قسط ۲۲

2.7K 179 34
                                    

"میں باپ ہوں اس کا! میرا اعتبار تھا اس پر، مگر اس نے توڑدیا"۔ وہ صدمے سے دوچار ہوئے۔ نفیسہ بیگم آنکھ پھاڑے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھیں۔
"آپ نے اس رمشا کی بات پر اعتبار کیا؟۔ جو شانزہ کو راستے سے ہٹانا چاہتی تھی تاکہ وہ عدیل سے شادی کرسکے اس نے حقارت سے رمشا کو دیکھا جس کی رنگت اب پیلی پڑرہی تھی۔ ناصر صاحب نے رمشا کو حیرت اور بےیقینی سے دیکھا۔
"ایسا نہیں ہے"۔ رمشا اپنی صفائی میں بولی۔
"خدا کی قسم کھاؤ اور کہو کہ میں جھوٹ کہہ رہی ہوں؟"۔ فاطمہ نے اس کے تاثرات جانچے۔
"کہو اب خاموش کیوں ہو؟"۔ وہ زور سے چیخی۔
"کہو کہ تم شانزہ کو راستے سے ہٹانا نہیں چاہ رہی تھی ؟ تم سب جانتی تھی۔۔۔! تم جانتی تھی کہ امان شانزہ کو بلیک میل کررہا تھا مگر تم نے نہیں بتایا! تم نے شانزہ کی کمزوری کو اپنی طاقت بنالیا۔ تم نے اسے گندا کردیا گھر والوں کی نظروں میں۔۔۔ شانزہ کا ساتھ دینے کے بجائے ہمیشہ کی طرح تم نے اسے کھائی میں پھینکا ہے، مگر دیکھ لو آج تم خود کنویں میں گرگئی۔۔۔ کچھ یاد ہے چاچو؟۔ یاد کریں جس دن شانزہ کو امان کے ساتھ کالج کے باہر دیکھا تھا آپ نے، اس دن رمشا ساتھ تھی آپ کے؟ کیسے؟ یہ بات تو آپ جانتے ہیں نا کہ اسے شانزہ میں کوئی دلچسپی نہیں؟۔ وہ کیوں گئی تھی اسپیشلی اسے لینے! کیونکہ وہ ایک ایک بات سے باخبر تھی"۔ عدیل ساکت ہوا۔ دیوار پکڑتا ہوا نیچے بیٹھتا چلا گی۔ ان باتوں کو ہضم کرنا کتنا مشکل تھا۔
"تم جھوٹ مت بولو فاطمہ"۔ رمشا چیخی۔
"ایسا نہیں ہوسکتا"۔ ناصر صاحب چلائے۔ "رمشا نہیں کرسکتی ایسے"۔
"چپ رہیں ناصر صاحب آپ! کبھی تو اپنی اولاد کی طرفداری کرلیا کریں!"۔ وہ عورت جو اتنے سالوں سے خاموش تھی آج بولی پڑی۔
"اپنی بچی کے لئے بِھی نہ بولی میں! مجھ جیسی ماں بھی کیا ماں ہے، مگر اب نہیں۔۔ مجھے میری بچی چاہیئے ناصر صاحب!"۔ وہ پوری وقت سے چلا رہی تھیں۔ ناصر صاحب نے فق رنگت سے رمشا کو دیکھا۔
"کیا فاطمہ سچ کہہ رہی ہے رمشا؟"۔ وہ دھیرے سے پوچھنے لگی۔ وہ خاموش بیٹھی رہی۔ کچھ نہ بولی۔
"کیا فاطمہ سچ کہہ رہی ہے رمشا؟"۔ بات دہرائی تھی، مگر انداز کچھ اور تھا۔ وہ چیخے تھے۔
رمشا نے تھوک نگل کر سہمتے ہوئے اثبات میں سرہلایا۔ ناصر صاحب ساکت ہوئے۔ نفیسہ نڈھال ہو کر ایک طرف پڑگئیں۔
"میری شانزہ"۔ کانپتے ہوئے لبوں سے دو الفاظ ادا ہوئے تھے۔
۔۔۔★★۔۔۔
"میں معاف نہیں کروں گی!۔ میں کیسے معاف کردوں؟ میں آپ سے شدید نفرت کرتی ہوں امان شاہ"۔ وہ چیخی تھی اور امان ہونقوں کی طرح اس کو دیکھ رہا تھا۔
"آپ کو کیا لگا کہ ایک لڑکی کو اغواہ کرکے زبردستی نکاح کریں گے اس سے اور پھر وہ آپ سے محبت کرنے لگے گی؟؟؟ ایک رات میں بدل گئی ایک لڑکی کوئی ماجرا تو ہوگا۔ مجھے آپ سے محبت نہیں ہے"۔ وہ اسے باور کروارہی تھی اور امان! امان بےیقین تھا۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ گھٹنوں کے بل گرگیا۔
"تم نے کہا تھا تم مجھ سے محبت۔۔۔۔" وہ ساکت نظروں سے صرف اتنا ہی کہہ پایا۔
دور کھڑے زمان کو تکلیف ہوئی۔
"صحیح کہا تھا کسی نے کہ امان پیار کی زبان سمجھتا ہے اور دیکھو ایسا ہی ہوا۔ میں نے مضبوط کھڑے امان کو کمزور کردیا۔ اسے اپنی جھوٹی محبت کا یقین دلا کر!۔ عورت اپنے اوپر ہوا کوئی ظلم نہیں بھول سکتی۔۔۔۔ میں نے محبت نہیں کی امان! میں نے جو کی ہے وہ صرف نفرت ہے"۔ یہ کہتے ہوئے شانزہ کے لب کپکپائے تھے۔ امان کے آنکھ سے آنسو نکل کر بہہ گیا۔
"اب آپ اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ اب آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے! کچھ بھی نہیں!۔ اپنی محبت میں آپ کو کمزور اور لاچار کردیا ہے۔ میں جیت گئی اور اب مجھے یہاں نہیں رہنا۔ مجھے جانا ہے اس گھر سے ابھی! مجھے طلاق چاہیئے امان"۔ وہ اتنی زور سے چیخی کہ امان کو اپنے کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔وہ ساکت ہوا۔
"زمان"۔ ایک آواز لبوں سے نکلی تھی۔
زمان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"شانزہ کو گھر چھوڑ آؤ! یہ جو چاہے گی اب صرف وہی ہوگا"۔ ہر تاثرات سے عاری چہرے سے وہ شانزہ کو یک ٹک دیکھ رہا تھا۔ شانزہ کی لال آنکھیں اور آنکھوں میں چمکتے آنسو اس کی جیت کی گواہی دے رہے تھے۔ زمان کے ساتھ بنائے ہوئے پلان میں کامیاب ہوگئی تھی، مگر زمان اپنے بھائی کی ساتھ ہی ٹوٹ گیا تھا۔
ایک نظر اسے دیکھ کر وہ پلٹ گئی۔
وہ جیت گئی تھی۔
