قسط ۱۵

3.6K 201 46
                                    

"زمان؟ جواب دو"۔ وہ چیخی۔
"تت۔تم؟ خیریت؟"۔ وہ چونکا۔ لمحہ لگا تھا اس کی رنگت فق ہونے میں ۔ فاطمہ کا فون بےوجہ نہیں آسکتا تھا۔ 
"کیا میں نے تاخیر کردی؟"۔ وہ روتے ہوئے دبے دبے سے لہجے میں پوچھ رہی تھی۔ زمان کا دل بیٹھا۔
"ک۔کیا ہوا ہے؟ مجھے کچھ علم نہیں۔۔۔" وہ ساکت ہوا۔ فاطمہ نے پہلے حیرانی اور پھر حقارت سے فون کو دیکھا اور چلائی۔
"تمھیں علم نہیں؟ دونوں گھر میں ساتھ رہتے ہو اور یہ ہی نہیں معلوم تمہارے بھائی نے شانزہ سے نکاح کیا ہے؟ تم تو ساتھ دینے کی بات کررہے تھے نا زمان؟ مگر تم جھوٹ۔۔۔۔" اس نے روتے ہوئے بات ادھوری ہی چھوڑدی۔
زمان کے تو کان سائیں سائیں کرنے لگے تھے۔ وہ دم بخود کھڑا معاملہ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔ امان نے نکاح؟ مگر ابھی رات ہی تو بات ہوئی تھی۔
"کک۔کب نکاح۔۔۔۔" اس کے منہ میں ہی الفاظ رہ گئے۔ اسے اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ خود پر قابو پانے کی کوشش کررہا تھا۔
"کیا تمہیں واقعی نہیں خبر؟"۔ اسے حیرت ہوئی۔
"نہیں میں بے خبر ہوں۔ میں کراچی میں نہیں ہوں دو تین دن سے۔ مجھے علم نہیں! خدا کا واسطہ ہے مجھے بتاؤ"۔ وہ سامنے کی جانب نگاہیں ٹکا کر دم بخود بولا۔
"دو، تین دن قبل"۔
زمان نے بائیں ہاتھ کی انگلیاں غم و غصے سے بالوں میں پھنسائیں۔
امان ایسا کیسے کرسکتا تھا۔ اپنے بھائی کو بھی خبر لگنے نہیں دی۔ اسے رونا آنے لگا۔ اتنا بےبس زندگی میں کبھی نہیں ہوا جتنا آج امان نے کردیا تھا!۔ اس نے میرے لاہور جاتے ہی اسی دن نکاح کرلیا؟ یعنی اس نے مجھے جان بوجھ کر بھجوایا تھا؟
"مجھے سمجھ نہیں آرہا میں کیا کروں لیکن میں نے تم سے کہا تھا فاطمہ جاوید کہ میری بات کا یقین کرو! مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ مجھے آج کراچی کا ٹکٹ کروانا ہے! کوشش ہے آج ہی آجاؤں، پھر ہی پتا چلے گا کہ تم کتنی تاخیر کر آئی ہو"۔ اس نے کال کاٹی اور بے چارگی سے فون کو دیکھنے لگا۔ اس کا نمبر سم میں محفوظ کرکے اب وہ لب بھینچے خود کو آئینے میں دیکھ رہا تھا۔
"امان"۔ اس نے پوری قوت سے چیخ کر موبائل دیوار پر دے مارا۔
ایک کے بعد ایک مشکل سر پر کھڑی تھی۔
کاش کہ یہ وقت تھم جائے اور دو گھڑی سکون کا خاموش فضا میں کھل کر ہی سانس لے لے۔
مگر وہ صرف ایسا سوچ سکتا تھا، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
۔۔۔★★۔۔۔
وہ شاور لے کر کمرے میں آیا اور تولیہ بالوں پر رگڑنے لگا۔ کل رات زمان کے ساتھ گفتگو کے بعد اس کا موڈ ٹھیک ہوچکا تھا۔ وہ آج خوش بھی تھا کیونکہ زمان آنے والا تھا۔ بےخبری میں تولیہ بیڈ پر پھینکا یہ بھول کر کہ گیلا تولیہ سوتی شانزہ کے منہ پر پڑا تھا۔ وہ وارڈروب کی جانب بڑھا ہی تھا کہ جھٹکے سے پلٹا اور تیزی سے شانزہ کی جانب بڑھا۔ تولیہ ہٹا کر دیکھا تو وہ خمار آلود آنکھوں سے حالات سمجھنے کی کوشش کررہی تھی۔
"نہیں نہیں سوجاؤ۔۔۔ کچھ نہیں ہوا"۔ امان اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ شانزہ تو اس کی شکل دیکھتے ہی سہم گئی تھی۔ اٹھ کر بیٹھنے لگی تو اس نے منع کردیا اور تپھکنے لگا گویا بچے کو تھپک رہا ہو۔ وہ تو ویسے ہی نیند میں تھی، منٹوں میں سوگئی۔ وہ شانزہ امان تھی جو سوتے میں بھی کسی معصوم بچے کی طرح لگتی تھی۔ بہت پیاری۔ امان مسکرا کر اپنی زوجہ کو دیکھنے لگا۔ اس کے بالوں میں انگلیاں گھماتا وہ بھول رہا تھا کہ اب وہ آفس لیٹ ہورہا ہے۔ یونہی کتنی دیر تکنے کے بعد اسے یاد آیا کہ وہ ایک شوہر کے ساتھ ایک باس بھی ہے۔ وہ چونک کر اٹھا اور وارڈروب سے کالر والی شرٹ اور کوٹ نکالنے لگا۔ چینج کرکے آیا اور ایک نظر سوتی شانزہ کو دیکھ کر سنگھار میز کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ کنگھا اٹھاتا آئینے کی طرف دیکھا تو یاد آیا آئینہ تو وہ توڑ چکا ہے۔ اب خود کو کہاں دیکھا جائے؟
"اہا زمان کا کمرہ"۔ وہ شاطرانہ مسکراہٹ لبوں پر لائے بولتا ہوا اب اس کے دروازے پر کھڑا تھا۔ تختی کو اٹھایا جس پر اتنے بڑے بھاشن کے علاوہ "میری خواب گاہ میں امان کا آنا منع ہے" کو ایک نظر دیکھتا اسے پیچھے پھینک کر آگے بڑھ گیا۔ زمان نے اپنے کمرے کی دیوار پر بڑا آئینہ لگوایا تھا۔ وہاں اچھی طرح بال بنا کر خود کو تسلی سے دیکھ کر وہ اس کے وارڈ روب کی طرف بڑھا۔
