قسط ۱۸

3.2K 178 32
                                    

"ہیلو؟"۔ وہ ایک ہاتھ سے پاستہ کا چمچ منہ میں ڈالتا ہوا دوسرے ہاتھ سے فون کان پر لگائے بےحد مصروف تھا۔
"کہاں ہو؟"۔ دوسری طرف کسی نے سختی سے پوچھا۔
"شادی کرلی ہے اور بیوی کے ساتھ ریسٹورنٹ میں بیٹھا ہوں"۔ سامنے بیٹھی اس کی بات پر طیش میں آئی لڑکی کو دیکھ کر بولا۔
"کیا بکواس ہے یہ؟"۔ امان غصہ سے بولا۔
"یار نہیں کی شادی! اب تمہارا جیسا بندہ بننے کے لئے بھی ظرف چاہئے ہوتا ہے بھائی! خیر میں کمال صاحب کی بیٹی کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ بس ایک چھوٹی سی ملاقات ہے جلد ہی گھر پہنچوں گا! سب باتیں گھر آکر ہی بتاؤں گا اور ہاں خدا کا واسطہ ہے میری جاسوسی کے لیے گارڈز نہ بجھوادینا یار۔۔!" کہہ کر کچھ دیر بعد کال کاٹ دی۔ میز پر موبائل پر رکھا اور اس کی جانب دیکھا جو کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی۔
"کون بیوی؟ اور کون کمال کی بیٹی؟ میں فاطمہ جاوید ہوں یہ بات دماغ میں بٹھالو"۔ وہ دانت پیس کر میز پر ہاتھ مار کر بولی۔
"جہاں تک بیوی کی بات ہے تو میں آپ کو نہیں کہہ رہا تھا"۔
"آپ نے کہا آپ اپنی بیوی کے ساتھ ریسٹورینٹ میں بیٹھے ہیں"۔ اس نے اسے یاد دلایا۔
"اس ریسٹورینٹ میں دس سے زائد لڑکیاں بیٹھی ہیں ہوسکتا ہے انہیں کہا ہو۔۔۔ آپ کیوں یہ بات اپنے آپ پر لے رہی ہیں؟"۔ وہ بات اسی کے جانب گھما گیا۔۔۔ فاطمہ بےاختیار شرمندہ ہوئی۔ کیا ٹیڑھا بندہ تھا وہ۔۔۔!
"تو کیا اب میں کھانا کھالوں؟"۔ وہ پاستہ پر پگھلتی چیز کو دیکھتے ہوئے بولا۔
"تو پہلے کونسا اجازت سے کھارہے تھے آپ؟"۔ وہ بھی تڑخ کر بولی۔
"میرے کھانے سے نظریں دور کرو فاطمہ اکرم۔۔۔ میں گندی نگاہیں اپنے کھانے پر محسوس نہیں سکتا"۔ وہ اسے گھورتا ہوا بولا۔ وہ جو واقعی پاستہ کو دیکھ رہی تھی بےاختیار شرمندہ ہوئی۔ یہ شخص اسے ہر موقع ہر شرمندہ کروارہا تھا۔ فاطمہ کے منہ میں پانی آنے لگا تھا، مگر اب آنکھوں میں پانی آنا باقی تھا۔
"میں نے پوچھا تھا تم سے کہ کیا تمہیں کھانے میں کچھ چاہئے؟ مگر آپ نے منع کردیا۔۔۔ " وہ پاستہ کی جانب جھک گیا"۔ فاطمہ نے تھک کر نظریں دوسری طرف کرلیں۔ اس بندے سے نبٹنا کم از کم اس کے بس کی بات نہیں تھی۔۔۔ وہ کبھی آپ سے مخاطب کرتا کبھی تم سے۔
"مجھے سمجھ نہیں آرہی جب میں نے تم کو لاہور کال کی تھی اس وقت تم غصہ بھی تھے اور پریشان بھی! مگر اب ایسا کیا ہوا ہے جو تم یہ شانزہ اور امان صاحب والا موضوع چھیڑنے سے ہی گریز کررہے ہو؟"۔
