قسط ۲۳

2.5K 161 23
                                    

"کیا کررہی ہو شانزہ؟" اسے کپڑے تہہ کرتے دیکھ کر فاطمہ پوچھتے ہوئے بیڈ پر بیٹھی۔
"الماری صاف کررہی ہوں"۔ سرسری انداز میں کہتے ہوئے اس نے ایک کے اوپر ایک تہہ ہوئے کپڑے ڈالے۔
" تم نے کیا سوچا ہے پھر؟"۔ وہ اصل مدعے کی جانب آئی۔
"کس بارے میں؟"۔
"چار پانچ دن ہوگئے ہیں۔ تم نے کیا فیصلہ لیا اپنی ازدواجی زندگی کے متعلق؟"۔
شانزہ نے ایک گہری سانس خارج۔
"مجھے نہیں پتا کچھ بھی"۔ وہ ابھی تک الجھی ہوئی تھی۔
"تم طلاق لے لو اس سے"۔ فاطمہ نے مشورہ پیش کیا اور جواباً اس کے تاثرات جاننے لگی۔ شانزہ کا چہرہ یک دم فق ہوا تھا۔ آنکھوں سے بےاختیار آنسو خارج ہوئے۔
"تم رو مت! رو کیوں رہی ہو؟۔ میں نے صرف وہ کہا جو مجھے لگا۔۔۔ اگر میری خواہش پوچھو تو میں چاہوں گی کہ تم لوٹ جاؤ!۔ تمہارا شوہر تمہارا منتظر ہے مگر تم وہی کرنا جو تمہارا دل چاہتا ہے"۔ فاطمہ نے قریب آکر اسے پیار سے دیکھتے ہوئے اس کا ہاتھ چوما۔ لمحوں کے ہزاروے حصے میں اس کو امان کا ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگانا یاد آیا۔ اس نے تھوک نگلا۔
ہلکی سی آواز سے کمرے کا دروازہ کھلا اور رمشا اندر آئی۔ شانزہ بستر پر گرنے کے انداز میں بیٹھی۔
"شانزہ"۔ لب بھینچتی وہ اس کے قریب آئی۔
شانزہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔ کچھ سیکنڈز کی خاموشی چھائی۔
"آئم سوری شانزہ! مجھے معاف کردو"۔
شانزہ نے اسے تھکے تھکے سے انداز میں دیکھا۔
" میں عدیل کو پانے کی چکر میں اتنی اندھی ہوگئی تھی کہ صحیح غلط کا فرق بھول گئی!"۔ وہ گڑگڑانے لگی۔
"میں نے کہا تھا میں نے سب کو معاف کردیا یے پھر سب کیوں علیحدہ علیحدہ آکر پوچھ رہے ہیں؟"۔ مدھم مگر تھکی تھکی سی آواز میں کہا۔
"تم جب تک اپنے منہ سے مجھے نہیں کہو گی میں یوں ہی روتی رہوں گی شانزہ!۔ تم نے ہمیشہ میرا خیال رکھا اور میں نے یہ کیا کردیا تمہارے ساتھ"۔
"میں نے تمہیں معاف کیا رمشا!۔ سب کو معاف کیا۔۔۔"کہتے ساتھ اپنے چہرے کو ہاتھوں سے چھپا لیا۔ رمشا پھولی نہ سمائی۔
"تھینک یو سو مچ شانزہ! اور یہ کہ۔۔ میں جان چکی وہ ایک شخص میرا کبھی نہیں ہوسکتا مگر ۔۔۔۔ مگر تمہیں بہت چاہتا ہے اگر تم طلاق لے کر اس سے شادی کرلو گی تو تم دونوں ہی بہت۔۔۔"

"فار گاڈ سیک رمشا! میں کسی بیوی ہوں یہ سب کیوں نہیں سمجھ رہے؟ ایک عرصہ گزارا ہے اس شخص کے ساتھ! مجھے اچھا نہیں لگ رہا ہے کہ تم لوگ میرے شوہر کے ہوتے ہوئے کسی نامحرم سے میرا نام جوڑ رہے ہو!"۔ وہ اٹھ کھڑی۔
"میں طلاق نہیں لے رہی! میں جاؤں گی کیونکہ میں اس شخص سے جو میرا شوہر ہے محبت کرتی ہوں"۔ وہ تنگ آکر اپنا فیصلہ سنا گئی۔
رمشا نے حیرت سے اسے دیکھا جبکہ فاطمہ نے خوشی سے۔ شانزہ نے ایک نظر دونوں کو دیکھا اور باہر نکل گئی۔ فاطمہ اس کے پیچھے بھاگی۔