"میری الماری کو ایسے کنگھالتا ہے جیسے اس کے پیسے اڑاتا ہوں۔۔۔"
وارڈ روب کو دیکھ کر اسے دھچکا لگا، کپڑے ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔۔ کیسے؟۔
اوہ کلثوم نے اس کے جانے کے بعد تہہ کرکے رکھے ہوں گے ورنہ اسے کون نہیں جانتا ہے؟۔
اس نے اس کے کپڑے نکال کر بیڈ ہر رکھے۔  سب کپڑوں میں اس کی ایک بلیک ٹی شرٹ تھی جسے وہ اکثر پہنا کرتا تھا اور محبت اتنی تھی کہ اس شرٹ کو تین دن تک دھلواتا نہیں تھا۔ دھلوانے کا کبھی سوچا ہی نہیں۔ امان نے شرٹ ناک سے لگائی اور اس کے بعد اسے کچھ لمحے سنبھلنے میں لگے۔ اسے لگا اس کی ناک سڑ گئی ہو۔ ابکائی آئی اور وہ اب آنکھیں پھاڑ کر چھت کی طرف دیکھنے لگا تاکہ کچھ تو حالت سنبھلے۔
"مجھے سمجھ نہیں آتا یہ شرٹ سنبھال کر کیوں رکھی ہے؟ ۶،۷ سال سے زائد ہوچکے ہوں گے"۔ وہ اسے انگلیوں سے پکڑتا نیچے لے آیا اور ڈسٹ بن میں پھینک دی۔
"ہزار دفع کہا ہے اگر یہ شرٹ ذیادہ پسند ہے تو اس جیسی دوسری لے لو، مگر کون سی محبت یے اس سے جو نہیں دھلوائی جاتی۔
"کلثوم؟"۔
"جی امان دادا"۔ وہ بھاگتی ہوئی آئی۔
"تم کب آئی ہو؟"۔
"دادا ابھی کوئی پندرہ منٹ پہلے۔۔۔"
"اور گارڈز؟"۔
"لالا تو آگئے اور تھوڑی دیر تک آجائیں گے سارے بھی"۔
"ہمم اچھا ہے۔ خیر میں نے ڈسٹ بن میں زمان کی ایک شرٹ پھینکی ہ۔۔۔"
"کالی والی؟"۔ کلثوم جلدی سے بات کاٹ کر بولی پھر خود ہی زبان دانتوں میں دبالی۔
امان آنکھیں چھوٹی کرکے اسے دیکھنے لگا۔
"یعنی اسے بھی پتا ہے اس شرٹ کے بارے میں"۔ وہ دل ہی دل میں مسکرایا۔
"سوری دادا مجھے آپ کی بات نہیں کاٹنی چاہئے تھی، خطا ہوگئی"۔ وہ نظریں جھکا کر بولی
"خیر وہ شرٹ میں نے پھینک دی ہے۔ ہو سکتا ہے زمان آج کل میں آجائے۔ وہ شرٹ ڈسٹ بن سے بھی غائب کروادینا ورنہ وہ وہاں سے بھی نکال لے گا"امان سیڑھیوں کی جانب مڑگیا۔
وہ کمرے میں داخل ہوا اور وال کلاک دیکھتا ہوا سنگھار میز سے موبائل اٹھا کر جیب میں رکھا۔ پلٹ کر چلتا ہوا سوتی شانزہ کے پاس آیا۔ اس کا ہاتھ تھام کر چوما اور آنکھوں سے لگالیا۔ وہ کچھ دیر اور ٹھہرنا چاہتا تھا، مگر وہ تاخیر پہلے ہی کرچکا تھا اس لئے اٹھ کر ضروری فائلز اور گاڑی کی چابی لئے گیراج میں چلا آیا۔
"دادا کے لئے گیٹ کھولو"۔ شاہ نواز نے چوکیدار کو آواز لگائی۔
امان نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے شاہ نواز کو گھورا۔ وہ کل کا واقعہ بھولا نہیں تھا۔ شاہ نواز کا رنگ فق ہوا تھا مگر کچھ حرکت نہیں کی۔ امان نے گاڑی ریورس کرکے باہر نکال لی۔ شاہ نواز نے مڑ کر اوپری منزل کو دیکھا اور گہری سانس لیتا ڈیوٹی پر چلاگیا۔
۔۔۔★★۔۔۔
رمشا فاطمہ کے کمرے آئی تو اسے جائے نماز میں ہی سوتا دیکھ کر اس کی جانب بڑھی۔
"فاطمہ بچے اٹھو۔ کہاں سو گئی تھی تم؟ چلو شاباش اٹھ جاؤ کالج جانا ہے تمہیں"۔ رمشا نے اسے اٹھا کر بٹھایا۔ رمشا اسے اٹھانے آئی تھی؟ وہ چونک اٹھی۔ کسماتی ہوئی اٹھی، مگر اس کا چہرہ دیکھ کر لہجہ کڑوا ہوگیا۔
"تمہیں کیوں اتنی پرواہ ہورہی ہے؟" رمشا فاطمہ کے لہجے پر حیران ہوئی۔
"کیا مطلب؟ میں صرف تمہیں جگانے آئی تھی۔۔۔ تم لیٹ ہورہی ہو کالج سے۔۔۔" رمشا نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر کہا۔
"اچھا"۔ ایک گھوری دے کر فاطمہ صرف یہی کہہ سکی۔
"ہاں نا دیکھو اب شانزہ بھی ہمیں چھوڑ گئی اور عدیل کو بھی۔۔۔ بھلا ایسا کوئی کرتا ہے؟ بتاؤ ذرا یہ کہاں کی شرافت ہے"۔ وہ بےچارگی سے نفی میں سر ہلا کر بول رہی تھی۔
"شریف تو تم بھی نہیں رمشا عرفان! میں خاموش ہوں مجھے خاموش رہنے دو۔۔۔ اور خدارا باہر جاؤ میں سونا چاہتی ہوں اور نہیں جانا مجھے کالج بھلے باہر جاکر ایک کی چار لگا کر بتادو!"۔ وہ تڑخ کر بولی۔ رمشا دنگ رہ گئی۔ وہ اس موقع پر فاطمہ کو خود کے لئے ہمدردی پیدا کرنا چاہتی تھی لیکن اس کی باتوں سے اس کا یہ سب کرنا ناممکن لگ رہا تھا۔ فاطمہ اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھی۔ وہ دم بخود اٹھی اور کمرے سے چلی گئی۔ فاطمہ نے ناگواری سے منہ پھیرا اور بیڈ پر جاکر لیٹ گئی۔
