قسط ۱۴

3.3K 190 45
                                    

"۱۶ دسمبر
ماہ نور نے بچوں کا روم سیٹ کیا ہے، مگر میں انہیں اپنے ساتھ سلاؤں گا اور انہیں پل بھر کے لئے بھی جدا نہیں کروں گا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم ایسا کیوں کررہی ہو تو وہ مسکرائی اور کہا کہ وہ بچوں کا صرف روم بنا رہی ہے اور ڈیزائن کررہی ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں اور پھر ہم دونوں نے مل کر اپنے بچوں کا کمرہ سیٹ کیا" زمان کو بےاختیار منہاج پر پیار آیا۔ باپ کی جگہ کوئی شخص نہیں لے سکتا تھا حتی کہ ایک ماں بھی نہیں۔ ان کے آنے سے وہ اتنا خوش تھا کہ اپنے آپ کو بھول گیا تھا۔
"۱۸ دسمبر
میں سوچ رہا ہوں کمرے کا رنگ کونسا ہونا چاہئے؟ نیلا یا پنک؟ اگر وہ دونوں لڑکیاں ہوئیں تو گلابی اچھا لگے گا اور اگر دونوں لڑکے ہوئے تو نیلا اچھا لگے گا۔ لیکن اگر ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہوئی تو؟ میرا تو اب دماغ ہی کام نہیں کررہا۔ کنفیوژن ہورہی ہے مجھے۔ آج ہم نے بہت ساری شاپنگ کی کہ گاڑی میں جگہ کم پڑگئی۔ میں اسے ہر دکان پر لے کر گیا۔ تقریبآ بچوں کے استعمال کی ہر چیز خریدی اور ماہ نور مجھے دیکھ کر صرف ہنستی رہی۔ بھلا بتاؤ ایک باپ اپنی خوشی اور کس طرح ظاہر کرے؟"۔
دونوں کے لئے باپ کے احساسات جان کر وہ بےاختیار مسکرایا۔
۱ جنوری
میں بےحد پریشان ہوں ڈیئر ڈائری۔ ماہ نور بہت رورہی ہے۔ اسے اپنا گھر یاد آرہا ہے۔ وہ اپنے مام ڈیڈ سے ملنا چاہتی ہے۔ مجھے ایسے میں کیا کہنا چاہئے؟ کیا میں اسے اجازت دے دوں؟ اس کی جو حالت ہے میں اسے دکھ اور تکلیف نہیں دینا چاہتا۔ میں نے اس سے کہہ دیا ہے میں اسے کل ملوانے لے جاؤں گا مگر پریشانی یہ ہے کہ اس سب کے بعد وہ اس سے ملیں گے؟ اسے گلے لگائیں گے؟ نہیں مگر میں اسے منع کرکے تکلیف نہیں دینا چاہتا"۔
"۲ جنوری
انہوں نے اسے دھتکار دیا۔ رشتے دھتکار ہی تو دیتے ہیں۔ لگتا ہے دونوں کا ہی نصیب ایک جیسا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماہ نور انہیں ایک دفع مار گئی تھی تو وہ مْردوں کے پاس کیا لینے آئی ہے اب؟ وہ روتی جارہی ہے اور میرے پاس دینے کو دلاسہ تک نہیں۔ مجھے تکلیف ہورہی ہے"۔
"۳۰ جنوری
اس کی اچانک طبیعت خراب ہوگئی تھی ڈیئر ڈائری۔ میں بہت ڈر گیا تھا۔ اب میں کوریڈور میں بیٹھا تمھارے صفحوں پر کانپتے ہاتھوں سے قلم پکڑے لکھ رہا ہوں۔ اللہ کرے سب خیریت اور عافیت سے ہوجائے۔ آمین۔۔۔ میں تم سے آج نہ بات کر پاؤں گا اور نہ وقت دے پاؤں گا۔۔۔ خدا حافظ"
"۱ فروری
انہیں اس دنیا میں آنکھ آج تیسرا دن ہے اور میری خوشی کا یہ عالم ہے کہ وہ ابھی بھی میری گود میں لیٹے ہیں اور میں تمھیں لکھ رہا ہوں۔ اللہ نے مجھے دو خوبصورت بیٹے دیئے ہیں۔ وہ دونوں خاموشی سے اپنی آنکھیں کھولے مجھے دیکھ رہے ہیں اور میں تمھیں سب بتانا چاہتا ہوں۔ بھلا تمھیں اپنی خوشی کا نہیں بتاؤں گا؟ تم وہ ہو جس نے مجھے سنبھالا۔ میں تنہا مرجاتا اگر تم میری داستانِ درد نہ سنتی۔ میرے آنسو اور خون کے چھینٹے بھی تمھارے صفحوں پر محفوظ ہیں۔ یہ بچے مجھے دیکھ رہے ہیں اور میں مسکرارہا ہوں۔ میں نے بہت سوچا اور اب فیصلہ کیا ہے کہ ایک کا نام "امان" رکھوں گا۔ میں اسی سے ملتا جلتا دوسرا نام بھی کل سوچ ہی رہا تھا کہ ماہ نور نے "زمان" نام کی تجویز دی۔ ہاں یہ دونوں نام بے حد خوبصورت ہیں۔ ان کے نین و نقش بھی بلکل مجھ پر ہیں۔ ہاں مگر آنکھیں اپنی ماں سے چرالی ہیں جو کہ بےحد خوبصورت ہیں"۔
"۳ فروری"
"اللہ یہ دونوں ایک جیسے ہیں ڈیئر ڈائری۔ مانا کہ جڑواں ہیں مگر اتنے جڑواں؟ میں زمان کو پکارتے پکارتے امان کو اٹھالیتا ہوں تو کبھی امان کہتے کہتے زمان کو۔ ماہ نور ہنستی رہتی ہے اور میں کنفیوز رہتا ہوں۔ آج میں نے دونوں کو اپنے سامنے لٹایا تاکہ ایسا کوئی فرق مل جائے کہ انہیں مخاطب کرنے میں پریشانی نہ ہو، مگر وہ دونوں ایک جیسے ہیں۔ میں اتنا خوش ہوں کہ پورا پورا دن انہیں پاس ہی رکھتا ہوں۔ ماہ نور کہتی ہے کہ مجھے اب دوبارہ سے آفس جانا چاہئے۔ سوچ رہا ہوں کل سے چلا جاؤں۔ مگر سچ میں یہ دونوں مجھے بے حد عزیز ہیں"۔
"۲۴ فروری
