قسط ۲

31 3 2
                                    

وہ ایم ایس فرام کی بس میں سوار ہو چکا تھا، جس میں اس کے علاوہ (299) لوگ موجود تھے۔
یقشان کی ساتھ والی سیٹ پر ایک خوبرو نوجوان آکر بیٹھا ، جو اس سے عمر میں چھوٹا دکھ رہا تھا۔ وہ ایک نظر اس پر ڈال کر باہر دیکھنے لگا۔
سڑک پر لوگوں کی آمدورفت جاری تھی۔
"ہائے" اس نے کہتے ہوئے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا جو اس نے قدر توقف سے تھام لیا۔
میں شوہا ! قطر سے۔ آپ کا تعارف ؟
اس نے پوچھنا ضروری سمجھا۔
یقشان ۔۔۔۔اس نے دو ٹوک کہا اور گلے میں پڑے ہیڈ فونز کانوں پر لگا لیے۔
وہ اس کو دیکھ کر مسکرا دیا۔
وہ اب بس سے اتر چکے تھے۔ اٹھ منزلہ عالی شان ایم ایس فرام اس کی نظروں کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے ہاتھ میں سنہرے رنگ کا چھوٹا مصحف تھام رکھا تھا جسے وہ بس میں پڑھ رہی تھی۔ اسی دوران کسی نے پاس سے گزرتے ہوئے وہ مصحف اس کے ہاتھ سے جھٹکا (یو  بلڈی مسلمز ) کہتے ہوئے اگے بڑھی۔ مصحف اس کے ہاتھ سے نکل کر نیچے گرنے ہی لگا تھا کہ اسی سیاہ جیکٹ والی لڑکی نے تقریبا اچھل کر اس کو تھام لیا۔ تھینک یو سو مچ! اس نے ثشکر آمیز نگاہوں سے کہتے ہوئے مصحف لیا اور ہاتھ میں پکڑے ہینڈ بیگ میں ڈال دیا۔
وہ اس لڑکی کی شکل نہی دیکھ پائی تھی البتہ اس کےبھورے بال تھے۔
سیاہ جیکٹ والی لڑکی جیبوں میں ہاتھ ڈالے آگے نکل گئی۔
وہ فرش ہو کر باہر نکلی اور سامنے اسی سیاہ جیکٹ والی لڑکی کو دیکھ کر حیران ہوئی۔ "سارے کیبنز پوری طرح سے بھر چکے ہیں۔ وہ مجھے اونا کے کمرے میں بھیج رہے تھے،مگر میں نے یہاں آنا مناسب سمجھا۔ وہ اپنا سامان پاوں سے دھکیلتے ہوئے بولی۔"
اونا ۔۔۔ نوریادہ نے نام دھرایا۔ ہاں وہی
(اینٹی مسلم) وہ کہہ اٹھی۔
'پوچھے بغیر آنے کے لیے میں معزرت خواہ ہوں۔ اس نے لب بھینج کر کہا۔"
"نہیں کوئی بات نہیں۔ تم فریش ہو کر آجاؤ،پھر گپ شپ کریں گے۔نوریادہ نے مسکرا کر کہا۔ "
آیڈن فرام ترکی اس نے دو انگلیاں  جوڑ کر ماتھے کے قریب کرتے ہوئے کہا۔
عصر ہو چکی تھی. سرد ہوائیں چلنے لگیں تھیں۔ وہ دونوں ٹاپ فلور پر کھڑی موسم کے مزے لے رہیں تھیں.
hey, your hair color is so charming.
نیم گرم پانی سے بھرے وسیع تالاب میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھی وہ سنہرے بالوں والی لڑکی متاثر کن انداز میں بولی۔
بہت شکریہ۔ اس نے سر کو جنبش دے کر کہا۔
