دسواں حصہ

4 2 0
                                    

کرن:
امی کیا ہوا اشرف بھائ  کا رشتہ نہیں ہوا ۔۔۔سب کافی پریشان لگ رہے تھے۔اشرف بھائ کو پتا چل گیاہے۔
رافیہ بیگم:
کسی نے ذکر نہیں کیا۔ابھی آپا گھر جا کر اس سے پوچھیں گی۔آصف تم کدھر چھپ گئے تھے۔صدف کو دیکھ کر۔۔۔کھانا بھی آ کر نہیں  کھایا
آصف:
امی میں نےکھا لیا تھا۔اشرف بھائ پہلے پتہ تو کرتے لڑکی نے شادی کرنی بھی ہے کے نہیں۔اشرف بھائ بھی کافی بدل گئے ہیں۔۔۔ماڈرن ہو گئے ہیں۔اب تو پھپھو ان کے ساتھ  کیا سلوک کریں گی۔۔۔ابو گئے ہیں بچا ہی لیں گے۔۔۔
کرن:آپ بھی سوچ لیں کیا کیا ہو سکتا ہے انسان کے ساتھ۔۔۔ہم سوچتے کیا ہیں اور ہوتا کیا ہے۔۔۔
رافیہ بیگم:
چلو اپنے کمروں میں آرام کرو اور ابو آئیں گے تو گیٹ کھول دینا۔۔۔آصف میں آرام کرنے چلی ہوں تھک گئ ہوں باقی باتیں کل کریں گے۔۔۔
آصف :
ٹھیک ہے امی۔
سلیم صاحب :
آپا جوان بچہ ہے ۔۔۔سختی نہ کرنا
پھ رحمت:
واہ میرے بھائ۔۔۔آج سارا دن جو ہمیں پریشانی ہوئ
لو جی گھر بھی آ گیا ۔۔۔جمیل صاحب آپ نے مجھے منع نہیں  کرنا۔۔۔
جمیل صاحب :
میں نے تمھیں کب منع کیا ہے جو اب کروں گا۔
سلیم صاحب :
اندر داخل ہوتے ہیں۔اصغر کیسے ہو۔
ماموں
السلام عليكم! جی ٹھیک ۔۔۔آج آپ نے سارا دن ہی لگا دیا رشتہ کرتے ہوئے۔۔۔لو اشرف بھائ بھی آگئے۔
اشرف:
سب کو غور سے دیکھ رہا تھا۔حالات کچھ اچھے  نظر نہیں آرہے تھے۔ابھی کچھ کہنے ہی والا تھا۔اماں کی آواز اس کے کانوں میں گونجی، اس لڑکے نے تو ہمیں بے عزت کروا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس یہی کہہ سکا ۔اماں میں نے کیا کیا۔
پھپھو رحمت:
کبھی سوچا بھی نہیں تھا میرے ساتھ یہ ہو گا۔لڑکی نےشادی کرنی ہی نہیں تھی تو وہاں کونسی خوشی میں بھیجا۔۔۔
سلیم صاحب :
آپا حوصلہ کریں۔۔۔اصغر پانی لے کر آو۔۔۔پھر سب اشرف کو بتایا۔۔۔کوئ بات نہیں اچھے لوگ تھے۔پر بیٹا نور شادی نہیں کرنا چاہتی تم سے۔۔۔ اس نےبات نہیں کی ۔۔۔
اشرف :
نہیں. فون نہیں اٹھایا اس نے۔۔۔پھر غصے سے اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے
پھ رحمت:
اے لو۔۔۔یہ سہی تماشا ہے۔۔۔
سلیم صاحب:
کل بات کر لینا۔۔۔وہ بھی تو پریشان ہو گیا ہے۔۔۔چلیں میں چلتا ہوں۔۔۔
السلام عليكم!
وعليكم السلام !
