قسط ۸

3.3K 190 19
                                    

زمان کو ڈاکٹر نے آرام کا کہا تھا تو وہ بستر توڑ رہا تھا۔ اب اسے ذیادہ مزہ آرہا تھا کیونکہ اب امان اس کی ساری چھوٹی خواہشات پوری کررہا تھا۔
"مجھے بھوک لگ رہی ہے!"۔ اب وہ ہر آدھے گھنٹے بعد یہی جملہ دہرا رہا تھا۔  
"کیا کھانا ہے؟"۔ امان نے اس کی دوائیوں کی تھیلی بند کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔
زمان نے ترچھی نگاہوں سے اسے دیکھا۔
"میں نے فرائز کھانے ہیں!"۔ زمان نے یہ کہتے اپنا سر پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا دبایا۔ وہ اسے دکھانا چاہتا تھا کہ اس کا درد کم نہیں ہوا ہے ابھی۔ امان نے اسے یوں کرتے دیکھا تو پریشان ہوا۔
"درد ہو رہا ہے؟"۔ امان کے ماتھے پر بل پڑے۔ زمان پھر سے کراہا۔
"بہت درد ہورہا ہے مجھے۔ تمھارا ہاتھی جیسا بھاری ہاتھ! اففف میرا سر چکرا رہا ہے۔ کوئی پکڑو ورنہ بے ہوش ہو جاؤں گا۔ یا خدا اٹھا لے مجھے!"۔ وہ فرائز اور لالی پاپ کے لئے کچھ بھی کرسکتا تھا۔ وہ واقعی ڈرامہ تھا مگر امان نہ سمجھ پایا۔
"کیا ہوا؟ کچھ نہیں ہوگا میں تمھیں دوا دیتا ہوں۔ نیند کی دوا دے رہا ہوں کچھ دیر آرام کرلو!"۔ امان نے پریشانی میں دوائیوں کی تھیلی کھولی۔
زمان گڑبڑاگیا۔
"ن۔نہیں مجھے لگ رہا ہے میں ٹھیک ہورہا ہوں۔ ہاں اب نہیں آرہے چکر! بس ٹھیک ہوگیا۔ ب۔بھوک لگ رہی ہے! فرائز لادو!" وہ اب سر پر نہیں بلکہ پیٹ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔ امان نے بنھویں اچکائیں۔
"تم ٹھیک ہو؟؟"
"ہاں! اب بھوکا ہی ماروگے۔ میرے لئے فرائز منگواؤ!"۔ وہ بچوں کی طرح ضد کررہا تھا۔
"تم نے آدھے گھنٹے پہلے ہی دو عدد بن کباب کھائے ہیں!"۔
"زخموں میں کھانا جلدی ہضم ہوجاتا ہے امان! تمھیں اندازہ نہیں ہے کیونکہ مار کب کھائی تم نے؟"۔ وہ خفا خفا سی نگاہیں گھما کر بولا۔
"لا رہا ہوں! اینوشنل بلیک میلر"۔ وہ اسے گھورتا ہوا باہر چلاگیا۔ اس کے جانے کے بعد زمان تھکا تھکا سا بستر سے ٹیک لگائے کچھ سوچنے لگا۔ وہ اپنی بات کس طریقے سے منوائے۔ کچھ تو کرنا تھا۔ پیار سے منوانی ہوگی بات! اس کا دماغ تیزی سے کام کررہا تھا۔
"امان! میں تمھیں کوئی غلط قدم نہیں اٹھانے دوں گا!"۔ وہ زیر لب بڑابڑایا تھا۔ کیا کرے وہ؟ کس طرح روکے؟ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ ابھی وہ صرف ایک شخص کو کال کرنے والا تھا۔ اس نے موبائل اٹھایا اور کال ملائی۔ دو تین بیل کے بعد کال اٹھالی گئی۔
"ہیلو شاہ نواز کہاں ہو؟ میرے کمرے میں آؤ فوراً! بھائی کو خبر نہ ہو"۔ اس کی بات سنے بغیر ابھی صرف وہ اپنی بات کررہا تھا۔
"دادا میں نہیں آسکتا۔ پلیز! امان دادا کو خبر ہے کہ ساری معلومات میں نے نکلوائی تھی۔ انہوں نے مجھے اس لڑکی کی معلومات کرنے کے لئے صرف ایک دن کا وقت دیا ہے۔ میں نہیں آسکتا دادا، ورنہ میں ماردیا جاؤں گا!"۔ وہ درد ناک آواز میں بولا۔ زمان ششدر رہ گیا۔ نہیں وہ اپنے کام کے لئے شاہ نواز کو مروا نہیں سکتا۔
