قسط ۲۱

3.1K 182 35
                                    

گھر داخل ساتھ ہی اس نے سلام کیا تھا۔
"وعلیکم سلام! آئینہ لگادیا ہے میں نے"۔ شاہ نواز نے چھوٹتے ہی خبر دی تھی۔ وہ بے ساختہ ہنس دی۔
"جزاک اللہ لالا"۔ اس کے یوں کہنے پر شاہ نواز کے لبوں پر مسکراہٹ رینگی۔ وہ مسکراتے ہوئے اسے ہاتھ ہلاتے کمرے میں آگئی۔ شاپنگ بیگز بستر پر رکھ دیئے۔ مغرب کی آذانیں ہوچکی تھیں۔ وہ بستر پر گرنے کے انداز میں لیٹی اور آج کے دن کو سوچنے لگی۔ کہاں سے آئی اس میں اتنی ہمت؟ نہیں یہ سوال غلط ہے! بلکہ سوال تو یہ ہونا چاہئے کہ کہاں سے "ملی" اسے اتنی ہمت! اپنے بھائی سے! زمان سے!۔ وہ ادھر اس کے پاس ہی موجود تھا۔ اس نے اتنی ہمت کرکے عدیل پر ہاتھ اٹھایا، مگر ڈر نہیں لگا کیونکہ وہ جانتی تھی اس کا بھائی اسے کچھ ہونے نہیں دے گا۔ وقت ذیادہ نہیں گزارا لیکن ایک یقین سا تھا اس پر۔ اسے اچھا لگا اپنے بھائی کا عدیل کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوجانا اور دھاڑ کے پوچھنا کہ "میری بہن کو ہاتھ کیسے لگایا؟"  اسے یہ بھی اچھا لگا تھا کہ زمان اس لئے نہیں چیخا تھا کہ وہ اس کی بھائی کی بیوی تھی بلکہ اس لئے چیخا تھا کہ وہ اسے دل سے بہن سمجھتا تھا۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ "میری بھابھی پر ہاتھ کیسے اٹھایا"۔ اس نے کہا "میری بہن پر ہاتھ کیسے اٹھایا"۔ شانزہ نے اس وقت اسے محبت بھرے جذبات سے دیکھا تھا جو ایک بھائی کے لئے بہن کے دل میں ہوتے ہیں! وہ اس کا خون نہیں تھا، مگر اس کے لئے لڑرہا تھا۔ وہ اسے کچھ ہفتوں پہلے تک جانتی تک نہیں تھی اور نہ وہ اسے، مگر وہ لڑرہا تھا اور ایک سامنے کھڑا شخص تھا جو بچپن سے اس کے ساتھ تھا! اس نے ایک سیکنڈ نہیں لگایا تھا ہاتھ اس پر اٹھانے میں! اتنے سالوں کا اعتبار عدیل واقعی توڑ بھی چکا تھا اور کھو بھی چکا تھا۔ زمان چاہتا تو اس پر شک کرسکتا تھا کہ ایسا اتفاق کیسے ہوسکتا ہے کہ عدیل اور شانزہ ایک ساتھ، ایک وقت پر اور ایک مال کیسے مل گئے؟۔ کبھی اپنے بھی بیگانے ہوجاتے ہیں اور کبھی غیر بھی اپنے ہوجاتے ہیں۔ اسے پہلی بار رونا آیا تھا۔ خوشی سے آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔ وہ اس کے لئے اس دم چٹان بن کر کھڑا تھا۔ وہ اپنی قسمت پر ناز کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسے نماز بھی پڑھنی تھی۔ وہ وضو کرکے نماز کے لئے کھڑی ہوگئی۔
۔۔۔★★۔۔۔
"ادھر آؤ فاطمہ! کیا بدتمیزی کی ہے تم نے ناصر بھائی سے؟ یہ تربیت کی ہے میں نے تمہاری؟"۔ فاطمہ نے قریب آکر چائے کی دو پیالیاں رکھیں۔

