قسط ۷

3.5K 173 34
                                    

"او مسٹر نھنے! کم از کم اپنے بھائی سے ہی سیکھ لو۔ تمیز سے بلکل خاموشی سے کھڑے ہیں۔ ہاں وہ بات الگ ہے میری کزن کو دیکھے جارہے رہے ہیں مگر ایک دفعہ بھی انہوں نے ٹانگ نہیں اڑائی تمھاری طرح اور لگتا زبان بھی تمھاری طرح لمبی نہیں ان کی!"۔ فاطمہ ماتھے پر بل ڈال کر بولی۔ اس بات پر جہاں امان گڑبڑایا وہاں شانزہ نے لب بھینچے۔ زمان نے مسکرا کر امان کو دیکھا اور پھر فاطمہ کو۔
وہ زور سے ہنسا۔ قریب تھا کہ ہنس ہنس کر زمین پر لوٹ پوٹ ہوجاتا۔
"ہاہاہا یہ بس بولتا ہی تو نہیں! یہ کہتا نہیں مگر کر بہت کچھ دیتا ہے۔ اگر زندگی میں اگلی ملاقات ہوئی تو پتا چل ہی جائے گا"۔ زمان کے یوں کہنے پر فاطمہ اور شانزہ نے حیرت سے امان کی جانب دیکھا جبکہ امان نے اس کے بازو پر چٹکی دی جس پر وہ بلبلا اٹھا۔
"نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ میں بس ایسی ہی انہیں دیکھ رہا تھا اور یہ بس بولتا رہتا ہے۔ بچپن میں نرس کے ہاتھوں سے گرگیا تھا بیچارہ۔ سائیڈ افیکٹس تو ہونے ہی تھے۔ خیر اس کی باتوں پر مت جائیں۔ یہ دل کا اچھا ہے!"۔ عجب عالم تھا کہ امان بات فاطمہ سے کررہا تھا اور دیکھ شانزہ کو رہا تھا۔ زمان کو اٹیک آگیا۔ اس نے دل پر ہاتھ رکھ کر بے یقینی سے امان کو دیکھا۔
"ڈرامہ"۔ امان اسے دیکھ کر زیر لب بڑبڑایا۔
فاطمہ زور سے ہنسی۔ زمان نے ایک نظر فاطمہ پر ڈالی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی وہ اسے کچا چبا جائے گا۔
"اچھی رہی دوسری ملاقات بھی"۔ شانزہ نے کہہ کر آگ بگولا ہوتے ان دونوں کو دیکھا۔ جس میں ایک اس کی کزن تھی جو اب غصہ میں اب شانزہ کو گھور رہی تھی اور وہ ایک ڈرامہ سا لڑکا جو اب فاطمہ کر گھور رہا تھا۔ دھیمی سی مسکراہٹ امان کے لبوں پر عیاں ہوئی۔ اس نے شانزہ کو دیکھا جو فاطمہ کو دیکھ کر اب ہنس رہی تھی۔ دل میں گھنٹی بجی۔ یہ وہی لڑکی تھی جو دو دن سے اس کی حواسوں پر چھائی ہوئی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ اپنا دل ہار چکا تھا مگر وہ بس اسے ایک دم اچھی لگی تھی اور اب کی بار وہ بار بار ملاقات چاہتا تھا۔
"لگتا ہے شانزہ اب یہ محترمہ آپ کو کھا جائے گی!"۔ وہ ہنس کر شانزہ سے بولا۔ شانزہ نے حیرت سے امان کو۔
"آپ کو کیسے پتا میرا نام؟"۔ امان گڑبڑایا۔ زمان نے اسے بڑے پیار سے گھورا۔
"دو جواب اب۔" زمان کے میٹھے طنز۔
امان نے زمان کو دیکھا۔
"و۔وہ آپ نے بتایا تھا پہلی ملاقات پر! یاد نہیں؟"۔ وہ زبردستی مسکرایا۔ آج نہ جانے کیوں؟ شاید زندگی میں پہلی دفعہ امان ایک لڑکی کے سامنے گھبرایا تھا۔ وہ جو خود سے سب کو ڈراتا آیا تھا، ایک لمحے کو وہ خود بھی سہم گیا۔ زمان اس کی اس حرکت پر جی جان سے مسکرایا۔
"میں نے کب بتایا تھا؟"۔ وہ چونکی۔
"بھول گئیں؟ آپ نے کہا تھا میں شانزہ ہوں میری ماما کھوگئیں؟"۔ اس بار بھائی کے دفاع میں زمان بولا۔
شانزہ نے اثبات میں سرہلایا۔
"ہاں وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن کیا میں نے واقعی ایسا ہی بولا تھا کہ میں شانزہ ہوں اور۔۔" اس نے خود بات ادھوری چھوڑی۔
"جی جی آپ بھول گئیں ہیں شاید!"۔ زمان نے یہ جواب بھی خود دیا۔ امان نے زمان کو دیکھا۔ وہ اس کا دفاع کررہا تھا۔
"چلے چھوڑیں اس موضوع کو! ہم ویسے ہی اتنا لیٹ ہوگئے ہیں۔ شانزہ جلدی چلو ورنہ تمھارے منگیتر نے غصہ کرنا ہے ہم پر کہ واپسی میں اکیلے کیوں آئے؟" فاطمہ نے ماتھے پر بل ڈال کر شانزہ سے کہا۔ امان جو مسکراتے ہوئے شانزہ کو دیکھ کر رہا تھا، لبوں سے مسکراہٹ سمٹی اور اس کے ماتھے پر بل پڑے!