"ٹھیک ہے! میں اپنے کام کے لئے تمھاری زندگی برباد نہیں کرسکتا۔ بھائی جو کہہ رہے ہیں وہی کرو!"۔
ایک دن میں امان اتنا کچھ کر گیا تھا۔ اس نے غصے سے موبائل دور پھینکا۔ وہ جھٹکے سے اٹھا اور دروازہ کھول کر امان کو دیکھنے لگا۔ وہ کہیں بھی نہیں تھا۔ اس نے دروازہ لاک کیا اور الماری کھول کر جلدی سے کپڑے نکالنے لگا۔ بلیک جینز کے ساتھ بلیک ٹی شرٹ نکال کر وہ باتھ روم میں چلاگیا۔ پانچ منٹ کے بعد آیا تو وہ کپڑے چینج کرچکا تھا۔ ریموٹ اٹھا کر اے سی چلایا اور اس کی اسپیڈ تیز کردی۔ وہ جلدی جلدی کام کررہا تھا۔ اس نے جوتے اٹھائے اور پہننے لگا۔ بار بار دروازے کو بھی دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اسے دروازے کے باہر قدم محسوس ہوئے تو وہ جھٹکے سے بیڈ پر لیٹ گیا اور برابر پڑی چادر کو اچھی طرح اس طرح لپیٹا کہ اس کے چینج کئے ہوئے کپڑے نہ دیکھ سکے۔ ایک ہاتھ بستر پر رکھا اور دوسرا ہاتھ سر پر بندھی پٹی پر! امان اندر داخل ہوا اور اس کے سامنے فرائز کی پلیٹ رکھی۔
"کھالو! مجھے کام ہے۔ ہوسکتا شام تک گھر نہ آؤں۔ خیال رکھنا!"۔ وہ کہہ کر پلٹنے لگا۔ زمان کے دل میں خدشہ پیدا ہوا۔
"کون سا کام؟"۔ امان رکا۔
"تم آرام کرو!"۔ اس کا جواب دیئے بغیر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلاگیا۔ زمان اس کے جانے کے پانچ منٹ بعد ہی تیزی سے بیڈ سے اٹھا۔ دھیرے دھیرے چلتا ہوا دروازے تک آیا۔ ہلکا سا دروازہ کھول کر اس نے باہر جھانکا راستہ صاف تھا، مگر وہ مصیبت کو دعوت نہیں دینا چاہتا تھا۔ دراز سے گاڑی کی چابی نکالی اور کھڑکی کی جانب آیا۔ جب تک آنکھوں دیکھی نہ دیکھے! تب تک وہ کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ امان گاڑی اسٹارٹ کررہا تھا۔ وہ اسے چھپ کر دیکھنے لگا۔ جس دم اس نے گاڑی باہر نکالی زمان تیزی سے نیچے کی جانب بڑھا۔
"دادا آپ کی طبیعت؟"۔ گارڈ نے حیرت سے آنکھیں پھاڑیں۔
"بھائی کے آتے مجھے فون کرنا۔ میں آجاؤں گا"۔ وہ اب گاڑی ریورس کررہا تھا۔
"مگر۔۔۔"
"مجھے کچھ نہیں سننا۔ بس جتنا کہا ہے اتنا کردینا!"۔ اس نے گاڑی باہر نکالی۔ گارڈز نے دروازہ بند کیا۔ اسپیڈ کے ساتھ زمان نے گاڑی آگے بڑھائی تھی۔
ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ اس نے اپنے برابر سے گزرتے زمان کو دیکھا تھا۔
"حیرت ہے زمان تم مجھے سمجھ ہی نہیں پائے اور جیسے میں تمھیں جانتا نہیں!"۔ امان نے گاڑی ریورس کرکے گھر کے باہر کونے پر ہی لگادی تھی۔ اس نے گاڑی اسٹارٹ کی۔ اب وہ زمان کا پیچھا کررہا تھا۔ وہ جانتا تھا یہ اس کی راہ میں رکاوٹ بنے گا۔ مگر وہ اس رکاوٹ کو اپنے رستے سے تو ہٹا سکتا تھا مگر اپنی زندگی سے نہیں!
