قسط ۱۰

3.7K 188 28
                                    

انسان تب تک صرف نارمل رہ سکتا ہے جب تک اسے ذہنی سکون میسر ہو!۔ جب یادیں دل دہلا دینے والے ماضی کے ساتھ جڑی ہوں اور نہ کوئی سہارا میسر ہو نہ ذہنی سکون راس آئے تو وہ بربادی کے در پر پہنچ جاتا ہے۔ اور بربادی تک پہنچ جانے والا انسان ایسے سفر کا مسافر بن جاتا ہے جس کی کوئی منزل نہیں۔ وجود کے ساتھ ساتھ ذہن بھی سکون کا طلب گار ہوتا ہے۔ سیگریٹ کے دھوؤے سے پورے کمرے میں دھند چھائی ہوئی تھی۔ سوچوں میں غرق وہ شخص زندگی کے ہر موڑ پر گرا تھا۔ موبائل کی بپ نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس نے میسج دیکھنے کے لئے موبائل آن کیا۔ شاہ نواز نے ویڈیو بھیجی تھی! اس نے ویڈیو چلائی۔
"مجھے مت مارو! میں نے کیا کیا ہے۔۔۔" وہ چیخ رہا تھا۔ شاہ نواز ویڈیو بنارہا تھا جبکہ باقی گارڈز اسے ماررہے تھے۔۔۔ لاتیں، تھپڑ گھوسوں کی برسات اس پر اب بھی جاری تھی۔ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی تاکہ وہ ان کا چہرہ نہ دیکھ سکے۔
"اس کا چہرہ اس طرف کرو!" ویڈیو میں شہنواز نے کہا تھا۔۔ اکبر نے اس کا چہرہ گھما کر کیمرے کی طرف کیا تاکہ ظاہر ہو کہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ عدیل جاوید ہی ہے۔
ایک حقارت بھری نظر امان نے موبائل پر ڈالی تھی۔ اس ویڈیو کو دیکھنے پر کہیں بھی پتا نہیں لگ رہا تھا کہ امان شاہ کے آدمیوں نے اسے اغوا کروایا تھا۔ امان چاہتا تھا کہ عدیل جاوید کو وہ خود مارے۔ وہ گیا تھا فارم ہاؤس مگر طبیعت اتنی بوجھل لگی کہ انہیں سمجھا بجھا کر خود واپس گھر آگیا۔ شاہ نواز کو میسج کردیا کہ جب تک مارتے رہو گے تب تک ویڈیو بناتے رہنا۔ شاہ نواز نے میسج پڑھ لیا تھا کیونکہ اب وہ کچھ لکھ رہا تھا۔
"جی دادا!" امان نے میسج پڑھ کر موبائل رکھا اور بستر کے بیک سے ٹیک لگایا۔ رات ہوچکی تھی اور اب روز کی طرح وہ گہری سوچ میں جانے والا تھا۔ اس نے ترچھی نگاہوں سے ٹوٹے ہوئے شیشے کو دیکھا تھا۔ نگاہیں بے اختیار بوجھل ہوئی تھیں۔ زندگی میں سکوں نام کی کوئی چیز ہی نہیں تھی!
"اب وہ آئینہ ٹوٹ چکا ہے! اب اس میں منہاج شاہ ظاہر نہیں ہوگا!"۔ وہ خود سے دل میں کہہ رہا تھا۔ رات کے سائے پھیل چکے تھے! اور جیسے جیسے دن رات میں تبدیل ہورہا تھا اس مضبوط شخص کو گھبراہٹ ہورہی تھی۔ امان کو اپنے اطراف سے خوف محسوس ہورہا تھا۔ دل میں طرح طرح کے وسوسے جنم لے رہے تھے اور دماغ سوچوں میں الجھا تھا۔ کیوں ہوتی ہے یہ رات! کاش کسی کی زندگی میں رات نہ آئے۔ دن ڈھل رہا ہے امان شاہ! وہ آئے گا! نہیں! میں نے شیشہ توڑ دیا یے۔ وہ اب وہاں ظاہر نہیں ہوگا!" وہ فاتحانہ انداز میں مسکرایا۔
"مگر وہ میرے اطراف میں ظاہر ہوگا! ہر جگہ! " اس نے تھوک نگلا۔ آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں مگر انہیں بند کرتے ہوئے بھی خوف محسوس ہورہا تھا۔ اسے خدشہ تھا۔۔۔۔۔! اسے خدشہ تھا کہ اگر وہ اپنی آنکھیں بھی جھپکے گا تو کہیں وہ پھر سے نظر نہ آجائے۔ تیز ہوا کے جھونکوں سے اس کے کمرے کی کھڑکیاں آوازوں کے ساتھ بند کھل ہونے لگیں۔ گھر کے گارڈن میں لگے لمبے درخت ہوا کے زیرِ اثر ہل رہے تھے۔ دل میں انجانا سا خوف برپا تھا۔ اس نے سیگریٹ مسل کر ایش ٹرے میں رکھ دی اور گہری سانس لے کر بستر سے ٹیک لگائے سامنے ٹیرس کی جانب دیکھنے لگا۔ دل بےاختیار زور زور سے دھڑکنے لگا۔ نگاہیں جیسے جم گئی ہوں!
