بسم اللہ الرحمن الرحیم۔💗💕💖❤
چار سو اندھیرا اپنے پر پھیلا چکا تھا۔ چاند بادلوں کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرتے ہوۓ کبھی چھپتا، اور کبھی اس اندھیری رات کو اپنی روشنی سے پر نور کر دیتا۔ سب خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ ایسے میں وہ موبائل پر لگی ہوئی تھی۔ آنکھوں سے آنسو بھل بھل بہہ رہے تھے۔
رات کو رونے والا ہر انسان محبت میں مبتلا نہیں ہوتا، وہ تو ناول کے اختتام پر مرنے والے کردار کے لیے رو رہی تھی۔ تبھی کمرے میں کوے کی آواز گونجی۔ شاید جنت کا میسج تھا۔
"آن ہے کیا؟؟"
"نہیں۔۔۔۔آف ہو کے ریپلاۓ کر رہی ہوں۔۔۔۔"
اس نے اداس موڈ سے میسج بھیجا۔
"چاۓ پیے گی؟؟"
"کیا بکواس ترین سوال ہے۔۔۔۔نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔۔آ جا دیوار ٹپ کے۔۔۔"
(ٹپ کے یعنی چھلانگ مار کے۔۔۔۔ان چاروں کے گھروں کی چھتیں جڑی ہوئی تھیں اس لیے چھتوں کے ذریعے بھی ایک دوسرے کے گھر جایا جا سکتا تھا۔۔۔۔)
وہ میسج کر کے اٹھی اور کچن کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔
اور اب کچھ ہی دیر بعد وہ کچن میں فریج میں کچھ تلاش کر رہی تھی۔ جنت چاۓ بنا رہی تھی، زوباریہ اور نایاب نیند میں جھولتے ہوۓ ڈائننگ ٹیبل کے ارد گرد پڑی کرسیوں پر بیٹھی، ٹیبل سے سر ٹکاۓ، آدھی سوئی آدھی جاگ رہی تھیں۔
"یار فریج میں ٹماٹر، پودینے، انڈے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔۔۔۔"
وہ کوفت سے بولی۔
"ایک منٹ۔۔۔بریڈ بھی ہے۔۔۔۔"
ایک کونے میں بریڈ رکھی دیکھ کر وہ خوشی سے بولی۔
"یمم یمم۔۔۔۔سینڈوچ بن جائیں گے۔۔۔۔چل دیا۔۔۔۔شروع ہو جا۔۔۔۔تیرے ہاتھ کے سینڈوچ مزیدار ہوتے ہیں۔۔۔۔"
زوباریہ نے نیند میں ہی آنکھیں کھول کر دیا کو مکھن لگایا اور پھر آنکھیں موند لیں۔
"مزیدار ہوتے ہیں۔۔۔چل اے۔۔۔خود بناو اپنا اپنا۔۔۔۔"
اس نے نقل اتار کر آخر میں ہاتھ جھلاۓ۔
جنت چاۓ کپوں میں ڈال کر سب کے آگے رکھ چکی تھی۔
"چلو یار ۔۔۔۔سینڈوچ چھوڑ دو۔۔۔۔چاۓ سے کام چلا لو۔۔۔۔"
زوباریہ اور نایاب چاۓ سامنے دیکھ کر پوری طرح جاگ چکی تھیں اور اب چسکیاں لے لے کر اس سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔
"چلو تم لوگوں کو ایک جوک سناتی ہوں۔۔۔"
دیا چاۓ ختم کر کے بولی۔ زوباریہ کپ منہ سے لگاۓ ہی بے اختیار ہنسی۔ چاۓ تھوڑی چھلکی تھی۔ دیا کے جوکس پر ہنسی تو آتی نہیں تھی، البتہ غصہ ضرور آتا تھا۔
YOU ARE READING
Mery yaara teri yaariya
Humorچار دوستوں کی زندگی کی کہانی ۔۔۔۔امید ہے آپ سب کو پسند آئے گی ۔۔۔۔۔جنت نور ۔۔۔دیا کنول۔۔۔ نایاب راجپوت۔۔۔ذوباریہ طلال 😍😍😍انجواۓ۔۔۔