۔۔۔★★۔۔۔
"سنیں مجھیں آپ سے بات کرنی ہے"۔ زمان نے اسے روکا۔
"جی؟ آپ پھر آگئے؟ آپ کو چین نہیں!"۔ فاطمہ اور شانزہ کالج سے گھر کی جانب آرہی تھیں۔ زمان نے اسے وہی روک لیا۔
"دیکھئے فاطمہ محترمہ مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے!"۔ وہ حکمت سے کام لیتے ہوئے بولا۔
"مگر مجھے آپ سے بات نہیں کرنی!"۔ فاطمہ نے بنھویں اچکائیں۔
شانزہ تو صورتحال ہی سمجھ نہیں پارہی تھی۔ ایسا کون سا ضروری کام تھا جس کے لئے یہ بندہ گاڑی بھگاتا ہوا لایا تھا؟۔
"میری بات سنیں! مجھے آپ زبردستی کرنے پر مجبور نہ کریں خدارا!"۔ اب اس کا انکار اسے بھی برداشت نہیں ہوا۔ وہ امان شاہ نہیں تھا مگر بھائی تو اسی کا تھا! کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی عادت اس میں بھی تھی اور بس وہ اسی بات سے ڈرتا تھا۔
"زبردستی؟ کیا کہہ رہے ہیں مسٹر آپ؟" وہ آگ بگولا ہوئی۔
"میں تحمل سے بات کرنا چاہتا ہوں لیکن آپ نہیں چاہتیں شاید!"۔ وہ ایک نظر شانزہ پر ڈال کر بولا۔ امان اس کی حرکت کچھ دور گاڑی میں بیٹھا دیکھ رہا تھا۔
"مجھے نہیں سننی آپ کی کوئی بات۔ چلو شانزہ!"۔ فاطمہ نے شانزہ کا ہاتھ پکڑا اور قدم تیز کئے۔ زمان نے آنکھیں بند کر کے ایک گہری سانس لے کر ہوا میں چھوڑی۔ اس کے صبر کا امتحان لینے کے لئے اس کے بھائی کے بعد یہ لڑکی کافی تھی۔ اس نے فاطمہ کا بازو سختی سے پکڑا اور کھینچتا ہوا اسے گاڑی تک لایا۔ وہ چیختی رہ گئی۔ گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے اندر پھینکا اور ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا۔
"تم پریشان مت ہونا! یہ پندرہ منٹ میں تمھیں گھر میں ہی ملے گی"۔ زمان نے فاطمہ کی چیخوں کو خاطر میں لائے بغیر کھڑکی سے باہر کھڑی شانزہ سے کہا اور تیزی سے گاڑی آگے بڑھالی۔ شانزہ پیچھے ششدر رہ گئی۔
امان جو سپاٹ تاثر سے یہ سب دیکھ رہا تھا اس نے زمان کا پیچھا کرنا چاہا مگر رک گیا۔ وہ شانزہ کو یوں تنہا سڑک پر چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ کچھ دور گاڑی آہستہ آہستہ چلا رہا تھا۔ شانزہ نے تیز چلنا شروع کردیا تھا۔ زمان کی اس حرکت سے وہ ڈر گئی تھی، لیکن پھر بھی یقین تھا کہ وہ اسے چھوڑ جائے گا۔ یقیناً اسے کوئی ضروری گفتگو ہی کرنی ہوگی، پھر بھی دل میں انجانا سا خوف لئے وہ آگے بڑھ رہی تھی اس بات سے بے خبر کے کوئی کچھ دور آہستہ گاڑی چلاتا ہوا اسے تک رہا ہے جس کی آنکھوں میں شدت پسندی اور جنون ٹپک رہا تھا۔ جس کے لئے محبت ایک اذیت تھی، مگر وہ خود عشق کر بیٹھا! اسے پانے کا جنون شدت اختیار کررہا تھا۔ کیا وہ واقعی عشق تھا؟ یا وہ محض وقتی جذبات تھے؟ اسے خود اندازہ نہیں تھا۔ دل و دماغ میں صرف اسے پانے کا جنون تھا۔ بعد کا حال تو وہ بھی نہیں جانتا تھا۔ وہ حقیقت میں عشق کی ڈوروں میں بری طرح الجھ چکا تھا۔ عشق سے اسکا روم روم مہک رہا تھا۔ ایک دم اسے دنیا کی ہر چیز، ہر احساس، ہر بات اچھی لگنے لگی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے گاڑی آگے بڑھا رہا تھا۔ وہ سہمی ہوئی تھی کیونکہ وہ یوں کبھی تنہا باہر نہیں گھومی، اس بات سے بے خبر کے ایک شخص تھا جو اس کی حفاظت کے ساتھ ساتھ مسلسل اسکے ارد گرد بھی دیکھ رہا تھا کہ کوئی اسے دیکھ تو نہیں رہا۔ نگاہیں تھیں کہ شانزہ پر سے ہٹنا نہیں چاہتی تھیں۔ اتنے میں ایک لڑکا بائیک پر اس کی جانب رکا تھا۔ امان کے تیور چڑھے۔ وہ دانت پر دانت جمائے اسے دیکھنے لگا۔
"سنو اکیلی ہو کیا!"۔ وہ کمینگی مسکراہٹ لئے اسے سر تا پیر دیکھ رہا تھا۔ شانزہ کا جیسے سانس رکی۔ وہ سہم گئی تھی۔ دل گویا پھٹ جانے کے قریب تھا۔ کہنے کے لئے کچھ منہ کھولا تو الفاظوں نے ساتھ نہ دیا۔
"میرے ساتھ چلو گی؟ ایک رات کے۔۔۔۔"۔ اس کے الفاظ منہ میں رہ گئے کیونکہ امان نے اسے زمین بوس کردیا تھا۔ اب وہ اسے بے دردی سے ماررہا تھا۔ غصے سے اس کی آنکھیں لال تھیں۔ وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا۔ شانزہ سہمی کھڑی دیکھتی رہی۔ وہ شخص جیسے تیسے جان بچا کر بھاگ گیا تھا، مگر بدلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ اس نے بائیک کا نمبر یاد کرلیا۔ دماغ کی رگیں تن گئیں اور سانسیں غصے سے پھولنے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ پلٹا ہے تو وہ ڈری سہمی رودینے کو تھی۔
"آپ ٹھیک ہیں؟"۔ وہ لہجہ نرم کرتے ہوئے بولا مگر غصہ ابھی بھی اس کے لہجے میں تھا۔
"ج۔جی!"۔ وہ اور سہم گئی۔
"آپ اکیلی ہیں؟"۔
"ج۔جی آپ کا بھائی فاطمہ کو زبردستی لے گیا ہے۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے!"۔ اس کا لہجہ گیلا ہوا۔
"ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ میں زمان کو دیکھتا ہوں۔ آپ ٹینشن نہ لیں!"۔ وہ سخت لہجے میں بولا۔
"آئیں میں آپ کو گھر چھوڑدوں!"۔ اس نے اپنی گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔ شانزہ نے ایک نظر اسکی کچھ دور کھڑی گاڑی کو دیکھا اور نفی میں سر ہلایا۔
"نہیں آپ ایسا نہ کریں۔ آپ کے پاس موبائل ہے؟ میں گھر میں کال کردوں گی۔ وہ آجائیں گے لینے!"۔ وہ لب کاٹتے ہوئے بولی۔ امان نے ایک گہری نگاہ اس پر ڈالی اور جیب سے موبائل نکال کر اس کی جانب بڑھایا۔ اس نے جھجھک کر موبائل اسکے ہاتھوں سے لیا اور کال ملانے لگی۔ نم ہوتی آنکھوں سے اس نے کان پر فون رکھا۔
"کس کو کال کر کررہی ہیں؟" جب اسے لگا کہ اس کا صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے تو وہ پوچھ بیٹھا۔
