قسط ۱

10.4K 238 33
                                    

تیز برستی بارش کے ساتھ چمکتی بجلی اور اس کی آواز پورے علاقے میں سنائی دی تھی۔ گھر کے گارڈن میں کھڑے اس کے گارڈز بھی اپنے مالک کے کمرے سے آتی آواز پر کانپ کر رہ گئے۔
"مجھے معاف کردو!" وہ جو کوئی بھی تھا اذیت سے چیخ رہا تھا۔
مگر مقابل کھڑی شخصیت اسے معاف کرنے پر راضی نہ تھی۔
"یہ سزا بہت کم ہے" وہ کہہ کر شدت پسندی سے مسکرایا۔
جو مزہ اس شخص کو لوگوں کو اذیت دینے میں آتا تھا۔۔۔ وہ مزا اسے کہیں نہیں ملا۔
"میں آئندہ نہیں کروں گا ایسا"۔ اس کے ہاتھ رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ اذیت میں جکڑا وہ شخص گڑگڑا رہا تھا۔وہ سنگھار میز سے ٹیک لگائے اسے اذیت میں گڑگڑاتا ہوا دیکھ رہا۔
"سوچو اگر میں نے یہ پنکھا کھول دیا تو؟؟" اس کی باتوں میں اذیت تھی۔
چونکہ اس شخص نے اسے رسی کے سہارے پنکھے سے الٹا لٹکایا ہوا تھا اس لیے اس کی بات پر وہ سہما۔
"نہیں ایسا مت کرو خدارا"
سنگھار میز سے ٹیک لگائے شخص نے میز پر موجود شیشے کے جگ کو زور سے زمین پر پھینکا۔
"میں نے تمھیں دو دفع وارن کیا تھا!" وہ چیخا۔
"ہاں مانتا ہوں! مجھ سے غلطی ہوگئی!"
کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر وہ اس کے قریب آکر رکا۔ رسی سے جکڑے شخص کا گویا دل حلق میں آگیا تھا۔اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا۔مگر وہ ہاتھ خالی نہیں۔ چمکتے ہوئے خنجر کو دیکھ کر وہ مسکرایا جبکہ مقابل شخصیت ڈرگیا۔
"تم مجھے نہیں مارسکتے!" وہ بنا ڈرے بولا۔
"اب یہ مت کہنا تمھارے پیچھے کسی بڑے آدمی کا ہاتھ ہے!" اس نے ہنکارہ بھرا۔
"ہاں ہے ہاتھ! تمھارا ہاتھ ہے! امان شاہ کا" وہ کہہ کر استہزایہ ہنسا.
"اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہیں!" اس نے بنھویں اچکائیں!۔
"ہاں! انہیں وجوہات کے بنا پر امان شاہ مجھے قتل نہیں کرسکتا۔ کیوں میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں! وہ غصہ میں بہت کچھ کرجاتا ہے، مگر پھر اسے پچھتاوا ہوتا ہے!"
امان شاہ بے ساختہ مسکرایا۔
"کاش تم سے قریبی رشتہ نہ ہوتا تو تم ماردئیے جاتے میرے ہاتھوں!"
"کاش! اب مجھے چھوڑدو اور خنجر مجھ سے دور کرو!"
امان نے اسے بغور دیکھا اور پھر خنجر کو۔
خنجر سے ایک وار کیا جس سے وہ جکڑا شخص نیچے گرگیا۔
"رسی توڑنے کا یہی طریقہ ملا تھا تمھیں؟" وہ اٹھا اور اپنے بندھے ہاتھ کھولنے لگا۔
"کاٹی ہے رسی!" وہ کہتا سنگھار میز کی طرف مڑا۔
جبکہ دوسرا شخص رسی اتار کر اس کی جانب بڑھا۔
"اذیت دینے میں مزہ آتا ہے نا تمھیں؟"۔
امان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔ وہ اس کی جانب مڑا۔
"بلکل! میں جن سے محبت کرتا ہوں انہیں اذیت دینے کا قائل ہوں!"۔ اس نے نے لائٹر جلایا اور آگ پر نظریں مرکوز کیں۔
"جبھی!" اس نے میز پر خنجر پڑے دیکھا تو جھٹکے سے اسے اٹھانے لگا کہ اچانک امان نے اسے اٹھالیا۔
"ہوشیاری نہیں!" اس کی گردن پر خنجر رکھ کر اس نے چہرے کو خوفناک بنا کر اسے گھورا۔
وہ شخص کراہا۔۔
"اچھا۔۔۔م۔مجھے چھوڑو۔۔۔۔ پلیزززز۔۔۔"
امان نے جھٹکے سے اسے چھوڑا۔
"تین تک گنوں گا! یہاں رہے تو پنکھے سے الٹا لٹکادوں گا!" وہ خونخوار نظروں سے گھور کر بولا۔
"پھر سے؟" وہ شخص سہما۔
"پھر سے!" وہ کہہ کر ہنسا۔
وہ شخص الٹے قدموں پیچھے ہوا۔
"ایک" امان شاہ نے گنتی شروع کی۔
مڑ کر میز کی جانب آیا۔
اور جگ سے کانچ کے گلاس میں جوس نکالنے لگا۔
"دو!"
