  ہے ورنہ اگر آپ کو دیر ہو جاتی تو کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ جس قدر ہو سکے یہ سٹریس سے دور رہیں ادر وائز ان کی طبیعت بگڑنے کے کافی خدشے ہیں۔ائی ہوپ آپ کو سمجھ آگئی ہو گی "
پیشہ وارانہ مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوے ڈاکٹر آگے بڑھ گیا۔
بھیا ۔۔بابا ٹھیک تو ہیں نا"
"ہاں ٹھیک ہیں تم ٹینشن نا لو گڑیا۔"
صارم نے محبت بھرے لہجے میں کہتے ہوے فلک کو حوصلہ دیا۔
"بھائی ایم سوری میں بہت بری ہوں نا میری ، و۔۔۔وجہ سے بابا۔۔۔"
"اف چپ کرو بیٹا ایسی کوئی بات نہیں اب رونا بند کرو اور جا کر مما کو  دیکھو "
صارم نے اسے خود سے لپٹاتے ہوے کہا۔
"آریان اور چاچو "
فلک نے ہاتھ کے اشارے سے پیچھے کی طرف دیکھتے ہوے کہا۔
نماز پڑھ کر آتیں عائشہ بیگم نے بھی مڑ کر دیکھا جہاں آریان ریسیپشن سے روم نمبر پوچھ رہا تھا۔اس کے ساتھ کھڑے سہیل صاحب جیسے بہت حوصلے سے کھڑے تھے۔
"چاچو"
فلک اور صارم دوڑتے ہوے سہیل صاحب کے گلے لگے۔
سہیل صاحب نے بہتی آنکھوں سے انھے خود سے لپٹایا۔
عائشہ بیگم نے آریان کو گلے لگایا۔
"بہت بڑے نہیں ہو گے تم  سب کچھ خود سمبھالنے لگے ہو ؟"
عائشہ بیگم نے محبت بھرے لہجے میں پوچھا تو آریان مسکراتے ہوے سر جھکا گیا ۔
"بہت بڑا "
اس نے دل میں سوچا۔
اس نے مسکراتے ہوے عائشہ اور سہیل صاحب کو دیکھا جو کبھی رو دیتے تو کب روتے ہوے ہنس دیتے ۔
"صارم بھائی صاحب  کہاں ہیں ؟مجھے ان کے پاس لے چلو۔۔"
سہیل صاحب پریشانی سے گویا ہوے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے کے وسط میں کھڑے سہیل صاحب کی آنکھیں بستر پر بیہوش پڑے اپنے بھائی کو دیکھ کر بھیگ گئیں ۔
طرح طرح کی آوازیں ان کے کانوں میں گونجنے لگیں
"چلے جاؤ "
"میرا چھوٹا آفندی "
"آج کے بعد ہمارا رشتہ ختم "
"ہم ہمیشہ ایسے ھی رہیں تم میں ہمارے بچے اور ہماری بیویاں "
"تم دھوکے باز ہو "
"تم میری جان ہو میرے چھوٹے لاڈلے "
"تم نے پیٹھ پیچھے وار کیا ہے "
"یہاں کیا کر رہے ہو ؟مما کو بتاؤں ؟دو منٹ میں درخت سے نیچے اترو سمجھے میں تین تک گنوں گا "
ایک۔۔۔۔۔۔۔
"دھوکے باز ۔۔۔
دو ۔۔۔۔۔۔۔۔
"مکار  ۔۔"
تین ۔۔۔۔۔
آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔
بھائی دیکھیں آپ کا چھوٹا لاڈلا آیا ہے بھائی، آپ تو ایک منٹ میرے بغیر نہیں گزارتے تھے کجا کہ چھے سال؟
بھائی صاحب اٹھ جائیں خدارا "
سہیل صاحب فرحان صاحب کے پاس بیٹھتے ہوے بولے۔
"پچھلے چھ سال ۔۔۔چھ سال سے میں ایک ایک منٹ کو گزار رہا تھا جی نہیں رہا ۔۔تھ ۔۔تھا ۔"
فرحان صاحب نے اٹکتے ہوے کہا۔
دونوں کی آنکھیں آنسوں سے تر تھیں ۔
اک پچھتاوے میں رو رہا تھا ۔۔۔
تو دوسرا محبت میں۔۔۔۔
"مجھ ۔۔مجھے معاف کر ۔۔دو "
