قسط ۱۷

2.8K 180 35
                                    

امان نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ ڈری سہمی سی الٹا لٹکے زمان کو دیکھ رہی تھی۔
کیا یہ شخص اتنا ظالم ہے کہ اس نے اپنے بھائی کو بھی تکلیف دینے سے گریز نہ کیا۔ وہ پیلی ہوئی رنگت سے اب امان کو دیکھ رہی تھی۔ امان اسے دیکھ کر مدھم سا مسکرایا۔ زمان نے شانزہ کو اڑی رنگت سے سہمتے ہوئے امان کو تکتے پایا تو باز نہ آیا۔
"بس دیکھ لو اپنے میاں کو۔۔۔ مجھے بھی نہیں چھوڑتا یہ"۔
امان نے سرعت سے اسے دیکھا اور ایک گھوری دی تو زمان نے کندھے اچکائے۔
"اے چھوٹی لڑکی اپنے میاں کو بولو یہ رسی کاٹ دے"۔ وہ چہرے پر مسکراہٹ سجا کر بولا۔
"چپ رہو زمان! تم اٹھ گئی؟ اور کیا س۔۔۔"
"نہیں نہیں ابھی بھی سورہی ہے"۔ زمان نے منہ کے زاویے بگاڑے۔ امان نے خونخوار نظروں سے اسے دیکھا۔
"کیا تم تھوڑی دیر خاموش رہ سکتے ہو یا میں بتاؤں ابھی؟"۔ امان اطمینان سے گہری سانس لیتا ہوا بولا اور جب وہ اطمینان سے کوئی بات کہے تو سمجھ جاؤ کہ بس وہیں خطرہ ہے۔
"ٹھیک ہے ٹھیک ہے مگر تم میری رسی کھول جاؤ۔۔۔" وہ امان کے ضبط کا امتحان لے رہا تھا۔ امان اپنے پیروں پر کھڑا ہوا اور چلتا ہوا شانزہ کے قریب آیا۔  شانزہ کو سانپ سونگھ گیا۔ وہ تھوک نگلتے ہوئے دروازہ سے لگ گئی۔
"آؤ کمرے میں چلو۔ میں اپنی طبیعت بہتر نہیں محسوس کررہا تھوڑی دیر آرام چاہتا ہوں"۔ سر میں زخم موجود ہونے کے باعث درد ہورہا تھا۔ آنکھیں تکلیف سے بند ہورہی تھیں اور وہ کچھ دیر آرام کرنا چاہتا تھا۔ طبیعت کے باعث دھیرے قدموں سے خود کو سنبھالتے ہوئے شانزہ کا ہاتھ تھام کر باہر نکلنے لگا۔ شانزہ نے پلٹ کر زمان کو دیکھا۔ بظاہر مسکراتا ہوا وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ کچھ نہ بولتی اگر اس کی آنکھوں میں تکلیف کے آثار نہیں دیکھتی۔ صاف لگ رہا تھا کہ ہنسنے کا دکھاوا کررہا ہے۔
"اا۔امان"۔ وہ آخر بول پڑی۔ امان نے رک گیا
"جی؟"۔
"ان کو چھوڑدیں پلیز۔۔۔ انہیں کچھ ہوجائے گا"۔ وہ سہم کر کہتی ہوئی روہانسے لہجے میں بولی۔
شانزہ کی زمان کی طرف پیٹھ تھی جبکہ امان زمان کو باآسانی دیکھا سکتا تھا۔ زمان نے بتیسی پھیلائی۔
"اسے کچھ نہیں ہوگا تم کمرے میں چلو"۔ سنجیدگی سے کہتا ہوا وہ پلٹا۔
"مم۔مگر ان کی یوں طبیعت خراب ہوجائے گی ایسا نہ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ انہیں کچھ ہوجائے"۔ وہ کبھی بھی امان کو مخاطب نہیں کرتی اگر زمان کو تکلیف میں نہیں دیکھتی۔ وہ کہہ کر لب بھینچ گئی۔ امان نے ایک نظر پیچھے زمان پر ڈالی جو اب اکڑ کر سینے پر ہاتھ باندھے الٹا ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔
اب وہ اسے کیا بتاتا کہ اسے زمان کی زمان سے ذیادہ فکر ہے، مگر بظاہر مسکراتا ہوا اثبات میں سرہلاتا زمان کی جانب آیا اور خنجر دراز سے نکالنے لگا۔ خنجر کو دیکھ کر شانزہ کی رونگٹے کھڑے ہوئے۔ امان نے زمان کی رسی کاٹی تو وہ بیڈ پر گرا۔
"شکریہ چھوٹی لڑکی"۔ زمان نے ادب سے کہا۔
"بہت ہوا تماشہ۔ امید ہے تم آئیندہ ایسی حرکت نہیں کروگے"۔ وہ پلٹ گیا۔
"ہاں اور تم بھی کچھ نہیں کرو گے۔ کئے گئے وعدے سے مکرنا نہیں"۔ زمان ذومعنی لہجے میں گویا ہوا۔
"میں اپنے وعدے سے مکروں گا نہیں۔ تم جانتے ہو میں وہ شخص نہیں۔ خود کو باور کروالو۔ خیر میں گہری نیند لینا چاہتا ہوں۔ تم بھی سو جاؤ"۔ اس کے کمرے کی لائٹ آف اور دروازہ بند کرتا وہ شانزہ کا ہاتھ تھام کر باہر نکل گیا۔ شانزہ کھنچتی ہوئی اس کے ساتھ آنے لگی۔
"میرا ہاتھ"۔ اسے تکلیف ہوئی۔ امان نے گرفت ڈھیلی کی اور کمرے میں لاکر اسے چھوڑا۔
کمرے میں کونے کی جانب جائے نماز بچھی تھی۔ کھڑکیوں پر پردے لٹکے تھے جس کے باعث کمرہ اندھیرے میں ڈوبا تھا۔
"ایک پل کو خیال آیا تھا گھر میں کوئی نہیں ہے اور تم اس بات کا فائدہ اٹھا کر پھر بھاگ جاؤ گی"۔ بات کا آغاز ہوا۔ وہ سر کو سنبھالتے بیڈ پر لیٹ گیا اور تکیہ سر کے پیچھے رکھ کر ٹیک لگالی۔ شانزہ سنگھار میز کی جانب تھوگ نگلے نظریں جھکائے کھڑی تھی۔ امان ایک ہاتھ اپنے سر کے پیچھے کئے اس کے تاثرات جانچنے میں لگا تھا۔
"ہوسکتا ہے تم نے وہ موبائل بھی نکال لیا ہو، مگر افسوس کے اس میں نمبرز نہیں، مگر کچھ اپنے ایسے ہوتے ہیں جن کا نمبر بھی زبانی یاد ہوتا ہے۔ کیا تم نے یہ سب کیا؟"۔ سنجیدہ تاثرات بنائے وہ اب آرام سے لیٹا تھا۔ شانزہ بغیر کوئی جواب دیئے خاموشی سے فرش کو تک رہی تھی۔
"میں کچھ پوچھ رہا ہوں؟"۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بلند ہوا۔ سہم کر شانزہ نے نگاہیں اٹھائیں اور اس کی بائیں ہاتھ کی بھینچی مٹھی کو دیکھا۔ وہ خود پر ضبط کررہا تھا۔ کیا شخص تھا یہ جو اپنا معموملی سا غصہ بھی قابو نہیں کرپاتا تھا۔ شانزہ نے نفی میں سرہلایا۔ امان کے چہرے پر فخریہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
"اچھا ہے کہ تم جان گئی کہ اس معاملے میں میرے آگے تم بےبس ہو۔ تم یہاں سے کہیں نہیں جا سکتی یہ بات تم تاخیر سے سہی، مگر جان گئی ہو۔ بھاگنے کی کوشش نہیں کرنا اب! زمان کی باتوں کو سنجیدہ مت لینا۔ میں کم از کم تمہیں چھوڑنے والا نہیں"۔ وہ اسے بتا رہا تھا یا باور کروا رہا تھا وہ جان نہ پائی۔ امان سے خوف اتنا کہ نظر ملانے کی بھی ہمت نہیں۔ وہ ٹکٹکی باندھے اب اسے تکنے لگا تھا۔ کافی دیر ہوگئی، مگر امان کی آواز نہ سنائی دی۔  شانزہ کو لگا وہ سو گیا ہے۔ اس نے بےاختیار نظریں اٹھائیں تو وہ بے حد ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے تک رہا تھا۔ شانزہ نے جھینپ کر نظریں جھکا لیں۔
