چھوٹا سا گھر لیکن مکمل گھر، رافیہ بیگم صبح اٹھ کر سب کو نماز کے لیے آواز دیتی ہیں. اٹھ جاو نماز کا وقت ہو گیا۔
کرن:امی اٹھ گئ ہوں۔
السلام علیکم :امی وعليكم السلام بیٹا بھائ کو دیکھ لو اٹھا ہے یا نہیں
اچھا امی
کرن:اٹھ جاو بھائ آج ابو سے مار کھانے کا ارادہ ہے۔
آصف: کیا
ہڑ بڑا کر ابو چلے گئے ۔جی جناب چلے گئے. واپس آتے ہی ہوں گے ۔اوہو دیر کروا دی۔۔۔
آصف جلدی سے بستر سے اٹھ کر باتھ روم چلا جاتا ہے۔ پھرنماز پڑھتا ہے۔ قرآنِ پاک پڑھنا شروع ہی کرتا ہے۔ سلیم صاحب آ جاتے ہیں۔
سلیم:صاحب اندر آتے ہی برخوردار اٹھ گئے۔
جی ابو
سلیم صاحب :بیٹا جلدی اٹھ جایا کرو یہ مسجد آپ لوگوں کے لیے ہی بنائ ہے۔ مرد وہاں جا کر نماز ادا کریں۔
آصف:جی ابو
سلیم صاحب :بس جی، سے کام چلایا کرو اور مسکرا دیتے ہیں اور اپنے کمرے میں جاتے ہوئے، کرن بیٹا چائے دے دو۔
کرن:لا رہی ہوں
رافیہ بیگم:خالی پیٹ چائے نہ پیا کریں کتنی بار سمجھایا ہے۔
سلیم صاحب :چائے نہیں Bed tea ہے۔
رافیہ بیگم:بس انگریزوں کے چونچلے ہیں ۔
سلیم صاحب چلیں کچھ بھی سمجھ لیں۔
کرن:ابو آپ کی چائے۔
سلیم صاحب :آج کالج نہیں جانا
رافیہ بیگم :جائے گی ! نو بجے کلاس شروع ہوتی ہے اس کی، اور آصف نے بھی یونیورسٹی جانا ہے۔اس کو تو نیند ہی بہت آتی ہے۔ذرا موقع لگا نہیں اور یہ سو جاتے ہیں۔
سلیم صاحب :بس سُست ہوتا جارہا ہے۔چلو خیر آج کیا بنا رہی ہیں ۔
کرن: چھٹ سے بولی حلوہ پوری اور چنے کل بنائے تھے ۔
سلیم صاحب: واہ کیا بات یے ،کس کی فرمائش ہے۔
کرن:
ابو بھائ کی، کتنے دنوں سے کہہ رہا تھا۔میں نے سوچا آج بنا ہی دوں ۔آج اس کے لیے سرپرائیز ہے۔ابو آپ نے کچھ اور کھانا ہے تو بتا دیں۔
سلیم صاحب: نہیں جو ہے کھا لیں گے چائے گرما گرم دینا۔۔۔مسکراتے ہوئے۔میں قرآن مجید پڑھ لوں آج تم لوگوں نے باتوں میں لگا دیا۔
رافیہ بیگم :ہماری باتیں تو آپ کو پسند ہی نہیں آتی۔کچھ بھی کہہ لو کرنی اپنی مرضی ہوتی ہے۔چلیں خیر ۔۔۔
آصف :
آج آپ نے سونے نہیں دیا امی جان،
اٹھ گیا میرا بچہ، شکر ہے شور سے جناب اٹھ گئے ورنہ تو ہمارا بیٹے کی آنکھ تو دھماکے سے بھی نہیں کھولتی، آج کیسے کھول گئ۔کس چیز کا کمال ہے میرے لال؟
امی جان یہ آپ کی آواز کا کمال ہے ۔کرن ناشتہ بن گیا ہے تو دے دو، امی تو آج بڑے غصے میں ہیں۔
کرن
مسکراتے ہوئے آج ناشتے کی بھائ چھٹی ہے۔
آصف:
چھٹی ہے تو کچن میں کیا کررہی ہو۔لگتا ہے آج ہر چیز کی چھٹی ہے۔ابو کہاں ہیں۔خاموشی ہے
رافیہ بیگم :لے اتنی باتیں سنا کر گئے ہیں، لگتا ہے میری ہی سب کو آواز آتی ہے اپنے ابو کی نہیں ۔
آصف:
سویٹ سے تو ابو جان ہیں۔آپ ایسے ہی ۔۔۔او ہو امی مذاق کر رہاتھا۔چھوڑیں آج مجھے جلدی جانا ہے
کرن:
آ جائیں سب ناشتہ تیار ہے۔
آصف:
ہیں، یہ کیا ابھی تو چھٹی تھی ختم کیسے ہوئ۔۔۔واہ حلوہ پوری، آج تو کمال کر دیا کرن، ابو امی آ جائیں ٹھنڈی ہو جائیں گی میں تو کھانے لگا ہوں۔ واہ جی واہ کیا ! ماشاءاللہ اس لیے کہا ہے وقتاً فوقتاً پکاتی رہو۔ابو آ بھی جائیں
سلیم صاحب
یار بہت شور کرتے ہو آرہا ہوں۔کرن تم بھی کھا لو ۔نہیں چائے تو دے دو ساتھ پھر آنا ۔