"ماما میں نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا"۔ اس نے چائے میں چینی ڈالی اور صبور کی جانب بڑھائی۔
"ناصر صاحب نے بتایا کہ تم نے کیا کہا تھا اور کتنی بدتمیزی کی تھی!"۔ انہوں نے سختی سے کہہ کر اس کے ہاتھ سے چائے کا کپ تھاما۔
"صرف کہا تھا! خیر جو بھی تھا غلط کیا میں نے! میں معافی مانگ لوں گی ان سے۔ میں وعدہ کرتی ہوں!" فاطمہ نے چائے کا کپ لبوں سے لگایا. صبور نے اثبات میں سرہلایا۔
"کوئی بات نہیں فاطمہ! تم معافی مانگ لینا۔ وہ تمہیں معاف کردیں گے"۔ رمشا نے کمرے داخل ہوتے ساتھ تمام گفتگو سن لی تھی۔ فاطمہ نے نخوت سے منہ پھیرا۔
"آؤ رمشا بیٹھو! چائے پیو گی؟"۔ انہوں رمشا کو اپنے قریب بٹھایا۔
"نہیں میں بس اس چائے کے کپ میں سے ہی تھوڑی پی لیتی ہوں"۔ اس نے ٹرے میں رکھا کپ اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔
"یہ میری چائے ہے"۔ فاطمہ نے کپ فوراً سے تھام لیا۔رمشا نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
"اور میں کسی کا جھوٹا نہیں پیتی"۔ فاطمہ نے کہہ کر نگاہیں پھیرلیں۔ صبور کو فاطمہ پر بےاختیار غصہ آیا۔
"رمشا تم میرے کپ سے پی لو"۔ انہوں نے اس کی شرمندگی مٹانی چاہی۔
"نہیں تائی! میں ٹھیک ہوں اور ویسے بھی چائے پی کر ہی آئی ہوں"۔ زبردستی مسکرا کر اس نے صبور کو دیکھا۔ فاطمہ نے کندھے اچکائے۔
"میں سوچ رہی ہوں کہ عدیل کے لئے کوئی لڑکی ڈھونڈنا شروع کروں" انہوں نے بات کا آغاز کیا۔ رمشا کی باچھیں کھل گئیں۔
"ہیں چچی؟"۔ وہ کھل کر مسکرائی۔
"ہاں! لیکن پھر میں نے سوچا کہ جب لڑکی گھر میں موجود ہے تو باہر کیوں ڈھونڈا جائے؟"۔ صبور نے اس کی ٹھوڑی پکڑ کر پیار کیا۔ رمشا کو لگا اس کی خواہش اور خواب پورے ہونے کا وقت آگیا ہے۔ اس نے شرم سے نگاہیں جھکائیں۔
"کس نے کہا میں اس سے شادی کروں گا؟؟۔ میری زندگی میں کوئی بھی لڑکی آسکتی یے سوائے رمشا عرفان کے!"۔ عدیل جو ابھی ابھی آیا تھا ان کی گفتگو سن چکا تھا۔ ہیلمٹ زور سے زمین پر پٹخ کر دانت پیس کر جواب دیا۔ صبور ششدر رہ گئیں اور رمشا ہونقوں کی طرح انہیں دیکھنے لگی۔
"عد۔دیل"۔ اس نے کانپتے لبوں سے اس کا نام لیا۔
"کیا عدیل؟ میں نے تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم مجھے پسند نہیں ہو!۔ اس لئے یہ فضول خواب دیکھنا بند کرو اور جاؤ یہاں سے! دفع ہوجاؤ!۔ تمہیں کیا لگتا ہے تم سے شادی کروں گا؟۔ شانزہ نے جو کیا میرا ساتھ اس کے بعد تم سے شادی کروں گا؟ نہ اس سے پہلے کرتا اور نہ اس کے بعد! بےوقوف نہیں ہوں میں!"۔ زہر بھری نگاہوں سے کہتے ہوئے ہوئے کمرے میں چلا گیا۔ پیچھے کھڑی رمشا صوفے ہر بیٹھتی چلی گئی۔ یہ تو اس کے کسی پلین میں نہیں تھا؟ وہ آج تک جو بھی پلین کرتی رہی ان میں کامیابی ہی اس کا مقدر بنی مگر یہ کیا تھا؟ اس کے حواس جھنجھنا کر رہ گئے۔