زمان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
"یہ مت بھولئے فاطمہ جاوید کہ میں نے آپ سے کہا تھا کہ تاخیر سے نہ آئیے گا۔۔۔" فاطمہ نے تھوک نگلا۔ وہ کچھ دیر تک بول ہی نہ پائی۔
"تو کیا میں واقعی۔۔۔۔؟" بات ادھوری چھوڑدی کہ مکمل کرنے کی ہمت نہ تھی۔ زمان نے کھانے پر سے ہاتھ اٹھالیئے اور اثبات میں سرہلایا۔
"بہت تاخیر سے۔۔۔۔ میں شانزہ کو وہاں سے نکال کر اپنی بھائی کی جان نہیں لے سکتا"۔ وہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔ فاطمہ کو رونا سا آنے لگا۔
"ہاں اگر شانزہ خود بھاگ جائے یا نکلنے کی کوشش کرے تو میں اسے وہاں سے نکلوا لوں گا، مگر میں خود سے نہیں بھائی سے یہ کہہ سکتا کہ وہ شانزہ کو چھوڑدے"۔ فاطمہ کی ہمت بندھی۔
"تو اب کیا؟"۔
"تو یہ کہ میں صرف کوشش کروں گا اور اگر کچھ وقت بعد شانزہ الگ نہ ہونا چاہتی ہو امان سے تو پھر مجھے بےحد خوشی ہوگی"۔
فاطمہ جلدی سے نفی میں سرہلایا۔
"وہ میرے بھائی کی منگیتر تھی زمان!"۔ فاطمہ طیش سے بولی۔
"مت بھولو وہ اب میرے بھائی کی بیوی ہے فاطمہ جاوید۔۔۔۔ کون سا منگیتر؟ وہ عدیل؟ اگر ایسا تھا تو وہ کیوں نہیں آیا شانزہ کے پیچھے؟ شانزہ کی مدد کرنے؟ اگر اتنی محبت تھی تو چھڑالیتا امان سے اس کو! لگتا ہے امان کے سامنے وہ بھی نہیں ٹہھرا۔۔۔۔" زمان طنزیہ بولا۔
"زبردستی نکاح ہوا ہے جس میں شانزہ کی مرضی نہیں تھی"۔ وہ بلند آواز میں بولی۔
"تو کس نے منع کیا ہے آواز نہ اٹھانے کے لئے؟ اٹھائے آواز لگادے الفاظوں سے آگ۔۔۔ اور میں اس سب میں اس کا ساتھ دوں گا پھر۔۔۔ امان کو میں نہیں سمجھا سکتا۔ یہ کام شانزہ امان ہی کرسکتی ہے! وہ اسے جنجھوڑ کر بتا سکتی ہے کہ امان نے غلط کیا! لیکن ایک بات یاد رکھنا۔ امان معافی مانگنے والوں میں سے نہیں! ہاں مگر بیوی کے سامنے کوئی نہیں ٹہھر سکتا وہ وقت آنے پر مانگ سکتا یے معافی، مگر صرف اس سے! اور ہاں یہ بات بھی ذہن نشین کرلو کہ وہ اسے چھوڑے گا نہیں کسی بھی حال میں۔۔۔ اور خدا کا واسطہ اپنے بھائی کا ذکر نہ لاؤ بیچ میں۔۔۔ مجھے اچھا نہیں لگ رہا کہ تم بار بار شانزہ کو عدیل کی منگیتر کہہ رہی ہو! بھابھی ہے وہ میری اور امان کی بیوی ہے۔۔۔ ہاں میں اس کی مدد کروں گا تم فکر مت کرو"۔ وہ ایک ہی بات میں معاملہ سلجھا گیا تھا۔