۔۔۔★★۔۔۔
اس کی آنکھ کھلی تو وہ کمرے میں نہیں تھا۔ گھڑی پر نظر ماری تو اب گیارہ بجنے کو تھے۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس گھر میں آئے اس کو تیسرا دن تھا۔ تھوڑی دیر بعد بیڈ سے اٹھی اور فریش ہو کر آئی۔ دل میں اب بھی خوف تھا۔ کم از کم وہ رات والا واقعہ نہیں بھولی تھی جب امان نے اس کا جبڑا سختی سے پکڑا تھا۔ اس کی سانسیں گویا اس دم اٹک گئی تھیں اور حالت ایسی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں کیونکہ اس کے سامنے وہ شخص تھا جسے وہ ذیادہ نہیں جانتی تھی۔ اس کے لئے یہ وہ شخص تھا جو اسے جان سے مار بھی سکتا تھا کیونکہ وہ اس کا باپ نہیں تھا نہ اس کے باپ جیسا تھا جس کے لئے شانزہ کبھی نہیں ڈری۔۔۔ ہاں وہ اس سے اچھا برتاؤ نہیں رکھتے تھے نہ اس کے خیال کا خیال رکھتے تھے مگر باپ کا سایہ اور وجود ہی کافی ہوتا ہے کہ باپ کے ہوتے ہوئے کوئی اسے چھو بھی نہیں سکتا تھا، مگر جو نفرت پیدا ہوگئی تھی اس سب میں تو ایسا لگتا ہے جیسے انہوں نے خود اسے جہنم کے حوالے کردیا۔ اس کی آنکھیں گیلی ہوگئیں۔ بس ایک ماں کی یاد ستارہی تھی اور ایک دوست کی۔ عدیل کو گویا وہ یاد ہی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ اس لئے بھی کہ وہ اسے یاد کرکے رونا نہیں چاہتی تھی، وہ اب کسی کی بیوی تھی اور اب وہ شوہر کے ہوتے ہوئے کسی اور مرد کو سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ جو بھی تھا امان اب شوہر تھا۔ بھلے وہ اس سے محبت نہیں کرتی تھی، مگر اس کے ساتھ ایک محرم رشتے میں بندھ کر نامحرم کو سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ ہر بار یہ بات خود کو باور کروانا ضروری تھی کہ عدیل نے اسے نہ روکا اور نہ اس کے باپ کو کہ وہ یوں نہ کریں۔ اس کی آنکھیں کب گیلی ہوئیں اسے خبر نہ ہوئی۔ یہ باتیں دہرانے کا فائدہ نہیں تھا، مگر وہ اپنی ماں سے ملنا چاہتی تھی۔ وہ اسے گھر نہیں جانے دے گا، مگر وہ اسے ملوا تو سکتا ہے۔ اس نے ٹھان لیا کہ وہ یہ بات ضرور کہے گی۔ وہ اپنی بات اس کے سامنے رکھے گی کہ وہ اپنی ماں سے ملنا چاہتی ہے اور اگر وہ منع کرتا ہے تو وہ رکے گی نہیں وہ ہر بار بولے گی اور بار بار بولے گی۔ اس نے آنسو پونچھے اور سنبھل کر کمرے سے باہر آگئی۔ امان اور زمان کا کمرہ فرسٹ فلور پر مقیم تھا۔ اس نے نظریں دوڑائیں، مگر پورشن خالی تھا۔ امان آفس جاچکا تھا اسے علم تھا۔ وہ  سیڑھیاں اتر کر نیچے آگئی۔ لاؤنج خالی تھا ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کون سی سمت جائے کہ کلثوم بھاگتی ہوئی آئی اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔
"لالا جلدی آؤ ورنہ بیگم صاحبہ بھاگ نہ جائیں۔۔۔" اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر وہ شہنواز کو آوازیں دینے لگی۔ شانزہ آنکھیں پھاڑے حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"آج نہیں جا پائیں گی آپ! اس دن آپ نے مجھے لاؤنج میں بند کردیا اور اوپر سے مجھے پیاس بھی لگ رہی تھی آپ کی وجہ سے دو گھنٹے مجھے پیاسا رہنا پڑا اور امان دادا کے ہاتھوں جان جاتے جاتے بچی۔۔۔ آج نہیں جانے دوں گی آپ کو" کلثوم دونوں ہاتھوں سے اس کی کلائی پکڑی ہوئی تھی۔ جبکہ وہ بلکل سیدھا کھڑی اس کی دماغی حالت پر شک کرنے میں مصروف تھی۔
"کیا ہوا کلثوم وہ بس کھڑی ہیں کہیں جا تھوڑی رہی ہیں"۔ شاہ نواز جو تھوڑی دیر پہلے ہی پیچھے آکر کھڑا ہوا تھا اس نے کلثوم کو فوراً جھڑکا۔ کلثوم نے آنکھیں پھاڑیں۔
"ہیں؟ آپ بھاگیں گی تو نہیں؟"۔ شانزہ بے اختیار ہنسی۔
"نہیں میں بس یونہی نیچے آئی تھی۔۔۔"
کلثوم نے سکون کا سانس لیا۔
"اوہ شکر ہے! مجھے لگا آپ پھر سے جارہی ہیں"۔ شاہ نواز اس کی بات پر اسے گھوری دے گیا۔
"زبان بند رکھا کرو کلثوم! بہت باتیں بھی کرنے لگی ہو آج کل!"۔
"اچھا لالا بس نظر کم رکھا کریں آپ مجھ پر"۔ وہ ناراضگی سے منہ پھیر کر بولی۔
"آپ ڈانٹیں مت اسے"۔ شانزہ نے کلثوم کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا اور شاہ نواز سے بولی۔ وہ بھول چکی تھی کہ وہ تھوڑی دیر پہلے رو کر آئی تھی۔