"ادھر آؤ شانزہ امان"۔ امان نے نرمی سے اس کا نام لیا۔ شانزہ کے ہاتھ ٹھنڈے پڑنے لگے۔ لب بھینچتی اس کی جانب بڑھی گویا اپنے وجود کو دکھیل کر اس کے سامنے لا کھڑا کیا۔ امان نے ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ تھاما اور برابر میں بٹھادیا۔ وہ ایک ہاتھ سر کے گرد رکھے اسے قریب سے دیکھنے لگا۔
"تمہیں پتا ہے شانزہ انسان سب سے ذیادہ مجبور کب ہوتا ہے؟"۔ آنکھیں اس پر سے ہٹا کر سامنے مرکوز کیں۔ شانزہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر نگاہیں جھکا لیں۔ اس کا ہاتھ امان کے ہاتھ میں دبا تھا۔
"جب آپ کا اپنا آپ سے دور ہونا چاہے، مگر آپ جانتے ہو کہ اس کے بغیر آپ کی سانسیں نہیں چل سکیں گی اس لئے آپ کو اس کی ہر بات، ہر شرط پر آنکھیں جھکانی پڑتی ہیں خواہ وہ شرط آپ کی آدھی خوشی کیوں نہ چھین لے۔ میں بس اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ دنیا کی کسی بازی میں تمہیں نہیں ہاروں گا۔ ایک بازی تو میں جیت چکا ہوں جس کی جیت میں تم میرے نام ہوچکی ہو۔ امید ہے آئیندہ ایسا کوئی کھیل نہ ہو، مگر وقت ایک سا نہیں رہتا۔ ہوسکتا ہے آج وقت میرا ہے تو کل تمہارا ہو، مگر میں شطرنج میں ماہر ہوں۔ ایک بے انتہا اچھا کھلاڑی ہوں۔ شروع سے ہی کھیل ایسا رکھتا ہوں کہ اختتام میرے نام کے ساتھ ہوتا ہے۔ اب تک تو جان ہی گئی ہوگی"۔ اس کا ہاتھ اپنے سینے ہر رکھ کر اسے دیکھ رہا تھا۔  "وہ تمہارا دیور اور میرا جڑواں بھائی! وہ بہت اچھا ہے شانزہ۔ وہ صرف ہنستا ہے اور ہنساتا ہے۔ کبھی کبھی میں اسے دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ ایک شخص اتنا کیسے خوش رہ سکتا ہے؟۔ وہ کچھ بھی کر لے میری نظر میں میرا بچہ سا ہے۔ میں نے بھائی نہیں بلکہ باپ بن کر سنبھالا ہے۔ وہ بات الگ ہے جو اصل باپ تھا وہ  وحشی بن گیا، مگر میں موضوع نہیں نکالنا چاہتا کیونکہ میرے لئے یہ ناپسندیدہ ٹاپکس میں سے ایک ہے۔ اس کی باتوں کو سنجیدہ مت لینا۔ وہ تمہیں ہنسانے کے لئے درخت پر الٹا بھی لٹک سکتا یے۔ وہ بہت اچھا ہے۔ شاید سب سے ذیادہ اچھا۔ میرا بھائی ہے۔ بہت محبت ہے مجھے اس سے"۔
شانزہ کا دل ایک عجیب احساس سے پھٹنے لگا۔
"زندگی ایک کھیل کا میدان ہے، مگر اسے کھیلنے والے کھلاڑی زبردست ہونا چاہئے۔ ہاں ہوسکتا ہے کہ کچھ شرارتیں بھی کرے، مگر وہ کبھی بھی ایسی حرکت نہیں کرے گا جس سے تمہیں یا کسی کو نقصان پہنچے"۔ وہ موضوع جلدی جلدی بدل رہا تھا۔ ایک موضوع سے دوسرا موضوع۔
"مگر میں چاہوں گا کہ اس بات کو ذہن نشین کرلو اور ساتھ ساتھ یہ مان بھی لو کہ تم یہاں سے ایک قدم میرے بغیر اکیلے باہر نہیں نکالو گی!"۔ وہ غصہ میں نہیں تھا اور نہ سختی سے کہہ رہا تھا۔ یہ بھی ایک انداز تھا اسے ہر بات ذہن نشین کروانے کا!