وہ شخص سہم کر بھاگنے لگا۔
امان شاہ نے گلاس لبوں سے لگایا۔
"تین!" گنتی گن کر امان شاہ نے پلٹ کر دیکھا۔
وہ جا چکا تھا۔
ایک قہقہہ لگایا جسے باہر کھڑے اس کے گارڈز نے بخوبی سنا تھا۔
۔۔۔★★۔۔۔
صبح کا اجالا دھیرے دھیرے پھیل رہا تھا۔ وہ صحن کو عبور کرکے کمرے میں آئی۔ بیڈ پر رمشا ہنوز سو رہی تھی۔ ایک گہری سانس لے کر اس نے اسے آواز دی۔
"رمشا اٹھ کے ناشتہ کرو" دھیمی آواز میں کہتی وہ اپنی الماری کی جانب بڑھی۔
ایک چھوٹا سا بیوٹی باکس نکال کر اس میں موجود لپ اسٹک نکالی اور آئینے کے سامنے کھڑی ہوکر کہ لپ اسٹک لگانے لگی۔ وہ میک اپ کی بچپن سے شیدائی تھی۔
"یہ تم کیا کررہی ہو؟ دلہن بننے کا کچھ زیادہ ہی شوق نہیں ہوگیا ہے تمھیں؟" رمشا نے اٹھتے ہی طنز کی تیر چلائے۔ خیر یہ تو روز کا معمول تھا۔۔
"اٹھ جاؤ اور ناشتہ کرلو۔۔۔!" وہ کہہ کر خاموشی سے برابر سے نکلنے لگی تھی کہ رمشا نے اسے روکا۔
"لپ اسٹک مٹاؤ!" تیز لہجے میں کہتے ہوئے رمشا نے سینے پر ہاتھ باندھے۔
"میں مٹادوں گی بعد میں! " وہ کہہ کر آگے بڑھنے لگی کہ رمشا نے اس کے کلائی زور سے پکڑی۔
"چھوڑو میرا ہاتھ!" وہ کراہی۔
"شانزہ ناصر یہ مت بھولو کے اس گھر میں تم سے زیادہ میری چلتی ہے!"۔
شانزے کی آنکھوں سے بےاختیار آنسو نکلے جس سے اس کا چہرہ تر ہوگیا۔
"مجھے پتا ہے رمشا! میرا ہاتھ چھوڑو!" وہ تڑپ کر بولی۔ رمشا نے ناگواری سے اس کا ہاتھ جھٹکا اور ڈوپٹہ اٹھا کر باہر کی جانب چلی گئی۔ شانزہ روتی لب بھینچتی اسکی پشت کو تکنے لگی۔ انگلیوں کے پوروں سے آنکھیں صاف کرکے وہ اٹھ گئی تھی۔
اس کے آنسو کوئی نہیں دیکھنے والا تھا۔
حتی کہ اس کا باپ بھی نہیں۔۔۔
۔۔۔★★۔۔۔
وہ "امان شاہ" تھا۔۔ اذیت پسند، شدت پسند! وہ جس پر نظر دوڑاتا تھا وہ شخص کانپ کر رہ جاتا۔ وہ سیدھا وار نہیں کرتا۔ وہ سورہا تھا اس کے باوجود اس کے کمرے اور لاؤنج کے باہر کھڑے گارڈز ابھی بھی سہمے تھے۔ ہاں ایک ایسی شخصیت گھر میں موجود تھی جس کو امان شاہ صرف گھوری دے سکتا تھا۔
اس کا بھائی! "زمان شاہ"۔وہ اس کا جڑواں بھائی تھا۔ لیکن مزاجوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
ماضی کی تلخیاں جتنا امان شاہ کو سخت اور جابر بنا گئی تھیں اتنا ہی نرم اور معصوم زمان شاہ کو!۔
محبت دونوں میں اتنی کہ کھانا بھی ایک ہی تھالی میں کھالیں! ماضی میں جو ہوا قریب تھا کہ زمان بھی پاگل ہوجاتا یا ایسا ہی وحشی بن جاتا، مگر وہ بھائی کو دیکھ چکا تھا۔ وہ بھائی کو چھیڑتا رہتا۔
وہی کام کرتا جس سے امان شاہ انکار کرتا اور پھر زمان کو پورا دن صرف سزا ملتی رہتی، مگر وہ تھا بھی اپنے بھائی کی طرح۔
ہر وہ کام پھر سے کرتا جس سے امان شاہ کے حکم کی خلاف ورزی ہورہی ہوتی۔ امان اسے اس کی غلطی پر گھورتا۔ زمان وہی حرکت دوبارہ کرتا۔
اس بار امان اسے وارن کرتا اور تیسری دفعہ وہی غلطی دہرانے پر اسے پنکھے سے الٹا لٹکا دیتا۔
یہ تو روز کا ہی معمول تھا۔
وہ اس وقت گہری نیند میں تھا اور سوتے میں بے چین ہوا تھا۔
"انہیں مت ماریں۔۔۔مت ماریں انہیں!" وہ نیند میں یکدم چیخنے لگا۔
"وہ مرجائیں گی! آپ سمجھ کیوں نہیں رہے!" وہ نیند میں اپنے بال نوچنے لگا۔ اس کی آنکھ اچانک سے کھلی۔
ہر جگہ اندھیرہ محسوس ہوا۔ وہ تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"زمان!" وہ چیخا۔
