پندرھواں حصہ

2 2 0
                                    

کرن:
ابو ابھی ہے سب کچھ ضرورت ہوئ تو بتا دوں گی۔آصف بھائ آپ کیا خرید کر لائے۔امی پھپھو نے آپ کے لیے شال دی ہے۔
رافیہ بیگم :
کرن منع کرناتھا آپا کو
آصف:
واہ پھپھو بہت بدلی نہیں لگ رہی ابو
سلیم صاحب :
اچھی بات یے نا۔۔۔ چلو گھر آگیا اترو ۔سامان نکالو نماز کے لیے جائیں مغرب ہو رہی ہے۔
کرن:
ریکٹس واہ۔۔۔آصف بھائ میرے ہیں۔اپنے لیے کچھ نہیں لیا۔
آصف:
جی، میری پیاری بہن کے لئے ہیں ۔ابو سامان نکال دیا ۔ابو چلیں۔
جمیل صاحب:
رحمت بیگم بڑے عرصے بعدان کی بہن آ رہی ہیں۔یوں اچانک، خیر ہو۔
پھ رحمت:
انشاءاللہ خیرہوگی۔
جمیل صاحب :
انشاءاللہ
صدف:
اماں ان کے تین بچے ہیں۔
پھ رحمت :
دو بیٹیاں اور ایک بیٹا
اصغر:
صدف میں تمھارے لیےکچھ لایا ہوں۔۔۔ریکٹس
صدف:
بھائ کیا لے آئے۔مجھ سے پوچھ تولیتے۔سوٹ ہی لے لیتے اس کا میں کیا کروں گی۔
اصغر:
ٹھیک ہے۔اب تمھارے نہیں ہیں۔میں اور اشرف کھیلیں گے۔سہی ہےنہ بھائ جان
اشرف:
مسکراتے ہوئے ہاں سہی ہے۔صدف تم کو کیا کیا پسند ہے۔
صدف:
کپڑے، شوز ،جیولری اور سب کچھ بڑے اونچے خیال ہیں۔جیولری سونے کی نہ بھی ہو تو گزارہ ہو جائے گا۔
اصغر:
شہزادیوں والی سوچ ہے۔واہ میری بہن۔۔۔اللہ تم پر کرم کرے۔
صدف:
آمین آمین۔۔۔ سوچ کو بلند رکھناچاہیے۔اماں نور کا گھر کتنا پیارا تھا۔کاش ہمارا گھر بھی ایسا ہوتا۔
پھ رحمت:
لڑکی اونچےخواب کم دیکھ۔گھر آگیا ہے۔ نیچے اترو، مغرب کی نماز جلدی پڑھ لو اور چائے بنا کر دو۔بہت باتیں کرتے ہو تم لوگ جمیل صاحب ۔۔۔سلیم کو فون کر کے خیریت پوچھ لیں۔۔۔اصغر نماز پڑھ  کر میرا بچہ میری کمر دبا دے بڑی درد ہے۔
اصغر:
اچھا اماں، پر اس صدف کو مفت میں  گھر میں رکھا ہے اس کو کہہ دیں دبا دے۔
پھ رحمت:
اچھا تجھے گھر میں دیکھنے کے لیے رکھا ہے
' کام کا نا کاج کا دشمن اناج کا،
جتنا کام کہا ہے اتنا کر باتیں نہ بنا۔
صدف:
اماں، کتنی اچھی ہیں سہی کہا۔۔۔
پھ رحمت:
اچھا بس کام کرو نماز پڑھو۔
اصغر:
اماں جی! دبا دوں
جمیل صاحب :
لو سلیم کی خود ہی کال آگئ۔السلام علیکم! ابھی کال کرنے ہی والا تھاپہنچ گئے۔
سلیم صاحب :
وعلیکم السلام :
جی جناب، بہت اچھا رہا بچوں نے بھی خوب انجوائے کیا۔آپا کیسی ہیں۔رافیہ شال کا شکریہ  کہہ رہی ہے بہت پیاری ہے۔
جمیل صاحب :
یہ لو اپنی آپا سے بات کرو۔
پھ رحمت:
کیا ہو رہا ہے سلیم۔مہمان کب آرہے ہیں۔
سلیم صاحب :
پرسوں انشاءاللہ۔۔۔اشرف اب کیسا ہے۔اس کو سمجھایا وقت کے ساتھ بہترہو جائے
پھ رحمت:
سہی کہا! ٹھیک ہے۔شال پسند آئ رافیہ کو ۔۔سلیم صاحب :
رافیہ سے ہی بات کر لیں۔
رافیہ بیگم:
السلام علیکم۔۔۔آپا ماشاءاللہ بہت پیاری شال ہے۔آپ نے تکلف کیا۔
پھ رحمت:
وعلیکم السلام :
تکلف کی کیا بات ہے۔تم کو پسند آ گئ اس کی خوشی ہے۔عالیہ کا فون آیا ۔
رافیہ بیگم:
جی ابھی بات ہوئ پرسوں رات کو آئے گی بچے بھی آ رہے ہیں۔کہہ رہی تھی ۔پاکستان ہی شفٹ ہو رہی ہے۔آپ کو تو باہر کے حالات کا تو پتہ ہی ہے۔
پھپھو رحمت:
سہی ہے آ جائے اپنا ملک اپنا ہی ہوتا ہے۔چلو آرام کرو کل بات ہوگی۔
رافیہ۔۔۔۔
ٹھیک ہے آپا
اصغر:
اماں آج کل زیادہ دوستی ہو گئ ہے۔
پھ رحمت:
جب سے غیروں سے تکلیف پہنچی ہے تب سےاپنے اور اپنے لگے ہیں۔۔۔
اصغر:
یہ تو ہے اماں
رافیہ بیگم:
کرن کام ختم ہو گئے ہیں۔ سلیم صاحب ایک گاڑی سے کام نہیں چلے گا۔ایک گاڑی اور بک کروا لیں۔سامان بھی ہو گا اور بچے بھی۔۔۔
سلیم صاحب:
ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو۔آصف کو آواز دیتے ہیں۔
آصف:
ایک گاڑی اور دیکھ لو۔
آصف:
کوئ مسئلہ نہیں ایرپورٹ سے ہی گاڑی مل جائے  گی۔
سلیم صاحب :
تیار ہو جاوتم بھی ،دوسری گاڑی میں تم ان کو لے آنا۔
آصف:
ٹھیک ہے ابو
رافیہ بیگم:
وقت ہو گیا ہے۔سلیم صاحب
سلیم صاحب :
ٹھیک ہے بیگم جاتے ہیں۔بہت بے صبری  ہو رہی ہیں۔
کرن :
مسکراتے ہوئے ۔آج امی بہت خوش ہیں۔ہے نا
رافیہ بیگم :
خوش کیوں نہ ہوں۔ایک ہی تو میری بہن ہے۔اتنے سالوں بعد ملاقات ہوگی۔
سلیم صاحب اورآصف ایر پورٹ پر انتظار  کر رہے ہوتے ہیں۔کافی دیر ہو گئی  ہے۔ابھی تک کچھ پتہ نہیں ۔
آصف:
ابو فلائٹ لیٹ ہو گئ ہے۔
سلیم صاحب:
آصف ایسا کرتے ہیں۔پوچھ لو کب تک آئے گی ۔پھر نماز پڑھ  لیں۔
آصف:
جی سہی۔۔۔ابو آدھا گھنٹہ لیٹ ہے۔نماز پڑھ لیتے ہیں ۔تب تک آجائیں گے۔





روشنی کی کرن Where stories live. Discover now