وہ ہار گیا تھا۔
وہ جارہی تھی۔
وہ تھم گیا تھا۔
زمان نے گاڑی کی چابی سنبھالی اور اس کے پیچھے مڑگیا۔ وہ اس کو مکمل توڑ گئی تھی۔ اس کا وجود چھلنی ہوچکا تھا۔ سب ختم ہوچکا تھا۔
۔۔۔★★۔۔۔
"وہ خوش ہے چاچو اب!۔ شکر منائیں وہ شخص اسے واقعی چاہتا ہے۔۔۔ وہ خوش ہے بہت! زمان سے اسی سلسلے میں ملاقات ہوتی رہی ہے۔ ذرا شک کی نگاہوں سے دور ہٹ کر دیکھے آپ کے گھر کی بیٹیاں پاکباز ہیں۔ اس نے بیوفائی نہیں دکھائی۔ جس دم اسے عدیل بھائی کی ضرورت تھی اس وقت عدیل بھائی نے ساتھ نہیں دیا۔ دیا تو چاچو آپ نے بھی نہیں تھا"۔ عدیل نے اپنا سر پکڑ لیا۔ یہ اس سے کیا ہوگیا تھا۔ اس نے اپنی زندگی اپنے ہاتھوں سے برباد کی تھی۔
صبور اور جاوید بےیقین کھڑے تھے۔
"آئم سوری تایا ابو"۔ وہ آنسو پیتی سرجھکا کر بولی۔
"میں نے تمہیں معاف کیا رمشا! میری غلطی تھی۔ بھائی بھابھی کے بعد تمہاری تربیت میرے ذمہ تھی۔۔۔ میں تمہاری اچھی تربیت نہیں کرپایا"۔ وہ دکھ اور رنج سے بولے تھے۔ سارا غرور ملیا میٹ ہوگیا تھا۔
۔۔۔★★۔۔۔
"گھر آگیا ہے شانزہ"۔ گاڑی اس کے گھر کے سامنے روکی تھی۔ وہ جو سپاٹ چہرہ لئے بیٹھی تھی بائیں جانب گردن موڑ کر اپنے گھر کو اوپر سے نیچے تک دیکھنے لگی۔ اس گھر میں نہ آنے کی قسم کھائی تھی، مگر وقت وقت کی بات ہوتی ہے!۔
"جی!"۔ اسے ہوش آیا تو وہ اترنے لگی۔ اتر کر دروازہ بند کرنے کے لئے دروازے کو تھاما۔
"مجھے آپ کی یاد آئے گی زمان بھائی"۔ دل ڈوب ڈوب کر ابھررہا تھا۔
"اور امان؟"۔ ایک امید سے اسے دیکھ رہا تھا۔ شانزہ نے کرب سے اسے دیکھا اور پلٹ گئی۔ وہ یہاں رک کر  اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتی تھی جو اسے آتا ہی نہیں تھا۔ وہ گہری دکھ کی سانس بھرتا ہوا گاڑی آگے بڑھا کر لے گیا۔
۔۔۔★★۔۔۔
عدیل بالوں میں انگلیاں پھنسائے بیٹھا تھا۔ یہ اس سے کیا ہوگیا تھا۔ وہ بے گناہ تھی پھر اسے کس بات کی سزا ملی؟ وہ اس کی محبت تھی۔ وہ رودیا۔
اس نے اپنی زندگی خود اپنے ہاتھوں سے برباد کردی تھی۔
فاطمہ سب باتوں سے پردہ اٹھانے کے بعد خود بھی صحن کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔ رمشا کا جھکا چہرہ اور جھک گیا تھا۔ یہ سب کرنے سے پہلے اس نے لمحہ بھر کو بھی نہیں سوچا تھا کہ اگر اس کا راز افشاں ہوگیا تو کیا ہوگا۔۔۔۔؟
۔۔۔★★۔۔۔
اس نے بےجان ہوتے ہاتھوں سے دروازہ کھٹکھٹانا چاہا، مگر وہ اس کے ہلکے دباؤ سے ہی کھل گیا۔ دروازہ لاک نہیں تھا۔ غم اتنا تھا کہ اس پر بھی دھیان نہیں دیا۔ اپنے آپ کو گھسیٹتے ہوئے وہ صحن تک لائی تھی۔ وہ اپنا سب کچھ ختم کر آئی تھی۔ وہ اس شخص کو چھوڑ آئی تھی، مگر اپنی دنیا اسی کے پاس رکھ آئی تھی۔ صحن میں سب اکھٹا تھے۔ حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔
"شانزہ تم؟ میری بیٹی۔۔۔۔ مم۔مجھے معاف کردو"۔ وہ تیزی سے اس کے قریب آئے۔۔۔ ہاتھ میں تھاما بیگ ہاتھ چھوٹ زمین پر گرگیا۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
"میں نے سب کو معاف کیا"۔ لب کپکپانے لگے۔ اس نے کسی کو بھی نہیں حتٰی کہ اپنی ماں کو بھی نہیں گلے لگایا۔ وہ دھیرے سے چلتی سیدھا اپنے کمرے میں آگئی۔ دروازے کو اندر سے کنڈی لگا کر سسکتے ہوئے بیڈ ہر آبیٹھی۔ وہ اپنی قیمتی شہہ چھوڑ آئی تھی! وہ شاہ منزل میں اپنا دل چھوڑ آئی تھی۔۔۔ بس ایک ہینڈ بیگ اٹھا لائی تھی اس کے سوا اور کچھ نہیں۔۔۔ اپنا سب کچھ وہاں چھوڑ آئی۔ جذبات بھی اور دل بھی۔ وہ رونے لگی۔ سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھی۔ دونوں پاؤں اوپر کرکے گھٹنوں کے گرد ہاتھ پھیلائے وہ سمٹ کر بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے نہیں معلوم تھے باہر کے حالات! اور جاننے کی آرزو بھی نہیں تھی۔ دل زور سے دھڑک رہا تھا۔ وہ وہیں لیٹ گئی۔ وہ کسی سے بات کرنے ابھی قابل نہیں تھی۔ سسکیاں گونجتی رہی اور بڑھتی رہی۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب کمرے میں سناٹا چھاگیا۔ وہ سوگئی۔ تھک کر۔۔۔
۔۔۔★★۔۔۔
وہ گاڑی تقریباً بھگاتا ہوا گھر تک لایا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی تمام گارڈز کو اکھٹا کیا تھا۔
"اسلحے چھپادو! خاص طور پر امان کے کمرے میں مجھے کچھ نظر نہیں آنا چاہئیے! پستول کیا پھل کاٹنے والی چھری نہ ملے مجھے وہاں! ہر دم ہر وقت اس پر نظر رکھنی ہے۔۔۔! اب جاؤ جلدی سے"۔ وہ سب جانتے کہ زمان ایسا کیوں کہہ رہا ہے۔ وہ اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔
وہ تھوڑی دیر کے وقفے سے کمرے میں آیا۔ امان زمین پر بیٹھا دیوار سے ٹیک لگایا ہوا تھا۔ بالوں میں انگلیاں پھنسائے زمین کو تکنے میں مصروف تھا۔ اس کی حالت زمان خود سمجھنے سے قاصر تھا۔ گارڈز اس کے کمرے کی تلاشی لے رہے تھے۔ وہ اسے دیکھتا ہوا اس کے برابر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
"گارڈز کیا کررہے ہیں یہاں زمان؟"۔ اس کی موجودگی محسوس کرکے وہ بہت دھیرے، بہت آہستہ آواز میں زمین پر نظریں ٹکائے پوچھ رہا تھا۔
"کچھ نہیں۔۔۔ تم ٹھیک ہو؟"۔ اس کے بالوں پر انگلیاں پھیر کر وہ نرمی سے پوچھنے لگا۔
"کیا وہ مجھے چھوڑ گئی زمان۔۔۔؟" ساکت نظروں سے سامنے تکتے ہوئے دھڑکتے دل سے اس سے سوال کیا۔
"تمہیں بھوک لگی ہے؟ کچھ کھانے کو لاؤں؟"۔ وہ اس کی بات کا جواب دینے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔
"کیا وہ مجھے چھوڑ گئی زمان؟"۔ سوال پھر پوچھا گیا۔ زمان ٹوٹ کر رہ گیا۔
"وہ تمہیں چھوڑ گئی ہے امان! چلی گئی ہے"۔ اب وہ بھی ہمت ہار گیا تھا۔
"وہ مجھے چھوڑ گئی ہے زمان! میں نے اس کے ساتھ زبردستی نکاح کیا تھا۔ میں نے غلط کیا تھا۔ اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ دو دن میں زندگی بدلی تھی اور دو دن میں پھر بدل گئی۔۔۔ کیسے رہوں گا میں؟" اس کی طرف دیکھ کر وہ بکھرے لہجے میں کہہ رہا تھا۔
"مجھے نہیں پتا! پلیز میری طرف یوں مت دیکھو مجھے اذیت ہورہی ہے"۔ زمان نے کرب سے کہا۔
"میں نے اوپر کا کمرہ لاک کردیا ہے!۔ میں منہاج ہوں نا؟ منہاج کی ماہ نور اسے چھوڑ گئی۔ تم کہتے تھے کہ تم اور بابا میں کوئی فرق نہیں۔۔۔ ایسا نہیں ہے زمان! ہم الگ ہیں بلکل! وہ اچھے بھی تھے۔۔ اور مجھ میں اچھائی نہیں! جو میرے قریب آتا ہے جلد بچھڑ جاتا یے۔۔۔ میں اندر سے مررہا ہوں زمان! مجھے ایسا لگ رہا ہے میری روح نکل رہی ہے میرے جسم سے! میں تڑپ رہا ہوں اور ہمت دیکھو ذرا میری وجود ہل بھی نہیں رہا جبکہ دل مچل رہا ہے۔ آج صبح اس کے ساتھ میں نے آسمان پر پھیلتی شفق دیکھی۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس کے بعد وہ مجھے ماردے گی۔۔ اگر معلوم ہوتا تو میں اس کے ساتھ وہیں کہیں رہ جاتا اور لوٹتا ہی نہیں! وہاں کے منظر میں تحلیل ہوجاتا۔ مجھے کبھی کچھ ہوجائے تو اسے کال کرکے یہ مت کہنا کہ واپس لوٹ آؤ! میں اس پر اب کوئی زبردستی نہیں کرنا چاہتا۔ اگر وہ خود آئے تو کیا ہی بات ہوجائے، مگر اس سے مت کہنا۔۔ اس سے مت کہنا کہ امان چاہتا ہے تم واپس آجاؤ چاہے میں تڑپ ہی کیوں نہ رہا ہوں! میں مر کیوں نہ رہا ہوں، مگر تم اس سے کچھ مت کہنا۔۔۔اس پر زبردستی نہیں کرنا۔ دعا کرو وہ خود لوٹ آئے۔۔۔ اس سے بات کرنا خود سے۔۔۔ اس کا حال چال پوچھنا! اگر وہ میرے بارے کوئی بات کرے تو مجھے ضرور بتانا۔۔۔ مجھے ضرور بتانا"۔ آنکھوں سے آنسو بےدردی سے صاف کئے، مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا!۔ آنکھیں پھر بھر آئیں۔
"خیال رکھو اپنا۔۔۔اور آؤ میرے کمرے میں چلو۔۔۔" زمان آنکھیں صاف کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔
"تم نے ساری نقصان پہنچانے والی چیزیں غائب کروادی ہیں ۔۔۔بےفکر رہو"۔ امان نے چہرہ ہاتھوں سے ڈھانپا۔
"کمرے میں چلو میرے! میں تمہیں اکیلے کہیں نہیں چھوڑسکتا۔۔۔۔" اس نے ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانا چاہا۔
"میں بچہ نہیں ہوں زمان! جاؤ یہاں سے فوراً"۔ سختی سے کہتے ہوئے امان نے اپنا ہاتھ چھڑایا۔
"ایسا مت کرو۔۔۔ پلیز اٹھو! تم بہت تنگ کرتے اٹھو اب"۔ وہ پھر سے اسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ سہارے لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور بیڈ پر جاکر لیٹ گیا۔
"بہت ڈھیٹ ہو تم"۔ زمان نے مٹھیاں بھینچیں۔
"باہر جاؤ! میں تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتا ہوں"۔ لرزتی آواز میں کہتے ہوئے اس نے کروٹ لی۔ زمان کا دل گویا کسی نے چیر دیا ہو۔ وہ باہر کی جانب بڑھ گیا، مگر دروازہ بند نہیں کیا۔ امان نے مڑ کر دیکھا تو وہ جاچکا تھا۔ کروٹ لیتے ہی اس کی آنکھیں پھر سے بہنا شروع ہوگئیں۔ وہ دعا کرے گا! وہ اللہ سے اسے پھر سے مانگے گا، مگر اب سچے دل سے! وہ اب اس کے ساتھ زبردستی نہیں کرے گا۔۔۔ اس کے ہر فیصلے پر دل مار کر سرجھکائے گا، مگر وہ دعا کرے گا کہ اللہ اس کا دل اس کی جانب موڑ دے۔ اس نے ٹھیک کہا تھا! وہ اسے واقعی کمزور کرگئی ہے۔ اتنا کمزور کہ اس کی ہر اکڑ ملیا میٹ ہوگئی ہے۔۔۔ وہ کچھ کہہ بھی نہ سکا۔ وہ اپنی بھی نہ چلاسکا۔ وہ اسے بے بس کرگئی صرف محبت کرکے! وہ جانتا تھا وہ بہت جلد پاگل ہونے والا ہے۔