وہ اپنے کینن کا کیمرہ لیے اوپر آیا تھا۔ ایڈن تالاب کے قریب رکھی کرسی پر خاموش بیٹھی تھی جبکہ نوریادہ کھڑی اس لڑکی سے باتیں کر رہی تھی جس کا نام لونا تھا۔
وہ اس سے پشت کیے کھڑا ڈھلتے سورج کی تصاویر بنا رہا تھا۔ اس نے دو قدم پیچھے کی جانب اٹھائے اور اس سے ٹکرا گیا۔
اور یہ محسوس کر کے ایک دم پلٹا ۔ وہ گرنے ہی لگی تھی کہ یقشان نے اس کا بازو تھام لیا. اس کے گلے میں ڈلی  گہرے نیلے ٹایٹینیم کی چین لٹک رہی تھی۔ وہ اسے بغور دیکھ رہی تھی۔اس کے دائیں ہاتھ پر ٹیٹوز بنے تھے۔البتہ اس نے ہوڈی میں بال ڈھانپ رکھے تھے۔ سیاہ ہیڈ فونز اس کے گلے میں ڈلے تھے۔ اس سے پہلے کے وہ کچھ کہتی یقشان نے کیمرہ اس کے سامنے کرتے ہوئے کلک کیا۔
اور پھر اس کا بازو چھوڑ کر چل دیا۔ نوریادہ دھاڑم سے تالاب میں جا گری۔
وہ اسے پھر سے دکھ جائے گی یہ اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ کانوں میں ہیڈ فون لگا چکا تھا۔
وہاں موجود لوگوں نے نظر گھما کر اس جانب ضرور دیکھا تھا۔اس سے پہلے کے وہ وہاں سے چلتا بنتا ایڈن اس کے پیچھے آئی۔
یہ کیا بتمیزی تھی۔ جب تم نے اسے بچا ہی لیا تھا تو گرانے کی کیا ضرورت تھی۔ نہیں ایک مینٹ اسے گرانے والے بھی تم خود ہی تھے۔وہ غصے سے بولی۔
وہ سمندر کی جانب رخ موڑے کھڑا تھا۔اس کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر ایڈن نے اس کا کندھا ہلایا۔
اوہ۔۔ کچھ کہنا تھا کیا۔ وہ ہیڈ فونز نیچے کر کے بولا۔
وہ اسے گھور کر جھنجلاتے ہوئے وہاں سے چلی آئی۔ جبکہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
لونا اسے اپنے کوٹ سے ڈھانپ چکی تھی۔وہ اس کا کوٹ پہن کر نیچے چلی آئی۔
وہ ذہن میں ابھرنے والے خیال کو جھٹک رہی تھی۔
لونا ان دونوں کو تنہا ڈنر کے لیے بیٹھا دیکھ کر اپنی میز پر بلا لائی تھی۔ جہاں جیڈ اور لونا کے علاوہ۔ شوہا اور اشعر بیٹھے تھے۔ وہاں ایک اور فرد کو دیکھ کر وہ ٹھٹک سی گئی۔ وہ وہی بھورے بالوں والی لڑکی تھی جس سے اس کی ملاقات ایم ایس فرام میں داخل ہوتے ہوئے ہوئی تھی۔ "بلڈی مسلمز"اس کے زہن میں بار بار آرہا تھا۔
البتہ اس نے خندہ پیشانی سے سب سے ہاتھ ملایا۔وہ کشادہ کھڑکیوں کے ساتھ رکھی میز پر تنہا بیٹھا تھا۔ اشعر کو اس سے بے تکلف ہوتا دیکھ کر اس کے ماتھے پر شکنیں پڑی تھیں۔ مگر کیوں وہ حیران ہوا۔۔۔۔۔۔𓇽𓇽𓇽𓇽𓇽𓇽𓇽𓇽𓇽𓇽

امید ہے آپ سب خیر و عافیت سے ہوں گے۔ اپنی رائے کا اظہار ضرور کی جیے گا.
شکریہ 🌸

  ☀︎︎ ساگر کے ساتھی ☾︎Where stories live. Discover now