قسط ۱۱

3.1K 171 24
                                    

"سب ٹھیک ہے تم کیوں پریشان ہورہی ہو؟"۔ شانزہ نے اپنے تاثرات نارمل کرکے پوچھا۔
"پتا نہیں مگر مجھے تمھارا لہجہ اجنبی لگ رہا ہے! کیا تم مجھے بتاؤ گی کہ کیا ہوا ہے؟"۔ فاطمہ نماز پڑھ کر اس کے پاس بیڈ پر آبیٹھی۔
"کچھ نہیں بس یونہی!"۔ انداز سرسری تھا۔
فاطمہ نے اسے ترچھی نگاہوں سے دیکھا۔
"عدیل بھائی سے مل لیتی۔ وہ انتظار کررہے تھے تمھارا"۔ فاطمہ نے اپنے ہاتھ میں پہنی چوڑیوں کو انگلیوں سے چھوا۔
"انتظار کیوں؟ اور ابھی میں تھکی ہوئی کالج سے آئی ہوں! تھوڑی دیر آرام کروں گی!"۔
فاطمہ نے آنکھیں پھاڑیں۔
"کیا مطلب کیوں انتظار کررہے تھے؟ تم بس مل آؤ! وہ کھانا بھی نہیں کھارہے ہیں۔ کیا پتا تمھاری موجودگی میں کھالیں!"۔
"میں بہت تھکی ہوئی ہوں فاطمہ! اور مجھ میں بلکل ہمت نہیں کہ ان سے مل کر آؤں یا انہیں کھانا کھانے پر راضی کروں! تو خدارا مجھے فورس نہ کرو! " لہجے میں سختی تھی۔ فاطمہ ششدر رہ گئی۔

"تمھیں اچانک سے ہوا کیا ہے؟ ایک دم بدل گئی ہو؟ مجھے تو ایسا لگ رہا ہے میں شانزہ سے نہیں کسی اجنبی سے مخاطب ہوں!"۔ فاطمہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ خفا خفا سی نظروں سے دیکھ کر وہ مڑ کر چلی گئی۔ شانزہ نے ایک لمبی سانس لی اور بیڈ پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھی۔ لب بھینچ کر اس نے تھکے تھکے انداز سے اپنے ہاتھوں پر نظر دوڑائی۔
"

کرو گے جس سے محبت تم!
زمانہ اسی سے جدا کردے گا"
دل ڈوب رہا ہے، امیدیں ماند پڑ رہی ہیں، محبت مررہی ہے، اور نفرت ابھررہی ہے! جب محسوس ہوجائے کہ سارے دروازے بند ہوگئے ہیں تب ہی ساری امیدیں ماند پڑنے لگتی ہیں! راستے ختم ہوگئے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ اتنا لاچار آپ کبھی نہ تھے جتنے اب ہوگئے۔ مجبوریاں انسان کو اندر سے ختم کردیتی ہیں۔
"شانزہ عدیل"۔ اس نے زیر لب اپنا نام عدیل کے ساتھ جوڑا۔ چہرے پر ہلکا تبسم پھیلا۔ ایک احساس سے اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی مگر جلد ہی ماند پڑگئی۔
"شانزہ امان"۔ وہ زیر لب بڑبڑائی مگر پھر جلد ہی نفی میں سر ہلانے لگی۔
"نہیں! صرف شانزہ عدیل"۔ اس نے سختی سے بستر کی چادر کو پکڑا۔
"م۔مگر۔۔۔۔۔" یہ کہتے ساتھ اس نے سر گھٹنوں پر رکھ کر ہچکیوں سے رونا شروع کردیا!