"یہ بات حیران کن ہے کہ میں خود اپنے منہ سے کہوں، مگر میں اپنا غصہ قابو نہیں کرپاتا۔ حقیقتاً میں ایک اذیت پسند ہوں۔ غصہ میں میری رگیں پھول جاتی ہیں اور میں خود کو بےقابو پاتا ہوں۔ اس بات کو بھی کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ میں غصہ میں بہت کچھ ایسا کرجاتا ہوں جو میں عام زندگی میں نہیں کرنا چاہتا اور بعد میں جب میرا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے تو مجھے پچھتانا بھی پڑجاتا ہے۔ کوئی ایسی بات جو میرے خلاف جاتی ہے میں بات کرنے والے کو بھی نہیں چھوڑتا۔ دھیان رکھنا کہ کوئی ایسا کام نہ ہوجائے تم سے جو میرے مرضی کے خلاف ہو۔ تمہارا اپنے گھر والوں کے لئے رونا مجھے شرمندہ نہیں کرتا شانزہ! اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم رو گی اور انہیں یاد کروگی تو کیا میں مان جاؤں گا؟۔ اگر ایسا سوچتی ہو تو تم غلط ہو شانزہ۔  اپنے گھر والوں کو بھول جاؤ  کہ میرے ساتھ زندگی بسر کرنا تمہارا مقدر بن چکا ہے۔ مجھ سے الگ تمہیں صرف موت کرے گی"۔ شانزہ نظریں جھکائے لیٹی تھی۔ اس کے آنسو بہہ نکلے۔ تکلیف ہوئی گویا دل مسل دیا۔ اس کی ماں!۔ وہ بے آواز رونے لگی۔ دس منٹ یونہی گزر گئے۔ امان دس منٹ سے خاموش تھا۔ اسے حیرت ہوئی اور اس نے سر اٹھا کر امان کو دیکھا۔ وہ سوچکا تھا۔ نیند کی وادی میں اتر کر اس کا چین برباد کرگیا۔ آنسو بے ربط بہنے لگے۔ ایک آس تھی۔۔۔ بس ایک آس!
"یہ وقت بھی گزر جائے گا"۔ اسے دیکھتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی۔ اسے اپنے ساتھ سوئے شخص کے چہرے پر سکون کے تاثرات نظر آئے تھے۔
کسی کا چین برباد کرکے سکون سے سونا کوئی امان سے سیکھے۔ اب بس وہ تھک چکی تھی۔ کوئی پریشانی یا مشکل لمحے میں جب وہ بے بس ہوتی تو صرف رویا کرتی تھی اور پھر اس کی ماں ہی تھی جو اس کی ہر مشکل سلجھا دیا کرتی تھی، مگر جو اب ہوا تھا وہ پہلے کئی واقعات سے ذیادہ مشکل اور تکلیف دہ تھا۔۔ یہ بات شانزہ کے لئے ناقابلِ یقین تھی کہ اس نے شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالا۔۔۔ ہاں وہ کامیاب نہیں ہوئی۔ امان نے اسے جیتنے نہیں دیا، مگر جو لڑکی چھوٹے حادثوں سے ڈر جایا کرتی تھی شیر کے منہ میں ہاتھ ڈال گئی مگر کامیاب نہ ہوئی۔
۔۔۔★★۔۔۔
"ہیلو؟ کیا تم کراچی آگئے؟"
"ہممم"۔ نیند میں جواب دیا گیا۔
"تو؟"۔
"تو کیا؟"۔
"مجھے تم سے ملنا ہے"۔ وہ جنجھلائی۔
"تمہارے گھر میں باپ بھائی نہیں ہیں لڑکی؟ ہو کون تم؟"۔ وہ خمار آلود لہجے میں کہتے تکیہ سر سے اٹھا کر حیرت سے موبائل کی اسکرین پر نام پڑھنے لگا۔ "فاطمہ" نام دیکھ کر موبائل چھوٹ کر اس کے ہی منہ پر گرا۔ ہزار بجلیاں بھی ساتھ دل پر گریں۔ قریب تھا کہ وہ غصہ سے چیخ اٹھتی کہ زمان بولا۔