۔۔۔★★۔۔۔
"نفیسہ؟ کیا سوچ رہی ہو؟"۔ ناصر صاحب گم صم سی نفیسہ کے پاس آکر بیٹھے۔
"شانزہ کی وجہ سے پریشان ہوں ناصر!"۔ وہ دکھ سے بتا رہی تھیں۔
"نفیسہ میں چاہتا ہوں وہ اب فیصلہ کرلے۔ اس شخص کے ساتھ رہنا چاہتی یے یا اس سے طلاق لینا چاہتی ہے"۔
"اسے اور وقت درکار ہوگا! یہ فیصلے سوچ سمجھ کر ہی کئے جاتے ہیں"۔ انہوں نے ہاتھوں میں تھامی تسبیح گھمائی۔
"میرا بس چلے تو اس شخص کو قتل کردوں!"۔ انہوں نے دانت پیسے۔ نفیسہ نے گردن موڑ کر انہیں دیکھا۔
"وہ شخص محض ایک کردار تھا۔ اصل میں تو آپ سب کا بھروسہ جانچنا تھا۔ اس شخص کے آنے سے کم از کم یہ تو پتا چل گیا تھا کہ کون اپنا ہے اور کون غیر!"۔ وہ طنز کرنا نہ بھولی تھیں۔ وہ خاموش ہوگئے۔
"کیا پتا وہ واقعی اس کا خیال رکھ سکتا ہو؟ بیٹی کے معملے میں اس شخص کو خود سے گلے بھی لگانا پڑھ سکتا۔ وہ جو فیصلہ لے گی، ویسا ہی ہونے دیں گے۔ اس نے شانزہ کو اس کی مرضی پر چھوڑا ہے کہ وہ اگر رہنا چاہتی ہے اس کے ساتھ رہ سکتی ہے! اور یقیناً وہ اس کے انتظار میں ہوگا۔ شوہر ہے وہ اس کا۔ گھر میں آکر اپنی بیوی کو دیکھ سکتا ہے، بات کرسکتا ہے کیا ہم کچھ کرسکتے ہیں؟ نہیں! نہیں کرسکتے"۔
وہ بھی ہاں میں سرہلانے لگے۔ شاید مانتے تھے ان کی باتوں کو۔
"اور اگر وہ اس شخص کے پاس جانا نہیں چاہے اور طلاق اس کا فیصلہ ہوگا تو اس کے بعد گھر والے خوش فہمی میں نہ رہیں کہ میں اس کا رشتہ عدیل سے طے کروں گا!"۔ وہ دو ٹوک بات کررہے تھے۔
"بلکل بھی نہیں۔۔۔ کبھی بھی نہیں" انہوں نے بھی ان کی بات کی ہامی بھری۔ بدلتے وقت نے سب کے چہرے بےنقاب کئے تھے۔
۔۔۔★★۔۔۔
"میری بات کو سمجھو شانزہ! تم پر کوئی زبردستی نہیں! تمہارا دل کہتا ہے تو ہی پلٹو۔۔۔ کسی کی باتوں میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو دل کہتا وہ ہی کرو"۔ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ فاطمہ نے یقین دلایا تھا کہ وہ اس کے ساتھ ہے۔
"میرا دل بہت کچھ کہتا ہے فاطمہ۔ ایک ہفتہ ہونے کو ہے اور ہم نے ساتھ مل کر ابھرتی شفق بھی نہ دیکھی۔ میں جانا چاہتی ہوں فاطمہ۔ میں چاہتی ہوں امان مجھے خود کال کریں۔ وہ کہیں کہ انہیں میری ضرورت ہے۔ وہ کہیں کہ شانزہ واپس آجاؤ۔ وہ کہیں تو! بس ایک کال کردیں۔ بس ایک کال"۔ اس کی آنكھوں میں امید کی کرن تھی۔ اسے یقین تھا کہ وہ کال کرے گا۔ اس سے پوچھے گا کیسی ہے شانزہ امان؟ وہ اس کے پاس آئے گا اور چوم کر آنکھوں سے لگائے گا، مگر یہ امید بھی اب ماند پڑرہی تھی۔ ایک ہفتہ گزر گیا تھا اور اس کے موبائل میں "امان" کا نام نہیں چمکا تھا۔
"وہ کال کریں گے تمہیں" اس نے امید دلائی۔
شانزہ نے اثبات میں سرہلایا۔
"وہ کریں گے، مگر انہیں ایسا کرنے کا تم نہیں کہو گی۔ وہ خود کریں گے۔ محبت بہت گہری ہے ان کی۔ وہ کریں گے۔ اس امید پر قیامت تک بیٹھی رہوں گی"۔