زندگی میں سکوں نام کی کوئی چیز نہیں تھی! دکھ، درد پھر دکھ پھر درد! کیا کبھی بھی اسے محبت نہیں ملے گی؟ باپ سے اب امید ختم تھی مگر۔۔۔۔۔۔ وہ آگے سوچ بھی نہ پائی۔
۔۔۔★★۔۔۔
مغرب کا وقت ہونے لگا تھا۔ وہ آگے بڑھا اور کپکپاتے ہاتھوں سے میز کی لاک شدہ دراز کھولنے لگا۔ اندر موجود چابیوں کا گھچا نکالا تھا۔ ہاتھ مستقل کانپ رہا تھا۔ سرخ بوتی آنکھوں کے ساتھ اس نے چابیوں کو غور سے دیکھا۔ آنکھوں سے بےاختیار آنسو نکلے تھے۔ آنسوؤں میں تیزی اتنی کہ اسے اپنی آنکھیں میچنی پڑیں۔ دل میں درد کی تیز لہر دوڑی۔ اس نے دل پر ہاتھ رکھا۔ یادیں! اور بس یادیں! ایک ہاتھ سے آنکھیں رگڑتا وہ اوپری منزل پر چلا آیا۔ وہ پورشن خالی تھا۔ یہیں سے تو سب کہانی شروع ہوئی تھی۔ محبت کا زور بھی یہیں ٹوٹا تھا۔ جگہ جگہ جالے لٹکے تھے۔ دو لوگ ایک ہی کمرے میں ختم ہوئے تھے۔ وہ چاروں طرف دیکھتا ہوا دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا۔ سامنے ایک کمرہ تھا جو لاک تھا۔ اس نے جابیوں پر نظر ڈالی۔ تھوڑا آگے بڑھا تو ایک اور کمرہ آیا! اس نے کانپتے ہاتھوں سے چابی سے دروازہ کھولا۔ ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا۔ مٹی سے لپٹا وہ کمرہ بھی اس کے ماضی میں شامل تھا۔ اس نے اندر نظر دوڑائی۔ ایک بڑی سی آفس ٹیبل رکھی تھی جس پر صدیوں کی دھول جمی تھی۔ منہاج شاہ نے اس کمرے کو اپنا آفس روم بنایا ہوا تھا۔ اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ منہاج کی کچھ ڈائریاں رکھی تھیں۔ اس نے تمام ڈائریاں کھول کر دیکھیں۔ کچھ آفس کی بھی تھیں۔ ایک موٹی ڈائری کھولی جو شاید وہ اس کی اپنی تھی۔ اس نے میز کی درازیں کنگھالیں۔ ہاتھ مستقل کانپ رہے تھے، اور آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے. جو بھی تھا! مگر منہاج باپ تھا! وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا! "کیا کردیا بابا آپ نے! ہم سب کو جدا کردیا ایک دوسرے سے! خود سے بھی دور کردیا!" اس نے باپ کی ڈائری اٹھائی اور وہاں سے باہر نکل کر منہاج اور ماہ نور کا کمرہ کھولنے لگا۔ اس کا ضبط بکھرنے لگا۔ بستر کی چادر خراب تھی۔ آخر لمحات میں منہاج یہاں اکیلے رہتا تھا۔ دیوار پر خون کے دھبے تھے۔ اس کی موت کے وقت وہ دونوں محض چودہ سال کے تھے! اور آج پورے دس سال بعد بھی وہ خون کے دھبے وہیں تھے! خون! منہاج شاہ کا خون! جب اس نے پستول کی گولی اپنی کنپٹی پر ماری تھی۔ وہ خون کے چھینٹے آس پاس ہر جگہ تھے۔ دیواروں پر، کھڑکی کے سفید پردوں پر! کچھ تصویریں تھیں جو زمین بوس تھیں اب تک! اس کے مرنے کے بعد امان نے بغیر کوئی تبدیلی کروائے یہ کمرہ بند کروادیا تھا! ہمیشہ کے لئے۔ بس دھول مٹی نے کمرے کر آلیا تھا۔ وہ چلتے ہوئے کھڑکی کی جانب آیا۔ پردے کو ہلکا سا ہٹا کر باہر جھانکنے لگا۔ کھڑکی سے اسے گھر کا گیراج نظر آرہا تھا۔ دماغ میں جھماکا ہوا۔
"نن۔نہیں مینو! پلیز!"۔ ماہ نور کھڑکی سے بلکل اسی طرح پردہ ہٹا کر نیچے دیکھ رہی تھی۔
"مینو! میں کہیں نہیں گئی!"
"میں چھپ رہی ہوں! "
"بابا کو مت بتانا ماما کہاں ہیں!"