فرحان صاحب نے ہاتھ جوڑتے ہوے کہا۔
بھائی صاحب … خدا کا واسطہ ہے مجھے گناہگار نا کیجئیے "
فرحان صاحب نے ان کے بندھے ہاتھ کھولتے ہوے کہا ۔
"مجھے خود سے ھی نفرت محسوس ہو رہی ہے کہ میں نے اس بخت اور بھروسہ کیا تو کیوں کیا ؟
فرحان صاحب نے افسوس بھرے لہجے میں کہا ۔
"بھائی جانے دیجیے پرانی باتوں کو "
سہیل صاحب نے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا۔
"سہیل اک بات مانو گے ؟"
'"جی بھائی صاحب حکم کریں"
واپس آجاؤ "آفندی مینشن واپس آجاؤ "
فرحان صاحب نے منت آمیز لہجے میں کہا۔
"جی بھائی ضرور "
سہیل صاحب نے مسکراتے ہوے کہا۔
"آج ھی آجاؤ "
" بھائی صاحب ابھی تو آپ کچھ روز یہیں رہنے والے ہیں ارفع کو بھی پیکنگ میں کچھ ٹائم لگے گا تب تک عائشہ بھابھی آفندی مینشن میں ہمارے کمرے صاف کروا لیں گی۔"
سہیل صاحب نے ان کی جلد بازی پر مسکراتے ہوے کہا۔
"اچھا ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی"
"بابا جان ھی نکل دی تھی آپ نے میری "
خفگی سے منہ پھلائے فلک فرحان صاحب کے گلے لگی۔
"چل ہٹ بدمعاش کہیں کی دو سالوں سے یہی کام کر رہی ہو اور باپ کو بتانا بھی ضروری نہیں جانا کہاں ہے تمہارا باس"
فرحان صاحب نے فلک کے کان کھینچتے ہوے کہا ۔
جبھی کمرے میں صارم ،عائشہ بیگم اور آریان داخل ہوے ۔
"السلام  علیکم "
آریان مسکراتے ہوے فرحان صاحب کے گلے لگا۔
"ماشااللہ بھئی آریان تو کافی بڑا ہو گیا نہیں "
فرحان صاحب نے مسکراہٹ دباتے ہوے کہا۔
"گیٹ ویل سون تایا ابا "
آریان نے مسکراتے ہوے پھولوں کا بوکا ان کی دائیں جانب پڑے میز پر رکھتے ہوے کہا۔
"بس بابا اب آپ چاچو کے ملنے کے بعد کس قدر ہٹھے کٹے ہوگے ہیں اور پہلے ہماری جان ھی نکل دی تھی ۔"
صارم نے مسکراتے  ہوے فرحان صاحب کے ہاتھ عقیدت سے چومے۔
"بیگم صاحبہ اب آپ رہ گئی ہے آپ ہم سے کیسے ملیں گی ؟"
فرحان صاحب نے اپنی شریک حیات کی طرف دیکھتے ہوے شرارتی لہجے میں پوچھا ۔
جس پہ سب کے دانت ایک دم ھی ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار  بن گئے جب کہ عائشہ بیگم اپنی جگہ شرمندہ سی ہو گئیں ۔
"بس کریں کچھ عقل کر لیں بچے جوان ہو گئے مگر آپ کو تو عقل نا تھی نا آئی "
عائشہ بیگم تپ کر بولیں ۔
"بس اسی لیے شوہر بچارے کو ہس بینڈ کہا جاتا ہے بیوی اس بچارے کا ہنسنے پر ہی ۔۔بین لگا دیتی ہے "
فرحان صاحب نے افسوس سے کہا ۔
بابا مجھے ایک ضروری کام ہے سو میں جا رہا ہوں ۔آپ نے جانا ہے یا ٹھہرنا ہے ؟
آریان نے کی چین نکالتے ہوے پوچھا ۔
"میں آج بھائی صاحب کے پاس ھی رہوں گا ۔"
فرحان صاحب نے محبت سے اپنے بھائی کو دیکھا ۔
"آج وہ کتنے عرصے بعد مطمئن اور خوش تھے۔"
انہوں نے آسودگی سے آنکھیں موند لیں ۔
"اوکے خدا حافظ "