فاطمہ متحیر ہوئی۔
"تمہیں یقین ہے؟"۔
"مجھے یقین ہے" وہ جذب سے بولی۔ "وہ صبح کی شفق جھوٹی نہیں ہوسکتی۔ وہ محبت سے دیکھ کر مسکرانا بھی جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ وہ کریں گے کال مجھے۔ پھر ہی میری قدم اس گھر میں اٹھیں گے"۔ ہلکی ہلکی بارش شروع ہوچکی تھی۔ موسم کی پہلی بارش۔۔۔ فاطمہ نے مسکراتے ہوئے کھلے آسمان کو دیکھا اور آنکھیں میچ لیں۔ ٹھنڈی ٹھنڈی بوندیں اس کے چہرے کو برف کرنے لگیں۔ اس نے شانزہ کا ہاتھ تھاما اور اندر لے کر بڑھ گئی۔ بارش میں تیزی آرہی تھی۔ ٹھنڈ بڑھنے لگی۔ وہ اس کے پاس امان کی امانت تھی۔ شانزہ اس کے ساتھ کھنچتی چلی گئی۔
۔۔۔★★۔۔۔
"تم اسے کال کرو زمان! اس سے اس کا حال پوچھو۔ اس سے پوچھو وہ کیسی ہے؟ کیا وہ ٹھیک ہے؟ کال کرو اسے"۔
زمان نے موبائل سے نظریں اٹھائیں۔ اس کی بات نے اسے کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔
"کیا سوچ رہے ہو؟ اسے کال کرو"۔ امان کے ماتھے بل نمودار ہوئے۔
"میں کیوں کروں؟ تمہاری ذمہ داری ہے! بیوی ہے تمہاری! پوچھو اس کا حال چال! اس سے پوچھو اسے پیسوں کی ضرورت تو نہیں آخر تمہاری ذمہ داری ہے وہ!"۔ زمان نے بنھویں اچکائیں۔
امان سوچ میں پڑگیا۔
"اسے واقعی میں پیسوں کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ یہ خیال کیوں نہ آیا مجھے؟"۔
"ظاہر تمہاری ذمہ داری ہے وہ! تمہیں اتنی دیر سے کیوں یاد آیا؟"۔
امان نے لب بھینچے۔
"کیا مجھے کال کرنی چاہیئے؟"۔ زمان نے اس کے تاثرات جانچنے چاہے۔ اس کے چہرے پر خوف واضح تھا۔
"اس سے اتنا ڈرتے ہو؟"۔
امان نے نظریں پھیریں۔
"وہ مجھ سے طلاق کا مطالبہ نہ کردے زمان۔ میں اْس گھڑی سے ڈررہا ہوں"۔ اس نے اپنا خوف ظاہر کیا۔
"وہ اپنا مطالبہ پہلے ہی پیش کرچکی ہے!"۔
"مت کہو ایسا زمان! مجھے تکلیف ہوتی ہے"۔ اس نے سر اپنے ہاتھوں میں دے دیا۔
زمان اٹھ کر اس کے قریب آیا۔
"تم اس کو کال تو کرو! اس سے پوچھو! اس سے بات کرو۔ کیا پتا وہ تمہارا انتظار کررہی ہو"۔ زمان نے کہتے ساتھ سائیڈ سے امان کا فون اٹھایا۔
"میں کال ملا رہا ہوں"۔ زمان نے امان کا موبائل سنبھالا۔
"اگر کچھ ہوگیا تو؟ اگر اس نے کہا اتنی مشکل سے تم سے جان چھوٹی ہے تم پھر آگئے؟"۔ ماتھے پر بل ڈالے وہ پریشانی سے اس سے پوچھ رہا تھا۔
"اچھا ہے۔۔۔ کبھی تمہاری بےعزتی بھی ہونی چاہئیے تاکہ تم میرا دکھ سمجھ سکو!"۔ کال ملا کر اس کے ہاتھ میں فون دیا اور اٹھ کر باہر چلاگیا۔ وہ ان کی گفتگو نہیں سننا چاہتا تھا۔ لاؤنج میں بیٹھے امان کا خوف سے چہرہ رنگ بدل رہا تھا۔ اس نے کان پر فون لگا کر دوسری طرف کھلی کھڑکی کی طرف دیکھا جہاں ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ اسے شانزہ کی کمی محسوس ہوئی۔
اترا ہے میرے شہر میں محبت بھرا موسم!
