اگلے صبح سب اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔کرن کالج جاچکی تھی۔فرح اور مریم باہر صحن میں بیٹھی تھی۔۔۔
رابعہ بیگم :
جاؤ مریم عالیہ کو بلا لاو کیا کر رہی ہے۔
عالیہ:
آئ آپا۔۔۔میں سامان بکھرا تھا وہی صحیح کر رہی تھی۔
رابعہ بیگم:
جنید اور مریم کے، داخلہ ہو جائے تو یہ بھی مصروف ہوجائیں گے۔
جنید:
خالہ شکر ہے آپ نے کوئ خوشخبری سنائ ۔
مریم:
خوش نہ ہو اتنا، داخلہ لینا ہے تو تیاری بھی کرو۔
جنید:
تیاری بھی کرنی ہے۔۔۔اف میرے اللّہ! خالہ ہم باہر سے آئیں ہیں کچھ تو ہمارا خیال کریں۔
سب اس کی باتیں سن، سن کر مسکرا رہے تھے۔اتنے میں سلیم صاحب پراسپیکٹس لے کر آ گئے۔چلو بچو ادھر آ کر فارم پر کریں۔ تصویریں اور سرٹیفیکیٹ بھی لے آو۔
مریم :
یہ لیں انکل سب چیزیں
سلیم صاحب :
شکریہ بچے۔۔۔
چلو چلیں۔
مریم:
ماما آپ بھی چلیں۔
عالیہ:
میں جا کر کیا کروں گی۔جنید ہے تمھارے ساتھ ۔۔۔
رابعہ بیگم:
میں ساتھ چلتی ہوں۔
سب چلے جاتے ہیں۔فرح کھانا بنانے کی تیاری میں لگ جاتی ہے۔اتنے میں عدیل صاحب کا فون آجاتا ہے
فرح:
ماما فون یے پاپا کا
عالیہ:
السلام عليكم !خیر ہے صبح فون کر لیا آپ سوئے نہیں ۔۔۔
عدیل :
سو گیا تھا آنکھ کھل گئ تو سوچا، بات کر لوں۔۔۔اکیلے رہنا بھی بہت مشکل ہے۔بچے کیسے ہیں۔
عالیہ:
شکر ہے اللہ کا ٹھیک ہیں۔گھر کے بارے میں سلیم بھائ سے بات کر لی
عدیل:
ڈاکومنٹس تیار کروا کر پھر بتائیں گے پھر گھر کی پیمنٹ کریں گے۔پیسوں کی ضرورت ہے۔
عالیہ:
ہنستے ہوئے وہ تو رہتی ہے پر ابھی نہیں ۔۔۔۔میرے پاس ابھی ہیں۔فرح سے بات کر لیں۔
فرح:
پاپا۔۔۔ اسلام علیکم
عدیل:
وعلیکم السلام : میری بیٹی کیسی یے۔
فرح:
ٹھیک ہوں۔۔۔میں نے آپ سے بات کرنی ہے کیا ہم تایا کے گھر چلے جائیں۔ماما کاسامان بھی ہے۔
عدیل:
چلےجاؤ پر سامان ہم نیا لے لیں گے۔
فرح:
پاپا ۔۔۔دیکھ لیں گے وہاں کے کیا حالات ہیں۔ اس حساب سے بات کر لیں گے۔
عدیل:
ٹھیک ہے میری بیٹی ۔۔۔ماما سے بات کروا دو۔
عالیہ:
جی
عدیل:
سہی ہے چلی جاو۔۔۔چلو پھر بات ہوگی۔
فرح:
ماما پھر تایا ابو کے گھرجائیں گے۔کل ہی چلتےہیں۔
عالیہ:
ہاں! میری بچی
گیٹ کی بل بجی۔۔۔السلام علیکم
رافیہ بیگم:
کیا ہو رہا ہے۔
عالیہ:
داخلے کا کیا بنا۔
جنید:
ماشاءاللہ ہوجائے گا اور انکل بھی آفس چلے گئے۔
مریم:
خالہ چائے پییں گی بنا دوں۔
رافیہ بیگم:
بنا دو بیٹی
عالیہ:
آپی کل میں مریم کے تایا کے گھر جانا چاہتی ہوں۔
سلیم بھائ سے کہیں گھر فائنل کر دیں۔۔۔عدیل کے آنے تک سیٹ کر لیں۔
رافیہ بیگم:
سہی ہے کل چلی جانا۔۔۔
اگلے دن فرح، مریم، جنید سب اپنے تایا کے گھر گئے۔
آصف ان کے گھر چھوڑ کر واپس آ گیا۔دروازہ کافی دیر سے کھلا اور عالیہ کی جیٹھانی نے گیٹ کھولا۔وہ حیرت سے سب کی طرف دیکھنے لگیں۔بولی نہ کوئی خیر نہ خبر اور یوں اچانک لگتا ہے کافی دنوں سے آئ ہوئ ہو۔
عالیہ:
بھابھی! السلام عليكم
ہاں ہاں،وعلیکم السلام
سب سلام دعا کرنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہوئے۔۔۔گھر کافی خوبصورت لگ رہا تھا۔دوپہر کے چار بج رہے تھے۔
فرح:
تائ امی تایا ابو کہاں ہیں۔
رضیا تائ:
اپنے کمرے میں ہیں۔بیٹھ جاؤ بلا کر لاتی ہوں۔
مریم:
ماما یہ تو ہمیں کہیں جانے بھی نہ دیں گی۔وہ کہہ رہی ہیں ادھر ہی بیٹھ جاو۔
عالیہ :
مریم کوئ بات نہیں بڑی ہیں۔کیا پتہ کیا کر رہے ہیں۔
فرح:
سہی کہا ماما سو رہے ہوں گے۔
عامر صاحب :
السلام عليكم!
وعلیکم السلام!
کیسے ہو عدیل کہاں ہے۔جنید میرے بیٹے کیسے ہو۔ماشاءاللہ سب کتنے بڑے ہو گئے ہیں۔
سب تایا سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ہم پاکستان شفٹ ہو گئے ہیں۔پاپا بھی آجائیں گے انشاءاللہ جنید بھی ایک ہی سانس میں شروع ہو گیا۔تایا ابو آپ کو ہمارے آنے کی خوشی ہوئ ہے پر تائ امی کچھ بجھی سی لگ رہی ہیں وہ ہمارے آنے سے خوش نہیں۔
عامر صاحب:
مسکراتے ہوئے تمھاری تائ امی ہمارے ساتھ بھی ایسے ہی ہیں یہ پریشانی کی بات نہیں ۔۔۔عدیل کب تک آئے گا۔
عالیہ:
ایک، ڈیڑھ مہینے تک آ جائیں گے۔آپ کی طبیعت کیسی ہے۔بچے کہاں ہیں۔
رضا بیگم:
چائے پیو گے یاکھانے کا بندوبست کروں۔
عامر صاحب :
رضیا کیسی باتیں کرتی ہو پہلے چائے کا انتظام کرو، پھر کھانا پکاؤ۔بلکہ باہر کھانا کھانے چلتے ہیں ۔چائے بناؤ۔
عالیہ بیگم:
بھابھی کھانے کی ضرورت نہیں بس چائے بنا دیں پھر کبھی آئیں گے۔
عامر صاحب :
کدھر جا رہے ہو یہ تم لوگوں کا گھر ہے۔ادھر ہی رہو۔تمھارا سامان بھی اوپر کمروں میں ہے۔
مریم:
میری ماما کا سامان
عامر صاحب :
جاؤ اوپر جا کر دیکھ لو۔۔۔بس ادھر رہو، کہیں نہیں جانا میں نماز پڑھ لوں تم لوگ اوپر دیکھ آؤ۔تب تک بچے بھی آجائیں گے۔
فرح، مریم خوش واہ امی چلیں آپ بھی، اتنے میں فاطمہ آ گئ۔