قسط ۴

3.3K 160 14
                                    

"یہ لیں بابا میں نے آپ کے کپڑے استری کردیئے"۔ اس نے مسکرا کر ناصر صاحب کو دیکھا اور کپڑے پیش کئے۔ ناصر صاحب نے سرسری نگاہ اس پر ڈالی۔
"رکھ دو وہاں"۔
شانزہ کا دل مرجھا گیا۔ وہ لاؤنج میں موجود صوفے پر بیٹھ گئے اور ٹی وی کھول کر دیکھنے لگے۔ وہ انہیں دیکھتی رہ گئی۔
"تایا ابو"۔ رمشا سو کر اٹھی تھی۔
"ہائے میرا بچہ اٹھ گیا؟ آجاؤ تایا ابو کے پاس"۔  ناصر صاحب مسکرائے اور اسے پاس بلایا۔ شانزہ کے حلق میں آنسؤوں کا گولا پنھسا تھا۔
"شانزہ میرے لئے ناشتہ بنا لاؤ!"۔ رمشا حکم دیتی ناصر صاحب کے کندھے پر سر رکھ گئی۔
"جاؤ شانزہ میری بیٹی کے لئے جلدی سے ناشتہ بناؤ!"۔ ناصر صاحب نے پلٹ کر بھی اسے نہ دیکھا تھا۔ شانزہ پلٹ گئی۔ آنکھیں رورہی تھی اور دل پھٹ رہا تھا۔ باپ اس کا تھا لیکن ایک لفظ محبت منہ سے نہ نکلا اب تک۔ وہ آنکھیں رگڑتی چولہا جلانے لگی۔ دس، پندرہ منٹ میں اس نے اس کے سامنے ناشتہ رکھا اور کالج کے لئے تیار ہونے لگی۔
تقریباً آدھے گھنٹے میں فاطمہ غصہ میں نیچے اتری تھی۔
"تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی؟"۔ وہ دونوں ہاتھ کمرے پر ٹکائے بولی۔
"بس اسکارف پہن رہی ہوں!"۔ اس نے اسکارف پر پن لگائی۔
"چلو جلدی آجاؤ!" فاطمہ نے ایک ہاتھ سے اس کا بیگ پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے اسے کھینچتے ہوئے باہر کی جانب لے جانے لگی۔
اور وہ بس "دو منٹ دو منٹ" کرتی رہ گئی۔
۔۔۔★★۔۔۔
ڈرائیونگ سیٹ پر امان تھا جبکہ اس کے برابر زمان غصہ میں بھنا بیٹھا تھا۔ امان نے ایک نظر اسے دیکھا اور پیچھے سے پانی کی بوتل اس کی طرف بڑھائی جبکہ ایک ہاتھ سے وہ ڈرائیونگ کررہا تھا۔
زمان نے اسے دیکھا اور منہ بنایا۔
"رکھ دو اسے جہاں سے اٹھایا تھا۔ کہیں اس میں تم نے زہر نہ ملایا ہو!" اس نے نظریں پھیریں۔
"امان بے ہوشی اور نیند کی دوا ملا سکتا ہے مگر اپنے بھائی کے لیے زہر نہیں ملا سکتا"۔ امان نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے اس کی گود میں بوتل پھینکی۔
"پکڑو مجھے نہیں چاہیے یہ پانی کی بوتل!" اس نے بوتل اٹھا کر اس کی جانب بڑھائی۔ امان نے کوئی جواب نہیں دیا۔
"میں نے کہا پکڑو مجھے نہیں چاہیے بوتل!"۔ وہ ہاتھ اس کی طرف یونہی بڑھایا ہوا تھا۔
امان نے اسے تیز نظروں سے گھورا۔ زمان کو کوئی فرق نہیں پڑا۔
"میں نے کہا پکڑو بوتل کو! مجھے نہیں چاہیے!"۔ وہ پھر بولا۔
"ایکٹنگ ذرا کم کرو زمان۔ رکھ دو ڈیش بورڈ پر۔ اٹینشن سیکر!"۔ وہ کہہ کر پھر آگے دیکھنے لگا۔
گاڑی اب پل پر چل رہی تھی۔
زمان نے اپنے چہرے کے زاویہ خوفناک حد تک بگاڑے اور زور سے ڈیش بورڈ پر بوتل رکھی۔ امان کی بس ہوگئی اور اس نے جھٹکے سے گاڑی روکی۔ سیٹ بیلٹ اتاری اور گھوم کر اس کی طرف آیا۔ آرام سے دروازہ کھولا۔ زمان سمجھا منزل آگئی۔ وہ اتر گیا۔