۔۔۔★★۔۔۔
"فاطمہ جلدی جلدی اتارو رسی سے کپڑے! بارش تھوڑی دیر میں تیز ہوجائے گی"۔ شانزہ نے ایک ہی وقت میں کافی سارے کپڑے اتارے اور اندر لے کر آئی۔
"میں کوشش کررہی ہوں کہ ایک وقت میں سارے کپڑے اتارلوں"۔ ٹیرس سے فاطمہ کی آواز آئی۔ شانزہ نے سارے کپڑے اپنے کمرے کے بیڈ پر ڈالے۔
وہ مڑنے لگی کہ موبائل پر آتی کال نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ سائیڈ میز سے اس نے موبائل اٹھا کر نام پڑھا۔ "امان" کا نام جگمگا رہا تھا۔ وہ ساکت ہوئی۔ اس کا کہنا اتنی جلدی قبول ہوگا؟ خوشی اور مسرت کے مارے اس نے کال اٹھا کر کان پر موبائل رکھا۔ وہ خاموش رہی۔ دوسری طرف بھی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ امان کو خوف نے آگھیرا تھا۔ وہ کچھ نہ بولا اور وہ بھی خاموش تھی۔
کچھ لمحوں تک وہ دونوں ہی ایک دوسرے کی خاموشی سنتے رہے۔
"شانزہ" ایک لفظ نکلا تھا امان کے لبوں سے!
شانزہ کے چہرے پر مسکان پھیلی۔ کتنے دنوں بعد اس کے منہ سے اپنا نام سنا تھا۔
"جی"۔ شانزہ نے جواب دیا۔
"کیسی ہو؟" ایک سوال کیا تھا۔
"ٹھیک ہوں۔۔" مختصر جواب۔
"مجھے معاف کردو۔۔۔" لہجہ کانپ اٹھا۔
" اس سے کیا ہوگا؟"۔
"میں سب سے معافی مانگ لوں گا۔ تمہارے بابا سے بھی۔۔۔ اور۔۔ اور اگر تم کہو گی تو عدیل سے بھی"۔ شانزہ نے حیرت سے فون کو دیکھا۔ اس شخص کو عدیل سے کتنی نفرت تھی اس کے باوجود وہ صرف شانزہ کے لئے عدیل کے پاؤں پڑنے کو بھی تیار تھا۔
"ان سب سے کیا ہوگا؟"۔ وہ کیا اگلوانا چاہتی تھی؟
"تم لوٹ آؤ شانزہ! میں کہنا چاہتا ہوں کہ۔۔۔ کہ امان کے کان ترس گئے ہیں شانزہ کی آواز سننے کو، اس کی قدموں کی آہٹ سننے کو! وہ چاہتا ہے کہ شانزہ کے ساتھ ابھرتے سورج کو دیکھے، پھیلتی شفق اور اڑتے پرندوں دیکھے اور منظر میں کھوجائے۔ وہ چاہتا ہے کہ شانزہ اسے موقع دے کہ وہ اسے خود اپنے ہاتھوں سے شال پہنائے"۔ وہ رکا نہیں تھا! کہتا گیا۔
شانزہ کی سانسیں گہری ہوئیں۔ وہ خاموش ہوا اس کا جواب سننے کے لئے۔ پھر کئی لمحے گزرے، کافی سیکنڈز گزر گئے، مگر اس کی آواز نہ آئی۔ امان کے دل میں خوف پیدا ہوا۔ یہ علامت کہیں اس مطالبے کی تو نہیں تھی؟ اس کی سانسیں اٹک گئیں۔
"شانزہ چاہتی ہے کہ اس کا شوہر خود اس کے پاس چل کر آئے!"۔ ساکت ہونے کی باری اب امان کی تھی۔ " وہ چاہتی ہے کہ وہ ہر چھٹی والے روز ساحلِ سمندر پر شفق دیکھتے گزاریں۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کا شوہر یہ جان لے کہ وہ اسے چھوڑ کر نہیں جائے گی۔ وہ چاہتی ہے اس کا مجازی خدا اس کا نام دل پر لکھ لے تاکہ وہ مٹ نہ سکے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس خوبصورت موسم میں وہ اور اس کا شوہر شہر کی سڑکوں پر آوارہ گردی کریں اور انہیں وقت کا احساس نہ ہو! یہ ملن کا موسم ہے اس لئے شانزہ چاہتی ہے کہ اس کا شوہر آدھے گھنٹے کے اندر اندر اس کو لینے آجائے ورنہ وہ پھر سے روٹھ جائے گی"۔ امان کا دل مچل گیا۔ ہکا بکا اس کو سن کر فون کو تکنے لگا۔ یہ وہ کیا کہہ رہی تھی؟ امان کی آنکھیں گیلی ہوئیں۔ وہ متحیر ہوا۔ کیا وہ اپنی قسمت پر رشک کرے؟ وہ چلتا ہوا لاؤنج کے دروازے پر آیا جس کے باہر گارڈن تھا۔
