قسط ۲۴

3.8K 195 65
                                    

شانزہ سنبھل کر گاڑی سے اتری۔ امان نے گاڑی لاک کی اور تحائف نکال کر شانزہ کو پکڑائے۔
"یہ مجھے کیوں پکڑا دیئے؟ یہ لیں زمان بھائی آپ پکڑیں"۔ اس نے تحائف زمان کو پکڑانے چاہے۔
"میں دلہا ہوں! کچھ پروٹول دینے کے بجائے سارا سامان مجھے پکڑادو تم لوگ"۔ زمان نے برا سا منہ بنایا اور ہاتھ پیچھے کئے۔
شانزہ نے حیرت سے منہ کھولا۔ امان نے ہاتھ بڑھا کر شانزہ سے سامان لیا۔
"استغفراللہ اب تمہیں سر کا تاج تو نہیں بنا سکتے نا زمان؟۔ کتنا چاہیئے اور پروٹوکول؟ ہتھیار لے کر تمہارے پیچھے گھومیں کیا؟"۔ امان نے اسے گھورا۔
"ہاں مگر اچھے سے بات کرسکتے ہو تم! اور خدا کا واسطہ ہے اگر میری بےعزتی کرنے کی کوشش کی"۔
امان نہ چاہتے ہوئے بھی ہنس دیا۔
"ارے نہیں زمان بھائی۔ بس دعا کریں کہ میں اندر جو بولوں اچھا بولوں! پہلی بار کسی کا رشتہ لینے جارہی ہوں"۔
زمان نے اسے سر تا پیر دیکھا۔ وہ ٹھیک ہی کہہ رہی تھی۔ زیر لب دعا پڑھ کر اس پر پھونک دی۔
"میں نے اپنے حصے کا کام کردیا ہے! اب سنبھالنا تمہاری ذمہ!"۔ وہ دعا کا ورد کرتا سائیڈ پر ہوگیا۔ شانزہ اور امان دونوں ہی اسے گھور کر رہ گئے۔
"ویسے بھائی اور بھابھی! اندر جانا ہے یا یہیں سے رشتہ اندر پھینکنا ہے؟"۔ دونوں ہاتھ کوٹ کی جیبوں میں ڈال کر وہ طنز کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑرہا تھا۔
"زمان بھائی میں آپ کو گرتے نہیں دیکھ سکتی!"۔ وہ بہت پہلے ہی ثابت کرچکی تھی کہ وہ اس کی بہن ہے۔
"شانزہ لگتا ہے اسے بہت جلدی یے! تو پھر ایسا کرتے ہیں کہ سب سے پہلے اسے اندر بجھوادیتے ہیں۔ کیوں صحیح کہا نا؟" شانزہ نے ہنستے ہوئے ہامی بھری۔ شانزہ نے آگے بڑھ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ رمشا نے کھولا تھا۔
"چلیں" شانزہ نے پیچھے ہوکر دونوں کو اندر جانے کا اشارہ دیا۔ امان نے زمان کو پکڑ کر اندر کرنا چاہا، مگر زمان جھٹکے سے دور ہوا۔
"تم جاؤ پہلے اندر"۔ زمان نے امان کو دھکا دیا۔
"میں کیوں جاؤں؟"۔ وہ دانت پیس کر پوچھنے لگا۔
"کیونکہ تم داماد ہو"۔ زمان اس کو یاد دلادیا۔
"تم بھی تو ہو"۔
"ہاں مگر ابھی اصلی والا نہیں بنا"۔
رمشا دونوں کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی۔ کوئی اتنا ایک دوسرے کا ہمشکل کیسے ہوسکتا ہے؟
"دو دن سے تو اس گھر کا داماد کہہ رہے تھے خود کو! اب کیا ہوا؟"
"اگر ایسا ہے نا تو میں۔۔۔۔" اس نے اپنے آپ وارن کرتے ہوئے بات ادھوری چھوڑی۔
"کیا میں؟"۔ امان نے بنھویں اچکائیں۔
