پھپھو رحمت:
ان کے گھر میں ہنگامہ برپا تھا۔سب نے اپنا اپنا شور کر رکھا تھا۔بات پکی کرنے میں جاوں گا ۔کوئ کچھ کہ رہا تھا۔ایک ہی آواز آئ سارا گھر خاموش ہو گیا۔جمیل صاحب ان لوگوں کو چپ کرا لیں. پرے گھر میں ادھم مچا رکھا ہے ذرا جو تمیز ہو۔بڑے چھوٹے کا کوئی لحاظ ہی نہیں، ایک یہ صدف پاگل کر دے گی سب کو، کرن سے ہی کچھ سیکھ، اور کھینچ کر اپنی چپل اس کی طرف مارتی ہیں اور وہ سیدھی اصغر کو لگتی ہے۔۔۔ارے او نکمے تم کدھر پیچ میں چلتے آ جاتے ہو ٹیک کے نہیں بیٹھ سکتے۔
اصغر :
اماں تم ہمیشہ مجھے ہی مارا کرو۔
صدف:
تالیاں بجاتے ہوئے، میں تو بچ گئ۔
پھ۔۔۔رحمت:
اس لڑکی کا تو دماغ خراب ہے،
صدف:
ہر وقت اماں کرن کی تعریفوں کے پل باندھتی رہتی ہے۔میری تو کوئی بات پسند ہی نہیں آتی ماموں'ممانی کتنے پیار سے بات کرتے ہیں۔اماں ہر وقت ڈانٹتی ہی رہتی ہے۔
جمیل صاحب :
اتنے میں بولے سہی کہا۔رحمت نام ہی ہے تمھارا، پر اثرات نہیں ہیں نام کے، بچی نے سہی اندازہ لگایا ہے۔
پھ.۔۔رحمت
یہ آپ کی ہی وجہ سے بگڑی ہے۔سر پر چڑھا رکھا ہے۔اف کیا بنے گا اس کا زبان قینچی کی طرح چلتی ہے۔
اشرف:
آپ سب لڑ لو میں جا رہا ہوں۔۔۔خود ہی شادی کر لوں گا۔میں جا رہا ہوں۔۔۔
پھ. رحمت:
ارے سن میرا بچہ، رک جا، باقی سب کو چھوڑ تم بتاو کب جانا ہے ۔دیکھ کچھ لے کر بھی جائیں گے خالی ہاتھ تو جانا نہیں.
اشرف:
ہاں یہ ہی تو میں کہہ رہا ہوں۔اس صدف کو گھر میں ہی رہنے دینا۔رشتہ تو میرا ہے اصغر کا بھی کوئ کام نہیں .
اصغر:
میں تو چلا شادی پر بھی میرا کیا کام؟ میں اور صدف شادی پر بھی نہیں جائیں گے ۔
رحمت بیگم:
اپنے بچوں کے شور سے تنگ آ کر کہنے لگی پہاڑ میں جائے یہ شادی۔۔۔اشرف اس طرح کر نکاح کر کے لے آ۔۔۔میں اور تیرے ابا کی بھی کیا ضرورت۔۔۔اٹھ کر کمرے میں چلی جاتی ہیں۔
جمیل صاحب:
کہاں چلی، چلو میں بھی چلتا ہوں۔تم لوگوں کی فضول باتوں نے مجھے بھی تھکا دیا ہے۔عقل نام کی چیز ایک میں بھی نہیں،اس اولاد نے تو حد کر دی۔
صدف:
میں نے نہیں جانا تو کسی نے نہیں جانا۔۔۔ایک نعرے کی آواز آتی ہے۔
رحمت بیگم :
اس اولاد کا کیا کروں۔پھر اشرف کو آواز دیتی ہیں۔
وہ بھی بھاگا۔۔۔آتا ہے۔دیکھ میرے بچے،تیرا ابا اور میں، یعنی تمھاری ماں ،صدف اور ماموں ممانی جائیں گے۔تم اور اصغر گھر میں رہنا۔لڑکی تم نے دیکھی ہے۔اچھا نہیں لگتا لڑکے کو بھی اٹھا کر لے چلیں۔ پہلے ہم جاتے ہیں مٹھائ لے کر پھر وہ آئیں گے۔سہی اب پیسے دے دو کپڑے بنوا لوں ۔اپنے لیے،ایسے ہی تو نہیں منہ اٹھا کر چلے جانا.کیا سمجھا،سمجھ آئ یا نہیں ہو گا یہی جو میں نے کہہ دیا۔کل نہیں پرسوں کی تیاری پکڑ ،سلیم کو بھی بتانا ہے۔چل اٹھ اور جا آرام کر۔
اشرف:
اچھا ٹھیک ہے اماں!
اصغر:
بھائ مبارک ہو کچھ تو بات بن گئ۔اور مسکراتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے۔۔۔
جمیل صاحب :
واہ! رحمت بڑی عقل کی بات کی۔
رحمت بیگم :
سو جائیں اور بھی بڑے کام ہیں۔کل کی کل ہی دیکھیں گے۔صدف کہیں غائب ہو گئی ہے۔بس یہ موبائل لے ڈوبا ہے بچوں کو۔۔۔چلو خیر۔