میں ماہ نور پر ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ کسی چیز سے وار کرتا ہوں تو آج بھی بیلٹ سے مارا۔ وہ چیختی رہ گئی اور میں مارتا رہا۔ اس وقت تک جب تک میرا غصہ نہیں اترا۔ اتنا مارا کہ نیل پڑگئے اور کہیں کہیں سے خون رسنے لگا۔ تمھیں پتا ہے کیوں؟ وہ اپنے ماں باپ سے ملنے جانا چاہتی تھی انہیں منانے جانا چاہتی تھی جنہوں نے اسے دھتکار دیا، مگر میں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ میں نہیں چاہتا کہ وہ ایک بار پھر تمہیں بےعزت کریں۔ میری بات پر زور سے چیخی اور کہا کہ اگر میں نے اسے جانے نہیں دیا تو وہ مجھے چھوڑ کر خود چلے جائے گی۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگی اور پھر مجھے نہیں معلوم میں اسے کتنی دیر تک مارتا رہا۔ مجھے اپنی حرکت پر کوئی ملال نہیں۔ اپنے باپ کی زندگی سے میں نے یہی سبق سیکھا کہ اگر عورت جدائی کا نام لے تو کچھ ایسا کرو کہ آئندہ وہ بھول کر بھی چھوڑ جانے" کا لفظ ادا نہ کرے۔۔۔ اور بس میں نے یہی کیا اور آئندہ بھی یہی کروں گا۔ میں اسے دیکھنے جارہا ہوں۔ اس کے زخم صاف کرنے ہیں"۔
زمان نے لب بھینچے۔۔
کب اسے پتا نہ چلا کہ آنکھیں نم ہوگئیں۔
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کے باپ نے اتنی لمبی زندگی گزار کیسے لی؟ سانس لینا دشوار ہورہا تھا تو وہ ڈائری اٹھا کر ٹیرس پر آگیا۔ وہ چوتھی منزل کے ٹیرس سے پورے شہر کو دیکھ سکتا تھا۔ آدھی سے زیادہ رات گزر چکی تھی۔ شہر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، بس کچھ دور کچھ کچھ روشنیاں تھیں۔ تیز ہوا کا جھونکا آیا، اس نے اپنی آنکھیں دھیرے سے بند کیں اور ایک لمبی سانس ٹھنڈی فضا میں خارج کی۔ گویا وہ اپنے اندر مچلتا ہر اذیت ناک لمحہ باہر نکال رہا ہو۔ وہ دونوں ہاتھوں کی کہنیاں ٹیرس کی دیوار سے ٹکا کر پورے شہر پر نظر دوڑا رہا تھا۔
کیا یاد دلاؤں اب میں۔۔۔
کیا درد سناؤں اب میں؟
وہ وعدے جو بھول گئے۔۔۔
کبھی تم جو ملو گے۔۔۔
یاد پھر ہم بھی دلائیں گے۔
درد کس کو سنائیں گے؟
کبھی آؤ تو مل بیٹھیں گے۔
ایک داستانِ درد سنائیں گے۔
ایک سفر ہے نام زندگی۔
وہ ہم تم کو بتائیں گے۔
کس لمحے کس موڑ پر۔۔
ہم کیوں بکھرے ٹوٹ کر۔۔
یہ باتیں ہم بھی بتائیں گے۔
یہ داستان اب ہم سنائیں گے۔
کاش یہ زندگی گزارنا اتنا مشکل نہ ہوتا۔ نہیں زندگی گزارنا مشکل نہیں ہوتا بلکہ کچھ لوگ آپ کی زندگی کو مشکل بنادیتے ہیں۔ کسی نہ کسی کہانی میں کوئی کردار ایک ایسی غلطی کرتا ہے جس کی سزا دوسرے لوگوں کو بھی اپنی پڑتی ہے ۔ ایک کردار ان کی کہانی میں بھی تھا۔ ایک عورت کی ایک غلطی کی سزا پوری نسل بھگت رہی تھی۔ ایک عورت یا ایک مرد کی کی گئی غلطی نسلیں تباہ کرسکتی ہے، اس کے لئے سب کا اکٹھا ہونا ضروری نہیں۔
اس نے کہنیاں دیوار سے ہٹائیں اور ڈائری کھول کر دیوار پر رکھی۔ ٹھنڈی ہوا اس کے چہرے کو چھوتی ہوئی اسے سکون دے رہی تھی۔
"۱ اگست
وہ دونوں کرالنگ کرنے لگے ہیں اور شرارتیں اتنی کہ میں اور ماہ نور ان دونوں کے پیچھے ہی بھاگتے رہتے ہی ۔ بس مجھے ڈر لگتا ہے کہیں یہ خود کو نقصان نہ پہنچائیں اس لئے اب دفتر سے جلدی آتا ہوں کہ ماہ نور کی مدد کردوں۔ دو منٹ ڈیئر ڈائری میں آتا ہوں (آخری الفاظ جلدی جلدی میں لکھے گئے تھے جس کی وجہ سے ہینڈ رائٹنگ گندی ہورہی تھی)
اللہ یہ زمان کا بچہ بہت شرارتیں کرتا ہے۔۔۔ یہ میرا بچہ ہے۔۔۔ میں بچپن میں اس سے ذیادہ شرارتیں کرتا تھا مگر پھر کسی نے بچپن میں پچپن والی زندگی تھمادی کہ ۱۰ سال کی عمر سے بوڑھے شوق پیدا ہوگئے۔ مجھے جانا بھی اس لئے پڑا کیونکہ زمان کی الماری پر چڑھنے کی ناکام کوششیں۔ ایسے میں اسے دیکھنا پڑتا ہے کہ خود کو نقصان نہ پہنچالے۔ اس کے برعکس امان بہت پرسکون رہتا ہے اور ہنستا رہتا ہے۔ مجھے امان میں اپنا آپ دکھتا ہے۔۔۔ وہ سنجیدہ رہتا ہے۔ بہت کم روتا ہے، مگر میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے مجھ جیسی زندگی گزاریں۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ سب بچوں کی طرح یہ کہیں کہ وہ بھی اپنے باپ جیسا بننا چاہتے ہیں کیونکہ وہ کبھی بھی میرے بارے میں کچھ نہیں جان پائیں گے۔ یہ ڈائری ان سے بہت دور رہے گی۔ اتنی دور کہ بڑے ہوکر وہ تمھیں تلاشنا چاہیں گے تو ان کے ہاتھ کیا اس جگہ تک سوچ بھی نہیں جائے گی جہاں میں تمھیں چھپا کر رکھا کروں گا۔ میں نہیں چاہتا وہ مجھے پڑھیں۔ کیا پتا وہ مجھے غلط سمجھیں؟ کیا پتا وہ یہ ڈائری میں لکھے الفاظ پڑھ کر وہ محسوس نہ کر پائیں جن سے میں درحقیقت گزرا ہوں؟ میں چاہتا ہوں وہ مجھے ایک مضبوط اور ایک اچھا باپ سمجھیں۔۔۔۔ نہ کہ میری ماضی کی گھتیاں سلجھائیں۔ یہ سفرِ زندگی میرے جیسے انسان کے لئے طویل ہے، مگر ان کے لئے نہیں ہوگا کیونکہ انشاءاللہ انہیں وہ سب برداشت نہیں کرنا پڑے گا جو میں نے کیا۔ میں چاہتا ہوں میرے ماضی میں الجھ کر اپنی جوانی نہ برباد کریں بلکہ زندگی کو مزے سے جئے۔ میں اپنے بچوں کے لئے بے انتہا فکر مند ہوں۔ باپ ہوں نا؟ جبھی!"۔
کاش وہ پل مجھے دو پل کے لئے لوٹادیئے جائیں تو وہ اپنے باپ کو کس کر گلے سے لگانا چاہے گا۔
زمان نے سوچتے ہوئے اتنے صفحے پلٹے گویا منہاج کی زندگی کے پانچ چھ سال اور بیت گئے۔
"منع کیا تھا اسے مگر یہ میرا موبائل اسکول لے گیا۔ یا اللہ میں زمان کا کیا کروں۔ ماہ نور نے کہا کہ وہ ڈانٹے گی اسے، مگر میں نے سختی سے اسے منع کردیا۔ وہ اسے ڈانٹے گی تو وہ روئے گا اور میں روتے نہیں دیکھ سکتا۔ یا خدایا میری ضروری کالز آنی تھیں۔ جب اس نے اپنی خواہش رکھی تو میں نے اسے سمجھایا کہ میری کالز آنے والی ہیں مگر وہ اب موبائل لے گیا حالانکہ کہ میں نے اسے منع کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں آفس نہیں جاپایا۔ ڈیئر ڈائری زمان آدھ پون گھنٹے میں اسکول سے آئے گا اور جب میں اپنے فون کا پوچھوں گا تو کہے گا پاپا آپ نے ہی تو اجازت دی تھی۔ اب اس کو کون بتائے کہ اگر وہ ڈرامے باز یے تو منہاج اس کا باپ ہے۔ اسکی شرارتیں وہ نہیں سمجھے گا کیا؟ اور پھر جب میں کہوں گا کہ میں نے نہیں دی تھی اجازت، تو رونا شروع کردے گا یہ کہہ کر کہ آپ نے دی تھی آپ بھول گئے۔ یا اللہ اب میرا ہی رونے کا جی چاہ رہا ہے ضروری میٹنگ تھی جو اس چھ سالہ بچے کی وجہ سے چھوٹ گئی"۔
ذمان یہ پڑھ کر زور سے ہنسا۔
ہاں اسے یاد ہے۔۔۔
اسے یاد ہے کہ جب اس کے باپ نے اسے پیار سے سمجھایا تھا کہ زمان پاپا کی کچھ کالز آنے والی ہیں۔ میں آپ کو رات آفس آنے کے بعد دے دوں گا۔ ٹھیک؟ پہلے تو وہ ناراضگی سے دیکھتا رہا پھر کچھ سوچ کر حامی بھر لی۔ منہاج حیران ضرور ہوا تھا کہ اس کی آنکھ سے ایک آنسو بھی نہ ٹپکا
"مجھے کوئی پیار نہیں کرتا" والے تکیہ کلام کے ساتھ، مگر پھر بوسہ دے کر اٹھ کھڑا ہوا اور موبائل سنگھار میز پر رکھ کر باہر چلا گیا۔ پھر یک دم نیچے کچن سے ماہ نور نے زمان کو آواز دی کہ نیچے آؤ اسکول بس آنے والی ہے تو وہ "آیا ماما۔۔۔" کہتا ہوا سنگھار سے موبائل دیکھنے لگا۔ اس نے موبائل کی اسکرین کھولی اور اسکی آواز بند کرکے بیگ میں رکھ دیا اور نیچے بھاگ گیا تھا۔ وہ وقت بھی کیا تھا جب وہ اپنے گھر کا چھوٹا چور ہوا کرتا تھا۔۔۔۔ اب بھی تھا مگر اس بار صرف بھائی کا۔۔۔ زمان ہنسنے لگا۔
زمان نے صفحے پلٹے۔
"امان بولتا کم ہے مگر ہنستا بہت ہے۔ اسکی آنکھیں سب کہتی ہیں۔ جوں ہی میں آفس سے آتا ہوں مجھے دیکھ کر حیرت و خوشی سے آنکھیں پھاڑتا ہے اور بھاگتے ہوئے میری گود میں چڑھ جاتا ہے۔ میں اسے پیار کرتا ہوں اور اگر اس وقت زمان دیکھ لے کہ میں امان کو گود میں اٹھا کر پیار کررہا ہوں پھر اس کے دل پر گہری چوٹ پڑتی ہے اور وہ صدمہ میں چلے جاتا ہے اور کہتا ہے "مجھ سے تو کوئی پیار ہی نہیں کرتا؟"۔۔ اسے منانا ناممکن ہوجاتا ہے پھر ہاتھ جوڑ کر ترلے کرنے پڑتے ہے کچھ سمجھانا پڑتا ہے پھر اپنے ننھے منھے آنسو جو اندر سے پانی کے چھینٹے چہرے پر مار کر اسے آنسو کی صورت دیتا ہے دکھانے لگتا ہے۔ لیکن اس پر پیار ہی اتنا آتا ہے کہ اس کی یوں شرارتوں پر میں زور زور سے ہنسنے لگتا ہوں۔ میں ماہ نور سے کہا ہے کہ اس پر کبھی سختی مت کرنا کیونکہ شاید اس کے اندر احساس محرومی پیدا ہوگئی ہے کہ ہم اس سے پیار نہیں کرتے۔ وہ کہتی ہے کہ منہاج یہ صرف سب کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے اس سے ذیادہ اور کچھ نہیں۔ افف میرے دونوں میرے بیٹے! دونوں محبت کے دائرے میں برابر کھڑے ہیں۔ جو صرف میرے ہیں".
