اسلام علیکم!
وعليكم السلام!
سلیم صاحب :
دس بجے ہی آپا کے گھر، اور گاڑی کا ہارن بجاتے ہوئے
جمیل صاحب:
واہ وقت سے بھی پہلے۔۔۔
سلیم صاحب:
چلو واپس چلے جاتے ہیں۔۔۔
جمیل صاحب :
میں مذاق کر رہا تھا۔
سلیم۔۔۔
میں بھی کون سا جا رہا تھا۔۔۔ہاہاہا
جمیل صاحب :
بھابھی، بچو اندر آ جاؤ ۔۔۔
سب اندر آتے ہیں۔گھر میں شور سا ہو جاتا ہے ۔سب خوش گپیوں میں مصروف ۔۔۔کرن صدف تیار نہیں ہوئ۔۔۔سمجھ نہیں آرہا کیا پہنوں ۔۔۔کچھ بھی پہن لو سب تم پر اچھا لگتا ہے۔۔۔قسم سے
کرن:
چلو اس میں قسم کھانے والی کونسی بات ہے۔۔۔ہر بات میں قسمیں نہیں کھانی چاہیے ۔اچھی بات نہیں ہوتی پھر انسان کو قسمیں کھانے کی عادت ہو جاتی ہے۔۔۔
صدف:
اچھا۔۔۔چلو سہی ہے اب نہیں کہوں گی۔۔۔میں ویسے ہی آج خوش ہوں تم سے ماتھا کون لگائے
کرن:
یہ بھی سہی ہے۔یہ یلو سوٹ بہت پیارا ہے جلدی سے یہ پہن لو۔۔۔ابو کہہ رہے تھےجلدی نکلیں پھر واپس بھی آنا ہے۔۔۔جلدی کرو۔۔۔
پھپھو رحمت:
چائے بنا دو۔۔۔چل کرن تم ہی سب کے لیے چائے بنا دو۔۔۔
کرن :اچھا پھپھو
صدف:
دودھ فریج سے لے لینا میری بہن ۔۔۔
کرن:
کچن میں چائے بنا رہی ہوتی ہے۔اتنے میں اصغر بھی آجاتا ہے۔
اصغر:
صدف آج تو پردہ کیا ہے، پھر اس کو احساس ہوتا ہے یہ اس کی بہن نہیں ہے۔کرن تم ہو اور مسکرانے لگتا ہے۔۔۔یہ کیا ہو گیا تم کو؟
کرن:
بھائ پردا کرنا کوئ بری بات ہے۔۔۔
اصغر:
نہیں کرن ایسا تونہیں کہا۔۔۔اچھا معاف کرنا اگر تم کو برا لگا ہو پہلے کبھی تم کو ایسے دیکھا نہیں اس لیے۔۔۔چائے مجھے بھی دینا۔۔۔پھر ڈرائینگ روم میں چلا جاتا ہے۔
آصف اور اصغر میں کافی دوستی تھی۔وہ دونوں آپس میں کافی بے تکلف تھے۔لیکن اشرف بھائ بڑے تھے۔اس لیے آصف اتنا فری نہیں تھا۔اشرف بھائ سے
کرن:
چائے لے کر آتی ہے۔۔۔آصف اس سے چائے کی ٹرے لے لیتا ہےاورکرن کمرے سے باہر چلی جاتی ہے۔صدف تیار ہو گئ یہ لو تمھاری چائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدف :
میں نے نہیں پینی تم پی لو۔۔۔
کرن:
تمھاری مرضی ۔۔۔چائے پی کر کپ کچن میں رکھنے گئ تو رابعہ بیگم کپ لے کر آ جاتی ہیں۔
رابعہ بیگم:
صدف تیار نہیں ۔۔۔ہوگئ ہے امی۔۔۔
تم ایسا کرویہ برتن دھو دو پھر ابو کہہ رہے ہیں نکلیں دیر ہو رہی ہے۔
کرن:
جلدی سے کچن صاف کیا۔۔۔صدف آجاؤ
پھپھو رحمت:
کرن رہنے دیتی صدف کرلیتی۔رابعہ نے بھی کس کام لگا دیا۔صدف ا جاؤ تالے لگائیں ۔۔۔
سلیم صاحب:
آپا ادھر آ جائیں۔صدف تم بھی آ جاؤ ۔آصف تم جمیل صاحب کے ساتھ بیٹھ جاو۔
آصف:
جی ابو ۔۔۔پر جانا کہاں ہے۔جمیل انکل جانا کہاں ہے۔
جمیل صاحب:
مزار قائد پہلے چلتے ہیں۔۔۔سلیم صاحب ۔۔۔
سب قائد اعظم کے مزار پر جاتے ہیں۔سب بہت خوش تھے۔پھپھو بڑی مشکل سے سیڑھی چڑھ کر اوپر گئ تھک گئ۔پہلے سانس لے لوں پھر جاوں گی۔
تھوڑی دیر رک کر اندر جاتے ہیں۔فاتحہ پڑھنے کے بعد سب باہر آتےہیں۔
صدف:
ابا میں نے اب سمندر دیکھنا ہے ۔
جمیل صاحب:
پہلے یہ تو پورا مزار دیکھ لیں۔ابھی نیچے چلتے ہیں۔وہاں قائداعظم کی سب چیزیں جو ان کے استعمال میں تھی دیکھتے ہیں۔
صدف:
اچھا!
