قسط ۲

3.9K 164 10
                                    

"میں نے کھانا بنادیا ہے اور اب کالج جارہی ہوں!"۔ وہ کچن سے نکلی اور لاؤنج میں آکر بیگ کو کندھے پر ڈالنے لگی۔
"دھیان سے جانا! بس آگئی کیا؟"۔ نفیسہ بیگم نے اس کا چہرہ چوما۔
"جی ماما"۔ اس نے مسکرا کر انہیں گلے لگایا۔
وہ جانے کو پلٹی کہ تن فن کرتی رمشا کمرے میں داخل ہوئی۔
"تم نے میری کپڑے استری کیوں نہیں کئے؟"۔ وہ چیخی۔
"میں بھول گئی رمشا۔ ابھی مجھے جانا ہے میری وین آگئی ہے"۔
رمشا نے ناگواری سے اسے دیکھا۔
"یہ کپڑے استری کئے بنا تم نہیں جاؤ گی یہاں سے"۔
نفیسہ بیگم پریشان ہوئیں۔
"رمشا مجھے دیدو۔ اس کی بس کھڑی ہے نیچے!"۔ وہ کپڑے لینے آگے بڑھیں۔
"تائی جان آپ نہیں! یہ کام اسے ہی کرنا ہوگا اور ابھی کرنا ہوگا۔"وہ دانت پیس کر بولی۔
شانزہ نے بے بسی سے اسے دیکھا
"جاؤ شانزہ کپڑے استری کرو میں بس والے کو رکواتی ہوں!"۔ وہ کپڑے اسکے ہاتھ میں دیئے باہر کی جانب بڑھی تھیں۔
رمشا کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ پھیلی۔
شانزہ نے بے اختیار نظریں پھیریں۔
اس نے کپڑے اٹھائے اور استری اسٹینڈ کی جانب بڑھی۔
 ۔۔۔★★۔۔۔
وہ تیزی سے گھر میں داخل ہوئی اور اپنا پرس اپنی الماری میں چھپایا۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے اپنے چہرے کو بغور دیکھا تھا۔ چہرے پر موجود زخم جو اس نے میک اپ سے چھپائے تھے اب نمایا ہورہے تھے۔
"ماما"۔ بچوں کو اس کی موجودگی کا علم ہوگیا تھا۔ اب وہ شور کرتے ہوئے بھاگ کر کمرے میں آرہے تھے۔ اس نے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا۔ اگر بچوں نے میک اپ دیکھ لیا تو کہیں اس کو بتا نہ دیں۔
وہ خوف سے بھاگتی ہوئی واشروم گئی اور پورا چہرہ صاف کرکے آئی۔
"ماما" وہ دونوں اس سے لپٹے تھے۔
اس نے مسکرا کر ان کے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔
"کہاں تھے میرے بچے؟"۔
"ماما یہ مجھے تنگ کررہا تھا"۔ ایک بیٹے نے دوسرے بیٹے کی طرف اشارہ کیا۔
"نہیں ماما اس نے مجھے ڈانٹا تھا"۔ دوسرے بیٹے نے صفائی پیش کی۔
وہ اپنے دوسرے بیٹے کو جانتی تھی۔ وہ ایکٹنگ کرنے میں ماہر تھا۔ اسے ہلکا سا ڈانٹ دو تو کسی دوسرے کو ایسا بتاتا کہ سامنے والا بھی ہنس جاتا۔
"آپ نے کچھ غلطی کی ہوگی نا!" وہ مسکرائی۔
"نہیں!" وہ چپ ہو کر اسے دیکھنے لگا۔
ماہ نور نے اسے گھورا۔
اس کی گھوری پر دل کھول کر ہنسنے لگا۔
وہ بھی اس کے گال کھینچ کر ہنس دی۔
فون میں آتی کال نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔
نظریں فون پر جم سی گئیں۔ اسے فون سے عجیب خوف محسوس ہوا۔ اس کی بیل مستقل بج رہی تھی۔ اس کے بچے پیچھے کھیلنے میں مصروف تھے۔
وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگی۔ اتنی دیر میں کال کٹ گئی اور اس کی جان میں جان آئی۔ وہ پھر بچوں کی جانب پلٹنے لگی کہ فون پھر بج اٹھا۔
اس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا تھا۔
وہ فون کی جانب پہنچی اور نام پڑھا تو کرب سے آنکھیں میچیں۔ کال اٹھائی اور سسکیاں بھرتے ہوئے کان سے لگایا۔
"کیسی ہو ماہی؟"۔ وہ مسکرا کر خوشگوار لہجے میں بولا۔ ماہی کے حلق میں گویا کانٹا پھنسا تھا۔
اس نے تھوک نگلا۔
دن کے تین بج رہے تھے۔
"جواب دو ماہی!" وہ اطمینان سے بولا۔
وہ اطمینان میں تھا یعنی کوئی بڑی مصیبت تھی۔
"میں ٹھیک ہوں"۔ ماہ نور نے ماتھے میں آئے پسینے کو صاف کیا۔ اس کے ہاتھ کپکپارپے تھے جس کے باعث کان سے فون پھسل رہا تھا۔
وہ مسکرایا۔
"اور میرا حال نہیں پوچھو گی؟"۔ وہ شکوہ کن لہجے میں منہ بسور کر بولا۔
"آ۔آپ ک۔کیسے ہیں؟"۔
"میں ٹھیک ہوں لیکن میرے موڈ کا کچھ نہیں پتا!"