"زمان!" وہ بلند آواز میں اسے پکارنے لگا۔ اس نے نگاہیں موڑنی چاہی لیکن نگاہوں نے ساتھ نہ دیا۔ پہلو بدلنا چاہا لیکن ٹانگیں گویا کانپنے لگیں۔
"ہاں؟" زمان نے اپنے کمرے سے ہی جواب دیا۔
"میرے کمرے میں آجاؤ!" وہ یونہی بے تاثر بولا
"ہاں میں آرہا ہوں!"۔ زمان حالات کی سنگینی کو سمجھ گیا تھا۔ اس نے لمحہ نہیں لگایا تھا سوچنے میں! وہ اپنا موبائل اٹھا کر اس کے کمرے میں آگیا۔ امان نے مڑ کر بھی اسے نہیں دیکھا تھا۔ وہ اس کی موجودگی سے بےخبر تھا۔ زمان نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا تھا۔ وہ ہنوز بے سدھ بیٹھا سامنے کالے آسمان کو دیکھ رہا تھا۔ رنگت سفید پڑ رہی تھی۔ اس کی یہ حالت رات ڈھلتے ہی ہوجاتی تھی۔ زمان نے آگے بڑھ کر پردے لگائے اور ٹیرس کا دروازہ بند کردیا۔ نظروں کا ارتکاز ٹوٹا تو وہ ہوش میں آیا۔ نگاہ زمان پر پڑی۔
"ت۔تم کب آئے؟"۔ وہ سٹپٹایا۔ زمان نے بنھویں اچکا کر حیرت سے اسے دیکھا۔
"ابھی تو بلایا تھا تم نے! تمھارے کہنے پر ہی تو آیا ہوں!"
امان نے بازو سے تکیہ اٹھا کر سر کے نیچے رکھا۔
"میں نے تمھیں کب بلایا؟"۔ امان کے کہنے پر زمان نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
"تم نے ابھی مجھے آواز دے کر کہا تھا کہ زمان میرے کمرے میں آجاؤ! تم یقیناً تنہائی محسوس کررہے تھے جبھی تم نے پکارا تھا؟"۔
وہ بیڈ کے دوسری سائیڈ پر آبیٹھا تھا۔
"نہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے تمھیں نہیں بلایا!" امان سنجیدگی سے بولا۔
زمان اس کی بات پر ششدر رہ گیا۔ تو کیا اسے واقعی یاد نہیں کہ پانچ منٹ پہلے امان نے اسے خود بلایا تھا؟ اور اگر واقعی بھول گیا تھا تو یہ کوئی عام بات نہیں تھی!۔
"ہاں شاید تم نے نہیں بلایا تھا لیکن میں آج یہیں سونا چاہتا ہوں!" وہ دھپ سے بیڈ پر لیٹا۔
"ہاں تم یہیں لیٹ جاؤ! میرے قریب! بازو میں!" امان کے لہجے میں خوف تھا جسے وہ چھپانے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔ بھائی کی یہ حالت زمان کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ وہ اٹھ کر اس کے برابر بستر پر اوندھے منہ لیٹ گیا اور اس کا تھام لیا۔
"کس کی یاد آرہی ہے جو میرا ہاتھ یوں پکڑ لیا تم نے؟"۔ وہ مسکرا کر اس کی سمت دیکھتا ہوا پوچھنے لگا۔
"مجھے نیند آرہی ہے امان! آج تھک گیا ہوں! کل بات کریں گے!" وہ زبردستی مسکرا کر کہتا ہوا اسکا ہاتھ پکڑ کر آنکھیں موند گیا۔
"اسے کیا ہوا؟"۔ امان کو کچھ عجیب محسوس ہوا۔
"مگر میری تو جیسے نیند ہی اڑ گئی ہے! آنکھیں نیند سے خالی ہیں!" وہ پھر سے ٹیرس کے بند دروازے کو تکنے لگا۔ چہرہ بے تاثر تھا۔۔ زمان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"کیوں؟"
"پتا نہیں! بس تم میرے پاس رہو! مجھے ایسا لگتا ہے جیسے تمھیں کوئی خطرہ ہے! میرے قریب رہو! بس! اور میں ابھی اور کچھ نہیں چاہتا"۔ زمان نے اس کی گود میں سر رکھا۔
"میں ڈھیٹ ہوں امان اور یہ لقب تم نے ہی مجھے دیا تھا! مجھے کچھ نہیں ہونا۔ مجھے اس وقت تک کوئی نہیں چھو سکتا جب تک تم میرے ساتھ ہو"۔
"اور میں کب تک ہوں؟"
زمان جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔
"دماغ کچھ زیادہ نہیں چل رہا تھمارا آج؟ سوجاؤ تم! تمھیں آرام کی ضرورت ہے"۔ اس نے امان کو لٹانا چاہا۔
"میں ٹیرس پر جارہا ہوں۔ چھوڑو مجھے!" وہ ہاتھ چڑھاتا اٹھ کھڑا ہوا۔
"کیوں؟ میں تمھیں کسی بھی قیمت پر اکیلا نہیں چھوڑ سکتا امان! خدارا!!" زمان اٹھ کر اس کی طرف آیا۔
"تمھیں میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں!" وہ ایک نظر اس پر ڈالتا دراز سے سیگریٹ اور لائٹر نکالنے لگا۔
"پھر سیگریٹ پیو گے؟ ابھی بھی کمرہ دھوؤے سے بھرا ہوا ہے!" زمان نے بےچارگی سے اس سے پوچھا۔
"طلب محسوس ہورہی ہے! یہاں نہیں پیوں گا میں! ٹیرس پر جارہا ہوں۔ کچھ وقت تنہا گزارنا چاہتا ہوں۔۔بس کچھ وقت! " وہ جیب میں رکھتا ٹیرس میں چلا گیا۔
زمان ہکا بکا رہ گیا۔
 ۔۔۔★★۔۔۔
"عدیل نیچے ہے کیا نفیسہ؟" صبور سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی تھیں۔
"نہیں بھابھی!" نفیسہ ان کی طرف آئیں۔
"میں کب سے کال کررہی ہوں مگر اٹھا نہیں رہا! شام کو واپس آتا ہے آفس سے مگر اب تو رات کے بارہ بجنے والے ہیں!"۔ وہ ماتھے پر بل ڈالے پریشانی سے بول رہی تھیں۔
"آپ اس کے دوستوں سے پوچھیں!" نفیسہ نے مشورہ دیا۔
"نہیں نفیسہ! میں نے سب کو کل کی ہے! وہ کسی دوست کے پاس نہیں ہے! جاوید الگ پریشانی میں ہیں! اس کے آفس کال کی مگر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ شام میں ہی جا چکا تھا۔ مجھے گھبراہٹ ہورہی ہے!"۔ وہ سینہ مسلتے ہوئے بیڈ پر بیٹھی تھیں۔
"وہ آجائے گا! آپ فکر مت کریں بھابھی"۔ وہ ان کی کمر سہلانے لگیں۔
"شانزہ! شانزہ تائی کے لئے پانی لاؤ جلدی سے!"وہ شانزہ کو آواز دینے لگیں۔
"جی امی!"