"عدیل کو!"۔ وہ سرسرے انداز میں کہتے ہوئے نگاہیں دوسری طرف مرکوز کر گئی۔ امان رگیں تن گئیں۔ اس کا یہ انداز بےساختہ تھا۔
"لائیں دیں فون!"۔ اس نے ہاتھ بڑھایا۔ شانزہ ٹھٹھکی۔ ایک دم تو اسے شرمندگی محسوس ہوئی۔ اس نے فون بند کرکے اسے لوٹایا اور آگے جانے کے لئے مڑنے لگی۔ یہ سب ایک دم ہورہا تھا۔ امان نے اس کا بازو پکڑ کر اسے اپنی طرف موڑا۔ اس کی ہلکی سی چیخ نکلی۔
"کسی اور کو فون کرنا ہے تو کرسکتی ہیں آپ۔ اپنے عدیل "بھائی" کے علاوہ"۔
اس نے "بھائی" کے لفظ پر زور دیا۔ وہ سمجھ نہیں پائی۔ اس کا بازو ابھی بھی امان نے سختی سے پکڑ رکھا تھا۔ اس نے امان کی آنکھوں میں دیکھا اور ہاتھ چھڑانے لگی۔ اس کی چند کوششوں کے بعد امان نے اس کا ہاتھ چھوڑدیا اور سینے پر ہاتھ باندھے اسے تکنے لگا۔
"ن۔نہیں میں چلی جاؤں گی"۔ اسے اب امان سے بھی خوف محسوس ہونے لگا۔ وہ پلٹ کر جانے لگی۔
"گاڑی میں بیٹھیں جاکر! آپ کو چھوڑ آؤ!"۔ اس کی آواز بلند ہوئی۔ شانزہ کا دل گویا کسی نے مٹھی میں لیا۔ وہ آواز نہیں جیسے آگ کا شعلہ تھی۔ ہڈیوں میں سنسی سے پھیل گئی۔ اتنی سکت نہ تھی کہ پلٹ کر اسے دیکھے۔
"آواز گویا آپ کے کانوں تک ابھی پہنچی نہیں شاید!"۔ وہی پھتر لہجہ کانوں سے ٹکرایا!
بمشکل تھوک نگلا اور پلٹ کر شانزہ نے اسے دیکھا۔
"نہیں میں چلی جاؤں گی! امان بھائی گھر والوں نے دیکھ لیا تو وہ برا مانیں گے!"۔ امان نے سن ہوتے دماغ کے ساتھ آنکھیں میچیں۔
"میں آپ کا بھائی ہوں؟"۔ وہ جارحانہ انداز میں بولا۔
"میں سب کو بھائی کہتی ہوں!"۔ اس نے کانپتی پلکوں کو جھکا کر بتایا۔
"بھائی صرف تمھارا عدیل ہے اور یہ بات تم جتنی جلدی مان لو تمھارے لئے بھی اچھا ہے اور عدیل کے لئے بھی!" وہ ماتھے پر بل ڈالے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ اسے دیکھ رہی تھی۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ بہت کچھ ضبط کیا ہوا ہے! وہ ناسمجھے والے انداز میں اسے دیکھنے لگی۔
"گاڑی میں بیٹھو! فوراً!"۔ وہ حکم صادر کرتا ہوا گاڑی کی جانب مڑا، مگر شانزہ کا دل و دماغ اس کی ایک بات پر اٹک گیا تھا۔
"آپ نے یہ کیا کہا ہے کہ عدیل میرا بھائی ہے اور مجھے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے؟"۔ وہ دھیمی آواز میں پوچھ رہی تھی کیونکہ اس سے زیادہ آواز وہ اس بدمزاج بندے کے سامنے نہیں نکال سکتی تھی! جو اسے بڑا کھڑوس لگتا تھا، بلکہ ابھی نیا نیا لگنا شروع ہوا تھا۔اس کی اس بات پر امان نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
وہ مسکرایا تھا۔ یعنی خطرے نے جنم لیا تھا۔
وہ ہنسا تھا۔ اب مصیبت جیسے گھر کے دہلیز پر کھڑی تھی مگر شانزہ بے خبر تھی، کیونکہ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ امان شاہ خود ایک خطرہ تھا!
