قسط ۹

3.9K 191 21
                                    

"یہ کیا بدتمیزی ہے؟"۔ وہ اسے یوں مطمئن دیکھ کر چیخی تھی۔ مگر وہ مطمئن بیغیرت تھا۔ اسے اس کے چیخنے پر بھی ذرہ برابر اثر نہ ہوا تھا۔
"مجھے بس دس منٹ چاہیے۔ کچھ ضروری بات ہے۔ وہ سن لو تو پھر خود چھوڑ آؤں گا گھر!"۔ وہ سامنے کی سمت دیکھ رہا تھا۔ فاطمہ کے تن بدن پر آگ لگی۔
"مجھے نہیں سننی تمھاری کوئی فضول بکواس!"۔ وہ پھر سے چیخی۔
"ہر کوئی میری بات کو بکواس کہتا ہے! کسی کو میری بکواس نہیں سننی ہوتی حتیٰ کے وہ بکواس بہت اہم ہوتی ہے میرے لئے!"۔ وہ دل میں سوچ کر خود ہی اسٹیرنگ پر غصہ نکالنے لگا۔
"گاڑی موڑو اور مجھے گھر چھوڑو ابھی!" اس نے اسٹیرنگ کو ہاتھ بڑھا کر موڑنے کی کوشش کی۔
"تم پاگل ہو؟"۔ وہ فاطمہ کی اس حرکت پر جھنجھلا اٹھا۔
"مجھے تمھاری کوئی بکواس نہیں سننی ہے مسٹر زمان! گاڑی موڑو اور گھر ڈراپ کرو مجھے! ورنہ میں چیخ چیخ کر دنیا والوں کو بتادوں گی کہ تم مجھے زبردستی لے کر آئے ہو!"۔ وہ انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتے ہوئے بولی۔ زمان نے گاڑی کو بریک لگائے۔
"شانزہ خطرے میں ہے فاطمہ جاوید! میری دس منٹ کی گفتگو شاید اس کو مصیبت سے بچالے!"۔ وہ بالآخر بول پڑا۔ فاطمہ ٹھٹھکی۔ وہ یہ کیا بول رہا تھا؟ شانزہ؟ شانزہ کیوں خطرے میں ہے! کیا یہ پاگل ہے؟ یا یہ جھوٹ بول رہا ہے؟
"کیا بکواس کررہے ہو؟ میں تمھاری کسی بات پر یقین نہیں رکھتی!"۔ وہ بنھویں اچکاتی نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔ زمان کو لگا تھا کہ وہ اس کا یقین کرے گی مگر وہ تو سننے کو بھی تیار نہیں لگ رہی تھی۔ اس کی اس بات پر ہاتھ کا مکّا بنا کر زمان نے اسٹیرنگ پر مارا۔
"تو تمھیں لگتا ہے میں جھوٹ بول رہا ہوں؟"۔ اس نے دانت پیس کر اسے گھورا۔
"سو فیصد! گاڑی میرے گھر کے سمت موڑو فوراً!"۔ وہ بنھویں اچکاتی کہتی ریلکس انداز میں سامنے کی سمت دیکھنے لگی۔زمان نے گہری سانس لی اور گاڑی ریورس کی۔ وہ اب اور بحث نہیں کرسکتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اب وہ اس کی کوئی بات نہیں سننے والی۔ راستہ میں اس نے فاطمہ سے موبائل مانگا تھا!
"کیوں؟"۔ فاطمہ نے جواباً اسے گھورا۔
"دکھاؤ بھئی!" زمان نے ایک ہاتھ سے اسکا موبائل پکڑا اور گاڑی کی رفتار آہستہ کرکے اس میں اپنا نمبر محفوظ کرنے لگا۔
"یہ لو! میں نے اس میں اپنا نمبر سیو کیا ہے! میں جانتا ہوں کہ مجھے تو نہیں البتہ تمھیں میری ضرورت جلد پڑنے والی ہے۔ اس لئے جب ضرورت پڑے کال کرلے نا! اور ہاں! "زمان" نام سے نمبر سیو کیا ہے! اگر آگے بھائی لگایا نا تو ایک اور ملاقات کرنی پڑے گی تم سے!"۔ وہ اسے گھورتے ہوئے بولا۔ منزل آنے پر اتری اور دھڑ سے دروازہ بند کیا کہ زمان کے کان بج اٹھے۔
"تمھارے باپ کا دروازہ ہے؟"۔ وہ چیخا۔ فاطمہ نے غضبناک انداز میں اسے دیکھا۔
"زبان تمیز سے چلاؤ! ہاں میرے باپ کا ہے! تمھیں ڈرائیور کے طور پر رکھا ہے اور کچھ؟" اسے گھورتی وہ پلٹنے لگی۔ "جاہل" زیر لب زمان نے اسے بڑبڑاتے سنا لیکن نظرانداز کردیا۔ جاتے جاتے اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ فاطمہ نے بنھویں اچکائیں۔
"شانزہ خطرے میں ہے! وہ شخص اس کی تلاش میں ہے۔ میں تمھاری مدد کرنے آیا تھا مگر شاید تم نہیں بات کرنا چاہتی!" دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے حیران ہوتی لڑکی پر دیکھا۔
"کون شخص؟"
"میں نہیں بتا سکتا۔ وہ شخص میرے بے حد قریب ہے۔ اس کی خوشی مجھے عزیز ہے لیکن اس سب میں کم از کم میں کسی لڑکی کی زندگی تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتا ہوں! مجھے اتنا یقین ہے تم میری جانب لوٹو گی اور شاید تب دیر ہوجائے۔ پھر تم اس وقت کو کوسو گی کہ تم نے میری دس منٹ کی گفتگو کیوں نہیں سنی؟ بہت بڑا نقصان ہونے والا ہے