شانزہ جلدی سے پانی لے کر آئی۔
"کیا ہوا تائی جان؟"۔ شانزہ نے گھبرا کر پوچھا۔
"عدیل نہیں آیا ابھی تک شانزہ! دعا کرو وہ محفوظ ہو! مجھے ڈر لگ رہا ہے بہت!"۔ وہ رونے لگی تھیں۔
"میں پھر کال کرتا ہوں اسے!"۔ نیچے اترتے جاوید صاحب نے پریشانی سے کہا۔ انہوں نے کال ملائی مگر اس بار بھی ناکام ہوئے۔ گھر میں گہرا سکوت چھا گیا تھا۔ شانزہ کا دل ڈوبا جارہا تھا۔ فاطمہ وضو کرکے نماز پڑھنے لگی۔ ناصر صاحب بھی آکر حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔
اچانک فون پر بپ ہوئی۔ جاوید صاحب نے اسکرین آن کی۔ سامنے عدیل کا مسیج تھا۔ وہ بےاختیار خوش ہوئے۔ جلدی جلدی سے اسکرین لاک کھول کر واٹس ایپ کھولا۔ایک ویڈیو تھی جو عدیل کی طرف سے آئی تھی۔ انہوں نے اسے کھولی۔ ایک موٹا ڈنڈہ عدیل کے کمر پر مارا جارہا تھا۔ عدیل کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ وہ تڑپ رہا تھا اور یہاں صبور اور شانزہ سمیت باقی افراد بھی تڑپ گئے۔
صبور چیخنے لگیں۔
"کیا ہوا ہے؟ یہ کیا ہے تایا ابا؟"۔ رمشا بھاگتی ہوئی آئی تھی۔ نظر موبائل پر پڑی تو وہ بھی چیخ اٹھی۔
"عدیل کو کیا ہوا ہے؟ یہ کیا ہے تایا ابا؟ کیا ہے یہ؟ ک۔کہاں ہیں وہ؟"۔ اس نے ایک نظر شانزہ پر ڈالی جو سر پر ہاتھ رکھے سسکیوں سے رورہی تھی۔
"ناصر بھائی مجھے ڈر لگ رہا ہے کچھ کریں! جاوید آپ جائیں نا کہیں بھی جائیں اسے ڈھونڈ کر لائیں! دیکھیں وہ کتنا تڑپ رہا ہے"۔ رمشا کی بات کو نظر انداز کرکے وہ چیخنے لگیں۔ جاوید صاحب سے بیٹے کو یوں تڑپتا دیکھا نہ گیا وہ موبائل بیڈ پر پھینک کر صدمے میں چلے گئے۔ ان کی سانسیں گویا اکھڑنے لگیں تھیں
لب کپکپارپے تھے۔
"آپ حوصلہ کریں! کسی کو غلط فہمی ہوئی ہوگی اس لئے انہوں نے غلط بندے کو اٹھا لیا ہوگا۔ بھلا عدیل نے کیا کیا ہے! آئیں ہم پولیس اسٹیشن چلتے ہیں!"۔ وہ ان کی کمرے سہلانے لگے۔ رمشا کے آنکھیں رو رو کر سوج گئی تھیں۔ اسے ایک دم کچھ یاد آیا۔ وہ جھٹکے سے پلٹی اور شانزہ کی قریب آئی۔ دونوں بازو پکڑ کر اسے جنجھوڑ ڈالا۔ شانزہ ششدر ہوئی۔ رمشا آواز دبا کر بولنے لگی۔
"تم تو ہو ہی منہوس! کہا تھا نا میں نے؟ بتادو کہاں رکھا ہوا ہے اس کو! اپنے عاشق سے کہو اسے گھر پہنچائے!"۔ شانزہ کو اس کی انگلیاں اپنی جلد میں گھستی ہوئیں محسوس ہوئیں۔ فاطمہ منہ پر ہاتھ رکھے چیخے دبائے رورہی تھی۔
"ک۔کیا کررہی ہو! ک۔ک۔کون سا عاشق؟" وہ رونے لگی۔ باقی موجودہ افراد کا ان دونوں پر دھیان نہیں گیا کیونکہ وہ دھیمی آواز میں باتیں کررہے تھے۔
"وہی عاشق جس کے ساتھ اس دن گاڑی سے نکلی تھیں!"۔ وہ ایک ایک لفظ چباتے ہوئے بولی۔ دماغ میں ایک جھماکا ہوا اور اسے امان اور اس کی دھمکیاں یاد آئیں۔
"مجھے پتا ہے تم نے ہی اس سے کہا ہے۔ جاؤ اب اپنے عاشق سے جا کر کہو کہ عدیل کو چھوڑ دے۔ عدیل سے سچی محبت تو میں نے کی ہے۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ تم اتنی گھٹیا نکلو گی کہ عدیل کو اپنے عاشق سے پٹواؤگی!"۔ دانت پیس کر کہا۔
شانزہ کا دماغ سنسنایا۔ امان؟ اور اس کی دھمکیاں؟ یعنی۔۔۔۔یعنی انہوں نے۔۔ اسکا دماغ لمحوں میں کام کررہا تھا۔ اس نے رمشا کو دھکا دیا اور بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں گئی اور اپنا موبائل چیک کیا۔ اس کے موبائل پر ایک انجانے نمبر سے دو مس کالز آئی ہوئی تھیں۔ وہ ٹھٹھکی۔ اس نے خوف سے تھوک نگلا۔ اس نے اسی نمبر پر کال بیک کی۔ کانپتے ہاتھوں سے فون کانوں سے لگایا۔
ٹانگیں سن ہونے لگیں۔ وہ لڑکھڑاتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گئی۔
دو تین بیل پر فون اٹھالیا گیا تھا۔ لبوں پر گویا تالے پڑگئے۔ ہونٹ کانپنے لگے۔
"ہیلو!"۔ مقابل شخص کی بھاری آواز اس کے کانوں سے ٹکڑائی۔ وہ چپ رہی۔ کچھ کہنا چاہا تو لفظوں نے ساتھ نہ دیا۔
"جی جانِ امان! آپ نے کال کی ہے! لگتا ہے خیریت نہیں ہے!"۔ فون کے اس پار موجود وہ ہنسا تھا۔ شانزہ کا دل پھٹنے کے قریب ہوا۔ آواز نکالی تو منہ سے نکلا تو صرف ایک لفظ!