آریان مسکراتے ہوے صارم کے گلے لگا ۔
"اچھا سب کو گھر میں سلام کہنا "
صارم نے آخر کار دل کی بات زبان پر لانا ضروری سمجھی ۔
"اچھا جی ؟سب کو ؟"
آریان نے آبرو اچکاتے ہوے شرارتی لہجے میں کہا۔
"ہا ۔۔۔ہاں سب کو "
صارم نے ادھر ادھر دیکھتے ہوے کہا ۔
"ٹھیک ہے وہ بھائی جس کی خیریت آپ جاننا چاہتے ہیں بس آپ کی طرف سے طلاق کے پیپرز ملنے پر وہ ٹوٹ گئی تھیں حالانکہ فلک مجھے بتا چکی تھی کہ وہ پیپرز تایا ابو نے بھیجے تھے ان پر آپ کے سائن بھی فیک تھے ۔میں نے جب سے انھے یہ بات بتائی ہے وہ بات پہ بات مسکراتی رہتی ہیں لیکن اب سب ٹھیک ہو جائے گا ٹینشن نا لیں۔اللّه آپ کی جوڑی سلامت رکھیں اور مجھے جلد از جلد پیارے سے بچوں کا مامو اور چاچو بناے"
شرارت سے کہتے ہوے آریان باہر کی جانب دھوڑ گیا۔
چرا چھوکرا (پاگل لڑکا )
صارم نے مسکراتے ہوے سر جھٹکا اور آمین کہتا آگے بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانی کچھ نیا کریں ؟
ہیں مطلب ؟
دانیال نے حیرانگی سے امل کو دیکھتے ہوے پوچھا ۔
یار وہ جو دو بنگلے چھوڑ کر بنگلہ ہے نا ؟
ہاں ہے تو ؟؟
وہ کچھ کچھ امل کا ارادہ جان چکا تھا ۔
تو یہ کہ وہاں نئے لوگ آئے ہیں چار دن پہلے ھی شفٹ ہوے ہیں۔آجاؤ تھوڑا تعارف ھی کروا آئیں ۔
"اچھا تو کیسے کرانا ہے تعارف "
دانیال نے آبرو اچکاتے ہوے پوچھا۔
ایسا ۔۔!
امل نے اس کے کان میں کچھ کہا ۔
"یاہو آجاؤ مزہ آے گا۔"
دانیال اور امل ہائفائی کرتے باہر کو لپکے۔
کدھر ؟
اسما بیگم نے کچن کے دروازے میں کھڑے ہوتے ہوے پوچھا۔
آنن مما ہم نہ۔۔۔ہم نہ۔۔
امل نے دانیال کو گھورا اشارہ یہ تھا کوئی بہانا سوچو۔
کیا ہم نہ ؟
اسما بیگم نے آبرو اچکاتے ہوے پوچھا۔
وہ ہم ابھی آئے۔۔
دونوں ایک ساتھ باہر کو دھوڑے ۔
شام کے سائے گہرے ہو چکے تھے ایسے میں وہ دونوں کالونی کے ایک خوبصورت بنگلے کے سامنے کھڑے تھے۔
"سر کس سے ملنا ہے آپکو"
چوکی دار نے ان کی طرف دیکھتے ہوے پوچھا۔
"وہ ہم نہ کاشف صاحب سے ملنے آئے ہیں یہیں رہتے ہیں نہ وہ؟"
امل نے بنگلے کی طرف اشارہ کرتے ہوے پوچھا۔
"ہاں جی پہلے رہتے تھے پر اب نئے لوگ آئے ہیں یہاں۔۔۔پر  آپ کون ؟"
"ہم دوست ہیں ان نئے لوگوں کے اب ہٹو "
دانیال امل کا ہاتھ پکڑتا اندر کی جانب بڑھا۔
"یار کتنا کیوٹ ڈوگی ہے نہ"
سفید رنگ کے ایک خوبصورت سے کتے کو داخلی دروازے میں بیٹھا دیکھ کر وہ بے اختیار اس کی طرف بڑھے۔
"اے کیوٹی ۔۔۔کیوٹی"
دانیال نے اس کے سفید فر پر ہاتھ پھیرا ۔
"اے تم کاٹتے تو نہیں نہ"
دانیال کے پوچھنے پر کتا بھونکنے لگا ۔
''مطلب نہیں "
امل نے مسکراتے ہوے کہا۔
"ٹھہرو یہ تو کچھ سہی سے بتا ہی نہیں رہا ۔دیکھو ویسے کتنا معصوم ہے مگر اس کے بال دیکھنا کیسے اس کی آنکھوں پر آرہے ہیں"
دانیال نے کچھ سوچتے ہوے کہا۔