گاڑی کے ہارن کی آواز آتی ہے تو آصف جلدی سے گیٹ کھولتا ہے۔سلام کرنے کے بعد دونوں باپ بیٹا اندر آتے ہیں۔۔۔
آصف:
ابو خیر خیریت رہی ۔۔۔
سلیم صاحب :
جی ابھی تک تو۔۔۔امی سو گئ
آصف:
جی ابو۔۔۔آپ چائے پییں گے ۔کرن بھی آج جلدی سو گئ یے۔ تھک گئی ہے۔میں چائے ہی بنانے جا رہا تھا۔پھپھو کے گھر پی لی ہو گی۔
سلیم صاحب :
بنا لاو۔۔۔میں باہر ہی آتا، ہوں کپڑے تبدیل کر کے
اپنے کمرے میں آتے ہیں تو رافیہ بیگم گہری نیند سو رہی ہوتی ہیں۔کچھ دیر بعد وہ باہر لان میں آکر کرسی پر  بیٹھ جاتے ہیں۔آسمان ستاروں سے بھرا نظر آنے لگا لائٹ جو چلی گئ۔اے میرے اللہ اتنا پیارا  موتیوں سے بھرا آسمان ہے۔۔۔اتنے میں آصف آگیا۔
آصف:
ابو جان !آپ کی گرما گرم چائے ۔۔۔آسمان میں کیا تلاش کر رہے تھے۔
سلیم  صاحب :
ستارے ۔۔۔لائٹ نہیں ہے تو آسمان  سہی طرح  نظر آیا، الله  کی قدرت دیکھ رہا تھا۔تم نے پوچھا نہیں  اشرف کے بارے میں،
آصف:
میں نے سوچا آپ خود ہی بتائیں  گے۔
سلیم صاحب :
اچھے لوگ ہیں ،پر اللہ سے بہت دور تھے۔دنیا کی ہر آسائش ہے ان کے پاس بس ایسا لگ رہا تھاسکون کی کمی تھی۔۔۔جب انسان اپنے رب سے دور ہو جائے تو دنیا کی ہر چیز بے کار لگتی ہے۔مجھے ایسا لگ رہا تھا ۔فیصل صاحب نے کتنے ہی عرصے بعد نماز  پڑھی۔۔۔نمازپڑھنے سے پہلے اور بعد میں فرق نمایاں تھا۔بس اللہ سب کو ہدایت دےاور اللہ کے بتائے ہوئے احکامات پر چلنے کی توفیق دے۔آمین
آصف:
سب باتیں تو ٹھیک ہیں پر رشتے کا کیا بنا لگ تو رہا تھا۔نہیں ہوا ۔
سلیم صاحب :
اشرف کا رشتہ نہیں ہوا۔لڑکی نے ہی انکار کر دیا۔اس کے ماں باپ بھی بت شرمندہ تھے۔دین سے دوری اولاد کو بھی باغی بنا دیتی ہے۔ہو سکتا ہے لڑکی نے سوچا ہو اسٹیٹس کی وجہ سے، اشرف کو کوئ غلط  فہمی ہو گئ ہو۔
آصف:
ابو اب کیا ہو گا؟
سلیم صاحب:
وہی ہو گا جو میرے اللہ کو منظور ہو گا۔
دونوں  مسکرا دیے۔چلو یہ کہ دھو کر رکھنا، کھولے برتن نہیں  رکھتے، شیاطین کے لیے، بسیرا کر لیتے ہیں، برتن کو ڈھک کر رکھیں، آصف گیٹ بھی بند کو دروازے  بھی بسمہ الله  پڑھ کر بند کرو۔شیطان گھر میں داخل نہیں ہوتے۔اب میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں۔
آصف:
جی ابو! آپ آرام کریں میں سب کر لیتا ہوں۔
سلیم صاحب :
اللہ خوش رکھےاور دنیا آخرت میں خیروعافیت سے رکھیے۔آمین
آصف:
آمین۔۔۔

روشنی کی کرن Where stories live. Discover now