"عد۔دیل" اس کا نام سننے کی دیر تھی کہ امان کا چہرہ سخت ہوا۔ اس نے کانوں سے فون ہٹا کر اسکرین پر ڈالی اور کانوں پر لگایا۔
"منع کیا تھا نا اس کا نام لینے کو اور اس سے باتیں بگھارنے کو؟"۔ وہ سپاٹ میں لہجے میں پوچھ رہا تھا۔
"وہ کہاں ہے؟"۔ اس کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔
"کون؟" وہ انجان بنا۔
"عدیل!" ہونٹوں نے جنبش کی۔
"بھائی تمھارا ہے یا میرا؟ مجھے کیا پتا! تمھیں معلوم ہوگا!"۔ وہ واقعی اچھا کھلاڑی تھا۔ شانزہ کی آنکھیں بھیگنے لگی۔ آنسو گال سے ہوتے ہوئے زمین کو سراب کرنے لگے۔
"میں جانتی ہوں آپ نے اسے اغوا کروایا ہے۔ اسے چھوڑ دیں خدارا!"۔ وہ ہچکیوں سے رونے لگی۔ امان مسکرایا۔
" میں نے تو پہلے ہی وارن کیا تھا! لیکن شانزہ ناصر اسے شاید مذاق سمجھ رہی تھیں! کوئی بات نہیں ٹریلر تو دکھا ہی دیا۔ اب یہ بتاؤ فلم کب دیکھنی یے؟ "۔ وہ زیر لب مسکرایا۔
شانزہ کی ہڈیوں میں سنسنی سی لہر پھیل گئی۔
"آپ کیا چاہتے ہیں؟"۔ وہ دھیمی مگر بے تاثر انداز میں پوچھ رہی تھی۔
"تم جانتی تو ہو میں کیا چاہتا ہوں مگر لگتا میری خواہش کی تم نے قدر نہیں کی اور دیکھو میں نے کیا کردیا جواباً"۔ وہ تلخی سے مسکرایا۔
"آپ جو کہیں گے میں وہ کروں گی! عدیل کو چھوڑ دیں پلیز!" وہ پھر سے رونے لگی۔
"ایک بات یاد رکھنا شانزہ! محرم تم صرف میری بنو گی۔ تمھارے وجود کی طرح تمھارا دل بھی صرف اور صرف میرا ہوگا"۔ وہ ایک ایک لفظ چبا کر اسے اپنی بات باور کروا رہا تھا۔ شانزہ نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی ہچکیوں کو قابو کرنا چاہا۔
"میں ملنا چاہتا ہوں تم سے! کل تمھارے کالج کے باہر۔ کالج تو جاؤگی نا؟ یا اپنے بھائی کی واپسی تک گھر ہی بیٹھی رہو گی؟ اور اگر تم مجھے کل نہیں ملی تو یاد رکھنا! عدیل شام کے وقت گھر تو پہنچا دیا جائے گا! مگر زندہ نہیں بلکہ مردہ!" سختی سے کہہ کر اس نے فون رکھا۔
"ن۔نہیں م۔میں آؤں گی! میں ض۔ضرور آؤں گی!" وہ تڑپ کر بولی یہ جانتے ہوئے بھی کہ سامنے والا بندہ کال کاٹ چکا ہے۔۔۔
ایک محبت کیا کیا کروادیتی ہے اس بات کا علم شانزہ کو ابھی ہوا تھا۔ درد سے آنکھیں میچ کر، سر گھٹنوں پر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی!