"نہیں یہ لالا ہے نا یہ بڑے بھائی ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ نہ کرو وہ کرو۔۔۔ کھانا کیوں نہیں کھایا، موبائل کم استعمال کیا کرو اور تو اور۔۔۔"
"بس کردو کلثوم! تم غلطیاں بھی بہت کرتی ہو"۔ شاہ نواز نے مسکراہٹ دبا کر مصنوعی غصے سے کہا۔ شانزہ کھل کر مسکرائی۔ اسے بے اختیار اپنے سے چھوٹی کلثوم پر پیار آیا۔
"ہاں ساری غلطیاں میں ہی تو کرتی ہوں۔۔۔" وہ خفا سی رخ موڑ گئی۔ شاہ نواز نے اسے گھورا۔
"اگر تم میری بہن نہیں ہوتی نا تو اس بندوق سے تمہیں بھون دیتا"۔ وہ اسے گھورتا ہوا بولا۔
"اور اگر آپ میرے لالا نہیں ہوتے تو میں گرم چمٹے کو آپ کے ہاتھ پر لگا کر آپ کو سینک دیتی"۔ جواب دوبدو آیا تھا۔ شانزہ اتنی زور سے ہنسی کہ کلثوم ٹہھر کر اسے دیکھنے لگی۔
"کیا آپ دونوں بہن بھائی ہیں؟"۔ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ شانزہ کا موڈ ان کی باتوں سے یک دم فریش ہوگیا تھا۔
"ہاں جی"۔ شاہ نواز نے ابھی جواب دیا ہی تھا کہ کلثوم نے جملے میں اضافہ کیا
"جی غلطی سے"۔ کلثوم سینے پر ہاتھ باندھ کر کہتی وہ شاہ نواز کو دیکھنے سے پرہیز کررہی تھی۔
"اماں کہتی ہیں میں نے دعا کی تھی اللہ سے مجھے بہن چاہئے۔۔۔ متھ ماری گئی تھی میری۔۔۔ بڑا منحوس وقت تھا میری زندگی کا جب میں نے ایک بہن کی خواہش کی تھی۔ بس خبر نہیں تھی کہ میری دعا جلد ہی پوری ہوجائے گی ورنہ کچھ اور مانگ لیتا۔۔۔ آخ تھو"۔ وہ تھوک پھینکنے کی نقل کرتا ہوا اب اس کے جواب کا انتظار کررہا تھا۔ کلثوم اسے سنجیدگی سے دیکھنے لگی۔ شانزہ کو بھی اس کے جواب کا انتظار تھا۔ کلثوم کی بڑی بڑی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو نکلنے لگے۔ شانزہ نے مڑ کر شاہ نواز کو دیکھا۔
"آپ نے اسے رلادیا"۔ وہ ماتھے پر بل ڈال کر بولی۔
"بیگم صاحبہ ڈرامے کررہی ہے یہ"۔ شہنواز کا یہ کہنا تھا کہ کلثوم کی "سووو" شروع ہوچکی تھی جو اب بلند آوازوں میں بدل رہی تھی
"نہیں کلثوم رو مت! ایسے نہیں روتے!"۔ وہ اسے خاموش کراونے لگی۔ شاہ نواز کچھ دیر کھڑا دیکھتا رہا پھر ایک گہری سانس خارج کرتا ہوا کلثوم کی طرف بڑھا۔
"خطا ہوگئی کلثوم تیرے لالا سے۔ چل معاف کردے"۔ وہ بہن کو سینے سے لگائے سر تھپکتا ہوا بولا۔
"اچھا بس رو تو مت! کلثوم تیری آواز کان پھاڑ رہی ہے میرے" شاہ نواز کے یہ کہتے شانزہ کو ہنسی آئی مگر اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر دبالی۔
" اب میں تجھے لالا نہیں کہوں گی لالا۔۔۔ تو میرا مذاق اڑاتا ہے۔۔"۔ وہ اس کے سینے سے لگے روتے ہوئے بولی۔ شاہ نواز نے دبی دبی ہنسی ہنستے ہوئے شانزہ کو دیکھا جس کی خود کی ہنسی بے قابو ہورہی تھی۔
"اچھا ابھی معاف کردے۔۔۔ کتنا بیہودہ روتی ہے تو کلثوم! تجھے ہر بار کہا ہے مت رویا کر دوسرے کے کانوں کا خیال رکھا کر۔۔ اتنی سکت نہیں ہوتی کانوں کو کہ اتنی بیہودہ آواز برداشت کرسکیں"۔ شاہ نواز کا یہ کہنا تھا کہ کلثوم نے منہ پھاڑ پھاڑ کر رونا شروع کردیا۔
"اللہ اللہ کلثوم دیکھو ابھی بیگم صاحبہ کو آئے دو تین دن ہوئے ہیں اور تو نے رونا شروع کردیا۔۔۔ اب بھلا بتا کیا سوچیں گی وہ تیرے بارے میں؟۔ چچچ"۔ بس اب ایک ہی راستہ تھا جس سے وہ چپ ہوسکتی تھی۔ وہ جلدی آنسو پونچھ کر سیدھی ہوئی اور شانزہ کی طرف دیکھا۔
"نہیں بی بی جی میں نہیں روتی"۔ وہ ہڑبڑا کر بولی۔ شاہ نواز ہنسا۔
"جی بی بی جی یہ بلکل بھی نہیں روتی۔ بس میں ہی تو روتا رہتا ہوں"۔ وہ کلثوم پر طنز کے تیر چلاتا بظاہر ہنس کر بولا۔ کلثوم نے بھائی کو فکرمندی سے دیکھا۔
"نہیں بی بی جی بھائی بھی نہیں روتا"۔ اسے بھائی کی عزت کی فکر پڑگئی۔
"تم میری تعریفیں نہیں کرو میں خود کی کرسکتا ہوں۔۔ تم جاکر بی بی صاحبہ کے لئے ناشتہ بناؤ۔۔۔" شانزہ مسکرادی۔
"ہائے ہاں بی بی میں تو بھول ہی گئی کیا کھاتی ہیں آپ ناشتے میں؟"۔ وہ اب شانزہ کی جانب آئی۔ شاہ نواز اپنی بہن کو دیکھتے ہوئے باہر چلا گیا۔
"کلثوم میرے لئے بس انڈہ بوائل کردو اور چائے بنادو"۔ شانزہ صوفے پر بیٹھ گئی۔
"جی بی بی جی"۔ وہ جانے کے لئے مڑی کے شانزہ نے روکا۔