۔۔۔★★۔۔۔
"باہر کیسے نکلی گھر سے؟ یہ قدم باہر کیوں۔۔۔۔" اس کا بےاختیار اس پر ہاتھ اٹھا تھا جو اس کے چہرے پر پڑنے سے پہلے ہی امان نے روک لیا تھا۔ امان نے لب بھینچے۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور ایک گہری سانس خارج کی۔
"باہر کیسے گئی؟"۔ وہ دانت پیس کر لفظ ادا کررہا تھا۔ اس کے جبڑے کو مضبوطی سے پکڑ کر دیوار سے لگایا۔ تکلیف سے شانزہ کی چیخیں نکل گئیں۔
"مجھے چھوڑ کر جاؤ گی؟"۔ وہ اتنی زور سے چیخا کہ شانزہ کو لگا کہ اس کے کان سن ہوگئے ہیں۔ وہی ایک خوف جو ان کے گھر کے ہر مرد کو اپنے اپنے وقتوں پر رہا تھا۔۔۔۔
"قدم باہر کی جانب کیسے اٹھے؟"۔ وہ پوری قوت سے چیخا۔ شانزہ درد سے کراہی۔
"میں نے منع کیا تھا نا؟ ایسے سمجھ نہیں آئے گی تمہیں"۔
"نن۔نہیں ممم۔میں۔۔ امان میں معافی چاہتی ہوں"۔ وہ تکلیف سے چیخی۔ وہ جھٹکے سے دور ہٹا۔ امان کو اپنا آپ بے قابو لگا۔ وہ اسے مارنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا، مگر جو غصہ اس کے اندر ابل رہا تھا، اس حالت میں وہ خود کو قابو نہیں کر پارہا تھا ۔ اس نے ہاتھوں کی انگلیاں اپنے بالوں میں پھنسائیں اور گہری سانسیں لینے لگا کہ شاید کہ ایسے وہ خود کو قابو کرلے۔ کچھ لمحے گزرنے کے بعد اس نے ہاتھ نیچے کئے اور ہاتھوں کی مٹھیاں بنا کر لب بھینچے اور اسے دیکھنے لگا۔ شانزہ کا بدن خوف سے کانپنے لگا۔ وہ کیا کرنے والا تھا؟ وہ اذیت دینا چاہتا تھا۔ وہ اسے عبرت دلانا چاہتا تھا تاکہ وہ یوں آئندہ نہ کرے، مگر دل ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ وہ اپنا باپ نہیں بننا چاہتا تھا۔ وہ اسے مارے گا نہیں، مگر اذیت ضرور دے گا اور اب وہ تہیہ کر چکا تھا۔ سانس خارج کرتا ہوا وہ اس کی جانب بڑھا اور اس کا بازو سختی سے پکڑا۔ خوف سے اس کی چیخ نکلی۔ لفظوں نے گویا ساتھ ہی چھوڑدیا تھا۔
"یہیں کھڑی رہو گی اب تم ساری رات"۔ وہ اسے کھینچتا ہوا کھڑکی کے سامنے لایا جو بند تھی اور اسے وہاں دیوار کے ساتھ کھڑا کردیا۔
"جب تک میں سو کر نہیں اٹھوں گا صبح! تم یہیں کھڑی رہو گی! سمجھ آئی؟ اور اگر میں نے تمھیں سوتے دیکھا تو پھر اچھا نہیں ہوگا۔ اس کا جبڑا مضبوطی سے پکڑ اس نے بات ختم کی اور اسے جھٹکے سے چھوڑتا ہوا بیڈ تک آیا۔ شانزہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔ وہ بیڈ پر اوندھا اور تکیہ منہ پر رکھ کر لیٹ گیا۔ رحم کی گنجائش کسی صورت نہیں تھی۔ شانزہ اپنے آس پاس جگہ کو دیکھنے لگی۔ کیا وہ یونہی ساری رات کھڑی رہے گی؟ یہ سوچ کر آنسو اس کے چہرے کو بگھو گئے۔۔ بس سسکیاں تھیں جو اندھیرے کمرے میں گونج رہی تھیں۔
۔۔۔★★۔۔۔
"۲ جون
آج ہم نے ہائڈ اینڈ سیک کھیلا۔۔۔۔ ایک درد کا کھیل جس میں ماہ نور تڑپتی اور میرا دل بھی آنسو بہاتا۔ ایک جان بھی چلی گئی۔۔۔ میرے ڈرائیور کی۔۔۔ ماہ نور کو لگتا ہوگا کہ جب بھی میں اسے مار کر جاتا ہوں تو میرا دل ہلکا ہوجاتا ہے۔۔۔ نہیں ڈئیر ڈائری! تم جانتی ہونا غصہ کے بعد مجھے پچھتاوا جلد ہی آلیتا ہے؟"۔
زمان کو یہ دن یاد تھا جب ماہ نور کو منہاج نے بےدردی سے مارا تھا۔ ہر اذیت ناک لمحے گویا دماغ میں پیوست تھے. زمان نے بہت سے صفحے پلٹ دیئے۔
اس نے منہاج کے چار پانچ سال آگے کئے۔