میں تمھاری مدد بعد میں بھی کروں گا مگر تاخیر مت کرنا زیادہ! میں اس شخص سے بہت محبت کرتا ہوں! ایسا نہ ہو اس شخص کی محبت غالب آجائے اور میرا ارادہ بدل جائے! پھر تمھیں یقین ہوجائے گا کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا! پھر ملیں گے اگر تم چاہو گی تو! مگر زیادہ تاخیر مت کرنا ورنہ تمھارا ساتھ نہیں دے پاؤں گا! بس سمجھنا میں اس شخص کی محبت میں ہارگیا!"۔ وہ رکا نہیں زن سے گاڑی بھگا گیا۔ وہ ہکا بکا اس جگہ دیکھ رہی تھی جہاں سے وہ گیا تھا۔ کیا اسے اعتبار کرنا چاہئے؟ وہ کیا کرے؟ کیا پتا وہ جھوٹ بول رہا ہو؟ مگر کوئی اتنے یقین سے جھوٹ نہیں بول سکتا؟ اوپر کھڑی رمشا نے سب دیکھا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ وہ وہاں پچھلے پندرہ منٹ سے کھڑی تھی! نہ صرف زمان کو گفتگو کرتے دیکھ رہہ تھی! بلکہ دس منٹ پہلے شانزہ کو امان کی گاڑی سے اترتے بھی دیکھا تھا۔ وہ حیران ہوئی تھی مگر جب اسے شانزہ کے ساتھ فاطمہ نظر نہ آئی تو اس نے وہی کھڑے رہنے کا فیصلہ کیا، اور اسے زیادہ انتظار کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ پانچ سے دس منٹ کے درمیان اس نے فاطمہ کو بھی گاڑی سے اترتے دیکھا تھا۔ چونکہ فرسٹ فلور کی کھڑکی سے جھانک رہی تھی۔ اس لئے باتیں نہ سن پائی! پہلے تو وہ دونوں کی حرکت پر چونکی تھی! مگر پھر مسکرائی۔
اب اس کا اگلا وار بھی ہمیشہ کی طرح "شانزہ" تھی۔ مگر یہ وار مضبوط تھا۔
"ہنہہ میں نہ کہتی تھی یہ کوئی اسی طرح کی ہی لڑکی ہے! شرافت کا صرف لبادہ اوڑھ رکھا ہے!"۔ اس نے برا تاثر دیا۔ اور پھر چالاکی سے مسکرائی۔
"اب اس کا پتہ صاف کرنے میں آسانی ہوگی!" وہ ہنس کر مڑ گئی.
 ۔۔۔★★۔۔۔
چوکیدار نے دروازہ کھولا۔ اس نے گاڑی بڑھائی اور پارک کردی۔ دماغ کی نسیں درد کررہی تھیں۔ چابی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر ڈالتے ہوئے اس نے دھڑ سے دروازہ بند کیا۔ سلیم نے خوف سے شاہ نواز کو دیکھا۔ اب یقیناً کوئی نہ کوئی بے وجہ ہی سہی مگر مار کھانے والا تھا۔ شاہ نواز اور باقی گارڈز ہنوز بندوقیں پکڑے سر جھکائے کھڑے رہے۔ خوف اتنا کہ ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ ایک نظر ان پر ڈال کر وہ تیوریاں چڑھاتے ہوئے لاؤنج کی جانب بڑھا۔ وہاں موجود گارڈز نے سکون کی لمبی سانس لی۔ ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ ایک زوردار آواز سے ان کی سانسیں پھر چڑھ گئیں۔ شاہ نواز بھاگتا ہوا اندر آیا۔ امان نے غصے سے کانچ کی ٹیبل دکھیل کر پھینکی تھی۔ کانچ کے کچھ ٹکڑے اس کی ہاتھوں میں چھبے تھے جس کی اسے ذرہ برابر فکر نہ تھی۔ وہ سب چیزیں پھینک رہا تھا۔ شاہ نواز بھاگتے ہوئے آیا اور اس کی بگڑتی حالت دیکھنے لگا۔ جب اسے لگا کہ حالت بہت بگڑ رہی ہے تو وہ اسے قابو میں کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
"دادا آپ کو گہری چوٹ لگ جائے گی۔ آپ کے ہاتھ سے خون بھی نکل رہا ہے!"۔ مگر وہ اس کے قابو میں نہیں آرہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو اس سے چھڑا کر چیزیں الٹ رہا تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی زیادہ زبردستی کرنا شاہ نواز کے لئے اچھا نہیں لیکن پھر وہ امان کو قابو میں کرکے اسے یہ سب کرنے سے روک رہا تھا۔ اس گھر کا ایک ایک فرد "وفادار" تھا! مالک سے لے کر نوکر تک!

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now