ماہ نور سہمی۔
"کیا مطلب؟ ک۔کیا ہوا ہے؟"۔
"ماہی!" وہ بے انتہا پیار سے بولا۔
اب یقیناً کچھ برا ہونے والا تھا۔
"ج۔ج۔جی" وہ ہکلائی۔
"کیا ہوا لفظ ٹھیک سے ادا نہیں ہورہے؟" وہ انجان بنا۔
"نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔"
"آپ ک۔کہاں ہیں؟" وہ ہاتھ میں موجود زخم کو دیکھتے ہوئے بولی۔
وہ ہنسا۔
زور سے۔
فلک شگاف قہقہہ کہ ماہ نور کو فون کے باہر سے آواز سنائی دی۔
وہ خوف سے لرز گئی۔
جیسے دل حلق میں آگیا ہو۔
"گیراج میں کھڑا ہوں گھر کے! کھڑکی سے جھانک کر دیکھو مجھے۔ "ڈرائیور" کے ساتھ ہوں۔ سوچا آفس سے آکر خبر تو لوں یہ ڈرائیور آج گیا کہاں تھا۔" وہ کہہ کر پھر سے ہنسا۔
خوف کے مارے اس کی چیخیں نکلنے کو تھیں مگر اس نے منہ پر ہاتھ رکھا۔
اسے سامنے اپنی موت نظر آرہی تھی۔
وہ کھڑکی کے جانب لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ آئی اور ہلکا سا پردہ ہٹا کر دیکھا۔ وہ نیچے اپنی بی ایم ڈبلیو کے بونٹ پر بایاں ہاتھ رکھ کر کھڑا تھا۔
فون کندھے کے سہارے کان سے لگایا ہوا تھا۔
بائیں ہاتھ میں خنجر تھا جسے وہ اچھال کر پھر ایک ہاتھ سے پکڑ رہا تھا۔
خنجر خون آلود تھا۔ زمین پر ڈرائیور کی لاش پڑی تھی۔ خون سے زمین رنگ چکی تھی۔ وہ خوف سے چیخ اٹھی۔ اس کے شوہر نے جب اسے کھڑکی سے جھانکتے دیکھا تو ہاتھ ہلایا۔
"خ۔خ۔خون۔" وہ ہکلائی۔
"اسے ماردیا میں نے!" وہ مسکرایا۔
ماہ نور کے ہاتھ سے فون پھسلا۔ وہ چیخ کر رونے لگی۔ اس کا دل پھٹ جانے کو تھا۔
اس نے پردہ چھوڑا اور وہیں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
"تمھیں پتا ہے میں نے اسے کیوں مارا؟" اس کا لہجہ یقیناً سخت تھا۔ وہ وہیں گیراج میں ہی تھا۔
ماہی اس کا فون نہیں سننا چاہتی تھی۔
"اس لئے کیونکہ اس نے میرا حکم نہیں مانا۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ ماہ نور جہاں جانے کو کہے اسے نہ لے کر جائے جب "میری" اجازت نہ ہو! اور وہ تمھیں کبھی ملی ہے نہ ملے گی۔ تم جانتی ہونا مجھے تمھارا اپنے بغیر باہر جانا پسند نہیں؟ مگر اس نے میری بات نہیں سنی۔ ماہ نور اپنے شوہر کے حکم کے خلاف گئی اور میرا ڈرائیور بھی میری بات کے خلاف۔ وہ تو مرگیا۔ میں آپ کے پاس آرہا ہوں۔  مرنے سے پہلے بتایا تھا ڈرائیور نے! کہ میری زوجہ اپنی دوست سے ملنے گئی تھیں! میں تم پر کسی اور مرد کی نگاہیں برداشت نہیں کرسکتا اور تم ڈائرکٹ اپنی دوست کے گھر۔۔۔" اس نے ہنس کر بات ادھوری چھوڑی۔
ماہ نور کو موت سامنے نظر آرہی تھی۔