۔۔۔★★۔۔۔
وہ گہری نیند میں تھی جب اس کی آنکھ کسی کے دروازہ کھٹکھٹانے کھلی۔ سوجی آنکھوں اور لال ہوتے چہرے کے ساتھ اس نے دروازہ کھولا۔ دل اب بھی نہیں تھا دروازہ کھولنے کو، مگر کبھی نہ کبھی تو کھولنا ہی تھا۔ وہ ان لوگوں سے ملنا نہیں چاہتی تھی جنہوں نے اس کی سیدھی سادھی سی چلتی زندگی میں خلل پیدا کیا۔ دروازہ کھولنے پر نفیسہ بیگم نم آنکھیں لئے اس کے گلے لگیں۔ اس میں اتنی بھی ہمت نہ کوئی کہ ان کے گرد بانہیں پھیلادے۔ دس منٹ بعد اب وہ اس کا ماضی پوچھنے لگیں۔ اسے بےاختیار امان کی یاد آئی۔ وہ آخری وقت میں کیسے رورہا تھا، بلک رہا تھا۔
"مجھ سے مت پوچھیں اماں ایسے سوالات! مجھے اچھا نہیں لگے گا ماضی دہرانا۔ سب سے کہہ دیں کہ شانزہ کا ماضی اس سے نہ پوچھیں! وہ اگلی زندگی شروع کرنا چاہتی ہے ماضی کو پسِ پشت رکھ کر"۔ آنکھیں مرجھا گئیں۔
وہ جیت گئی تھی۔ سب اس کے پلین کے مطابق ہوا تھا۔ وہ امان کو ہرا آئی خود جیت کر، مگر ہار گئی تھی۔ کبھی دیکھا نہیں ہوگا تم نے جیت کے ہارا ہوا شخص! وہ خاموش ہوگئیں۔ ماں تھیں تو جستجو رکھتی تھیں جاننے کی! کہ اتنے عرصے میں کیا ہوا اس کے ساتھ! شانزہ کچھ دیر کے وقفے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسے عشاء کی نماز پڑھنی تھی۔ اسے اپنے اللہ کے آگے جھکنا تھا۔ جب انسانوں میں دل نہ لگے تو وہ خدا ہی واحد سہارا ہوتا جس کے سامنے آپ اپنے جذبات بیان کرسکتے ہیں۔ اس کے سامنے بکھریں گے تو بعد میں دکھ نہیں ہوگا کہ کس کو حال سنادیا کہیں وہ آپ کو ہی غلط نہ سمجھے۔ وہ ہمارے جذبات کو جانتا ہے۔ وہ سنتا ہے پھر حکم کرتا ہے۔۔ وہ معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔ وہ اللہ کے سامنے جھک گئی۔ پیچھے بیٹھی نفیسہ بیگم نے اسے اس وقت کرب دیکھا جب وہ نماز پڑھ کر اللہ کے سامنے رودی۔ پھوٹ پھوٹ کر! جیسے کوئی گناہگار کوئی بڑا گناہ کرکے سچی توبہ کرتا ہے۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئیں ۔ یہ ان کی بیٹی اور اللہ کا معاملہ تھا۔ وہ چوری چھپے نہیں سننا چاہتی تھیں۔ وہ کمرے وسط سے ہوتی ہوئے باہر چلی آئیں۔ سست قدموں سے اپنے کمرے میں داخل ہوئیں۔ ناصر صاحب سجدے میں گرے ہوئے تھے۔ یقیناً روروہے تھے۔
"کس بات کی معافیاں مانگ رہے ہیں ناصر صاحب! بیٹی کی زندگی برباد کرنے میں آپ کا اپنا بھی ہاتھ ہے" ڈھیلے ہوتے وجود کے ساتھ وہ بیڈ پر بیٹھی تھیں۔ لہجہ بھیگا ہوا تھا۔ آہستہ اور دھیرے سے کہتی ہوئیں وہ زمین کو یک ٹک گھورنے لگیں۔ وہ ان کی آواز پاکر سجدے سے سر اٹھا کر انہیں تکنے لگے۔
"میرا "بھی"؟ میرا ہی ہاتھ ہے نفیسہ! اسے میری ضرورت تھی! اسے اپنے باپ کی ضرورت تھی۔ کتنا پکارا ہوگا مجھے اس نے مگر۔۔۔!" وہ کہہ ہی نہ پائے اور آنکھوں سے آنسو روا ہوگئے۔
"کیا تم نے اس سے پوچھا نفیسہ؟"۔ وہ جائے تہہ کرتے ان کے قریب آئے۔
"وہ نہیں بتانا چاہتی ناصر! اس سے کوئی نہ پوچھے اس کا ماضی"۔ انہوں نے آنکھیں رگڑیں۔
"کیسے آئی ہے وہ گھر؟ اس بےغیرت شخص نے اسے آسانی سے چھوڑ دیا؟"۔ حیرانی متوقع تھی ۔
"مجھے نہیں پتا۔۔۔ لیکن وہ شخص اس کا شوہر ہے۔ نکاح میں ہے شانزہ اس کے! میں کچن میں جارہی ہوں ناصر! اس کے کمرے میں ابھی کوئی نہ جائے۔ وہ خدا کو اپنے غم سنا رہی ہے"۔ اٹھ کر ادھ کھلے دروازے کے پار چلی گئیں۔ پیچھے بیٹھے ناصر صاحب کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا تھا۔
۔۔۔★★۔۔۔
شانزہ گھر آچکی تھی۔ رمشا جانتی تھی کہ اس کے زوال کا وقت آچکا ہے۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہی تب ہوا جب وہ پکڑی گئی۔ اس نے واقعی اس وقت سوچا تھا۔ اپنے انجام کا، اپنے زوال کا۔ سب کی نظروں میں گرچکی تھی وہ۔ رونے میں کمی نہیں آرہی تھی۔ سب سے الگ الگ جا کر اس نے معافی مانگی تھی۔ عدیل کے نہ ملنے کے دکھ سے وہ اور ٹوٹ گئی تھی۔ وہ شانزہ سے معافی مانگے گی اور اسے امید تھی کہ وہ اسے معاف کردے گی۔۔۔ اسے توبہ بھی کرنی تھی۔ اپنے رب سے! اپنے گناہوں کی۔۔۔۔
۔۔۔★★۔۔۔
فجر کے وقت وہ امان کے کمرے میں داخل ہوا۔ کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ اوندھا لیٹے ہوئے وہ شاید سورہا تھا۔ زمان اس کے قریب آکر برابر میں بیٹھ گیا۔ اس کے چہرے سے بال ہٹائے کر اسے پیار اور نرمی سے دیکھا۔ اس کی پیشانی کو چوما تو محسوس ہوا جیسے کسی تپتی چیز کو چوم لیا ہوا۔ اسے تیز بخار ہورہا تھا۔ زمان نے پریشانی سے اسے دیکھا اور تیزی سے دوائی اور ساتھ پانی لے کر آیا۔