"ہاں ہاں ٹھیک ہے فاطمہ نیازی مل لیں گے"۔
"ہو از فاطمہ نیازی؟ میں فاطمہ جاوید ہوں"۔
"زندگی میں تم ہی رہ گئی اکیلی فاطمہ؟ ہزار فاطمہ ہوتی ہیں اور تم سے اچھی فاطمہ ہوتی ہیں۔۔۔ خیر اتنی صبح صبح کیسے کال کرلی؟ نیند نہیں آتی تو کیا دوسرے کی خراب کروگی؟"۔ وہ اول فول بکتے ہوئے اب بات کو جانتے بوجھتے لمبی کررہا تھا۔
"اللہ کی قسم اگر میرا مطلب نہیں ہوتا نا تو تمہیں فون نہ کرتی کبھی۔۔۔" وہ دانت پیس کر کہہ رہی تھی۔
"ہاں مطلب کے لیے ہی یاد کیا کرتی ہو تم لڑکیاں۔ اب جیسے پہلی بار شانزہ کی اماں کھوگئی تھیں تو ہم سے بات بھی تم اپنے مطلب کے لئے ہی کررہی تھیں"۔
"بکواس کم کرو۔۔۔۔ کب ملنا ہے یہ بتاؤ"۔ فاطمہ تڑخ کر بولی۔
"صبح صبح نیند خراب کر ڈالی تم نے میری"۔ وہ آنکھیں مسلتا ہوا بولا۔
" ہاں صبح ہی تو ہورہی ہے بس دوپہر کے ایک بج رہے ہیں"۔ طنزیہ کٹیلا لہجہ۔
"اسے صبح کہتے ہیں ڈئیر!"۔
"ابھی ملو پلیز۔ میں اس موضوع پر بات کرنا چاہتی ہوں"۔
"تم کہاں ہو؟ کیا کہہ کے آؤ گی گھر والوں کو مجھ سے ملنے؟ کہہ دینا شانزہ کے جیٹھ سے مل کر آرہی ہوں جو بہت ہینڈسم سا ہے"۔ وہ سوال کرکے مشورہ بھی دے گیا۔
"شٹ اپ مسٹر زمان۔۔۔ میں اس موضوع پر تم سے بات ملنے بعد ہی کروں گی۔۔۔"
"تمہیں شک ہے کہ میں ہینڈسم ہوں؟ پھر ہمیں اس ہینڈسم والے موضوع پر ابھی بات کرنی چاہئے"۔ فاطمہ کا دماغ سن ہوا۔
"مسٹر زمان میں گھٹیا موضوع کو چھیڑنے کی عادی نہیں۔ میں شانزہ کے بارے میں بات کررہی ہوں۔۔۔"
"اچھا ہے تم تو ویسے ہی جلتی ہو مجھ سے"۔ شرمندگی کے آثار بھی عیاں نہ ہوئے۔
"جلے ہوئے سے کیا جلوں۔۔۔ خیر میں ابھی کالج میں ہوں اس لئے میں چاہتی ہوں ابھی مل لوں۔۔۔ کسی قریبی ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر گفتگو ہوگی"۔
وہ اس کا جلا ہوا کہہ گئی تھی گویا اسے ایک بار پھر صدمہ لگ چکا تھا۔
"ریسٹورینٹ کے پیسے نہیں ہے میرے پاس"۔ وہ جل بھن کر بولا۔ لیٹے لیٹے ہی سائیڈ ٹیبل سے اپنا والٹ نکال کر کھولنے لگا۔ پانچ پانچ ہزار کی لاتعداد نوٹ تھے۔
" کیا کہا؟"۔ فاطمہ کو لگا اس کے سننے میں غلطی لگ گئی۔۔
"کوئی فرینچ نہیں بولی۔ بی ایم ڈبلیو اور سیوک والا بھی غریب ہوسکتا تھا۔ ضروری نہیں جس کے گھر چار گاڑیاں کھڑی ہوں وہ امیر ہو۔۔۔؟ ہوسکتا ہے وہ اپنے بھائی کے پیسوں پر بسر کررہا ہو"۔
"افو ہو" وہ جنھجلا ہی گئی تھی۔
"مجھے کھانا کھلانے کے پیسے ہیں تمہارے پاس؟"۔ وہ بنھویں اچکا کر فون کان میں لگائے پوچھنے لگا۔ فاطمہ کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔ اس شخص سے گفتگو کرنا بھی کتنا مشکل تھا۔ اس نے اپنا بیگ کنگھالا۔