"یہاں کون ملنے آنے والا تھا؟"۔ زمان نے ماتھے پر بل ڈال کر چاروں طرف نظر دوڑائیں۔ امان واپس ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا اور گاڑی اسٹارٹ کردی۔ زمان نے پلٹ کر دیکھا تو وہ گاڑی آگے بڑھا چکا تھا۔ یہ پہلی بار نہیں تھا۔ وہ جب بھی امان کو یونہی تنگ کرتا وہ اسے ایسے ہی گاڑی سے اتار دیا کرتا تھا مگر اس بار فرق صرف اتنا تھا کہ زمان نے ہمیشہ کی طرح چلا چلا کر اسے روکنا نہیں چاہا تھا۔ وہ یہ جانتا تھا کہ وہ اپنے بھائی کو تنہا کہیں چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔ وہ خاموش رہا۔ وہ خود سے رکے گا زمان یہ بھی جانتا تھا۔ وہ پل کے کنارے آیا اور دیوار سے نیچے جھانکنے لگا۔ نیچے ندی تھی۔ زمان اچک کر دیوار پر بیٹھ گیا۔
اس نے بیک مرر سے اسے دیکھا! وہ چلا نہیں رہا تھا۔ اس بار زمان واقعی خاموش تھا۔ امان نے گاڑی کی رفتار آہستہ کی۔ اس نے ترچھی نگاہ سے امان کی گاڑی دیکھی اور دیوار پر کھڑا ہوگیا۔ اب صورتحال کچھ ایسی تھی کہ زمان کے قدم اگر ذرا سے بھی ڈگمگاتے تو ندی میں گر جاتا۔ اس کی اس حرکت پر امان کے دل میں خوف پیدا ہوا۔ زمان اس کے بارے ٹھیک کہتا تھا کہ وہ غصے میں بہت کچھ کردیتا ہے اور اس کے بعد پچھتایا کرتا تھا۔ اب زمان اسے دکھانے کے لئے جان بوجھ کر آگے پیچھے ہونے لگا۔ امان نے اسے بیک مرر سے گھورا اور تیزی سے گاڑی ریورس کر کے اس کے برابر روکی۔ گاڑی سے وہ تیزی سے نکلا اور اس کا بازو پکڑ کر اسے کھینچا۔
"چھوڑو میرا ہاتھ! مجھے نہیں جانا امان"۔ وہ واقعی ڈرامہ تھا۔ امان نے اسے پکڑ کر گھسیٹا۔ وہ ہاتھ چھڑاتا رہ گیا۔ جب امان نے دیکھا کہ وہ مسلسل مزاحمت کررہا ہے تو وہ اسے پھر دیوار تک لے آیا۔
"کودو"۔ امان نے پانی پر ایک نظر ڈال کر اس سے کہا۔ زمان گبھرا گیا۔
"میں نے کہا کودو پانی میں۔ بہت شوق چڑھ رہا ہے نا خودکشی کا؟ کودو پانی میں جلدی سے وقت کم کے میرے پاس! میٹنگ کے بعد لنچ کرنے بھی جانا ہے!"۔ وہ ہاتھ میں پہنی واچ کو دیکھتے ہوئے بولا۔
"ایسے تو میں مرجاؤں گا"۔ زمان نے تھوک نگلا۔
"خودکشی جینے کے لئے کی جاتی ہے کیا؟"۔ امان سپاٹ لہجے میں بولا۔
"مگر پھر تم میرے بنا کیسے رہو گے میرے بھائی؟"وہ کسی طرح اسے آمادہ کرنے میں لگا تھا۔
امان نے بنھویں اچکا کر سینے پر ہاتھ باندھا۔
"جیسے جی رہا تھا۔ تم تو جیسے میرے لئے ناشتہ، کھانا، کپڑے دھونا سب کرتے تھے۔ کودو فوراً"۔ وہ آخری جملہ سختی سے کہتا ہوا اسے آگے کی طرف ہلکا سا دھکا دے گیا۔
"کہتے ہیں جڑواں بھائی مرجائے تو دوسرا خود بہ خود مرجاتا ہے۔ میں یہ جانتے ہوئے تمھیں مارنا نہیں چاہتا"۔ وہ میسنی شکل بناتا ہوا بولا۔ امان نے دانت پیسے۔ زمان اس کو جلانے کے لئے مسکرایا۔
امان نے نفی میں سر ہلایا اور اسے پکڑ کر ندی میں پھینک دیا۔ زمان کی چیخیں بلند ہوئیں اور اسی وقت وہ زور آواز کے ساتھ  پانی میں گرا تھا۔ پل پر کھڑے امان نے دونوں ہاتھ کوٹ کی جیبوں میں ڈال کر پل سے نیچے دیکھا۔  وہ اس کا شوق پورا ہوتے دیکھ رہا تھا جبکہ زمان چیخ کر ہاتھ پیر ماررہا تھا۔مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ امان کا دل چاہا اسے شوٹ کردے۔ اس نے دانت پیس کر زمان کو دیکھا۔ زمان اب بھی چیخ رہا تھا۔