"یعنی تم اس شخص کے سامنے ہار گئے جس کا ذکر تم نے ہماری تیسری ملاقات پر کیا تھا؟"۔ اس نے دکھ سے پوچھا۔
"جی اور وہ شخص میرا بھائی ہی تھا فاطمہ جاوید" تاثرات سنجیدہ تھے۔ کھانا ٹھنڈا ہوچکا تھا۔
"میرے بھائی کی زندگی برباد کردی گئی ہے زمان!۔ اس کا کیا قصور تھا؟"۔ وہ دانت پیس کر میز پر ہاتھ مار کر بولی۔
"پہلی بات آہستہ مس فاطمہ!! یہ پبلک پلیس ہے۔۔۔ اگر اتنا بھائی بھائی کی رٹ لگائے رکھی ہے تو بھائی کو سمجھاتی اپنے! کہتی کہ اس کے پیچھے جائے۔ ڈھونڈے شانزہ کو۔۔۔؟ عاشق اپنے محبوب کے لئے پورا شہر چھان مارتے ہیں، مگر وہ تو گھر سے بھی نہیں نکلا! کیوں نہیں بولا کچھ جب امان کے بارے میں پتا چلا تھا؟ کیا یقین اٹھ گیا تھا شانزہ پر سے؟ اتنا کمزور تھا اعتبار شانزہ پر؟ محبت کی پہلی سیڑھی ہی اعتبار کی ہوتی ہے۔ اگر رشتے میں اعتبار نہ ہو تو وہ محبت نہیں بلکہ کھوکھلا رشتہ کہلاتا ہے۔۔۔ امان شانزہ سے محبت کرتا یے۔ میں حقیقت تسلیم کرکے یہ کہتا ہوں کہ امان نے جو کیا وہ غلط ہی تھا تو عدیل نے چپ رہ کر اچھا کیا؟ میں آج کی ملاقات یہیں پر ختم کرنا چاہتا ہوں فاطمہ جاوید لیکن آپ فکر نہ کریں شانزہ جو چاہے گی وہ کرسکتی ہے، مگر خود سے۔۔۔ میں امان کے سامنے کچھ نہیں کہہ سکتا۔۔۔ مجھے اپنے بھائی سے بہت پیار ہے۔ ہم اس وقت سے ساتھ ہیں جب ہم دنیا میں بھی نہیں آئے تھے۔۔۔"۔ زمان اٹھ کھڑا ہوا۔ فاطمہ روہانسی ہوگئی۔
"آپ سے ملاقات ہوگی اور جلد ہوگی۔۔۔ میں آپ سے ایک اور ملاقات چاہوں گا، مگر شانزہ سے بات کرکے۔۔۔" وہ پلٹنے لگا کہ کچھ یاد آنے پر مڑا۔
"تو کیا بل آپ پے کریں گی؟"۔
"جی"۔ وہ مختصراً بولی۔
"شکریہ۔۔۔ کال کرکے آگاہ کروں گا کہ اگلی ملاقات کب اور کہاں ہونی چاہئے۔۔۔ اور ہاں رمشا نامی لڑکی بری نہیں ہے اور نہ تو وہ دل برے کرتی ہے! کسی کے لئے کسی کے۔۔۔۔ ہم اپنے گناہ اور برائیاں اس کے ذمہ کیوں ڈالیں؟ محبت کرنے والوں پر اعتبار اتنا مضبوط ہونا چاہیئے کہ آنکھوں دیکھی کے سوا کسی اور بات یا بھکاوے میں نہیں آئیں۔ آنکھوں دیکھی بھی وہ جو دکھایا نہ جارہا ہو۔ معاملے کی تفشیش کرنی چاہئے۔ بٹھا کر سب معاملے سلجھانے چاہئے جو آپ کے چاچو اور بھائی نے کیا نہیں۔ رمشا اتنی بری نہیں ہے! برے آپ ہیں! اس نے کہا اور آپ نے یقین کرلیا؟ تفشیش کئے بغیر؟۔ کتنے سالوں کا اعتبار شانزہ نے نہیں توڑا بلکہ آپ کے گھر والوں اور عدیل نے مل کر شانزہ کا توڑا ہے! اس کا یقین نہ کرکے۔۔۔۔! ایک تنہا صحرا میں بھٹکی لڑکی۔۔۔ اسے گھر سے اور دل سے نکال باہر کیا جو گھر والوں کے دل میں رہنا چاہتی تھی۔۔۔" وہ مڑ گیا مگر فاطمہ کی آنکھیں بگھو گیا۔ وہ متحیر ہوئی تھی۔۔۔۔ وہ یہ سب کیسے جانتا تھا؟ رمشا، عدیل کا رویہ اور اس دن کا واقعہ جس دن شانزہ کو گھر سے نہیں بلکہ دل سے بھی بےدخل کردیا گیا تھا؟ ہاں وہ نہیں جانتی تھی کہ زمان شاہ بغیر کسی تحقیق کے کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ فاطمہ اس کی پشت دیکھتی رہ گئی۔۔۔ وہ جب گلاس ڈور سے نکلنے لگا تھا تو ایک نظر مڑ کر فاطمہ کو ضرور دیکھا تھا۔ فاطمہ نے لب بھینچے۔ وہ اتنا بھی برا نہیں تھا۔ اس کے الفاظ فاطمہ کو چھلنی ضورو کر گئے کیونکہ سچ سننا بھی ظرف کا کام ہے، مگر وہ ہر جھوٹ سے پاک بات کرنے کا عادی تھا۔ وہ فاطمہ کو مکمل نہیں جانتا تھا مگر اتنا ضرور جان گیا کہ وہ اس کی بات کو سوچے گی ضرور!
۔۔۔★★۔۔۔
وہ نڈھال سی بستر پر لیٹی تھیں۔ بے سدھ۔۔۔ بیٹی کے بچھڑنے کا دکھ انہیں پاگل کررہا تھا۔
"ناصر میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں۔۔۔ اچھے بیٹے اچھے شوہر بن سکتے تو اچھے باپ کیوں نہیں بن پائے؟ جب بیٹی سے پوری زندگی برا رویہ رکھنا تھا تو اسے پیدا کیوں کیا تھا؟ مار دیتے کم از کم یوں وہ رسوا نہ ہورہی ہوتی۔ آپ کا کلیجہ نہیں منہ کو آتا کیا؟"۔ وہ روتے ہوئے خود سے کہہ رہی تھیں۔ کمرے میں تنہا دروازے کو تالا لگائے وہ روتی جارہی تھیں۔ وہ بیٹی جو ان کے جسم کا حصہ تھی اور اب وہ لاپتا تھی۔ ہمیشہ آواز کو دباتی آئی تھیں، مگر اب بیٹی کا معاملہ تھا۔۔۔ وہ ایک ایک کے گریبان پکڑیں گی انہوں نے خود سے تہیہ کیا تھا۔ خود پر ہر لفاظ سہہ سکتی تھیں، مگر بیٹی پر نہیں۔
۔۔۔★★۔۔۔
وہ گھر میں داخل ہو کر سیدھا لاؤنج کی جانب آیا۔ لاؤنج میں رکھے صوفے پر شانزہ بیٹھی گہری سوچ میں غرق تھی۔ زمان کی طرف اس کی پشت تھی۔ وہ اطمینان سے چلتا ہوا اس کی جانب آیا اور اس کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔
"اتنا مت سوچو ہمارا بل ذیادہ آئے گا لڑکی!"۔ وہ شرارت سے بولا۔ وہ ہڑبڑا اٹھی۔
"آپ؟"۔ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔
"ہاں جی میں۔۔۔۔" وہ ادب سے سر جھکا کر بولا۔ شانزہ اسے پہلی بار قریب سے دیکھا تھا۔ وہ بنا بنایا امان تھا۔۔۔ دونوں کی صورتوں میں ذرا برابر فرق نہ تھا حتی کہ اکثر آواز بھی ملی جلی لگتی۔
"آپ ٹھیک ہیں؟"۔ وہ صبح کے واقعہ کو مدنظر رکھ کر بولی