خطرہ؟ یعنی امان شاہ!
امان شاہ؟ یعنی مصیبت!
"بلکل! تمھارے نھنے ذہن میں شاید یہ بات کبھی نہ بیٹھے لیکن امان جو فیصلہ کرلے پھر اس فیصلے سے ہٹنا گناہ سمجھتا ہے! باور کرلیں یہ بات! آئندہ کے لئے آسانی رہے گی آپ کو!"
شانزہ ششدر ہوئی۔
"وہ میرے منگیتر ہیں!"۔ وہ کیا سمجھ رہا تھا اسے اب بھی نہیں سمجھ آیا. وہ فوراً بولی کہ اب بھی نہ بولی تو پھر کہیں دیر نہ ہوجائے! امان کو لگا اب وہ ضبط کھو بیٹھے گا۔ وہ تیزی سے پلٹ کر اس کے قریب آیا۔ سڑک سنسان تھی۔ اس نے اس کا منہ دبوچا۔ وہ درد کی شدت اور بےحواس ہوکر چیخ پڑی۔
"میں بات نہیں دہراؤں گا۔ میں یہ سب اتنی جلدی نہیں چاہتا تھا مگر لگتا ہے آپ نے مجبور کردیا ہے! میرے سامنے زبان مت چلانا شانزہ ناصر! تم پر ہر طرح کا حق صرف مجھے ہی حاصل ہوگا!"۔ اس نے اسکے چہرے کو مزید سختی سے پکڑا۔ وہ رونے لگی! اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے!
"مجھے چھوڑیں!" گھٹی گھٹی سی آواز میں احتجاج کرنے لگی۔
"ابھی تو پکڑ میں بھی نہیں آئی تم! میں برداشت نہیں کرسکتا کہ شانزہ ناصر امان شاہ کے علاوہ کسی مرد کی جانب نگاہ اٹھا کر بھی دیکھے! منہ توڑ دوں گا ان کا بھی جو امان کی شانزہ کی طرف دیکھے گا!"۔
آنسو تھے کہ بس بہے جارہے تھے۔ وہ سانسیں روک کر تکلیف سے اس کی بات سن رہی تھی۔ وہ دانت پیس کر اپنے ایک ایک لفظ کو سختی چبا کر بول رہا تھا۔
"م۔مجھے سمجھ نہیں آرہی آپ ک۔کیا کہہ رہے ہیں!"۔ وہ ہچکیوں کے درمیاں ٹوٹے پھوٹے الفاظوں سے بولی۔
"میں کہوں کچھ بھی لیکن تمھارے کانوں میں "محبت" کا لفظ گونجنا چاہئے شانزہ! امان شاہ کی محبت! امان شاہ کا جنون! امان شاہ کا عشق اور بس عشق! اور شانزہ ناصر کو اسکی تعبرداری کرنی ہے ورنہ وہ اپنی محبت کو بھی اذیت دینے کا قائل ہے!"۔ اپنے ہاتھ کی گرفت اور مضبوط کرکے اس نے جھٹکے سے چھوڑا۔
"مجھے گھر جانا ہے!"۔ وہ شدت سے رونے لگی اور اس سے دور ہٹنے لگی۔ اسے اس سے خوف محسوس ہورہا تھا۔
