آج موسم نہایت خراب تھا۔صبح اس کی آنکھ ایڈن کو اپنے سرہانے کھڑا دیکھ کر کھلی، وہ کھڑی اسے گھور رہی تھی۔
تمھیں کیا ہوا ہے صبح صبح وہ حیرت سے بولی۔،سمندری طوفان آیا ہوا ہے۔کب سے جگا رہی ہوں میں تمھیں وہ خفگی سے بولی۔
سمندری طوفان۔۔۔ وہ کہتے ہوئے اٹھ بیٹھی اور کھلے بالوں کو ڈھیلے جوڑے میں قید کیا۔وہ پھر گرد موڑ کر کھڑکی کی جانب دیکھنے لگی،کھڑکی سے پردے ہٹائے ہوئے تھے۔
کافی ٹھنڈ ہے آج ایڈن کافی کا مگ لیے آتش دان کے پاس بیٹھی تھی۔
وہ قدم بڑھاتی ہوئی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔دھند کافی زیادہ تھی۔جس کے باعث کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔کچھ دیر وہیں کھڑے رہنے کے بعد وہ ہاتھ ملتی ہوئی ایڈن کے پاس آبیٹھی۔ناشتے سے فراغت کے بعد وہ سب سے اوپری منزل میں اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھے تھے۔وہ دونوں بھی اوپر چلی آئیں۔
اشعر اپنا گیٹار لیے بیٹھا تھا۔ہائے، وہ کہتے ہوئے مسکراتی ہوئیں ان کی طرف بڑھیں۔
لونا اور جیڈ پہلے سے ہی وہاں موجود تھے۔اونا ان سے تھوڑا پہلے ہی آئی تھی۔ نایس گٹار وہ مسکرا کر بولی۔ تھینکس، ان کے کہتے ہوئے گٹار بجانا شروع کیا۔
ایک گیم کھیلیں؟
لونا ماحول دیکھ کر بولی۔ کون سی، شوہا نے کہا تھا۔
یہ کشن پاس کرنا ہے، اور جس پر رکے گا اسے گانا گانا ہوگا۔ لونا نے کشن اٹھا کر کہا۔
دلچسپ، ایڈن کہہ اٹھی۔ اور پھر کھیل کا آغاز ہوا۔ کشن اس کی گود میں تھا۔ "نوریادہ" سنائیے گانا، اشعر گٹار بجاتے ہوئے بولا۔
ازبک گانا تاکہ انھیں سمجھ ہی نہ آئے۔ ایڈن اس کے قریب ہوتے ہوئے بولی۔ وہ بے ساختہ مسکرا دی۔"مجھے یقین ہے تم وفادار ہو
میں سوچ رئی تھی کہ مجھے اس روح پر اعتماد ہے
تم نے کبھی سیدھا میری آنکھوں میں نہیں دیکھا
میں اس شرمندگی سے دوچار ہوتی رہی
تمھارے شفا بخش الفاظ کے بارے میں میں سوچتی رہی
وہی میرے درد سے نجات کا زریعہ ہیں
یا تمھیں مجھ سے کوئی رنجش ہے؟
مگر مجھے یقین ہے تم وفادار ہو"وہ آنکھیں موندھے گاتی جارہی تھی۔ وہ سب اس کی آواز میں کھوئے ہوئے تھے۔یقشان کچھ دیر پہلے اوپر آیا تھا۔ اس کی آواز سن کر وہ گردن موڑ کر اس کی جانب دیکھنے لگا۔اس کے قدم جم چکے تھے۔اسے لگا وہ کسی تپتے صحرا میں کھڑا ہے۔
سردی سے اس کی کھڑی ناک سرخ پڑ چکی تھی۔اس نے بال کھول رکھے تھے جس پر سرخ ٹوپی پہن رکھی تھی۔گلے میں سرخ ہی مفلر پہن رکھا تھا۔
واو، لونا کے منہ سے بے اختیار نکلا تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے آنکھیں کھولیں، چشموں کے پیچھے چھپی نیلی آنکھوں میں آنسو جھلک رہے تھے۔ جسے اس نے مہارت سے تھام رکھا تھا۔