" لگتا ہے جیسے کل کی ہی بات تھی جب امان اور زمان پیدا ہوئے تھے اور ایک ہفتے پہلے ماشاءاللہ گیارہ سال کے ہوگئے۔ امان کی پرسنٹلی بہت پیاری ہے۔ بردباری اور سنجیدگی گویا ٹپکتی ہے۔ ہر کام مصلحت سے کرتا ہے۔۔۔۔ کسی کی بات کو سنتا ہے تو گویا پہلے وقت اسے دیتا ہے اور اسے غور سے سنتا ہے پھر اپنی بات رکھتا ہے اور اگر وہ کہیں غلط بھی ہوتا ہے تو غلطی بھی مان لیتا ہے۔۔۔۔ جبکہ زمان اگر غلط بھی ہو تو اس سے یہ بات منوانا مشکل نہیں نا ممکن ہے کہ وہ غلط ہے۔۔ میں دونوں کو خاموش کرانے کے لئے ان کی باتیں سنتا ہوں، مگر اکثر زمان ہی غلطی پر ہوتا ہے۔۔۔ میں اسے سمجھاتا ہوں تو اپنی غلطی ہی نہیں مانتا۔ افف یہ لڑکا کل کو شادی کر کے بھول جائے گا کہ میں نے کب شادی کی۔۔ میں اسے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ زمان مجھے تم سے محبت ہے۔۔۔۔ بلکل ایسے جیسے مجھے امان سے محبت ہے"
زمان کے آنسو ڈائری پر گر کر اس کے صفحوں پر جذب ہونے لگے۔ اس نے دوسرے ہاتھ سے آنسو صاف کیئے۔۔۔۔اس نے صفحہ پلٹا۔
" زمان کی شادی میں اس سے کرواؤں گا جو بلکل اس جیسی ہوگی۔۔۔ شرارتی، شوخ و چنچل۔۔۔۔ امان کی پرسنلٹی سب کو اس کی جانب متوجہ کرتی ہے۔۔۔۔ اور زمان کسی بھی محفل میں بیٹھتا ہے تو اپنی باتوں سے محفل کو چار چاند لگا دیتا ہے"۔
زمان مسکرایا
"۱ اگست
"ماہ نور کو مارا اور بچے ڈرے سہمے دیکھتے رہے۔۔۔ وہ یہی سمجھتے ہوں گے کہ ان کا باپ اس دنیا کا سب بڑا ظالم انسان ہے۔۔۔ بس یہ کہ جو اپنی نفسیات نہیں بدل سکا اس سے عادت بدلنے کا کہنا ناممکن ہے۔۔ میں اپنی عادت سے مجبور ہوں"۔
اس نے ۲ سال آگے بڑھائے۔
"۲۵ مارچ
اور آج زندگی میں پہلی بار میں چاہتا ہوں کہ میرے دونوں بچے بڑے ہوکر میری ڈائری پڑھیں۔۔۔ میں کیوں چاہوں کہ وہ اپنے باپ کو نفسیاتی مریض نہ سمجھیں؟ نفسیاتی کو نفسیاتی نہیں سمجھیں گے کیا؟ میں چاہتا ہوں کہ وہ میری داستان پڑھیں اور سمجھیں کہ ان کا باپ وحشی کیوں بنا؟ پاگل کیوں ہوا؟ حادثات ہر موڑ پر۔۔ مگر کیوں؟ وہ یہ بات جان سکیں کہ ان کے باپ کو دن و رات کمرے کی لائٹ بند کرکے موم بتی جلا کر تنہا بیٹھنے کا کیا شوق تھا؟ کیوں ضرورت پیش آئی؟ ایک دس سال کا بچہ کیوں وقت سے پہلے سمجھدار ہوا تھا؟ کیوں بچپن میں پچپن والے شوق پیدا ہوئے؟"۔
"۱۵ اپریل
مجھے نہیں پتا میری ڈائری ابھی کون پڑھ رہا ہے۔۔۔ کیا پتا زمان؟ یا امان؟ یا کوئی بھی نہیں؟ شاید پھینک دی جائے میرے بعد میں؟ مجھے نہیں پتا میں کب تک زندہ ہوں۔۔۔۔ نوے فیصد چانسس ہیں کہ امان ہوگا کیونکہ زمان کو کتابوں سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔۔۔ (اور یہاں تنہا بیٹھا زمان کا دل چاہا کہ چیخ چیخ باپ کو بتائے کہ یہ ڈائری اسے بےحد پسند آچکی ہے) پھر بھی اگر زمان ہے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ تمھارا باپ تمھیں بہت چاہتا ہے اور اگر امان ہے تو تم میرے لئے بہت انمول ہو۔۔۔ میں نے محبت میں برابری کی ہے۔ تم دونوں میرے جگر کے ٹکڑے ہو۔ یہ ڈائری پڑھ کر میری زندگی سے کوئی سبق سیکھو نہ سیکھو بس اتنا سیکھ لینا کہ زندگی کا کوئی بھی موڑ ہو لیکن عورت پر ہاتھ نہیں اٹھانا۔۔۔ تمھیں عجیب لگ رہا ہوگا ڈئیر ڈائری؟ اور شاید امان اور زمان کو بھی لگ رہا ہوگا۔۔۔ ہاں مگر میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ ایک عورت پر کبھی ہاتھ مت اٹھانا۔۔۔ وہ بہت مضبوط ہوتی ہے۔۔۔ وہ اس مرد کے لئے اپنا گھر بھی چھوڑتی ہے جسے وہ گہرائی تک بھی نہیں جانتی۔۔۔ اور جب آپ اس پر ہاتھ اٹھاتے ہیں تو بھی وہ مار سہتی ہے۔۔۔ مزحمت بھی نہیں کرسکتی۔۔۔ اور مرد اسے مار کر غصے سے چلا جاتا ہے۔۔۔ وہ پیچھے اپنا ہی بکھرے وجود کو سمیٹتی ہے۔۔۔ وہ ہر بار ٹہھرتی ہے تو صرف آپ کے لئے۔۔۔ کیونکہ وہ محبت کر بیٹھتی ہے اپنے مجازی خدا سے۔۔۔ وہ اسے مارتا ہے تو بے موت مرتی ہے اور بس ایک اظہار پر پھر جی اٹھتی ہے۔
"محبت اظہار مانگتی ہے ڈئیر ڈائری"
اور میں اس سے یہ اظہار روز کرتا ہوں کیونکہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔
عورت اپنا آپ تم پر تمام کرتی ہے۔۔۔ وہ تمھارے لئے خود کو تمھارے مطابق ڈھال لیتی ہے۔
وہ تمھارے شوق کو اپنا شوق بھی بنا لیتی ہے مگر کیا تم ایک اظہار نہیں کرسکتے؟
کبھی ایک عورت پر ہاتھ نہ اٹھانا کیونکہ اسے "نازک" کہتے ہیں مگر وہ اندر سے بہت مضبوط ہوتی ہے۔
مگر میں یہ عادت نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔ جو شخص اپنے آپ کو بدل نہیں سکتا وہ اپنی بیوی کو مارنا بھی نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔ میں نہیں بدل سکتا مگر چاہتا ہوں میرے بچے ایسے نہ ہوں۔۔ ماہ نور بہت مضبوط ہے کہ میری ہر مار کے بعد مجھ سے یوں مسکرا کر ملتی ہے گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔۔۔ میری بیٹی ہوتی اور اگر میں اپنی بیٹی کا مستقبل دیکھ پاتا۔۔۔۔ اور یہ دیکھتا کہ اسے شوہر میرے جیسا ملے گا تو میں اس ڈر سے بیٹی ہی پیدا نہ کرتا کیونکہ میں اسے اذیت میں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔ عورت ایک تماشہ نہیں ہے مگر افسوس میں نہیں بدل سکتا۔ کہنے اور عمل کرنے میں فرق ہوتا ہے۔۔۔ مگر وہ بات ہی کیوں بولوں جو میں عمل ہی نہیں کرسکتا۔ میری مثال ایک ایسے درخت کی ہے جو زمین میں بہت اندر تک اپنی جڑیں پھیلا چکا ہے۔ میری زندگی تو برباد ہے۔ میں نہ بدلنے والوں میں سے ہوں۔ اس لئے کیونکہ میرے اندر موجود خوف کوئی ختم نہیں کرسکتا۔ یہ خوف وقت کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے کہ ماہ نور بھی مجھے چھوڑ دے گی جس طرح میری ماں نے میرے باپ کو چھوڑا۔۔ میں نہیں بدل سکتا مگر تم لوگوں کو اپنے جیسا بننے سے روک سکتا ہوں۔
مگر ایک بات ہے! تم دونوں کی ماں بہت مضبوط ہے، مگر ہر عورت ایسی مضبوط نہیں ہوتی۔ وہ تمھاری سختیاں برداشت نہیں کرپائے گی۔
اس سے اتنی محبت کرو کہ وہ جانے کا خیال ہی دماغ میں نہ لائے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم لوگ میرے نقشِ قدم پر چل کر کسی کی بیٹی کی زندگی تباہ کرو
مگر میں مجبور ہوں۔۔۔"
۔۔۔★★۔۔۔
وہ اوندھے منہ لیٹا سو نہیں رہا تھا۔ امان کو خود یقین نہ آیا کہ اس نے خود پر قابو کیسے پالیا۔ سسکیاں اب بھی جاری تھیں اور اب بلند ہورہی تھیں۔
"اب آواز نہ آئے تمھاری"۔ وہ اٹھ کر بلند آواز میں بولا۔ شانزہ کی سانسیں اٹکیں۔
"سسکیوں کی آوازیں اب بھی آرہی ہیں"۔
"مم۔میں نہیں لل۔لے رہی"۔ وہ ہچکیوں کے درمیان بولی۔
"ہاں میں لے رہا ہوں سسکیاں"۔ اس نے طنز کیا۔
شانزہ نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تاکہ آواز باہر نہ جاسکے۔
وہ پھر سے لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ وہ ویسی ہی کھڑی تھی جیسے وہ کھڑا کر گیا تھا۔ ٹانگیں دکھنے لگی تھیں، مگر امان کا خوف اتنا کہ چاہ کر بھی اس نے اپنا قدم آگے نہ بڑھایا۔ اس طرح ہی کوئی ایک ڈھیر گھنٹہ گزرگیا۔ اب واقعی اس سے برداشت نہیں ہورہا تھا۔ دائیں پاؤں کا تلوا اس نے بائیں پاؤں پر رکھا تھا۔ ماتھے پر تھکن کی لکیریں تھیں۔
تھوڑی اور دیر گزری کہ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اس کے یوں اٹھنے پر شانزہ ڈر سی گئی۔ اب وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے سامنے دیکھ رہا تھا۔ پھر ایک خواب۔۔۔ پھر ایک اور رات برباد۔۔۔۔یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اسے رات نیند ہی کب آیا کرتی تھی؟۔ اور کبھی دو منٹ کے لئے لگ بھی جاتی تو تھوڑی دیر بعد ہی پھولی سانسوں کے ساتھ اٹھ جایا کرتا تھا۔ اس کی سانسیں پھولنے لگیں۔ شانزہ نے ہڑبڑا کر اسے اٹھتے دیکھا تھا، مگر اندھیرا ہونے کی وجہ سے اس کے تاثرات نہ جان پائی۔ وہ اب انگلیاں بالوں میں پھنسائے آنکھیں پھاڑے اپنی ٹانگوں پر نظریں جمایا ہوا تھا۔اسے سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی۔ وہ اٹھ کر کمرے کی لائٹ جلاتا سنگھار میز کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ دونوں ہاتھ میز پر رکھتا جھک کر آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے لگا۔ اس آئینے میں دائیں طرف ڈری سہمی سی شانزہ بھی کھڑی دکھائی دے رہی تھی۔ وہ ایک نظر اسے دیکھ کر پھر سے سامنے دیکھنے لگا اب یہ رات کب گزرے گی؟ گزر تو جائے گی مگر کب؟ ہر رات کی طرح یہ رات بھی بھاری۔۔۔
شانزہ دور کھڑی اس کی حالت سمجھنے کی کوشش کررہی تھی جبکہ امان بس آئینے کو گھور رہا تھا۔
"یہ آئینہ ہی سب کچھ ہے"۔ دانت پیس کر کہا اور مکا آئینہ پر دے مارا۔ چھناکے کی آواز سے شیشہ ٹوٹ کر بکھر گیا۔ شانزہ کی خوف سے چیخیں نکلیں۔ امان کے ہاتھوں سے خون نکلنے لگا تھا۔ اس نے پلٹ کر شانزہ کو دیکھا۔ وہ سہمی سی آنکھیں پھاڑیں اسے دیکھ رہی تھی۔
"جاؤ بیڈ پر بیٹھ جاؤ"۔ امان نے اسے ایک نظر دیکھتے ہوئے کہا۔
وہ وہیں ساکت کھڑی رہی۔۔۔ امان نے بنھویں اچکائیں۔
"کیا کہہ رہا ہوں میں؟ کانچ چبھ جائے گی شانزہ تمھیں! بیڈ پر بیٹھو"۔ امان کے ہاتھوں پر کانچ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے گھسے ہوئے تھے اور خون اب ہاتھوں سے ہوتا ہوا زمین پر ٹپک رہا تھا۔ شانزہ اس کے ہاتھوں سے بہتے خون کو دیکھ رہی تھی۔ یہ حرکت کوئی عام انسان نہیں کرسکتا تھا۔
"خخ۔خون"۔ وہ ہکلائی۔ امان نے ہاتھوں کی جانب دیکھا جہاں تیزی سے خون بہہ رہا تھا۔
"تمھیں ڈر لگتا ہے خون سے؟"۔ اس نے بےوجہ پوچھا۔ شانزہ اثبات میں سرہلایا۔
"اب جاؤ بیڈ پر بیٹھو!"۔
" آپ نے شیشہ کیوں توڑا؟"۔ وہ ڈرتے ڈرتے پوچھنے لگی۔
"جو زندگی حرام کریں انہیں توڑ دینا چاہئے"۔ وہ فرسٹ ایڈ باکس کھولتا ہوا بولا۔
شانزہ اس کے جواب پر ڈر گئی۔
"ضروری نہیں وہ انسان ہی ہوں! کوئی چیز بھی ہو سکتی ہے۔۔۔۔" وہ اپنے ہی دھن میں بول رہا تھا یہ جانے بغیر کہ شانزہ کی رنگت فق ہورہی تھی۔ امان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
"تم نہیں سمجھو گی"۔ وہ کہتا ہوا اپنی ہتھیلیوں اور انگلیوں میں پھنسی کانچ کے ٹکڑوں کو نکالنے لگا۔
"مم۔میں نہیں جاؤں گی! مم۔میں کہیں نہیں جاؤں گی۔ مم۔مجھے سزا نہیں دے گا"۔ وہ روتے ہوئے بولی۔
"ںےوجہ سزا نہیں دیتا شانزہ امان۔ تم کچھ نہیں کروگی تو مجھے بھی کچھ کرنے کی نوبت پیش نہیں آئے گی"۔ وہ سخت لہجے میں اسے بہت کچھ باور کراگیا۔ سائیڈ ٹیبل پر اس نے فرسٹ ایڈ باکس رکھا اور پھر سے اسے تکنے لگا۔
"مجھے کمزور مت سمجھنا کبھی شانزہ۔۔۔۔ میری مجبوری تھی جو میں نے تمھیں بیڈ پر بیٹھنے کی اجازت دے دی، ورنہ تم صبح تک یونہی کھڑی رہتی!"۔ وہ کہہ کر پلٹا۔ اب اس کا رخ باہر ٹیرس کی جانب تھا۔ اس نے کمرے کی لائٹ بند کی اور اسے سونے کی تنبیہہ کرتا ہوا ٹیرس پر آگیا۔ سیگریٹ سلگا کر لائٹر جیب میں رکھا اور سانس خارج کرتا ہوا نڈھال سا سامنے دیکھنے لگا۔ اب اسے یونہی ساری رات ٹیرس پر رہنا تھا۔ خاموش ماحول بھی اسے سکون نہیں دے پارہا تھا۔ ایک شخص تھا جس کی طلب اسے بےحد محسوس ہورہی تھی۔ اس نے جیب سے موبائل نکالا اور کال ملائی۔ تین سے چار بیل پر کال اٹھالی گئی تھی۔
"ہیلو؟ تم ٹھیک ہو؟؟"۔ امان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی سامنے سے سوال آگیا تھا۔
"ہاں"۔ اس نے مختصراً جواب دیا۔ کچھ لمحوں کی خاموشی چھا گئی۔
"ابھی تک جاگے ہوئے ہو؟ چار بجنے والے ہیں"۔ زمان کچھ توقف سے بولا۔ امان نے تھوک نگلا۔
ماتھے پر درد کی لکیریں عیاں ہوئیں۔
