قسط ۲۰

2.8K 199 33
                                    

"کیا آرڈر کروں تمہارے لئے؟"۔ مسکراتا ہوا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا، مگر وہ سوچوں میں غرق تھی۔
"مسز ادھر بھی دیکھ لیں! آپ کا ہی شوہر بیٹھا ہے سامنے"۔ اس کے یوں شوخ ہونے پر وہ چونکی۔
"جی۔۔ وہ۔میں۔۔۔نہیں بس وہ۔۔۔" الفاظ ترتیب سے ادا نہیں ہوئے۔
"ہاں ہاں زوجہ۔۔۔ اب جلدی سے آرڈر بتائیں کیا کروں آپ کے لئے۔۔۔ ساڑھے سات ہونے والے ہیں!" ۔
"آپ کرلیں اپنے لئے آرڈر! مجھے بھوک نہیں"۔ وہ اردگرد نظریں دوڑاتی ہوئی بولی۔ وہ ٹھٹھک گیا۔ کچھ لمحے کی خاموشی پھیلی۔ بھلا ایسا بھی کوئی کہتا ہے۔ اس کی آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہوگئیں۔
"میں تمہارے لئے جلدی آیا تاکہ ساتھ ڈنر کریں"۔ چہرے پر دکھ واضح تھا۔
"جی مجھے بھوک نہیں لیکن"۔ گود میں رکھے ہاتھوں پر نگاہیں مرکوز تھیں۔ اس کا دل نہیں تھا آنے کا! امان کے اندر چھناکے سے کچھ ٹوٹا۔ کیا وہ اس کا دل رکھنے کے لئے بھی نہیں کرسکتی تھی؟۔ اوہ ہاں وہ بھول گیا تھا۔ یہ رشتہ تو زبردستی باندھا گیا تھا۔ اتنے سالوں بعد وہ پھر سے ہرٹ ہوا تھا۔ چوٹ اس بار ذیادہ گہری تھی۔ رنج و دکھ کی کیفیت میں کچھ لمحے یونہی اسے تکتا رہا۔ جیسے یہ سب ایکسیپٹ کررہا ہو۔ یہاں اس کی نہیں چل سکتی تھی۔ اس موقع پر وہ زبردستی کرنے کا خود بھی قائل نہیں تھا۔ اب دل اچاٹ ہوگیا تھا۔ شانزہ اگر اب خود بھی کہتی تو بھی اس کا دل نہیں چاہتا۔ وہ صرف اس کے لئے آیا تھا۔ صرف اس کے لئے! امان نے لب بھینچے اور اٹھ کھڑا ہوا۔ شانزہ نے آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔
"چلو"۔ قریب آکر اس کا ہاتھ نرمی سے اپنے ہاتھوں لیا اور باہر نکل گیا۔ وہ اس کے یوں اٹھ جانے پر حیران تھی اور اب سہم بھی گئی تھی۔ اس کے چھوڑے ہوئے قدموں پر قدم رکھ رہی تھی۔ امان کا دایاں ہاتھ شانزہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا اور بایاں ہاتھ کوٹ کی جیب میں تھا۔ وہ دونوں پارکنگ ایریا میں داخل ہوچکے تھے۔ اکا دکا لوگوں کے سوا یہ حصہ خالی تھا۔ تیز ہوا کی وجہ سے اس کا ڈوپٹہ سر سے کھسک گیا تھا اور زلفیں لہرا رہی تھیں۔ وہ دوسرے ہاتھ سے ڈوپٹہ سر پر ڈالنے کی کوششوں میں لگی تھی. دن ڈھل رہا تھا۔۔۔ آس پاس اندھیرہ پھیل چکا تھا۔ شانزہ کو محسوس ہوا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ وہاں موجود ایک شخص اپنی گاڑی سے ٹیک لگائے اسے سر تا پیر دیکھ رہا تھا۔ اس شخص کی اس حرکت سے امان لاعلم تھا۔ شانزہ نے سہم کر غیر ارادی طور پر امان کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ امان نے گاڑی کے قریب جاکر اس کا ہاتھ چھوڑا۔ اس کے لئے گاڑی کا دروازہ کھولا تو وہ سنبھل کر بیٹھ گئی۔ امان نے دروازہ لاک کیا اور دوسری طرف سے دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پورا رستہ سکوت کا عالم رہا۔ نہ وہ بولی اور نہ امان نے کچھ کہا۔ شانزہ کو لگا اس سے کچھ بہت غلط ہوگیا ہے۔ وہ سنجیدگی اور سپاٹ لہجے میں ڈرائیو کررہا تھا۔ اسے امان سے اب خوف محسوس ہورہا تھا۔ اس کے تیور نارمل نہیں تھے۔ اس سب میں بھی وہ اس کی عزت کرنا نہیں بھولا تھا۔ وہ شوہر تھا۔ اپنی عزت کی عزت کرنا جانتا تھا۔ گھر آنے پر اس نے ہارن دیا۔ چوکیدار نے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ شاہ منزل میں گاڑی داخل کرکے گاڑی پارک کی۔ وہ گاڑی سے اتری نہیں۔ وہ جانتی تھی وہ ہی اس کے لئے دروازہ کھولے گا۔ امان گاڑی سے اتر کر اس کی طرف آیا۔ دروازہ کھول کر اس کے اترنے کا انتظار کرنے لگا۔ اس نے اپنا ڈوپٹہ سنبھالا اور سہارا لے کر اتری۔ امان نے دروازہ بند کرکے اس کا ہاتھ تھاما اور جلدی سے اسے لے کر اندر بڑھا۔ شانزہ کے دل میں خوف پیدا ہوا۔ کیا وہ کمرے لے جاکر اس پر غصہ کرے گا؟ چیخے گا؟ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ اس کے پیچھے کھنچتی ہوئی جارہی تھی۔ ٹیرس پر کھڑے زمان نے امان کے تاثرات بھی دیکھے تھے اور شانزہ کا چہرہ بھی۔ یقیناً یہ دن دونوں کا اچھا نہیں گزرا تھا وہ بھاگتے ہوئے نیچے کی جانب بڑھا۔ کہیں امان شانزہ سے برا رویہ اختیار نہ کرے۔ وہ سیڑھیاں اتر کر لاؤنج میں داخل ہوا۔ سامنے سے امان بھی شانزہ کو تھامے داخل ہوا تھا۔ وہ زمان کی موجودگی سے لاعلم تھا۔ شانزہ کا ہاتھ لاؤنج میں داخل ہوتے ہی چھوڑدیا تھا اور خود تیزی سے سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔ زمان پر ایک نظر ڈال کر وہ اوپر چلاگیا۔ شانزہ اور زمان دونوں ہی حیران کھڑے تھے۔ وہ شانزہ کو کمرے میں لے کر نہیں گیا تھا ورنہ امان اسے اپنی موجوگی میں کمرے سے بھی باہر نہیں نکلنے دیتا تھا۔ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتا تھا۔ رات کے وقت گارڈز اکادکا ہوا کرتے تھے ایسے میں شانزہ چاہے تو گھر سے جاسکتی تھی۔۔۔ یہی وجہ تھی جو وہ اسے اپنی آنکھوں کے سامنے ہی رکھا کرتا تھا اور آج وہ اسے غصہ سے کمرے میں لے کر بھی نہیں گیا۔ شانزہ کو پانچ منٹ پہلے تک اپنی جان بچانا مشکل لگ رہا تھا، اب وہ خود لاؤنج میں ششدر کھڑی تھی۔ زمان نے سیڑھیوں کی طرف امان کو چڑھتے دیکھا جو اب کمرے میں جاچکا تھا۔ شانزہ کی پلکیں کانپیں اور وہ نظریں جھکا گئی۔ زمان نے اس کے تاثرات بھی بخوبی دیکھے تھے۔
