باب دوم

174 4 0
                                    

حمدان کچن کے پاس پڑی ٹیبل پر بیٹھ گیا اور ابھی وہ کچھ اور فرمائش کرنے والا تھا کہ اس کے فون پر کال آئی نمبر دیکھتے ہیں وہ اپنے کمرے کی طرف اپنی ماما کو ایکسکیوز کرکے چلا گیا کمرے میں آتے ہی اس نے کال ریسیو کریں

سلام میڈم کیسی ہیں آپ

عائشہ میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ لہجہ ایسا تھا
جیسے بہت بیزاری میں بات کر رہی ہو حمدان کو یہ بات بہت زیادہ محسوس ہوئی لیکن اس نے نظر انداز کیا آخر وہ اس کے ساتھ ایسا
کیسے کر سکتی ہے وہ تو اس کی محبت ہیں اور یہی اس کی سب سے بڑی خوش فہمی تھی وہ شاید بھول گیا تھا کہ مکافات عمل ایک نہ ایک دن اس کے آ گے بھی آنا ہے ہم انسان یہی غلطی کرتے ہیں لوگوں کے ساتھ برا کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں ہمارے آگے بھی آئے گا ہم لوگ مکافات عمل کو بھول چکے ہیں کاش

کاش ہم لوگ مکافات عمل کو یاد رکھے
تو آج کسی کے ساتھ برا کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں

شہیر جرمنی کی مشہور اسٹریٹ بلیک فاریسٹ کے خوبصورت مناظر دیکھنے میں مگن تھا کالے پہاڑ خوبصورت آسمان سر سبز ہریالی خوبصورتی کی اپنی مثال آپ تھے اور چھوٹے چھوٹے پیارے مکانات وہ یہ سب دیکھ ہی رہا تھا کہ اس کے فون پر کال آئی فون پر نمبر دیکھتے ہی اس کے چہرے پر ناگواری کہ کچھ بل آئے اس کو چڑ تھی اس چیز سے کے کوئی اس کو اس وقت کال کرے جب وہ اکیلے کیسی جگہ پر سیر کرنے آیا ہو

ناگواری کے ساتھ کال ریسیف کی گئی

کیا مسلہ ہے جواب ناگواری سے دیا گیا

او ہیلو یہ کس لہجہ میں بات کر رہے ہو ہاں

بتاؤ میں تمہیں ابھی وہ بھی رابی تھی اپنی عزت کروانہ اور اپنی بات منوانے کا فن اسے خوب آتا تھا

رابی شہیر اور شاہ نور کی پھپھو کی بیٹی تھی رابی کے والدین کچھ عرصے پہلے ہی نیویارک شفٹ ہوے تھے لیکن ہمارے رابی ایک محب وطن لڑکی تھی جو پاکستان چھوڑ نے کے لیے تیار نہیں تھی
وجہ صرف ملک سے محبت ہی نہیں بلکہ رابی کی دوستی بھی تھی عائشہ ٬ انم ٬ انابیہ ان میں رابی کی جان تھی

شہیر نے عزت سے بات کرنا شروع کی کہ کہی وہ
واقعی آ کر اس کو نہ بتا دے شہیر اس سے ڈرتا نہیں تھا لیکن اگر ایک دفعہ کوئی رابی سے پنگا لے لے اس کے بات رابی اپنی شرارتوں سے اس بندے کا جینا حرام کر دیتی تھی شہیر کو اچانک وہ واقعہ یاد آیا

رابی ابھی صبح سوں کر اوٹھی تھی کہ کیسی نے  ذور سے اس کے کمرے کا دروازہ کھولا  آواز اتنی تیز تھی کہ رابی اپنے بیڈ سے اچھل پڑی

اووو تو تم مجھ سے ڈرگئ بچی بچاری شاہ نور نے  افسوس سے رابی کو دیکھا جو ایسے ہی مسلسل گھور رہی تھی

کیوں آئے ہوں میرے کمرے میں شاہ نور  اس کا سوال نظر انداز  کر کے فوراً  بیڈ پر
اچھل کے بیٹھا ایسے جیسے یہ اس کا بیڈ ہو

نصیب ہے ایمانWhere stories live. Discover now