"ماما آپ پردے کے پیچھے چھپ جائیں! امان اور میں جب بھی یہ گیم کھیلتے ہیں تو میں بھی یہیں چھپتا ہوں! سچی!"۔ وہ بچہ تھا! یہی بول سکتا تھا۔
ماہ نور مسکرائی تھی! زمان کو ماہ نور کی وہ مسکراہٹ یاد آئی! اور آج اسے سمجھ آیا کہ وہ اس لئے نہیں مسکرائی تھی کیونکہ اسے زمان کی تجویز پسند آئی! بلکہ اس لئے مسکرائی تھی جیسے کہہ رہی ہو "یہ کھیل دل سے نہیں کھیلا جاتا! درد سے کھیلا جاتا ہے"
زمان کے آنسوؤں میں روانی آگئی۔
"ماما!"۔ وہ ہمیشہ اسکول سے یونہی چہکتا ہوا آتا تھا۔
"زمان دادا آگئے"۔ وہ ہنستی! زخم سے چور ہی کیوں نہ ہو مگر بچوں کے نھنے سے دلوں میں وہ باپ کے لئے نفرت نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔
"ماما آئم ناٹ دادا! آئم اونلی زمان!"۔ وہ منہ بنا کر اسے دیکھتا تھا۔ ماہ نور کا قہقہہ کمرے میں گونجتا۔
"اچھا میری پرنسز ادھر آؤ!"۔ وہ اسے یونہی چھیڑتی اور زمان جواباً اسے گھورتا۔
"میں اب جارہا ہوں بابا کے پاس!"۔ وہ مڑتا ہوا باپ کے آفس روم میں جانے لگا۔
"اچھا سوری نا! ادھر آؤ!"۔ وہ ہنستے ہوئے کان پکڑ لیتی!
"ماما آپ سیریس نہیں ہیں! آپ مذاق میں معافی مانگ رہی ہیں! بابا اچھے ہیں آپ سے۔ میں اب ماما سے نہیں ملوں گا! بابا از انف فار می!"۔ وہ زبان چڑاتا ہوا مڑجاتا۔ اسی دم جب امان کمرے میں آتا تو زمان اسے دیکھ کر رک جاتا اور پھر پلٹ کر ماہ نور کو دیکھتا، مگر وہ ہمیشہ کی طرح اسے اب بھی چھیڑنے لگی تھی۔
"آجاؤ امان! ماما کے پرنس! ماما کے پاس آؤ"۔ اور امان بھاگتے ہوئے اس کے گلے لگ جاتا!
"اچھا میں پرنسز اور یہ پرنس؟"۔ وہ غصے میں رونے لگ جاتا۔
"میں بابا کو بتاؤں گا!"۔ وہ روتے ہوئے باپ کے پاس چلے جاتا۔
"بابا!"۔ وہ ڈرامہ باز تو ہمیشہ سے تھا اس لئے ایک کی چار نہیں بلکہ دس کی پندرہ کرکے بتاتا۔
"ماما مجھ سے پیار نہیں کرتیں! وہ امان سے کرتی ہیں۔ انہوں نے مجھے صبح لنچ کے لئے فرائز کم دیئے تھے اور امان کو زیادہ!"۔ وہ روتے ہوئے اپنا چہرہ باپ کے سینے میں چھپا لیتا! ۸ سال کا بچہ تھا مگر باتیں وہ پوری پوری کیا کرتا تھا۔
"ہائے! ماہی نے یہ کیا کیا! خیر آپ کو کیسے پتا چلا کہ آپ کو فرائز کم ملے اور امان کو زیادہ؟"۔ منہاج مسکرا کر اسے پیار کرتا تھا اور وہ باپ کو متوجہ پاکر اور زیادہ رونے لگتا۔
"میں نے گنے تھے ہم دونوں کے فرائز! میرا ایک کم تھا اور امان کا ایک زیادہ!"۔ وہ روتے ہوئے دکھڑے سناتا اور ایسی ایکٹنگ کرتا کہ اسے اس بات سے صدمہ پہنچا ہے۔
"یہ تو بہت غلط بات ہوگئی!"۔
"ہے نا بابا؟ اب میرے پیٹ میں بھی چکر آرہے ہیں! اب مجھے آپ کی گود میں سونا ہے۔ آپ کرتے رہیں لیپ ٹاپ پر کام میں آپ کی گود میں سوتا رہوں گا!"۔
