آصف:
السلام عليكم :
وعلیکم السلام : چھوڑ آئے کیا کہہ رہی تھیں۔اشرف بھائ کو پہلے ہی کوئ لڑکی پسند ہے۔وہ اپنی پسند سےشادی کریں گے۔اورآپ کے میکے والوں کا پوچھ رہی تھیں۔کبھی کوئی آیا نہیں ،میں نے عالیہ خالہ کا بتایا ۔ان کا فون آتا رہتا ہے۔
رافیہ بیگم:
آج کیسے میرے میکے والوں کا خیال آ گیا ان کو، چلو خیر آرام کرو اور وقت پر سو جاو صبح اٹھتے نہیں۔
آصف:
ابو سو گئےاور کرن،
رافیہ بیگم:
ہاں ! سو گئے اور کرن اپنے کمرے میں ہے۔اب فالتو کی باتیں نہ بنانا سو جاؤ۔
آصف:
جی امی، کرن کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔کرن سو رہی ہو
کرن:
آجائیں بھائ۔۔۔پھپھو نے خوب باتیں سنائ ہوں گی۔
آصف:
باتیں کیا سنانی ہیں۔شکر کرو بچ گئ۔۔۔اشرف بھائ کو لڑکی پسند ہے۔اس سے شادی کریں گی۔
کرن:
اچھا ! پھپھو تو بہت سخت طبیعت کی ہیں۔یہ کیسے ہوا۔آپ کو تو لڑکی پسند نہیں آگئ۔ابھی سے امی کو بتا دیں۔کل امی نے لڑکی پسند کر لی تو پھر نہ کہنا۔آپ بھی اپنی خیر منائیں اشرف بھائ کے بعد آپ کی ہی باری ہے۔
آصف:
کرن تم باتیں بہت کرتی ہو۔جب ہو گی تو بتاو گا۔ ابھی سو جاو۔۔۔نکمی لڑکی
کرن:
سہی ہے۔یہ نکمی ہی کام آتی ہے ضرورت پڑھنے پر۔۔۔ہاہاہا
آصف:
شب بخیر، اور اپنے کمرے میں آجاتا ہے۔بستر ہر لیٹتے ہی اسے صدف کا خیال آتا ہے۔ نہیں اس سے شادی، کبھی نہیں، ایسی دھماکا ہے ۔اب میری ہی شامت نہ آ جائے ۔میں امی کو صبح ہی بتا دیتا ہوں۔ان کا کچھ پتا نہیں ۔۔۔یہی سوچتے سوچتے وہ نیند کی وادیوں میں چلا جاتاہے۔
رافیہ بیگم:
کی آنکھ کھولتی ہے۔تو دیکھتی ہیں آصف کے کمرے کی لائٹ آن ہے۔بیٹا کیا ہوا آج بڑی جلدی اٹھ گئے۔جی امی بس جلدی آنکھ کھل گئی ۔پریشانی یا کل کی ڈانٹ کی وجہ سے۔۔۔
آصف:
امی میں کبھی بھی صدف سے شادی نہیں کروں گا۔یہ نہ ہو کے پھپھو کے کہنے پر آپ لوگ مان جائیں ۔رافیہ بیگم:
سوچتے ہوئے۔بیٹے یہ قسمت کے کھیل ہوتے ہیں۔میرا بیٹے کے لیے بہتر نہیں ہے تو انشاءاللہ نہیں ہوگا۔ہماری قسمت ہمیں کہاں لے جائے کچھ خبر نہیں بعض دفعہ ہم کسی چیز کو اپنے لیے اچھا سمجھ رہے ہوتے ہیں پر وہ ہمارے لیے سہی نہیں، ایسی طرح کچھ چیزوں سے دور بھاگ رہے ہوتے ہیں ۔لیکن اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہوتا ہے۔اس میں ہی ہمارے لیے بہتری ہو۔اب اتنے پریشان نہ ہو ۔جاو مسجد میں اللہ سے دعا کرو سب اچھا ہو گا۔انشاءاللہ
آصف:
امی آپ نے میری پریشانی ہی ختم کر دی میں بلاوجہ پریشان ہو رہا تھا۔شکریہ امی۔
سلیم صاحب :
آج ماں بیٹے میں بڑی باتیں ہو رہی ہیں۔اٹھو جناب میں جانے لگا ہوں۔
آصف:
بس ابو ٹوپی لے لوں۔۔۔جلدی سے ۔۔۔راستے میں ابو آپ کے آفس سہی جا رہا ہے۔۔۔
سلیم صاحب :
جی جناب۔۔۔تمھاری پڑھائی سہی جا رہی ہے ۔اب تم نے ہی گھر سنبھالنا ہے۔ہم تو اب بوڑھے ہو گئے اللہ اللہ کریں۔
اتنے میں مسجد آگئ دونوں نے نماز پڑھی
بس دن ایسے ہی گزرتے گئے۔