"اور تمہیں پتا ہے امان کیا چاہتا تھا؟ امان چاہتا ہے اس کی شانزہ جلدی سے تیار ہوجائے کیونکہ کراچی کی سڑکیں اور یہ موسم ان کا انتظار کررہے ہیں۔ میں آرہا ہوں شانزہ! تمہارا امان آرہا یے۔ میرا انتظار کرو"۔ شانزہ نے مسکراتے ہوئے ساتھ کال کاٹی اور نیچے نفیسہ کے کمرے میں بھاگی۔
"اماں میں جارہی ہوں"۔ خوشی سے کہتے ہوئے اس نے نفیسہ کو اطلاع دی۔ نفیسہ نے پیچھے مڑ کر شانزہ کے چہرے کو دیکھا جہاں زندگی سے بھرپور مسکراہٹ تھی۔ مدھم سی مسکراہٹ ان کے لبوں پر رینگی تھی۔
۔۔۔★★۔۔۔
"میں جارہا ہوں زمان۔ وہ میرا انتظار کررہی ہے"۔ خوشی سے پھیلتی امان کی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے وہ ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگا۔ موبائل زمان کے ہاتھ سے چھوٹتے ہوئے بچا۔
"کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟"۔ وہ خوشی کے مارے چیخ اٹھا تھا۔
امان جو تیزی سے جیکٹ پہن رہا تھا اس نے آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو انگلی سے صاف کرتے ہوئے اثبات میں سرہلایا۔ زمان اس کی طرف تیزی سے آکر گلے لگا۔
"میں نے کہا تھا نا وہ آئے گی؟ بس ایک کال کرنے کی دیر تھی۔ جاؤ اس کے پاس! اللہ تمہیں ہر خوشی دے۔ کامیابی تمہارے قدم چومے"۔ اس نے اسے زور سے بھینچا اور تپھک کر پیچھے ہٹ گیا۔
امان نے مسکرا کر صوفے سے شال اٹھائی۔
"شال کس کے لئے لے کر جارہے ہو؟"۔ وہ اسے چھیڑتے ہوئے پوچھنے لگا۔
"میں جانتا ہوں وہ شال نہیں پہن کر آئے گی! مجھے ہی دینی پڑے گی"۔ کہتا ساتھ چابی اٹھاتا مسکراتا ہوا باہر نکل گیا۔ پیچھے کھڑا زمان نے آج کتنے دنوں بعد اس کے چہرے پر کھلتی ہوئی مسکراہٹ دیکھی تھی۔ وہ اب بھی بے یقین تھا اور آنکھیں پھاڑے یقین کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ تو کیا وہ اسے معاف کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی؟ زمان نے مسکرا کر امان کو جاتے دیکھنے لگا۔
۔۔۔★★۔۔۔
وہ تقریباً بھگاتا کوا گاڑی لایا تھا۔ وہ اس موسم کا لطف اپنی شریکِ حیات کے ساتھ مل کر لینا چاہتا تھا۔ گھر کے سامنے گاڑی روک کر گاڑی کا ہارن بجایا اور بجاتا چلا گیا۔
اندر نفیسہ کے پاس بیٹھی اس کی گاڑی کا ہارن سنا تو پرس اٹھاتی ماں کے گلے لگتی باہر کی جانب بھاگی۔ دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھی اور گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔ وہ اسے دیکھنے میں اتنا محو تھا کہ اسے مخاطب بھی کرنا بھول گیا تھا۔