 ۔۔۔★★۔۔۔
کال کاٹ کر موبائل جیب میں ڈالا۔ اس نے مسکرا کر چہرا اوپر کرکے بادل سے خالی آسمان کو دیکھا اور آنکھیں میچیں۔ ٹھنڈی ہوا چہرے کو چھوتے ہوئے نکل رہی تھی۔
"تم ہی میری خوشی ہو شانزہ۔ بس تم! اور تم!"۔ وہ دھیمی آواز میں بولا۔
"جب تم میرے نکاح میں آجاؤ گی تو مجھے یوں لگے گا جیسے میں ایک تنہا، خوفناک اور خاموش رات سے نکل کر ابھرتے سورج اور صبح کی شفق میں آگیا! ضرورت ہے مجھے تو صرف تمھاری! ضد بھی تم! محبت بھی! عشق بھی تم! جنون بھی تم! بس تم ہی تم!"۔ دل میں ایک خوشی کی لہر پھیلی۔ اس نے گہری سانس لی! جیسے وہ اطراف کی خوشبو اپنے رگ رگ میں بسانا چاہتا ہو۔
"بس کچھ دن اور۔۔۔۔ پھر ہم دونوں یہاں ایک ساتھ کھڑے ہوں گے!" وہ شدت پسندی سے مسکرایا۔ آخر رگوں میں خون بھی تو کس کا تھا۔۔۔ "منہاج شاہ" کا۔۔۔
۔۔۔★★۔۔۔
جیسے تیسے کر کے رات گزاری تھی۔ رمشا اور شانزہ کے علاؤہ کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ عدیل کو اغوا کرنے والا امان ہے اور شانزہ امان شاہ کو جانتی ہے۔ ناصر اور جاوید صاحب پولیس اسٹیشن ہو آئے تھے. جب پولیس کو ویڈیو دیکھائی تو انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے پولیس والے کا رنگ بدلا ہو! انہوں نے ایف آئی آر بھی درج نہیں کی بلکہ بات گول مول کرنے لگے تھے۔ ناصر اور جاوید صاحب وہاں سے بھی ناکام لوٹے تھے۔ صبور تو رورو کر بے ہوش ہوچکی تھیں۔ فاطمہ بےسدھ پڑی تھی۔ شانزہ کے گال بھیگے ہوئے تھے اور وہ گہری سوچوں میں غرق تھی۔ رمشا دل ہی دل میں شانزہ کو گالیاں دے رہی تھی۔
کیا وہ اب بھی مار کھا رہا ہوگا؟ وہ میری وجہ سے؟؟؟ شانزہ ایک بار پھر رودی!
یہ کیا ہورہا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ ایک بندہ جس کے ساتھ صرف دو ملاقات ٹہھرہی تھیں کیا وہ واقعی اس سے محبت کرنے لگا تھا؟ یا وہ صرف اس کی ضد تھی؟ وہ یہ سب سمجھنے سے قاصر تھی۔
وہ اذیت میں ہوگا! شانزہ کو تکلیف ہوئی تھی۔ وہ اٹھی اور اپنے کمرے میں جا کر پھر سے امان کو کال ملائی۔
اس بار پہلی ہی بیل پر اٹھالیا گئی تھی۔
"اسے یوں اذیت نہ دیں امان! پلیز! میں آؤں گی کل ملنے مگر اسے یوں نہ دیں اذیت! خدارا!" وہ رونے لگی! گڑگڑانے لگی۔
"صحیح ہے! اسے صبح گھر چھڑوا دیا جائے گا! مگر ایسا ہوا کہ تم کل کالج ہی نہ آئی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا شانزہ! جان تو گئی ہی ہوگی مجھے؟"
"م۔میں آؤں گی! ضرور آؤں گی! مگر کیا آپ کے آدمی ابھی بھی اسے ماررہے ہیں؟" وہ ہچکیوں کے درمیاں بولی۔
"بلکل! آخر کو شانزہ بی بی میرے کہے پر نہیں اتری تھیں اور رات کے بارہ بجے اس سے تنہائی میں باتیں بگھارنے میں مصروف تھیں! یہ تو ہونا تھا! بلکل ہونا تھا!" اس نے دانت پیسے۔
شانزہ کا رنگ فق ہوا! تو کیا اس نے واقعی معلوم کروایا تھا؟۔
"نہیں۔۔۔ م۔مجھے معاف کردیں مگر یوں نہ کریں۔ پلیز امان! انہیں مت ماریں! رکوادیں۔ وہ سہہ نہیں پائیں گے امان!" وہ رونے لگی۔ امان کو لگا اس کا دل پگھل رہا ہے!
"نہیں! ایسا اب نہیں ہوگا، مگر تم فکر نہ کرو! وہ زندہ ہی گھر پہنچے گا!"۔
"نہیں نہیں ایسا مت کریں! آپ اپنے آدمیوں سے کہیں کہ وہ اور اذیت نہ دیں اسے! خدارا!" اس کے رونے میں تیزی آئی۔ امان کو لگا وہ پگھل رہا ہے۔
"سوچتا ہوں اس بارے میں"
"نہیں پلیز!"