"اور سنو اپنے لئے بھی ناشتہ لے آنا مل کر کھائیں گے کیونکہ مجھے تمھاری باتیں سننا اچھا لگ رہا ہے"۔ کلثوم نے مڑ کر اسے دیکھا جو اسے دیکھ کر مسکرارہی تھی۔ تبسم پھیلا اور "جی بی بی جی" کہہ کر کچن میں چلی گئی۔ شانزہ لاؤنج کی سیٹنگ دیکھنے لگی۔ خوبصورت رنگ کے بھاری پردے لٹک رہے تھے۔ بڑی ایل ای ڈی لگی اور تھوڑے فاصلے پر ڈائننگ ٹیبل تھی۔ اسے واقعی خوبصورتی سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا۔ وہ گھر محل سے کم نہیں تھا۔ وسیع لاؤنج میں رکھے کالے صوفے اس کو اور ذیادہ حسین بنارہے تھے۔ وہ ان سب کو دیکھنے میں محو تھی کہ کلثوم کی آواز آئی۔
"آجائیں بی بی جی"۔ اس نے ٹیبل پر کھانا رکھا۔
"واہ اتنی جلدی بنالیا۔۔۔ " کرسی آگے کرکے وہ بیٹھ گئی۔
"آؤ یہاں تم بھی بیٹھ جاؤ۔۔۔ " شانزہ نے اس کے لئے بھی کرسی آگے کی تو کلثوم کی چٹی گوری رنگت سرخ ہوگئی۔
"آپ کو پتا ہے شانزہ بی بی۔۔۔ آپ بہت ذیادہ اچھی ہیں"۔
"جزاک اللہ لڑکی۔۔۔" وہ مسکرا کر بولی۔ شانزہ نے دعا پڑھ کر کھانے کا لقمہ منہ میں ڈالا۔
"آپ خوش تو ہیں نا؟"۔ یہ لفظ نہیں خنجر تھے جو اس کو زخمی کررہے تھے۔ شانزہ نے لب بھینچے۔ اسے لگا لقمہ گویا حلق میں اٹک گیا ہو۔ سارے زخم یاد آگئے۔ بلیک میلنگ، دھمکیاں، پھر اغوا کر لینا۔ ساری زندگی کے لئے اذیت مل گئی تھی۔ وہ کوئی جواب نہ دے سکی۔
"وہ بہت اچھے ہیں شانزہ بی بی۔۔۔" ابھی کلثوم اپنا جملا پورا نہیں کرپائی تھی کہ شانزہ نے بات کاٹی۔
"وہ شخص انسان نہیں درندہ ہے جو دوسروں کی زندگیوں سے کھیلتا ہے، اسے دوسرے کے جذبات فکر نہیں ہوتی وہ سب کو روند دیتا ہے۔ میں اس کے ساتھ خوش نہیں۔ اذیت میں ہوں خوف میں ہوں۔۔۔" وہ دانت پیس کر خود کو قابو کرنے لگی۔
کلثوم حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
"انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے بیگم صاحبہ"۔ وہ دھیرے سے بولی۔
"اسے سمجھنے کی ضرورت ہے جو ایک پاگل انسان ہے؟ راتوں کو اٹھ کر آئینے توڑ دیتا ہے اور ساری رات ٹیرس میں جاگ کر سیگریٹ پھونکتا ہے؟ نہ خود چین لیتا ہے اور میرا چین تو برباد ہی ہے تب تک جب تک یہ طلاق نہیں دے دیتا اور تب سے ہے جب میں نے پہلی بار اس شخص کو دیکھا تھا۔۔۔" کلثوم فق نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
"انہوں نے پھر سے آئینہ توڑ دیا؟ یا خدایا"۔ وہ تیزی سے اٹھی اور باہر کی جانب بڑھنے لگی۔
"آپ کو ابھی بہت کچھ جاننے کی اور سمجھنے کی ضرورت ہے بی بی"۔ وہ پل بھر کو رکی تھی اور کہہ کر شاہ نواز کے پاس بھاگ گئی تھی۔
۔۔۔★★۔۔۔
شام کے پانچ بجنے والے تھے۔ وہ کمرے میں بیٹھی تھی۔ جیسے جیسے وقت گزررہا تھا اس کا دل خوفزدہ ہورہا تھا کیونکہ امان آنے والا تھا۔ بس ایک اور موقع مل جائے فرار ہونے کا۔ بس ایک اور۔۔۔ وہ بہت دور نکل جائے گی اور کسی کو خبر بھی نہ ہوگی۔ اسے ایک بار پھر رونے آنے لگا۔ ماں کی یاد بار بار ستارہی تھی۔ وہ بستر پر اوندھے منہ لیٹی تھی۔ جانے کتنی دیر بےآواز روتی رہی۔ دن ڈھل رہا تھا اور رات برپا ہورہی تھی۔ وہ آنے والا تھا اور وہ آئیندہ دنوں میں فرار ہونے کا راستہ سوچ رہی تھی۔ جب وہ گھر سے نکالی گئی تھی تو اس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا۔ بستہ گھر میں تھا۔ تھا تو بس اجڑا دل۔۔۔ یونیفارم پہن کر ہی اس گھر میں آئی تھی اور اب اُس یونیفارم کا کچھ اتا پتا بھی نہیں تھا۔ اس کا فون اس کی جیب میں تھا۔
"میرا فون"۔ وہ جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھی۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ جب وہ گھر سے نکلی تھی تو اس کی جیب میں ہی اس کا فون رکھا تھا۔ پھر کہاں گیا؟ وہ اسے اسی کمرے میں لایا تھا اور یونیفارم بھی شانزہ نے یہیں چینج کرکے پھر شادی کا جوڑا پہنا تھا۔ تو فون؟ ایسا ہو نہیں سکتا کہ امان کو نہ ملا ہو۔ وہ اٹھی اور کھڑکی کی طرف آئی تاکہ دیکھ سکے کہ ابھی امان آیا کہ نہیں۔ گیراج میں دو گارڈز  آپس میں کھڑے باتیں کررہے تھے ان کے علاوہ گیراج خالی تھا۔ اس نے دونوں بیڈ کی سائیڈ ٹیبل چیک کی۔ وہاں بھی نہ ملا تو چاروں اور نظریں دوڑانے لگی۔
