گھر کی بل بجی
رضا بیگم:
اس وقت کون ہے۔کون ہے
عالیہ:
بھابھی دروازہ کھولیں۔
رضا بیگم:
اچھا آ رہی ہوں۔فاطمہ جلدی سے چیزیں سمیٹو ۔۔۔صبح صبح ہی آ دھمکی ہے۔بتا کرتو آتی۔السلام عليكم!
وعلیکم السلام!
رضیا بیگم:
ہم تو انتظار ہی کرتے رہے اور تم اتنے دنوں بعد اچانک آگئ۔آج تو عامر صاحب بھی ڈیوٹی پر گئے ہیں۔خیر ہے آ جاو اندر۔
آصف:
خالہ میں مارکیٹ سے کارٹن لے آتا ہوں۔آپ اتنی دیر چیزیں دیکھ لیں۔
عالیہ:
ہاں ٹھیک ہےجلدی جاؤ۔
رضیا بیگم:
چائے پیو گی.
فرح:
تائی جان ہم ابھی چائے پی کر آئیں ہیں۔شکریہ
ابھی اپنا سامان سمٹ لیں۔اگر آپ کی اجازت ہو۔
رضا بیگم:
اجازت کی کیا ضرورت یہ تم لوگوں کا اپنا گھر ہے۔چلی جاؤ۔فاطمہ آپی کو لے جاؤ۔
مریم:
فاطمہ سکول نہیں گئ۔
فاطمہ:
آج میں نے چھٹی کی ہے۔گیمز چل رہی ہیں ہمارے سکول میں اس لیے۔۔۔
عالیہ:
آپ نے کسی چیز میں حصہ نہیں لیا۔
فاطمہ:
چچی جان نہیں
فرح:
اچھا ہے ورنہ ہماری ملاقات کیسے ہوتی۔
فاطمہ:
آپی یہ بات سہی کہی آپ نےاور مسکرا نے لگتی ہے۔آج میں بہت خوش ہوں میری بھی کوئ چھوٹی بہن نہ سہی بڑی تو ہے۔
مریم:
مجھے بھی چھوٹی بہن مل گئی ۔۔۔واہ کیا بات ہے نا
فرح:
ماما کہاں سے کام شروع کریں۔سمجھ ہی نہیں آرہی۔فاطمہ پرانا کپڑا لا دو۔صفائ کے لیے۔
فاطمہ:
جلدی سے کپڑا دیتی ہے۔آپی میں بھی مدد کروں۔
مریم:
ضرور
سب باتیں کر رہے تھے ۔کام بھی اور سب مسلسل ہنس رہے تھے۔
رضیا بیگم :
کام ہو رہا ہے یاہنس رہے ہو۔
مریم:
تائی جان دونوں کام ساتھ ساتھ
رضا بیگم:
یہ بھی سہی بات ہے۔کھانے میں کیا پسند ہے۔
عالیہ۔۔۔
عالیہ:
جو بھی مل جائے سب کھا لیتے ہیں۔میرے بچے بھی ایسے ہی ہیں۔
رضیا بیگم:
ادھر تو نخرے بہت ہیں۔
عالیہ:
ماما کو تنگ کرتی ہو۔
فاطمہ:
علی بھائی کرتا ہے۔ میں تو کم ہی کرتی ہوں۔
عالیہ:
والدین کو کبھی تنگ نہیں کرتے ان کا خیال کرتے ہیں۔
فاطمہ:
جی
فرح:
تائی جان آپ کو مدد کی ضرورت ہے تو بتائیں ۔
رضا بیگم:
کا لہجہ اس بار نرم تھا۔ نہیں میں کر لوں گی۔اتنے میں گھنٹی کی آواز آئی فاطمہ بھاک کر نیچے جاتی یے۔سکینہ ان کی کام کرنے والی تھی۔شور مچاتے ہو ئے۔جلدی سے کام کروا لیں مجھے فوتگی پے جانا ہے۔باجی مہمان آئے نے۔۔۔
رضیا بیگم:
تم کو کیسے معلوم ہوا۔۔۔
سکینہ:
باجی آوازاں توں۔۔۔اے وی کوئ پوچھن والی گل اے۔
کون نے۔۔۔ویسے
رضیا بیگم:
میری دیورانی اور اس کے بچے۔۔۔اب جلدی سے کام کرو۔پھر کہو گی دیر ہو گئ۔گپے مارتے ہوئے تم کو بھی دیر نہیں ہوتی۔سکینہ منہ بناتے ہوئے کام کرنے لگتی ہے۔اتنے میں گاڑی کے ہارن کی آواز آتی ہے۔آصف آ جاتا ہے۔ عالیہ جلدی سے نیچے جاتی ہے۔ آصف نے کافی سارے کارٹن ہاتھ میں پکڑے ہوئے اندر آ تا ہے۔
رضیا بیگم:
کیسے ہو بیٹا
آصف:
السلام عليكم! جی ٹھیک کہتےہوئے کارٹن نیچے رکھتاہے۔پھر باہر چلا جاتاہے۔کیک اور پیزا رضیا بیگم کے ہاتھ میں پکڑاتا ہے۔
رضیا بیگم :
اس تکلف کی ضرورت نہیں تھی۔امی ٹھیک ہیں۔
آصف:
جی ٹھیک ہیں۔خالہ کہاں ہیں؟
رضیا بیگم:
اوپر ہیں چلے جاؤ۔آصف کارٹن پکڑے اوپر چلا جاتا ہے۔اوپر سامان کافی حد تک ٹھیک کر کے رکھ دیا تھا۔ بہت خوبصورت فرنیچر تھا خالہ کا،
عالیہ:
آصف بچے تم آگئے۔یہ سامان پیک کرو ڈبوں میں اور الماری کے برتن پہلے رکھ لو پھر باقی چیزیں رکھ لیتے ہیں۔
فرح:
امی آپ بیٹھ جائیں۔ہم کر لیتے ہیں۔
سکینہ:
باجی آپ کو نیچے بولا رہی ہیں۔
عالیہ:
اچھا آرہی ہوں۔
رضیا بیگم:
فاطمہ چائے تیار ہے۔سب کو بلا لاؤ۔اتنے میں عالیہ کچن میں آ جاتی ہے۔بھابھی اس کی کیا ضرورت تھی۔آپ کو تنگ کیا۔نہیں عالیہ روز کے کام ہیں بچوں کو بھی بلا لو۔فاطمہ گئ ہے بھابھی۔۔۔سب نے چائے پی۔۔۔مریم پکوڑے بہت مزے کے ہیں۔تائ امی اور یہ کھیراس سے بھی لا جواب۔۔۔مجھے بلا لیتی آپ کی مدد کروا دیتی۔۔۔سب جلدی سے سامان پیک کرتے ہیں۔
آصف:
سامان کا کام تو ہو گیا۔کیوں کے خالہ نے کافی چیزیں پہلے ہی پیک رکھی تھیں۔اب گاڑی والے کو فون کر دوں اور ابو جان کو بھی بتا دیں۔ گھر کھول دیں۔سامان نئے گھر میں ہی رکھ دیں خالہ
عالیہ:
ٹھیک ہے۔
اتنی دیر میں چھوٹا ٹرک بھی آ گیا۔سامان رکھا جارہا تھا۔
رضیا بیگم:
بچوں کھانا بنا رہی ہوں کھا کر جانا۔۔۔
عالیہ:
بھابھی ابھی بہت کچھ کھا لیا ہے کھانا پھر کبھی سہی۔آپ کو بھی اپنے ساتھ تھکا دیا۔
رضیا بیگم:
کوئ مسئلہ نہیں ۔۔۔فاطمہ فرح آپی سے بولو چھت کے کمرے میں چار پائ اور پیٹی بھی ہے ۔وہ بھی اتار لیں۔سب چیزیں پوری نہیں آرہی تھی اس لیے چھت کے کمرے پر رکھ دیں۔۔۔