امان نے ایک گہری سانس لی۔
"اچھا!"۔ آخر کو پگھل ہی گیا تھا وہ۔۔۔۔
شانزہ نے سکوں کا سانس لے کر کال رکھی تھی۔ موبائل بستر پر پھینک کر ہاتھوں سے اپنا سر تھاما۔ اب یہ رات بھی کاٹنی تھی۔
 ۔۔۔★★۔۔۔
صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ کوئی دروازہ دھڑ دھڑ سے پیٹ رہا تھا۔ وہ جو کچھ بے سدھ اور کچھ ابھی بھی پریشانی کے عالم میں تھے ان آوازوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ جاوید صاحب بیرونی دروازے کی جانب بھاگے۔ باہر موجود جو کوئی بھی تھے اب خاموش ہوچکے تھے۔ جاوید صاحب نے حواس باختہ ہوکر دروازہ کھولا تھا۔ باہر عدیل کھڑا تھا۔ برابر سے ایک گاڑی دھواں اڑاتے ہوئے نکلی۔ قریب تھا کہ عدیل زمین پر گر جاتا مگر جاوید صاحب نے اسے تھاما۔ اس کی حالت دیکھنے والی تھی۔ پورا جسم پٹیوں میں جکڑا تھا۔ شانزہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ عدیل کو پکڑ کر اندر لے آئے تھے۔ صبور نے اسے گلے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رودیں۔ عدیل کی کیفیت اچھی نہیں تھی۔ وہ نڈھال ہورہا تھا جیسے ابھی زمین بوس ہو جائے گا۔ ناصر صاحب نے مصلحت سے کام لیتے ہوئے اسے بیڈ پر لٹادیا۔ شانزہ بھاگتے ہوئے پانی لائی اور رمشا اس کے سرہانے بیٹھ گئی۔ ماں باپ سے ملنے کے فوراً بعد اس کے دل میں شانزہ کو دیکھنے کی خواہش جاگی مگر رمشا کو برابر بیٹھا دیکھتے ہوئے وہ کچھ نہ بولا۔
"پانی پی لیں عدیل!" وہ اس کے قریب آئی۔ عدیل اس کو دیکھ کر اٹھ بیٹھا تھا۔ ہاتھ آگے بڑھا کر گلاس لیا اور دھیرے دھیرے پانی پی کر گلاس آگے بڑھادیا۔
"کون لوگ تھے وہ؟"۔ ناصر صاحب نے شروعات کی۔
"پتا نہیں چاچو! بس میری آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی اور جب وہ مجھے چھوڑنے آئے تب بھی میری آنکھوں پر پٹی باندھی تھی۔ دروازہ وہ ہی پیٹ رہے تھے اور جب انہیں لگا دروازہ کھولنے آپ لوگ آرہے ہیں تو میری آنکھوں سے پٹی اتار کر وہ رفو چکر ہوگئے!"۔ وہ درد کے مارے کراہتا ہوا بولا۔ شانزہ نے نگاہیں جھکائیں۔
"انہوں نے غلط آدمی کو اٹھالیا تھا شاید اور جب انہیں پتا چلا تو اسے چھوڑ گئے!"۔ ناصر صاحب اب جاوید صاحب سے مخاطب تھے۔ رمشا نے اسے غصہ سے گھورا تھا۔ شانزہ نے تھوک نگلا اور کمرے میں چلی گئی۔
"چلو اسے آرام کرنے دیتے ہیں! باہر آجائیں آپ سب!"۔ ناصر سب کو باہر کے آئے تھے۔ اب وہ سب ڈرائینگ روم میں بیٹھے اسی موضوع پر گفتگو کررہے تھے۔ صبور شکرانہ پڑھنے چلی گئی تھیں اور فاطمہ کا خوشی سے برا حال تھا۔ وہ ہر تھوڑی دیر بعد اس کے کمرے میں جھانک کر دیکھ رہی تھی۔ شانزہ اپںے کمرے میں آئی اور آئینے کے سامنے کھڑی ہوگئی! کاش وہ پہلی ملاقات کبھی ہوئی نہ ہوتی۔ کاش ہم اس دن ماما کو ڈھونڈنے ہی نہ جاتے یا وہ وہاں سے نہیں گزرتا۔ وہ گھٹنوں میں سر دیئے ایک بار پھر رونے لگی ۔ جانے کتنا وقت بیت گیا! احساس تو تب ہوا جب سرہانے رکھا موبائل پر بپ ہوئی۔ اس نے فون اٹھایا تو سامنے انجان نمبر سے میسج موصول ہوا۔ وہ اس نمبر کو دس سال بعد بھی آسانی سے پہچان سکتی تھی۔ آپ کو محبت کرنے والے یاد نہیں رہتے! یاد تو وہ لوگ رہتے ہیں جن سے آپ شدید نفرت کرتے ہوں اور وہ ان میں سے ایک تھا!۔
"میں نے اپنا کام کردیا ہے اب تم کو اپنا وعدہ نبھانا ہے! بھولنا مت ورنہ امان شاہ سب کا لحاظ بھول جائے گا!" اس کا سانسیں اٹکیں۔ اس نے موبائل رکھ کر چھت کی طرف دیکھا۔ آنکھ سے آنسو نکلا اور گریبان بگھو گیا۔ یہ کیسا امتحاں تھا۔ اس نے گھڑی کی جانب دیکھا۔ جیسے جیسے وقت بڑھ رہا تھا ویسے ہی اس کے اندر خوف، خدشہ جنم لے رہا تھا۔ اس کے حواس بے قابو ہورہے تھے۔
تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ گئی اور مرے مرے انداز میں یونیفارم جینج کرکے بال بنانے لگی۔
"تم کہاں جارہی ہو؟" کمرے میں آتی فاطمہ نے حیرت سے دیکھا۔