"کچھ بہت برا ہوا ہے یقیناً"۔ زمان نے اسے گھورا۔ وہ جھکی ہوئی نظریں اور جھکا گئی۔
"کیا ہوا ہے؟؟"۔ وہ کسی قسم کی رعایت نہیں کرنے والا تھا۔
"زمان بھائی وہ۔۔۔"
"کافی بنا کر گارڈن میں آؤ تم"۔ زمان نے اس کی بات کاٹ کر اپنا حکم جاری کیا اور ایک لمبی گھوری دے کر باہر نکل گیا۔ وہ لبوں کو چباتی کچن کی طرف بڑھ گئی۔
 
۔۔۔★★۔۔۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے دروازہ بند کیا لیکن شانزہ کے لئے لاک نہیں لگایا۔ پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا تھا۔ دل کی تکلیف جان لے رہی تھی۔ رنج کی کیفیت سے کوٹ اتار کر پھینکا اور واچ نکال کر بیڈ پر اچھالی۔ ٹائی ڈھیلی کر کے وہ بیڈ پر گرنے کے انداز میں اوندھا لیٹ گیا۔ ہر چیز سے دل اوچاٹ ہورہا تھا۔ اس نے سختی سے آنکھیں موندلیں۔ تکیہ اٹھا کر اس کے نیچے سر رکھ لیا۔  کتنے ارمان لئے وہ سب کاموں کو پرے رکھ کر گھر آیا تھا۔ اچانک اسے کچھ یاد آیا تو اپنی جیب تلاشنے لگا۔ اس نے لال ڈبی جیب سے نکالی۔ لیٹے لیٹے ہی ہاتھ بڑھا کر لیمپ چلایا اور اسے غور سے دیکھنے لگا۔ لیمپ کی پیلی لائٹ کے سامنے اس نے ڈبی کھول کر اندر موجود چمکتی رنگ دیکھی۔ یہ انگوٹھی وہ اس کے لئے ہی لایا تھا۔ انگوٹھی میں چمکتا ہیرے کا نگ لگا تھا، مگر اب دل اتنا اوچاٹ ہوگیا تھا کہ اسے دیکھنے کا بھی دل نہیں کررہا تھا! اس لئے اس نے انگوٹھی واپس ڈبی میں رکھ دراز میں ڈال دی، لیمپ بند کیا اور کروٹ لے لیا۔ وہ آج کے دن کو پھر سے سوچنا چاہتا تھا۔
۔۔۔★★۔۔۔
"یہ لیں"۔ احترام سے کافی گارڈن میں رکھی ٹیبل پر رکھ دی۔ چھوٹی ٹرے میں دو کافی کے کپ سجے تھے
"بیٹھو" سنجیدگی سے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ سامنے رکھی کرسی پر ٹک گئی۔
بالوں میں ہلکا سا کیچر لگا تھا۔ زلفیں چہرے پر آرہی تھیں۔ اس نے بالوں کو رول کرکے جوڑا بنالیا۔
"اب بتائیں کیا ہوا تھا؟"۔ اس نے کافی اٹھا کر لبوں سے لگاتے ہوئے پوچھا۔
"زمان بھائی وہ۔۔۔ ایسا ہے کہ شاید میری ہی غلطی تھی"۔ وہ پل بھر میں نگاہیں جھکا گئی۔
"اچھا۔۔۔ تو بتاؤ ہوا کیا تھا؟"۔ کافی ٹیبل پر رکھ کر سینے پر ہاتھ باندھے۔
"وہ انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں کیا آرڈر کرنا چاہوں گی! مگر میں نے۔۔۔ میں نے کہا کہ مجھے بھوک نہیں لگی اور اگر وہ اپنے لئے آرڈر کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔۔۔"
"پھر؟"۔
"انہوں نے کہا میں تمہارے لئے آیا تھا تاکہ ساتھ ڈنر کر سکیں۔ میری ہی غلطی تھی! ان کا چہرہ مرجھا گیا تھا۔ وہ دلبرداشتہ ہوگئے تھے"۔
"وہ تم سے محبت کرتا ہے شانزہ! اگر میں اپنی بات نہ کروں تو اس شخص کو کبھی محبت نصیب ہی نہیں ہوئی۔ ہم نے اپنی ماں سے محبت کی، مگر وہ مرگئی۔ ہم نے اپنے باپ سے محبت کی تو باپ نے خودکشی کرلی۔۔۔ کیا یہ سب نارمل ہے؟ دو جانیں گنوا بیٹھے ہم! اسے محبت پر سے ہی یقین اٹھ چکا تھا، لیکن اسے جب سے تم سے محبت ہوئی گویا رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے۔ وہ ہنسنے لگا تھا!۔ میں نے اسے بدلتے دیکھا ہے شانزہ!"۔ وہ دکھ سے بولا۔
"آپ کے ماما بابا کیا؟"۔ اس کی گفتگو سن کر ہی ششدر ہوگئی تھی اور وہ خاموش۔
"ہم چودہ سال کے تھے جب ہماری ماں دم توڑ گئی اور اس کے آٹھ دن بعد بابا نے ان کے غم میں آکر خودکشی کرلی۔ اس وقت سے ہم دونوں ہی تنہا ہیں شانزہ"۔ شانزہ کا ہاتھ بےاختیار دل پر گیا۔
"مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا یے زمان بھائی!"۔
"کیا تم چاہتی ہو یہ داستان میں دہراؤں؟"۔ وہ تکلیف سے آنکھیں میچتا ہوا بولا۔
"میں جاننا چاہتی ہوں"۔ وہ اثبات میں سرہلاتی ہوئی بولی۔ زمان نے بےدلی سے سرجھٹکا۔
"مجھ سے ماضی نہیں دہرایا جاتا بار بار شانزہ! لیکن میں تمہیں سب بتاؤں گا! امان کو جاننے کے لئے تمہارہ یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے!"۔ وہ اس کے سامنے ہر بات رکھتا رہا۔ ہر اذیت اپنی زبان سے سنائی۔ جاننا اور سنانا دونوں الگ الگ کیفیت ہوتی ہیں۔ سنانے کے لئے ظرف بھی چاہئے ہوتا۔ آواز بھیگ جاتی ہے اور گال تر ہوجاتے ہیں۔ پھر دل میں ٹھیس بھی اٹھتی ہے۔ اس نے سب اس کے گوش گزار کردیا۔ شانزہ کے دل میں ہول اٹھ رہا تھا۔ اس نے نظریں پھیر کر شاہ منزل کو دیکھا تھا۔ صبح کے وقت جتنی خوبصورت لگتی تھی رات کے وقت اتنی خوفناک لگ رہی تھی۔ شانزہ کے دل پر ایک بوجھ سا پڑا۔ اس نے واقعی آج اچھا نہیں کیا تھا امان کے ساتھ!
"بابا چلے گئے، مگر ان کے خون کے چھینٹے اپنے نشان چھوڑ گئے۔ ماما بھی چلی گئی! سب ہمیں چھوڑ گئے شانزہ۔ اب ہمارے پاس ہمیشہ کی طرح ہمارا خدا ہے!"۔
"زمان بھائی"۔ وہ ذرا رک بولی۔
"جی"۔
"اس ساری داستان میں آپ کے مطابق قصور کس کا تھا؟ اپنا خیال ظاہر کریں"۔ شانزہ نے آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کیا۔
"شاید دادی کا! مسز سمیع!"۔ وہ کچھ سوچ کر بولا۔
"نہیں زمان بھائی! آپ نے جو کچھ مجھے سنایا ہے اس کے مطابق سب کی غلطی برابر تھی! تالی ایک ہاتھ سے نہیں بچتی! ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ کے دادا کی کوئی غلطی نہ ہو! ایک عورت کو گھر میں بیٹھے بیٹھے کیسے اپنے خوش حال گھر ،شوہر اور بچوں کو چھوڑنے خیال آسکتا ہے؟ کچھ ہوا ہوگا۔ ایسا کچھ جس کا علم منہاج بابا کو بھی نہیں ہوگا۔ انہوں نے ڈائری دس سال کی عمر میں گھر کی پریشانیوں اور ذہنی اذیتوں کے شروع ہونے کے بعد لکھنا شروع کی تھی! ایسا نہیں ہے! وہ کسی وجہ کے تحت گئی ہوں گی، مگر اس سب کے بیچ وہ دس سال کا بچہ آگیا! وہ ذہنی اذیتوں اور تکلیفوں کا شکار ہوگیا۔ وہ خود بھی ذہنی بیمار ہوگیا۔ ماں باپ کی زندگی کا ایک غلط فیصلہ نسلیں بھی خراب کرسکتا یے۔ منہاج بابا پر اپنے ماں باپ کے فیصلے اتنے بھاری پڑگئے کہ وہ سہہ نہیں پائے! اور پتا ہے کیا زمان بھائی؟۔ انہوں نے سمیع صاحب سے طلاق لے کر اپنی الگ دنیا تعمیر کی! یہ وہ جملہ ہے جو مجھے آپ کی بتائی ہوئی کہانی سے پتا چلا، لیکن ہمیں اس میں بھی ایک طرفہ کہانی پتا ہے! بغیر کسی وجہ کے عورت گھر نہیں چھوڑ سکتی۔ اس صورت میں تو بلکل بھی نہیں جب لو میرج ہوئی ہو! ہوسکتا تھا کوئی وجہ ہو جس سے ان کا دل دکھا ہو! جس کا علم منہاج بابا کو نہ ہو!"۔ اس کی بات ہر زمان واقعی سوچ میں پڑ گیا۔
"ٹھیک کہہ رہی ہو!"۔ وہ اعتراف کرتا ہوا بولا۔
"مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی زمان بھائی! مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا"۔ وہ شرمندہ تھی۔
"شانزہ! امان کی حالت ٹھیک نہیں ہے! وہ پیار کی زبان سمجھتا ہے! تم جتنا شور مچالو یا اس پر چلّا کر اسے بتاؤ کہ اس نے جو کیا غلط کیا تو وہ کبھی نہیں مانے گا، لیکن یہی کام محبت سے اپنی طرف ڈھالنے کے بعد کہو گی تو وہ شاید مان لے! وہ راتوں کو اٹھ کر تکلیفوں کا شکار ہوتا ہے! اسے خواب بہت تنگ کرتے ہیں۔ اسے بےجان چیزوں میں بابا کا عکس دکھتا ہے اور وہ ڈر جاتا ہے! بابا ایسے تو نہیں تھے جیسے اسے نظر آتے ہیں! مثال کے طور پر اگر میں تمہیں اچھا سمجھوں گا تو تم میری سوچوں میں اچھی آؤ گی! اور تمہیں غلط سمجھوں گا تو میری خیالوں میں بھی غلط ہی آؤ گی! میں اسے بہت جلد ڈائری دینے والا ہوں! تاکہ وہ پڑھے!"۔
"آپ چاہتے ہیں میں ان سے محبت بھرے لہجے میں بات کروں؟ ہمدردی کروں؟ محبت کروں؟ اور اپنے اوپر کیا ہوا ان کا ہر ظلم بھول جاؤں؟ اپنے اوپر کیا د۔۔۔۔۔۔" زمان نے جلدی سے اس کی بات کاٹی۔
"کس نے کہا بھول جاؤ؟ آواز اٹھاؤ! ضرور اٹھاؤ، مگر ابھی اٹھانے کا فائدہ نہیں! اسے پیار کی مار مارو شانزہ! اس کو تنگ کرو کہ تمہیں گھمانے لے کر جائے۔ اسے محسوس کرواؤ کے تم محبت کرنے لگی ہو! اسے ٹھیک تم ہی کرسکتی ہو! میں اس کا غصہ صرف قابو کرسکتا ہوں، مگر ٹھیک تم کرسکتی ہو اور جب اسے یقین ہوجائے تو وہ تم سے ہر بات شیئر کرنے لگے لگا۔ اس سب کے درمیان میں اسے ڈائری پڑھنے کا بھی کہوں گا اور وہ ضرور پڑھے گا! وہ جلد ٹھیک ہوجائے گا! اس کے بعد اس کا گریبان پکڑلینا! الفاظوں سے آگ لگادینا۔ تب وہ واقعی بےبس ہوجائے گا اور کچھ نہیں کرپائے گا! وہ تمہارے آگے کمزور ہوجائے گا اور اگر جانا چاہو تو۔۔۔۔۔" آگے کے الفاظ زمان کے لیے ادا کرنا مشکل ہورہا تھا۔
"چلے جانا"۔ بلآخر کہہ ہی دیا۔
شانزہ نے اس کی بات بہت غور سے سنی تھی۔
"کیا یہ سب کام کرے گا؟"۔
"ہاں! اس سے وہ ٹھیک بھی ہوجائے گا۔ مجھے اس کے لئے دکھ ہے لیکن میں ایک لڑکی پر ظلم ہوتا بھی نہیں دیکھ سکتا۔ وہ ٹھیک ہوجائے گا، مگر تمہارے جانے کے بعد ٹوٹ بھی جائے گا۔ تم جانا چاہو تو جاسکتی ہو! یہ زندگی تمہاری ہے!"۔
شانزہ کو امان کے لئے تھوڑا اچھا بھی لگا کہ وہ ٹھیک ہوجائیں گے!
"میں جارہی ہوں پھر! انہیں تنگ کرنے"۔ وہ مسکرا کر کہتی ہوئی کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
"ابھی؟ اس وقت؟"۔ وہ قدرے حیران ہوا۔ زمان نے وقت دیکھا رات کے تین بج ریے تھے۔
"جی زمان بھائی"۔ زمان کے لبوں ہر مسکراہٹ رینگی اور انگرائی لیتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔
۔۔۔★★۔۔۔
اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی بتیاں جلائیں۔ وہ اوندھا منہ تکیہ منہ پر رکھے گہری نیند میں تھا۔ شانزہ نے ہلکا سا تکیہ اوپر کیا۔ سوتے ہوئے وہ کسی معصوم بچے کی مانند لگ رہا تھا۔ شانزہ کو اپنی غلطی کا پھر احساس ہوا۔ اس نے اپنے لب کچلے۔
ذرا ذرا ڈر بھی لگ رہا تھا لیکن اسے یقین تھا کہ وہ اسے کچھ نہیں کہے گا۔
"امان"۔ اس نے امان کے بازو کو ہلایا، مگر وہ گہری نیند میں تھا۔ شانزہ نے ہمت نہیں چھوڑی اور اسے اٹھانے لگی۔ تھوڑی دیر بعد امان نے کسمسا کر آنکھ کھولی۔ آنکھ کے کھلتے ہی اسے شانزہ کا چہرہ نظر آیا تو وہ چونک اٹھا۔
"تم؟"۔ لہجے میں صاف بےیقینی تھی۔
"جی میں"۔ وہ اس کے قریب بستر پر بیٹھ گئی۔ وہ اب تک شاک تھا۔
"مجھے جانا ہے گھومنے"۔ امان کو لگا اسے سننے میں غلطی ہوگئی ہے۔
"کیا کہا؟"
"مجھے جانا ہے گھومنے!"۔ وہ ضدی لہجے میں بولی۔ امان متحیر ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔
"تت۔تم ٹھیک ہو؟"۔ اس کا ماتھا چیک کیا جسے شانزہ نے جھٹک دیا۔
"مجھے جانا یے باہر! لانگ ڈرائیو پر! مجھے لے کر چلیں! سمندر دیکھنے چلتے ہیں اٹھیں"۔ شانزہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانا چاہا۔
"شانزہ وقت دیکھو بہت رات ہورہی ہے"۔ وہ اب بھی بےیقین تھا۔
"مجھے نہیں پتا! آپ کو مجھے لے کر جانا ہی پڑے گا!"
"میں تمہیں لے کر گیا تھا لیکن۔۔۔۔" اس نے رنج و دکھ کی کیفیت سے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
"ہاں لیکن مجھے ابھی جانا ہے امان! اگر آپ لے کر نہیں گئے تو میں ناراض ہوجاؤں گی!"۔ اس نے امان کے ہاتھ پر نرمی سے اپنا ہاتھ رکھا۔ امان کو لگا وہ یہ سب خواب دیکھ رہا ہے۔ اس نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔ یہ سب حقیقت میں ممکن نہیں تھا پھر کیسے؟ ایک رات اسے کیسے تبدیل کرگئی؟۔
"مجھے نہیں لے کر  جائیں گے؟"۔ آنکھوں میں چمکتے دو جگنو کے ساتھ کہتی وہ امان کا دل لوٹ گئی۔
"جاؤ دو شالیں نکالو وارڈروب سے اور گاڑی کی چابی لادو مجھے"۔ وہ خوشی سے چیخ پڑی اور وہ اسے دیکھ کر مسکراتا رہا۔
۔۔۔★★۔۔۔
"یہاں بہت ٹھنڈ یے نا امان؟"۔ وہ سردی سے ٹھٹھرتی ہوئی بول رہی تھی۔
"شال صحیح سے اوڑھو تاکہ ٹھنڈ نہ لگے"۔ وہ اس کی شال اس کے گرد پھیلاتا ہوا بولا۔
"ٹھیک ہی تو لیکن یہاں تو بہت سردی ہے! لگتا ہے شال سے کام نہیں چلنے والا"۔ وہ نفی میں سرہلاتی بولی۔ امان نے اسے یوں ٹھٹھرتے دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا اور اپنی شال اتار کر اس کے گرد پھیلادی۔
"کیا کررہے ہیں امان یہ آپ کی شال کے! آپ کو ٹھنڈ لگ جائے گی!"۔ وہ شال اتارنے لگی، مگر امان نے سختی سے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے۔
"کیا کررہے ہیں یہ؟"۔ وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتی اس کی کیفیت سمجھنے لگی۔
"تمہیں سردی لگ جائے گی شانزہ! میری فکر مت کرو!"۔
"میرا ہاتھ چھوڑیں مجھے شال اتارنے دیں آپ بیمار ہوجائیں گے امان"۔ وہ اپنے ہاتھ چھڑانے لگی جسے امان نے مضبوطی پکڑ رکھا تھا۔
"نہیں میں نہیں چھوڑوں گا!۔ بس ایسی کھڑی رہو اور ویسے بھی مجھے ذیادہ سردی نہیں لگ رہی ہے"۔ شانزہ کی آنکھیں دیکھ کر وہ اسے یقین دلارہا تھا۔ وہ اسے شاک ہوئی دیکھ رہی تھی۔ اس نے اثبات میں سرہلایا تو مسکرا کر امان نے اس کے ہاتھوں سے اپنی گرفت ڈھیلی کردی۔
"یہ کتنا خوبصورت ہے نا امان؟ وہ دیکھیں  سورج ابھررہا ہے۔۔۔" وہ بلکل سامنے ابھرتے سورج کو دیکھ رہی تھی جو آہستہ آہستہ اپنی شکل دکھا رہا تھا۔
"ابھرہا ہے دل میں یہ خدشہ لے کر کہ اسے اب غروب بھی ہونا ہے"۔ وہ گہری نظروں سے سامنے دیکھتے ہوئے بول رہا تھا۔
"ہر عروج کو زوال میسر ہے امان"۔
"صحیح کہتی ہو، مگر مجھے لگ رہا ہے میں زوال سے عروج پر جارہا ہوں! میری بیوی مجھے لفٹ کروانے لگی ہے"۔ امان نے شرارت کی۔ شانزہ کھل کر ہنسی۔
"تو اس بیوی کی قدر کریں"۔ وہ اس کا ہاتھ تھام کر اس کی کندھے سے سر ٹکا گئی۔
"وہ تو میں بہت کرتا ہوں"۔ اس کا ہاتھ کو چوما۔ شانزہ سرخ ہوگئی۔
"میری زندگی ایک رات میں تبدیل ہوجائے گی مجھے اس کا علم نہیں تھا"۔ وہ حیران تھا اب تک!۔
شانزہ نے اسے دیکھا اور مسکرادی۔
"شانزہ کیسے؟"۔ اسے دونوں ہاتھوں سے تھام کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔ سورج کی طرف شانزہ کی پیٹھ ہوگئی۔
"مجھے نہیں معلوم! میں نے ٹھیک نہیں کیا نا کل؟ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا"۔ چہرے پر دکھ واضح تھا۔
"کوئی بات نہیں امان کی جان! کچھ نہیں ہوتا۔ تم امان کی بیوی ہو تم پر یہ شوہر سے معافی تلافی جچتی نہیں!" امان نے اسے خود کے قریب کرکے سینے سے لگالیا۔ شانزہ کی پلکیں بےاختیار جھک گئیں۔ وہ محبت کرنا نہیں چاہتی تھی، مگر محبت ہورہی تھی۔ محبت ہونے کا مطلب قطعی یہ نہیں تھا کہ ماضی بھلا گئی۔۔۔
"شانزہ آسمان پر پھیلتی شفق دیکھو"۔ امانے نے آسمان کی جانب اشارہ کیا۔
"بے حد خوبصورت"۔ وہ خود کو کہنے سے روک نہ پائی۔
"بلکل تمہاری طرح!"۔ امان بھی خود یہ بات کہنے سے روک نہیں پایا تھا۔ شانزہ نے رخ موڑ کر امان کو دیکھا اور کھلکھلا دی۔ وہ الٹے قدموں سے اس سے ایک قدم پیچھے جا کھڑی ہوئی۔
"تم پیچھے کیوں کھڑی ہو؟"۔ وہ مڑا۔
"ایسے ہی آپ کے پیچھے کھڑا ہونا اچھا لگا"۔ امان کے لئے ایک خواب سا ہی تھا۔ اس نے اس کا ہاتھ تھاما اور اپنے سے ایک قدم آگے کھڑا کردیا۔
"تم میرے آگے کھڑے ہوا کرو! امان کی بیوی اس کے آگے  کھڑے ہوگی زندگی کے ہر میدان میں!"۔ شانزہ نے مڑ کر شوہر کو دیکھا تھا۔ وہ محافظ تھا اس کا! کل وہ اس کے چھوڑے ہوئے قدموں پر قدم رکھ کر چل رہی تھی اور آج امان اپنی بیوی کے چھوڑے ہوئے قدموں کے پیچھے چل رہا تھا۔ یہ کیا تھی؟ ایک لفظ محبت! اپنی زندگی یہیں تمام کی!
"گھر  چلنا ہے یا یہاں اپنا گھر بنالیں؟"۔ وہ آنکھ مارتا ہوا اب اسے چھیڑ رہا تھا۔
"میرے دل چاہ رہا ہے کہ یہیں رہ جاؤں! اس منظر میں کھو جاؤں"۔ وہ جھومتے ہوئے بولی۔  امان نے جو لفظ غور سے سنا وہ "کھونا" تھا۔ رنگت فق ہوگئی اور تیزی سے اس کے قریب آیا۔
"آؤ شانزہ گھر چلتے ہیں"۔ اس کا تھام کر مڑنے لگا۔
"ہم کل بھی آئیں گے؟ ٹھیک ہے؟"۔ اس کا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے وہ دھیرے سے بولی۔
"کل؟"۔
"ہاں اگر آپ نے میری بات مانی تو ہی جاؤں گی میں ورنہ میں یہیں کھڑی رہوں گی"۔ وہ سینے پر ہاتھ باندھ کر بچوں کی طرح کھڑی ضد کرنے لگی۔
"تم جہاں جہاں بولو گی ہم وہاں وہاں جائیں گے  مسز شانزہ"۔ اس نے مڑ کر اسے دیکھا۔ ڈھیر ساری محبت اس کی آنکھوں میں صرف اس کے لئے تھی۔ اتنی محبت تھی تو یقیناً اعتبار بھی ہوگا۔ ایک دم اسے اس کا اعتبار کا آزمانے کا خیال آیا۔ وہ اس کے قریب آئی اور پیار سے دیکھنے لگی۔
"امان؟"۔
"جی"۔
"آج شاپنگ کرنا چاتی ہوں میں"۔ اس کے کندھے کو کے ہاتھوں سے جھاڑتے ہوئے بولی۔
"او ہو آج شاید ممکن نہیں! آج میٹنگ ہے میری"۔ وہ منہ لٹکا کر بولا۔
"مگر مجھے آج جانا ہے نا! میں خود چلی جاؤ پلیزز"۔ وہ معصومیت سے اجازت مانگنے لگی۔
"نہیں اکیلے نہیں"۔ وہ تیزی سے نفی میں سر ہلانے لگا۔
"آپ کو لگتا ہے میں بھاگ جاؤں گی؟ آپ کو اب بھی لگتا ہے؟"۔
امان نے نفی میں سرہلایا۔
"نہیں شانزہ! اب کیوں لگے گا مجھے یہ ڈر؟"۔
مسکراتے ہوئے اس کے رخسار چھوئے۔
"یا مجھ پر اعتبار نہیں ہے؟ محبت کی تو پہلی شرط ہی اعتبار ہوتی ہے نا؟"۔ شانزہ کا دل یہ کہتے ہوئے سکڑا تھا یعنی وہ بھی اس پر اعتبار نہیں کرتا تھا۔
"مجھے تم پر اعتبار ہے شانزہ۔۔۔ میں اس لئے نہیں جانے دینا چاہتا کیونکہ مجھے ڈر لگتا کہ تمہیں کچھ ہو نہ جائے! تمہیں نقصان نہ پہنچے"۔ شانزہ نے اس کے چہرے پر خوف کی لکیریں دیکھی تھیں۔ وہ اس پر اعتبار کرتا تھا، مگر اس کی طرف سے خوفزدہ بھی تھا  کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچادے۔ وہ اس کا شوہر تھا۔ یہ سب اسی پر ہی جچتا تھا۔ سورج آدھے سے ذیادہ ابھر گیا تھا۔ روشنی ہر سمت پھیل چکی تھی۔
"کچھ نہیں ہوگا مجھے امان! میں پہلے بھی جاتی تھی پلیزز! ڈرائیور کے ساتھ ہی جاؤں گی! مجھے جانے دیں۔۔۔" آنکھوں میں دو آنسو بھی آگئے تو وہ ہار مان گیا۔
"ٹھیک ہے!۔ مگر جانے سے پہلے مجھے کال کر کے اطلاع دو گی کہ تم جارہی ہو اور جگہ کا نام بھی بتاؤ گی! ٹھیک ہے"۔
وہ خوش ہوگئی بلکل بچوں کی طرح!۔
"تھینک کیو سو مچ امان! آئیں گھر چلتے ہیں۔ آپ کو آفس بھی جانا ہوگا"۔ وہ اس کا ہاتھ تھامتی گاڑی کی جانب بڑھنے لگی اور اس کے پیچھے اسے پیار سے تکتا ہوا آنے لگا۔ زندگی اس کی یکدم بدل چکی تھی! اور اب اسے زندگی سے بھی محبت ہورہی تھی۔
۔۔۔★★۔۔۔
"میں جارہی ہوں یونیورسٹی!"۔ نفیسہ کو سر تا پیر دیکھتے ہوئے اطلاع دے کر وہ ناصر صاحب کے ساتھ باہر نکل گئی۔
"ہاں رمشا جاؤ اوپر فاطمہ سے بھی پوچھ آؤ کہ اگر اسے جانا ہے کالج تو میں اسے بھی چھوڑدوں!۔ بیچاری اکیلی کہاں جائے گی"۔ ناصر صاحب رمشا کو تاکید کی۔
"یہ پیشکش اپنی بیٹی کو بھی دے دیتے جو کبھی رکشہ یا کالج بس چھوٹ جانے ہر بسوں کے دھکے کھاتی تھی۔ وہ بھی تو اکیلے جاتی تھی جب جب میں چھٹی کرتی تھی۔ میں بھی جاسکتی ہوں"۔ وہ جو بیگ تھامے سیڑھیاں اتررہی تھی ان کی بات پر طنز کرنے لگی۔
"کتنی بدتمیز ہوگئی ہو تم؟ بدلحاظ"۔ وہ غصہ سے لال ہوئے۔ وہ خاموشی سے پاس سے گزر کر باہر نکل گئی۔ رمشا کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔ کیونکہ ابھی اسے فاطمہ کو جال میں پھنسانا تھا۔ اسے عدیل کا ہونا تھا اس سب فاطمہ سے بڑھ کر اس کی مدد کوئی نہیں کرسکتا تھا۔
۔۔۔★★۔۔۔
وہ نیند لے کر ابھی اٹھی تھی۔ کمرے میں کوئی نہیں تھا!۔ امان آفس جاچکا تھا۔ موبائل کھول کر وقت دیکھا تو دوپہر کے تین بج رہے تھے۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔
"مجھے شاپنگ پر جانا ہے"۔ اسے جھٹکے سے یاد آیا اور وہ وارڈروب کی جانب بھاگی۔
"یا خدایا۔۔۔" وارڈ روب سے کپڑے نکالے اور ساتھ امان کی دی ہوئی چادر بھی۔ شکر تھا کہ کپڑے پریس تھے۔ وہ کپڑے ہاتھ میں تھامے باتھ روم بھاگی۔
پندرہ منٹ بعد شاور لے کر نکلی اور جلدی سے بالوں کو تولیے میں لپیٹے۔ وارڈ روب کی دراز میں سے ٹاپس اور پتلی سی چین نکال کر گلے میں پہنی۔  ڈرائیر سے بال خشک کئے۔ وارڈ روب سے سینڈل نکال کر جلدی جلدی پہنی  اور جب سنگھار میز کے سامنے کھڑی ہوئی تو یاد آیا کہ سنگھار کے لئے آئینہ نہیں لگا ہوا۔
اندازے سے فیس پاؤڈر ہلکا سا لگایا اور لپ اسٹک لگاتی چادر کو اچھی طرح پھیلا کر باہر نکلی۔۔۔
اتنی جلدی میں تھی کہ موبائل اور پرس لینا بھول گئی۔ یاد آنے پر ماتھے پر ہاتھ مار کر کمرے سے موبائل اور پرس لیا اور امان کو کال ملائی۔ پہلی ہی بیل پر امان نے کال اٹھالی۔
"ہیلو"۔
"ہیلو امان! میں جارہی ہوں شاپنگ پر ٹھیک ہے؟ اور میں مال کا نام ایس ایم ایس کردیتی ہوں!"۔
"بیوی جلدی میں لگ رہی ہے"۔ وہ دوسری جانب ہنس رہا تھا۔
"ہاں میں بہت دیر سے اٹھی ہوں! اب میں جارہی ہوں! زمان بھائی بھی آفس میں ہیں کیا؟"۔
"جی ہاں اور ابھی میٹنگ چل رہی ہے تو سب کے ساتھ بیٹھا ہے"۔
"میٹنگ چل رہی ہے؟ یا اللہ! سوری امان میں نے ڈسٹرب کردیا"۔ اسے افسوس ہوا۔
"تمہاری وجہ سے امان ڈسٹرب کبھی نہیں ہوسکتا۔ دھیان سے جانا اور کوئی مسئلہ ہو تو مجھے کال کرنے میں کوئی دریغ نہیں کرنا"۔
"ٹھیک ہے ٹھیک ہے اللہ حافظ"۔ وہ فون تھامے باہر کی طرف بھاگ رہی تھی۔
"اور ہاں سنو سنو! اپنی تصویر بھی بھیجنا کیسی لگ رہی!" شانزہ سرخ ہوئی۔
"استغفراللہ! ٹھیک ہے اللہ حافظ"۔ اس نے کال کاٹ کر موبائل پرس میں رکھا۔
"شاہ نواز لالا ڈرائیور سے کہیں گاڑی نکال لے"۔ اس نے چادر پہن کر سر تا پیر خود کو مکمل ڈھانپا ہوا تھا۔
"اچھا بی بی۔ اوئے سلیم گاڑی نکال بیگم صاحبہ کو جانا یے"۔ شاہ نواز نے سلیم کو آواز لگائی تو وہ اثبات میں سرہلاتا چابی لیتے ہوئے آیا۔
"حیرت ہے آپ نے اس بار مجھے روکا نہیں شاہ نواز لالا"۔ وہ ہنس کر بولی۔
"کیونکہ دادا بتا کر گئے تھے"۔ وہ مسکرا کر بولا تو وہ بھی ہنس دی۔
"کچھ مسئلہ ہو تو آپ گھر کے ٹیلیفون پر کال کرلے گا"۔ شاہ نواز نے اسے تاکید کی۔
"جی ضرور! اور ہاں شاہ نواز لالا وہ کمرے میں آئینہ تو لگوادیں۔ اب تک نہیں لگا"۔ وہ کہتی ساتھ گاڑی میں پیچھے کا دروازہ کھول کر بیٹھی۔ شاہ نواز اس کے اس انداز پر زور سے ہنسا۔
"جو آپ کا حکم! اب آپ کے آنے سے پہلے ہی یہ آئینہ لگ جائے گا شانزہ بی بی"۔ وہ ادب سے مسکرا کر بولا تو شانزہ کے چہرے ہر تبسم پھیلا۔ سلیم نے گاڑی اسٹارٹ کی۔ شاہ نواز نے قریب آکر درازہ مضبوطی سے بند کیا۔
"اللہ حافظ"۔ وہ زور زور سے شہنواز کو ہاتھ ہلانے لگی۔ شہنواز کا قہقہ گونجا اور وہ بھی جواباً ہاتھ ہلانے لگا۔
"یا خدایا یہ معصوم سی بچی!" وہ دل دل میں خود سے بولا اور ہنس دیا۔
۔۔۔★★۔۔۔
پانچ بجنے والے تھے۔ زمان وقت دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
"امان میں ذرا باہر سے پیٹ کی آگ بجھا کر آرہا ہوں!" امان نے اسے گھورا۔
"تین گھنٹے پہلے ہی بجھائی تھی!"۔
"تو وہ تو ناشتہ تھا نا اب کھانا کھاؤں گا!"۔ وہ دانت دکھاتے ہوئے بولا۔
"۹ بجے ناشتہ پھر آفس آکر دو بجے ناشتہ پھر اب کھانا کھاؤ گے؟"۔ بنھیوں اچکا کر پوچھا۔
"جی بلکل! یہ میٹنگ میرے بغیر بھی اچھی چل رہی ہے خیر میں چلتا ہوں! ایک آدھ گھنٹے تک آجاؤں گا"۔ زبردستی اس کا  ہاتھ ملاتا وہ باہر نکل گیا۔
۔۔۔★★۔۔۔
اس نے ایک ہی دکان سے ڈھیر ساری چیزیں خریدیں۔ آج پہلی بار اسے جو پسند آیا وہ اسے ہاتھ میں سنبھالی ٹوکری میں ڈالتی رہی۔ کچھ پرنٹڈ  جوڑے اور میک اپ کا سامان خریدہ۔ اسے لال رنگ کی لپ اسٹک کا ایک شیڈ بےحد پسند آیا۔ اس نے وہ اٹھا کر اپنی ٹوکری میں ڈال دیا۔ یہ دکان اتنی بڑی تھی کہ ضرورت کی سب چیزیں وہ یہاں سے لے سکتی تھی۔ اسے مردوں کے حصہ میں موجود ایک واچ بے حد پسند آئی۔ اس نے وہ امان کے لئے خرید لی۔ کچھ پرفیومز امان اور اپنے لئے اٹھائے اور کاؤنٹر پر آگئی۔ پیسے دینے کے لیے پرس کھولا تو یاد آیا کہ امان سے پیسے تو لئے ہی نہیں تھے۔ اس کی جان نکل گئی۔ ایکسکیوز کرتی وہ سائیڈ پر آئی اور امان کو کال ملائی۔
"امان پیسے تو دیئے ہی نہیں آپ نے! میں لینا بھول گئی پیسے"۔ وہ روہانسی ہوگئی۔
"او مائی گاڈ اب کیا ہوگا چچچچ"۔ امان نے افسوس کیا۔
"ایسا مت کہیں بہت بےعزتی ہوگی ورنہ! میں کیا کروں امان؟"۔ وہ رونا شروع ہوگئی۔
"شانزہ رومت, پرس کھولو اور کریڈٹ نکال لو!۔ میں نے صبح آفس جانے سے پہلے ہی تمہارے ہینڈ بیگ میں ڈال دیا تھا اپنا کریڈٹ کارڈ"۔ وہ شرارتی انداز میں کہتا ہنسا۔
"افو ہو! مجھے ڈرا دیا۔۔ میرا دل حلق میں آگیا۔۔۔" اس نے دل تھاما۔
"اچھا جی سنیں میں جارہی کاؤنٹر میں کریڈٹ کارڈ دینے۔۔۔ اللہ حافظ فون رکھ رہی ہوں"۔ کہتے ساتھ فون رکھا اور کاؤنٹر میں پیسے جمع کروا کر باہر آگئی۔ جتنا سامان اس نے خرید لیا تھا اس کے بعد اور کی گنجائش نہیں تھی۔ ایک ہاتھ سے موبائل پر کچھ ٹائپ کرتے دوسرے ہاتھ میں سامان تھامے وہ مال کے واشروم والی سائیڈ سے نکل رہی تھی۔ یہاں رش نہیں تھا۔ ایک دو لوگ تھے جو اب جا چکے تھے۔ بس ایک لڑکا جو سامنے کھڑا تھا اس کی شانزہ کی طرف پیٹھ تھی۔
"ایکسکیوزمی۔۔ ٹیک آ سائیڈ پلیز!"۔ شانزہ نے اس لڑکے کو کہا تو وہ پیچھے مڑا۔ اسے دیکھ کر شانزہ کی سانسیں تھم گئیں۔ رنگت تبدیل ہونے وقت بھی نہیں لگا۔ وہ سامنے کھڑا شخص اسے خونخوار اور حقارت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"او ہو شانزہ امان کھڑی ہیں یہاں! کیسی ہیں محترمہ آپ کسی کی زندگی اجاڑ کر؟۔ ہاتھ میں تھامے بیگز دیکھ کر لگ رہا ہے بہت ساری شاپنگ بھی کی ہے"۔ اس کے تھیلوں سے بھرے ہاتھ کو کٹیلی نظروں سے دیکھا۔
"تمہاری ہمت کیسی ہوئی میرے ساتھ محبت کا ڈھونگ رچانے کی؟۔ کسی اور کے ساتھ گلچھرے اڑاتی پھر رہی تھی اور اب اس سے شادی بھی کرلی واہ! یو نو واٹ مجھے اب سمجھ آئی۔۔۔ وہی میں بولوں کہ کوئی لڑکی اس طرح بیوفائی تو نہیں کر سکتی۔۔ مجھے نہیں پتا تھا تم اتنی لالچی ہوگی کہ صرف پیسوں کے لئے کسی مرد کے ساتھ چکر چلاؤ گی"۔
چٹاخ کی آواز شانزہ کے چہرے پر عدیل کا ہاتھ پڑنے سے آئی تھی۔ شانزہ ششدر ہوئی۔
"بدکردار شانزہ!"۔ یہ لفظ اسے چھلنی کرگئے۔ اس کے آنسو بہنے لگے۔ وہ اس سے جان چھڑاکے بھاگی۔۔ بیگ ہاتھ سے چھوٹ گئے اور پرس وہیں پر گرگیا۔ رخسار پر ہاتھ رکھے وہ اندھا دھن بھاگ رہی تھی۔  وہاں پر موجود لوگ حیرانی سے اسے دیکھنے لگے۔ وہ کسی سے بری طرح ٹکرائی تھی۔ وہ جو کوئی بھی ہڑبڑا کر پیچھے مڑا۔ شانزہ اس سے ٹکرا کر اس کے قدموں میں گری تھی۔
"تم؟ کیا ہوا یے؟ رو کیوں رہی ہو شانزہ اٹھو"۔ زمان نے اسے پکڑ کر اٹھایا۔
"زمان بھائی"۔ وہ چیخ چیخ کر رونے لگی۔
"کیا ہوا کچھ بتاؤ۔ رکو تم۔۔۔ تم اپنے چہرے پر کیوں ہاتھ رکھی ہوئی ہو؟"۔ اس نے کہہ کر اس کا ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹایا۔  پانچ انگلیوں کے نقش اسکے چہرے پر چھپے ہوئے تھے۔
"کس نے مارا ہے بتاؤ؟"۔ وہ غصے میں دانت پیس کر بولا۔
"ع۔عدیل"۔ وہ ہکلائی۔ لفظ بےترتیب ہوئے۔ سانسیں ہچکیوں کی وجہ سے رکنے لگی تھیں۔ یکدم زمان کا چہرہ غضب ناک ہوا تھا۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے لے کر آگے چلنے لگا جہاں سے شانزہ آئی تھی۔ عدیل اب بھی وہی کھڑا تھا۔
"ہاتھ کیسے لگایا شانزہ کو؟"۔ اس کا گریبان پکڑتے ہوئے وہ چیخا تھا۔
"او تو امان صاحب آئیں ہیں"۔ وہ استہزیہ انداز میں بولا۔
"میں زمان ہوں!۔ اس کا جڑواں بھائی! شکر ادا کرنا چاہئیے کہ امان نہیں ہے ورنہ تو زمین سے دس فٹ نیچے ہوتا!"۔
"او ہو تو اس کا ایک بھائی بھی ہے"۔ لہجے میں طنز نظر آرہا تھا۔
"میری بہن کو ہاتھ کیسے لگایا؟"۔ وہ دھاڑا  تھا اور پیچھے کھڑی شانزہ سسکتے ہوئے زمان کو روک رہی تھی
"یہ لڑکی میری منگیتر تھی!"۔
"یہ لڑکی میرے بھائی کی بیوی ہے"۔ دانت پیس کر اس کا کالر کھینچا تھا۔
"یہ پہلے میری تھی!"۔ عدیل نے دانے پیس کر کہا.
"یہ کبھی بھی تمہاری نہیں تھی۔ میرے بھائی نے نکاح کیا کے اس سے! تمہارا نکاح ہوا تھا شانزہ سے جو کہہ رہے ہو تمہاری تھی؟ وہ امان سے پہلے اپنے باپ کی  تھی!۔ تم منگیتر تھے!۔ اور منگیتر کوئی حق نہیں رکھتا جب تک نکاح نہ ہوجائے۔ اور تیرا نکاح ہوا نہیں! وہ پہلے اپنے باپ کی عزت تھی اور اب میرے بھائی کی عزت ہے! ہاتھ کیسے لگایا میری بہن کو"۔ وہ غرایا۔
"ہاں مارا ہے میں نے وہ بھی اپنے دائیں ہاتھ سے!"۔ وہ زمان کا ظرف آزمارہا تھا۔ زمان کو تو گویا آگ لگ گئی۔
"لگتا یے تو مار بھول گیا ہے! ہمارے آدمیوں نے جس طرح کوٹا تھا نا تجھے سب بھول گیا ہے تو! میرا دل چاہ رہا ہے تجھے یہیں پر مار مار کر ختم لیکن نہیں میں نہیں ماروں گا"۔ شانزہ منہ پر ہاتھ رکھ رونے لگی۔
" شانزہ مارے گی"۔ اس نے کہا اور پیچھے ہٹ کر شانزہ کو آگے کیا۔
"مارو اسے"۔ شانزہ ہکا بکا کھڑے زمان کو دیکھنے لگی جو عدیل کو مارنے کا کہہ رہا تھا۔
"زمان بھائی۔۔۔" وہ یہ کیا کہہ رہا تھا۔ "گھر چلیں چھوڑدیں"۔
"کیا چھوڑدیں؟؟؟۔ اگر تم نے نہیں مارا شانزہ تو میں ماروں گا اسے! اور امان کو بھی اطلاع دے دوں گا۔ میری بہن پر ہاتھ اٹھانے والا بچ کر تو نہیں جائے گا!"۔ اس کے تیور خطرناک حد بگڑے ہوئے تھے۔ وہ سہم گئی۔
"جس گال پر مارا تھا اسی گال پر مارو! ابھی"۔ وہ عدیل کو پکڑے ہوئے تھا، مگر عدیل جانتا تھا وہ ایسا نہیں کرسکتی۔ شانزہ نے ایک نظر ان کو دیکھا اور ایک نظر عدیل کو۔۔۔
اسے پانچ منٹ پہلے والا عدیل کا تپھڑ اپنے چہرے پر محسوس ہوا۔۔۔ اس کا الزام محسوس ہوا اس کی سانسیں غصے سے پھولنے لگی۔ اس کا ہاتھ اٹھا اور عدیل کے چہرے پر نشان چھوڑ گیا۔ ایک ٹھنڈ سی اترتی محسوس کی شانزہ نے اپنے دل میں۔۔۔ اب وہ واقعی امان شاہ کی بیوی بن گئی۔
عدیل بےیقینی سے اسے دیکھنے لگا۔
"تم نے مجھے تھپڑ مارا شانزہ؟"۔ عدیل کی آنکھوں میں حیرانی۔
"ہاتھ کیسے اٹھا شانزہ امان پر!"۔ وہ اتنی زور سے چیخی کہ مجمع جمع ہوگیا۔ زمان کو تو واقعی شانزہ پر یقین نہ آیا۔
"میں شانزہ ناصر نہیں ہوں!۔ شانزہ امان ہوں اور سامنے والے بندے کو اس کی اوقات دکھانی آتی ہے مجھے!۔ یہ لڑکی سوائے اپنے شوہر کے کسی کے سامنے نگاہیں نہیں جھکاتی۔ اور کیا کہا تھا عدیل جاوید تم نے؟ میں بدکردار ہوں تو کیا تم مرد ہو جو لڑکی پر ہاتھ اٹھا کر اپنی مردانگی دکھا رہے ہو! مجھ پر میرے شوہر نے آج تک ہاتھ نہیں اٹھایا اور تم سمجھتے ہو میں کسی اور کا ہاتھ خود ہر برداشت کروں گی سوائے اپنے باپ کے؟؟؟۔ میں کسی اور کا ہاتھ کیسے برداشت کرسکتی ہوں؟ اگر تم مرد ہوتے تو امان شاہ سے پنگا لیتے امان شاہ کی شریکِ حیات سے نہیں! عورت کبھی بھی کمزور نہیں ہوتی عدیل جاوید!۔ عورت کا منہ بند کروانے کی کوشش مت کرنا۔۔۔ اور ہاں مجھے بدکردار کہا تم نے؟ منہ سے میرے لئے بدکردار نکلا کیسے؟"۔ اس نے اپنا ہینڈ بیگ کھینچ کر اسے مارا۔ وہ بےیقین سا اب بھی اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کھڑا تھا۔
"میں کیوں دوں صفائیاں؟ میں مجرم نہیں ہوں! چلیں زمان بھائی! ہمیں بہت کام بھی ہیں اور مجھے بھوک بھی لگی ہے! گھر میں کھانا تیار ہے اور ہاں میرے دلعزیز شوہر کو بھی کال ملادیں کہ وہ بھی ساتھ کھانا کھائیں۔ چھوڑدیں اس کو ہم کتوں کے منہ نہیں لگتے"۔ منہ پھیر کر اسے ایسے دیکھا جیسے گندی سڑی لاش بلکل ویسے جیسے ماضی میں عدیل نے شانزہ کو دیکھا تھا۔ زمان خوشگوار حیرت سے اسے چھوڑ کر دور ہٹا۔ یہ بلکل بے یقینی والی بات تھی۔ زمان نے نیچے پڑے شاپنگ بیگز کو اٹھائے اور اس کے ساتھ چلنے لگا۔ زہر بھری نظر عدیل پر ڈال کر وہ مڑ گئی۔
"بائی دا وے زمان بھائی آپ کا یہاں کیسے آنا ہوا؟"۔ وہ ایسے پوچھ رہی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ 
"میں نے تو کھانا کھایا آیا تھا۔ سوچا آفس سے قریب ہے یہاں سے کچھ چھوٹا موٹا کھالوں"۔
"اوہ اچھا! اور سنیں امان کو کال نہ ملادے گا خدا کا واسطہ ہے"۔ اس کی بات پر زمان زور سے ہنسا۔۔۔
"ہائے میری بہنا کیا کام کر دکھایا۔ پراؤڈ آف یو شانزہ باجی"۔ وہ ہنسا تو وہ بھی کھلکھلادی۔
وہ دونوں پارکنگ ایریا میں آگئے۔ سلیم سامنے کھڑا تھا گاڑی کے پاس۔
"میں آفس جارہا ہوں! اور دعا کرنا میرے منہ سے کچھ نہ نکلے! اپنے منہ پر میرا بھی بس نہیں۔۔۔ اللہ حافظ"۔ اسے گاڑی کے پاس چھوڑ کر وہ اپنی راہ ہولیا۔
اب تو شانزہ کو بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب اس نے کیا کیسے۔۔۔ ایک خواشگوار حیرت نے اسے گھیرے رکھا تھا اور وہ سارے راستے اس واقعے کو سوچنے والی تھی۔
۔۔۔★★۔۔۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Donde viven las historias. Descúbrelo ahora