قسط ۳

3.6K 153 15
                                    

اس نے ماہ نور کا چہرا دبوچا تو وہ کراہی۔ اس نے اپنے آپ کو چھڑانا چاہا لیکن گرفت مضبوط تھی۔ اس کا لہجہ پل بھر میں بدلا۔
سختی کے ساتھ اس نے اسے دیوار سے لگایا۔
"مینو!" وہ درد سے چلا اٹھی۔
"ہر وہ کام کیوں کرتی ہو جس سے میں منع کرتا ہوں!" وہ دانت پیس کر بولا۔
ماہ نور نے دور ہٹنا چاہا۔ اس نے اسے دھکا دیا۔ وہ دیوار پر لگی۔ منہاج نے بیلٹ کو سختی سے پکڑ کر پوری قوت سے اسے مارا تھا۔
وہ درد سے حلق کے بل چلانے لگی۔
بچے ماں کی آواز پر ڈر کر اس کمرے میں آئے تھے۔
ڈرے سہمے وہ اپنے ماں باپ دونوں کو دیکھنے لگے۔
منہاج اسے اس وقت تک مارتا رہا جب تک وہ نیم بے ہوش نہیں ہوگئی۔ دور کھڑے وہ دونوں اب رورہے تھے۔
وہ زمین پر بے سدھ پڑی تڑپ رہی تھی۔
جب مار مار کر تھک گیا تو بیلٹ غصے سے زمین پر پھینک کر باہر چلاگیا۔
وہ بچے بہت ذیادہ رورہے تھے۔
وہ جو تکلیف سے رورہی تھی بچوں کی آوازوں پر اٹھ کر بیٹھی۔
مسکرا کر ان دونوں کو دیکھا۔
درد تھا جو اس کی مسکراہٹ کے پیچھے چھپا تھا۔مگر کبھی کبھی آپ کو مسکرانا پڑتا ہے کیونکہ آپ مجبور ہوجاتے ہو۔ وہ اپنے بچوں کو ان کے باپ کی طرح نہیں بنانا چاہتی تھی۔
اس نے لبوں پر مسکراہٹ سجائی رکھی۔ وہ بچے روتے ہوئے ماں کی طرف آئے۔
اس کا پورا جسم درد کررہا تھا۔
اس نے ایک کو اپنے دائیں جانب اور دوسرے کو اپنے بائیں جانب بٹھایا۔
"بابا نے مارا ہے نا آپ کو؟ آپ کو درد ہوا ہوگا۔ ہے نا؟"۔ وہ ہچکیوں سے رویا۔
ماہ نور کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے۔ کیا وقت تھا کہ بیٹے اپنی ماں کو مار کھاتا دیکھ رہے تھے۔
"میں بابا کو ماردوں گا!"۔ دوسرے بیٹے نے جذباتیت سے کہا۔
وہ دونوں محض چھ سال کے تھے۔
وہ جانتی تھی ابھی چھوٹے ہیں اس لئے یہ باتیں کررہے ہیں۔
"ماما کو بھی کچھ بولنا ہے!"۔ وہ یہ کہہ کر ان دونوں کو دیکھنے لگی۔ ایک بیٹے نے اس کی آنکھوں سے آنسو صاف کئے۔
"کبھی بابا کی طرح مت بننا! کبھی بھی نہیں۔ لڑکیوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے۔ اللہ گناہ دیتا ہے"۔ اس نے ابھی بات مکمل نہیں کی تھی کہ ایک بیٹے نے بات کاٹی۔
"بابا نے گناہ کیا ہے؟ اللہ انہیں دوزخ میں ڈالے گا نا ماما؟ میں اللہ میاں سے دعا کروں گا۔ میں انہیں کہوں گا بابا کو دوزخ میں ڈال دے اور انہوں نے آپ کو چھڑی سے یہاں کاٹا تھا نا"۔ اس نے اپنی ماں کو پیچھے سے بال اٹھا کر دیکھا۔ وہ چھڑی نہیں بلیڈ تھا۔ اب وہ اس چھوٹے سے بچے کو کیا بتاتی؟۔