"کالج!"۔ وہ بظاہر سرسرے انداز میں بولی۔
"مگر۔۔۔ ابھی عدیل آیا ہے اور تم؟"
"تو؟ وہ آگئے ہیں اب تو! اور تم شاید بھول رہی ہو کہ سیکنڈ ائیر کے بورڈ کے امتحان ہونے والے ہیں۔ میری پڑھائی کا حرج نہ ہو اس لئے میں چھٹی نہیں کرسکتی"۔
اس کی بات پر فاطمہ کا حیرت منہ کھلا۔ اس کا انداز اور اس کا ارادہ دونوں ہی مختلف تھے۔ اسے وہ بہت بدلی ہوئی محسوس ہوئی۔
شانزہ نے بیگ تھاما اور باہر نکلنے لگی۔
"کیسے جاؤ گی؟"۔
"ظاہر سی بات ہے بس آئے گی لینے گھر!"۔ سپاٹ لہجے میں کہتی وہ باہر چلی گئی۔ عدیل کو نیچے ہی کمرے میں لٹادیا گیا تھا کیونکہ اس کی حالت ایسی نہیں تھی کہ اسے سیڑھیاں چڑھا کر اوپر لے جایا جائے۔ وہ عدیل کے کمرے سے گزرنے لگی کہ آواز آئی۔
"شانزہ!"۔
"ہمم؟" بے تاثر لہجہ۔
"کہاں جارہی ہو؟"۔ وہ حیران ہوا۔
"کالج کے کپڑوں میں ہوں اس کا مطلب کالج ہی جارہی ہوں نا!"۔ اس کے یوں کہنے پر عدیل کو تھوڑا عجیب لگا۔
"مگر میں ابھی آیا اور میری طبیعت! پھر بھی؟" شانزہ کا دل ڈوبا۔
"عدیل! اب آپ گھر آ تو چکے ہیں نا؟ اور یہ زخم بھی ٹھیک ہو جائیں گے۔ آپ آرام کریں! میں اپنی پڑھائی کا حرج نہیں چاہتی!"۔ عدیل کی آنکھوں میں بےیقینی ہی بےیقینی تھی۔
"مگر میں تمھارا منگیتر ہوں"۔ اس کے ہونٹوں نے جنبش کی۔
"تو؟ منگیتر ہیں تو اپنا نقصان کروا لوں میں؟ اور تو کیا ہوا اگر آپ میرے منگیتر ہیں تو! میں اب بھی وہی کہوں گی جو میں نے پہلے کہا تھا!"۔ سپاٹ لہجے میں کہتے ہوئے وہ اسے ساکت کرگئی۔
"میں جارہی ہوں! اور یہ زخم بھی ٹھیک ہی ہوجائیں گے!"۔ وہ کہہ کر پلٹ گئی۔ عدیل کے دل چھناکے سے کچھ ٹوٹا۔
 ۔۔۔★★۔۔۔
وہ آئینے کے سامنے کھڑا اپنی تیاری کو آخری ٹچ دے رہا تھا۔ بلاشبہ وہ ایک حسین مرد تھا۔ ہینڈسم اور وجہیہ۔ امان اور زمان دونوں بظاہر دیکھنے میں بھی ایک جیسے تھے۔ کشادہ چوڑے سینے! چھ فٹ سے نکلتا قد ، مضبوط بازو، کھڑے نقوش اور مغرور ناک۔ چلنے کا بھی ایک انداز ہو یا بنھویں اٹھا کر کسی کو تکنے کا! دونوں ہی بھائی ایک دوسرے سے مختلف نہ تھا۔ کبھی کبھی تو گارڈز بھی پہچاننے میں دیر لگا دیتے! مگر زمان فطرتاً شوخ تھا اس لئے اسے پہچاننے میں گارڈز کو اتنا مشکل کا سامنا نہ ہوتا۔ اس کو پہچاننے میں زیادہ سے زیادہ کچھ سیکنڈز ہی لگتے تھے۔ دونوں کی ہی پروقار شخصیت تھی مگر امان اپنے سپاٹ تاثرات سے رعب دار اور سخت مزاج کا لگتا تھا اور زمان اپنے شوخیوں سے زندگی سے خوش بندہ لگتا تھا جس کے لئے اپنی زندگی بھی ایک کھیل تھی اور وہ اسے مزے سے کھیل رہا تھا۔ امان نے ایک نظر اپنی تیاری پر ڈالی اور پرفیوم چھڑکتا کمرے کو مہکا گیا۔ آئینے میں خود کو دیکھ کر وہ مسکرایا ۔ دماغ میں خیال تھا تو صرف "شانزہ" کا!۔ ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ کالج کی چھٹی ایک بجے ہوتی ہے تو یعنی شانزہ بھی ایک بجے ہی ملے گی۔
"اپنی محبت کا سحر چلایا ہے تم نے شانزہ! اب تو ہونا ہی پڑے گا میرا!"۔ وہ زیر لب مسکراتا گاڑی کی چابی اٹھاتا نکل گیا۔
۔۔۔★★۔۔۔
"کیا ہوا شانزہ؟ طبیعت خراب ہورہی ہے کیا؟"۔ سبین نے اس کی جانب حیرت سے دیکھا۔
"نہیں بس یونہی! چھٹی میں کتنا وقت ہے سبین؟" ایک بار پھر خوف نے اسے آگھیرا تھا۔
"اب تو دس، پندرہ منٹ بچے ہیں!"۔ سبین کہہ کر اپنا سامان سمیٹنے لگی "سر کا لیکچر تقریبآ ختم ہوگیا ہے شانزہ اپنا سامان سمیٹ لو"۔
شانزہ نے اپنا سامان سمیٹ کر بیگ رکھا۔ تھوڑی دیر بعد چھٹی ہوئی تو وہ کالج کے گیٹ کے باہر کھڑی ہو گئی۔ سب لڑکیاں گھر کو جارہی تھیں اور جو بس میں جاتی تھیں وہ دھیرے دھیرے بس میں بیٹھ رہی تھیں۔
"میرا بھائی پتا نہیں کب لینے آئے گا یار! تم کیوں کھڑی ہو شانزہ؟ تم تو بس میں جاتی ہو۔ جاؤ بیٹھ جاؤ نا بس میں!"۔ سبین سرسری انداز میں بولی۔