"اور اب پلیز تم نائی نہ بن جانا۔"
امل نے کوفت سے کہا۔آخری چیز جس کی وہ دانیال سے توقع کر سکتی تھی وہ یہی تھی۔
"ایکزیکٹلی"(بلکل)
"دیکھو نہ اس کے مالکوں  کو ذرا اس کا خیال نہیں ایسے میں پڑوسی خیال نہیں رکھیں گے تو کون رکھے گا اور وہ بھی تب جب پڑوسی ہم جیسے ہوں "
دانیال نے کہتے ہی کونے میں پڑی مالی کی قینچی  اٹھائی ۔
"دانی نہیں۔۔"
امل نے اسے روکنے کی ناکام سی کوشش کی۔
کتے کی خوبصورت سی لٹ کو پکڑ کر جونہی اس نے وہ کاٹنی چاہی دو سیکنڈ کا عمل  تھا اور امل کے علاوہ پورے بنگلے کے لوگوں نے دانیال کی چیخیں سنی۔
امل خود شاک کی کفیت میں ہی دانیال کو دیکھ رہی تھی جو قینچی ایک طرف پھینکے اپنے بازو کو ہاتھ میں لیے زمین پر پڑا کراہ رہا تھا۔
"ہائے اللّه جی ہائے میں مرنا نہیں چاہتا۔ہائے کتے تجھے تو کتا کہوں گا تو بھی کوئی فائدہ نہیں تو تو پیدائشی ہی کتا ہے سالے ہائے میں مر گیا تیرا کچھ نہ رہے اے کتے تو نے اپنے محسن کو ہی کاٹ ڈالا۔ہائے یہ تو ان لڑکیوں جیسا نکلا جو منہ پہ معصوم بنتی ہیں اور حقیقت ایسی نکلتی ہے۔ہائے مجھے تو تمہاری معصوم سی شکل نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔مجھے گانا یاد آرہا ہے وہ کیا تھا ہاں "سوچتا ہوں کے وہ کتنے معصوم تھے کیا سے کیا ھوگئے دیکھتے دیکھتے۔"ہو نہ ہو یہ ہماری کی ریگینگ کا انجام ہے۔ امل لے جاؤ مجھے ہائے لے جاؤ مجھے ہوسپٹل ورنہ میں مر جاؤں گا "
دانیال کی اور ایکٹنگ اور کتے کو کوسنے کا پروگرام اپنے عروج پر تھا۔
"دانی میرے بھائی ریلیکس"
امل نے دانیال کو اٹھاتے ہوے کہا۔
"ہائے ماں ہوگیا تمہارا تعارف ؟"
دانیال نے کراہتے ہوے کہا۔
"کون ہو تم دونوں ؟
اک شفیق سی آواز پر وہ دونوں مڑے ۔
"بیٹا کیا ہوا تمھے ایکچولی میں نے چیخیں سنی تھیں۔تم ٹھیک ہو ؟"
وہ پروقار سے خاتون چالیس سال کے لگ بھگ ہوں گی ۔انہوں نے نرمی سے پوچھا۔
اس سے پہلے دانیال اپنی کیسٹ شروع کرتا امل بول پڑی۔
"انٹی ہم آپ کے نیبر میں رہتے ہیں میں امل ہوں اور یہ میرا بھائی دانیال ہم آپ سے ملنے آئے تھے اور مما بھی کہہ رہی تھیں کہ آپ سے پوچھ آئیں کے آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں لیکن ہم اندر آہی رہے تھے کہ ہمیں یہ کیوٹ سا پپی دکھا ۔دانی تو بس اس کے فر پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔اچانک کیا ہوا کہ اس پپی  نے اسے کاٹ لیا۔"
"اوہ بیٹا اسے کوئی پسند نہ آے یا کوئی تنگ کرے تو یہ اسے ایسے ہی کاٹ لیتا ہے "
دانیال نے کینہ توڑ نظروں سے کتے کو گھورا ۔
"کتا "
دل ہی دل میں وہ اسے اپنی جانب سے لقب دے چکا تھا۔