"شکر ہیں پیسے موجود ہیں"۔ وہ بڑبڑائی۔
"کیا بڑبڑا رہی ہو؟"۔ وہ دوبدو بولا۔
"یہی کہ تمہارا منہ بند کرانے کے لئے پیسے ہیں میرے پاس!۔ خیر آدھے گھنٹے کا وقت ہے تمہارے پاس۔۔۔ میں اپنے کالج کے قریبی ریسٹورینٹ جارہی ہوں آجانا"۔ وہ کال رکھنے لگی تھی کہ وہ جلدی سے بولا۔
"ہاں ہاں میں آجاؤں گا۔۔۔ کراچی میں دس ہزار ریسٹورینٹس ہے اور میری گاڑی تو رکے گے ہی اس ریسٹورینٹ کے آگے جہاں فاطمہ جاوید بیٹھی ہوں گی" وہ طنز کرنے لگا "بی بی کوئی نام بھی ہوتا ہے ریسٹورنٹ کا۔۔۔ اور تمہارے کالج کا بھی!"۔
فاطمہ نے عجیب نظروں سے فون کو دیکھا۔۔۔ کیا عجیب و غریب شخص تھا یہ۔۔۔ طنز اور طعنوں میں عورتوں سے بھی بدتر۔
اس نے اپنے کالج کا نام بتایا۔
"دی ڈسازٹر ریسٹورینٹ۔۔۔ آجاؤ" کہہ کر کال کاٹ دی۔
"عجیب لڑکی ہے بھئی اپنی بات کہہ کر کال کاٹ دیتی ہے"۔ فون کو برابر میں رکھتے وہ پانچ منٹ کی نیند لینے کے لئے آنکھیں بند کرگیا۔
"اب اسے بھی پتا چلے جب لڑکے لڑکیوں کا انتظار کرتے ہیں تو کیسا لگتا ہے اور یہ بھی تو پتا چلے اپنے جیب سے پیسے جاتے ہوئے کتنا دکھ ہوتا ہے"۔ وہ سوچ کر مسکرادیا۔
۔۔۔★★۔۔۔
"ماما ہوسکتا ہے میں لیٹ ہوجاؤں کیونکہ آج پریکٹیکل  ہے ۔۔ تین بج سکتے ہیں لیکن امید ہے جلدی آجاؤں گی کیونکہ مجھے جرنل بھی بنانا ہے" اسے جھوٹ بولتے خود اچھا نہیں لگ رہا تھا مگر وہ یہ موقع گنوانا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ اس نے صبور کو میسج کردیا اور موبائل جیب میں رکھ کر کالج سے نکل گئی۔
۔۔۔★★۔۔۔
"کون کہتا ہے جب تم پر ظلم ہو تو آواز نہ اٹھاؤ؟ بشر کچھ نہیں کرسکتا جب تک اس کا مالک نہ چاہے۔ آواز اٹھاؤ اور اپنے الفاظ سے آگ لگادو اگر تم حق بجانب ہو تو!
اگر تمہیں دبایا جائے اور تم پر ظلم ہو تو کون کہتا ہے آواز نہ اٹھاؤ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تم خود کے لئے آواز نہ اٹھا کر خود پر ہی ظلم کرتے ہو۔۔۔۔
کل کو یہ نہ کہنا مجھ پر بہت ظلم ہوا اور ظلم سہنا  میری مجبوری تھی۔ دنیا میں لوگ کیا کہیں گے والی بات کو بھاڑ میں ڈال کر اپنے لئے لڑو ہاں اگر تم حق بجانب ہو تو!" سامنے بیٹھی عورت اس کی ہر بات کو غور سے سن رہی تھی گویا ذہن نشین کررہی تھی۔ 
"تو کیا مجھے۔۔۔" بات ادھوری چھوڑدی۔
"ہاں تمہیں خود کے لئے لڑنا ہے۔۔۔ کہہ دو آنکھوں میں آنسو لانے والوں سے کہ یہ آنسو کہیں تمہارا مقدر نہ بن جائے اور یہ کہ عورت کمزور نہیں ہوتی"۔ ڈھلتا سورج اب اس عورت کی آنکھیں کھول رہا تھا۔ وقت کی رفتار تیز ہورہی تھی اور سورج ڈھل رہا تھا۔ سائے لمبے ہوتے ہوتے ختم ہورہے تھے۔ اس عورت کی آنکھوں میں امید کے جگنو چمکے وہ سامنے بیٹھی خوبصورت سی "عورت" کو دیکھ کر مسکرا اٹھی۔