"کسی کا انتظار کررہی ہوں!"۔ اس نے کہہ کر نگاہیں پھر سڑکوں پر دوڑائی۔ کچھ دور کالی گاڑی سے امان شاہ نکلا تھا۔ شانزہ کا دل دھڑکا۔ امان نے اسے دیکھ لیا تھا اور اب وہ گاڑی سے ٹیک لگائے شانزہ کے آنے کے انتظار میں تھا۔ سبین نے شانزہ کی نظروں کا تعاقب کیا۔
"وہ لڑکا کتنا ہینڈسم ہے نا شانزہ؟۔" سبین اشتیاق سے بولی۔
"ہاں! دوسروں کی خوشیوں کو ختم کردیتا یے بس" شانزہ نے سوچا۔ اس کے حلق میں گویا آنسؤوں کا گولا پنھس گیا ہو۔
"کیا ہوا کچھ بولو؟ میں جاکر بات کرتی ہوں اس سے!"۔ شانزہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ ابھی وہ کچھ بولنے لگی تھی کہ سبین اس کی بات سنے بغیر امان کی سمت جانے لگی۔ قددرے دور کھڑے امان کو اپنی طرف بڑھتی اس لڑکی پر حیرت ہوئی مگر ظاہر نہ کیا۔
"ہیلو!"۔
امان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور کچھ کہے بغیر نظریں پھر موبائل پر مرکوز کرلیں۔
"اتنی اکڑ کیوں ہے تمہارے اندر؟"۔ سبین نے بنھویں اچکا کر پوچھا۔ امان کی رگیں تن گئیں لیکن وہ خاموش رہا۔
"اتنی اکڑ؟ اففف! دیکھو نہ تو میں تمھارے پیچھے مررہی ہوں کیونکہ تم جیسے ہزاروں مجھ سے بات کرنے کے لئے بھی تڑپتے ہیں!"۔ سبین کی بات مکمل ہوتے ہیں امان نے جیب سے پستول نکال کر اس کے پیٹ پر رکھی تھی۔ سبین کی سانسیں رک گئیں۔ دور کھڑی شانزہ ساکت ہوئی۔
"اب جاؤ واپس اور اپنی دوست سے کہو مجھ سے ملے ورنہ میں وہی آاجاؤں گا!"۔ یہ کہہ کر اس نے پستول ہٹائی۔ سبین کے تو طوطے اڑ گئے تھے۔ وہ مرے مرے قدموں سے چلتے ہوئے شانزہ کے پاس آئی۔
"وہ تمھیں بلا رہا ہے!"۔
"تم ٹھیک ہو؟" شانزہ نے فکرمندی سے کہا۔
"ہاں! اس کے پاس پستول۔۔۔؟" وہ کہہ کر اٹکی۔
"ہاں اور اسی سے ہی وہ سب کو موت کی گھاٹ اتارتا ہے!"۔ اس نے بیگ ٹھیک کیا اور آہستہ قدموں سے امان کی سمت جانے لگی۔ سبین کا بھائی اسے لینے آگیا تھا تو وہ چلی گئی تھی۔ امان مسکرایا۔ وہ اسے بغور دیکھنے لگا
" تو کیسی ہو؟"۔ اس نے انگلیوں کے پوروں سے اس کے گالوں کو چھوا۔ شانزہ کو کرنٹ سا لگا۔
"ٹ۔ٹھیک ہوں!" اس نے نظریں جھکائیں۔ وہ جس طرف کھڑے تھے اس طرف کوئی بھی موجود نہ تھا۔
"جب تم میری ہوجاؤ گی تو تمھیں پھر کسی اور کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی!"۔ شانزہ کا دل کیا پھوٹ پھوٹ کر رودے۔
"م۔میں م۔مگر۔۔" وہ ہچکچائی۔ آنکھ سے آنسو نکلا اور چہرہ بگھو گیا۔ امان نے بنھویں اچکائیں۔
"کیا مگر؟" لہجہ سخت
"مگر۔۔۔۔۔ میں پسند کرتی ہوں کسی کو!"۔ وہ روتے ہوئے سر جھکا گئی ۔ امان نے اس کا بازو پکڑا اور خود سے قریب کیا۔
"عدیل کو؟ ٹھیک ہے ہم اس کو ماردیتے ہیں!" شانزہ چیخی۔
"نہیں نہیں! پلیز امان! نہیں کرتی میں اسے پسند!" وہ روتے ہوئے بولی۔
"جلا دوں گا زندہ اسے!" وہ تلخی سے کہتا مسکرایا۔
"نن۔نہیں! ایسا کچھ نہیں ہے امان! میں آپ کی ہوں صرف آپ کی!"۔ اس کے ایسا کہنے پر امان شدت پسندی سے مسکرایا۔
"بلکل! آپ بنی ہی امان شاہ کے لئے ہیں! اور امان اپنی واحد محبت کو بہت جلد پانے والا ہے! آئندہ منہ سے عدیل کا نام نکلا یا عدیل کے بارے میں کوئی بات کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا!" وہ انگلی اٹھا کر اسے باور کروا گیا۔
"ایسا اب نہیں ہوگا"۔ اسے امان سے بےحد خوف محسوس ہورہا تھا۔
"کس کی ہو تم؟ " اس نے اسے خود سے قریب کیا۔ شانزہ نے خوف سے آنکھیں میچیں۔
"میں نے کہا شانزہ ناصر کس کی ہے!"۔ اس نے دانت پیسے۔
"صرف امان کی" اس نے خوف سے میچی آنکھوں سے ہی جواب دیا اور امان کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔
"بلکل!"
"مم۔میں جاؤں؟ میری بس چلی جائے گی ورنہ!" وہ روتے ہوئے بولی۔
"جا سکتی ہیں آپ! مگر اگلی بار جب بھی بلاؤں گا تم کو آنا ہوگا ورنہ میں آجاؤں گا! ٹھیک ہے؟"۔
شانزہ نے خوف سے اثبات میں سر ہلایا اور بھاگتی ہوئی چلی گئی۔
"میں نے کہا تھا نا اتنا بھی مشکل نہیں ہوتا!" امان نے مسرت بھرے میں کہا۔
۔۔۔★★۔۔۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now