"ہاں جی میں تو فٹ ہوں۔۔۔ ویسے میرا کیوں حال پوچھا جارہا ہے؟" وہ مسکراتا ہوا دور رکھے صوفے پر بیٹھ گیا اور شانزہ کو بیٹھنے کا اشارہ بھی دے دیا۔
دونوں کے درمیان دو تین صوفوں کا فاصلہ تھا۔
"نہیں وہ آپ کک۔کو۔۔۔ وہ اوپر پپ۔پنکھا"۔ اس سے الفاظ ادا نہیں ہوپائے۔
"اس میں کون سی بڑی بات ہے۔۔۔ یہ تو روز کی ہی بات ہے"۔ وہ کندھا اچکا کر بولا جیسے یہ بات کوئی معنی ہی نہیں رکھتی۔ شانزہ تو چونک ہی اٹھی۔
"روز ؟"۔ لہجے میں حیرانگی تھی۔
"نہیں لیکن ہفتے میں دو روز لازمی"۔ وہ مسکرا کر بولا
"آپ کو تکلیف۔۔۔؟"۔
"تو کیا ہوا۔۔۔ بس نیند آتی ہے باقی سب برداشت کے قابل یے"۔ وہ کنتی حیران کن باتیں کرتا ہے۔ شانزہ سوچ کہ ہی رہ گئی۔
"آپ کو الٹا لٹک کر نیند بھی آجاتی ہے؟"۔ یہ سب اس کے لئے نیا تھا۔
"نیند تو ہر جگہ آجاتی ہے۔ ایک دفعہ میں الٹا لٹکے لٹکے تھک گیا تھا تو نیند آگئی تھی۔ جب تک امان واپس آیا تاکہ رسی کھول دے تب تک میں نیند لے کر اٹھ بھی چکا تھا"۔
اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ رہی تھیں۔
"تم حیران مت ہو ذیادہ۔ یہ اس گھر میں عام ہے شانزہ"۔ شانزہ نے اسے عجیب نظروں سے دیکھا۔
"غریب بھی بہت ہوں میں۔ بہت غریب آدمی ہوں میں تم نہیں جانتی"۔ ایک وہی پرانا رونا۔ شانزہ کو اس پر رحم آیا۔
"مجھے پتا ہے تمہیں بھی یقین نہیں آئے گا، میں تمہیں اپنا والٹ دکھا دیتا ہوں ایک پیسہ بھی نہیں اس میں"۔ اس نے سرعت سے جیب میں ہاتھ ڈالا اور پھر نکالنا بھول گیا۔
"میرا والٹ" وہ چیخ کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ اس کے یوں چیخنے پر شانزہ ڈر گئی۔
"میرا والٹ کہاں گیا"۔ اپنی تمام جیبیں کھنگالنے لگا۔
"آپ نے کہا تھا اس میں پیسے نہیں تھے تو آپ ذیادہ پریشان نہ ہوں شکر ہے اس میں پیسے نہیں تھے"۔ شانزہ نے اسے تسلی دی اور زمان کو اپنے دس دس اور پانچ ہزار کی نوٹیں یاد آنے لگیں۔
"ہاں پپ۔پیسے تو بلکل نہیں تھے، مگر والٹ بہت عزیز تھا مجھے!"۔ وہ دل کو تھامتے ہوئے صوفے پر صدمے کی حالت میں بیٹھا۔
"ہاں اب بتاؤ۔۔۔ اچھا ہوا تمہارا "خالی" والٹ چوری ہوگیا شکر کہ اس میں پیسے نہیں تھے"۔ امان لاؤنج میں داخل ہوتا ہوا ایک ایک لفظ کو چبا کر ادا کرتا ہوا اندر آیا۔
"تمہاری بددعا میرے والٹ کو کھاگئی امان!"۔ وہ روہانسا ہوا۔
"خالی والٹ کو یا بھرے ہوئے کو؟"۔ وہ اسے غور سے دیکھتا ہوا بولا۔