"بیٹا اسے ہوسپٹل لے جاؤ۔انفیکشن نہ ہو جائے ٹیکا لگوا لو ۔بہر حال میں مسز انجم ہوں میرے ہسبنڈ کالج میں لیکچرار تھے انھے بلیاں بہت پسند ہیں اور مجھے ڈوگز ۔کچھ عرصہ پہلے ان کی بلی کی دم کسی کمبخت نے کاٹ دی تھی بچارے تب سے بہت دکھی رہتے ہیں ہر وقت کہتے ہے ایک دفع مجھے وہ شخص مل جائے میں نے اس کی ٹنڈ کر دینی ہے۔تب سے کالج چھوڑ دیا ۔خیر میں بھی کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔یہ مالی بھی نہ قینچی کتنی بےاحتیاطی  سے پھینکی ہے تم بیٹا اسے ہوسپٹل لے جاؤ بلکے ٹھہرو میں انجم کو کہتی ہوں وہ لے جائیں "
انٹی نے افسوس سے دانیال کے بازو کو دیکھتے ہوے کہا۔
"رک جائیں انٹی پلیز میں اپنی بہن کے ساتھ چلا جاؤں گا آپ کو خوامخواہ زحمت ہو گی"
وہ کبھی بھی  سرانجم کے ساتھ نہیں جا سکتا تھا اسے اپنے بال عزیز تھے۔
"امل چلو"
"پر بیٹا ۔۔"
انہوں نے اصرار کیا  ۔
"کوئی بات نہیں انٹی ۔۔ہم چلتے ہیں بہت اچھا لگا آپ سے مل کر۔"
امل نے دانیال کو اپنے ساتھ کھینچتے ہوے کہا۔
"مجھے بھی بیٹا اور اپنی مما کو سلام اور تھینک یو کہنا کہاں ہوتے ہیں آج کل کے زمانے میں اتنے اچھے لوگ۔"
جی انٹی۔۔۔!!
زبردستی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوے دانیال نے کہا
"اللّه حافظ ۔ہائے "
"اللّه حافظ اور سوری ٹومی کی طرف سے۔جاؤ جاؤ بیٹا۔"
دانیال کے کراہنے پر وہ بے چین سی ہو کر بولیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آج تو میرے بال بال بچ گئے ہائے امل لے جاؤ مجھے ہوسپٹل۔"
شاہزیب مینشن کی دیوار سے ٹیک لگاتے ہوے دانیال نے پھر اپنا ڈرامہ شروع کیا۔
اچھا جا رہی ہوں اور ہاں دانی کے بچے آج واقعے تمہارے بال ۔۔بال بچے ہیں انجم سر سے ۔۔۔ورنہ ہماری لڑکی نے تو انکار کر دینا تھا تم جیسے گنجے سے شادی کرنے پہ"
امل ہنستے ہوے کار کی چابی لینے اندر کی طرف بڑھ گئی انھیں اسما بیگم سے یہ بات ہر حال میں چھپا کر رکھنی تھی۔
دانیال نے مسکراتے ہوے اپنی ٹنڈ پر فلک کا ریکشن سوچا جو کہ اس کے سر پر ڈھول بجا رہی تھی تو کبھی چٹکی کاٹ رہی تھی۔
"لاھولاولا قوت"
"یہ میں کیا سوچ رہا ہوں"
ہولناک مستقبل کو دیکھ کر دانیال سر جھٹکتا اپنے زخم کی طرف متوجہ ہوا کیوں کہ وہ امل کو باہر آتا دیکھ چکا تھا۔
(اور یہ حقیقت ہے کہ سو میں سے ننانوے لوگ جب کسی کو اپنی بیماری پر حد درجہ پریشان ہوتے ہوے دیکھتے ہیں تو آٹومیٹکلی بیماری یا زخم کی تکلیف سو گنا مزید بڑھ جاتی ہے ۔بہرحال یہ قدرتی عمل ہے جو کسی کی  توجہ کھینچنے کا بہترین طریقہ ہے )
"ہائے ۔۔۔امو یہ دیکھو کتنے ریشز اپپر ہونے لگے ہیں۔افف ۔۔۔۔"
دانیال آنکھوں میں آنسو لاتے ہوے بولا۔
"دانی میرے بھائی ٹینشن نہ لو بیٹھو جلدی گاڑی میں۔"
امل نے سہارا دے کر دانیال کو گاڑی میں بٹھایا۔اور جلدی سے ڈرائیونگ سیٹ سمبھالی۔
"شرفو کاکا گیٹ کھولیں جلدی۔۔۔!!!"