"امان میں مرجاؤں گا"۔ اس کی حالت خراب ہورہی تھی۔ وہ پانی میں ہاتھ ماررہا تھا قریب تھا کہ ڈوب جاتا۔ امان نے اسے ناگواری سے دیکھا۔
"ہاں میں اس کا ہی انتظار کررہا ہوں۔ حیرت ہے ایک ماہر تیراک پانی میں گر کر مرنے کی باتیں کررہا ہے۔ ہاں! وہ کرسکتا ہے کیونکہ اسے ایسے سین پیدا کرنے میں مزہ آتا ہے"۔ یہ جملہ اس نے چبا کر ادا کیا تھا۔ زمان ٹھٹھکا۔ وہ یہ کیسے بھول سکتا ہے کہ وہ تیراکی جانتا ہے۔ وہ تیرتا ہوا کنارے تک آیا تھا۔
ایک کٹیلی نظر سے زمان کو دیکھتا ہوا امان ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا۔
زمان ٹھٹھرتا ہوا آیا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ گیا۔ اس نے گاڑی اسٹارٹ کی۔ ٹھنڈ سے اس کا بدن کانپنے لگا۔ اس نے گاڑی میں بیٹھ کر ڈیش بورڈ پر سے پانی کی بوتل اٹھائی اور اسے پینے کے لئے کھولی۔ امان نے ایک نظر اسے دیکھا۔
"اس میں زہر ہے۔ مت پیو" زمان ٹھٹھکا۔
"مگر تم نے کہا تھا کہ تم زہر کبھی نہیں ملا سکتے"۔ زمان نے زبان چڑائی اور بوتل لبوں سے لگالی۔
"گارڈز" اس کی گاڑی کے پیچھے گارڈز ہتھیار لئے بیٹھے تھے۔
"جی دادا!" ان میں سے ایک بولا۔ امان نے ایک بھرپور نگاہ زمان پر ڈالی جو اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
"کفن دفن کا سامان خرید لو۔ زمان میاں رختِ سفر باندھنے کو ہیں"۔ امان نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔
زمان نے زاویے بگاڑے۔
"اگر میں مرجاتا تو؟"۔ زمان نے دل پر ہاتھ رکھا۔
"وہ تو تم اس زہر والے پانی سے ہی مرجاؤ گے"۔ امان بھی اب اسے چھیڑ رہا تھا۔ زمان نے اسے روکا نہیں۔ اس کے بھائی کا مزاج اچھا تھا اس کے لئے اس سے بڑی خوشی کیا ہوگی۔
"اور اگر میں واقعی مرجاؤں تو؟"۔ وہ اب سنجیدگی سے گویا ہوا۔
امان کا دل لرز اٹھا۔
قریب تھا کہ گاڑی کو بریک لگاتا۔ زمان نے اس کی یہ حالت دیکھی لیکن اسے کول رکھنے کے لئے وہ ہنس دیا۔
"میں نہ کہتا تھا کہ تم واقعی اٹینشن سیکر ہو!"۔ امان غصے میں بولا۔
"تم سب چھوڑو یہ بتاؤ اس آدمی سے مجھے ایسے ملوانے لے کر جاؤ گے؟ میں گیلا ہورہا ہوں"۔ زمان پریشانی سے بولا۔
"کچھ نہیں ہوتا"۔
"وہ بھی بولے گا چھوٹے بھائی نے کیا حالت کردی بڑے بھائی کی"۔ زمان نے افسوس کیا۔
"کہہ دینا کہ گٹر کے صاف پانی میں گر گیا تھا"۔ امان کہ کہتے ہی زمان نے دکھ سے اسے دیکھا۔
"گٹر کا پانی اور وہ بھی صاف؟؟ خیر وہ گٹر کا پانی نہیں تھا امان۔ ندی کا تھا"۔ زمان نے بوتل سے پانی نکال کر چہرہ کھڑکی سے باہر کرکے چہرہ دھویا۔ اس نے جیب سے رومال نکالنا چاہا تو رومال گیلا ہوچکا تھا۔ اب وہ بھائی کے کوٹ میں سے رومال نکالنے کے چکر میں تھا۔ 
"سنو!"۔
"ہممم؟" امان سرسری انداز میں بولا۔
"رومال دینا ذرا"۔
"میں اپنا رومال نہیں دوں گا"۔
"پوچھ کون رہا ہے"۔ اس نے جھٹکے سے اس کی جیب سے رومال نکالا۔
امان دانت پیس کر رہ گیا۔ وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا کیونکہ وہ ڈرائیونگ کررہا تھا۔ اچھی طرح منہ ہاتھ صاف کرکے اس نے اور پانی ڈالا چہرے پر!