"ایک تو والٹ چوری ہوگیا شانزہ اوپر سے تمہارا شوہر مجھے زچ کررہا ہے"۔ شانزہ جو امان کو دیکھتے ہی سہم سی گئی تھی اس کی بات پر لب بھینچ گئی۔
"میرا دل! ہائے میرا دل امان"۔ وہ دل کو تھامتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
"کیوں دل بھی چوری کرلیا کمال صاحب کی بیٹی نے؟"۔ وہ طنزیہ بولا۔
"میرے ادھڑے ہوئے زخموں کو اور مت ادھیڑوں امان۔ میں اپنے والٹ کے لئے ویسے ہی دکھی ہوں"۔ وہ دل کو تھامتا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
"امان بھائی"۔ وہ مڑا اور اس کے گلے لگ گیا۔
امان نے شانزہ کو دیکھا اور آنکھوں سے لپٹے زمان کی طرف اشارہ کیا جیسے کہہ رہا ہو کہ دیکھ رہی ہو زمان کو؟۔ شانزہ تو دونوں کو ہی عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"کون سی والی چھوڑ گئی زمان؟"۔ وہ اس کے بال سہلاتا ہوا بولا۔
"ہاں صرف چار لڑکیوں سے ہی محبت کرتا تھا۔۔۔ ایک ہی ساتھ چاروں چھوڑ گئی۔ یہ لڑکیاں سچی کیوں نہیں ہوتیں؟"۔ وہ مصنوعی تاثرات بنائے روتا ہوا اپنی ناک اس کی شرٹ پر رگڑنے لگا۔ امان کا قہقہہ بےساختہ تھا۔ زمان کا ایک ہاتھ امان کے کندھے پر تھا اور دوسرا ہاتھ امان کی پینٹ کی جیب میں جو اس کا پرس ٹٹول رہا تھا۔
"بائی دا وے اتنا مکھن کیوں لگایا جارہا ہے؟"۔
"کیونکہ مکھن کے ساتھ ساتھ والٹ بھی نکالا جارہا ہے" وہ کامیاب ہوگیا تھا۔ امان کی مسکراہٹ سمٹی۔
"میرا والٹ دو مجھے"۔ وہ چیخا۔
"کیوں دوں؟ بس اب میرا ہوگیا ہے"۔ وہ بھاگتا ہوا ایسی جگہ جا کر کھڑا جہاں سے بھاگنے میں آسانی ہو۔
"میرا والٹ لوٹاؤ مجھے"۔ وہ دانت پیس کر غصہ کی آخری حدوں پر پہنچ گیا۔ زمان نے اثبات میں سرہلایا اور اس کا والٹ کھولنے لگا۔
"افو ہو اتنی نوٹیں۔۔۔۔۔ گرم نوٹیں"۔ وہ ایک ایک کو سونگھ رہا تھا۔
"میں بتا رہا ہوں زمان والٹ میں پیسے رکھ دو اور مجھے پکڑادو ورنہ بہت برا ہوگا"۔ امان وارن کرتا ہوا بولا۔
شانزہ دور کھڑی ہوگئی تھی اور اب تماشہ ہوتے دیکھ رہی تھی۔
"آہا چلو لوٹادیتے ہیں۔۔۔" ساری نوٹیں والٹ سے نکال کر جیب میں رکھ لیں اور خالی والٹ اس کی جانب اچھ دیا۔
"لے لو۔۔۔ اور ہاں میں کسی کا احسان نہیں رکھتا! لوٹا دوں گا اگر کبھی زندگی میں اتنی نوٹیں آئیں ہاتھ میں"۔ امان اب لب بھینچے اس کو دیکھ رہا تھا۔ "احسان" کا لفظ یہ جان کر بھی ادا کیا تھا کہ صبح کسی کے پیسوں کا حلق میں اتار کر احسان رکھ آیا تھا۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now