منہاج قہقہہ لگاتا۔
"تمھیں پیٹ میں چکر آرہے ہیں؟"۔ بظاہر حیرانی سے بولتا۔
"ہاں بابا! گھٹنوں میں سردرد ہورہا ہے مجھے! مجھے اب سونا ہے"۔ وہ یونہی اس کے سینے پر لیٹ جاتا تھا اور آنکھیں بند کرلیتا۔
"میرا بچہ!"۔ منہاج زمان کے ماتھے کو چومتا۔ زمان کو سترہ سال پرانا لمس محسوس ہوا! وہ دیوار سے لگ کر زمین پر بیٹھ گیا۔ بے سدھ سا۔
"بابا" اس کے ہونٹ کانپے۔ اس کی چیخیں نکلنے لگیں۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے منہ پر ہاتھ رکھا اور زور سے چیخنے لگا تاکہ آواز باہر نہ جاسکے۔ وہ شخص جو اپنے بچوں کی ایک ایک آواز پر "جی" بولا کرتا تھا آج اتنی سسکیوں کے بعد بھی قریب نہ آیا۔
"میں نے چیز کھانی ہے!"۔ وہ ابھی آفس سے آیا تھا! ابھی گاڑی سے اترا نہ تھا کہ زمان غصہ سے بولا تھا۔
"آپ غصہ میں ہیں؟"۔ وہ حیرانی سے پوچھتا۔
"نہیں! بس مجھے چیز کھانی ہے!"۔
"ہاں ٹھیک ہے میری جان ابھی ماما سے مل لوں اور امان کہاں ہے؟ پھر چلتے ہیں تینوں!"۔ وہ مسکراتا۔
"آپ میری بات نہیں مانیں گے؟ کوئی پیار نہیں کرتا مجھ سے!"۔ وہ روتا ہوا مڑنے لگا۔
"ارے ارے! کیا ہوگیا میری جان کو!"۔ وہ زمان کی طرف لپکا اور اس کے ماتھے اور گالوں پر بوسہ دیا۔
"کچھ نہیں ہوا بس آپ کی یہ چھوٹی چھوٹی داڑھی مونچھیں میرے چہرے پر خارش کررہے ہیں!"۔ وہ گال کجھاتے ہوئے منہ بنا کر بولا۔
"ہاہاہاہا! آؤ چلیں اور امان کو بھی بلالو!"۔ اس کے بالوں کو بکھیرتا وہ پھر سے گاڑی کی جانب بڑھنے لگا۔ ماضی کو سوچتے ہوئے دھیرے سے مسکرایا۔ آنکھیں رونے لگیں تھیں۔ درد دل میں بےاختیار بڑھنے لگا۔ اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔
"درد ہی کم ہوجاتا اگر کچھ پل اور ساتھ رہ لیتے"
اس نے باپ کی ڈائری اٹھا کر سینے سے لگالی۔
اسی ڈائری کے ہر ورق پر ان کے ہاتھوں کے لمس محفوظ ہوں گے۔ وہ ڈائری ابھی نہیں پڑھنا چاہتا تھا۔ صرف پرانی یادوں کو سوچنا چاہتا تھا۔
سامنے بیڈ کے نیچے ایک ٹوٹی ہوئی تصویر تھی۔ وہ گھسیٹتا ہوا خود کو لایا اور زمین پر بیٹھ کر بیڈ سے ٹیک لگالیا۔ تصویر کی ٹوٹی ہوئی کانچ بکھری پڑی تھی اس نے کانپتے ہاتھوں سے تصویر اٹھائی۔ اس پر خون لگا تھا۔ وہ ماہ نور کی تصویر تھی۔ لال ڈوپٹہ پہنی سائیڈ سے جھانکتی ہوئی وہ تصویر منہاج نے اس کی زندگی میں ہی فریم کروائی تھی۔ وہ ہر جگہ صرف ماہ نور کو دیکھنا چاہتا تھا۔اس نے اپنے آفس کی ٹیبل پر اس کی تصویر لگائی تھی کہ نظریں بھٹکیں تو بھٹک اس کی تصویر پر جا اٹکیں۔ آفس جاتا تو دن میں دس کالز لازمی کرتا۔
"ماما آپ کس سے بات کررہی ہیں!"
