قسط ۵

3.6K 173 25
                                    

"شانزہ تم نے آج تو ناشتہ ہی نہ بنایا میرے لئے؟ یعنی جب تک بندہ منہ سے نہ بولے تم نہیں بناؤ گی؟"۔ رمشا پھر تن فن کرتی اس کے سر پر کھڑی تھی۔
"میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے رمشا۔ میں بہت تھکی ہوئی ہوں۔ سو پلیز!"۔
اسی دم نفیسہ بیگم کمرے میں آئیں۔
"میں نے بنادیا ہے ناشتہ تمھارا!"۔ سنجیدگی سے کہتے ہوئے انہوں نے شانزہ کا ٹیمریچر چیک کیا۔
"ماما آپ نے بابا کو میری طبیعت کا بتایا کیا؟"۔ اس نے بمشکل آنکھیں کھول کر پوچھا۔
"نہیں ابھی بتایا نہیں!"۔ جھوٹ بولتے ہوئے بھی انہوں نے تھوک نگلا تھا۔
"کیوں نہیں بتایا؟"
وہ بخار میں تپ رہی تھی۔ اب وہ اسے کیا بتائیں کہ اس کے بابا نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا کہ دوا کھلادو ٹھیک ہو جائے گی۔ انہوں نے اس لئے اسے نہ بتایا کہ وہ اس بات سے یقیناً اداس ہو جائے گی۔ اسے دکھ پہنچے گا۔
"بابا گھر آئیں گے تو بتادوں گی"۔
"آپ کو تو جھوٹ بھی بولنا نہیں آتا! خیر چھوڑیں انہیں پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آپ کو یاد ہے نا اس دن رمشا کے صرف سر میں درد تھا اور بابا نے شور سے گھر سر پر اٹھالیا تھا۔ وہ جانتے تھے میری طبیعت صبح سے بےحال ہے، مگر انہوں نے ایک بار نہیں پوچھا۔ بیٹی تو میں ہوں نا ماما؟ چاچا اور چچی کے حادثے میں موت ہونے کے بعد جب سے رمشا ہمارے گھر میں آئی ہے بابا مجھے جیسے بھول گئے ہیں! اتنی جلدی میں بھلا کوئی بھول جاتا ہے۔ کم از کم ایک باپ بیٹی کو نہیں بھول سکتا۔" اس کی آنکھیں بے اختیار نم ہوئیں۔
ایک کرب تھا جو ایک ماں کے چہرے پر عیاں تھا۔
"م۔میں تمھارے لئے دوا لاتی ہوں"۔ وہ ڈوپٹے کے پلو سے آنکھیں صاف کرتیں کمرے سے باہر چلی گئیں۔
شانزہ یونہی بے سدھ لیٹی رہی۔
۔۔۔★★۔۔۔
"امان ایک بات پوچھوں؟"۔ زمان نے ناشتے سے ہاتھ اٹھایا اور اسے مخاطب کیا۔
"نہیں اجازت دوں گا تو بھی پوچھو گے۔ تو پوچھو"۔ امان نے لقمہ منہ میں ڈالا۔
"شادی کب کررہے ہو؟ بوڑھے ہورہے ہو تم!"۔ سوال سنجیدگی سے کیا تھا مگر زبان چھیڑے بغیر کہاں رہتی تھی زمان کی۔
"اگر میں بوڑھا ہورہا ہوں نا تو تم جوان نہیں ہورہے! بھول رہے ہو۔ تم ذیادہ بوڑھے ہو مجھ سے! دس منٹ بڑے ہو آخر!"۔ اس نے بنھویں اچکائیں
"دس منٹ بڑا ہوں۔ دس سال نہیں! ابھی تو تیس کا بھی نہیں ہوں۔ تیس کا ہونے بھی کافی سال ہیں۔ ویسے بات کی کیا تھی میں نے اور جواب دیا کیا تھا! شادی کے بارے پوچھ رہا ہوں!"۔
امان نے اسے بغور دیکھا۔
"پسند آئی گی کوئی تو کرلوں گا!"۔
"تمھیں پسند آ ہی نہ جائے کوئی بھائی"۔
"تو تمھارے لئے شادی کرلوں اب میں؟"۔
"تو کرلو!"۔
"مجھے لگتا ہے زمان مجھے محبت نہیں ہوسکتی!" وہ سنجیدگی سے کچھ سوچتا ہوا بولا۔
زمان چونکا۔
"کنوارے مرو گے؟"۔ اس نے ہنس کر پوچھا۔
"میرے نزدیک محبت محض ایک تماشہ ہے!"
"پھر تو زمان شاہ یہ تماشہ سرعام کرنا چاہے گا!"۔ جذبات میں شرارت تھی۔
"جی بھر کر کرو! کیونکہ میں اس تماشہ سے دور ہی رہنا چاہتا ہوں!"۔ وہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا اور کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
"بس بھائی اپنے اس فیصلے پر قائم رہنا۔ میں کسی لڑکی کی زندگی اپنی آنکھوں کے سامنے برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا"۔ وہ اسکی پشت تکتے ہوئے دھیرے سے بڑبڑایا تھا۔
۔۔۔★★۔۔۔
"ماما دوا کھلادیں شاید آرام آجائے"۔ شانزہ تیسری دفع بلند آواز میں بولی تھی۔
"مجھے دوا نہیں مل رہی! لگتا ہے ختم ہوگئی"
نفیسہ پریشانی میں بولی تھیں۔
"پیناڈول ماما؟"
"ہاں"۔
"تایا سے منگوالیں!"۔ وہ آنکھیں موندے بولی۔
"تمھارے تایا گھر پر نہیں!"۔ انہوں نے پریشانی سے چہرے پر ہاتھ مارا۔
"اماں عدیل سے منگوالیں!"۔
"عدیل سو نہ رہا ہو!"۔
"اماں فاطمہ کو ہی بول دیں! وہ اٹھائے گی اپنے چہیتے بھائی کو! ان کو سونے کے علاؤہ آتا کیا ہے"۔ وہ ہنسی۔
"تم ذیادہ مت بولو طبیعت خراب ہے! میں دیکھتی ہوں"۔
وہ اٹھ کر باہر آئیں اور صحن سے اوپر کی جانب آواز دینے لگیں۔
"صبور بھابی!"۔ دوسری یا تیسری آواز پر صبور تائی نے نیچے جھانکا۔
"ہاں نفیسہ!"
"بھابھی کیا عدیل ہے؟" انہوں نے پریشانی سے پوچھا۔
"نہیں۔ وہ تو گیا ہوا ہے! کیا ہوا کوئی کام ہے کیا؟ فاطمہ کو نیچے بھیجوں؟" تائی کے ماتھے پر بل آئے۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now