"اس کے علاوہ وہ کہاں چھپا سکتے ہیں؟"۔ وہ پریشانی میں خود سے پوچھنے لگی۔ وہ وارڈروب کی جانب بڑھی اور امان کی طرف کا پٹ کھولا۔ اس کے کپڑے ترتیب سے سجے تھے۔ وہ ڈھونڈنے میں اتنی پاگل ہوچکی تھی کہ وہ اس کے کپڑے بگاڑ کر ایک سائیڈ پر رکھ کر دیکھ رہی تھی۔ بائیں طرف کپڑوں کے نیچے سے اسے اپنا موبائل ملا۔۔۔ گویا امید مل گئی۔۔ موبائل پاور آف تھا۔  اس نے کھول کر پاسورڈ ڈالا۔ ابھی وہ کچھ اور کرتی کہ گاڑی کا ہارن بجا۔ افراتفری اور ہڑبڑاہٹ میں اس کے ہاتھ سے موبائل چھوٹتے چھوٹتے بچا۔ پھولی سانسوں سے اب وہ سوچنے لگی کہ کیا کرے۔ موبائل کو جلدی سے اسی جگہ پر رکھا، مگر کپڑے بےترتیبی سے رکھے تھے۔ دروازہ دکھیل کر وارڈروب بند کیا اور بھاگ کر بیڈ پر لیٹ گئی۔ آنکھیں بند کرلیں، مگر ہائے ری قسمت کوئی کام پورے سو فیصد ٹھیک نہیں ہوتا اور شانزہ سے صرف پچاس فیصد کام ٹھیک ہوا تھا۔ وہ وارڈ روب کی لائٹ بند کرنا بھول گئی تھی اور جلدی جلدی میں یہ بھول گئی تھی کہ دروازہ جو بند کر گئی تھی وہ بند نہیں ہوا تھا ہلکا سا کھلا رہ گیا تھا۔ بستر پر آنکھیں بند کئے وہ سوتی بن گئی تھی۔ وہ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اور شانزہ کی بند آنکھیں بھی خوف سے کپکپارہی تھیں۔
۔۔۔★★۔۔۔
وہ اندر آیا تو بیڈ پر شانزہ کو سوتے دیکھ کر مسکرادیا۔ ایک تھکن تھی جو اس کو دیکھ کر اتری تھی۔ سوٹ صوفے پر رکھ کر وہ خود بھی صوفے پر ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر جما کر بیٹھ گیا۔ ایک ہاتھ سے ٹائی ڈھیلی کی اور دونوں صوفے کے گرد پھیلا کر اسے تکنے لگا۔ صبح آفس جاتے وقت بھی وہ سو رہی تھی اور اب جب آیا تھا تب بھی سورہی تھی۔ اس کا دل چاہا کہ اسے اٹھا دے، مگر دل کو تپھک دیا۔ ڈھیر سارا کام کرکے وہ گھر اس کے لئے ہی آیا تھا اور وہ سورہی تھی۔ آج تھکا دینے والا دن گزرا تھا۔ وہ آج تاخیر سے آتا، مگر وہ اس سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔ کام میں دل بھی نہیں رہا تھا تو کام بھی چھوڑ آیا تھا۔ گہری سانس بھرتے اٹھا اور وارڈ روب کی جانب بڑھا۔ شانزہ نے ہلکی آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ وارڈ روب کی جلتی بتی اور اپنا کھلا پٹ دیکھ کر ہکا بکا ہوا کھڑا تھا۔ وہ سہم گئی۔ ایک ٹی شرٹ تھی جو وارڈ روب کھولتے اس کے قدموں میں گری تھی۔ وارڈ روب کی یہ حالت دیکھ کر اس نے جھٹکے سے پلٹ کر اسے دیکھا۔ شانزہ نے جلدی سے آنکھیں بند کیں، مگر وہ اسکی پلکوں کی حرکت دیکھ چکا۔ وہ جان گیا تھا کہ وہ سو نہیں رہی بلکہ اٹھی ہوئی ہے، مگر وہ امان شاہ تھا! ہمیشہ سے ایک خاموش کھلاڑی رہا تھا۔۔۔ شانزہ کا دل بےاختیار زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ اس کی جانب پلٹا نہیں بلکہ ادھ کھلا دروازہ کھینچ کر پورا کھول دیا۔ وہ جتنے کپڑے شانزہ نے ہڑبڑی میں ٹھونسے تھے وہ باہر امان قدموں میں آگرے تھے۔ وہ اب بھی اطمینان سے کام کررہا تھا۔ کوئی تو چیز تھی جسے ڈھونڈنے کے لئے وہ یوں وارڈ روب کا حال بگاڑ گئی۔۔۔ ایک جان لیوا مسکراہٹ تھی اس کے چہرے پر عیاں ہوئی تھی۔ اس نے گردن موڑ کر سوتی شانزہ کو دیکھا۔ وہ اب بھی سوتی بنی تھی۔ اسے اس سب کی امید کم از کم شانزہ سے نہیں تھی۔۔۔ وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کچھ یاد آنے پر زور سے ہنسا۔ وہ یہ کیوں نہیں کرسکتی آخر بیوی بھی تو امان شاہ کی تھی۔ خاموش ماحول میں اچانک اس کا قہقہ گونجا تو شانزہ ہڑبڑا گئی، مگر جلد ہی اس نے خود پر قابو پالیا۔ امان نے اس کی ہڑبڑاہٹ صاف محسوس کی تھی، مگر یوں ظاہر کیا جیسے کچھ محسوس ہی نہ کیا ہو۔ وارڈروب کی درازیں کھول کر دیکھیں تو ایسا کچھ نہ ملا جس کے لئے وہ یہ سب کچھ کرے۔ وہ ایک ایک کرکے اب اپنے تمام کپڑے کونے میں زمین پر پھینک رہا تھا۔ اس نے اپنی سفید ٹی شرٹ ہٹائی تو نیچے کوئی چمکتی چیز دکھی۔۔۔ اس نے سائیڈ پر شرٹ پھینکی اور اسے آرام سے اٹھایا۔۔۔ وہ یک دم مسکرایا۔ وہ اپنے موبائل کو ڈھونڈ رہی تھی جسے امان نے پہلے دن ہی لے کر رکھ لیا تھا۔ اس موبائل سے ایک ہی فائدہ اٹھا سکتی تھی۔ فون پر بات۔۔ کیونکہ فون کرکے اسے کوئی لینے نہیں آنے والا تھا۔ ان سب نے اسے دھتکاردیا تھا وہ یہ جان چکا تھا۔ وہ جبھی باہر سڑک پر اجڑی حالت میں کھڑی تھی۔ وہ اس موبائل سے صرف ان سے بات کرسکتی تھی جو اس پر یقین کرتے تھے۔۔۔ جیسے فاطمہ یا اسکی ماں۔ اس پھر سے پلٹ کر سوتی بنی شانزہ کو دیکھا اور پھر ہاتھ میں پکڑے موبائل کو۔۔۔ وہ اس وقت تک وہیں کھڑا رہا جب تک اس نے اس موبائل میں موجود تمام نمبر نہ اڑادیئے، مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ نمبر اڑانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ کوئی اس کے نمبر پر خود سے بھی کال کرسکتا تھا۔ اس سوال کے لئے اس کے پاس جواب تھا۔ اس نے نمبر اڑائے اور چلتا ہوا اس کے پاس آیا۔ موبائل کی اسکرین آف کرکے اس کے برابر میں پھینکا۔
"کھول لو آنکھیں اور رکھ لو موبائل! جانتا ہوں کہ تم سو نہیں رہی۔۔۔" اس نے کہہ کر اس کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایا۔ شانزہ نے پھر بھی آنکھیں نہ کھولیں۔ سانسیں بے ربط چل رہی تھیں اور دل دھڑک کر گویا حلق میں آرہا تھا۔ حال ایسا کہ کاٹو تو گویا بدن میں لہو کا قطرہ بھی نہیں۔ ایک نظر اس پر ڈال کر وہ وارڈروب سے کپڑے نکالتا باتھروم کی طرف بڑھ گیا۔ شانزہ نے پھولی سانسوں کے درمیاں آنکھیں کھولیں۔ وہ اس بار بھی پکڑی گئی تھی۔ وہ شخص کیوں اسے جیتنے نہیں دیتا۔ وہ جلدی اٹھ کر بیٹھی اور موبائل تلاشنے لگی۔ امان اسے خود موبائل دے گیا تھا یہ ناقابلِ یقین بات تھی۔ وہ اس کے آنے سے پہلے موبائل کھول کر دیکھنے لگی۔ کال کی نیت سے کانٹیکٹ باکس میں گئی تو ایک نمبر نظر نہ آیا۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بار بار چیک کیا، مگر وہ نو لسٹ شو کررہا تھا۔ باتھروم کا دروازہ کھلا اور وہ  تولیہ گردن پر لٹکائے  باہر آیا۔ شانزہ کی نظریں جھکی ہی رہیں۔ شانزہ اس کی موجودگی سے لاعلم تھی۔۔۔ موبائل میں اتنی مصروف تھی کہ مقابل کھڑے شخص کو اس کو تکتے ہوئے بھی نہ دیکھ پائی۔ امان نے اسے کچھ لمحے دیکھ کر تولیہ گیلے بالوں پر رگڑا۔
"میں لگادیتا ہوں"۔
وہ اس کی آواز پر چونک اٹھی اور اب سہم کر اسے دیکھنے لگی۔
"لگا دوں؟۔" امان نے جواب نہ پاکر پھر اس سے پوچھا۔
"کک۔کیا؟" وہ بس اتنا ہی کہہ پائی تھی۔
"کیا؟ ڈورا دی ایکسپلورا اور کیا"۔ وہ آنکھوں میں حیرانی میں لائے اس کے "کیا" پر یوں حیران ہوا تھا جیسے شانزہ کو پتا ہی نہ ہو۔۔۔ شانزہ کے تو زبان میں تالے پڑگئے۔
"کیا ہوا کارٹون نہیں دیکھتی؟ ہاں میں نہیں دیکھتا، مگر زمان دیکھتا ہے۔۔۔ تو بتاؤ کون سا کارٹون ڈاؤن لوڈ کردوں موبائل میں؟ کیونکہ اب یہ کارٹون دیکھنے کے ہی قابل ہے زوجہ"۔ وہ مسکراتا ہوا بولا۔ شانزہ کو اپنی توہین محسوس ہوئی۔ اسے ایسا لگا جیسے امان کا یہ لہجہ تمسخرانہ ہے۔
"نن۔نمبر؟"۔
"ہاں تو وہ میں نے ریموو کردیئے جبھی کہہ رہا ہوں۔۔ کل نئی سم آجائے گی تمھاری"۔ وہ بال بناتا ہوا بولا۔
ظاہر ہے آئینہ تو وہ توڑ چکا تھا اس لئے اندازے سے بال بنا کر برش سائیڈ پر رکھ دیا۔ شانزہ کے الفاظ کہیں کھو گئے۔
آج وہ غصہ بھی نہ ہوا تھا۔ اس کی ایک وجہ تھی۔۔۔ وہ یہ کہ زمان آرہا تھا۔ خیر لیکن وہ جانتا تھا کہ اس کو کتنا بڑا دھچکا لگنے والا ہے، مگر کیا کرے کبھی نہ کبھی تو لگنا ہی تھا۔۔
۔۔۔★★۔۔۔
دروازہ چوکیدار نے خوش آمدید کہہ کر دروازہ کھولا تھا۔ ایک نظر اوپری منزل کی جانب دیکھتا وہ سنجیدگی سے آگے بڑھا۔ وہاں موجودہ گارڈز نے اسے دیکھا تھا مگر کچھ کہا نہیں۔ چہرے کے تاثرات بتا ریے تھے کہ اب بہت بڑا تماشہ ہونے کو ہے! سوٹ کیس وہیں پھینکتا وہ تیزی اندر کی جانب بڑھا۔
"امان؟"۔ وہ لاؤنج میں کھڑا ہو کر بلند آواز میں بلانے لگا۔ امان سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا۔
"تم آگئے"۔ لہجے میں خوشی بکھیرے وہ اس کے گلے لگنے چاہا، مگر زمان پیچھے ہوگیا اور سپاٹ چہرے سے اسے دیکھنے لگا۔ زمان کی اس حرکت پر امان کا ٹھٹھکا۔ وہ زمان سے گلے ملنا چاہتا مگر۔۔۔
" کہاں ہے وہ؟" سخت لہجے میں پوچھا گیا۔۔۔ اس سے کبھی کسی نے اتنی سختی سے بات بھی نہیں کی۔۔۔ کی تو زمان نے بھی نہیں کبھی مگر یوں۔۔۔
"کون؟"۔
"مسز امان"۔ وہ دانت پیس کر بولا۔