"امان اٹھو۔۔۔" اسے جنجھوڑ کر اٹھایا تو وہ سوجی ہوئی آنکھوں ہلکی سی کھول کر اسے دیکھنے لگا۔
"تم یہاں کیا کررہے ہو؟"۔ خمار آلود لہجے میں وہ اسے حیرانی اور سختی سے پوچھ رہا تھا۔
"دوائی کھاؤ تمہیں بخار ہورہا ہے!"۔ اسے ڈپٹ کر دوائی پیش کی اور ساتھ پانی کا گلاس بھی۔
"مجھے نہیں کھانی"۔ اس نے پھر سے کروٹ لے لیا۔
"کھا کر سوجاؤ"۔ اس نے اسے اٹھانا چاہا۔
"جاؤ یہاں سے زمان میرے سر میں بہت درد ہے"۔ اس کو خود سے دور کرتے ہوئے وہ چیخا تھا۔
"چیخو مت! بس یہ کھا لو جارہا ہوں میں۔۔۔" وہ اسے قابو کرنے کے لئے چیخا۔
"میری بیوی بننے کی کوشش مت کرو"۔ امان نے گھورتے اسے گھورا۔
"تمہاری بیوی بننے کا شوق نہیں ہے مجھے امان۔۔۔" وہ منہ بنا کر بولا۔
امان کی نظریں ساکت ہوئیں۔ آنکھیں بھیگنے میں لمحے نہیں لگے۔
"وہ تو بیوی ہے، مگر اسے شوق نہیں! اس لئے اس نے طلاق کا مطالبہ کیا۔ ہے نا زمان؟"۔
زمان نے لب بھینچے۔
"دوائی کھاؤ امان"۔ اس نے سختی سے کہا۔
امان اٹھ کر بیٹھا اور دوائی کھا کر پھر لیٹ گیا۔
"کھالی ہے دوائی میں نے اب چلے جاؤ"۔ اس نے نظریں پھیر لیں۔
"بخار کیوں چڑھ گیا ہے تمہیں اتنا"۔ وہ واقعی پریشان ہوگیا تھا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
"امان پلیز خود کو سنبھالو ایسے نہیں چلے گا!"۔ اس سے رہا نہیں گیا اس نے امان کو جنجھوڑ ڈالا۔
"کیا سنبھالوں؟ وہ سنبھالنے والی گئی ہے تمہارے بھائی کو چھوڑ کر!"۔ وہ جواباً چیخ پڑا۔
"ٹھیک ہوجاؤ" اس کا لہجہ بھیگ گیا۔
"میں ٹھیک ہوں مگر۔۔۔۔۔ وہ مجھے چھوڑ گئی۔ دعا کرو زمان وہ لوٹ آئے۔۔ کروگے نا دعا؟"۔ وہ اسے امید بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا۔
"کروں گا میں۔۔۔" وہ اس کے گلے لگ گیا۔
"اگر میں اس سب سے پہلے مرگیا تو۔۔۔۔؟" اس سب میں امان کا لہجہ کانپا تھا۔
"اللہ نہ کرے۔۔۔" اس نے سختی سے اسے بھینچا۔
"مجھے کمزوری ہورہی ہے بہت"۔ وہ سسک کر بولا۔
"اٹھو جاؤ نماز پڑھو! اسے مانگو دعاؤں میں! پہلے اپنی چلائی تھی اب اس بار اللہ پر چھوڑ دو۔۔۔ بات سمجھ رہے ہو نا؟" وہ اسے بچوں کی طرح سمجھا رہا تھا۔
"کیا اللہ مجھے معاف کردے گا زمان؟"۔
"کیوں نہیں! اللہ معاف کرنے والا برا مہربان ہے۔ جاؤ اور سجدے میں دل سے رو دو!"۔ امان کی آنکھوں امید کے جگنو چمکے۔
"تو پھر جاؤ انتظار کس بات کا! کامیابی تمہارے انتظار میں ہے"۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
فجر کی ہوتی آذانیں کامیابی کی طرف بلا رہی تھیں۔ اور کتنے سالوں بعد وہ اپنے رب کے آگے سجدے میں جھکا۔ جائے نماز پر اپنے بھائی کے برابر کھڑے ہوکر نماز ادا کی تھی۔ جب جب سجدہ کیا، دل چاہا سجدہ اور لمبا کردے۔ دعاؤں کا سلسلہ کافی لمبا چلا تھا۔ معافی مانگی اپنے ہر کئے گئے گناہ گی۔ معافی کے وقت آنکھیں بھیگ گئی تھیں اور شانزہ کا موضوع آیا تو ہچکیاں بندھ گئیں۔ اسے لگا اگر وہ اور شانزہ کے متعلق خدا کو بتائے گا تو خود بکھر جائے گا۔ خدا کسی بات سے لاعلم تو نہیں! اس نے خود کو بکھرنے دیا۔ رب تو ٹوٹے ہوئے دلوں کو بھی جوڑ دیتا ہے۔ اسے یقین تھا کہ اس کا بھی جوڑ دیا جائے گا۔ اس نے دعا کی کہ شانزہ کا دل اس کی جانب موڑ دے۔ اس نے سچے دل سے دعا کی۔ یہ سلسلہ بھی کیا سلسلہ تھا۔ زمان نے اسے بکھرتے دیکھا تھا، مگر اسے دکھ نہیں ہوا۔ وہ بکھر سکتا تھا۔ وہ رب اور اس کا معاملہ تھا اور وہ خلل نہیں پیدا کرنا چاہتا تھا۔ زمان نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو پہلے ماں باپ کی مغفرت کی دعا مانگی۔ ماں باپ کی دعا مانگ کر اپنے لئے دعا کرنی چاہئے۔ ماں باپ کا دعا میں ذکر کئے بغیر دعا قبول نہیں ہوتی۔ باپ کے لئے اور اپنی ماں کے لیے گہرائی سے دعا مانگ کر وہ اپنی دعاؤں کا رخ امان کی جانب لایا تھا اور پھر اسے نہیں خبر کہ وہ کب تک اس کے لئے دعا کرتا رہا۔ اس کے بہترین مستقبل کے لیے،اس کی خواہشات پوری ہونے کے لئے اور اس کی خوشی کے لیے۔ شانزہ کے لیے بہت سی دعائیں کیونکہ دعاؤں کی اسے بھی بہت ضرورت تھی اور آخر میں وہ اپنے لیے دعا مانگنے لگا۔ اسے کیا کیا چاہیے۔ اس کی خواہشات، اس کی خوشیاں۔ اپنے آپ کو اور اپنے اہلِ خانہ کو دوزخ کی آگ سے بچانے لیے دعا مانگی۔ یہ بھی دعا مانگی کہ یا اللہ اس راستے پر چلا جس راستے پر تیرے مومن بندے چلتے ہیں۔ جس راستے پر تیری رضا ہے۔ ہر وہ کام سے بچا جو تیرے نزدیک غلط ہے۔۔ مجھے بھی اور میرے اہلِ خانہ کو بھی!
