انیسواں حصہ

4 2 0
                                    

رافیہ بیگم:
کرن کدھر تھی ۔فرح اکیلی ہی کام کر رہی تھی۔
فرح:
خالہ کوئ بات نہیں، آپ لوگ کہاں گئے تھے۔
رافیہ بیگم:
مارکیٹ تک گئے تھے۔قریب ہی ہے بچوں نے کچھ چیزیں لیں ہیں۔تمھارے لیے سلیم صاحب نے بکس لیں ہیں۔گھر کا کچھ سامان ہے۔۔۔تم لوگ اگر باہر جانا چاہتے ہو تو ابھی آصف کو ساتھ لے کر چلی جاؤ۔
فرح:
خالہ نہیں پھر کبھی، میری کتابیں کہاں ہیں۔بیٹا آصف سے پوچھو کہاں رکھی ہیں۔
کرن:
شکریہ فرح میں سوگئ تھی۔آپ نے اتنا کام کیا۔۔۔
فرح:
میری بہن کیا ہوا۔اپنے گھر میں بھی کرتے تھے۔
عالیہ:
مریم ادھر آو۔۔۔یہ سامان کمرے میں رکھ دو۔
رافیہ بیگم:
اس کو کیوں بلا رہی ہو آصف لے جاتا ہے۔آصف خالہ کا سامان کمرے میں رکھ دو اور جاو آرام کرو۔
آصف:
جی امی
عالیہ :
آصف کہیں گھر کا بھی پتہ کرو۔عدیل بھی آ جائیں گے۔میں چاہتی ہوں جلدی سے گھر کا مسئلہ حل ہو جائے۔
آصف:
انشاءاللہ ہو جائے گا خالہ آپ فکر کیوں کرتی ہیں۔
رافیہ بیگم:
عالیہ کیا ہو گیا ہے۔صبر سے کام لو۔ہو جائیں گے سب کام۔۔۔
عالیہ:
بس عدیل بھی چاہ رہے تھے اس لیے بچے سب سیٹ ہو جائیں تو ہی سکون ملے گا۔
سلیم صاحب :
رافیہ بیگم میں نے کل بات کی تھی پراپرٹی ڈیلر سے ،وہ پوچھ رہاتھا کس قسم کا گھر چاہتے ہیں۔کتنے مرلہ گھر ہو۔نیا ،پرانا کس قسم کا ہو۔
عالیہ :
بھائ ریٹ کا پتہ ہو تو ہی بتا سکتے ہیں۔کس حساب سے لیں۔
سلیم صاحب :
کل پھر تیار ہو جاؤ رافیہ، آصف تم بھی تیار ہو جانا۔۔۔میں فون کر کےپوچھتاہوں۔
فرح:
کرن مجھے بتاو کیا کرناہے۔میں کر دیتی ہوں۔
کرن:
فرح باجی اب آپ آرام کریں میں کر لیتی ہوں دن میں کافی کام کر لیا۔
مریم:
یہ کیاباتیں ہو رہی ہیں میرے بغیر ۔۔۔فرح جاؤ بیٹھو اب میں کام کرواتی ہوں کرن کے ساتھ
فرح:
چلو جی سہی ہے۔تم دونوں کرو کام ہم کرتے ہیں آرام
مریم:
جی بالکل، کرن کیا پکانا ہے۔
کرن:
جو تمھارا دل کرے۔۔۔
مریم :
دال اور چاول
کرن :
ٹھیک ہے۔سالن میں بناتی ہوں تم بعد میں چاول بوائل کر لینا۔۔۔
مریم:
نہیں جناب! آپ اپنا سامان سمیٹ کر جائیں میں خود پکاو گی سب۔۔۔
کرن:
چائے تو بنانے دو۔۔۔
مریم:
اچھا اجازت ہے۔
سب کوچائے دے کر کرن اپنے کمرے میں پڑھنے چلی جاتی ہے۔
رافیہ بیگم :
یہ کیا مریم پکا رہی ہو۔کرن کہاں گئ۔اتنی گرمی میں کام کر رہی ہو میری بچی۔
مریم:
خالہ میں اپنی مرضی سے کر رہی ہوں۔آپ کو برا لگا
رافیہ بیگم:
نہیں، لڑکیاں کام کرتی اچھی لگتی ہیں پر تم لوگ کہاں گرمی کی عادی ہو۔اس لیے کہہ رہی تھی۔
مریم:
خالہ فکر نہ کریں۔اپنے ملک کی گرمی بھی اچھی
عالیہ:
ماشاءاللہ!
رافیہ بیگم :
میری ماشاءاللہ تین بیٹیاں ہیں اب
عالیہ:
باجی۔۔۔سہی کہا آپ نے
رات کو سب کھانا کھاتے ہیں۔
سلیم صاحب :
بہت ذائقہ ہے فرح کے ہاتھ میں
مریم:
خالو ! یہ میں نے پکایا ہے۔سب فرح ہی کی تعریف کرتے ہیں۔
سلیم صاحب:
واہ جی۔۔۔ مریم بھی کام کر لیتی ہے۔میری غلط فہمی دور ہو گئ۔۔۔میں سمجھتا تھا یہ بچی صرف باتیں ہی بناتی ہے۔ ماشاءاللہ بہت اچھا کھانا بنایا ہے۔
سب نے ہی تعریف کی۔۔۔کھانا کھانے کے بعد سب اپنے کمرے میں چلے گئے۔
کرن:
جب آپ اپنے گھر چلے جائیں گے میں تو اداس ہو جاوں گی۔ نئے گھر میں جانے کی کیا ضرورت ہے۔یہی رہ جاو۔
مریم:
یہ تو ہے۔مگر جانا تو ہو گا۔
فرح:
ہاں! جانا تو ہے ہی۔۔۔سب نے شادی کے بعد اپنے اپنے گھر
مریم:
باجی بھی نہ کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہیں۔
کرن:
کہا تو سچ ہے۔مسکراتے ہوئے
فرح:
باتیں کم کرو اور سو جاو دونوں ۔۔۔اپنی بک پڑھ لوں۔۔۔تم دونوں کی کہانیاں مجھے کتاب پڑھنے ہی نہیں دے رہی۔۔۔
مریم:
کرن ہم گوشے سے باتیں کرتی ہیں۔ہی ہی ہی۔۔۔۔۔
کرن اور فرح ہنسنے لگی۔اتنے میں رابعہ بیگم بھی آ جاتی ہیں، ماشاءاللہ کس بات پر ہنسا جا رہا ہے۔
مریم :
خالہ ویسے ہی ۔۔۔
رابعہ بیگم:
اب سو جاو، کل گھر دیکھنے کے لیے بھی جانا ہے۔ویسے شام کو جانا تھا پر اب صبح جانا ہو گا۔فرح بھی ساتھ جائے گی۔جنید، مریم گھر پر رہیں گے۔کرن آپ نے کالج جانا ہو گا۔
کرن :
جی امی مجھے تو جانا ہے۔ ٹھیک ہے سو جاؤ۔اور جاتے جاتے لائٹ بند کر دیتیں ہیں۔
مریم :
چلو جی؛ خالہ نے یہ کام تو اچھا کیا۔۔۔
فرح:
اب تو فرح بھی ہنسنے لگی۔۔۔
پھر سب باتیں کرتی کرتی سو گئ۔
عالیہ:
رابعہ ہم یہاں سیٹ ہو جائیں گے بچے بھی
رابعہ بیگم:
انشاءاللہ۔۔۔کیوں نہیں سب کام اچھے ہو جائیں گے فکر نہ کرو۔۔۔گھر دیکھ لو ۔۔۔کتنا بڑا ہونا چاہیے۔۔۔
عالیہ:
گھر بہت بڑا نہ ہو ضرورت کے حساب سے ہو۔ کالج، مسجد قریب ہوں۔ عدیل کہہ رہے تھے۔چھوٹا ہو ۔۔۔ابھی سامان بھی تو لینا ہو گا وہاں کی چیزیں تو وہی رہ گئ۔۔۔
رابعہ بیگم:
میری پیاری بہن کچھ بھی ضرورت ہو مجھ سے لے لینا۔۔۔پریشان نہیں ہو۔۔۔عدیل نے کب تک آنا ہے۔
عالیہ:
ایک مہینے کا کہا تھا اب دیکھیں کب تک آتے ہیں۔
رابعہ بیگم:
اچھا کیا آگئ۔ہم دو بہنوں کے علاوہ ہے۔ کون میں خود پریشان رہتی تھی تمھارے بغیر کیا تمھیں میری یاد نہیں آتی تھی۔
عالیہ:
کیوں نہیں ۔۔۔بہت یاد آتی تھی۔اپنے سسرال بھی جانا ہے۔ ابھی ان کو نہیں بتایا۔۔۔عدیل کے بڑےبھائ کہہ رہے تھے ادھر آ جانا۔۔۔عدیل کے بغیر جا کر کیا کروں گی۔
رابعہ بیگم:
چکر لگا لینا ان لوگوں کا بھی پتہ چل جائے گا ۔ان کے گھر میں کیا حساب کتاب ہے۔رشتوں کو توڑنا نہیں چاہے۔ تمھارا سامان بھی ہے وہاں امی نے کتنے پیار سے تمھیں بنا کر دیا تھا۔ تم نے کچھ بھی استعمال بھی نہیں کیا۔اتنے وقت میں بہت کچھ بدل گیا ہو گا۔
عالیہ:
سہی کہا آپ نے، سوچوں گی۔۔۔اللہ کرے بدل گیا ہو۔انشاءاللہ
رابعہ بیگم :
کلمہ پڑھو اور سوجاو ۔۔۔

روشنی کی کرن Where stories live. Discover now