۔۔۔★★۔۔۔
گاڑی کا ہارن بجنے پر وہ خوشی سے چلاتی ہوئی کھڑکی کی طرف آئی جہاں سے گیراج نظر آتا تھا۔ امان اور زمان ساتھ گاڑی سے نکلے تھے دونوں کوٹ میں ملبوس بہت حد تک ایک جیسے لگ رہے تھے۔ اسے امان کو پہچاننے میں سیکنڈز لگے۔ اب اتنی دور سے اسے پہچاننے میں ویسے ہی مشکل ہورہی تھی۔ دونوں ہی بلیک پینٹ کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ زمان نے اسے کھڑکی سے جھاکتا ہوا دیکھا تو مسکرا کر ہاتھ ہلادیا۔ شانزہ نے بھی جواباً مسکرا کر ہاتھ ہلایا۔ زمان ہنستا ہوا اندر چلاگیا جب کہ امان نے گاڑی میں سے فائلز نکال کر گاڑی بند کی اور اوپر شانزہ کو دیکھنے لگا۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ وہ میٹنگ سے بہت تھک کر آیا تھا اور اب شانزہ کی مسکراہٹ سے اس کی ساری تھکن دور ہوگئی تھی۔ شانزہ نے اسے اوپر آنے کا اشارہ کیا۔ امان نے اثبات میں سرہلایا تو اس نے اشارے سے جلدی آنے کو کہا۔ امان نے حیرانی سے "کیوں کیا ہوا؟" کا اشارہ دیا تو شانزہ نے ایک تیز گھوری دے کر اسے جلدی اوپر آنے کو کہا۔ امان نے مسکراہٹ اچھالی اور فائل پکڑ کر اندر آنے لگا۔ چلتے چلتے اوپر پھر سے دیکھا جو پھر سے جلدی آنے کا اشارہ دے رہی تھی۔ امان کے چلنے میں تیزی آئی اور تقریباً بھاگتے ہوئے اوپر پہنچا۔
"اسلام علیکم! جی زوجہ؟" پھولی سانسوں سے فائلز سنگھار پر رکھتا ہوا وہ اس کے قریب آیا۔
"وعلیکم سلام! مجھے آپ کو کچھ دکھانا ہے۔ میں آپ کے لئے کچھ لائی ہوں مال سے!"۔ وہ چہک کر بولی۔
"میرے لئے؟؟"۔ وہ حیران ہوا۔
"جی"۔ وہ ہاں میں سرہلاتی ہوئی بولی۔
"مجھے بہت خوشی ہوئی"۔ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔
"ہاتھ آگے کریں"۔ شانزہ نے اپنے دونوں ہاتھ پیچھے کرکے اس میں کچھ چھپایا ہوا تھا۔ امان نے مسکرا کر ہاتھ آگے کیا۔ شانزہ نے اس کے ہاتھ میں ایک بہت خوبصورت پیک ہوئی واچ رکھی۔
"واؤ۔۔زبردست۔ یہ کتنی خوبصورت ہے!"۔ وہ واچ کو دیکھنے لگا۔ وہ جتنی لگن سے اس واچ کو دیکھ رہا تھا وہ واچ اتنی بھی خوبصورت نہیں تھی جسے دیکھ کر وہ آبدیدہ ہوجائے۔
"آپ رو کیوں رہے ہیں؟"۔ وہ اسں کی نم آنکھوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ وہ خوش تھا اس لئے نہیں کہ واچ بہت خوبصورت تھی۔ بلکہ اس لئے کہ شانزہ نے اسے کچھ دیا تھا۔ یہ بھی محبت کی نشانی ہی تھی۔ وہ اس کے قریب آیا اور اس کا ہاتھ تھام کر پہلے لبوں سے لگایا اور پھر آنکھوں پر۔ کتنی ہی دیر وہ اس کے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں سے لگائے رکھا رہا۔
