سولھواں حصہ

5 2 0
                                    

نماز پڑھ کر باپ بیٹا نکلے ہی تھےکہ فلائٹ آ گئی پھر بھی نکلتے کافی وقت لگ گیا۔عالیہ کے ساتھ ان کی دونوں بیٹیاں اور بیٹا بھی تھا۔بچے اب بڑے ہو گئے تھے۔
عالیہ:
السلام عليكم :
کیسے ہو آصف ماشاءاللہ بہت بڑے ہو گئے۔سلیم بھائ آپی نہیں آئیں۔
سلیم صاحب :
وعلیکم السلام :
آپی گھر پر ہیں۔بچے کہاں ہیں۔
عالیہ :
آرہے ہیں۔سامان لے کر آتے ہی ہوں گے۔اتنے عرصے بعد  اپنے ملک پاکستان کو  دیکھا دل کو سکون آگیا۔فرح، مریم اور جنید یہ لو وہ بھی آگئے۔
سلیم صاحب :
ماشاءاللہ بہت بڑے ہو گئے ہیں۔
سب ایک دوسرے کو سلام دعا کے بعد گاڑیوں میں بیٹھتے ہیں۔ضروری سامان لے لیتے ہیں اور باقی سامان کل ملنا تھا۔آصف اور عالیہ دوسری گاڑی  میں بیٹھ گئے۔جب کے بچیاں اور جنید سلیم صاحب  کے ساتھ بیٹھ گئے۔ عالیہ کرن کیسی ہو گئ ہے۔آصف  خالہ خود ہی جا کر دیکھ لیجیئے گا ۔اتنے میں گھر پہنچ گئے۔
سلیم صاحب :
فون کر کے رافیہ گیٹ کھولو بس پہنچ گئے۔
کرن:
بھاگی بھاگی گیٹ کی طرف لپکی۔۔۔السلام علیکم خالہ
عالیہ :
وعلیکم السلام :
خالہ کی جان کیسی ہو۔
سب ایک دوسرے سے مل کر بے انتہا خوش ہوتے ہیں۔ فرح تھوڑی  خاموش طبع تھی۔جبکہ مریم مسلسل بول رہی تھی۔جنید بھی کم ہی بول رہا تھا۔رافیہ بیگم ۔۔۔عالیہ کو دیکھ کر زاروقطار رونے لگیں۔
سلیم صاحب :
رافیہ بیگم سمجھ رہے ہوں گے بہت ظلم ہو رہا ہے آپ پر ۔۔۔
عالیہ :
بھائ کوئ بات نہیں اب ہم پاکستان ہی آگئے ہیں۔آپی کھانا کیا پکایا ہے ۔بہت بھوک لگ رہی ہے۔
رافیہ :
کرن بہنوں کو اپنے کمرے میں لے جاو۔آصف جنید کو آپ لے جاو منہ ہاتھ دھو لو جب تک کھانا لگتا ہے۔سلیم صاحب آپ گیسٹ روم میں جائیں۔
عالیہ:
رافیہ آپی بھائ کو کیوں تنگ کرتی ہیں۔گیسٹ روم میں سو جاوں گی۔تم بھی وہی آ جاو۔
رافیہ بیگم:
ٹھیک ہے۔تم گیسٹ روم میں اپنا سامان بھی سیٹ کر لینا۔سہی ہے
آصف:
جنید تم بہت ہی کم پاکستان آئے ہو۔کیسا لگا۔
جنید:
سہی کہا ، ان شاءاللہ یہی اب رہنا ہے۔۔۔ نماز پڑھنی ہے۔کعبہ کس طرف ہے۔
آصف:
جائے نماز ڈال کر دیتا ہے۔ ماشاءاللہ ،کسر نماز ہو گی تمھاری ۔۔۔
جنید:
جی بھائی ۔۔۔
کرن:
فرح یہ آپ کا کمرہ ہے۔آپ لوگ فریش ہو جائیں۔میں کھانا لگاتی ہوں ۔
مریم:
میں بعد میں چائے بھی پیوں گی۔
کرن:
ضرور
فرح:
کبھی خاموش بھی رہا کرو۔نماز پڑھ لو،
کرن:
کوئ بات نہیں ۔
فرح میں بھی کرن آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔
دونوں مل کر کھانا لگاتی ہیں۔سب آجاتے ہیں۔رابعہ
بیگم اپنی بہن کے آ جانے سے بہت خوش ہوتی ہیں۔فرح، کرن سے بڑی ہے۔جب کے مریم چھوٹی ہے۔
سلیم صاحب :
بچوں کیسا لگا پاکستان ؟
ایک دم سے لائٹ چلی گئ۔سب ہنسنے لگے۔
آصف:
لگتاہے سوال غلط وقت پر پوچھ لیا۔
کرن:
عالیہ خالہ آپ کو انگلینڈ چھوڑ نے کا دکھ نہیں ہوا۔
عالیہ :
ہوا تو تھا۔۔۔سب سے دور رہنا بھی کوئی زندگی ہے۔۔۔اپنا ملک تو اپنا ہوتا ہے۔
آصف:
یہ بات تو سولہ آنے سہی کہی خالہ
مریم:
سولہ آنے کیا ہے۔
رابعہ بیگم:
کس نے چائے پینی ہے۔
آصف:
وہ خود جا کر بنا لے۔
ہا ہا ہا
کرن:
بھائ بس کریں۔۔۔سب کے لیے چائے آپ ہی بنا کر لائیں۔۔۔
یہ کونسا مشکل کام ہے میں بنا دیتا ہوں۔
سلیم صاحب :
فرح بیٹی چائے بنائے، آصف تم عالیہ کے ساتھ سامان اٹھا لو۔۔۔جنید آپ بھی مدد کروا دو۔
کرن اور فرح کچن میں چلی جاتی ہیں۔۔۔مریم بھی رابعہ بیگم کے ساتھ بستر نکلوانے۔۔۔منٹوں میں سب کام ختم ہو گیا۔۔۔سب کی چائے بھی آگئ۔
سلیم صاحب :
ماشاءاللہ چائے تو بہت اچھی بنائ ہے۔کل مریم بنائے گی۔۔۔
مریم:
جی ضرور خالو۔۔۔
رابعہ بیگم:
عالیہ بہت یاد آتی تھی۔۔۔اتنے سال گزر گئے۔وہاں کوئ پریشانی تھی جو پاکستان واپس آئے ہو۔
عالیہ:
پریشانی تو نہیں تھی۔پرائے دیس میں مرجائیں تو کوئ پوچھنے والا بھی نہ ہو۔بچوں کو دین کی طرف  راغب کرنا ایک مشکل سفر تھا۔بچوں کے رشتوں کے مسائل، بچوں کو معلوم ہی نہ ہو ہم کیا ہیں۔نسلیں برباد کرنے والی بات ہوئ۔دولت تو انسان  اکھٹی کر لیتا ہے پر اپنے آپ کو بھلا دیتا ہے۔۔۔بچوں کے مستقبل کے لیے واپس آ گئے۔
رابعہ:
سہی کہا، بہت  اچھا کیا واپس آ گئ۔
عالیہ:
ابھی اچھا سا گھر مل جائے ۔تاکہ شفٹ ہو جائیں ۔

روشنی کی کرن Where stories live. Discover now