۔۔۔★★۔۔۔
دو، تین دن یونہی گزر گئے!۔ وہ کمرے سے باہر نکلتی تو صرف کھانے پینے کے لئے! اور پھر سے اندر چلی جاتی۔گھر میں موجود لوگوں کے دل تڑپتے! ناصر صاحب اپنی بیٹی کو حسرت سے دیکھتے۔ انہیں اب پتا چلا جب کوئی اپنا آپ سے اپنائیت نہ دکھائے تو کیسا لگتا ہے۔ اتنے سالوں بعد انہیں خبر ہوئی کہ کتنا عرصہ ہوگیا اور انہوں نے ایک بار بھی شانزہ کو گلے نہیں لگایا۔ وہ مرجھاتے پھول کی طرح ہوگئی تھی۔ ہر جذبات سے عاری ہوکر وہ ڈائینگ ٹیبل سے کمرے اور کمرے سے ڈائینگ ٹیبل تک کا ہی سفر کرتی۔ کھانے کے لئے ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھتی تو سب خاموش ہوجاتے اور محبت سے اسے دیکھتے۔ سب کو اس سے محبت بھی کب ہوئی جب اسے ضرورت ہی نہ رہی۔ عدیل حسرت سے دیکھتا  اور دیکھتا چلا جاتا۔ وہ سر جھکا کر کھانا کھاتی اور ختم کر کے کمرے کی طرف بڑھ جاتی۔ گھر آنے کے دوسرے دن کھانے کے بعد جب وہ کمرے میں جانے لگی تو ناصر صاحب سے رہا نہ گیا اور اس کی طرف لپکے اور گلے سے لگالیا۔ وہ رو بھی نہ سکی۔ ہاں مگر تھوڑا عجیب سا لگا تھا۔ اس سب کی عادت نہیں تھی اسے۔ وہ کافی رات کو اس کے کمرے میں بھی آئے تھے۔ خاموشیوں کا پہرا رہا۔ کمرے میں صرف سسکیاں گونج رہی تھیں ان کی۔ وہ انہیں دیکھتی رہی تکتی رہی۔ یہ آنسو اس کے لئے تھے اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ جب وہ اتنا روچکے کہ شانزہ کا دل لرز گیا تو وہ بول اٹھی۔
"بابا روئیں مت! آپ کی بیٹی کو تکلیف ہورہی ہے۔ چھوڑیں جو ہوگیا!۔ اب وہ دیکھیں جو ہوگا، مگر فیصلہ میں کروں گی بابا"۔ انہوں نے بڑھ کر اس کے ہاتھ چومے تھے۔
"میری بیٹی جو کہے گی اب صرف وہ ہی ہوگا"۔ اس نے انہیں دیکھا تھا اور یہ وقت اسے ماضی لے گیا تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ تمہیں پیدا ہوتے ہی مرجانا چاہیئے تھا۔ وہ لفظ تیر تھے جو اس کے دماغ کو سن کرگئے تھے۔ اس نے دل میں اٹھتے درد کو دبانا چاہا۔
وہ گھر میں یونہی پھرا کرتی جیسے کوئی مہمان ہو! دیکھا جائے تو ان دو تین دنوں میں اور بھی بہت کچھ ہوا تھا۔ جیسے عدیل کی معافی!۔
کمرے میں بیٹھے بیٹھے جب اسے وحشت ہونے لگی تو اس نے چھت کا رخ کیا تھا۔ وہاں عدیل پہلے سے موجود تھا، مگر اب انداز بدل گئے تھے۔ اب دیکھنے کی چاہ نہیں تھی۔ اسے دیکھتے ہی شانزہ نے رخ موڑ لیا تھا۔ وہ نیچے کی جانب بڑھنے لگی تھی کہ عدیل اس کی طرف جلدی سے آیا۔
وہ کچھ بولا نہیں تھا۔ بس خاموش نظروں سے اسے تکتے رہا۔ شانزہ نے یک ٹک اسے دیکھا اور سیڑھیوں کی جانب بڑھی۔ وہ پھر سے اس کے سامنے آگیا۔
"مجھے معاف کردو شانزہ!"۔ وہ جانتا تھا کہ وہ قابلِ معافی نہیں، مگر وہ اس سے محبت کرتا تھا۔
"میں نے سب کو معاف کردیا ہے"۔ سینے پر ہاتھ باندھ کر وہ ذرا ٹہھر کر بولی تھی۔
"تو کیا مجھے؟"۔ وہ حیران تھا۔
"جی" مختصر جواب۔ وہ خوش ہوگیا جیسے اس کے گناہ مٹ گئے۔
"ایک بات پوچھوں شانزہ؟"۔ لہجے میں جھجھک واضح تھی۔ اس نے جواب نہ دیا۔
"تم نے اب کیا سوچا ہے؟"۔ وہ اسے امید سے دیکھنے لگا۔ اگر اس نے امان کو چھوڑنے کا فیصلہ لے لیا ہے تو وہ اس کی اب بھی ہوسکتی ہے۔
"پتا نہیں!" سوچوں میں غرق تھی۔ اسے واقعی علم نہ تھا کہ وہ آگے کیا کرنے والی ہے؟
"تو کیا تم امان سے طلاق لے رہی ہو؟"
شانزہ نے اس سوال پر اسے جلدی سے دیکھا۔ کیا سوال تھا یہ جس پر آنکھیں لہو ہوگئیں۔
"وہ میرے شوہر ہیں"۔ وہ جلدی سے بولی۔
"میں جانتا ہوں جو میں نے کیا وہ بےحد غلط تھا شانزہ! مجھے تمھارا ساتھ دینا چاہئے تھا، مگر میں نہیں دے پایا! تم اس شخص سے طلاق لے لو! اگر تم نے نہیں لی تو تم خود پر ظلم کرو گی۔ وہ شخص اچھا نہیں ہے۔۔۔ وہ تمہاری زندگی برباد کردے گا"۔ شانزہ اس کی باتوں کو سکون سے سن رہی تھی جب تک اس نے یہ نہیں کہا۔