"آپ ۔م۔مجھے ماردیں گے؟؟" وہ اٹک کر بولی ۔اس کے الفاظ حلق میں پھنس گئے ہوں جیسے۔
اس کے شوہر نے چونک کر موبائل دیکھا جس میں سے اس کی بیوی کی آواز ابھری تھی اور پھر کان سے لگایا۔
"میں تمھیں کیوں موت کے حوالے کروں گا؟ تم میری ہو ماہ نور! تم اور بچے! دونوں میرے ہو! صرف میرے! میں تمھیں نہیں ماروں گا۔ میں صرف سزا دوں گا۔ میں تمھیں اذیت دوں گا"۔
ماہ نور کے رونے میں تیزی آئی۔
"ایک گیم کھیلیں؟" وہ مسکرایا۔
اس نے جھٹکے سے فون کان میں لگایا
"نہیں مجھے کوئی گیم نہیں کھیلنا۔ ن۔ن۔نہیں مینو!! مجھے نہیں۔ نہیں خدارا" وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی۔
"نہیں گیم تو کھیلنا ہوگا! آخر اپنی اہم میٹنگ چھوڑ کر آیا ہوں! تھوڑا گیم ہی ہوجائے"۔ وہ کھڑکی کی جانب دیکھتا ہوا بولا جس پر بھاری پردے لگے تھے۔
"نہیں۔ مینو نہیں کھیلنا۔ مجھے نہیں کھیلنا خدارا۔" وہ بھیگتی آنکھوں کے ساتھ بولی۔
وہ ہنس دیا۔
"ہم کھیلیں گے ہائڈ اینڈ سیک۔ مزہ بہت آئے گا چھپن چھپائی کھیلنے میں"۔ وہ جتنا ہنس کر گویا ہوا تھا اتنا کرب سے ماہ نور نے سنا تھا۔
"مجھ سے غلطی ہوگئی مینو! خدارا معاف کردو۔" وہ روتے میں چلائی۔
"تو سدھار لیتے ہیں نا!"
اسی دم وہ چیخی۔
"نہیں! پلیز!"
"جاؤ جا کر چھپ جاؤ۔ میں آیا۔" اس نے کہہ کر کال کاٹ دی تھی۔
ماہ نور نے ڈر کو موبائل دور پھینکا۔
وہ گیراج سے گھر میں داخل ہوچکا تھا۔
اس نے اس کی آواز سنی تھی۔
وہ گنتی گن رہا تھا۔
"ایک"۔
قریب تھا کہ ماہ نور کا دل پھٹ جاتا۔
وہ تیزی سے اٹھی اور پردے میں سے جھانک کر دیکھنے لگی۔
وہ لاؤنج میں قدم رکھ چکا تھا۔
وہ ڈر کر پیچھے ہوئی۔ کہاں چپھے اسے کچھ سمجھ نہ آیا۔
اس نے اپنے کھلے بال کھینچ کر پیچھے کئے۔
"دو"۔ اس کی آواز آئی۔
بچے سامنے کھلونوں سے کھیل رہے تھے۔
"تین!"۔ اس کی آواز پر وہ اور ڈر گئی۔
اس نے الماری کھولی اور چپھنے کے لیے جگہ دیکھنے لگی۔ جگہ نہ ہونے کے باعث اس نے ارد گرد نظریں دوڑائیں۔
"چار"۔ وہ دروازے کے سمت آئی اور سیڑھیوں سے نیچے جھانکنے لگی کیونکہ وہ اسے دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ کہاں تک پہنچا۔
وہ گراؤنڈ فلور پر تھا۔ اس کے ہاتھ میں خنجر تھا۔ اس نے دراز کھول کر خنجر اور پستول اندر رکھی اور چمڑے کی بیلٹ نکالی۔ ماہ نور کی گویا سانسیں رکیں۔
"پانچ"۔ وہ پھر سے اپنے کمرے میں گئی لیکن چپھنے کی وہاں کوئی جگہ نہیں تھی۔ بچوں نے اسے دیکھا تھا۔ اس کی یہ حالت ان کے سمجھ سے باہر تھی۔ وہ بچوں کے پاس آئی اور انہیں پیار کیا۔