"یہ M کیوں لکھا ہے ماما؟"۔ دوسرے بیٹے نے ماں کا چہرہ اپنی جانب موڑا۔ خون زخم سے بہہ رہا تھا جسے اس نے بچوں کے لئے ہاتھ سے رگڑ کر صاف کیا۔
"میرا نام M سے آتا ہے"۔ اس نے بات ٹالنا چاہی۔
"بابا کا بھی M سے آتا ہے"۔ اس نے آنکھیں پٹپٹائیں۔
وہ جواب نہ دے پائی۔
"آؤ بھوک لگی ہوگی تم لوگوں کو کچھ کھلادوں"۔ درد پر قابو پاتے ہوئے وہ اٹھی۔
وہ درد جو اس کے جسم پر تھا۔
وہ درد جو اس کی روح کو چھلنی کرگیا تھا۔
 ۔۔۔★★۔۔۔
صبح کے دس بجے تھے۔ زمان فریش ہوکر نیچے آیا۔ آستین کے کف فولڈ کرتا وہ ڈائننگ ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھا۔
باورچی نے اس کا ناشتہ لگا دیا۔
"بھائی کہاں ہیں؟"۔ ماتھے پر بل ڈال کر اس نے باورچی سے پوچھا۔
"دادا وہ تو سو رہے ہیں"۔ وہ کہہ کر کچن میں واپس چلاگیا۔
پندرہ بیس منٹ میں ناشتہ ختم کرکے گارڈ کو آواز لگائی۔
"ظہیر؟"۔ چائے کا کپ لبوں سے لگاتے ہوئے اس نے حکم دیا۔
اب وہ چائے کے گھونٹ لے رہا تھا۔
"جی دادا"۔
"بھائی کو اٹھا آؤ"۔
ظہیر کے چہرے پر خوف طاری ہوا۔ زمان نے اس کا چہرہ بغور دیکھا تھا۔
"تمھیں کس سے ڈر لگ رہا ہے اب؟" زمان نے اسے گھورا۔ ظہیر نے رونی صورت بنائی۔
"کیا ہوا کچھ بکو؟"۔ زمان کی آواز بلند ہوئی۔
"زمان دادا۔ میں اپنی موت کو دعوت نہیں دینا چاہتا!"۔ وہ لب بھینچ کر بولا۔
"تم میرے بھائی کو اتنا برا کہہ رہے ہو۔ اب تو یہ بات بھائی کو بتانی پڑے گی"۔ زمان نے آنکھیں پھاڑیں۔
وہ بچپن سے ہی ڈرامہ تھا۔ ظہیر کی تو یہ حالت کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں!
"ن۔نہیں دادا میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ آ۔آپ غلط سمجھے ہیں۔ امان دادا کو کچھ نہیں بتائے گا۔ خدارا!"۔
زمان ہنسا۔
"بھائی کے نام پر تو تم لوگ کانپ کے رہ جاتے ہو میرے نام پر کچھ نہیں ہوتا کیا؟"۔ وہ گھور کر بولا۔
"نہیں دادا ان سے خوف آتا ہے۔ وہ جسم پر گولیاں اتارنے کے لئے لمحے بھر کو بھی نہیں سوچتے"۔ اس کے چہرے سے خوف ٹپک رہا تھا۔
زمان نے چائے آخری گھونٹ بھرا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
"شاہ نواز! بھائی کو اٹھا آؤ"۔
"دادا ابھی تو ساڑھے دس ہوئے ہیں اور وہ اکثر گیارہ بجے اٹھتے ہیں"۔ شاہ نواز کی بھی حالت خراب ہوئی۔
"وہ کچھ کہے تو کہہ دینا کہ زمان نے اٹھوایا ہے"۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now