" مجھے تم عدیل سے بات کرتی نظر نہ آؤ! گھر میں بھی نہیں! اور اگر تمھیں یہ لگتا ہے کہ مجھے اس بات کی خبر نہیں ہوگی تو ایک بات یاد رکھنا! میرے گارڈز میرے حکم کی تعبرداری کرتے ہیں! معلوم تو لگ ہی جائے گا کہ تم کیا کررہی ہو سارا دن! کیونکہ اگر مجھے معلوم ہوگیا تو عدیل کی قبر پر پھول چڑھانے کی اجازت بھی نہیں دوں گا!"۔ شانزہ اٹکی سانسوں سے اسے دیکھ رہی تھی! اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ ہول کیا رہا ہے۔ امان نے اس کا ہاتھ پکڑا تو کھنچتی چلی گئی۔ اس نے گاڑی کا دروازہ کھول کر بٹھایا اور دروازہ بند کردیا۔
"مجھے گھر جانا ہے! مجھے کہاں لے کر جارہے ہیں! پلیز پلیز آپ میری بات سن رہے ہیں نا!"۔ وہ زور سے چیخی! امان دوسری جانب آکر بیٹھا۔ گاڑی اسٹارٹ کی اور روڈ پر لے آیا۔
"آپ ایسا کیوں کررہے ہیں! ایسا مت کریں!" وہ ہاتھ جوڑ کر بولی تھی۔
"م۔مجھے ڈر لگ رہا ہے! پلیز! آپ کہاں لے کر جارہے ہیں۔ میں مر جاؤں گی!" وہ زور سے چیخ رہی تھی مگر شاید برابر بیٹھے شخص کے کان میں جوں نہ رینگی تھی۔ دس منٹ سے بھی کم ڈرائیونگ کے بعد اس نے شانزہ کے گھر کے سامنے گاڑی روکی۔
"جا سکتی ہیں اب! فکر نہ کریں ابھی صرف گھر ہی چھوڑا ہے! اگلی بار آپ اپنے ہونے والے سسرال جائیں گی!!" شانزہ کپکپاتی ٹانگوں سے زمین پر قدم رکھا اور دروازہ بند کیا۔ اس کی سانسیں پھول رہی تھی۔
"ایک بار پھر کہہ رہا ہوں۔ آپ مجھے عدیل کے ساتھ باتیں کرتی نظر نہ آئیں شانزہ ناصر! ورنہ انجام کی ذمہ دار آپ خود ہوں گی"۔ اس نے گردن موڑ کر اس کی سمت کی اور بات مکمل کر کے سامنے دیکھنے لگا۔ 
"م۔میں اسے نہیں چھوڑ سکتی! م۔مجھے آپ سے ڈر نہیں لگتا۔ آپ کو لگتا ہے آپ کی باتیں مجھے متاثر اور ڈرا رہی ہیں! مگر ایسا نہیں ہے. آپ آئندہ نہیں آئے گا! ورنہ میں عدیل کو بتادوں گی! اب میں عدیل کے ساتھ ہی آنا جانا کروں گی!". وہ اپنی تمام ہمت جمع کرتی ہوئی بولی اور بھاگتی ہوئی گھر کی جانب بڑھ گئی۔ امان کو لگا جیسے کسی نے اس پر گہرا وار کیا ہوا! اس نے غصے کی شدت سے آنکھیں میچیں! وہ یوں تب کرتا تھا جب وہ غصے میں ہوتا۔
"تمھیں جلد ہی ٹریلر دکھاؤ گا میں شانزہ!" وہ ہنسا. زور سے! شانزہ نے اسکی بڑبڑاہٹ نہیں سنی تھی لیکن اس کی زور دار ہنسی کی آواز سے پلٹ کر ضرور دیکھا تھا۔ امان نے ایک گہری نگاہ ڈال کر گاڑی آگے بڑھالی۔
۔۔۔★★۔۔۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now