"تو میں واپس جارہا ہوں گھر"۔ دھیرے سے کہتے ہوئے وہ مڑ گیا کیونکہ وہ یہ خود بھی جانتا تھا کہ اس کی امان کے آگے نہیں چل سکتی۔
"ہاں شاباش!جاؤ جاؤ!"۔ امان کے یوں کہنے پر جاتے زمان نے مڑ کر اسے دیکھا۔
"ہاں جارہا ہوں میں!"۔
"ہاں ہاں جاؤ جاؤ"۔
شانزہ ہونقوں کی طرح ان دونوں کو دیکھنے لگی۔
"میں چلا جاتا اگر مجھے تمہارا خیال نہ ہوتا"۔ وہ پلٹ کر منہ پھیرتا دروازے سے اندر داخل ہوا جیسے احسان کیا ہو۔
شانزہ ماتھے پر ہاتھ مارتی اس کی پشت گھور کر رہ گئی۔
"اب آپ جائیں گے اندر یا آپ نے بھی واپس جانا ہے؟۔
"اگر تم کہو تو واپس چلا جاتا ہوں کیونکہ مجھے لگتا اندر کا ماحول بہت گرم ہے! مجھے دیکھ کر سب کے دماغ کی پھرکی گھوم جائے گی"۔ معصومیت سے کہتا ہوا اندر جھانکنے لگا جہاں سے صرف دیوار کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ ہاں لیکن اندر کھڑا زمان اسے دیکھ کر اپنے دانت دکھا رہا تھا۔
"آپ اندر جارہے ہیں یا نہیں"۔ وہ سنجیدگی سے ہوچھنے لگی۔
"جارہا ہوں آپ ناراض نہ ہوں"۔ لاحولا کا ورد کرتا ہوا وہ اندر داخل ہوا۔ رمشا کی ہنسی بےقابو ہوئی۔
"تم کون ہو لڑکی؟"۔ زمان نے اسے ہنستے دیکھا تو باز نہ آیا۔
"امان بھائی میں رمشا ہ۔۔۔۔"
"بائی دا وے میں زمان ہوں"۔ مسکراتے ہوئے اس نے تصحیح کی۔
"اوہ معافی چاہتی ہوں"۔ وہ شرمندگی مٹاتے ہوئے بولی
"آئیں اندر آجائیں ڈرائنگ روم میں"۔ راستہ بناتی وہ ان کو ڈرائینگ میں لے آئی۔
"مجھے ڈر لگ رہا ہے شانزہ"۔ اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔
"کچھ نہیں ہوگا! بس معافی مانگ لے گا! اللہ بہتر کرے گا!"۔
"اگر کچھ ہوگیا یہاں پر۔۔۔ تو مجھے چھوڑو گی تو نہیں؟"۔ وہ خوفزدہ تھا! اب بھی۔
"ڈوبتا سورج گواہ ہے کہ ہم نے ایک دوسرے سے ساحل کنارے وعدہ لیا تھا"۔ مدھم آواز میں کہتے ہوئے اس نے یاد دلایا۔ زمان ان دونوں سے ایک قدم آگے تھا۔ ڈرائینگ میں داخل ہوتے ہوئے اسے یاد آیا کہ وہ دلہا ہے! وہ ایک قدم پیچھے ہٹ کر ان کے آگے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ ان کے آگے آتے وہ ان کے پیچھے چلنے لگا۔
شانزہ نے امان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں سے دور کیا۔ اب بھلا وہ ایسے اندر جاتی؟۔
ڈرائنگ میں سب موجود تھے۔
سب نے سلام کیا۔
ناصر صاحب مسکراتے ہوئے قریب آئے اور ہاتھ آگے بڑھایا۔ امان نے سہمتے ہوئے لب پھیلائے اور ہاتھ ملانے کے لئے ہاتھ بڑھایا جسے انہوں نے تھام لیا۔ جب انہوں نے بڑھ کر امان کو گلے لگایا تو امان ساکت ہوا۔ زمان کے بعد کسی نے پہلی بار اسے یوں گلے لگایا تھا۔ ایک سسر باپ کی حیثیت سے!