"ڈھلتے دن کا دیا بن جاؤ۔۔۔ باقی اللہ ہم سب کے ساتھ ہے" چاند اب واضح نظر أرہا تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں اس کے چہرے کو چھوتی آگے بڑھ رہی تھی۔ وہ بھی یہاں ٹھہرنا نہیں چاہتی تھی۔ خواہش تھی تو آگے بڑھ جانے کی۔ چہرے پر تبسم پھیلا گویا محفل لوٹ لی گئی۔
۔۔۔★★۔۔۔
اس نے گاڑی پارک کی اور تقریبآ بھاگتا ہوا ریسٹورنٹ کے دروازے تک پہنچا۔
"ایکسکیوز می۔۔۔ مجھے جلدی ہے"۔ وہ لوگوں کے ہجوم سے نکلتا اندر پہنچا۔
دور ایک ٹیبل پر وہ بیٹھی ہوئی نظر آئی جو اب اسے دیکھ رہی تھی۔
اسی دم گھنٹا بجا۔
اس نے وقت دیکھا۔ دو بج گئے تھے۔ ایک مسکراہٹ اچھالتا ہوا وہ اسکی جانب بڑھا۔
"ہیلو لیڈی ڈائن۔۔۔ او سسوری لیڈی ڈیانا۔ ارادتاً نہیں کہا سو سوری"۔ شروعات اتنی بےعزتی سے ہوگئی تھی آگے پتا نہیں کیا ہوگا۔ زمان سوچ کر خود کو کوسنے لگا۔
"ٹائم دیکھا ہے؟"۔ وہ بنھویں اچکا کر بولی۔
"صرف دو ہی تو بجے ہیں"۔ وہ قدرے حیرانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈھٹائی سے بولا۔
"ہاں مگر میں نے ڈیڑھ بجے کا وقت دیا تھا خیر آپ مجھے بتائیے۔ امید ہے آپ کو اپنے بھائی کی شادی کی خبر ہوچکی ہوگی۔۔۔ " وہ اسے سپاٹ لہجے میں بولی۔ وہ چپ رہا۔ بلکل ایسے جیسے سن کر کسی کی بات رد کردیتے ہیں۔
"جواب؟"۔ اس نے بنھویں اچکا کر زمان کو دیکھا جو سینے ہر ہاتھ باندھے ٹیک لگائے اسے دیکھ ہی دیکھ رہا تھا۔
"کیوں دوں جواب؟" وہ بھی اکڑ سے بولا۔
"ہماری ملاقات کا مقصد یہی ہے"۔ وہ غصہ قابو کرتے ہوئے بولی۔
"اچھا؟ آپ کی ملاقات کا مقصد ہے یہ نہ کہ میری! اور ویسے بھی جہاں تک میری ملاقات کا مقصد ہے وہ صرف کھانا ہے جو آپ نے کھلانے کا ٹھیکہ لیا ہے۔۔۔" فاطمہ کا حیرت منہ کھل گیا. کیا کوئی اتنا بھی غیر سنجیدہ ہوسکتا تھا۔
"ٹھیک ہے میں نے مان لیا لیکن میں پہلے گفتگو کرنا چاہتی ہوں۔۔۔" وہ ہاں میں سرہلاتی بولی۔
"میری بات سنے لیڈی ڈائ۔۔۔۔ چھوڑیں پھر نامناسب الفاظ نکل جائے گے منہ سے۔۔۔ تو بات یہ ہے کہ کیا آپ میرے ساتھ ڈیٹ پر آئی ہیں؟"۔ فاطمہ کے تیور چڑھے۔
"کیا بکواس یے؟"۔
"ہاں یہی تو میں کہہ رہا ہوں فاطمہ نیازی کہ ہم ڈیٹ پر نہیں آئے ہیں، مگر ہماری ٹیبل پر اسپیشل کپل والی کینڈلز موجود ہیں اور گلاب کے پھول بھی"۔
وہ آنکھوں سے ٹیبل پر موجود گلاس کے اندر گلاب کے پھول اور برابر میں رکھی کینڈلز کی طرف اشارہ کرکے بولا۔
"یہ اس ریسٹورینٹ کی تمام میزوں پر ہیں"۔ اس نے ارد گرد دیکھا تو چونک اٹھی۔ اکثر میزیں سادہ تھیں۔۔ سوائے ایک دو کے۔۔۔!