"مجھے رات نیند آتی کب ہے زمان؟"۔ امان نے نگاہیں پھیریں۔ زمان کا رنگ فق ہوا۔
"مجھے سے باتیں کرو پھر۔۔ کوئی بات نہیں اگر نیند نہیں آتی تو! مجھے بھی نہیں نیند آرہی دیکھو جبھی جاگا ہوا ہوں"۔ وہ جانتا تھا امان کو کیسے قابو کرنا ہے۔ وہ کوئی رسک نہیں لے سکتا تھا۔ اس حالت میں تو بلکل بھی نہیں کہ وہ امان سے بہت دور تھا۔
"کیا تمہیں خواب تنگ کرتے ہیں؟ کیا تمہیں دن ڈھلتے ہی اپنا آپ بے قابو لگنے لگتا ہے یا تم وحشی بن جاتے ہو؟ کیا سورج غائب ہوتے ہی تمہیں اپنے وجود میں پاگل اور وحشت پن اترتے دکھتی ہے؟ زمان بہت مشکل ہے میرا اتنے درد کے ساتھ زندگی گزارنا"۔ قریب تھا کہ آنسو چھلک پڑتے مگر وہ بمشکل ضبط کرگیا۔
زمان نے لب بھینچے۔
"میں آرہا ہوں بہت جلد"۔ زمان نے جوش سے کہا۔
"جلدی آجاؤ"۔
"تم فکر مت کرو"۔
"ٹھیک۔۔۔۔ تم کیوں جاگ رہے تھے؟ یا میں نے بیدار کردیا؟"۔
"نہیں میں کتاب پڑھ رہا تھا"۔
"کیسی ہے؟"۔
"مصنف نے اچھا لکھا ہے"۔
"موضوع؟"
"پانچ منٹ بڑے بھائی کی شادی میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے"۔
امان کا قہقہہ اس اندھیرے اور خاموش ماحول میں گونجا۔ امان کے لئے وہ دنیا میں اکلوتا شخص تھا جو اسے روتے میں بھی ہنسا دیتا تھا۔
۔۔۔★★۔۔۔
وہ فجر کی نماز پڑھ کر جائے نماز پر ہی بیٹھی تھی۔ دو تین دنوں سے دماغ ایک ہی جگہ اٹکا تھا۔ اب تک تو وہ نکاح بھی ہوچکا ہوگا امان کے ساتھ اس کا! بلکہ ہوسکتا ہے اسی دن ہوگیا ہو۔
امان کے ساتھ چلی گئی مگر کیوں؟
امان۔۔۔۔ زمان کا بھائی.... زمان؟ وہ چونکی۔
وہ خود ہی زمان کے لفظوں پر غور کرنے لگی۔
"شانزہ خطرے میں ہے! وہ شخص اس کی تلاش میں ہے!"۔ اسے زمان کی باتیں یاد آنے لگیں۔
اسے کچھ نہ آیا۔ اس کی باتیں۔ وہ اسے بہت پہلے سے وارننگ دیتا رہا تھا اور وہ اس کی باتوں کو جھوٹ قرار دیتی رہی۔
اب اس کا دماغ تیزی سے کام کررہا تھا۔ وہ ساری کڑیاں آپس میں ملانے لگی۔
یعنی وہ شخص امان ہی تھا جس کا زمان نے ذکر کیا تھا؟۔
"مجھے اتنا یقین ہے تم میری جانب لوٹو گی اور شاید تب تک دیر ہوجائے! پھر تم اس وقت کو کوسو گی کہ تم نے میری دس منٹ کی گفتگو نہیں سنی! بہت بڑا نقصان ہونے والا ہے"۔
کہیں میں نے تاخیر تو نہیں کردی؟۔
شانزہ بےقصور تھی۔۔۔
اور رمشا؟ وہ جھوٹ بول رہی تھی۔
کوئی اور معاملہ تھا جس کا علم رمشا کو بھی تھا ورنہ وہ کبھی چاچو سے شانزہ کو کالج سے پک کرنے کا کہہ کر شانزہ سے ہمدردی نہ کرے
اور شانزہ کا رویہ بھی تو عدیل سے معمولی نہیں تھا۔
کیا وہ یہ سب امان کے خوف سے کررہی تھی؟
یا خدایا۔۔۔
ایک دفع میرے علم میں تو لاتی شانزہ۔۔۔
تم نے اتنا سب کچھ اکیلے ہی سہا؟
اور صلہ کیا ملا؟
چاچو نے اپنی بیٹی سے رخ موڑ لیا اور عدیل جو اس سے محبت کا دعویدار تھا اس نے بھی یقین نہیں کیا۔
مم۔میں نے بھی تو ن۔نہیں کیا... آنسو اس کا چہرہ بگھو گئے۔۔۔ اس نے نظریں اٹھا کر گھڑی دیکھی، پانچ بج رہے تھے۔
وہ فون کی جانب بڑھی۔۔
وہ سورج نکلنے کا انتظار نہیں کرسکتی تھی۔
۔۔۔★★۔۔۔
وہ نماز پڑھ کر بیٹھا تھا۔ دعاؤں کا لمبا سلسلہ جاری تھا۔ امان اس کی دعاؤں میں ہمیشہ سے شامل تھا۔ وہ دعا مانگ کر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ فون بج اٹھا۔ اس کا دل جائے نماز کو چھوڑنے کا نہیں تھا، مگر ناچار اس کو اٹھنا پڑا۔ بیڈ سے موبائل اٹھا کر نظر ماری۔ اجنبی نمبر سے کال آرہی تھی۔ اس نے اٹھا کر کان سے لگایا۔
"ہیلو؟"
جواباً ایک نسوانی آواز تھی جو زمان کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔ وہ اس آواز کو ہجوم میں بھی پہچان سکتا تھا۔ اس کی کال تھی یعنی کوئی بہت بڑی مصیبت تھی۔
۔۔۔★★۔۔۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now