زمان کو بھی ناصر صاحب نے گلے لگایا اور اس وقت زمان کو ان سے محبت ہوگئی! اور اتنی محبت ہوگئی کہ سختی سے بھینچ لیا اور ان کے کندھے پر سر رکھ لیا۔ امان اسے ہونقوں کی طرح دیکھنے لگا۔ ناصر صاحب کو اپنا دم گھٹتا محسوس ہوا۔ جاوید صاحب نے بھی آگے بڑھ کر گلے لگایا۔
"او ہو غلط ہوگیا۔۔۔ محبت جن کے ساتھ دکھانی تھی ان کی شکل نہیں یاد تھی اور اب غلط دکھادی"۔ وہ جاوید صاحب کو دیکھتا سوچ کر رہ گیا۔ وہ داماد جاوید صاحب کا بننے والا تھا، مگر غلطی سے محبت میں آکر گلے ناصر صاحب کے لگ گیا تھا۔ ناصر صاحب کو اپنی سانس بند ہوتی محسوس ہوئی۔
"جاؤ برخوددار! ان سے بھی مل لو"۔ انہوں نے محبت سے اس کا رخ جاوید صاحب کی طرف کیا جو اسے سر تا پیر دیکھ رہے تھے۔ زمان نے ان کو سلام کیا اور مسکراتا ہوا صوفے پر بیٹھ گیا۔ شرمندگی کے مارے امان ناصر صاحب سے نظریں بھی نہیں ملا پارہا تھا۔
"میں جانتا ہوں انکل مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئیے تھا! جو مجھ سے ہوا میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں"۔ جھکی نظروں سے اس نے اعتراف کیا تھا اور دل کا سارا حال سنادیا۔ وہ بولتا جارہا تھا اور وہاں موجود نفوس سنتے جارہے تھے۔ نفیسہ بھی ناصر صاحب کے برابر بیٹھیں سب سن اور دیکھ رہی تھیں۔ شانزہ اپنے شوہر کو بے حد محبت سے تک رہی تھی جس کے لبوں سے آذاد ہوا ایک ایک لفظ اس کے دل پر لگ رہا تھا۔
"ٹھیک کہہ رہے ہو! آپ سے جو ہوا وہ ٹھیک نہیں تھا۔ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ میں بھی بدل گیا تھا! مجھے علم نہیں تھا کہ میرا اعتبار اپنی بیٹی پر اتنا کم ہوجائے گا کہ میں نے دھوکا کھالیا، مگر ہم سب نے دل سے تمہیں معاف کیا!"۔ ان کی آنکھیں یہ سب کہتے ہوئے نم ہوئی تھیں۔ امان بےیقینی سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ رورہے تھے کیونکہ وہ ایک بیٹی کے باپ تھے۔ ایک جان دی تھی انہوں نے اپنی! شانزہ دی تھی جو ان کے آنگن میں کھلتا ہوا پھول تھی۔ وہ ابھی بھی پیشمان تھے کہ وہ شانزہ کے لئے کچھ نہیں کر پائے۔ حتٰی کہ اتنے سال وہ ان کے ساتھ رہی وہ پیار بھی نہیں دے پائے۔ امان اٹھ کر ان کے پہلو میں بیٹھا۔
"مجھے خوشی ہے اس بات کی کہ آپ نے مجھے معاف کردیا!"۔ ناصر صاحب نے اپنی نم ہوتی آنکھوں کو صاف کرنا چاہا۔ شانزہ ان کے گھٹنوں کی طرف زمین پر آبیٹھی۔ ایک ہاتھ سے ان کے آنکھوں میں امڈنے والے آنسو صاف کئے۔
"روئیں مت بابا! مجھے تکلیف ہوتی ہے"۔ شانزہ کا دل مچل رہا تھا۔ ناصر صاحب نے یہ سنا تو دل چاہا اور رودیں۔ وہ عشق کرتی تھی اپنے باپ سے اور وہ اسے اپنی محبت بھی نہ دے پائے۔
"اگر آپ نے رونا بند نہیں کیا نا تو میں رونا شروع کردوں گی"۔ وہ رونے کو تیار بیٹھی تھی۔ ناصر صاحب کو ہنسی آگئی۔
"ہاں بس اب مسکرائیں گے! مسکراتے ہوئے اچھے لگتے ہیں"۔
ناصر صاحب نے اس کی پیشانی چومی۔
"نفیسہ! کچھ پیش کرو انہیں"۔ ناصر صاحب نے میز پر رکھے لوازمات کی طرف دیکھ کر اشارہ کیا۔
"پہلے میں اپنے داماد کو تو دیکھ لوں"۔ وہ اٹھ کر امان کے سامنے آئیں تو وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
"مجھ سے سلام بھی نہیں کیا۔ میں سوتیلی ساس ہوں کیا؟"۔ وہ محبت بھرا شکوہ کرتے ہوئے اس دیکھ رہی تھیں۔
"نہیں وہ اتنی ساری خواتین ہیں یہاں سمجھ نہیں آیا سگی ساس کون ہے"۔ وہ سر کجھاتا ہوا کھسیانا ہوا۔
"میں تو اپنی ساس کو آرام سے دیکھ سکتا ہوں"۔ دور بیٹھا زمان دل ہی دل میں کہتا ہوا ایک نظر صبور پر ڈال کر مسکرادیا۔ صبور اسے ہی مسکرا کر دیکھ رہی تھیں۔ ان کی بیٹی کی پسند بری نہیں تھی۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now