"بابا کو مت بتانا میں کہاں ہوں! بابا پوچھیں گے تو کہنا آپ کو نہیں پتا ماما کا!"۔
اس کی آواز گونجی۔
"چھ"۔
وہ پلٹی! اب اس کا رخ دوسرے کمرے کی جانب تھا جہاں وہ اپنا آفس کا کام کرتا تھا۔
"سات"۔ اس کے دونوں بیٹوں نے اسے اس کمرے کی جانب جاتے ہوئے دیکھا۔ جگہ ملنے پر ماہ نور اس کی کمپیوٹر ٹیبل کے پیچھے چھپ گئی۔
"آٹھ!"۔ اب وہ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔
ماہ نور نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا کہ چیخ نہ نکلے۔
"نو!"
اذیت ناک اور درد ناک لمحہ تھا۔
اس نے آنکھیں میچیں۔
"دس!"
اس کے دس بولتے ہی ماہ نور کو لگا "اب سب ختم"
"ماہی۔۔۔ کہاں ہو ؟" وہ مسکراتا ہوا گنگنانے کے انداز میں بولا۔
ماہ نور کی آواز حلق میں پھنس گئی۔
وہ کمرے میں آیا۔ بچے انجان تھے۔ پورے کمرے میں نظر دوڑانے کے بعد وہ بچوں کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا۔
بچے اسے سہم کر دیکھنے لگے۔
اس نے بچوں کے ماتھے چومے اور مسکرا کر انہیں دیکھا۔
"ماما کہاں ہیں؟"۔
اس کے ایک بیٹے نے دوسرے کا بازو کھینچا کہ کہیں وہ بتا نہ دے۔
جبکہ دوسرا بیٹا اپنے باپ کو بغور دیکھ رہا تھا۔
"وہ وہاں ہیں!"۔ اس بچے نے سامنے کمرے کی طرف اشارہ کیا۔
ماہ نور آواز بخوبی سن سکتی تھی۔
اچانک وہ مسکرایا۔
"تھینک کیو۔ جاؤ کھیلو۔" ان کا ماتھا چومتے وہ اٹھ کر کمرے سے نکلا۔
پہلے بچے نے دوسرے بچے کو ڈانٹا۔
"ماما نے منع کیا تھا۔"
دوسرے بچے نے اسے دیکھا اور کھلونے کے پاس آبیٹھا۔
"بابا کیا ماما کو ماردیں گے؟" وہ بچہ پھر سے اس کی جانب آیا۔
اس نے بھائی کی آواز جیسے سنی ہی نہ ہو۔
"آؤ گاڑی گاڑی کھیلتے ہیں!" اس نے بات پلٹ دی۔
"ہاں چلو!" وہ بچہ بھی بہل گیا۔
 ۔۔۔★★۔۔۔
پانی سے بھرا جگ اس نے زمان کے اوپر ڈالا تھا۔
وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔
"کیا تمھیں نہیں یاد کے تمھیں آفس جانا ہے میرے ساتھ؟"۔ امان نے سیگریٹ جلائی۔
"مجھے کہیں نہیں جانا مجھے سونے دو!"۔
امان نے اسے گھورا۔
"اٹھو فوراً" وہ چیخا۔
"میں نہیں جاؤں گا۔" وہ پھر کروٹ بدل گیا۔
"میں وارن کررہا ہوں!" امان کہہ کر پر سکوں ہوا۔
زمان ٹھٹھکا
"اس کے بعد؟؟"
امان شاہ نے ایک کش لیا۔
تم جانتے ہو۔"
"مجھے پنکھے سے الٹادو گے یقیناً؟" زمان بنا ڈرے بولا۔
امان نے اسے بغور دیکھا۔
"نہیں چاہتا جبھی کہہ رہا ہوں چلو فوراّ"۔ وہ کہہ کر پلٹا۔
"میں بعد میں آجاؤں گا"۔ زمان نے کہہ کر آنکھیں موندیں۔
امان نے اسے سخت نظروں سے دیکھا اور کمرے سے نکلا۔
زمان کا خون خشک ہوا۔
وہ سکون میں تھا اور یہی بے سکونی تھی۔