کمال کا گاتی ہو تم،تمھیں تو گلوکار ہونا چاہیے تھا نوریادہ، اشعر متاثر کن انداز میں بولا۔۔اونا بےزاری سے ناخن چبا رہی تھی۔بہت شکریہ وہ مسکرا کر بولی،اس کی نظریں کہیں اور تھیں، اسے اپنی جانب دیکھتا پا کر یقشان وہاں سے باہر نکل گیا تھا مگر وہ اب بھی اس کی پشت دیکھ سکتی تھی۔ اس شدید سردی میں یقشان کا ماتھا پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔
𑁍𑁍𑁍𑁍𑁍𑁍
رات کو کھانے کے بعد وہ ریسرچ روم میں چلی آئی،وہ "بلو ویلز" پر ارٹیکلز کھولے کہیں اور کھوئی ہوئی تھی۔ یقشان اسے ڈھونٹتے ہوئے وہاں چلا آیا،وہ رخ دوسری جانب موڑے بیٹھی تھی، اسی باعث وہ اسے دیکھ نہیں پائی،
یقشان نے اس کی کرسی اپنی جانب موڑی،وہ چشمے آنکھوں پر لگائے چاکلیٹ کھا رہی تھی۔
اس نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے ہونٹوں پر لگی چاکلیٹ ہٹائی۔وہ اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔
مجھے کافی پینی ہے، وہ جیب سے ہاتھ نکال کر بولا۔تو کافی پینی ہے۔میں زرا اپنا کام مکمل کرلوں وہ کرسی دھکیل کر میز تک گئی۔
نہیں، مجھے ابھی اور اسی وقت پینی ہے۔ وہ تحکم بھرے لہجے میں بولا۔وہ لب بھینج کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔اس کی نظروں میں کچھ ایسا تھا جسے وہ نظرانداز نہیں کر پائی۔وہ اس پر نظریں مرکوز کیے شیلف سے ٹیک لگائے کھڑا اسے جبکہ وہ اس کے لیے کافی بنا رہا تھی۔
یقشان،اس نے پکارا تھا۔ ہمم،
تم ایسے کیوں ہو، وہ چمچ ہلاتے ہوئے بولی۔
کیوں کے میں ایسا ہی ہوں۔وہ مسکرائے بغیر بولا۔
تم کسی سے ملتے جھلتے کیوں نہیں، وہ کافی کو آخری ٹچ دیتے ہوئے بولی۔کیونکہ مجھے لوگوں میں گھٹن ہوتی ہے۔
وہ ایسا ہی تھا، جو دل میں آئے کہہ دیتا تھا۔
لوگوں سے گھٹن ہوتی ہے، وہ حیرت سے بولی۔مگر کیوں؟ وہ حیران تھی۔
" نفرت ہے" وہ کھٹاک سے کہتا ہوا مگ ہاتھ میں لیے باہر نکلا۔"نفرت ہے" اس نے لب بھینج کر دھرایا اور اپنا مگ اٹھایا۔ برف باری قدرے کم ہو چکی تھی، وہ کمرے میں چلی آئی۔..........................𖣔............................
أنت تقرأ
☀︎︎ ساگر کے ساتھی ☾︎
مغامرةکہانی ہے ساگر کے ساتھیوں کی،بچھڑے دوستوں کی،سمندر میں گزری شاموں کی،ملکوں سے ملکوں تک کی۔ تیس دنوں کی ایک کہانی۔ ایک نیا سفر،دنیا کے شور و غل سے دور انٹارٹییکا کے برف پوش پہاڑوں کے بیچ ٹھنڈے سمندر میں سفر کرتی ایم_ایس فرام کی۔ جس میں موجود باسی سکو...