"پوچھیں گے نہیں کہاں جانا چاہوں گی؟"۔
اس نے محبت سے شکوہ کیا۔
"کہاں جانا چاہو گی؟"۔ اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا وہ اس کے سحر میں کھویا ہوا تھا۔
"بہت دیکھ لیا ہم نے ابھرتا سورج! اب ہم ڈوبتا سورج دیکھیں گے۔۔۔ اس ہلکی رم جھم میں شانزہ اور شانزہ کا امان دونوں ساحل کنارے کھڑے ہوکر اپنے مسقبل کا سوچیں گے۔ اپنی زندگیوں سے وحشتوں کو ختم کردیں گے۔ بھاپ اڑاتی چائے بھی پئیں گے اور دونوں ہاتھوں میں ہاتھ تھامے ننگے پیر گیلی ریت پر چلیں گے۔ جب پورے طریقے سے دل بھر جائے گا تو گھر کی راہ لیں گے اور زمان بھائی کی شادی کے بارے میں سوچیں گے"۔ وہ آخری جملہ ہنستے ہوئے بولی تھی۔ وہ اس کی کھلکھلاہٹ میں کھو جانا تھا۔ وہ اس کا ہوجانا چاہتا تھا۔ وہ اس کا ہوچکا تھا۔ اسے اپنی قسمت پر رشک محسوس ہوا۔ اسے یاد آیا وہ کتنی بار اپنی قسمت کو کوس چکا ہے۔ قسمت بری نہیں ہوتی بلکہ انسان جو کچھ بوتا وہی کاٹتا ہے۔ وہ اس کے ساتھ تھی یہ کافی تھا امان کے لئے۔
۔۔۔★★۔۔۔
شاہ منزل میں رنگ بکھیرتی خوشیوں کا داخلہ ہوا تھا۔ تین دن سے سب کچھ بدلا ہوا تھا۔ اس گھر میں شانزہ کو لوٹے تیسرا دن تھا۔ یہاں زمان کے قہقہوں کے ساتھ امان کی ہنسی بھی گونج رہی تھی۔
"ناشتہ تو لادے کوئی اللہ کا بندہ"۔ وہ ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھا پندرہ منٹ سے دہائیاں دے رہا تھا۔
"لارہی ہوں زمان بھائی"۔ وہ کچن سے ٹرے لے کر نکلی۔
"واہ واہ کیا ناشتہ بنایا ہے"۔ اس نے ڈھکن اٹھا اٹھا کر دیکھے۔ شانزہ نے مسکرا کر ارد گرد دیکھا۔
"امان کدھر ہیں؟"۔ اسی وقت امان لاؤنج میں داخل ہوا۔
"نام لیا شیطان حاضر"۔ زمان اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتا ہوا بولا۔
"کیا کہا ذرا واپس تو دہرانا"۔ امان نے اس کا کان پکڑ کر کھینچے رکھا۔
"آہ ہ۔۔ دیکھو "ش" کا کمال ہے! اب میں تمہیں شیطان کہوں یا شوہر! بات تو ایک ہی ہے"۔ وہ اپنا کان چھڑاتا ہوا بولا۔
"ہم بھی دیکھیں گے"۔ امان مسکراتا ہوا بنھویں اچکاتا ڈائیننگ ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھا۔
"شادی تو ہوجانے دو"۔ وہ ناشتہ شروع کرتے ہوئے بولا، مگر پر کچھ یاد آنے پر ہاتھ روک لئے۔
"شانزہ آجاؤ اس سے پہلے میں تمہارے شوہر کو کھاجاؤں! بھوک ناقابلِ برداشت یے"۔ زمان نے کچن کی طرف آواز لگائی۔
"آرہی ہوں زمان بھائی"۔ کہتے ساتھ چائے کی ٹرے بھی لے آئی۔ ٹرے میز پر سجا کر امان کے برابر میں بیٹھ گئی۔ سب نے ناشتہ ساتھ شروع کیا۔ زمان کے موبائل پر بپ ہوئی تو وہ بائیں ہاتھ سے موبائل نکال کر نوٹیفکیشن دیکھنے لگا۔
شانزہ نے اسے مصروف دیکھا تو امان کی طرف گردن موڑی۔