امل نے کھڑکی سے سر نکالتے ہوے گیٹ کیپر کو آواز دی۔
"دانی حوصلہ رکھو میرے بھائی اپنی آنکھیں کھلی رکھو ۔میری طرف دیکھتے رہو۔دیکھو ہمت نہ ہارو ۔۔"
"فار گاڈ سیک امو مجھے گولی نہیں لگی مجھے ۔۔۔مجھے صرف ایک کتےےےےےےے  نے کاٹا ہے۔"
دانیال امل کے  ڈرامے سے اکتا گیا تھا۔
"تو وہی میں کہنے کی کوشش کر رہی ہوں کب کے بس ہائے ہائے کر رہے ہو ۔کتے نے ہی کاٹا ہے کوئی گولی نہیں لگی نازک حسینہ"
امل نے تپ کر کہا۔
ہا۔۔۔۔۔
خبردار اگر اب ہائے کیا تو ۔۔۔!!!
امل نے انگلی دکھا کر اس قدر رعب دار لہجے میں کہا کہ دانیال بیچارہ نامحسوس انداز میں دروازے سے چپک گیا۔
"ہاں لیکن ہوسپٹل جا کر ڈاکٹر کو تنگ کریں گے "
تھوڑی دیر بعد امل کی شرارتی آواز سنائی دی ۔
۔۔***********
ڈاکٹر ڈاکٹر ۔۔۔
"پلیز میرے بھائی کو بچا لیں۔"
"ڈاکٹر ڈاکٹر مجھے بچا لیں۔"
دانی نے بھی روتے ہوے امل کا ساتھ دیا جو اس کے اس طرح کرنے پر دانت پیس کر رہ گئی۔
"دیکھیں یہاں اور بھی پیشنٹز ہیں آپ پلیز ان کا خیال کر لیں۔اب بتائیں کیا مسلہ ہوا ہے؟"
ان ڈیوٹی ڈاکٹر نے دونوں کو گھورتے ہوے کہا۔
"ڈاکٹر میرے بھائی کو بچا لیں پلیز اسے ای۔سی۔یو میں لے جائیں اور فورا اس کا علاج کریں"
امل کے کہنے پر ڈاکٹر نے اس کے عقب میں دیکھا۔
"کہاں ہے اسٹریچر اور مریض ؟"
"اوہو ڈاکٹر کیا آپ کو اپنے سامنے کھڑا جیتا جاگتا۔۔۔اونچا لمبا ،حسین و جمیل اور زندہ کھڑا ایک عدد مریض بھی ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا ؟ آپ کو واقع ایک نظر کے ڈاکٹر کی اشد ضرورت ہے ۔۔۔"
دانیال نے تاسف سے سر نفی میں ہلاتے ہوے کہا۔
"اوہ پر آپ تو تندرست نظر آرہے ہیں بلکل"
"ڈاکٹر یہی مسلہ ہے کہ میں تندرست ہی تو نہیں رہا نا اب میں کیا بتاؤں"
دانیال نے سر پیٹتے ہوے کہا۔
"اب آپ ہی بتا دیں پلیز میری نائٹ ڈیوٹی نہیں جو آپ کی سنی ہی جاؤں کب سے اور ایکٹنگ کر رہے ہیں۔"
ڈاکٹر نے ٹائم دیکھتے ہوے کہا۔
"ڈاکٹر میرے بھائی کو میرے بھائی کو نا ۔۔۔۔ڈوگی نے کاٹا ہے یہ دیکھیں۔"
امل نے دانیال کا بازو ڈاکٹر کے سامنے کرتے ہوے کہا۔جس پر کاٹے جانے کا نشان تھا۔
"اور شور ایسے مچایا تھا جیسے قریب الموت ہوں صاحب "
دانیال اور امل کو گھورتے ہوے ڈاکٹر نے سوچا۔
''آئیں ۔۔۔پلیز علاج کر دوں ''
چبا چبا کر کہتے ہوے ڈاکٹر نے انھیں پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔
"نرس ان کے چودہ انجکشن لگا دیں پیٹ میں ۔۔۔"
ڈاکٹر نے ایک نرس کو کہا تو وہ سر ہلاتے ہوے باہر کی جانب بڑھ گئی۔
اور ٹیکا لگتے وقت ہر کمرے میں موجود مریض کے اہل خانہ نے ایک دفع ضرور کمروں سے سر نکال کر باہر دیکھا تھا کہ پتا چل سکے کہ یہ بیچارہ کون سا مریض ہے جس کی تکلیف سوا نیزے پر ہے ۔امل بھی کانوں میں انگلیاں دیے نیچے کو جھک چکی تھی۔
"استغفراللّه سر مجھے لگا قیامت آگئی ۔"
ان دونوں کے جانے کے بعد نرس نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوے ڈاکٹر سے کہا جو اپنا سر تھام کر بیٹھے تھے۔
"سسٹر پلیز مجھے سر درد کی گولی لا دیں "
ڈاکٹر نے کہتے ہی اپنا سر میز پر گرا لیا۔
اور نرس سر ہلاتی باہر کو لپکی کیوں کہ اسے بھی ایک عدد سر درد کی گولی کی اشد ضرورت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلک ؟
امل کراہتے ہوے دانیال کو سہارا دیتی ڈاکٹر کے کمرے سے نکلی تو سامنے ہی اسے فلک نظر آگئی۔
"فلک یہاں کیا کر رہی ہے؟"
کچھ حیرانگی کے عالم میں امل نے فلک کو مخاطب کیا۔فلک جو اپنے دھیان میں باہر کو جا رہی تھی ایک دم چونک کر پلٹی۔
ہائے ۔۔۔۔۔!!!!
فلک کو دیکھتے ہی دانیال کے زخم پلس ٹیکے کا درد سوا نیزے پر پہنچ چکا تھا۔
تم دونوں یہاں کیا کر رہے ہو ؟امو تم ٹھیک ہو ؟
"مادام ہائے ۔۔۔۔!!!میں مر گیا۔مجھے آئیں ہیں زخم کیا تمہے دِکھ نہیں رہا؟"
"ویسے تم یہاں ؟
دانیال نے اس کی توجہ اپنی طرف مبدول کرنا چاہی جو کہ اسے نظر انداز کر کے پوری طرح امل کی طرف متوجہ تھی۔
"ہاں یار وہ میرے بابا ۔۔۔انھیں ۔۔۔میجر انجائنا اٹیک ہوا ہے"
فلک کے آنسو ایک بار پھر نکلنے لگے۔
"کیا انکل کو ؟ انکل کہاں ہیں ؟وہ ٹھیک تو ہیں نا ؟ان کی طبیعت ؟یار تم ہمیں انفارم تو کر سکتی تھی ایٹ لاسٹ؟"
امل اور دانیال نے پریشانی سے کہا۔
"سوری ایکچلی ٹینشن بہت تھی نا تو۔۔۔بس میں انفارم ہی نہیں کر سکی ۔"
"امل آو ہم انکل کو دیکھ آئیں فلک انکل جاگ رہے ہیں یا ریسٹ کر رہے ہیں"
دانیال نے اب کے فلک کو مخاطب کیا ۔
ہممممم بابا ۔۔۔ایکچولی وہ اور چاچو باتیں کر رہے ہیں بیٹھے ظاہر سی بات ہے چھ سالوں کی باتیں جمع ہیں۔آریان ابھی کچھ دیر پہلے گیا ہے یہاں سے۔
کیا ؟؟

ماہی وے ✔Tahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon