قسط ۱۹

2.6K 161 20
                                    

ساری رات جاگ کر اس نے بلآخر وہ ڈائری مکمل پڑھ ہی لی تھی۔ نمازِ فجر کے بعد وہ سونے لیٹا تھا مگر نیند ہی نہ آئی۔ سب باتیں یاد آرہی تھی۔ انسان کا اپنی سوچوں پر بھی بس نہیں ہوتا۔ کافی دیر بعد بلآخر وہ نیند کی وادیوں میں اتر ہی گیا۔ قریب کوئی گیارہ بجے امان اس کے کمرے میں داخل ہوا۔ بستر پر آڑھا ترچھے لیٹے ہوئے زمان کے قریب آکر اس کی چادر درست کرکے اس کے اوپر اوڑھا دی۔ کوٹ پینٹ میں ملبوس وہ آفس جانے کو تیار کھڑا تھا۔ نکھرا نکھرا سا۔ وہ واقعی ایک ہینڈسم مرد تھا۔ آہستگی سے قدم بڑھاتے وہ بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ ہاتھوں کے پوروں سے سوتے زمان کا چہرہ چھو کر اب وہ اس کے بال سہلا رہا تھا۔ کسی کا لمس اپنے چہرے ہر محسوس کرتے ہوئے وہ چھوٹی چھوٹی آنکھیں کھول کر اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔ اس وقت زمان کے گھنے بال اس کے منہ پر چھائے ہوئے تھے۔ اسے امان کچھ پہچانا پہچانا سا لگا تو اس نے اپنا سر اس کی گود میں رکھ دیا۔ امان مسکرادیا۔
"اٹھ جاؤ زمان"۔ وہ بہت پیار اور نرمی سے بولا۔
"نکاح خواں آگیا؟"۔ سوئے سوئے لہجے میں پوچھا گیا۔ امان الجھا۔
"کیوں؟"۔
"میرا نکاح؟"۔ معصومیت کی انتہا۔
"کروادیں گے۔۔۔ وہ بھی کروادیں گے! بہت جلد!"۔
"انشاءاللہ بول دو امان"۔ سوتے ہوئے بھی شادی کی بےحد فکر کھائی جارہی تھی۔
"انشاءاللہ تو میں بول دوں، مگر تمہیں کوئی لڑکی پسند ہی نہیں کرتی"۔ امان نے مسکراہٹ دباتے ہوئے چھیڑا۔ زمان بےساختہ مسکرایا۔ زمان نے اپنے سر کے ساتھ اپنے ہاتھ بھی اس کی گود میں رکھے ہوئے تھے۔
"سنو! مجھے کمر میں بہت درد ہے۔ تکلیف ختم ہی نہیں ہوئی"۔ وہ آنکھیں میچیں بتا رہا تھا۔ نیند حاوی تھی جس کے باعث آنکھیں کھولنے کا بھی دل نہیں کررہا تھا۔
"کل کی وجہ سے؟"۔ امان کو اپنی غلطی کا احساس تھا۔
"جی"۔
"بہت زور سے لگ گئی لگی ہوگی! ڈاکٹر کے پاس چلو، اٹھو آؤ"۔ اس نے اٹھنا چاہا، مگر زمان نے اسے مضبوطی سے پکڑ لیا۔
"اتنا بھی درد نہیں ہے۔۔۔ بس ٹھیک ہوں میں۔ لیٹا ہوا ہوں تو ذیادہ محسوس ہو رہا ہے"۔
"تو پھر اٹھو آفس چلو۔ تم نے ویسے ہی اب آنا چھوڑا ہوا ہے"۔
"لاہور میں جھک مارنے گیا تھا؟"۔ نیند میں بھی جواب ہوتے پورے تھے۔
"آفس کب سے جوائن کرو گے زمان؟"۔ بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
"لاہور کی تھکن نہیں اتری ابھی"۔
" تو پھر کب تک آرام کرنے کا ارادہ ہے؟"۔
"ایک، دو ، تین، چار، پانچ، چھ، سات، آٹھ، نو سال تک! اور اس وقت بھی دیکھوں گا کہ تھکن اتری کہ نہیں" اس کی بات ختم ہوتے ہی امان نے اسے جھڑکا۔
"اتنی غیر سنجیدگی اچھی نہیں ہوتی زمان۔۔ مجھے کل سے تم آفس جاتے دکھو"۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"کل سے جوائن کروں گا پکا"۔ اس نے انگڑائی لیتے ہوئے جواب دیا۔
"جارہا ہوں میں"۔ اثبات میں سرہلاتا وہ مڑا ہی تھا کہ زمان نے اسے روک۔
"خیال رکھنا! تم ویسے ہی بیمار تھے"۔ تاکید کرکے پھر آنکھیں موند لیں۔ امان کے لبوں پر مسکراہٹ رینگی اور وہ "ہمم" کرتا مڑگیا
کوٹ درست کرتا ایک آخری گہری نگاہ اس پر ڈال کر وہ پلٹ گیا۔ واچ دیکھتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ شانزہ گہری نیند میں تھی۔ چابی میز سے اٹھا کر وہ اس کے قریب آیا۔ اس کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایا اور پیار سے تکنے لگا۔ ہاتھوں سے اس کی چہرے کو چھپاتی زلفوں کو پیچھے کرکے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ لیٹ ہورہا تھا۔ سنگھار میز کو ایک نظر دیکھا جہاں شیشہ اب تک نہیں لگا تھا۔ گہری سانس بھرتا وہ نیچے کی طرف ہو لیا۔
۔۔۔★★۔۔۔
"چائے لادو فاطمہ"۔ عدیل کی آواز پر وہ دوبارا کچن کی سمت مڑی۔ عدیل نے گھڑی کی نظریں دوڑائیں۔ گیارہ بجنے لگے تھے۔ دھوپ تیز ہورہی تھی۔
"تم آج نہیں گئی کالج؟"۔ فاطمہ نے اس کے آگے چائے رکھی۔
"نہیں" مختصر جواب!
"کیوں؟"۔ سرسری انداز۔
"اب صرف پریکٹیکل ہی لینے جاتی ہوں! شانزہ کے بغیر کالج جانے کا بھی مزہ نہیں آتا۔ پہلے وہ ہوتی تھی تو ہم سارا سارا وقت مزے اور ہنستے ہی رہتے تھے"۔ سنجیدہ چہرہ۔ عدیل کا مزاج سرد ہوا۔
"اس لڑکی کا آئیندہ نام مت لینا"۔ چائے کا گھونٹ بھر کر آواز کے ساتھ کپ کو میز پر پٹخا۔
"بہن کا نام لینا بھلا کیسے چھوڑا جاسکتا ہے"۔ بریڈ پر مکھن لگاتے ہوئے تحمل سے بولی۔
"بہن والا ساتھ دیا ہے اس نے تمہارا؟"۔ کٹیلا طنز۔
"آپ نے منگیتر والا ساتھ دیا اس کا؟ میرا تو ہر بار پورا پورا ساتھ دیا ہے!"۔ بنھویں اچکا کر پوچھا تھا یا طنز کیا تھا۔۔ وہ سمجھ نہ پایا۔
"مطلب کیا ہے تمہارا؟"۔
"مطلب جاننا اتنا مشکل نہیں آپ کے لئے"۔ بریڈ کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
"چپ رہو فاطمہ! بکواس نہیں کرنا اب!"۔ وہ غرایا۔
"میں نے کوئی اضافی بات نہیں کی! آپ نے جو پوچھا اسی کا جواب دیا ہے"۔ فاطمہ نے چائے کا گھونٹ بھرا۔
"تو کیا اس نے ٹھیک کیا میرا اعتبار توڑ کر؟"۔ عدیل نے دانت پیسے۔
"آپ کو کیسے پتا اس نے آپ کا اعتبار توڑا ہے؟"۔
عدیل کو اس کی دماغی حالت پر شک ہوا۔
"کیا یہ واقعہ ہمارے سامنے پیش نہیں آیا تھا؟ جس نے اپنی ماں اور باپ کی عزت کی فکر نہیں کی کیا وہ میری بعد میں کرتی؟ کہہ دیتی مجھ سے کہ اسے کوئی اور پسند ہے؟ مجھ سے کیوں محبت کا ڈھونگ رچا رہی تھی؟"۔
"اب آپ غلطی پر ہیں بھائی! پہلی بات میں سب کی نہیں صرف آپ کی بات کررہی تھی! دوسری بات اگر وہ محبت کا صرف ڈھونگ رچا رہی ہوتی تو آپ کی طرف پہلے امید سے اور پھر آپ کی آنکھوں میں بےیقینی دیکھ کر ششدر نہ ہوجاتی! چہرے کے تاثرات سب بتادیتے ہیں بھائی۔ ناانصافی اس کے ساتھ ہوئی ہے! ہر چیز آنکھوں کے سامنے عیاں ہے اگر آنکھیں کھول کر دیکھیں! میرا ناشتہ خراب دیا"۔ اپنا ناشتہ اٹھا کر نخوت سے کہتی کمرے میں بڑھ گئی۔ کرسی پر بیٹھا عدیل نے غصہ سے لب بھینچے تھے۔
۔۔۔★★۔۔۔
قریب ایک بجے اس کی آنکھ کھلی تھی۔ انگڑائی لیتا ہوا وہ اٹھ بیٹھا۔ تیز دھوپ اس کی کھلی کھڑکی سے اندر آرہی تھی۔ کچھ وقت یونہی بیٹھنے کے بعد وہ واشروم سے فریش ہو آیا۔ سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھا کر جیب میں رکھا۔ منہاج کی ڈائری بھی میز پر ہی پڑی تھی۔ ایک گہری نگاہ اس پر ڈال کر اسے تھام کر آرام سے وارڈروب میں محفوظ جگہ پر رکھ دیا۔ اسے شانزہ سے تفصیل سے بات کرنے کا یہ موقع اچھا لگا، اور امان بھی گھر پر نہیں تھا۔ وہ سیڑھیاں اترتا لاؤنج میں داخل ہوا۔ لاؤنج مکمل خالی تھا۔ ہوسکتا ہے شانزہ سورہی ہو یا اپنے کمرے میں ہو۔ وہ اس کے کمرے میں نہیں جاسکتا کیونکہ یہ نامناسب تھا۔ کچن میں سے پتیلا گرنے کی آواز نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔ وہ دھیرے سے چلتا ہوا کچن میں آگیا۔ وہ کچن میں تھی اور اب گرا ہوا پتیلا واش کررہی تھی۔
"ہیلو بہن"۔ اس نے خوشدلی سے بات کا آغاز کیا۔ وہ اس کی یوں آمد پر ہڑبڑا اٹھی۔
"جی"۔ شانزہ نے سنبھل کر جواب دیا۔
"کیا کررہی ہو؟"۔ اس نے دونوں بنھویں آچکا کر پوچھا۔
"میں۔۔وہ۔۔ چائے بنا رہی تھی۔۔۔ وہ کلثوم ابھی نہیں آئی تو خود ہی آگئی"۔ آواز ترتیب نہیں پارہے تھے۔
"ہمم۔۔۔" کہتا ساتھ وہ چولہے کے قریب آیا جہاں ابھی پتی ڈال دی گئی تھی۔
"تمہاری اکیلے کی ہے؟"۔ چائے کو گھورتے ہوئے کنفرم کیا گیا۔
"جی زمان بھائی"۔ حیرانی سے دونوں بھنویں اچکا کر جواب دیا۔
"تمہارے بہن بھائی بھی آرہے ہیں؟"۔
"نہیں زمان بھائی! میرا کوئی بہن بھائی نہیں میں اکلوتی ہوں"۔ لہجے میں بلا معصومیت۔
"چائے تو تین چار لوگوں کی لگ رہی ہے لڑکی! آؤ خود دیکھ لو"۔ وہ کچھ قدم پیچھے ہٹا۔ شانزہ نے پتیلی میں جھانکا۔
"مجھ سے ہر بار ایسا ہی ہوتا ہے! میں اندازاً ۲ کپ چڑھاتی ہوں مگر وہ تین چار کپ چڑھ جاتی ہے"۔ وہ روہانسی ہوئی۔ زمان نے نفی میں سرہلایا۔
"چچچ اس میں تمہاری غلطی نہیں ہے شانزہ! اس میں چائے کی ہی غلطی یے! اب بھلا بتاؤ جب تم چڑھاتی ہی دو کپ ہو وہ چار کپ کیوں ہوجاتی ہے؟"۔
"ہے نا؟ دیکھا میری غلطی نہیں ہے! ماما کبھی مانتی ہی نہیں تھیں"۔ اس نے زمان کے مسکرائے چہرے کی جانب دیکھا جو اب سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"تو لڑکی تم اندازاً پانی ڈالتی ہی کیوں ہو؟ کپ سے ناپ کر پتیلی میں ڈالا کرو"۔ ماتھے پر بل ڈال کر وہ اسے ہدایات بھی دے رہا تھا ساتھ ساتھ۔
"یعنی میری غلطی ہوئی؟ میں تو صرف دو کپ۔۔۔"
"نہیں میری غلطی ہے۔ پہلے تم مجھے ایک بات بتاؤ! دو کپ چڑھاتی ہی کیوں ہو چائے جب اکیلے پینی ہوتی ہے"۔ سینے پر ہاتھ باندھ کر اب وہ پوچھ رہا تھا۔
"وہ زمان بھائی پانی ابل کر کم ہوجاتا ہے! تو دو کپ چڑھاتی ہوں تو ایک کپ پانی ختم ہوجاتا ہے اور ایک کپ مجھے مل جاتی ہے"۔ دائیں ہاتھ کے ناخن بائیں ہاتھ سے اکھیڑے جارہے تھے۔ لہجے میں ہچکچاہٹ واضح تھی۔
"او اچھا اچھا تم چائے نہیں پائے بناتی ہو یعنی؟"۔
"نہیں تو۔۔۔ پپ۔پتا نہیں"۔ وہ جنجھلا اٹھی۔
"خیر چھوڑو میں دودھ ڈالتا ہوں! اور ہاں ایک کپ میرے لئے بھی نکال لینا چائے"۔ فریج سے دودھ نکال کر پتیلی میں ڈالنے لگا۔ جب تک وہ دم ہوتی رہی زمان نے دو چائے کے کب اور چائے چھاننے والی بھی سلیپ پر رکھ دی۔
"لگتا ہے دم ہوگئی ہے، چھان لو! اور ہاں چائے لے کر گارڈن میں آجانا"۔ اسے تاکید کرتا ہوا وہ گارڈن کی طرف چلاگیا۔ اس نے سلیقے سے چائے چھان کر ٹرے میں رکھی۔ شکر کا پیالا اور چائے کا چمچہ رکھے وہ گارڈن میں آگئی۔ سلیپ سے اپنا موبائل اٹھانا نہیں بھولی۔ امان اس کی سم بدل چکا تھا۔ ایک نئی سم نکلوائی تھی اور اب وہی سم اس کے موبائل میں تھی۔ امان کے علاوہ کسی کا بھی نمبر سیو نہیں تھا۔ اس کی طرف سے سختی سے تاکید تھی کہ موبائل ہر دم پاس ہونا چاہئے۔ کیونکہ وہ آفس ٹائم ہر بھی کال کیا کرتا تھا۔
زمان نے ہاتھ بڑھا کر چائے کی پیالی تھامی۔
"آؤ بیٹھ جاؤ"۔ سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ کرسی آگے کرکے بیٹھ گئی۔ زمان نے چائے لبوں سے لگالی۔ کیا ڈائقہ تھا چائے کا۔
"واہ چائے کیا ذائقہ دار بنی ہے! بس اب اپنے بھائی سے ککنگ کلاسس لے لو"۔
شانزہ نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔
"جی؟؟؟ یہ چائے میں نے بنائی ہے زمان بھائی۔۔۔۔"
"لیکن دودھ تو میں نے ڈالا یے بھابھی جان! چائے میں سب سے ذیادہ اہمیت دودھ رکھتا ہے! سوچو اگر میں دودھ صحیح سے نہ ڈالتا تو کیسے بدذائقہ بنتی چائے"۔
"جی نہیں! چائے میں پتی بھی اہمیت رکھتی ہے"۔
شانزہ کو وہ اچھا لگنے لگا تھا۔ خود اس کا اپنا بھائی نہیں تھا اس لئے اسے زمان کو "بھائی" کہنا بھا گیا تھا۔ گفتگو ایسے کررہا تھا جیسے پرانے دوست ہوں۔
"مگر میں نے اس سب میں ذیادہ کام کیا ہے"۔ وہ فرضی کالر جھاڑتے ہوئے بولا۔
"کیسے؟"۔ اس نے الجھی نگاہوں سے اسے دیکھ کر پوچھا۔
"میں نے دودھ ڈالا، پھر دو کپ بھی نکالے اور چائے چھانے والا بھی نکال کر سلیپ رکھا تاکہ تم چھان کر نکال سکو"۔
"میں نے بھی بہت کام کئے ہیں! میں نے پتیلی نکالی، اس میں پانی بھرا، پھر چولہے پر چڑھایا، پھر ماچس بھی جلائی، پھر پتی بھی میں نے ہی ڈالی، چائے میں نے نکالی، اور شکر بھی میں نے ڈالا"۔ شانزہ نے پوری کہانی سنائی اور اس سب میں زمان اتنا تو جان گیا تھا کہ شانزہ واقعی اس کی بہن ہے۔ صرف رشتے سے نہیں بلکہ اس کی ایکٹنگ اتارنے میں بھی۔ وہ زبردستی مسکرایا۔ شاید بےعزتی سے۔
"ہاں شاید تم نے ذیادہ کام کیا ہے"۔ وہ سر کجھاتا ہوا آخر مان ہی گیا۔
"تھینک یو"۔ وہ مسکرا کر بولی۔
"تو کیسی گزررہی ہے زندگی؟"۔ کچھ وقفے کے بعد وہ اس سوال کی جانب آیا جس کا جواب زمان اس کی آنکھوں میں امڈتے آنسو سے بھی پتا لگا سکتا تھا۔ وہ کچھ لمحوں میں ہی اپنی آنکھیں گیلی کر گئی۔ شانزہ کے تاثرات یکدم تبدیل ہوئے تھے۔ وہ جو تھوڑی دیر پہلے مسکرا رہی تھی اب اس کا چہرہ پیلا پڑرہا تھا۔
"رونے سے کیا گھر چلی جاؤ گی؟"۔ چائے کو ٹرے میں رکھتا ہوا پوچھا۔ وہ چپ رہی۔ وہ دونوں شیڈ کے نیچے بیٹھے تھے۔ پیلے رنگ کا پرنٹد جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا جس پر لان کا پیلا ہی ڈوپٹہ تھا۔ وہ واقعی حسن کا کرشمہ تھی۔ سادی سی خوبصورت لڑکی۔
"روئے بغیر دل کو چین نہیں ملتا"۔ آنکھیں رگڑتے ہوئے جواب دیا گیا۔ زمان نے اس کی بات کو دل پر محسوس کیا۔
"کیا تم فاطمہ سے بات کرنا چاہو گی؟ اگر میں تمہاری بات کروادوں؟"۔ شانزہ اس کی پیشکش پر اچھل کر کھڑی ہوگئی۔
"آپ۔۔ آپ میری۔۔میری اسے بات۔۔؟"۔ حیرت اور خوشی سے الفاظ ادا بھی نہیں ہورہے تھے۔ زمان اس کے بچوں والے انداز پر کھل کر مسکرایا۔
"اس سے ذیادہ کچھ نہیں کرسکتا میں اپنی بہن کے لئے! بس اسی بات کا دکھ بھی ہے"۔ مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔ شانزہ نے اس کے چہرے کو بغور دیکھا۔
"آپ دکھی نہ ہوں زمان بھائی۔۔۔ آپ میری واقعی میں بات کروائیں گے نا فاطمہ سے؟"۔ وہ کرسی پر پھر سے بیٹھ گئی۔
"ہاں کرواؤں گا یار! فون پر"۔ وہ اسے یقین دلاتا ہوا بولا۔
"سچی!! مجھے یقین نہیں آرہا ہے"۔ وہ خوشی سے تالی بجاتی ہوئے بولی۔
"اس یقین نہ آنے کے چکر میں تم اپنی چائے ٹھنڈی کررہی ہو لڑکی"۔ وہ شرارت سے بولا۔
"اوہ ہاں۔۔۔" وہ چائے کی جانب متوجہ ہوا۔
"شانزہ ایک بات بتاؤ! اگر تمہیں یہاں سے جانے کا موقع مل جائے تو گھر جاؤ گی؟"۔ جان بوجھ کر یہ سوال کیا تھا۔ وہ اس کے خیالات جاننا چاہتا تھا۔ وہ خاموش رہی۔ جیسے اس کا جواب اسے خود نہیں معلوم۔
"نہیں۔۔ مم۔مگر مجھے ماما سے تو ملنا ہے نا"۔ زمان کو لگا اس کو سننے میں غلطی ہوگئی ہے۔
"نہیں؟؟ تم گھر نہیں جاؤ گی؟ تو کہاں جاؤ گی؟"۔ لہجے میں حیرت واضح تھی۔
"میں کہیں اور چلی جاؤں گی! بہت دور! اتنی دور جاؤں گی کہ کسی کو خبر نہیں ہوگی! ایسی جگہ جہاں مجھے شک کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے۔۔۔ مجھ پر یقین کیا جائے اور میرے ہر سچ پر یقین کیا جائے۔ میں ماما کو بھی ساتھ لے کر جانا چاہوں گی زمان بھائی! اگر ماما آنا چاہیں"۔ وہ سرجھکا کر بتا رہی تھی۔ زمان نے گہری سانس لی۔
"معلوم کروایا تھا میں نے کہ تمہارے نکاح والے دن گھر میں کیا ہوا تھا"۔ وہ کہہ کر خاموش ہوا۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now