"میں نے آپ کے لئے کافی بنائی ہے"۔ مدھم آواز میں کہتی وہ نظریں ملا کر بھی نہ بول پائی تھی۔ امان کے لبوں ہر مسکراہٹ پھیلی۔
"نوازش آپ کی"۔ اس کی جھکی پلکوں اور سرخ ہوتے گالوں کو دیکھنے میں اتنا محو تھا کہ یہ بھی نہ محسوس کرسکا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔
"ٹھیک ہے کہ بیوی ہے، مگر کمرے سے باہر صرف مجھے دیکھ کر گزارا نہیں کرسکتے؟"۔ زمان نے اسے گھورا۔ امان گڑبڑایا۔
"نہیں وہ۔۔ میں۔۔"
"مجھے بھی دیکھ لیا کرو"۔ زمان نے شرمندہ ہوتے امان کو دیکھا۔ شانزہ کی جھکی نظریں اور جھک گئیں۔
"تمہیں دیکھنے سے اچھا میں کسی دیوار کو گھور لوں" امان نے بنھویں اچکائیں۔
"اپنے مشاغل بیان نہ کیا کرو شاہ صاحب"۔ اس نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔ امان نے خاموشی میں ہی عافیت جانی۔
"خیر میری بات سنیں آپ دونوں! آج آپ دونوں کو میرے گھر جانا یے! اور جیسے میں نے بتایا تھا ویسے ہی کہنا ہے آپ نے امان!! اوکے؟"۔ زمان کسی کو سوچ کر مسکرادیا۔
"ہم کل جائیں گے"۔ امان نے اپنا فیصلہ سنایا۔
"ہاں یہ ٹھیک کہہ رہا ہے"۔ زمان نے اس کا ساتھ دیا اور دونوں نے آپس میں تالی ماری۔
"ہم آج ہی جائیں گے۔ میں نے ماما سے کہا تھا کہ کچھ روز میں آپ دونوں کو لے کر آؤں گی! کسی سے نہیں ملے آپ لوگ اور اکثر نے تو چہرے بھی نہیں دیکھے آپ کے"۔ وہ دونوں کو باری باری گھورتے ہوئے بولی۔
"بلکل ٹھیک! ہم آج ہی جائیں گے"۔ امان نے پینترا بدلا۔ زمان حیرانی سے اسے دیکھنے لگا۔
"اوہو! فوراً اپنی بات سے پھر گئے؟"۔
"بیوی کی بات بھی ماننی پڑتی ہے یار"۔ وہ مبہم سا مسکرایا۔ شانزہ بھی ہنس دی۔
"شانزہ!"۔ امان نے شانزہ کو مضاطب کیا۔
"میرا جانا بنتا ہے مگر زمان کیوں؟"۔ اس نے آنکھیں سکیڑ کر زمان کو دیکھا۔
"تو کیا مجھے جھولے سے اٹھایا تھا؟ میں تمہارا بھائی نہیں ہوں؟"۔ اس نے میز پر ہاتھ مارا۔
"میں نے آپ کو بتایا تھا کل رات! ان کا پروپوزل لے کر جانا ہے"۔ شانزہ نے امان کے آگے اس کی کافی کا کپ رکھا۔
"اس کا رشتہ؟ اتنا بڑا ہوگیا ہے یہ پتا بھی نہیں چلا"۔ امان کی بات ہر شانزہ کا اپنی ہنسی نہ روک پائی۔
"ہاں میں اس کے ہونے کے دس سال بعد پیدا ہوا تھا"۔ زمان نے طنز کیا۔ امان کا قہقہہ گونجا۔
"ویسے شانزہ بھابھی! کہو گی کیا وہاں پر جاکر؟"۔
"کس بارے میں؟"۔
"میرا پروپوزل؟"۔
"فاطمہ نے گھر میں سب کو بتادیا ہے نا؟"۔ شانزہ نے کنفرم کرنا چاہا۔
"ہاں کہہ رہی تھی صبور آنٹی کو بتادیا ہے! یقیناً انہوں نے سب کو خبر کردی ہوگی"۔
"اوہ اچھا اچھا! پہلے تو ملاقات کرواؤں گی۔ پھر کہہ دوں گی اپنے دیور کا پروپوزل لائی ہوں"۔
صدمہ!
ایک اور صدمہ!
"کون دیور؟؟ جیٹھ ہوں تمہارا میں"۔ اس نے میز پر پھر سے ہاتھ مارا۔ میز توڑنے کا پورا ارادہ کیا ہوا تھا۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now