"میں اب تک تمہارے انتظار میں بیٹھا ہوں"۔ شانزہ نے جھٹکے سے اسے دیکھا۔
"میں کسی کی بیوی ہوں عدیل! آپ کو سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہئے"۔ شانزہ نے ایک تیز نظر اس پر ڈال نگاہیں پھیریں تھی۔ لہجہ سخت ہوچکا تھا۔
"میں تم سے محبت کرتا ہوں شانزہ"۔ وہ سسک کر بولا۔
"میرا شوہر بھی مجھ سے محبت کرتا ہے!"۔ وہ اسے یاد دلارہی تھی کہ وہ اکیلی نہیں۔ وہ کسی کے نکاح میں ہے۔
"مگر میں تمہیں بچپن سے چاہتا ہوں"۔
"مجھے اچھا نہیں لگ رہا ہے آپ کا بار بار یوں کہنا۔۔۔ میں کسی کی بیوی ہوں! جو بھی ہو وہ میرے شوہر ہیں عدیل! آپ یقین کرلیں اب"۔ لہجہ اب  بھی سخت ہی تھا۔
"اتنا سب کچھ ہونے کے بعد تم اس کی طرف داری کیسے کرسکتی ہو شانزہ؟۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گا! میں کچھ بہت برا کردوں گا"۔ وہ نفی میں سرہلاتا پیچھے ہٹنے لگا۔
"میں چاہتی ہوں کہ آپ شادی کرلیں اپنی پسند سے! میں اپنا مستقبل خود سنبھالنا چاہتی ہوں"۔ چاند کی مدھم روشنی میں عدیل کو یہ جملے آگ کے گولے کی طرح لگ رہے تھے۔
"میری پسند تم ہو!"۔ وہ بےساختہ بولا۔
"کوئی فرق نہیں پڑتا اب ان باتوں سے!"۔ اس نے رخ موڑا۔
"میں بدلہ ضرور لوں گا امان سے! اس نے میری زندگی تباہ کردی۔ میں بدلہ تو لوں گا!"۔ وہ یہ کیا کہہ رہا تھا۔ شانزہ نے اسے سر تا پیر دیکھا۔ وہ رکا نہیں تھا۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ نیچے چلا گیا۔ وہ وہیں پر رہ گئی۔ چھت پر! رات رک گئی۔ آسمان کو تکتے ہوئے بہت کچھ یاد آیا تھا۔ وہ شفق، وہ ابھرتا سورج، اور۔۔۔۔۔۔۔ کسی کا ساتھ!
۔۔۔★★۔۔۔
"وہ دو دن سے یونہی بیمار ہے شاہ نواز! کچھ بتاؤ تم لوگ بھی کیا کروں جس سے وہ بہتر ہوجائے؟"۔ تھکی تھکی سی نظروں سے شاہ نواز کو دیکھ کر مشورہ مانگ رہا تھا۔
"وہ لوٹ آئیں گی دادا! آپ پریشان مت ہوں"۔
"کیسے نہ ہوں؟ وہ میرا بھائی ہے شاہ نواز!۔ وہ تڑپ رہا ہے اور مجھے بھی تڑپا رہا ہے"۔
"میں اس گھر میں بہت سالوں سے ہوں دادا اور میں جانتا ہوں کہ یہاں کہ مکین بظاہر سخت ہیں، مگر دل ان کے بہت نرم ہے۔ محبت اْن کو جلد ہی کمزور کردیتی ہے۔۔۔" اس کے ایک ایک لفظ سچے تھے۔
اسی دم زمان کا فون بجا۔ اس نے نام پڑھا اور چونک کر کال اٹھائی۔
"ہیلو فاطمہ؟"
"اسلام علیکم"۔
"وعلیکم سلام"۔
"زمان! سب کیسا ہے وہاں؟"۔ فاطمہ نے ٹہھر  کر سوال کیا۔ زمان اٹھ کر باہر گارڈن میں آگیا۔
"کچھ ٹھیک نہیں ہے فاطمہ! میں بہت پریشان ہوں۔۔ میرا بھائی۔۔۔ وہ مرجائے گا۔ وہ مرجائے گا فاطمہ۔۔۔ میں مرجاؤں گا۔۔ " وہ تڑپ رہا تھا۔ فاطمہ کا دل سکڑا۔ اس نے زمان کا یہ والا روپ بھی ابھی دیکھا تھا۔
"ایزی ہوجاؤ زمان پہلے!"۔ فاطمہ نے اسے تسلی دی۔
"کیسے؟؟ نہیں ہوسکتا میں۔ میرا بھائی بد سے بدترین حالت کی طرف جارہا ہے فاطمہ!"۔
فاطمہ کو لگا وہ جلد ہی آبدیدہ ہونے والی ہے۔
"خیر! تم یہ بتاؤ وہاں سب کیسا ہے؟ سب ٹھیک ہے وہاں؟ کیسی ہے وہ؟"۔
فاطمہ لمحے بھر کو خاموش ہوئی۔
"سب ٹھیک ہے بس وہ گم صم سی رہنے لگی ہے۔ نہ کسی سے گفتگو نہ کچھ۔ میں آج اس سے بات کروں زمان"۔ اس نے زمان کو تسلی دی۔
"کیا کہو گی اس سے؟ اس سے زبردستی مت کرنا فاطمہ"۔
"میں اس کے جذبات جاننا چاہوں گی کہ وہ کونسا راستہ چننے کا سوچ رہی ہے"۔ فاطمہ نے اسے یقین دلایا۔
"مجھے آگاہ ضرور کرنا"۔
"ضرور! اور ہاں ایک اور بات کرنی تھی۔ یہ تم نے تابش سے کیا کہا تھا کل؟"۔
"کیا؟"۔ زمان کھسیانا ہوا۔
