قسط ١١

5 2 0
                                    

کیا؟ مووی نائٹ۔۔۔۔
"آ ایم ناٹ انٹرسٹیڈ ۔ وہ سگرٹ کا کش لگاتے ہوئے بولی۔ "
"سب کو آنا ہے" شوہا اس کی انگلیوں میں تھامے سگرٹ پر نظریں مرکوز کرتے ہوئے بولا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کے وہ اس کسی طرح اس سے سگرٹ جھپٹ لے۔

تو بلاؤ سب کو ۔ میں کہہ چکی ہوں۔ مجھے نہیں آنا۔ وہ گرل پر بازو ٹکائے سمندر کو دیکھ رہی تھی۔ سردی کی وجہ سے اس کی چھوٹی ناک سرخ پڑ چکی تھی۔

آنا تو پڑے گا بچو۔۔ اس نے جھل کر کہا۔
دیکھی جائے گی۔ وہ اس کی جانب دیکھے بغیر بولی جو اب وہاں سے جا چکا تھا۔

~~~~~~~~~~~~~~ ✨

تمھیں کیا پسند ہیں نوریادہ ؟
اشعر میز سے ٹیک لگائے ایک ہاتھ جیب میں ڈالے جوس پیتا ہوا ان سے باتیں کر رہا تھا۔
آیدہ اور لونا رات میں ہونے والی مووی نائٹ کی تیاریاں کر رہی تھیں۔

مجھے ازبک اور پاکستانی کھانے بہت پسند ہیں۔ وہ مسکراتے کرتے ہوئے بولی۔

اشعر اسے بھی لے آیا تھا۔ وہ بغیر کچھ کہے ساتھ چلا آیا تھا۔
پاکستانی کھانے بھی پسند ہیں اسے؟
وہ باتیں جیڈ سے کر رہا تھا مگر اس کا دھان آیدہ پر تھا۔

افف۔۔۔ یہ لڑکی مجھے پاگل کر دے گی۔ وہ اسے گھورتا ہوا بڑبڑایا۔
تم ٹھیک تو ہو۔ شوہا اسے آیدہ کو یوں گھورتا دیکھ کر بولا۔
ہوں۔۔۔ اس نے سر ہلایا۔

ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ ان سب کے ساتھ تھا۔

ایڈن کو آیدہ لے آئی تھی۔
اور شوہا پچھلے آدھے گھنٹے سے اسے نہ آنے والی بات پر چھیڑنے میں لگا تھا۔

~~~~~~~~~~~~~~✨

آج وہ سب کھانا کھلے ریسٹورناٹ میں کھا رہے تھے۔ جو چھوٹا سا تھا مگر نہایت ہی نفاست سے بنایا گیا تھا۔ اس کی سجاوٹ روشنیوں سے کی گئی تھی۔ آسمان پر نورورے لایٹس تھیں۔ یہ سب مل کر ماحول میں قہر پیدا کر رہے تھے۔

وہ اس کے عین سامنے بیٹھا تھا۔ اور کھانے کے دوران وہ کئی بار نظریں اٹھا کر اسے دیکھ چکا تھا۔

تمھیں کس نے بلایا ؟
ایڈن اونا کو آیدہ کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھتا دیکھ کر بولی۔
نوریادہ نے۔
شوہا پاستے سے چمچ لیتے ہوئے بتایا۔ آیڈن نے اسے گھور کر دیکھا۔

کوئی بات نہیں۔ آیدہ مسکراتے ہوئے بول رہی تھی۔

اس کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے مجھے ۔ لونا نے دھیمی آواز میں کہا۔
کچھ نہیں ہوتا ۔ وہ ہنس کر بولی۔

پانی دینا زرا۔ لونا بال جھٹکتے ہوئے بولا۔ ہاں !!
کیوں نہیں آیدہ نے پانی کا جار اسے تھمایا۔
سارا پانی اس کے کپڑوں کر گر چکا تھا اور کانچیں ٹوٹ کر بکھر چکی تھیں۔

او ہ ہ ۔ ایم سوری۔ وہ لاپروائی سے بولی۔

سیریسلی۔۔۔۔۔ وہ کانٹا پلیٹ پر پٹختے ہوئے اٹھا۔ان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔

یقشان اس کی کرسی کی جانب چلا آیا اور اسے اٹھنے کا اشارہ کیا۔
اوہ۔۔۔ یقشان ۔۔۔ اونا مسکراتے ہوئے بولی۔