"منگیتر؟"۔ امان کو جھٹکا لگا۔وہ آس پاس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بول اٹھا۔ زمان نے پلٹ کر اسے دیکھا۔
"جی اس کا منگیتر! جسے یہ جان بوجھ کر کبھی کبھی بھائی بھی بول دیتی ہے، مگر ان کے سامنے بولنے کی ہمت نہیں ہوتی"۔ وہ مسکرائی اور امان کا چہرہ سخت ہوا۔ قریب تھا کہ وہ کچھ کہتا کہ زمان بول اٹھا۔
"چلیں پھر اپنی اپنی راہ لیتے ہیں!"۔ وہ جانتا تھا کچھ لمحے اور رکنے سے کیا قیامت برپا ہوسکتی ہے۔ اس نے امان کو لے کر پلٹنا چاہا۔ اور یہ وہ وقت تھا جب امان کے دماغ میں سب گڈ مڈ ہورہا تھا۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے؟ کیا بولے؟ قریب تھا کہ وہ شانزہ کی طرف قدم اٹھاتا زمان نے اس کا کندھا گاڑی کی طرف موڑ کر اس کے ساتھ گاڑی کی جانب آیا۔ اسے دوسری سیٹ پر بٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا۔ وہ دونوں اس کے اس رویہ پر حیران تھیں۔ وہ چلتی ہوئیں سڑک کے کونے میں آکھڑی ہوئی۔ امان نے آنکھیں میچ لیں۔ کوئی تو چیز تھی جس کو اس نے اپنے اندر بمشکل قابو کیا ہوا تھا۔ سانسیں تھیں کہ پھولی جارہی تھی۔ گاڑی ان دونوں کے برابر سے ہوتے ہوئے نکلی۔ زمان نے بےاختیار امان کو دیکھا تھا۔ وہ سخت لہجہ اختیار کئے آگے دیکھ رہا تھا۔
"کیا ہوا؟"۔ زمان کے پوچھنے پر امان نے کوئی جواب نہ دیا۔
"ایزی رہو! اور کیا ہوا تھا اچانک سے؟ بھلا ایسا بھی کوئی کرتا ہے؟ اس کا منگیتر ہے۔ اچھا ہوا پہلے پتا چل گیا! شکر ہے تم سیریس نہیں ہوئے اس کے لئے"۔ زمان اس کی دل کی حالت سمجھتا تھا مگر کہیں نہ کہیں اسے ٹھنڈا بھی تو کرنا تھا۔
"میں جانتا ہوں مجھے کیا کرنا ہے"۔ امان کا سختی سے کہا ہوا یہ جملہ زمان کی جان لے گیا۔ اس نے گاڑی کو بریک لگائے۔
"کیا چل رہا ہے امان تمھارے دماغ میں؟ ایسا ویسا کچھ نہیں کروگے تم امان! ایک بات یاد رکھنا! یہ کم از کم تم میری ہوتے ہوئے نہیں کرسکتے"۔
امان کو اس کے بھائی سے بڑھ کر اور کوئی نہیں جان سکتا تھا۔ اس نے ایک تیز نگاہ اس پر ڈالی تھی۔
"گاڑی چلاؤ زمان! فوراً اور تم جانتے ہو میں باتیں نہیں دہرایا کرتا۔ موت کو دعوت مت دو خدارا! مجھے خود پر کنٹرول نہیں ہے اس وقت! مجھے ڈر ہے میں تمھارے ساتھ کچھ ایسا نہ کردوں جس کا پچھتاوا مجھے عمر بھر رہے"۔ وہ مٹھی بھینچ کر گویا خود کو قابو کررہا تھا۔
زمان نے آنکھیں بڑی کرکے اس کو دیکھا۔
"تم اس کے علاؤہ کچھ اور کر بھی نہیں سکتے۔ سوائے دوسروں کو اذیت دینے کے۔ اپنے سکون کے لئے دوسروں کا سکون برباد کرتے ہو اور چاہتے ہو تمام عمر بغیر کسی پچھتاوے کے گزارو؟" زمان نے گاڑی چلائی۔ " لیکن تم ایسا نہیں سوچنا۔ کبھی زندگی میں نہیں! میں کم از کم تاریخ نہیں دہراؤں گا اور نہ تمھیں دہرانے دوں گا۔ یہ اذیت صرف مجھ تک اور تمھارے لوگوں تک رہے امان شاہ!" وہ تلخ لہجے میں کہتا ہوا گاڑی تیزی سے چلا رہا تھا۔
"گاڑی روکو؛" وہ چیخا۔
زمان نے جھٹکے سے اسے دیکھا۔
"میں گاڑی نہیں روکوں گا!" زمان نے دھیمی مگر ڈھیٹ بنتے ہوئے کہا۔
"نہیں روکو گے؟"۔ اماں نے بنھویں اچکائیں۔
"نہیں!"۔ وہ اٹل لہجے میں بولا۔
امان نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اب جو وہ کرنے والا تھا زمان نے بےاختیار گاڑی روکی۔
"پاگل ہو تم؟"۔ وہ چیخ پڑا۔
امان گاڑی سے اترا اور دوسری جانب گھوم کر آیا۔ ایک ہاتھ سے گریبان پکڑ کر اسے گاڑی سے نکال باہر کیا اور اس کے قریب آیا۔
"مجھ پر آئیندہ مت چلانا!"۔ گاڑی سنسان جگہ تھی۔
"میں تمھیں کچھ نہیں کرنے دوں گا امان!"۔ وہ انگلی اٹھا کر بولا۔
"میرے کام کے بیچ میں جو آیا میں اسے ماردوں گا!"۔ امان نے دھیمے مگر سخت لہجے میں بولا۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now