"انجان نہ بنو"۔ وہ مسکراہٹ دبا کر بولی۔
"بھول گیا میں"۔
"یہی کہ میں تمہاری منگیتر ہوں؟"۔
"ہاں میں نے جھوٹ بولا"۔ اس نے بلآخر مان لیا۔
"کیوں؟"۔
"کیونکہ مجھے نہیں پسند وہ!"۔ اس نے کندھے اچکائے۔
"تو اس کا مطلب تو اس سے کہو گے کہ میں تمہاری منگیتر ہوں؟"۔ وہ اسے اتنی آسانی سے تو چھوڑنے والی تھی نہیں۔
"تو بن جاؤ پھر کہنے میں آسانی ہوگی اور جھوٹ میں بھی شامل نہیں ہوگا"۔ وہ دل کی بات آسانی سے کہہ ہی گیا۔
فاطمہ خاموش ہوئی۔ وہ اب کیا کہتی۔
"کیا ہوا فاطمہ؟ کیا تم۔۔۔۔" بات خود ہی ادھوری چھوڑدی۔ دل میں ایک خوف جنم لینے لگا۔ کہیں وہ انکار نہ کردے۔
"یہ اس طرح کرتے خود شادی کے لئے بات؟ کوئی جملہ سوچتے ہیں کہ کیا کہنا اور کیا نہیں! مجھے وہ طریقہ پسند ہے۔۔۔" مسکراہٹ قابو کرتے ہوئے شرم سے کہنے لگی۔ زمان موبائل کے اس پار بھی اسے شرماتا ہوا محسوس کرسکتا تھا۔ خوشی اتنی ہوئی کہ کھلکھلانے لگا۔
"بہت جلد! تم دیکھنا بلکل الگ انداز میں اپنی خواہش ظاہر کرنے والا ہوں۔۔۔ میرا انتظار کرنا فاطمہ"۔ کہہ کر تھوڑی دیر بات کرکے فون رکھ دیا۔
تو ایک مشکل بلآخر آسان ہوگئی۔
وہ اس کی ہوجائے گی یہ احساس بھی اچھا تھا۔
اسے امان کا خیال آیا تو اوپر چلا آیا۔ وہ اب بھی یونہی بخار میں تپا ہوا تھا۔ اس کی دوا کا وقت ہوگیا تھا۔ سب سے مشکل کام ہی اسے دوا کھلانا تھا۔
"یہ لو دوا کھاؤ اٹھو۔۔۔" تھپک تھپک کر اسے اٹھایا تو کسمساتا اٹھ بیٹھا۔
"کیا وہ آئی زمان؟" پہلا سوال ہر بار کی طرح یہی تھا کہ وہ آئی تو ہوگی۔
"نہیں۔۔ تم دوا کھاؤ"  اس نے دوا پیش کی۔
"مجھے دیکھنے بھی نہیں آئی؟"۔ وہ امان کی آنکھوں میں دیکھنے سے گریز کررہا تھا۔
"نہیں۔۔۔ آئے گی تو تمہیں اٹھادوں گا۔۔ اب کھاؤ دوائی"۔ امان نے مرجھاتے چہرے سے دوائی کو دیکھا اور ہاتھ بڑھا کر دوائی اٹھائی۔
"تم خود سے کال کرو۔ کیا پتا وہ تمہاری کال کا انتظار کررہی ہو"
زمان نے اسے سمجھانا چاہا۔
"میں اس کے ساتھ زبردستی نہیں کرنا چاہتا زمان۔ وہ لوٹ کر آئے ہمدردی میں؟ میں نہیں چاہتا۔۔۔ وہ آئے خود سے! محبت میں۔۔۔ اس کو کوئی خبر دے کہ اس کے قدموں کی آہٹ سننے کو امان شاہ کے کان ترس گئے ہیں" زمان نے لب بھینچے۔
زمان خاموش رہا۔ شاید وہ صحیح کہہ رہا تھا۔
"کیا ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا یے؟ " وہ برابر میں رکھے سیل فون سے وقت دیکھنے لگا۔
"جی ہوگیا ہے۔۔۔ اٹھ جاؤ" اسے اچھا لگا کہ اس نے نماز کو اپنی زندگی کا اہم جزو بنادیا۔ انگلیوں کے پوروں سے وہ گن رہا تھا کہ شانزہ کی آواز اس گھر میں کب سے نہیں گونجی۔
۔۔۔★★۔۔۔
"تائی شانزہ کہاں ہے؟"۔ اس کے چہرے سے صاف ظاہر ہورہا تھا وہ روئی ہے۔ نفیسہ اس کے قریب آئیں۔
"کیا ہوا رمشا"۔ اس کا ماتھا چوم کر انہوں نے پیار سے پوچھا۔
"مجھے ندامت نے آگھیرا ہے تائی۔ میں نے اچھا نہیں کیا نا تائی؟ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔۔ میں نے کتنا غلط کردیا۔ مجھے معاف کردیں"۔ اس کے آنسو تیزی سے بہنے لگے۔
"میں نے معاف کیا میری جان۔۔۔ رو مت!"۔ وہ دکھ بھلانا چاہتی تھیں، مگر بھلا نہیں پارہی تھیں۔ انہیں رمشا کو دیکھ کر رہا نہیں گیا۔ ماں نہیں تھیں، مگر ماں بن کر پالا تھا۔
وہ گلے لگ کر کتنی دیر روتی رہی۔
"کیا شانزہ مجھے معاف کردے گی؟" بھیگے لہجے میں وہ بہت جذب سے پوچھ رہی تھی۔
"اس سے معافی مانگ کر تو دیکھو۔۔ وہ کمرے میں ہے چلے جاؤ"۔ اس کو تھپکتے ہوئے وہ مسکراتی کچن میں چلی گئیں۔ رمشا نے مڑ کر اس کے کمرے کے دروازے کو دیکھا تھا اور پچھتاوے نے اسے ایک بار پھر آگھیرا۔
۔۔۔★★۔۔۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now