"آپ کپل میز پر بیٹھ گئی ہیں محترمہ"۔ اس نے فاطمہ کے قریب چہرہ کرکے سرگوشی کی اور مسکرا کر اس کے تاثرات جانچنے لگا۔ وہ سٹپٹائی۔
"مم۔مجھے نہیں معلموم تھا ورنہ۔۔۔ میزیں نہیں دکھیں مجھے وہ"۔ وہ پتا نہیں کیا بول رہی تھی۔
"ہاں ہاں اس میز کو چھوڑ کر آپ اندھی ہیں آپ کو اس میز کے سوائے ہر جگہ اندھیرا دکھائی دیا تھا۔۔" وہ ہر کام اطمینان سے کرتا تھا۔ چاہے زچ کرنے کا ہی کیوں نہ ہو۔
"شٹ اپ"۔ وہ جھینپی۔
"چلو میز چینج کرو۔ میں جلد از جلد یہ میز بدلنا چاہتا ہوں کیونکہ مجھے آپ کے پیسوں کا آرڑر بھی کروانا ہے۔ کھانا کیسے ایڈجسٹ ہوگا اس ٹیبل پر؟ پھول اور کینڈلز نے جگہ گھیری ہوئی ہے۔ میں یہ برداشت نہیں کرسکتا۔ اب کھانے کا موقع تو میں نہیں چھوڑسکتا نا صرف اس میز کی وجہ سے۔۔۔؟ آؤ سامنے والی میز پر بیٹھیں"۔ وہ سرعت سے اٹھا اور دوسری میز پر جانے لگا۔ ایک نظر پلٹ کر دیکھا تو وہ بھی اب اٹھ کر اس کے پیچھے پیچھے آرہی تھی۔۔۔ بے دھیانی میں وہ پرس میز پر سے اٹھانا بھول گئی۔۔۔ وہ پھر سے میز کی طرف پرس اٹھانے جانے لگا۔ پرس اٹھا کر حیران اور الجھی فاطمہ کو پکڑایا۔
"پرس بھول گئی فاطمہ نیازی تم! اسے پکڑنے کبھی نہیں جاتا اگر میرے کھانے کا بل تم اسی پرس میں موجود پیسوں سے ادا نہ کررہی ہوتی۔۔۔" وہ اطمینان سے بولا۔ فاطمہ اسے عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگی۔
"افو ہو" وہ جنجھلا ہی اٹھی تھی۔ "کرلیں آرڈر کیا کرنا ہے آپ نے"۔ وہ کہہ کر منہ پھیر گئی۔
"ویٹر"۔ زمان نے اسے دیکھتے ہوئے ویٹر کو آواز دی۔
"جی"۔ زمان نے مینیو دیکھا
"میرے لئے ایک چیز پاستہ، چکن برگر اور پالک پنیر لکھ لو"۔ وہ بے دھڑک آرڈر لکھوارہا تھا۔ فاطمہ اسے حیرت اور غم سے دیکھ رہی تھی۔  اتنے تو اس کے پاس پیسے بھی نہیں تھے شاید۔۔ وہ پریشان ہوئی۔
"اور سوئیٹ ڈش میں کیک لکھ لیں۔۔۔۔ اور جی فاطمہ نواز آپ کچھ کھائیں گی؟"۔
پہلے نیازی کافی نہیں تھا جو اب نواز بھی لگادیا۔ وہ دل دل میں کڑھتی رہ گئی۔
"فاطمہ جاوید نام ہے میرا۔۔۔ اور جی نہیں مجھے کچھ نہیں کھانا۔۔۔۔" وہ دانت پیس کر بظاہر مسکرا کر بولی۔
"ٹھیک ہے میڈم"۔ وہ شائستگی سے مسکرایا اور ویٹر کو آرڈر دے کر بجھوادیا۔
"تو کیا ہم اب گفتگو کرسکتے ہیں؟"۔ وہ بظاہر بہت نرمی سے بولی مگر لہجے میں طنز چھپا تھا۔
"جی نہیں۔۔۔ جب تک کھانا نہیں آئے گا تب تک گفتگو شروع نہیں کرسکتے۔۔۔ مجھے تمام آئڈیاز کھانے کے دوران آتے ہیں فاطمہ مصطفیٰ" فاطمہ جل بھن کر رہ گئی۔۔۔ مگر وہ اتنا تو سمجھ گئی تھی کہ زمان بھی ایک سائنس ہے جسے سمجھنا ناممکن سا ہے۔۔۔ وہ مطمئن بےغیرت کے ساتھ ساتھ مطمئن ڈھیٹ بھی تھا۔
۔۔۔★★۔۔۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now