"بیٹا آپ کے بابا سے بات کررہی ہوں" وہ کہتی اور پھر کان سے فون لگالیتی۔ وہ ایک، آدھ گھنٹے بعد پھر پوچھتا۔
"ماما اب کس سے بعد کررہی ہیں؟"۔
"ماما آپ کے بابا سے بعد کررہی ہیں!"
"ابھی تو کی تھی!" وہ حیرت سے پوچھتا ۔ دوسری طرف منہاج جب اس کی آواز سنتا تو ہنستا۔
"اچھا ٹھیک ہے اب نہیں کروں گی! بس آخری دفعہ!"۔ وہ اس سے کہہ کر پھر منہاج کو مخاطب کرتی۔
"بچے بلا رہے ہیں منہاج! بعد میں کرلیں گے بات!"۔
"ٹھیک ہے!" وہ کال رکھنے لگتا کہ ماہ نور کے دل خدشہ پھیلتا۔
"آ۔آپ ناراض تو نہیں ہے نا؟"۔ کیونکہ وہ جانتی تھی پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے۔
"نہیں ہوں میں!"۔ وہ مسکراتا اور ایک سکون کی لہر ماہ نور کے دل میں پھیلتی۔
"ماما چیز کھانی ہے!"۔ امان ماں کے گلے لگتے ہوئے بولا تھا۔
"بابا آ کر لے جائیں گے! آپ کو پتا ہے نا بابا منع کرتے ہیں ماما کو باہر جانے سے!"۔ وہ امان کا گال چوم کر بول رہی تھی۔
"ٹھیک ہے پھر میں اور زمان چلے جاتے ہیں! آؤ زمان"۔ وہ ہاتھ پکڑ کر باہر جارہا تھا۔
"نہیں نہیں! میں آرہی ہوں۔ ایسے مت جاؤ! تم لوگوں کے نخرے بھی تو کتنے اٹھا کر رکھے ہیں تمھارے باپ نے!"۔ وہ چادر اوڑھ کر باہر آئی۔ گارڈز لائین سے کھڑے تھے۔ وہ گیٹ کی جانب آئی۔
"دروازہ کھول دیں!"۔ وہ چوکیدار سے کہہ کر انتظار کرنے لگی۔
"آپ کہاں جارہی ہیں بیگم صاحبہ!" گارڈ نے پوچھا۔
"قریب دکان سے آرہی ہوں!"۔
"سوری آپ نہیں جا سکتیں! آپ جانتی ہیں منہاج دادا کا حکم ہے کہ ہم آپ کو کبھی باہر ان کے بغیر اکیلے نہ جانے دیں!"۔ وہ مؤدب کھڑا ہو کر کہہ رہا تھا۔
"مگر ہمیں چیز لینی ہے گارڈ بھائی"۔ امان نے اسے معصومیت سے اسے دیکھا۔ ماہ نور کا دل چاہا رودے! منہاج شاہ, منہاج کی محبت , منہاج شاہ کی سختیاں!