"کمرے میں ہے اپنے"۔ وہ نظریں پھیر کر بولا۔ اوہ تو اسے پہلے سے خبر ہے۔
"گھر بھجواؤ اس کو اس کے"۔ وہ چیخا۔
"دماغ خراب ہوگیا ہے؟"۔ وہ بھی جواباً چیخ پڑا۔
"ہاں میرا دماغ خراب ہوگیا ہے اور ابھی سے نہیں بہت پہلے سے ہے اور اسی دماغ کی خرابی کی وجہ ہے جو تمھارے دھوکے میں آکر لاہور چلا گیا۔ یقین کیا تم پر اور تم نے مجھے ہی دھوکا دیا؟ مجھ سے جھوٹ بولا۔ یقین توڑ دیا ہے تم نے میرا۔۔۔ بغیر آواز کئے میں نے تمھاری ہر بات مانی ہے، ہر حکم مانا ہے کیونکہ مجھے تم پر یقین تھا۔۔۔ تم دنیا بھر کو دھوکے میں رکھ سکتے ہو پر مجھے نہیں یہ جملا روز خود سے دہرایا کرتا تھا امان میں۔ میں تو زمان تھا۔۔۔ تمہارا بھائی۔ تم جانتے تھے کہ تم جتنا مجھے دھوکے میں رکھو گے میں بغیر آواز نکالے تمہارے دیئے گئے ہر دھوکے میں ہی رہوں گا، مگر وہ تمہاری محبت تھی نا؟ یہ کون سی محبت ہے جس میں تم نے زبردستی نکاح کرڈالا؟"۔ وہ پوری قوت سے چیخ رہا تھا ۔ کمرے میں بیٹھی شانزہ سب سن رہی تھی۔ وہ کمرے سے نکل کر سیڑھیوں کی طرف ان کی نظروں سے چھپ کھڑی ہوگئی تھی۔
"کیوں کیا؟ اس کا منگیتر بھی تھا جو اسے شاید تم سے ذیادہ چاہتا تھا اور اب بھی چاہتا ہوگا۔ تم۔۔۔ تم یہ کیسے کرسکتے ہو؟ میں نے منع کیا تھا۔ مجھے یہی خدشہ لاحق تھا اس لئے نہیں جانا چاہتا تھا کہیں تم سے دور۔۔ مگر کیا کروں میں! میں ہی بےوقوف ہوں۔ میں احمق ہوں کہ تمہاری کسی بات کو ٹالنے کا دل نہیں کرتا اور دیکھو میری ہی وجہ سے یہ سب ہوا۔۔۔میری ہی غیر موجودگی میں لائے تم اسے۔ مجھے جانا ہی نہیں چاہئے تھا۔ اسے آذاد کردو امان۔ میں سو فیصد جانتا ہوں کہ وہ تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہوگی۔ شانزہ نیچے آؤ"۔ وہ اب شانزہ کو آوازیں دینے لگا۔ امان فق ہوا کھڑا تھا۔۔۔
آج زندگی میں پہلی بار زمان اس پر چلایا تھا اور وہ یوں خاموش رہا تھا۔ یہ کونسا لمحہ تھا جس میں امان کے منہ سے لفظ ادا نہیں ہورہے تھے؟
شانزہ اپنا نام سنتے ہوئے ڈری سہمی نیچے آئی۔
"جج۔جی۔۔"
"رہنا چاہتی ہو یا نہیں؟"۔ وہ سنجیدگی سے اس سے پوچھنے لگا۔ اس نے امان کو دیکھا جو ساکت کھڑا زمان کو دیکھا رہا تھا۔ امان کو اپنی طرف متوجہ نہ پاکر اس نے جھٹ سے نفی میں سر ہلایا۔
"نہیں رہنا چاہتی وہ۔۔۔ چھوڑ دو اسے خدارا"۔ وہ ہاتھ جوڑ کر چیخا، مگر وہ اب بھی یونہی ساکت کھڑا تھا۔
"منہاج شاہ کا نام بھی لینے سے منع کرتے ہو نا؟ میں نے منہاج کی ڈائری پڑھی ہے۔۔۔ مکمل نہیں ہوئی ابھی مگر جتنی بھی اب تک پڑھ چکا ہوں وہ دل میں بھی اتار چکا ہوں۔۔۔ اس شخص کو جان گیا ہوں۔ ارے میری چھوڑو تم نے اس لڑکی کی زندگی برباد کردی جو تمہاری محبت یے۔۔۔  میں اس کی زندگی جان گیا، مگر تم صرف اتنا جانتے ہو کہ وہ ایک اذیت پسند، شدت پسند اور برا آدمی تھا۔۔۔ میرے نظرہے کو ڈالو بھاڑ میں۔۔ میں تمہاری معلومات تک کی بات کرتا ہوں۔ تم یہی جانتے ہو نا کہ منہاج نے ہمارا ماضی برباد کردیا؟ منہاج نے ہمیں جیتے جی ماردیا ؟ منہاج نے ہماری ماں کو اذیت میں رکھا۔۔؟ تو اگر ایسا ہے تو ایک بات یاد رکھنا تم بھی اپنے اندر ایک منہاج ہو اور جو منہاج نے کیا اپنی بیوی بچوں کے ساتھ وہی ماضی مجھے مستقبل میں تمہارا نظر آرہا ہے۔  ایک شخص جسے کوئی نہ سمجھ پایا۔۔۔ فرق اتنا ہے تم دونوں میں کہ اسے لوگ اندر تک جاننے کی خواہش رکھتے تھے۔ لوگ منہاج کو پڑھنا چاہتے تھے اور تمہیں دیکھنا بھی نہیں چاہتے! تمہارے مطابق جو منہاج شاہ ہے اس لحاظ سے تم منہاج شاہ کا عکس نہیں ہو۔ تم منہاج ہی ہو! اور آج میں اپنے باپ کو تو دیکھنا چاہتا ہوں، مگر تمہیں نہیں امان۔۔۔ تم نے میرا بھروسہ میرا اعتماد سب توڑ دیا۔ مجھے دھوکا دیا۔ گویا مجھے کھو دیا"۔ وہ اس قدر دل برداشتہ تھا کہ آنکھیں بھی گیلی ہوچکی تھیں اور آواز بھاری۔۔۔ بس اپنی بھڑاس اور غصے پر قابو نہ پاسکا۔ وہ پلٹ گیا کبھی نہ واپس آنے کے لئے۔ ابھی لاؤنج پار ہی کررہا تھا کہ دھپ کی آواز پر ساکت ہوا۔ دل میں خدشہ لیئے وہ مڑا تھا۔  بظاہر مضبوط مگر بکھرا ہوا شخص زمین بوس ہوگیا تھا۔ برابر کھڑی شانزہ کی چیخیں بلند ہوئی تھیں۔
۔۔۔★★۔۔۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now