عائشہ نے انابیہ کے موبائل سے حمدان کا نمبر نکالا اور اپنے موبائل میں سیف کیا وہ ابھی انابیہ کے موبائل سے کال ملانے والی تھی کی اتنے میں حمدان کی کال آگئی حمدان کی کال دیکھ کر عائشہ کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ آئی
عائشہ = آرے وہ آج تو قسمت بڑی ساتھ دے رہی ہے میرا میرا شیکار خود چل کر میرے پاس آگیا
اس سے پہلے لائن کٹ ہوتی عائشہ نے پہلی فرصت
میں کال ریسیو کی اور اپنے چہرے پر معصومیت کا خول چڑھایا جیسے وہ اصل میں اتنی معصوم ہو جتنا لوگ اس کو سمجھ کر اس کی باتوں پر یقین کرتے ہیںعائشہ نے کال ریسیو کی
حمدان = اسلام وعلیکم میری زندگی
عائشہ کو حمدان کے الفاظ ذہر لگے تھے عائشہ کو حمدان سے محبت نہیں تھی لیکن اس کو انابیہ سے حسد ضرور تھی عائشہ نے آٹھویں جماعت سے ہی لڑکوں سے دوستی کرنا اسٹارٹ کر دی تھی لیکن اس بات کا علم کیسی کو نہیں تھا سوائے عائشہ کی ماما کے ان کے حساب سے اس دور میں لڑکا لڑکی کی دوستی عام بات ہے صرف عائشہ ہی نہیں بلکہ اس کی ماما کی بھی دوستی غیر مردوں سے تھی جب عائشہ پانچویں جماعت میں تھی تو ندیم صاحب کار اسٹیٹ میں انتقال کر گئے تھے ندیم صاحب کے انتقال کے بعد ہیرا بیگم نے اپنا وقت کو مردوں سے دوستی کرنے میں اور پارٹیز میں جا کر اپنی بیزاریت دور کرتی میں گزار دیا
اور آہستہ آہستہ ان کا پارٹیز میں جانا اور غیر مردوں سے دوستی کرنا روزانہ کی مصروفیات کا حصہ بن گیا اور وہ جو عائشہ کو تھوڑا ٹائم دیتی تھی وہ بھی دینا چھوڑ دیا جس کے نتیجے میں
عائشہ کے اندر دن بادن دوسروں سے نفرت دوسروں کی خوشیوں سے جلن بڑھتی جا رہی تھی جس کی زد میں صرف انابیہ ہی نہیں بلکہ کافی لوگ آ چکے تھے اور کافی لوگ آنے والے بھی تھے
عائشہ کی ماما ہیرا بیگم ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھیں لیکن ندیم صاحب سے شادی کے باد جیسے ہی ہیرا بیگم کے دن پھریں ویسے ہی انہوں نے خود کو بدلنہ شروع کر دیا ندیم صاحب ایک اچھے بزنس مین تھے صرف یہ ہی نہیں بلکہ وہ ایک اچھے خاندان سے بھی تعلق رکھتے تھے ندیم صاحب سے شادی کے بات ہیرا بیگم نے اپنا پورا لایف اسٹیل بدل لیا تھا جس سے وہ کہیں سے بھی نہیں لگتی تھی کہ وہ کیسی غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اس چیز سے ندیم صاحب بہت خوش ہوئے تھے شادی کہ ایک سال کے بعد ہی اللّٰہ نے انہیں بیٹی کی رحمت سے نوازہ جس کا نام عائشہ رکھا گیا عائشہ کی تربیت شروع دن سے ہی ایسی ہوئی تھی کہ وہ کچھ غلط کرنے کا بھی بولتی تو اسے روکنے کے بجائے اسے سرایا جاتا ہیرا بیگم نے اس کو سیکھایا تو بس یہ کہ اگر کوئی بھی شہہ کو وہ حاصل نہیں کرسکے تو دوسروں سے چھینلے یا اس چیز کو اس کابل نا چھوڑے کہ اس شہہ کا مالک اسے یوز نہ کر سکے اور عائشہ نے وہی کیا جو اس کے دماغ میں ڈالا گیا اس نے انسانوں کو بھی شہہ سمجھ کر استعمال کرنا شروع کردیا جب شاہتی کیسی سے کیسی کی محبت چھین لیتی صرف اور صرف حسد کی نظر میں عائشہ چاہتی تھی کہ بس جو انسان اپنی جس چیز پر غرور کرتا ہے اس سے چھین لے عائشہ ایک نفسیاتی مریضہ تھی وہ چاہتی تھی کہ بس وہ خوش رہے اس کہ علاوہ کوئی خوش نہیں رہ سکتا اور اگر کوئی خوش رہے گا تو وہ اس کے چہرے کی مسکراہٹ چھینلے گی اس کو سکون ملتا تھا دوسروں کے دل توڑنے میں دوسروں کا گھر اوجاڑنے میں ہیرا بیگم نے عائشہ کو مکافات عمل سے روشناس ہی نہیں کرایا تھا اسے یہ انہوں نے بتایا ہی نہیں تھا کہ جو دوسروں کے ساتھ برا کرتے ہے ان کے ساتھ کبھی اچھا نہیں ہوتا وہ کبھی سکون سے نہیں رہ پاتے ایک نہ ایک دن وہ سب کچھ آپ کے سامنے آتا ہے جو آپ نے دوسروں کے ساتھ کیا ہوتا ہے چاہے وہ اچھا ہو یا برا
YOU ARE READING
نصیب ہے ایمان
HumorYa story real base Han Kahani aak Kam confidence or overthinker ki ju sirf khoub dakhti thi aus ki khoushi aus ka khoub tha phir chahi wo khoub pura hu ya na hoi wo apna khoub ma rahana wali larki thi aus ko indaza nhi tha ka khoub kiya huta Han or...