اسے زمان کے بارے میں عجیب خوف محسوس ہوا۔
زمان نے اس کی چیخوں کی آواز سنی تو دوڑتا ہوا کمرے میں آیا۔
امان کی آنکھیں پوری طرح سے کھلی نہیں تھی۔
وہ نیند میں اپنے بال نوچ رہا تھا۔
زمان نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ قابو میں کیا۔
"امان ہوش میں آؤ!" زمان نے اس کا چہرا تپھتپھایا۔
"وہ ماردیں گے ہمیں!"۔ امان پھر چیخا تھا۔
"کوئی نہیں مار رہا ہمیں۔ آنکھیں کھولو! جب تک میں ہوں وہ تمھیں ہاتھ نہیں لگا سکتا امان!"۔ اسے بھائی کی یہ حالت نہیں دیکھی جارہی تھی۔
"وہ ہم دونوں کو ماردیں گے!" ایک آنسو جو امان کی آنکھ سے نکلا تھا وہ زمان کا دل چیر گیا تھا۔
"اب ہمیں کوئی چھو بھی نہیں سکتا!"۔ زمان کے یہ کہتے امان شاہ نے آنکھ کھولی۔
ایک کرب تھا جو اس کے چہرے پر عیاں تھا۔
وہ خود پر ضبط کرتے کرتے تھک چکا تھا۔
"وہ ہمیں اذیت دیں گے! وہ ہم سے ہمارا سب کچھ چھین چکے! اگر انہوں نے ہمیں ماردیا تو؟" وہ دھیمی مگر خوفناک آواز میں بولا۔
زمان نے اس کے بالوں پر انگلیاں پھیریں۔
"اب ہمیں کوئی نہیں مار سکتا۔ حتیٰ کہ وہ بھی نہیں۔ تمھارے آگے کوئی نہیں ٹہھر سکتا امان! تم "امان شاہ" ہو! اور سب جانتے "امان شاہ" کون ہے". امان اسے کچھ دیر یہاں اپنے کمرے میں روکنا چاہتا تھا۔ زمان مسکرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔
"یہیں رہو زمان میرے کمرے میں! مجھے خواب بہت تنگ کرتے ہیں!"۔ اگر امان سے پوچھا جائے کہ اسے ماضی ذیادہ تنگ کرتا ہے یا اس کے خواب؟۔
تو وہ یقیناً فیصلہ نہ کر پائے۔ زمان کا بس چلے تو وہ دنیا بھر کی خوشی اپنے بھائی کے آگے لاکر رکھے۔ اس کا دل کسی نے مٹھی میں لیا۔
"میں یہی ہوں! تمھارے پاس۔ آخر تم سے دس منٹ بڑا ہوں۔ ہاں وہ بات الگ ہے تم مجھے ان گنت سزائیں دیتے ہو مگر ہو تو میرے چھوٹے بھائی۔ دس منٹ چھوٹے! "وہ مسکرا کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔
امان نے اپنا سر اس کی ٹانگوں پر رکھا اور آنکھیں موند لیں۔ وہ جانتا تھا کہ ایک دفعہ زمان بولنا شروع کردے تو اس کا منہ بند کرانا آسان نہیں ہوتا۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ نیند کی وادیوں میں اتر چکا تھا۔
زمان نے اس کے تکیہ کے نیچے اپنا ہاتھ ڈال کر اس کی پستول نکالی تھی۔
"ہزار دفعہ کہا ہے تکیہ کے نیچے نہ رکھا کرو لیکن" اس نے امان کو دھیرے سے گھور کر بات ادھوری چھوڑی۔
اس نے وہ پستول اس کی دراز میں ڈال دی اور اس کے بالوں میں انگلیاں پھنسا کر بستر کی پشت سے ٹیک لگالی۔
۔۔۔★★۔۔۔
"میں نے تم سے کہا تھا میر ظہیر! مجھے وہ ہر حالت میں چاہئے۔" وہ پوری قوت سے چیخا تھا۔
ظہیر کے قدم لڑکھڑائے۔
"دادا میں نے کوشش کی تھی۔ مگر وہ بھاگ نکلا"۔
امان نے ہاتھ میں موجود کانچ کا گلاس زمین پر مارا۔
"اب میں کوشش کروں گا اور تم بھاگ نکلو!" امان نے جیب سے پستول نکالی۔
ظہیر کے پسینے چھوٹے۔
"مجھے معاف کردیں دادا! میں کوشش کروں گا۔ بس آخری موقع دیں" وہ امان کے قدموں میں گرا تھا۔
"میں وارننگ نہیں دیا کرتا ظہیر۔ میرا پہلا حکم اور بات ہی میری پہلی اور آخری وارننگ ہوتی ہے!" امان نے پستول اس کے سر رکھی۔
"امان! اسے صرف آخری موقع دو پلیز!"۔ زمان تھوک نگل کر بولا۔
"تم جانتے ہو مجھے یہ باتیں پسند نہیں!" اس نے دانت پیسے۔
"صرف آخری بار امان! پلیز!"