پھر سب قائد اعظم کی گاڑیاں جو ان کے استعمال میں تھی کھیل کا سامان، ان کی تصویریں، برتن ان کے والد بھائ کی تصویر یں دیکھتے ہوئے باہر آگئے۔
سلیم صاحب :
اب کہاں چلیں لڑکوں، سمندر کی آواز آئ تھی۔
آصف:
سفاری پارک جاتے ہیں۔
صدف:
ماموں ان لوگوں سے کیوں پوچھ رہے ہیں ۔یہ کوئ گھر پر تھوڑی رہتے ہیں۔گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔بس سمندر پرجانا ہے۔
پھپھو رحمت:
لڑکی چپ ہو جا باہر بھی تم کو چین نہیں ۔
رافیہ بیگم :
آپا کوئ بات نہیں بچی ہے۔سمندر پر ہی چلتے ہیں۔جمیل صاحب:
اشرف تم بڑے خاموش ہو یار تمھیں کسی نئ جگہ کاپتہ یے۔
اشرف :
ابا جہاں ممانی کہہ رہی ہیں وہی چلتے ہیں۔
اصغر:
منہ بناتے ہوئے مجھ سے تو کسی نے پوچھا نہیں۔
آصف :
مسکراتے ہوئے تو مجھ سے کون سا کیسی نے پوچھا ہے۔تم بھی کمال کرتے ہو۔
سلیم صاحب:
چلو جی کلفٹن چلیں۔۔۔کرن بچے سہی ہے۔
کرن :
جی ابو، بالکل سہی ہے، کافی عرصے سے دیکھا نہیں سمندر ۔۔ میری دوست بتا رہی تھی کافی تبدیل ہو گیا ہے۔
سب سمندر پر پہنچ جاتے ہیں، کافی رش ہوتا ہے۔
صدف:
واہ! کتنا تبدیل ہو گیا ہے۔سمندر کی لہریں کتنی پیاری لگ رہی ہیں اماں
پھپھو رحمت :
اے لو ۔۔۔تم کو تو ان لہروں کے حوالے کر کے گھر جاؤں گی۔۔۔
آصف:
اتنی زور سے ہنسنا شروع کر دیتا ہے۔۔۔سب اس کے منہ کی طرف دیکھتے ہیں ۔واہ پھپھو کمال کی بات کی ہے، بول بول کر اس نے ہمارا دماغ کھا لیا ہے۔
رافیہ بیگم:
غصے سے آصف کی طرف دیکھتی ہیں تو وہ خاموش ہو جاتا ہے۔۔۔
جمیل صاحب :
میں تو اونٹ کی سواری کروں گا ۔
پھ رحمت:
بڑھاپے میں کمر کی ہڈی نہ کھسک جائے اور سیر درمیان میں ہی رہ جائے۔۔۔آرام سے بیٹھیں۔
سلیم صاحب :
ہم سب بیٹھتے ہیں۔۔۔اشرف، اصغر، آصف تم لوگ کیا بڈھوں کی طرح گھوم رہے ہو۔۔۔چلو سب باری باری بیٹھتے ہیں۔۔۔واہ جی کیا بات یے اونٹ کی۔۔۔
جمیل صاحب :
تو چیخنا شروع کر دیتے ہیں ۔۔۔مجھے نیچے اتارو میں نہیں بیٹھ سکتا۔۔۔