کرن :
جی پھپھو! یہ فرح ہے۔
پھ رحمت :
ماشاءاللہ بہت پیاری ہے۔سب کدھر ہیں۔
کرن :
وہ سب ذرا باہر گئے ہیں۔آپ بیٹھیں۔میں چائے بناتی ہوں۔
پھپھو رحمت:
صبر کر ذرا سانس تو بہتر ہونے دے تجھے چائے کی پڑ گئ۔ابھی اشرف بھی آتا ہو گا ایک بار ہی چائے بنا لینا۔فرح بیٹی کیسا لگا پھر اپنا ملک... پاکستان
فرح:
پھپھو بہت اچھا
پھپھو رحمت:
اچھا کیوں نہ ہو یہ میرا پیارا دیس ہے-مجھے جان سے عزیز ہے۔اس کی خوشبودار مٹی واہ واہ بڑی اچھی لگتی ہے۔تم کو بھی اچھی لگے گی۔پڑھ چکی ہو۔
فرح:
جی ماسٹرز کیا ہے کس میں اردو میں۔۔۔
کرن :
آپ لوگ باتیں کریں میں اپنا کالج کا کام کر لوں۔
پھپھو رحمت:
ایک تو تیرا لڑکی کالج کا کام نہیں ختم ہوتا۔پتہ نہیں کیا پڑھتی رہتی ہے۔
فرح:
مسکرانے لگی۔۔۔
پھپھو رحمت:
اچھا تو تم مسکراتی بھی ہو ۔اردو پڑھ پڑھ کر دماغ خشک ہو جاتا ہے۔۔۔چلو اچھا ہے جائے نماز لادے مجھے' نماز پڑھ لوں۔اور اشرف آئے گا تو فرح بیٹی دروازہ کھول دینا۔
فرح:
جی پھپھو:
پھپھو رحمت بچی تم تو بڑی سلجھی ہوئ ہو۔دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے۔نماز پڑھنے لگتی ہیں۔
اتنے میں گھنٹی کی آواز آتی ہے۔
فرح:
کون ہے۔
اشرف:
اشرف ہوں۔۔۔
فرح دروازہ کھولتی ہے تو اشرف اس کو دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے۔دل میں سوچتا ہے یہ کون۔
فرح:
آجائیں۔پھپھو نماز پڑھ رہی ہیں۔
اشرف :
فرح کی آواز میں ہی کھویا ہوا تھا۔
پھپھو رحمت:
لڑکے کدھر رہ گیا جلدی اندر آجا میرے بیٹے
اشرف :
جی اماں ،آ رہا ہوں۔اور فوراََ اندر کمرے میں چلا جاتا ہے ۔
فرح:
چائے بنانے لگتی ہے اور ساتھ کیا دوں۔۔۔پکوڑے بنا لیتی ہوں۔پھپھو تو بڑی سخت مزاج کی لگتی ہیں۔یہ نہ کہیں کے خالی چائے ہی اٹھا لائ۔۔۔
اشرف:
اماں یہ کون ہے ۔عالیہ خالہ کی بیٹی
پھپھو رحمت :
ہاں اس کی بیٹی ہے اردو میں ماسٹرز کیا ہے بچی نے بہت بھلی مانس سی لگی مجھے۔۔۔یہ کرن کدھر رہ گئ۔۔۔پڑھنے گئ تھی لگتا ہے سو گئ۔۔۔چلو خیر انتظار کر لیتی ہوں۔
فرح:
چائے لے کر کمرے میں آتی ہے ساتھ پکوڑے چٹنی، اور سوئیاں جو دن میں بنائ تھیں۔اور سرو کرتی ہے۔
پھپھو رحمت:
پھٹی آنکھوں سے چائے کا سیپ لیتے ہوئے۔یہ تم نے بنائ ہے۔بہت ذائقہ ہے تمھارے ہاتھ میں ماشاءاللہ
فرح:
با مشکل شکریہ ہی کہہ سکی اور چائے دے کر کمرے سے باہر چلی گئ۔
کرن:
کتاب ہاتھ میں پکڑے سو گئ تھی ۔فرح آ کر اپنے بستر پر بیٹھ گئ۔
فرح:
سوچنے لگی اب کیا کروں۔کرن کے کمرے میں گئ تو وہ سو چکی تھی۔چلو خیر اپنے بھائی کا گھر ہے۔جب کچھ چاہیے ہو گا تو بلا لیں گی۔دس منٹ بعد پھپھو کے پاس سے برتن اٹھا لیتی ہے۔
باہر گاڑی کے ہارن کی آواز آتی ہے تو اشرف باہر جا کر دروازہ کھولتا ہے۔
رابعہ بیگم:
اشرف یہاں ،کچھ پریشان ہو جاتی ہیں۔سلام دعا کرنے کے بعد کچن میں جاتی ہیں تو فرح برتن دھو رہی ہوتی ہیں۔کرن کہاں ہے۔
پھپھو رحمت :
بڑے جوش سے کمرے سے باہر آتی ہیں۔تم لوگ کہاں گئے تھے کب سے انتظار کر رہی ہوں۔
رابعہ بیگم:
آپا مارکیٹ تک گئےتھے۔آپ سنائیں کیسی ہیں۔
پھ رحمت:
ٹھیک ہوں۔سلیم سے کچھ کام تھا۔
سلیم صاحب :
السلام عليكم! آپا
وعلیکم السلام!
پھپھو رحمت:
ٹھیک ہوں تم سناو۔۔۔ادھر آو تم سے بات کرنی ہے۔اورسلیم صاحب کے کمرے میں چلی جاتی ہیں ۔عالیہ نے بچی کا رشتہ کر دیا ہے۔
سلیم صاحب :
میرا خیال ہے۔۔۔ نہیں ،رابعہ سے پوچھنا پڑےگا۔
پھپھو رحمت:
پوچھ لینااورفون پر بتا دینا،ٹھیک ہے۔
سلیم صاحب :
جی ٹھیک ہے آپا۔۔۔آئیں پھر باہر چلیں۔۔۔عالیہ بھی باہر ہے۔ملاقات کر لیں پھر پتہ کر کے بتاوں گا ۔
عالیہ:
رافیہ خیریت ہے۔
اتنے میں پھپھو رحمت آ جاتی ہیں۔کیسی ہو
عالیہ:
شکر ہے اللہ کا، آپ کیسی ہیں ماشاءاللہ بڑی فیٹ لگ رہی ہیں۔
پھپھو رحمت:
کرم ہے رب کا، بیٹا کہاں یے۔
جنیداور آصف السلام عليكم
پھپھو کیسی ہیں۔
میں ٹھیک ہوں بچوں، ماشاءاللہ بچے بہت بڑے ہو گئے ہیں۔وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا یے۔
عالیہ :
جی آپ نے درست کہا۔۔۔یہ میری بیٹی ہے مریم۔۔۔
مریم:
چھلانگیں مارتی ہوئ پھپھو کے گلے جا لگی۔کیسی ہیں پھپھو آپ کے بارے میں بہت سن رکھا ہے۔میں تو سمجھتی تھی۔بڑی سخت طبیعت کی ہوں گی پر آپ دیکھنےمیں بہت سویٹ نظر آرہی ہیں۔
پھپھو رحمت:
لڑکی تم کیا چھلاوے کی طرح لپک گئ ۔بچے آرام سے ملتے ہیں۔ ان بوڑھی ہڈیوں میں اتنی محبت سہنے کی طاقت نہیں ۔۔۔
مریم:
😔Sorry پھپھو
پھپھو رحمت :
ماشاءاللہ۔۔۔ عالیہ بہت اچھی تربیت کی ہے۔اللہ نیک نصیب کرے۔
آمین
چلو اب ہم چلتے ہیں کافی دیر سے آئ تھی۔۔۔اشرف بچے آ جاؤ ۔۔۔ان شاءاللہ پھر ملاقات ہو گی۔
رافیہ بیگم:
آپا کھانا کھا کر جائیں ۔۔۔
پھ رحمت:
انشاءاللہ پھر کبھی
کرن:
پھپھو رحمت کے جانے کے بعد مسکراتے ہوئے کہنے لگی، بچ گئ مریم ۔۔۔
آصف:
آج ہماری پھپھوکو مریم کی محبت مہنگی پڑھنے ہی لگی تھی۔
سارے ہنسنے لگے تو سلیم صاحب نے آصف کو ڈانٹا چلو ! نہ میری بیٹی کو تنگ کرو۔اپنا اپناکام کرو۔۔۔