"میں آرہا ہوں!"۔
اس نے بلند آواز میں اس سے کہا۔
امان نے پلٹ کر اسے دیکھا۔
"تھینک یو فار سیونگ مائی ٹائم!" جان لیوی مسکراہٹ کے ساتھ وہ باہر کی جانب ہولیا۔
 ۔۔۔★★۔۔۔
"چچی آپ نے ٹھیک نہیں کیا یہ"۔ فاطمہ ماتھے پر بل ڈال کر بولی۔
"تم جانتی ہو اس گھر میں میری نہیں چلتی"۔ نفیسہ بیگم کے بستر کی چادر تہہ کرتی ہوئی بولیں۔
فاطمہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔
"اوپر تک آواز آئی تھی رمشا کی۔ مما نے کہا کہ میں دیکھ آؤں! ویسے کیا تماشا کررہی تھیں یہ محترمہ؟"۔ فاطمہ نے بنھویں اچکائیں۔
" بھابھی کیسی ہیں؟"۔
انہوں نے بات بدلی۔
"ٹھیک ہیں"۔ اس نے اٹھ کر نفیسہ بیگم کے ہاتھ سے چادر لی اور خود تہہ کر کے الماری میں رکھنے لگیں
"آپ بیٹھ جائیں میں کردیتی ہوں"۔
وہ بستر پر بیٹھ گئیں۔
"تم کالج نہیں گئی؟" انہوں نے تسبیح گھماتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں آج چھٹی کرلی میں نے۔ بتادیا تھا کل شانزہ کو۔"
نفیسہ مسکرائیں۔
"ہاں اس کے بھی جانے کا دل نہیں کررہا تھا شاید اسی وجہ سے۔ دونوں ساتھ رہتے ہونا تو بور نہیں ہوتے ہوگے۔"
فاطمہ مسکرائی۔
"ہاں جی!"۔
فاطمہ نے ارد گرد نظریں دوڑائیں۔ گھر میں سکون تھا۔ رمشا جو سورہی تھی۔
۔۔۔★★۔۔۔
وہ اس کمرے میں داخل ہوا۔
"ماہی!" وہ جانتا تھا وہ میز کے پیچھے چپھی ہوئی ہے، مگر پھر بھی انجان بنا رہا۔
"کہاں ہو۔ سامنے آؤ!" وہ جان بوجھ کر دوسری جگہ ڈھونڈنے لگا۔
ہاتھ میں موجود چمڑے کا پٹا اس نے مضبوطی سے پکڑا۔
"مجھے پتا ہے میں تمھیں ڈھونڈ لوں گا!" وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ٹیبل کے قریب آرہا تھا۔
ماہ نور کا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔
"محبت کرنے والے ہمیشہ نظروں کے سامنے ہی ہوتے ہیں! ہاں کبھی کبھی آپ محبوب کی خلاف ورزی کرجاتے ہیں لیکن سدھارنا تو میں جانتا ہوں نا۔ میرے علاوہ جو تم پر نظر بھی دوڑائے گا اس کی آنکھیں نوچ لوں گا میں۔ سامنے آؤ ماہی" وہ ماہ نور کی جانب بڑھا۔
ماہ نور کا دل چاہا کہ اسے موت کی دعا مانگ لے۔
اس نے ماہ نور کو بازو سے کھینچ کر اٹھایا۔ ماہ نور کی چیخیں بلند ہوئیں۔
"ڈھونڈ لیا تمھیں! لگتا ہے ہائڈ اینڈ سیک کھیلنا بھول گئی ہو۔ یہ جگہ بھی چپھنے کی تھی بھلا؟" خون آلود نظروں سے مسکراتے ہوئے دیکھا۔
ماہ نور کی جیسے سانسیں رکی۔ وہ جان نہ پائی کہ اس کے شوہر کے ہاتھ کی گرفت چمڑے کے بیلٹ پر مضبوط ہوچکی تھی۔
۔۔۔★★۔۔۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now