اشرف ہوٹل سے باہر آتا ہے تو سب خاموش اسے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں نور بھی اپنے دوستوں کے ساتھ چلی جاتی ہے۔۔۔
کرن:
ابو بس اب گھر چلتے ہیں۔سب گھر چل کر ہی چائے پیتے ہیں۔
صدف:
چلو جی! اب تم کو کرن کیا ہوا کبھی کبھی تو باہر نکلتے ہیں تم پھر بوڑھی روح کی طرح گھر چلیں۔
ابھی باتیں کر ہی رہی تھی۔
جمیل صاحب :
اپنی گاڑی سائیڈ پر گھڑی کرتے ہیں۔
آصف:
گاڑی سے نکل کر ،ابو آئیں چائے پی لیں۔
سلیم صاحب :
آصف گاڑی میں ہی چائے منگوا لو۔اب گرمی باہر اتنی ہے۔
آصف:
جی ابوسہی ہے۔
چائے پینے کے بعد جمیل صاحب اب کیا ارادہ ہے۔
سلیم صاحب :
بچوں سے پوچھ لو
اشرف:
مارکیٹ چلتے ہیں۔جس نے جو شاپنگ کرنی ہے کر لے۔میرا خیال ہے طارق روڈ چلتے ہیں۔۔۔
سلیم صاحب :
چلو ٹھیک ہے۔۔۔
رافیہ بیگم :
کچھ گھر کا سامان بھی ختم ہےوہ لے لیتے ہیں ۔کرن، صدف تم دونوں لے لینا جو لینا ہوا۔۔۔آپا آپ کافی دیر سے خاموش ہیں آپ ہمارے ساتھ چلیں گی ۔
پھ رحمت:
تم دونوں جاو میں ان بچیوں کے ساتھ جاوں گی۔اشرف کی وجہ سے پریشان تھی۔میرے بچے کا دل ٹوٹ گیا ہے۔
رافیہ بیگم :
پریشان نہ ہوں آپا اللہ خیر کرے گا۔۔۔ انشاءاللہ
کرن:
امی میں اپنے لیے چپل لے لیتی ہوں۔آپ نے کچھ لینا ہے۔
رافیہ بیگم :
نہیں، تم لے لینا جو لینا ہوا۔
اشرف:
ابا جی! چلیں آپ سب نے کیا لینا ہے۔
سب گاڑی پارک کر کے مارکیٹ میں جاتے ہیں۔آصف اور اصغر سپورٹس کی دوکان میں جاتے ہیں۔آصف کرن کے لیے ریکیٹ لیتا ہے۔۔۔
اصغر:
یہ کیا؟
آصف:
کرن کے لیے ہیں اس کو کھیلنا اچھا لگتا ہے۔
اصغر :
صدف کے لیے بھی لے لیتا ہےاور خوشی سے کہتا ہے ۔دیکھ کر خوش ہو گی۔۔
کرن اور صدف پہلے اپنی چپل لیتیں ہیں پھر صدف اپنے لیے بیگ بھی لیتی ہے۔پھپھو رحمت ایک چادر پسند کرتی ہیں اور کہتی ہیں بھائ دو دے دینا۔۔۔دوکان دار یہ ایسی ایک ہی ہے ۔پھ رحمت اس سے ملتی جلتی ہی نکال دو۔۔۔
جمیل صاحب :
چھتری لیتے ہیں۔چلو گرمی اور بارش کا کام بن گیا۔مسجد جانا ہوتا ہےتو چھتری سہی رہتی ہے ۔
اشرف:
جی ابا! اور کچھ لینا ہے۔
جمیل صاحب :
نہیں یار! تم کچھ لے لو۔ ایسا کرتے ہیں ہے۔۔۔گاڑی میں بیٹھتے ہیں۔تم کو وہ لڑکی کیا کہہ رہی تھی۔
اشرف:
ابا ایسے ہی شادی نہیں کرنا چاہتی۔
جمیل صاحب :
ہاں ! تو پھر کیوں نہیں کرنا چاہتی۔
اشرف:
ابا وہ چاہتی ہے الگ رہیں ۔ایسا کیسے ہو سکتاہے۔اور ان لوگوں کے اندر دین نام کی کوئ چیز ہی نہیں ۔۔۔آپ نے دیکھا کس طرح لڑکے لڑکیاں مکس کیا کر رہے تھے۔
جمیل صاحب :
امیر لوگ ہیں۔دولت کے چکر میں بھول جاتے ہیں کہ ہم مسلمان بھی ہیں۔۔۔اولاد دین سے دور ہو جائے تو دنیا اور آخرت سب تباہ کر لیتی ہے، امیر کیا اگر غریب بھی ہو انجام تو خراب ہی ہے۔۔۔ہماری آنے والی نسلیں تباہ ہو رہی ہیں۔۔۔ہم سب کو اللہ ہدایت میں رکھے۔۔۔آمین
اشرف :
آمین
جمیل صاحب :
ویسے تو جب تم سے لڑکی ملی ہو گی تب بھی تو ایسی ہی ہو گی تب تم کو سمجھ میں نہیں آیا ۔
اشرف :
ابا جی آیا تو تھا پر محبت اندھی ہوتی ہے۔۔۔قہقہ لگا کر ہنسنے لگتا ہے۔
جمیل صاحب :
یہ بھی سہی کہا۔۔۔محبت اندھی ہوتی ہے۔چلو پریشان نہ ہو۔۔۔اس میں اللہ کی بہتری ہوگی۔
اشرف:
جی، یہ اصغر اور آصف کہاں رہ گئے۔
رافیہ بیگم:
فون کی بل ہوئ۔اپنے بیگ سے موبائل نکال کر۔۔۔السلام علیکم! کیا حال ہے عالیہ
عالیہ:
رافیہ دو دن بعد ہم پاکستان آ رہے ہیں۔بچے بھی
رافیہ بیگم:
عدیل بھائ وہ بھی آئیں گے۔ہم بازار ہیں ۔رات کو بات کروں گی۔۔۔السلام علیکم
عالیہ:
وعلیکم السلام :انشاءاللہ رات کو بات ہو گی۔
سلیم صاحب :
کس کا فون تھا
رافیہ بیگم:
عالیہ کا فون تھا ۔پرسوں آرہی ہے۔
سلیم صاحب :
بڑے عرصے دراز بعد آ رہی ہے۔بچے بھی آرہیں ہیں۔
رافیہ بیگم :
رات کو فون کر کے بتائے گی۔۔۔اب گھر چلیں تیاری بھی کریں۔
سلیم صاحب :
کرن کو فون ملاتے ییں۔بس آ جاو کرن ہم آرہے ہیں۔
کرن :
جی ابو ہم آگئے ہیں۔آپ آجاٹیں۔۔۔
جمیل صاحب :
اب ہمارے گھر چلیں۔
سلیم صاحب :
اب سیدھا گھر ہی چلیں گے، پرسوں مہمان بھی آ رہے ہیں۔عالیہ آرہی یے۔
جمیل صاحب :
اچھا ! سہی یے صدف ادھر آ جاو بس اب ہم بھی گھر چلیں گئے۔رحمت تم بھی آجاو۔
پھپھو رحمت :
سلیم سہی ہے۔تم لوگ جاؤ ۔
رافیہ بیگم :
ٹھیک ہے آپا۔۔۔السلام علیکم
وعلیکم السلام
آصف:
گاڑی چلاتے ہوئے۔عالیہ خالہ آ رہی ہیں۔
رافیہ بیگم:
عالیہ آرہی ہے پرسوں
سلیم صاحب :اوپر کے کمرے سیٹ کر دینا کرن ۔۔۔کسی چیز کی ضرورت ہے تو ابھی لے لو۔۔۔