"ہاں تو چھوٹے دادا آپ ہمیں بتادیں! ہم لے آئیں گے آپ کے لئے!"۔
"ٹھیک ہے ماما انہیں آپ پیسے دے دیں!"۔ امان ماہ نور کو دیکھتا ہوا بولا۔ ماہ نور نے پیسے دیئے۔ امان اور زمان گارڈ سے باتیں کررہے تھے۔ ماہ نور نے روئی روئی آنکھوں سے آسمان کو دیکھا اور کمرے میں چلی گئی۔ رات ہوتے ہی منہاج بھی آگیا۔ اس کی ہمیشہ کی طرح پہلی خواہش اپنے بچوں اور بیوی کا چہرہ دیکھنا اور انہیں چومنا! وہ بچوں کی جانب لپکتا اور انہیں پیار کرکے ماہ نور کے پاس کمرے میں آ گیا۔ باری باری تینوں کا ہاتھ چوم کر وہ ماہ نور سے باتیں کیا کرتا۔
"کیسی ہو؟"
"ٹھیک ہوں!" وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
"میں نے تمھیں بہت مس کیا"۔ وہ اس کی آنکھوں کو چوم کر بہت پیار سے کہتا۔
"صرف نو گھنٹوں کی تو بات ہوتی ہے روز! اور دن میں بھی آپ فون کرتے ہی تو رہتے ہیں"۔
"وقت کاٹنا بے حد مشکل ہوتا ہے تمھارے بنا!"۔
"آج کہیں گئی تھیں تم؟"۔ وہ کچھ دیر توقف سے بولا ۔ ماہ نور کی سانسیں تھم گئی۔
"ن۔نہیں"۔ وہ بس اتنا کہہ پائی۔
"ہاں ماما دکان تک گئی تھیں"۔ زمان معصومیت سے کہہ کر دیکھنے لگا۔ ماہ نور نے منہاج کی طرف دیکھا جس کے تاثرات خطرناک حد تک بگڑ رہے تھے۔ آنکھوں میں خون اترنے کی دیر تھی اور ماہ نور جانتی تھی کہ اس کے بعد منہاج اس کے ساتھ کیا کرنے والا ہے۔
"نہیں منہاج میں ن۔نہیں! زمان جھوٹ کیوں بول رہے ہیں آپ!"۔ وہ غصہ سے اسے دیکھ کر بولی۔
"ہاہاہا میں تو مذاق کررہا تھا!"۔ وہ کہہ کر ہنسنے لگا۔ وہ بے خبر تھا کہ اس کا جھوٹ بھی اس کی ماں کے لئے ایک قیامت ثابت ہوسکتا تھا۔
ماہ نور نے منہاج کی آنکھوں میں دیکھا۔
"دیکھا آپ نے؟ جھوٹ بھی کہنے لگا ہے اب یہ"۔ وہ باقاعدہ رونے لگی تھی۔ کیونکہ وہی جانتی تھی کہ اگر منہاج زمان کی بات پر یقین کرلیتا تو صبح پھر اس کا جسم زخم سے بھرا ہوتا۔
"اچھا کوئی بات نہیں! وہ بچہ ہے!"۔ منہاج نے اسے بہلانا چاہا۔
"نہیں! غلط بات ہے یہ! بچوں کو بچپن سے ہی تمیز سکھانی چاہیئے!"۔ وہ زمان کو مارنے کے لئے بھاگی مگر منہاج نے اسے پیچھے سے قابو کیا۔
"چھوڑیں مجھے! میں آج اسے بتاؤں گی کہ جھوٹ نہیں بولتے!"۔ وہ اپنے آپ کو چھڑانے لگی۔ زمان ماہ نور کو گھورتا۔
"نہیں اسے چھوڑدو! کچھ نہیں ہوتا!"۔ وہ اسے بمشکل قابو کررہا تھا۔
"بابا چکر آرہے ہیں مجھے!" زمان ایک بار پھر ڈرامہ کرنے لگا تھا۔
"میرے بچے کو چکر آرہے ہیں؟ ہاں بابا! میں گررہا ہوں! یہ دیکھیں میں بیڈ پر بھی اب لیٹ چکا ہوں!"۔ وہ سر کو جان بوجھ کر پکڑ کر دبا رہا تھا کہ باپ اسے آکے بھی پیار کرے۔ وہ مسکرا کر اس کے قریب آتا اور پیار کرتا۔
"بابا" اسی دم امان بھی کمرے آیا اور منہاج کے گلے لگ گیا۔
"امان بابا کی گود میں آجاؤ!" منہاج نے پکڑ کر اسے گود میں بٹھایا۔ ماہ نور جو پیچھے کھڑی تھی۔ مسکرادی۔
"مگر بابا مجھے بھی گود میں آنا ہے!"۔ زمان جھٹکے سے اٹھا۔
"نہیں تم لیٹ جاؤ تمھیں چکر آرہے ہیں! " منہاج ایک نظر اسے دیکھ کر ماہ نور کو دیکھتا جو اب ہنس رہی تھی۔
"نہیں اب نہیں آرہے بابا!"۔ وہ اس کی گود میں آبیٹھا۔ منہاج نے امان کی گردن کو چوما مگر ٹھٹھک گیا۔
"ماہ نور اسے بخار ہورہا ہے! کافی تیز ہے!"۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now