"گندگی صاف کرو۔ کچھ عجیب سا لگا ہے تمھارے چہرے پر!"۔ امان نے بغور اس کا چہرہ دیکھا۔
"کہاں؟" زمان نے اسے چہرہ دکھایا۔
"اوہ سوری میں سمجھا گندگی ہے۔ یہ تو تمھارا منہ ہے!" وہ کہہ کر کچھ لمحہ خاموش رہا۔ زمان پہلے تو کچھ سمجھا نہیں اور جب سمجھا تو بے یقین سا ہوکر اسے دیکھنے لگا۔
"تم میری بے عزتی کررہے ہو؟"۔
"بلکل" وہ مسکراہٹ دبا کر بولا۔
"یہ مت بھولو جو میرا منہ ہے وہی تمھارا منہ ہے! ہم دونوں جڑواں ہے اس لئے"۔
زمان نے نظریں پھیریں۔
"چلو اس بہانے یہ خاموش رہے گا اب!"۔ امان شاہ نے دل میں سوچا۔
"کس سے ملوانا ہے ویسے تم نے؟" وہ پھر سے باتیں کرنا شروع ہوگیا تھا۔ امان کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔
"ہاشم سے"۔
"ہو از ہاشم؟"۔
"ڈیفینس کا ہے"۔
"جس نے عمران کو مارا؟"۔
"ہمم"۔
"سنا ہے اس کا کزن حدید بھی شامل تھا!"۔
"ہمم"۔
"دونوں جڑواں لگتے ہیں کیا ہماری طرح؟"۔
"ہمم!"۔
"لیکن وہ بھائی تو نہیں بلکہ کزنز ہیں!"۔
"ہممم!"۔
"سنا ہے عمران نے فجر نامی لڑکی کو اٹھایا تھا؟"۔
"ہمم!"۔
"سنا ہے وہ اب ہاشم کی بیوی ہے؟"۔
"ہمم!"۔
"سنا ہے عمران نے فزا نامی لڑکی کو بھی مروایا تھا؟"۔
"ہممم!"۔
"سنا ہے وہ ہاشم کی دوست تھی؟"۔
"ہممم!"۔ امان کے سر میں ٹیسیں اٹھنے لگیں۔
"سنا ہے۔۔۔" امان نے اسکی بات کاٹی۔
"چپ کرو! اب بکواس کی تو پستول کی ساری گولیاں تمھارے دماغ میں پیوست کردوں گا"۔ وہ دھاڑا۔
زمان ساکت ہوا۔
"پھر لوگ بولیں گے سنا ہے امان شاہ نے اپنے بڑے بھائی کو ماردیا؟"۔ وہ معصومیت سے بولا۔
"شٹ اپ! جسٹ شٹ اپ!" وہ چیخا۔۔۔
زمان نے خفا خفا سی نظر اس پر ڈال کر دوسری جانب پھریں۔ اب امان سکون سے گاڑی چلانا چاہتا تھا۔
۔۔۔★★۔۔۔
وہ ماضی کو سوچنا چاہتی تھی۔ کب کب کہاں کہاں اس سے غلطیاں ہوئیں۔ وہ سب سے ہٹ کر چلی تھی۔ وہ منہاج سے محبت کرتی تھی۔ دونوں یونیورسٹی میں ساتھ پڑھتے تھے۔ ایسی بات نہیں تھی کہ منہاج محبت نہیں کرتا تھا۔ اگر منہاج اور ماہ نور کی محبت کو تولا جائے تو یقیناً منہاج کا پلڑا بھاری ہوگا۔ مگر دونوں کی محبت کرنے کا انداز الگ تھا۔ وہ محبت نہیں اذیت پسند تھا، شدت پسند تھا۔ ماہ نور جانتی تھی وہ صرف اس کے لئے ایسا ہے۔ وہ خوش تھی کہ اسے کوئی محبت کرنے والا ملے گا۔ مگر اس کی زندگی جو بعد میں ہونے والی تھی وہ کسی بھیانک خواب سے کم نہیں تھی۔ اس نے منہاج کے لئے اپنے گھر والوں کو چھوڑ دیا۔ وہ بھاگ گئی گھر سے! اپنے گھر کے مکینوں کے دلوں سے بھاگ نکلی اور انہیں یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کردیا کے ماہ نور ان کے لئے مرگئی۔ جس کے لئے گھر سے نکلی اس نے اپنی شدت پسندی سے اسے اندر سے ماردیا۔ روز کی مار کھا کھا کر وہ تھک چکی تھی۔ گھر مڑنا چاہا تو یاد آیا کہ وہ تو مرچکی ہے۔ ساری زندگی وہ اس شخص کے ساتھ گزارے گی، یہ بات اسے اندر سے اور ماررہی تھی۔ جب گھر کا سربراہ ایسا ہو تو پورا خاندان میں اس کی خصلتیں آجاتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو اس کی طرح نہیں بنانا چاہتی تھی۔ مگر کسی کو تو باپ پر جانا ہی تھا۔ اس کے ایک بیٹے کا انداز بلکل اپنے باپ پر جارہا تھا۔ یہ بات اسے دن بہ دن سہما رہی تھی۔ جب منہاج اسے ڈھونڈ رہا تھا تب اس کے بیٹے نے ہی بتایا تھا کہ اس کی ماں کہاں چھپی ہے۔ جب اس کا شوہر اسے مارتا تو وہ بےحد غور سے اسے دیکھتا تھا۔ وہ منہاج کی دراز کھول کر اس کا بلیڈ دیکھا کرتا تھا۔ کئی بار اس نے اپنے ہاتھ پر رکھنے کی کوشش کی مگر ماہ نور آگئی۔ اس نے اسے ڈانٹا نہیں! کہ ڈانٹتی تو وہ ضد پکڑ لیتا۔ اسے سمجھانے لگتی پیار سے! مگر وہ اپنے باپ کا عکس بنتا جارہا تھا۔ وہ اپنی ماں سے بے حد محبت کرتا تھا لیکن اسے خون اور مار پیٹ کے بارے میں اب بات کرنا اچھا لگتا تھا۔ جب بھی منہاج اس پر ہاتھ اٹھاتا تو دونوں تڑپ جاتے۔ ان کا دل چاہتا وہ اپنے باپ کو غائب کردیں۔ ماہ نور چیختی چلاتی۔ وہ شدت پسندی سے اس کا چہرہ دبوچتا۔ انہیں اپنا باپ اپنی ماں اور اپنا دشمن لگتا تھا۔ وہ چلا چلا کر روتے تھے اور اپنے باپ کو اپنی ماں کے پاس سے دور کرنے کی کوشش کرتے تھے اور پھر وہ دن بھی آیا جب وہ یوں ہی تڑپ تڑپ کر مرگئی اور اس دن ان دونوں کو اپنے باپ سے پہلی بار اتنی شدید نفرت محسوس ہوئی۔ منہاج اس کی لاش کو تپھتپھاتا رہ گیا مگر وہ بےجان تھی۔ وہ دونوں بچے محض ۱۴ سال کے تھے۔ اپنے باپ جیسا بننا نہیں چاہتے تھے۔ اس دن منہاج اتنا رویا کہ رات گزرنے کا پتا ہی نہ چلا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رورہا تھا۔ وہ چیخ رہا تھا۔ غم سہتے سہتے تھک گیا تو کچھ دنوں بعد اس نے پستول اٹھائی اور اپنی کنپٹی پر چلادی۔ بچوں نے منہ موڑا۔ وہ اس کی شکل دیکھنے روادار نہیں رکھتے تھے۔ اس کی میت دیکھنے کے لئے بھی اس کی جانب نہ آئے۔ دن گزرتے رہے لیکن امان نے نہ چاہتے ہوئے بھی باپ کی عادتوں سے بہت کچھ چرالیا تھا اور زمان اپنی ماں پر چلاگیا تھا۔ ہنستا مسکراتا معصوم سا۔ ماضی کی تلخیاں اور مستقبل کی صورتحال دیکھ کر وقت سے پہلے امان سمجھدار ہوگیا تھا۔ وہ زمان کو ایسے رکھتا جیسے وہ اس سے بڑا ہو۔ ایک شدت اور اذیت پسند شخص۔ سب کو وہ منہاج کا سایہ لگتا مگر کوئی اس کے منہ پر یہ بات کہہ نہیں سکتا تھا۔ وہ اپنے باپ سے نفرت کرتا تھا۔ اس کے باپ کی وجہ سے اس کی ماں مری تھی یہ بات اسے دن رات ستاتی تھی۔ زمان جب امان کو اس حالت میں دیکھتا تو وہ اس کے لئے دعا ضرور کرتا تھا کیونکہ اُس کی زندگی میں آنے والی لڑکی کی اپنی ماں کی طرح حالت نہیں چاہتا تھا۔
۔۔۔★★۔۔۔
"زمان یہ ہے ہاشم!"۔ امان نے دونوں ہاتھ کوٹ کی جیب ڈالے۔ زمان نے خوش اسلوبی سے ہاتھ بڑھایا۔ ہاشم بےاختیار مسکرایا۔
"آپ وہی ہیں نا جس نے عمران کو مارا تھا؟"۔ وہ پھر سے شروع ہوگیا تھا۔ امان نے بنھویں اچکائیں اور اسے ہاتھ کے اشارے سے روکا۔ زمان خاموش ہوا۔
"مجھے عمران کے موضوع پر بات نہیں کرنی ہے!" امان سخت لہجے میں بولا تھا۔ زمان نے اثبات میں سر ہلایا۔
"تمھارا کام کیسا جارہا ہے؟" امان نے ٹہھر کر پوچھا۔
"دادا ٹھیک ہی جارہا ہے!" ہاشم نے جواب دیا۔
"میں چاہتا ہوں کہ تم ابھی جس آدمی کے پیچھے تھے اس سے دور ہٹ جاؤ!" وہ اصل بات کی طرف آیا۔
ہاشم کے ماتھے پر بل آئے۔
"مگر دادا وہ آدمی ٹھیک نہیں!"۔
"میں باتیں نہیں دہرانا چاہتا۔ مجھے اپنے کام میں کسی کی شرکت پسند نہیں!" ہاشم نے اثبات میں سر ہلایا۔
"اگر آپ اس کام میں انوالو ہوں گے تو میری ضرورت نہیں! کام خود بخود ہی ہوجائے گا! جیسا آپ کہیں!" ہاشم نے ہاتھ آگے بڑھایا جو امان نے تھاما تھا۔
"اور مجھ سے کیوں ملوانا تھا؟" زمان نے سنجیدگی اختیار کی۔
"میں چاہتا ہوں کہ تم کام سنبھالو!"۔
زمان نے نفی میں سرہلایا۔
"میں یہ کام نہیں سنبھالوں گا۔ میں جس میں کمفرٹیبل محسوس کرتا ہوں میں وہی کروں گا امان! میں آفس جاتا ہوں وہاں دیکھتا ہوں کام اتنا کافی ہے! میں ان چکروں میں نہیں پڑنا چاہتا اور امید ہے مجھے اس میں کوئی زبردستی نہیں کرے گا!"۔ زمان نے یہ بات سنجیدگی سے کہی تھی۔
امان گہری سانس لئے اسے دیکھ رہا تھا۔
"میں تمھیں اس پر فورس نہیں کروں گا۔ تمھیں جو کرنا ہے تم کرو!"۔ امان بات آسانی سے مان گیا تھا اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی کی بات ہوسکتی۔
"تھینک یو!"۔ وہ دھیرے سے مسکرایا۔
"چلیں پھر مسٹر امان اینڈ زمان! ملاقات ہوتی ہے آپ سے"۔ ہاشم نے زمان سے ہاتھ ملایا اور بات ختم کرکے اپنی راہ ہولیا۔
۔۔۔★★۔۔۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now