بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم ۔
میرے یارا تیری یاریاں
بقلم
لائبہ صدیققسط ١٦
"اس دن میں تھکان کے باعث فٹ پاتھ پر ہی بیٹھ گئی تھی اور جہاں تک ہے ہنسنے کا سوال تو کان میں لگے بلوتوتھ سے میری دوست بکواس کر رہی تھی۔۔۔اب غلطی کس کی ہوئی؟؟"
اس نے موبائل پر جھکے جھکے جواب دے کر آخر میں سر اٹھایا ۔
"آف کورس میری۔۔۔"
وہ چشمے کے پیچھے چھپی آنکھوں میں برہمی دیکھ چکا تھا اس لئے حتی الامکان لہجے کو سنجیدہ رکھتے ہوئے کہا۔
"گڈ۔۔۔کافی سمجھدار ہیں آپ۔۔۔۔"
وہ پھر سے موبائل پر جھک گئی۔
"تھینک یو۔۔۔۔۔"
اس نے مسکراہٹ دبائی۔
"ڈاکٹر اپنا دھیان اب ادھر بھی کر لیں۔۔۔۔"
جب کافی دیر اس نے زوباریہ کا پاؤں چیک نہ کیا تو مجبوراً اسے بولنا پڑا۔ دیا کو خوامخواہ ہی غصہ چڑھا تھا۔
"جی شیور۔۔۔۔"
وہ مسکرا کر پاؤں کا معائنہ کرنے لگا۔
جنت اور نایاب بھی آ پہنچی تھیں مگر اب خاموش کھڑی ڈاکٹر کی بات سن رہی تھیں ۔
"بہت شکریہ ڈاکٹر، اب آپ جا سکتے ہیں۔۔۔"
جونہی وہ خاموش ہوا، دیا نے آگے بڑھ کر زوباریہ کا پاؤں تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ زوباریہ کراہی تھی۔
تبھی ایک جانی پہچانی آواز کمرے میں گونجی۔ زوباریہ نے فوراً سے پہلے منہ چادر کے اندر کیا تھا۔
"اوۓ عبداللہ ۔۔۔۔تو یہاں ہے اور میں تجھے پورے ہاسپٹل میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں ۔۔۔۔ارے جنت، دیا، نایاب تم لوگ بھی یہاں ہو؟ یہ کون ہے اور۔۔۔۔"
اسکی تیزگام کی طرح چلتی زبان کو ایک سوچ نے بریک لگائے تھے۔
"شایان بھائی وہ زوباریہ نہ کل درخت سے گری تو اسکی ٹانگ ٹوٹ گئی، اب بیچاری لنگڑی ہو کر پڑی ہے۔۔۔"
نایاب نے ایک کی چار لگا کر بتائیں تو سب نے اسے گھورا۔
"م۔۔۔مم۔۔۔مطلب پاؤں میں فریکچر ہو گیا ہے۔۔۔۔"
اس نے گڑبڑا کر بات بدلی۔
"اوہ اچھا۔۔۔تو تم لوگوں نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔۔۔۔؟؟"
شایان کی آواز اب دھیمی سی تھی۔ عبداللہ کو اسکی ذہنی حالت پر شبہ ہوا تھا۔ اس نے شایان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"مم مم میرا مطلب تھا کہ تم تینوں مجھے بھائی کہتی ہو اور بھائی کو ہی نہیں بتایا؟؟"
اس نے تصحیح کی تھی۔
DU LIEST GERADE
Mery yaara teri yaariya
Humorچار دوستوں کی زندگی کی کہانی ۔۔۔۔امید ہے آپ سب کو پسند آئے گی ۔۔۔۔۔جنت نور ۔۔۔دیا کنول۔۔۔ نایاب راجپوت۔۔۔ذوباریہ طلال 😍😍😍انجواۓ۔۔۔