امان نے اسے غصہ سے دیکھا تھا۔ ظہیر کھڑا ہوا۔ امان زمان کے قریب آیا۔
"یہ آخری بار تھا زمان! آئندہ ایسا نہیں ہوگا تم سے!" وہ اسے وارن کرتا ہوا اوپر چلاگیا۔
زمان نے سکھ کا سانس لیا۔ ابھی زمان کی وارننگ باقی تھیں۔
"جاؤ باہر جاؤ تم لوگ!" وہ انہیں حکم دیتا اوپر چلاگیا۔
۔۔۔★★۔۔۔

"مجھے مت مارو خدارا"۔ اس لڑکی نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے، مگر وہ دانت پر دانت جمائے ہاتھ میں بیلٹ لئے آگے بڑھ رہا تھا۔
"میں مرجاؤ گی!"۔ وہ لڑکی پھوٹ پھوٹ کر رودی۔
"تمھیں میں نے منع کیا تھا نا؟"۔
اس مرد نے وہ بیلٹ پوری قوت سے ماری۔
وہ درد کے مارے چیخی۔
اس نے اپنے ہونٹوں سے رستے خون کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بے دردی سے ہونٹ اپنے دانتوں کے نیچے کچل ڈالے تھے۔
اس نے گردن موڑ کر دیکھا۔
اس کے 6,7 سال کے بیٹے ڈرے سہمے انہیں دیکھ رہے تھے۔ اس نے تکلیف سے اسے دیکھا اور پھر اپنے شوہر کو جو ایک بار پھر بیلٹ لئے آگے آرہا تھا۔
"مت کرو ایسا! مجھ پر اور اپنے بچوں پر رحم کرو!"
وہ اسے اس کے بچوں کے سامنے مار رہا تھا اس سے ذیادہ دکھ، تکلیف اور شرم کی بات اور کیا ہوگی۔
اب وہ سنگھار میز کی جانب بڑھا تھا۔
دراز کھول کر اس نے بلیڈ نکالا اور اس کے قریب شان سے چلتا ہوا آیا۔ اس عورت نے کرب سے آنکھیں میچیں۔ اس کا ایک بیٹا دوسرے بیٹے کے پیچھے چھپ گیا اور آگے والا بیٹا اپنے باپ کو بغور دیکھنے لگا۔ اس لڑکی نے بھاگنا چاہا تو اس نے اسے بازو سے پکڑ کر اس کی گردن پر بلیڈ پھیرا۔
وہ کچھ لکھ رہا تھا۔
وہ لڑکی اذیت سے چلائی۔
اس نے اپنے نام کا پہلا حرف بلیڈ سے لکھ دیا۔
خون بہہ رہا تھا۔
"یہ میری محبت کا نشان ہے۔ زندگی بھر نہیں مٹے گا!" وہ درد کے مارے چیخ رہی تھی۔
اس نے بیلٹ زمین پر پھینکی اور غصہ میں آستین کے کف فولڈ کرتا باہر چلاگیا۔
وہ لڑکی جلدی سے اٹھی اور آئینے میں مڑ کر اپنے بال اٹھا کر دیکھنے لگی۔
ایک لفظ لکھ گیا تھا وہ۔۔۔
ایک حروف۔۔۔
وہ اپنے نام کا پہلا لفظ لکھ گیا تھا۔
اس نے زخم پر ہاتھ رکھ کر رونا شروع کردیا تھا۔
۔۔۔★★۔۔۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now