"امان آپ ٹھیک ہے نا؟"۔ اس کے بالوں کو ہاتھ سے بگاڑ کر وہ مسکرا کر پوچھنے لگی۔
"جی"۔ اس کے ہاتھ کو اپنی آنکھوں سے دور کرکے وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
"میں خوش ہوں امان"۔ نرمی سے دیکھتے ہوئے اسے یقین دلایا۔
"میں بہت ذیادہ"۔ امان نے بھیگے لہجے اور نم آنکھوں کے ساتھ بولا۔
"مگر مجھ سے ذیادہ نہیں"۔ وہ اس کے ہاتھ پر نرمی سے اپنا ہاتھ رکھ کر بولی۔
"پتا نہیں کیوں شانزہ مجھے یقین نہیں آرہا۔ مجھے خود کی قسمت پر رشک محسوس ہورہا ہے"۔ اس کا ہاتھ پھر سے چوم کر وہ عقیدت سے بول رہا تھا۔
"تو اب کرلیں"۔
"وہی کرنے کی کوشش کررہا ہوں"۔ وہ بھی مسکرادیا۔
"آپ چینج کرلیں، میں کھانا لگواتی ہوں"۔ بہت محبت سے کہتے ہوئے اس نے بیڈ سے اس کے کپڑے اٹھا کر دیئے۔
"جی جیسے آپ کا حکم!"۔
"اور ہاں یہ واچ بھی پہن کر آئے گا امان"۔ وہ اپنی خواہش ظاہر کررہی تھی یا حکم دے رہی تھی؟۔ امان ہنس دیا۔
"جیسا آپ کا کہیں"۔ کہتا ساتھ وہ مسکراتا ہوا فریش ہونے چلاگیا اور وہ نیچے۔
۔۔۔★★۔۔۔
اس نے کمرے کا حلیہ بگاڑ دیا تھا۔ تکیہ زمین پر غصے سے پھینکا تھا اور بستر کی چادر کھینچ ڈالی تھی۔ وہ چھوڑے گا تو نہیں! وہ کسی کو نہیں چھوڑے گا۔ وہ جان سے ماردے گا امان کو! قتل کردے گا۔۔۔ اسے اپنی الماری میں رکھی پستول یاد آئی اور دل میں سکون کی لہر اتری۔ مسکراہٹ لبوں پر عیاں ہوئی تھی۔ انتقام کی مسکراہٹ!
۔۔۔★★۔۔۔
شانزہ کچن کے کام سے فارغ ہوکر اوپر آئی تو امان دونوں ہاتھ سنگھار میز پر ٹکائے تھوڑا سا جھک کر آئینے کو دیکھ رہا تھا۔ کمرے میں اندھیرہ تھا۔ وہ چلتی ہوئی اس کے قریب آئی اور اس کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا۔ امان نے آئینے میں شانزہ کا عکس دیکھا۔
"شانزہ"۔ ہونٹ کپکپائے۔ شانزہ اس کی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھی۔ 
"امان"۔ اس نے اسکا نام پکارا۔
"شانزہ یہ آئینہ میں ت۔تتوڑ دوں؟"۔ لہجہ خوف سے زرد پڑرہا تھا۔ بظاہر اندھیرے میں اسے کچھ ذیادہ نظر نہیں آرہا تھا۔
"کیوں امان؟"۔ وہ آئینہ میں ہی اسے  دیکھ رہی تھی۔
"یہ آئینہ۔۔۔یی۔یہ آئینہ شانزہ"۔ وہ آئینے سے خوف کھاتا ہوا دور ہوا۔ شانزہ نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے۔
"کچھ نہیں ہوا امان! میں پاس ہوں۔ میں یہیں ہوں"۔
"تم میرے پاس ہونا؟"۔ وہ بچوں کی طرح اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر بولا جیسے کبھی نہ چھوڑنا چاہتا ہو۔
"ہاں میں پاس ہوں! اور جب تک میں ہوں کچھ نہیں ہونے دونگی آپ کو" وہ اسے یقین دلارہی تھی۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now