میں ٹھیک ہوں۔ آیدہ نے لب بھینج کر کہا تھا۔ اٹھو گی یا اٹھا کر لے کر جآوں میں ۔۔ وہ سپاٹ لہجے کے ساتھ بولا۔
میں نے کہا نہ کے ٹھیک ہوں میں۔ وہ نرمی سے بولی۔

اتنی دیر میں وہ اپنا کوٹ اتار چکا تھا۔ اس نے کوٹ اس کو پہنایا۔ اور اس پر گری کانچیں چننے لگا ۔
وہ ریسٹورانٹ میں موجود کئئ لوگوں کی نظروں کا مرکز بنا تھا۔سب نے تالیوں سے اس کی حوصلہ آفضائی کی۔
اور اکثر لوگ اسے پہچان بھی گئے تھے۔ ایم ایس فرام میں موجود میڈیا کے کارکنان اس کی موجدگی کا پتہ چلنے کا بعد اس سے انٹرویو لے چکے تھے۔ مگر اسے شہرت سے کوئی سروکار نہیں تھا۔

~~~~~~~~~~~~~~~✨

وہ میری فکر کیوں کرتا ہے۔ وہ سمندر کو تکتی ہوئی سوچ رئی تھی۔ اس نے ابھی تک یقشان کا کوٹ پہن رکھا تھا۔ وہ اسی کے بارے میں سوچ رہی تھی جب سے اپنی اوٹ سے قدموں کی چاپ سنائے دی۔

وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے اسی کی طرف آرہا تھا۔ اسے اپنا دل زور زور سے دھڑکتا محسوس ہوا۔
وہ بشاشت سے مسکرا دی۔

" ہر کوئی آپ کے اچھے رویے کا مستحق نہیں ہوتا۔ کچھ لوگوں کو جواب ان کے اپنے رویے کے مطابق دینا پڑتا ہے۔ ورنہ لوگ جوتے کی نوک پر رکھ کی ٹھوکریں مارتے رہتے ہیں۔
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہہ رہا تھا۔ "

اس نے لب کاٹتے ہوئے اپنے چشمے درست کیے اور رخ موڑ دیا۔ وہ اپنے چہرے پر بدلتے رنگ اسے نہیں دکھانا چاہتی تھی۔

کچھ دیر وہ دونوں یوں ہی خاموشی سے آسمان کو تکتے رہے۔

آپ نے میری مدد کیوں کی؟ آخر وہ کہہ اٹھی۔

میں وہی کرتا ہوں جو مجھے سہی لگے۔ کوئی اور ہوتا تو ۔۔۔۔ اس نے اتنا کہہ کر اس کی جانب دیکھا۔
تو؟ وہ کہہ اٹھی۔
تو میں ایسا کبھی نہ کرتا۔
وہ کہتے ہوئے پلٹا۔

وہ اپنے دل کی بےترتیب ہوتی دھڑکنوں کو درست کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
میں اس کے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچنا تک نہیں چاہتی مگر۔۔ مگر یہ زندگی نے مجھے کس موڑ پر لا کر کھڑا کردیا ہے۔ وہ گہرا سانس لے کر بولی۔

وہ اب تک اس کا کوٹ پہنے ہوئے ہے۔ یہ یاد آتے ہی وہ اس کی جانب بڑھی مگر وہ اب تک جا چکا ہوگا۔ یہ سوچ کر وہ واپس پلٹ آئی۔

~~~~~~~~~~~~~~~ ✨

مجھے اس کی علاوہ کسی سے محبت نہیں ہو سکتی، مگر کیوں یہ لڑکی مجھے پاگل کرنے لگی ہے، آخر کیوں۔
ڈرگ لینے کے بعد اس کی آنکھیں بند ہونے لگی تھی۔ مگر اس کے چہرہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ سکتا تھا۔
بالکونی کی کھڑکی آدھی کھلی تھی۔ مگر اس میں اتنی ہمت نہ تھی کے وہ اٹھ کر کھڑکی بند کر سکے۔
۔
۔

مجھ سے ملتی ہے تو ہنستی بہت ہے وہ۔۔۔۔۔
اپنی آنکھوں میں جھلکتی نمی کو بھول جاتا ہوں۔ وہ آنکھیں موندھے بڑبڑایا تھا۔

•________________________________•

  ☀︎︎ ساگر کے ساتھی ☾︎Dove le storie prendono vita. Scoprilo ora